• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم مساجد میں بم دھماکے نہیں کرتے ؟؟؟؟

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
پوری تحریر اور بحث و مباحثہ پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید دین سے کوسوں دور یہ حضرات کسی بھی خبر کا الٹے سیدھے ہو کر دفاع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔جبکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی یہ کوشش نہایت ہی رائیگاں ثابت ہوتی ہے۔
ابھی میں پچھلے دنوں ہی ٹی ٹی پی کارندوں کی ٹوپی ڈرامے پر مشتمل ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم مساجد اور بازاروں میں دھماکوں کو حرام سمجھتے ہیں۔لیکن
ابھی ابو زینب فرما رہے ہیں کہ یہ حملہ تو شعیوں کی مسجد میں ہونے جارہا تھا،اس لیے جائز ہوا۔
ابو زینب بھائی مجھے آپ اپنے آقاوں کی اس کتاب سے یا کسی بھی فتوے سے یہ دلیل پیش کر دو کہ شعیوں کی مساجد میں خودکش حملے کرنا جائزہے اور باقی میں حرام۔(یاد رہے میں آپ سے دلیل صرف آپکے آقاوں کی مانگ رہا ہوں ،کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ کو شریعت سے جس قدر مس ہے۔اس لیے شریعت سے دلیل مانگ کر آپکو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا)

طالبان کا ہدف پولیس تھی اور یہ مسجد پولیس لائن کی مسجد تھی ۔اور طالبان متعدد بار یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ ہمارا ہداف حکومت اور اس کی ایجنسیاں ہیں ۔
واہ جی واہ۔۔کیا اصول گھڑا ہے ابو زینب صاحب۔۔۔آج آپ کی اس ٹوپی ڈرامہ پر مشتمل کتاب کی بھی سمجھ آگئی۔کہ ہم مساجد پر دھماکوں کو حرام کہتے ہیں ،لیکن۔۔۔۔۔اگر مسجد شعیوں کی ہو تو وہ جائز ہے،اگر مسجد جماعۃالدعوہ کی ہوتو ۔۔۔اگر مسجد بریلویوں کی ہو تو ۔۔۔اور اگر دربار ہو تو۔۔۔۔۔۔
یہی آپ کا مطلب ہے نا؟؟؟یقینا یہی۔۔۔۔
ہے اس کی آپ کے پاس شریعت سے کوئی دلیل؟؟جاؤ چیلنج ہے پوری سیرت النبی ﷺ سیرت صحابہ کرام اور سیرت سلف صالحین سے اس کی کوئی ایک مثال پیش کر دو۔کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑانا۔جیسا کہ آپ نے اسلام آباد میں کرنے کی کوشش کی۔


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی پولیس لائن میں نمازِ جنازہ کے دوران خودکش دھماکے میں اعلیٰ پولیس اہلکاروں سمیت تیس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہو گئے ہیں۔کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار کے مطابق آئی جی بلوچستان مشاق احمد سکھیرا نے ایک نیوز کانفرس میں بتایا کہ خودکش دھماکے میں پولیس کے اعلیٰ اہلکار ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس پی انور خلجی اور ڈی ایس پی شمس سمیت تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔دریں اثناء کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حملے کے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔آئی جی بلوچستان کے مطابق ہلاک ہونے والے تیس افراد میں سے اکیس کی شناخت ہو گئی ہے اور یہ تمام پولیس کے افسران اور جوان ہیں۔
