• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمہ قسم کا علم غیب اللہ تعالی کے پاس ہے، پھر اللہ تعالی جسے چاہے غیب کی خبریں بتلا دیتا ہے۔

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہمہ قسم کا علم غیب اللہ تعالی کے پاس ہے، پھر اللہ تعالی جسے چاہے غیب کی خبریں بتلا دیتا ہے۔


الحمد للہ:

اول:

فرمانِ باری تعالی ہے:

( قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ )

ترجمہ: آپ کہہ دیں: آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا[النمل:65]

اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علم غیب مطلق طور پر علام الغیوب رب العالمین کیلئے مختص ہے۔

تاہم اللہ تعالی اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے غیب کی خبر دے دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (26) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا}

وہی غیب جاننے والا ہے وہ کسی کو غیب پر مطلع نہیں کرتا [26] سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے [الجن : 26 - 27]

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"علمائے کرام رحمہم اللہ کہتے ہیں: جس وقت اللہ تعالی نے اپنی صفت یہ بیان کی کہ صرف وہی علم غیب جانتا ہے، مخلوقات میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سوا کسی کے پاس بھی علم غیب نہیں ہے، پھر اس میں سے اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ رسولوں کو مستثنی کیا چنانچہ انہیں وحی کے ذریعے صرف اتنی ہی غیب کی خبریں دیں جتنی اللہ تعالی نے چاہی، اور عطا شدہ ان خبروں کو انبیائے کرام کیلئے معجزہ اور سچی نبوت کی دلیل بنایا " انتہی

"تفسیر قرطبی" (19/ 28)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:

"علم غیب اللہ تعالی کیلئے مختص ہے، لہذا مخلوقات میں سے جن یا کوئی اور مخلوق علم غیب نہیں رکھتی، ماسوائے ان فرشتوں اور رسولوں کے جنہیں اللہ تعالی وحی کے ذریعے یہ علم دے دے" انتہی

"فتاوى اللجنة الدائمة" (1 /346)

مزید کیلیے سوال نمبر: (101968) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ}

بیشک اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ قیامت کب بپا ہو گی، بارش کب نازل ہو گی؟ رحم میں کیا ہے؟ کل کسی نے کیا کرنا ہے؟ اور کس جگہ اسے موت آئے گی ، بیشک اللہ تعالی جاننے والا باخبر ہے۔[لقمان : 34]

اور بخاری (1039)میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

(پانچ چیزیں غیب کی کنجیاں ہیں:

1) کوئی نہیں جانتا کل کیا ہونے والا ہے
2) ماں کے پیٹ میں کیا ہے اس کے بارے میں بھی کوئی نہیں جانتا
3) کل کسی نے کیا کرنا ہے کسی کے علم میں نہیں ہے
4) اور کوئی یہ نہیں جانتا اس نے کس جگہ مرنا ہے
5) بارش آنے کے وقت کا بھی کسی کو علم نہیں ہے)


اس لیے ان پانچ چیزوں کے بارے میں مکمل تفصیلات، حالات، اوقات اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، تاہم ان چیزوں کے بارے میں کچھ جزوی تفصیلات لوگوں کو بسا اوقات علم ہو سکتی ہیں ، چاہے وہ اللہ تعالی کی جانب سے وحی کے ذریعے ہوں-اور یہ صرف انبیائے کرام کیلیے مختص ہے- یا پھر الہام یا ذہنی خیال کے ذریعے -یہ صرف صدیقین اور نیک لوگوں کیلیے مختص ہے- یا پھر دنیاوی علوم کے ذریعے ، یا غور و فکر کے ذریعے۔

