السلام علیکم
بھائی میں کہہ تو رہا ہوں رفاہ عامہ کی اشیاء کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کیاگیا تو مداخلت فی الملک شمار ہوگی گویا ایک ساجھیداری والی بات ہوئی تو یہ تصرف در ملکیت غیر ہوئی
وعلیکم السلام
اب بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔سوال کے جواب میں آپ اس عبارت پر غور کریں
ہاں اگر کسی وجہ سے مالک کو اس سے ضرر لاحق ہوتا ہو پھر جائز نہیں۔ لہٰذا یہ انٹرنیٹ سروس اگر تو اس طریقے سے استعمال کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی صورت میں مالک کو اس سے کوئی نقصان نہ ہورہا ہو، مثال کے طور پر اس کا بل نہ بڑھ جاتا ہو، یا اس اضافی استعمال سے اُس کو کوئی خلل لاحق نہ ہوتا ہو، تو ایسا استعمال اُسی ذمرے میں آئے گا جس میں دوسرے شخص کا ایک چیز استعمال کرنا اصل مالک پر اثرانداز نہیں ہوتا اور جس کی مثال (فقہ میں) ہمسائے کی دیوار کا سایہ لینا یا اُس کے چراغ سے روشنی پانا ہے۔ واللہ اعلم
جب یہ بات سمجھ لی جائے تو پھر آپ نے پوسٹ کی
پانی، ہوا ،روشنی ، اور سایہ چاہے وہ کسی مکان کا ہو یا درخت کا رفاہ عامہ میں داخل ہے ان سے انتفاع جائز ہے لیکن دوسرے کے وائی فائی سے انتفاع جائز نہیں اس لیے کہ اس میں کئی مضرت ہیں
حالانکہ آپ کی اس پوسٹ کا جواب پہلی پوسٹ میں ہو موجود تھا۔۔آپ نے مطلق قول پیش کیا کہ
ملکیت غیر سے انتفاع بغیر اِذنِ مالک کے جائز ہی نہیں ۔
اور پھر فرمایا
دیوار ،درخت، کا سایہ پانی ،ہوا، آگ،روشنی،بیشک رفاہ عامہ میں داخل ہیں اور ان سے انتفاع جائز ہے
لیکن ملکیت غیر میں تصرف کہاں جائز ہوسکتا ہے
دیوار بھی کسی کی ملکیت ہوتی ہے، سایہ، پانی، روشنی اور آگ بھی۔۔ ان چیزوں میں ملکیت کے باوجود آپ رفاہ عامہ میں داخل کیے جارہے ہیں۔۔اور پھر کہے بھی رہے ہیں کہ
’’ ملکیت غیر میں تصرف کہاں جائز ہوسکتا ہے ‘‘۔۔جناب جب یہ چیزیں بھی ملکیت میں ہیں تو پھر اس کو رفاہ عامہ میں داخل کرکے انتفاع کو کیوں جائز قرار دیا جارہا ہے۔۔؟؟
حیثیت دونوں کی ایک ہے۔ وائی فائی بھی ملکیت میں ہے۔ اور یہ سب چیزیں بھی ملکیت میں ہیں۔۔ ایک پر جائز کا فتویٰ اور ایک پر ناجائز کا فتویٰ۔وائے ؟۔۔۔ہم اس بات پر متفق ہیں کہ ان سب چیزوں کے انتفاع سے اگر مالک کو نقصان پہنچتا ہو تو پھر ناجائز ۔ لیکن اگر مالک کو کسی بھی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو پھر کچھ چیزیں جائز اور کچھ ناجائز۔؟۔۔ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف بات ہے۔۔ اگر بغیر نقصان پہنچائے دیوار، سایہ وغیرہ کو رفاہ عامہ میں داخل کرکے انتفاع کا فتویٰ جاری کیا جارہا ہے تو پھر بغیر نقصان پہنچے وائی فائی سے انتفاع کو کیوں ناجائز ٹھہرایا جارہا ہے۔۔ کیا کوئی سمجھا سکتا ہے۔۔۔؟؟؟
اس لیے تو میں آپ سے بار بار سوال کیے جارہا تھا کہ
آپ مجھے بتائیں کہ دیوار ،درخت، کا سایہ پانی ،ہوا، آگ،روشنی،بیشک رفاہ عامہ میں داخل ہیں۔ اگر ان کے استعمال سے مالک کونقصان پہنچتا ہو۔ تب بھی یہ رفاہ عامہ میں ہی رہیں گی۔ یا ان کی ہیئت تبدیل ہوجائے گی۔؟
جواب میں آپ کے اس بیان نے
رفاہ عامہ کی اشیاء کو ذاتی منفعت کے لیے استعمال کیاگیا تو مداخلت فی الملک شمار ہوگی گویا ایک ساجھیداری والی بات ہوئی تو یہ تصرف در ملکیت غیر ہوئی
تو مجھےحیرت میں ڈال دیا ہے۔
جن چیزوں کو آپ رفاہ عامہ سے تعبیر کیے جارہے ہیں اور انتفاع کو جائز قرار دے رہے ہیں ان میں مداخلت فی الملک نہیں ہے؟۔یقیناً ہے کیونکہ وہ بھی کسی کی ملکیت ہیں۔ تو پھر ایک میں ناجائز اور ایک میں جائز کا فتویٰ کس دلیل وبنیاد پر دیا جارہا ہے؟