• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمسایوں کا وائرلیس انٹرنیٹ کنکشن استعمال کرلینا؟

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
السلام علیکم
* دبئی و سعودی عرب میں ایک آدمی ایک کمرہ کرایہ پر لیتا ھے جس کا وہ اندازاً ٥٠٠ ریال کرایہ ایک مہینے کا ادا کررہا ھے۔ اگر اس کی تنخواہ اتنی ھے تو وہ اس ایک کمرہ میں اکیلا ہی رہنا پسند کرے گا ورنہ وہ چاہے تو اس میں مزید ٤ بندے اور رکھ سکتا ھے جس پر وہ چاہے تو یہ کرایہ چاروں میں ایک جیسا تقسیم کر دے یا چاہے تو ان سے اتنا کرایہ لے کہ ان کا کرایہ بھی اسی میں سے نکل آئے۔ اور ایسا ہی ہوتا ھے کسی سعودی بھائی سے پوچھ سکتے ہیں آپ۔ اب یہاں دیکھیں کمرہ لینے والے نے ٥٠٠ میں کمرہ لیا جو (انٹرنٹ کنکشن وائرلیس روٹر) اس کا کرایہ آگے ٤ بندوں میں تقسیم کر دیا جس پر ایک کے حصے کرایہ ١٢٥ ریال آیا۔ اب فتوی کے مطابق آپ اگر ان کے ساتھ رہنا چاہیں تو آپ کمرہ کے مین کرایہ دار کو اس فتوی سے دلائل دے کر مفت میں رہ سکتے ہیں! یقیناً نہیں۔
وعلیکم السلام
اس کا جواب پہلے ہی موجود ہے، اگر آپ غور کریں گے تو مطلع ہوجائیں گے۔
کسی کمپنی، آفس، کلب، بس سٹاپ، ٹرین سٹیشن، ائرپورٹ نے اگر انٹرنٹ پر وائی فائی فری سہولت فراہم کی ہوئی ھے تو یہ "کاروبار کی بہتری" کے لئے یہ کمپنیاں اپنے کلائنٹ یا مسافروں کو فری سروس فراہم کر رہی ہیں اور اس پر وائی فائی کنکشن کے لئے ٥٠٠ کے۔ بی کا روٹر نہیں لگا ہوا بلکہ ایک منی ایکسچینج نسب ہوتی ھے۔ اس پر کپمنی کو اپنے کاروبار سے جتنا زیادہ منافع ہوتا ھے اس وائی فائی سہولت کی فیس بھی اسی کے اندر سے نکلتی ھے، یہ ایک کاروباری ٹرکس ھے جو اپنے فائدہ کے لئے استعمال کیا جاتا ھے تھوڑی سی فری کی سہولت دے کر۔
یہ بھی سوال کا جواب نہیں۔ برادار عابد سے یوں سوال کیا تھا جب وہ کچھ چیزوں کو رفاہ عامہ میں شمار کرکے اس سے انتفاع کو کلی طور جائز کہہ رہے تھے۔ جب کہا کہ اگر ان چیزوں سے مالک کو نقصان پہنچتا ہوں تو ؟ جواب ملا پھر استعمال درست نہیں۔۔ یعنی مین نقصان ہی تھا۔ اگر نقصان نہیں پھر استعمال کیا جاسکتا ہے۔۔ تو پھر عین یہی سیچوایشن نیٹ کے استعمال میں بھی بتلائی جارہی ہے۔ یعنی اگر نیٹ استعمال سے مالک کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو پھر کیوں ناجائز کا فتویٰ صادر کیا جارہا ہے۔۔ اور آپ سے یوں سوال کیا جب آپ نے کہا کہ ’’ وائی فائی جسے کوئی بھی استعمال میں لا سکتا ھے جو پبلک کی سہولت کے لئے ہوتا ھے۔ اس کا استعمال لیگل اور جائز ھے۔‘‘ اس پر میرا سوال تھا اور ہے کہ
’’ اس کا استعمال کیوں جائز ہے۔ کیا یہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتا ؟ ‘‘
آپ اس پر روشنی ڈالیں۔
اگر اب بھی آپ سمجھ نہیں پائے تو پھر اس سے زیادہ مزید تفصیل کی ضرورت نہیں پڑے گی جس پر پھر آپ سے مودبانہ گزارش ھے کہ اپنے قریبی دوست سے رابطہ کریں جو آپ کے ذہن کو سمجھتا ہو اور آپ اس کے ذہن کو سمجھتے ہوں۔ یا اگر اور مزید گہرائی سے اس پر جاننا ہو تو اپنا انٹرویو لنک یہاں فراہم کر دیں تاکہ اس کے مطابق رائے دی جا سکے۔ شکریہ
