• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم تاریخ کا مطالعہ کیوں کریں۔

بیبرس

رکن
شمولیت
جون 24، 2014
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
69
پوائنٹ
43
ہم تاریخ کا مطالعہ کیوں کریں۔

ڈاکٹر راغب السرحانی

یہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز ایک مستقل سنن و طریقوں پر چل رہی ہے جن میں تغیر وتبدیلی نہیں۔اور ہمیں ان قوانین کے ادراک کی ضرورت ہے تاکہ ہم اللہ رب العزت کی پیدا کردہ اور ہمارے لئے مسخر کی ہوئی بہت سی نعمتیں استعمال کر سکیں۔
تاکہ ہم سابقہ تجربات سے سیکھتے ہوئے صحیح طور پر زندگی گذار سکیں وہ واقعات جن کی تخلیق میں شروع سے اللہ کی مستقل سنت چلی آ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ طریقے سنن تبدیل ومتغیر نہیں ہوتے اور نہ ہی پھرتے ہیں ۔
اللہ رب العزت نے فرمایا:
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلًا
یہ وہ بنیادی اصول ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب میں مقرر کیا اور اسے اپنے مستقل طریقوں میں بنا یا جس کا ادراک حاصل کرنا اور اس سے فائدہ اٹھا نا تما م کیلئے ممکن ہے ۔اس کی سادہ ترین مثالوں میں ہم دیکھتے ہیں: کہ پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ پر ابلتا ہے اب قیامت تلک پانی اسی درجہ حرارت پر ابلتا رہے گا یہ اللہ رب العزت کی نعمت اور ہم پر انعام ہے کہ یہ چیز ہمارے لئے مستقل بنا دی ۔ اگر پانی آج 30 سینٹی گریڈ ابلے، (مثال کے طور پر ) کل 50 سینٹی گریڈ پر ، پرسوں 70 سینٹی گریڈ پر تو لوگوں کی زندگی کا پہیہ صحیح طرح نہ چل پائے ، ان کے معاملات خراب ہو جائیں کیونکہ ہر دن دوسرے کے مخالف ہو گا ہر شکل میں تبدیلی و تحول ہو گا جو پہلے جیسی نہیں ہو گی۔
اسی طرح آگ جلاتی ہے اور قیامت تلک جلاتی رہے گی۔
یہ درست ہے کہ کچھ واقعات مستثنیٰ ہیں لیکن ان پر بنیا د نہیں رکھی جائے گی ۔ یہ آگ جس کی بنیادی خصوصیت میں سے ایک جلانا ہے اس نے ابراہیم علیہ السلام کو نہیں جلایا یہ اس کی استثنائی صورت ہے ،معجزہ ہے اور عقل مند مومن معجزے کا منتظرنہیں ہوتا ۔ استثنائی چیزوں پر اپنی بنیاد نہیں رکھتابلکہ اس کی بنیاد ان قوانین پر ہوتی ہے جس کے بارے میں اسے پوری طرح ادراک ہو کہ یہ اللہ رب العزت کے مستقل و ثابت قوانین میں سے ہے۔کسی کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ آگ میں ڈال کر کہے کہ میرے لئے بھی وہی معجزہ نمودار ہو گا جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کیلئے وقوع پذیر ہوا تھا۔ ایسا کرنا اور ایسا کہنا کسی طور بھی درست نہیں ہو گا ۔ کیونکہ یہ اللہ رب العزت کے کائنات میں ثابت شدہ قوانین کے موافق نہیں اس پر آپ جو چاہیں قیاس کر سکتے ہیں ۔
انسان اور حیوان کی عمومی خاصیت یہ ہے کہ کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اگر کوئی انسان کچھ عرصہ کیلئے کھانے پینے سے رکا رہے تو لامحالہ اس کا انجام موت کی صورت میں نکلے گا ۔
اسی طرح اقوام وملل کی تبدیلی و تغیر احوال کی تبدیلی میں اللہ رب العزت کی مستقل سنن ہیں ۔چاہے یہ تبدیلی کمزوری سے قوت کی جانب ہو یا قوت سے کمزوری کی جانب ۔ہر امت جس راستے پر چلے گی اسی کے مطابق اس کا انجام ہو گا ۔ ہم جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے صفحات کی ورق گردانی کے دوران تغیر و تبدیلی کی الٰہی سنتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔
تاریخ اپنے آپ کو بڑے عجیب انداز میں دوہراتی ہے یہاں تک کہ واللہ جب آپ ایک ہزار سال قبل کے واقعات کا مطالعہ کریں تو آپ کو یوں محسوس ہو گا گویا یہ وہی واقعات ہیں جو آج کے دور میں چل رہے ہیں صرف ناموں اور تفصیلات میں اختلاف ہے بس۔
پس جب ہم ماضی کا مطالعہ کرتے ہیں تو گویا مستقبل کے واقعات اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ پڑھ رہے ہوں کیونکہ آئندہ پیش آنے والے واقعات اللہ رب العزت کی مستقل سنن پر چل کر ہی وقع پذیر ہوں گے جنہیں اللہ رب العزت نے امتوں کی تبدیلی اور ان کے احوال کے تغیر کیلئے مقرر فرمایا ہے۔ پس آپ دیکھیں کہ اب وہ کس راستے پر چل رہے ہیں تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ کس انجام کو پہنچیں گے ۔ عقل مند مومن وہ ہےجو صفر سے شروع نہیں کرتا کہ اسے ان سبھی کا اعادہ کرنا پڑے جو اس سے پہلے لوگ کر چکے ہیں۔بلکہ وہ ان کی تاریخ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلتا ہے جو درست راستے پر گامزن ہوئے اور کامران ٹھہرے اور خطاکار ناکام ٹھہرنے والے لوگوں کے راستے سے دوری اختیار کرتا ہے۔
 
Top