پولیس اہلکاروں کے علاوہ باقی لوگ کون تھے؟کیا وہ سب کے سب مرتد تھے؟کیا آپ کے کارندے نے ان کے ایمان اور عمل کو جان کر پھر جیکٹ پھاڑی؟پولیس اہلکاروں پر تو تم اپنے دل کو جھوٹی تسلی دے سکتے ہو لیکن اس کے علاوہ جو اس دھماکے کا شکار ہوئے یا اس میں زخمی ہوئے؟ان کے بارے کیا حکم ہوگا؟کوئی دلیل؟کوئی فتوی؟
یقیناً یہ مسجد پبلک مقام پر واقع نہیں تھی ۔
لیں جی۔۔کام مکمل۔۔۔۔ایک نیا فتوی۔۔
اگر مسجد پبلک مقام پر نہ ہو،لیکن اس میں چاہے جنتے بھی بے گناہ،نمازی،یا پھر جو بھی آجائے۔۔جو مسجد پولیس کے علاقے میں ہے اس میں خودکش حملہ جائز ہے۔۔۔ایسے ہی ہے نہ؟؟؟میں غلط تو نہیں سمجھا؟؟

یاد رہے:اس سارے سانحے میں ابو زینب اپنے کالے کرتوتوں کا دفاع کررہا ہے کہ مسجد میں فلاں لوگ تھے اور فلاں جگہ تھی اور فلاں فلاں ۔۔۔۔لیکن ابو زینب سے میرا ایک روح کو ہلادینے والا سوال ہے زرا اس کا جواب چاہئے:
ابو زینب وہ مسجد جس کی بھی تھی،اس میں جو بھی تھے وہ جس بھی علاقے کی تھی۔۔۔۔لیکن اسے میں قرآن تو مسلمانوں کے ہی تھے،اس میں مقدس کتابیں تو مسلمانوں کی ہی تھیں؟قرآن کو دھماکے سے اڑانا،احادیث کو دھماکے سے اڑانا اور جان بوجھ کر۔۔۔(استغفراللہ)اس کی کیا دلیل پیش فرمائیں گے؟
امید ہے فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے دلیل سے بات کریں گے۔تاکہ وقت اور فورم کی جگہ بچ سکے۔
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
پوری تحریر اور بحث و مباحثہ پڑھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید دین سے کوسوں دور یہ حضرات کسی بھی خبر کا الٹے سیدھے ہو کر دفاع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔جبکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کی یہ کوشش نہایت ہی رائیگاں ثابت ہوتی ہے۔
القول السدید آپ کی بات کا جواب دینے سے پہلے میں آپ کو اس مباحثے میں شرکت پر مرحبا کہتے ہوئے آپ کا استقبال کرتا ہوں۔یہ تو اس بحث کو پڑھنے والے لوگ اچھی طرح جان گئے ہیں کہ دین سے کوسوں دور آپ کی جماعۃ الدعوۃ ہے یا کوئی اور۔اگر ہماری کوشش رائیگاں گئی ہوتی تو آپ کی جماعۃ الدعوۃ کے مفتی مبشر احمد ربانی کو شامی جہاد کی حمایت دوغلے پن کی ویڈیو نشر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔یہ تو انٹرنیٹ پر ہماری کوششوں کے نتائج ہیں کہ عبداللہ بن ابی کے پیروکار اب ایک نئے روپ میں آکر مسلمانوں میں دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔لیکن ان شاء اللہ ان کی یہ کوشش ہر گز کامیاب نہ ہوسکے گی۔کیونکہ منافقین کی ہر کوشش کو اللہ تعالیٰ نے ناکام بنادیا ہے ان کے ہر فریب کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فضل وکرم طشت ازبام کردیا گیا ہے۔چاہے یہ منافقین کتنا ہی جھوٹ بول لیں اور مسلمانوں کو کتنا ہی باور کرالیں ہم مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں ۔لیکن ان منافقین کے قول اور فعل میں تضاد ان کی حقیقت حال کو کھول رہا ہے۔