لیکن ان پانچ چیزوں کا مکمل تفصیلی علم صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ان پانچ چیزوں کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگوں کو یہ بات جاننے کی ضرورت تھی کہ ان پانچ چیزوں کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، چنانچہ ان پانچ چیزوں کے بارے میں مجموعی طور پر تفصیلی اور کامل علم اللہ تعالی کے پاس ہی ہے، نیز ان میں سے ہر ایک چیز کے بارے میں یقینی علم بھی اللہ ہی جانتا ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص ان پانچ چیزوں میں سے کسی ایک چیز کے بارے میں جزوی اور غیر یقینی علم حاصل کر لے جس میں غلطی کا امکان موجود ہو تو ایسے علم کی یہاں نفی نہیں کی گی؛ کیونکہ غیر یقینی اور جزوی علم اللہ تعالی کیلیے مختص علم کا حصہ نہیں ہے ، جس کی نفی اللہ تعالی نے دوسروں سے کی ہے۔

اور پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان پانچ چیزوں کے سوا ہر چیز کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم دیا گیا تھا۔

اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان پانچ چیزوں کی کچھ جزوی معلومات بھی دی تھیں، سورہ لقمان کی آیت میں ان جزوی معلومات کی بھی نفی نہیں کی گئی، لہذا وہ جزوی معلومات سورہ جن کی آیت کے تحت آتی ہیں:

{عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (26) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا}

وہی غیب جاننے والا ہے وہ کسی کو غیب پر مطلع نہیں کرتا [26] سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے [الجن : 26 - 27]

ان پانچ چیزوں میں سے بھی قیامت کے آنے کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہی ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے کسی کو اطلاع نہیں فرمائی، جیسے کہ پہلے حدیث جبریل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جبریل نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی جواب دیا، اور یہی صورت حال کل کیا ہونے کی تفصیلات کے بارے میں بھی ہے۔

پیٹ میں کیا ہے؟ اس کے بارے میں بھی صرف اللہ تعالی کو ہی علم ہے، فرشتے کو تخلیق اور معلومات لکھنے کا حکم ملنے سے پہلے اس کے بارے میں علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہوتا ہے، پھر فرشتے کے لکھنے کے بعد اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنی مخلوقات کو مطلع فرما دیتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی فرشتے کو مطلع فرما دیتا ہے۔

چنانچہ اگر جزوی معلومات حاصل کرنے والے کا تعلق رسولوں سے ہو تو انہیں یقینی علم اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور اگر صدیقین و صالحین میں سے ہو تو اللہ تعالی انہیں اجمالی طور پر مطلع فرماتا ہے، جیسے کہ زہری نے عروہ کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ہے کہ :

جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کا وقت وفات قریب تھا تو انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے لمبی گفتگو کی اس میں یہ بھی کہا:

" تمہارے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں"

عائشہ نے کہا: میرے دو بھائی تو ہیں ، میرے دو بہنیں کہاں ہیں؟

تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: بنت خارجہ کے پیٹ میں مجھے لگتا ہے لڑکی ہے۔


ایک روایت میں یہ بھی الفاظ ہیں کہ :

"میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ وہ لڑکی ہے، اس لیے تم اس کا خیال رکھنا، تو ان کی اہلیہ نے ام کلثوم کو جنم دیا"

اسی طرح کل کسی نے کیا کرنا ہے، اور کس جگہ مرنا ہے، اسی طرح بارش کب آئے گی ان تمام چیزوں کے بارے میں عام طور پر علم اللہ تعالی کے پاس ہی ہے۔

لیکن ان میں سے جزوی معلومات کسی کو حاصل ہو جائیں تو ایسی صورت میں اگر یہ علم کسی نبی کو ملے تو یہ اس عموم میں سے خاص ہوگا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت سی مستقبل میں ہونے والی چیزوں کے بارے میں علم دے دیا گیا تھا، آپ یہ خبریں اپنے صحابہ کرام کو بتلاتے بھی تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک میں بتلایا تھا کہ :

(آج رات سخت ہوا چلے گی، اس لیے کوئی رات کو کھڑا نہ ہو) تو رات کو واقعی بہت تیز ہوا چلی تھی۔