میرے خیال میں ان باتوں کے لکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔
میرا سوال سادہ اور عام فہم ہے۔ اس لیے وائی فائی کی تاریخ پر گفتگو کرنے کے بجائے مذکور بات پر شرعی رہنمائی فراہم کریں۔ شکریہ
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
اللہ خیر فرمائے بڑا مسئلہ ہوگیا بھائی
میں بار بار کہہ رہا ہوں آپ سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں لیجئے ایک بار پھر سمجھنے کی کوشش کیجئے
برادار عابد سے یوں سوال کیا تھا جب وہ کچھ چیزوں کو رفاہ عامہ میں شمار کرکے اس سے انتفاع کو کلی طور جائز کہہ رہے تھے
پہلے تو رفاہ عامہ کو سمجھئے
رفاہ عامہ : ہر وہ کام جس سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے( صرف انسان ہی نہیں)
رفاہ عامہ کا دائرہ کا ر:فلاحی پروگرام۔ باہمی تعاون: معاشی تعاون:معاشرتی تعاون: اخلاقی تعاون:علمی تعاون:اصلاحی تعاون: طبی تعاون: یہ سب پروگرام رفاہ عامہ میں داخل ہیں
رفاہ عامہ کا حکم:
یہ دو طرح کے ہیں : ایک تو کسی چیز کو ہمیشہ کے لیے وقف کردینا : اس سے مالک کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے مثلاً یتیم خانہ وغیرہ شفاخانے: پانی کے نل وغیرہ:درخت وغیرہ
اور دوسری ایسی چیزیں جس میں مالک کی جانب سے اجازت ہوتی ہے محدود فائدہ اٹھانے کی اس طرح کے مالک کا نقصان نہ ہو جیسے کہ دیوار ، روشنی، بیٹھک، کرسیاں وغیرہ،
اس دوسری قسم میں مالک کو اختیار ہے کہ وہ منع بھی کرسکتا ہے
اسی میں وائی فائی بھی شامل ہے جو کمپنیوں کی جانب سے فری استعمال کرنےکی اجازت ہوتی ہے، تو اس سہولت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
اور دوسرا ہے وائر لیس روٹر جو لینڈ لائن سے کنکٹیڈ ہوتا ہے جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے ایک محدود دائرے میں اس کے ذریعہ ایسے لیپ ٹاپ جن میں وائی فائی ڈوائس ان بلڈ ہوتی ہے اس کے ذریعہ بغیر کسی وائر کے ہم انٹر نیٹ چلا سکتے ہیں،
اب شکل یہ بنتی ہے کچھ حضرات تو پاسورڈ استعمال کرتے ہیں اور کچھ پاس ورڈ استعمال نہیں کرتے جیسا میں کرتا ہوں ہمارے مدرسہ میں کوئی بھی لیپ ٹاپ کے ذریعہ انٹر نیٹ چلا سکتا ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ میرا پڑوسی بھی اس سے فائدہ اٹھا ئے کیوں میرے روٹر کا سگنل پچاس میٹر کی رینج میں کام کرتا ہے اتنی رینج میں کوئی بھی لیپ ٹاپ کے ذریعہ نیٹ چلا سکتا ہے ، لیکن میرا اس میں نقصان یہ ہے کہ میری نیٹ اسپیڈ ڈؤن ہوجاتی ہے کوئی چیز اگر ڈاؤن لوڈ کرنا چاہوں تو کافی وقت لیتی ہے اس لیے میں نے ھدایت کررکھی ہے کہ سرف سرفنگ کی جاسکتی ہے کوئی ویڈیو یا ڈاؤن لوڈنگ میرے علم میں لائے بغیر نہیں کی جاسکتی اور یہ بھی مدرسہ تک محدود ہے پڑوسی استعمال نہیں کرسکتے اگر استعمال کریں گے تو چوری ہے :
تو اب بتائے غزنوی بھائی یہ ملکیت میں مداخلت ہوئی کہ نہیں
اب رہی یہ بات:
تو پھر عین یہی سیچوایشن نیٹ کے استعمال میں بھی بتلائی جارہی ہے۔ یعنی اگر نیٹ استعمال سے مالک کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو پھر کیوں ناجائز کا فتویٰ صادر کیا جارہا ہے۔
عرض کیا جا چکا ہے جن چیزوں کی اجازت مالک کی طرف سے اجازت ہے اس سے انتفاع اسی حد تک کیا جاسکتا ہے جتنا مالک نے اجازت دی ہے مثال کے طور پر
کسی آدمی کچھ کرسیاں اس لیے بنوائیں کہ اس پر کوئی بیٹھ سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ پڑوسی کرسی بغیر اجازت اٹھا کر گھر لیجائے اور پھر استعمال کرکے واپس کر جائے اس کے لیے مالک سے اجازت لینی پڑے گی
اب اگر کوئی یہ کہے اس میں مالک کا نقصان کہاں ہے یہ تو بنائی ہی اس لیے گئی ہیں کہ ان پر بیٹھا جائے یہاں بیٹھ جاؤ یا اپنے گھر لے جاکر بیٹھ جاؤ ۔ تو کیا یہ ٹھیک رہے گا:
اب دوسری بات کو لیتے ہیں میں نے انٹر نیٹ کنکشن لیا اس کا بل ادا کرتا ہوں اس کی ایک مخصوص کیپیسٹی ہے اگر اس سے زیادہ استعمال کروں گا تو مجھے نقصان رہے گا اگر میرے علاوہ کوئی دوسرا استعمال کرتا ہے تو یہ میری ملکیت میں مداخلت ہے جس کی میں نے اجازت نہیں دی ہے صرف ذاتی استعمال کے لیے میں نے نیٹ کنکشن لیا ہے
اور اگر بھائی اگر کوئی آدمی چوری سے میرے کنکشن کو غلط استعمال کرلیتا ہے تو بھائی پولیس کہاں آئےگی کون جواب دہ ہوگا
تو میرے بھائی بغیر اجازت کسی کا نیٹ ہو یا کوئی اور چیز بغیر اجازت استعمال کرنا جائز نہیں یہ سرقہ ہے
ایک بات اور عرض کردوں ہر جگہ اسٹریٹ لائٹ ہوتی ہیں کچھ تو پول پر ہوتی ہیں اور کچھ گھروں کی دیوار نصب کردی جاتی ہیں اور یہ صرف روشنی کے لئے لگائی جاتی ہیں اب اگر کوئی اس میں تار جوڑ کر گھر کا بلب جلالے تو کیا وہ بھی جائز ہوگا کیوں کہ روشنی ہی تو حاصل کی جارہی ہے اور ہے بھی رفاہ عامہ کے لیے اس بارے میں آنجناب کیا فرمائیں گے
اس پر بھی آپ اپنی بات پر اٹل ہیں تو کوئی شرعی دلیل پیش کیجئے اگر چہ بات میرے مزاج کے خلاف ہے کہ میں کسی سے دلیل مانگوںمجبوراً دلیل کے لیے کہہ رہا ہوں ہم بھی تو سمجھیں کیا معاملہ ہے۔ میں بھی غلط ہوسکتا ہوں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
یہ بھی سوال کا جواب نہیں۔ برادار عابد سے یوں سوال کیا تھا جب وہ کچھ چیزوں کو رفاہ عامہ میں شمار کرکے اس سے انتفاع کو کلی طور جائز کہہ رہے تھے۔ جب کہا کہ اگر ان چیزوں سے مالک کو نقصان پہنچتا ہوں تو ؟ جواب ملا پھر استعمال درست نہیں۔۔ یعنی مین نقصان ہی تھا۔ اگر نقصان نہیں پھر استعمال کیا جاسکتا ہے۔۔ تو پھر عین یہی سیچوایشن نیٹ کے استعمال میں بھی بتلائی جارہی ہے۔ یعنی اگر نیٹ استعمال سے مالک کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو پھر کیوں ناجائز کا فتویٰ صادر کیا جارہا ہے۔۔ اور آپ سے یوں سوال کیا جب آپ نے کہا کہ ’’ وائی فائی جسے کوئی بھی استعمال میں لا سکتا ھے جو پبلک کی سہولت کے لئے ہوتا ھے۔ اس کا استعمال لیگل اور جائز ھے۔‘‘ اس پر میرا سوال تھا اور ہے کہ
’’ اس کا استعمال کیوں جائز ہے۔ کیا یہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتا ؟ ‘‘
آپ اس پر روشنی ڈالیں۔
--------------------------