ان منافقین کی حالت زار کا نقشہ قرآن حکیم کیا خوب ہی بیان کیا ہے:يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ۔یہ منافقین اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں (کہ ہم مجاہدین کے حمایتی ہیں)لیکن یہ (منافقین اللہ کو اور ایمان والوں کو )ہرگز دھوکہ نہیں دے سکتے مگر یہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔
یہی حال القول السدید کی جماعۃ الدعوۃ کا ہے کہ ان منافقین کے اسوہ کو اپناتے ہوئے انہوں نے مجاہدین سے دوستی کرنے کی بجائے شیعوں سے دوستی کو ترجیح دی ۔اپنے اجتماعات میں اپنے اسٹیجوں سےان شیعوں کے افکار کی ترویج کروائی حتیٰ کہ شیعوں نے جماعۃ الدعوۃ کاکے اسٹیج کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مشرکانہ نعرے تک بلند کیے۔الحمدللہ جب جماعۃ الدعوۃ کے ان مکروہ افعال پر ان کی پکڑ کی گئی تو ان کے مفتی مبشر احمد ربانی نے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ہم بھی شیعوں کو اسی طرح کافر سمجھتے ہیں جس طرح اہل السنۃ والجماعۃ کے کے علماء سمجھتے ہیں۔اور ان کی اس تقریر میں مفتی صاحب نے یہ بیان کیا کہ یہ میری ذاتی اور انفرادی رائے ہے۔یعنی جماعۃ الدعوۃ اور ان کی پوری ٹیم کا موقف نہیں ہے۔اور نہ ہی جماعۃ الدعوۃ کے امیر جناب انجینئر حافظ محمد سعید یا جماعۃ الدعوۃ کی علماء کی کمیٹی کی طرف سے اس تقریر کو پیش کیا گیا۔جماعۃ الدعوۃ نے ایسا کیوں کیا؟ جماعۃ الدعوۃ نے ایسا اس لئے کیا کہ جب سوشل میڈیا پر جماعۃ الدعوۃ کے بارے میں مجاہدین کے حامیوں نے اس بات کو مکمل ثبوت کے ساتھ بیان کیا کہ جماعۃ الدعوۃ مرتد رافضیوں کی حلیف جماعت ہے ۔جماعۃ الدعوۃ کا مرتد رافضیوں کے ساتھ اتحاد ہے۔ کیونکہ جماعۃ الدعوۃ کے چوٹی کے لیڈرز ان مرتد رافضیوں کو اپنے اسٹیجوں پر بلاتے رہے ہیں ۔ اور یہ مرتد روافض جماعۃ الدعوۃ کے امام جناب انجینئر حافظ محمد سعید اور جماعۃ الدعوۃ کے دیگر کبار لوگوں کے سامنے یاعلی مدد کے مشرکانہ نعرے بلند کرتے رہے ہیں۔جس پر جماعۃ الدعوۃ نے نہ تو ان کی تکفیر کی اور نہ ہی ان کی تنکیر کی۔ مزید برآں یہ کہ ان کے چوٹی کے لیڈر جناب امیرحمزہ نے جماعۃ الدعوۃ کے بچے بچے کو ملعون خمینی کی چوکھٹ پر قربان کردینے کا عزم وارادہ ظاہر کیا۔ امیرحمزہ کی اسکردو والی تقریر اس باب میں حجت ہے۔ان تمام باتوں کی وجہ سے سوشل میڈیا میں جماعۃ الدعوۃ کی اس منافقت اور مجاہدین اسلام جو کہ امریکی کفار اور ان کی حلیف پاکستانی فوج کے خلاف اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے قتال میں مصروف ہیں ان سے دشمنی اور جماعۃ الدعوۃ کا سوشل میڈیا میں مجاہدین کے خلاف اس بات کا پروپیگنڈہ کہ مجاہدین القاعدہ اور طالبان تکفیری خارجی اور دہشت گرد ہیں۔جماعۃ الدعوۃ سے منسلک نوجوانوں میں بے چینی کا باعث بن رہا تھا۔جس کی وجہ سے جماعۃ الدعوۃ اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہوچکی ہے۔