یہاں پر ہواؤں کے چلنے کا علم بھی کسی خاص وقت میں بارش سے متعلق علم حاصل کرنے تعلق رکھتا ہے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو مرض الوفاۃ میں کہہ دیا تھا کہ وہ اسی بیماری میں فوت ہو جائیں گے۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

(میری قبر اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے)،

اس حدیث کو امام احمد نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جبکہ نسائی نے ام سلمہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی وفات اور دفن ہونے کے بارے میں علم ہو گیا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی مروی ہے کہ :

(کسی نبی کی روح جہاں بھی قبض کی جائے وہیں ان کی تدفین ہوتی ہے) اس حدیث کو ابن ماجہ وغیرہ نے نقل کیا ہے۔

اور اگر مذکورہ پانچ غیبی اشیاء میں سے چند ایک کے بارے میں عام لوگوں کو بھی تھوڑا بہت علم ہو جائے تو ہمیں ایسی صورت میں پہلے کی طرح استثنائی صورت کہنے کی ضرورت نہیں ؛ کیونکہ عام لوگوں کو انبیاء کی طرح یقینی علم نہیں ہوتا، بلکہ ظن غالب ہوتا ہے، یا پھر محض وہم ہوتا ہے، اور بسا اوقات صرف اندازے اور خدشات ہوتے ہیں، اور یہ تمام چیزیں علم نہیں ہیں، اس لیے ہمیں ان چیزوں کو اللہ کے ذاتی علم میں سے استثنائی صورت کہنے کی ضرورت نہیں ہے، واللہ اعلم" انتہی

"فتح الباری" (9/ 269-272)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:

"بے شک اللہ تعالی نے قیامت کے علم کو پوشیدہ رکھا قیامت کا وقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، قیامت کے وقت کو کوئی مقرب فرشتہ یا نبی بھی نہیں جانتا، البتہ اللہ نے قیامت کی نشانیوں سے انہیں آگاہ کیا ہے۔

اور بارش ہونے کے وقت اور جگہ کا اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو علم نہیں ہے، البتہ بارش کی علامات کی وجہ سے ماہرین کو بارش کے امکان کا پتہ چل جاتا ہے، اور بارش کے امکان کے بارے میں معلومات اندازے اور تخمینے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتیں یہی وجہ ہے کہ بارش کبھی تخمینہ اور اندازے سے کچھ ہٹ بھی جاتی ہے۔

حمل کے بارے میں بھی تفصیلی معلومات صرف اللہ تعالی کے پاس ہی ہیں، تخلیق ،عدم تخلیق، جنین کی نشو و نما ، دنیا میں آنے تک حمل کا باقی رہنا ، زندہ یا مردہ حالت میں قبل از وقت ساقط ہو جانا ، دوران حمل جنین کا صحت مند رہنا ، جنین پر منفی اثرات مرتب ہونا اور دیگر عوامل کے بارے میں علم دوسروں کے لئے تو اسباب اور تجربات پر موقوف ہوتا ہے لیکن اللہ تعالی اسے شروع سے ہی جانتا ہے کہ کیا ہو گا کیونکہ اللہ تعالی کو کسی چیز کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے بلکہ اس کے اسباب سے بھی پہلے اس کا علم ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ہی اسباب کو پیدا کرنے والا ہے تو اس سے اسباب کیسے مخفی رہ سکتے ہیں اور حقائق کس طرح چھپ سکتے ہیں؟!

اور کبھی انسان بھی رحم میں رونما ہونی والی تبدیلیوں ، جنین کی جنس ، صحت و بیماری، ولادت کا وقت، اور اسی طرح ولادت سے پہلے ہی حمل ساقط ہونے پر آگاہ ہو سکتا ہے ، لیکن اس میں اللہ کی مرضی شامل حال ہونا لازمی امر ہے، مثلاً: الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے ان چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتی ہیں، انسان اسباب کے بغیر اور تنہا ان معلومات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا، نیز معلومات کی فراہمی کا عمل اللہ تعالی کی جانب سے فرشتے کو جنین کی صورت گری کے حکم کے بعد ہی ہو سکتا ہے، اسی طرح یہ معلومات رحم کے اندر رونما ہونے والی تمام تر تبدیلیوں کے بارے میں نہیں ہوتیں، بلکہ حاصل شدہ معلومات ناقص ہونے کیساتھ ساتھ غلطی کے امکان سے بھی خالی نہیں ہوتیں۔

کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ کل دینی اور دنیاوی امور میں سے کیا کرے گا، کیونکہ ان کی تفصیلات کو بھی اللہ تعالی نے اپنے پاس ہی محفوظ رکھا ہے، البتہ یہ ممکن ہے کہ کبھی لوگوں سے اجمالی طور پر نفع یا نقصان کی توقع ہو جائے ، اور اسی توقع کی وجہ سے ان میں پیشقدمی یا پسپائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، جس کی بنیاد ان کے ارد گرد کا ماحول اور حالات ہوتے ہیں، اور ان توقعات اور اندازوں کو علم نہیں کہا جا سکتا۔

اسی طرح کوئی یہ نہیں جانتا کہ کس زمین پر اسے موت واقع ہو گی خشکی یا تری پر، اس ملک میں یا کسی دوسرے میں، یہ تفصیلات صرف اللہ ہی کو معلوم ہیں ، لہذا اللہ تعالی کو ہی تمام امور چاہے مخفی ہوں یا ظاہری اور پوشیدہ ہوں یا اعلانیہ سب کا علم ہوتا ہے۔

خلاصہ کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ :

اللہ تعالی کا علم ذاتی ہے نہ کہ کسی سے حاصل کیا ہوا اور نہ ہی اسباب و تجربات پر موقوف ہے، اللہ کو معلوم ہے کہ کیا ہوا اور کیا ہونے والا ہے ، اللہ کے علم میں کوئی شبہ کمی نہیں اور نہ ہی وہ امر واقع سے مختلف ہوتا ہے، اور سبحانہ و تعالی کے علم میں تمام کائنات کی تفصیلات، بڑی سے بڑی اور باریک سے باریک معلومات شامل ہیں، لیکن کسی اور کے پاس ایسا علم نہیں ہے۔" انتہی

"فتاوى اللجنة الدائمة" (2/ 174-176)

سوم:

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے مرض الموت میں علم ہو گیا تھا کہ آپ اسی بیماری میں فوت ہو جائیں گے۔

چنانچہ ترمذی: (3872) میں عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ :

"جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیمار ہوئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں، اور آپ کے سر کے ساتھ سر لگایا، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا، پھر سر اٹھایا اور رونے لگیں، دوسری بار پھر اپنا سر آپ کے سر کے ساتھ لگایا اور پھر جب سر اٹھایا تو مسکرانے لگیں، اس کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم فوت ہو گئے تو میں [عائشہ ] نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: یہ تو بتلائیں کہ جب آپ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سر کیساتھ سر جوڑا اور پھر سر اٹھایا تو تم نے رونا شروع کر دیا تھا، پھر دوسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سر کیساتھ سر جوڑا تو پھر آپ نے مسکرانا شروع کر دیا تھا، یہ کیا ماجرا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پہلے بتلایا تھا کہ آپ اسی بیماری میں فوت ہو جائیں گے، تو میں رونے لگی اور پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بتلایا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے اہل خانہ میں سب سے پہلے ملوں گی تو اس وقت میں مسکرا دی تھی"

اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ترمذی" میں صحیح کہا ہے

اور ظاہر بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی وفات کی جگہ کا بھی علم ہو گیا تھا ، جیسے کہ ابن رجب رحمہ اللہ کی گفتگو سے یہ بات عیاں ہوتی ہے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/228795
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
حقیقت یہ ہے کہ لوگ ”علم الغیب“ اور ”انباء الغیب“ میں فرق نہیں کر پاتے جس وجہ سے مخمصے میں پڑ جاتے ہیں۔
 
Top