• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمسائیگی کے حقوق کا بیان

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
ہمسائیگی کے حقوق کا بیان
وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴿النساء: ٣٦﴾
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راه کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا (36)
(1)
سنن ابو داؤد :
ادب کا بیان :
پڑوسی کے حقوق کا بیان :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو " أَنَّهُ ذَبَحَ شَاةً ، فَقَالَ : أَهْدَيْتُمْ لِجَارِي الْيَهُودِيِّ ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ " (اسنادہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی اور پھر پوچھا: کیا تم نے میرے یہودی ہمسائے کی طرف بھی کچھ بھیجا ہے ؟ بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ؛ '' جبریل امین مجھے یمسائے کے متعلق وصیت کرتے رہے حتی کہ مجھے خیال ہوا کہ وہ اسے وارث ہی بنا دیں گے ۔''
فائدہ ( فضیلة الشیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ) :
''ہمسایہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا شرعی فریضہ ہے۔ علماء کا بیان ہے کہ غیرمسلم ہمسایہ کا صرف ایک حق ہے،یعنی حق ہمسائیگی اور مسلمان ہمسائے کے دو حق ہیں ۔ ایک حق ہمسائیگی دوسرا حق اسلام ۔ جب کہ مسلمان رشتہ دار ہمسائے کے تین حق ہوتے ہیں۔ حق ہمسائیگی،حق اسلام اور حق قرابت۔''
(2)​
صحیح بخاری :
ادب کا بیان :
مہمان کی عزت کرنے اور خود اس کی خدمت کر نے کا بیان :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے اور جو اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے۔
(3)
سنن ابوداؤد:
ادب کا بیان :
پڑوسی کے حقوق کا بیان :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اپنے پڑوسی کی شکایت کرتا ہوا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور صبر کرو وہ دو یا تین مرتبہ آیا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے نکال کر راستہ میں پھینک دو۔ اس نے اپنا سامان راستہ میں پھینک دیا لوگوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے ہمسائے کی تکلیف سے انہیں باخبر کردیا تو لوگ اس ہمسائے کو لعنت ملامت کرنے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ویسا کرے اس کا پڑوسی اس کے پاس آیا کہ تو سامان لے کر گھر لوٹ جا آئندہ مجھ سے ناگواری کوئی بات نہیں دیکھے گا۔ ( اسنادہ حسن)
(4)
صحیح بخاری:
ادب کا بیان :
اس شخص کا گناہ جس کا پڑوسی
اس کی تکلیف سے بے خوف نہ ہو :
سیدناابوشریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، پوچھا گیا کون یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے محفوظ نہ ہو ۔
(5)
ما تقولون في الزِّنا قالوا : حَرامٌ ، حرَّمَه اللهُ ورسولُه ، فهوَ حرامٌ إلى يومِ القيامةِ . قال : فقالَ رسولُ اللهِ : لأن يزنيَ الرَّجلُ بعَشرِنِسوةٍ ؛ أيسرُ عليهِ من أن يزنيَ بامرأةِ جارِه قالَ : ما تقولونَ في السَّرقةِ ؟ قالوا : حرَّمَها اللهُ ورسولُه ، فهي حرامٌ . قال : لأن يَسرِقَالرَّجلُ مِن عشرةِ أبياتٍ ؛ أيسَرُ عليهِ من أن يسرِقَ مِن جارِهِ
الراوي: المقداد بن الأسود المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 2549
خلاصة حكم المحدث: صحيح

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے پوچھا : زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جواب دیا : حرام ہے ،اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے اور وہ قیامت کے دن تک حرام ہے ۔رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی آدمی کا دس عورتوں سے زنا کرنا اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے سے آسان ہے ۔ پھر فرمایا : چوری کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جواب دیا : حرام ہے ،اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے اور وہ قیامت کے دن تک حرام ہے ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی آدمی کا دس گھروں سے چوری کرنا اپنے پڑوسی کے گھر سے چوری کرنے کے مقابلہ میں ہلکا ہے ۔
(6)
صحیح مسلم:
صلہ رحمی کا بیان :
پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنے کے بیان میں :
سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر(رضی اللہ عنہ) جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربہ کو زیادہ کر لے اور اپنے پڑوسی کی خبر گیری کر لے۔
(7)
"عن أبي هريرة أن رجلا قال: يا رسول الله! إن فلانة ذكر من كثرة صلاتها غير أنها تؤذي جيرانها بلسانها قال: (ھی فی النار) قال: يا رسول الله! إن فلانة ذكر من قلة صلاتها وصيامها وإنها تصدقت بأثوار أقط غير أنها لا تؤذي جيرانها قال: (هي في الجنة" (ابن حبان: 5734) قال شعيب الأرنؤوط: إسناده صحيح على شرط الصحيح)
"سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ایک شخص نےکہا:اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم!
فلاں عورت کا ذکرہوتا ہے کہ وہ دن میں بہت زیادہ روزہ رکھتی ہے اور رات میں تہجدپڑھتی ہے، مگر اپنے پڑسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عورت جہنمی ہے۔
اس شخص نے پھر کہا: اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم!
فلاں عورت کا ذکر اسکی قلت صوم وصلاۃ کے ساتھ ہوتا ہے، اور پنیر کے ٹکڑے خیرات کرتی ہے، مگروہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچا تی ہے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنتی ہے۔"
(ابن حبان، شعیب ارنووط نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے)
 
Top