مذکور بات پر شرعی رہنمائی فراہم کریں
السلام علیکم

آپ کے لئے بہتر ھے کہ اس کتاب کا مطالعہ فرمائیں

اسلام میں رفاہ عامہ کا تصور اور خدمت خلق کا نظام

والسلام
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
دو ٹوک سوال کےجواب کی وضاحت کےلیے خارج از موضوع باتوں کی طرف دھیان کیوں ؟

سمیت میرے آپ اور باقی ساتھی اس پر متفق ہونگے۔ کہ کسی بھی چیز ( چاہے اس کو رفاہ عامہ کا نام دیا جائے، یا ذاتی ملکیت کا) کا استعمال اس وقت شرعی طور ممنوع قرار پائے گا۔ جب اس کے مالک کو نقصان پہنچتا ہوں۔اگر کوئی بھی چیز چاہے اس کا تعلق رفاہ عامہ سے ہو یا ذاتی ملکیت سے۔ اس کے مالک کونقصان نہیں پہنچتا تو پھر کیاحکم ہوگا۔پوسٹ کیے جانے والے سوال کے جواب میں بھی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نقصان کے بغیر استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ کنفیوژن یہاں سے پیدا ہوئی جب برادر عابد نے ایک ہی کیٹگری سے متعلق دو چیزوں میں سے ایک کے استعمال کو جائز اور دوسرے کے استعمال کو ناجائز قرار دیا۔