کہ جماعۃ الدعوۃ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور صلیبی اتحاد کی حامی جماعت ہے جس نے امریکی سفیر کیمرون منٹر سے معاہدے کے باعث مجاہدین کے خلاف ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں مجاہدین کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کیا ہوا ہے کہ مجاہدین امریکہ انڈیا کے ایجنٹ ہیں۔حالانکہ دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ جماعۃ الدعوۃ امریکی تحالف میں بندھی ہوئی پاکستانی فوج کی ایجنٹ ہے جو کہ صلیبی جنگ میں مجاہدین کے خلاف صلیبیوں کے شانہ بشانہ مجاہدین کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔جماعۃ الدعوۃ اپنے اجتماعات میں کھلے عام مجاہدین القاعدہ اور طالبان کو تکفیری خارجی اور دہشت گرد قرار دیتی ہے۔اور پاکستانی فوجیوں کو جو کہ صلیبی جنگ میں صف اول کے ناٹو اتحادی ہیں ان کو مجاہد قرار دیتی ہے۔اب جبکہ یہ بات مسلمانوں میں صاف طور پر راسخ ہوچکی ہے کہ پاکستانی فوج دہشت گردی کی اس صلیبی جنگ کو جو کہ اس نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف جاری کی ہوئی ہے اور اس کو اپنی جنگ قرار دیتی ہے۔اور جماعۃ الدعوۃ اور ان کا امیر انجینئر حافظ محمد سعید جماعۃ الدعوۃ کو پاکستانی فوج کی اے ٹیم قراردیتے ہیں ۔تو مسلمانوں کو اب اس بات میں کوئی شک اور تردد نہیں رہا کہ جماعۃ الدعوۃ بالواسطہ اور براہ راست دونوں طرف سے اس صلیبی لشکر ایک حصہ ہے۔ بالواسطہ طور پر جماعۃ الدعوۃ پاکستانی فوج کے واسطے سے اس صلیبی لشکر میں شمولیت اختیار کرچکی ہے ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جماعۃ الدعوۃ صلیبی اتحادی پاکستانی فوج کو مجاہدین قرار دیتی ہے اور مجاہدین القاعدہ اور طالبان کو خارجی تکفیری اور دہشت گرد قرار دیتی ہے۔اور جماعۃ الدعوۃ کابراہ راست تعلق کیمرون منٹر سے معاہدے کی رو سے ہوتا ہے جبکہ جماعۃ الدعوۃ کی قیادت کیمرون منٹر سے خفیہ ملاقاتوں میں یہ طے کرچکی ہے کہ وہ سوشل میڈیا اورٹی وی ٹاک شوز میں مجاہدین القاعدہ اورطالبان کے خلاف شدت کے ساتھ پروپیگنڈہ جاری رکھے گی ۔ تاکہ اس صلیبی جنگ میں مجاہدین کے موقف کو شدید نقصان پہنچایا جاسکے ۔یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو کھلی کتاب کی طرح پاکستانی قوم کے سامنے آچکی ہیں۔پاکستانی مسلمان بالخصوص اور تمام مسلمان بالعموم اس بات کو نہیں بھولے کہ یہ وہی امریکہ ہے جس نے انجینئر حافظ محمد سعید پر انعامی رقم مقرر کی تھی ۔جوکہ ایک کھلا مذاق اور ایک دھوکہ تھا۔کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ جو شخص امریکہ کو مطلب ہوتا ہے وہ اسے زندہ یا مردہ حاصل کرکے ہی رہتا ہے۔لیکن انعامی رقم جو کہ اس لئے مقرر کی گئی تھی کہ اس کے ذریعے سے پاکستانی مسلمانوں میں جناب انجینئر حافظ محمد سعید صاحب کے مذہبی قدوکاٹھ کو بڑھایا جاسکے تاکہ اس کو مجاہدین القاعدہ اور طالبان کے خلاف استعمال کیاجاسکے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جناب انجینئر حافظ محمد سعید صاحب نے امریکیوں کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ ان کا اسامہ بن لادن سے نہ تو کسی قسم کا کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی اسامہ بن لادن کی حمایت کی ہے۔