1۔ جن چیزوں کو رفاہ عامہ کہہ کر بغیر اذن مالک کے استعمال کو جائز قرار دیا جارہا ہے۔ اس میں ملکیت بھی ہے، نقصان بھی نہیں۔( اگر نقصان ہو تو پھر استعمال ناجائز۔برادر عابد بھی یہی کہہ چکے ہیں)
2۔ بعینہ اسی کیٹگری میں اگر ہمسائے کا، کسی تحقیقی وریسرچز سنٹر کا یا تعلیمی اداروں کا نیٹ استعمال کرنے کو رکھا جائے تو پھر یہ ناجائز کیسے ٹھہرے گا۔؟۔کون سی دلیل اور وجہ ہے جو اس کنڈیشن میں استعمال کے موانع ہے۔
رفاہ عامہ کیاہوتا ہے؟ وائر لیس کیا ہوتا ہے؟ وائی فائی کیا ہوتا ہے؟ ان چیزوں میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔صرف اسی نقطہ کو سامنے رکھتےہوئے شرعی رہنمائی مطلوب ہے۔
برائے مہربانی اس اقتباس کو سامنے رکھتے ہوئے صرف اسی نقطہ پر ہی بات کی جائے، مجھے اور باقی قارئین کو سمجھایا جائے بادلیل کہ یہ اسلام میں یوں اور اس دلیل سے منع ہے۔ باقی کسی کا نیٹ استعمال کرنے سے اس کو نقصان ہوتا ہے یا نہیں؟ اس پر بحث مت کی جائے۔ فی الحال مذکور پوائنٹ پر ہی بات کی جائے۔
آدمی کسی کی دیوار کے سائے سے فائدہ لےلیتا ہے، کیا یہاں مالک مکان کو یہ حق ہے کہ اُس آدمی کو وہاں سے اٹھا دے کہ بھئی یہ دیوار میری ہے؟ یا مثلاً اُس کے ہاں جلنے والے چراغ کی روشنی میں آدمی کوئی کام کرلیتا ہے، چراغ گھر کی دیوار کے اوپر نصب ہے تو دوسری جانب کوئی طالبعلم اس کی روشنی میں پڑھنے لگ گیا ہے، کیا مالک مکان کو شریعت یہ حق دیتی ہے کہ وہ اس کو وہاں سے بھگادے، الا یہ کہ مالک مکان کو اس سے کوئی ضرر لاحق ہوتا ہو؟ ہاں اگر کسی وجہ سے مالک کو اس سے ضرر لاحق ہوتا ہو پھر جائز نہیں۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
( چاہے اس کو رفاہ عامہ کا نام دیا جائے، یا ذاتی ملکیت کا) کا استعمال اس وقت شرعی طور ممنوع قرار پائے گا۔ جب اس کے مالک کو نقصان پہنچتا ہوں۔اگر کوئی بھی چیز چاہے اس کا تعلق رفاہ عامہ سے ہو یا ذاتی ملکیت سے۔ اس کے مالک کونقصان نہیں پہنچتا تو پھر کیاحکم ہوگا۔پوسٹ کیے جانے والے سوال کے جواب میں بھی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نقصان کے بغیر استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔
اگر کوئی بھی چیز چاہے اس کا تعلق رفاہ عامہ سے ہو یا ذاتی ملکیت سے۔ اس کے مالک کونقصان نہیں پہنچتا تو پھر کیاحکم ہوگا۔پوسٹ کیے جانے والے سوال کے جواب میں بھی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نقصان کے بغیر استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔
السلام علیکم
بھائی جان آپ کو ہماری وجہ سے تکلیف ہوئی اس وقت آپ کے اوپر کیا گزر رہی ہوگی میں سمجھتا ہوں لیکن کیا کیا جائے بات ہی کچھ ایسی آ پھنسی جس طرح آپ ہماری باتوں سے مطمئن نہیں ایسے ہی ہم آپ کی باتوں سے مطمئن نہیں جن باتو ں کو میں نے ملون کیا ہے اس کا کوئی شرعی حوالہ دیدیجئے بات مناسب ہوئی تو تسلیم کرلیں گے چھیڑ چھاڑ کرنا مقصد نہیں اب کیوں کہ آپ بار بار پوسٹ کررہیں اس لئےمجبوراً جواب دیا جارہا ہے نہیں تو ہم اپنی بات پر مطمئن ہیں اور ہمیں شرح صدر ہے
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
ادھر ادھر کی باتوں کو پھر لکھ دیا گیا لیکن پوسٹ میں مطلوب بات کا جواب نہیں دیا گیا۔ کیا میں پوچھ سکتاہوں کہ کیوں ؟

بھائی جان آپ کو ہماری وجہ سے تکلیف ہوئی اس وقت آپ کے اوپر کیا گزر رہی ہوگی میں سمجھتا ہوں1

لیکن کیا کیا جائے بات ہی کچھ ایسی آ پھنسی جس طرح آپ ہماری باتوں سے مطمئن نہیں ایسے ہی ہم آپ کی باتوں سے مطمئن2