جناب انجینئر حافظ محمد سعید صاحب امریکہ کو یہ بات باور کرانے میں کامیاب رہے کہ وہ مجاہدین کے حامی نہیں بلکہ مخالف ہیں ۔اورمیڈیا کی جنگ میں وہ مجاہدین اسلام کے خلاف امریکی او رپاکستانی فوجی خدمات انجام دینے کو بالکل تیار ہیں ۔ حتی کہ جناب انجینئر حافظ محمد سعید صاحب نے امریکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے نازل کردہ عذاب جو کہ طوفان کی صورت میں تھا اس کے مقابلے پر امریکہ کو اپنی مدد کی یقین دہانی کرائی ۔اور اس بات کا عزم کیا کہ وہ امریکہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔اور امریکیوں کی مدد کو انہوں نے انسانیت کی مدد قرار دیا۔حتیٰ کہ اس سلسلے میں ان کی جماعۃ اور ان کے کارکنوں نے قرآن اور احادیث کی بے جاتاویلات کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔اور سامری کے بچھڑے کی طرح امریکیوں کی محبت اپنے دل میں بسائے امریکیوں کی مدد کو انسانیت کی مدد قرار دیتے رہیں ۔ جناب انجینئر حافظ محمد سعید صاحب کو اتنی بھی حیاء اور شرم نہیں آئی کہ جو امریکہ فلسطین سے لے کر افریقہ تک مسلمانوں کے خون سے زمین کو رنگین کرچکا ہے۔ وہ امریکہ جس نے مسلمانوں کے اموال کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ۔ وہ امریکہ جس نے مسلمان بچوں کا پوری دنیا میں بے دریغ قتل عام کیا۔ وہ امریکہ جس نے مسلمان بیٹیوں کی عزت وآبرو کو تار تار کیا ۔وہ امریکہ جس نے مسلمانوں کے بیٹوں کو ابوغریب اور کیوبا کے قیدخانوں میں قید کیا ۔ وہ امریکہ جس نے افغانستان کو اجاڑ کر رکھ دیا ۔ اس پر آنے والے عذاب الٰہی کے ضمن میں ہونے والے نقصانات کو انسانیت کی تباہی قرار دیا اور اس ضمن میں امریکیوں کی مدد کرنے کو انسانیت کی مدد کرنا قرار دیا ۔یہ تمام باتیں پاکستانی مسلمان اچھی طرح جان چکے تھے ۔ اور حیران تھے کہ یا اللہ ! یہ امریکہ کی جناب انجینئر حافظ محمد سعید صاحب سے کیسی دشمنی ہے کہ امریکہ باوجود اس کے کہ ان پر انعامات کی رقم مقرر کرچکا ہے ان کو کبھی ہٹ کرنے کی کوشش نہیں کی اور ان کو پاکستان میں چلتی گاڑیوں میں پانی میں بہتی ہوئی کشتیوں پر گھومنے سے نہیں روکتا اور نہ ہی ان کو ڈرون کا نشانہ بنانے کی کبھی بھی امریکہ نے کوشش کی جبکہ موصوف کھلے عام دریاؤں میں سیلابی مقامات پر کشتیوں کے اندر کھلے عام اجتماعات میں مساجد میں عیدگاہوں میں اور عام مقامات میں امریکہ نے کبھی بھی جناب انجینئر حافظ محمد سعید کو ڈرون حملوں کا نشانہ نہیں بنایا اور نہ ہی امریکہ نے اس قسم کے کسی عزائم کا ارادہ بھی ظاہر نہیں کیا۔یہ کیسی امریکہ کی دشمنی ہے ؟ یہ کیسا دشمن ہے کہ اس طرف امریکی ڈرون کا رخ ہی نہیں ہوتا۔یہ تو جماعۃ الدعوۃ کے ایک بزعم خود جہادی لیڈر کی امریکہ دشمنی کا عالم ہے۔