نہیں جن باتو ں کو میں نے ملون کیا ہے اس کا کوئی شرعی حوالہ دیدیجئے بات مناسب ہوئی تو تسلیم کرلیں گے چھیڑ چھاڑ کرنا مقصد نہیں3

اب کیوں کہ آپ بار بار پوسٹ کررہیں اس لئےمجبوراً جواب دیا جارہا ہے 4

نہیں تو ہم اپنی بات پر مطمئن ہیں اور ہمیں شرح صدر ہے5
1۔ مجھے کسی سے کوئی تکلیف نہیں۔ پس مجھے تکلیف اس استدلال سے ہے جو آپ نے کیا ہے۔ اور یہ تکلیف تب تک دور نہیں ہوگی جب تک آپ شرعی رہنمائی نہیں کریں گے۔ جب دونوں ایک ہی مقام میں ہیں تو پھر ایک کو جائز اور ایک کو ناجائز آپ کا یہ فتویٰ تکلیف دہ ہونے کے ساتھ عجیب وغریب حالات سے تعلق رکھتا ہے۔
2۔ میں نے اپنی کوئی بات کی ہی نہیں۔ تو پھر آپ میری باتوں سے کیسے مطمئن ہونگے؟۔ لیکن جناب میں آپ کے بے ڈھنگے استدلال سے مطمئن نہیں۔ یا تو اس استدلال کی سمجھ میں آنے والی توجیہ بیان کریں، یا پھر رجوع کرلیں اور اگر ماننا ہی نہیں تو پھر پوسٹ ہی نہ کریں۔
3۔ اتبسامہ ۔۔۔۔۔۔ آپ نے ان باتوں کو ملون کیا
اگر کوئی بھی چیز چاہے اس کا تعلق رفاہ عامہ سے ہو یا ذاتی ملکیت سے۔ اس کے مالک کونقصان نہیں پہنچتا تو پھر کیاحکم ہوگا۔پوسٹ کیے جانے والے سوال کے جواب میں بھی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نقصان کے بغیر استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔
اگر غور کریں تو ماقبل پوسٹ میں آپ بھی ان باتوں سے متفق نظر آئے ہیں۔ کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ نے کس دلیل سے اتفاق کیا تھا جو اب دلیل مانگنے کی ضرورت پڑ گئی ؟ پہلے آپ تعلیمات شرعیہ سے یہ ثابت کریں کہ اس میں بیان باتیں دین محمدیﷺ کےخلاف ہیں۔ پھر ان شاءاللہ ہم دلائل سے رد کریں گے۔
4۔ میں تو بار بار ایک ہی بات پوچھے جا رہا ہوں، حق وفرض تو آپ کا یہ تھا کہ آپ شروع میں ہی اس کاجواب دے دیتے لیکن ادھر ادھر کی باتوں میں وقت صرف کرتے گئے اور کرتے جارہے ہیں لیکن جواب نہیں دے پا رہے۔ تو اس صورت میں بار بار اپنے جواب کا مطالبہ کرنا میرا حق نہیں ؟۔۔ آپ ادھر ادھر کی نہ لکھیں اور نہ میں بار بار سوال کوٹ کروں۔
5۔ اسی شرح صدر سے ہمیں بھی تو آگاہی کروائیں۔ یہ کیسی شرح صدر ہے جو عامی سے عامی کو بھی حیرت میں ڈال دے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہمارا کام بس پہنچا دینا ہے، کسی پر اپنی رائے ٹھونسنا صحیح نہیں۔
فرمانِ باری ہے:
فذكر إنما أنت مذكر لست عليهم بمصيطر ۔۔۔ سورة الغاشية

جب آراء میں اختلاف ہوجائے اور ہر ایک اپنی ہی دلیل پر اصرار کرے تو بحث برائے بحث میں وقت ضائع کرنے کی بجائے بات کو ختم کر دینا چاہئے۔

واللہ اعلم
 
Top