جبکہ دوسری طرف مجاہدین اسلام میں سے القاعدہ اور طالبان کے مجاہدین ہیں اگر امریکہ کو یہ معلوم ہوجائے کہ یہ سایہ بھی کسی مجاہد کا ہے تو امریکہ فوراً ان کو اپنے ڈرون طیاروں کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتا۔اس فعل کے دوران امریکہ کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ یہ ڈرون حملہ کسی مسجد میں کررہا ہے کسی اجتماع میں کررہا ہےکسی جنازہ میں کررہا ہے ۔ کسی گھر پر کررہا ہے۔جماعۃ الدعوۃ والوں اپنی آنکھوں پر پڑی ہوئی ناانصافی اور جہالت کی پٹی کو اتار کر دیکھو تو تمہیں صاف نظر آجائے گا کہ امریکہ کی دشمنی کن لوگوں کے ساتھ ہے اور امریکہ کی دوستی کس کے ساتھ ہے؟؟؟؟
چنانچہ شیعوں کی محبت اورولایت او ر امریکہ شرو ع کی ہوئی صلیبی جنگ میں جماعۃ الدعوۃ کی معاونت کی وجہ سے مفتی مبشر احمد ربانی ویڈیوسامنے آئی اس ویڈیو میں موصوف مفتی صاحب نے اپنے نظریات کو اپنی انفرادی رائے قرا ردیا کیونکہ ان کو اس تقریر کے ذریعے سے مسلمانوں میں التباس پیدا کرنا مقصود تھا ۔پہلا مقصد یہ تھا کہ جماعۃ الدعوۃ کی شیعوں سے ولایت مسلمانوں کے نزدیک اب کوئی ڈھکی اور چھپی ہوئی بات نہیں رہی تھی جماعۃ الدعوۃ کے اس مکروہ عمل سے مسلمان جماعۃ الدعوۃ سخت متنفر اور بیزار ہورہے تھے ۔اور سوشل میڈیا پر جماعۃ الدعوۃ سخت ترین تنقید کی زد میں تھی ۔لہٰذا اس تنقید کا زور توڑنے کے لئے مفتی مبشر احمد ربانی کی تقریر اس لئے لائی گئی کہ عام مسلمان جو کہ جماعۃ الدعوۃ اور ان کے امیر جناب انجینئر حافظ محمد سعید سے جو نفرت کرنے لگے تھے اس کو ختم کرنے کے لئے یہ بیان کیا گیا کہ ہم بھی شیعوں کو اسی طرح کافر سمجھتے ہیں جیسے اہل السنۃ والجماعۃ کے علماء ان کو کافر قرار دیتے ہیں۔اور ہم شام میں ہونے والی لڑائی کو جہاد سمجھتے ہیں ۔فساد نہیں سمجھتے ۔اور تقریر کے لب لباب میں مفتی صاحب نے ان تمام باتوں کو اپنی ذاتی رائے قرار دیا ۔یعنی جماعۃ کی پالیسی قرار نہیں دیا اس سے یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی کہ عام مسلمانوں کو اس ویڈیو کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ہماراشیعوں کے بارے میں وہی عقیدہ ہے جو کہ تمام اہل السنۃ کا ہے۔دوسری طرف اس بات کو جماعۃ الدعوۃ کے پلیٹ فورم سے بیان نہیں کیا گیا تاکہ یہ کہہ کر بات کو گول مول کردیا جائے کہ یہ ویڈیو ایک شخص کی ذاتی رائے ہے جماعۃ الدعوۃ کا موقف نہیں ہے۔جیسا کہ انہوں نے امیر حمزہ کی ویڈیو کے سلسلے میں کیا کہ جب اسکردو کے جلسے میں امیر حمزہ نے یہ اعلان کیا کہ جماعۃ الدعوۃ کا بچہ بچہ ملعون خمینی کی چوکھٹ پر قربان ہوجائے گا امریکی حملہ کرنے کی صورت میں تو جب یہ ویڈیو منظر عام پر آئی تو اس ویڈیوپر اہل السنۃ والجماعۃ کی طرف سے شدید تنقید ہوئی تو اس کے جواب میں جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ یہ امیر حمزہ کی اپنی ذاتی رائے ہے۔اس کا جماعۃ الدعوۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اور قارئین کی یاد دہانی کے لئے ہم اس بات کو بتاتے چلیں کہ جماعۃ الدعوۃ کے پلیٹ فورم سے اس تقریر کے اوپر کسی قسم کی کوئی تنقید موجود نہیں ہے۔اور نہ ہی اس سلسلے میں امیر حمزہ سے کسی بازپرس کا ثبوت ملتا ہے۔او رحیرانگی کی بات یہ ہے وزیرستان جو کہ امریکی حملوں کی زد میں ہے آج تک جماعۃ الدعوۃ نے اس بات کا کبھی بھی اعادہ نہیں کیا جماعۃ الدعوۃ کا بچہ بچہ وزیرستان پرامریکی حملہ ہونے کی صورت میں قربان ہوجائے گا ۔ملعون خمینی کی چوکھٹ وزیرستان کے مقابلے پر جماعۃ الدعوۃ کے نزدیک مقدس ہے۔مرتد رافضیوں کے خون کی حرمت جماعۃ الدعوۃ کے نزدیک ہے جبکہ اس کے مقابلے پر اہل وزیرستان کے بہنے والے خون کی حرمت جماعۃ الدعوۃ کے نزدیک بالکل نہیں ہے ۔ کیونکہ اپنے دفاع کی جنگ لڑنے والے مجاہدین اہل وزیرستان کو جماعۃ الدعوۃ خارجی تکفیری اور دہشت گرد قرار دیتی ہے۔مجاہدین القاعدہ جو کہ ان کے مددگار ہیں ان کو بھی جماعۃ الدعوۃ خارجی تکفیری اور دہشت گرد قرار دیتی ہے۔تو دیکھا قارئین یہ ہے جماعۃ الدعوۃ کا وہ مکروہ چہرہ جو مسلمانوں کے سامنے ہے۔اپنے اس مکروہ عمل کے باوجود جماعۃ الدعوۃ کے کارکن رات دن جماعۃ الدعوۃ کی منافقتوں کو چھپانے کے لئے ہمہ وقت مصروف ہیں اور اس سلسلے میں ان کو کسی قسم کی شرم وحیاء کا پاس نہیں ہے۔ اورنہ ہی وہ اس سلسلے میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔
ابھی میں پچھلے دنوں ہی ٹی ٹی پی کارندوں کی ٹوپی ڈرامے پر مشتمل ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم مساجد اور بازاروں میں دھماکوں کو حرام سمجھتے ہیں۔لیکن ابھی ابو زینب فرما رہے ہیں کہ یہ حملہ تو شعیوں کی مسجد میں ہونے جارہا تھا،اس لیے جائز ہوا۔
نام تو آپ نے القول السدید رکھا ہوا ہے لیکن شیعوں کی مساجد جو کہ مسجد ضرار ہیں اس میں کسی مسلمان کی رائے خلاف نہیں ہے۔کیونکہ کوئی بھی مسلمان شیعوں کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے داخل نہیں ہوتا ہے۔کیونکہ یہ مساجد نہیں بلکہ کفر کے اڈے ہیں ۔ یہ اللہ کی مساجد نہیں بلکہ مسجد ضرار ہیں ۔جن کو عبداللہ بن سبا کی اولاد وں نے اس لئے بنایا ہے کہ ان اڈوں کے ذریعے سے مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف جنگ کی جائے ۔ کفر کی آبیاری کی جائے اور توحید کی دعوت کو ملیا میٹ کیا جائے۔تمہارے نزدیک یہ باڑے مساجد ہیں۔جہاں پر گھوڑے پوجے جاتے ہیں ۔ جہاں پر تعزیوں کی عبادت ہوتی ہے۔ان اڈوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں ۔ مسلمانوں کے عقیدہ توحید کو مسمار کرنے کی جدوجہد انہی اڈوں کے ذریعے سے کی جاتی ہے۔یہ تمہارے نزدیک مساجد ہیں جہاں اجتماعی متعہ زنا کی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ایسی مساجد میں جماعۃ الدعوۃ اور ان کی قیادت کو جانا مبارک ہو۔ہم کفر کے ایسے اڈوں سے براء ت کرتے ہیں۔ہمارے ساتھ تمام مسلمان بھی کفر کے ان اڈوں سے براء ت کرتے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ ان اڈوں کو روندنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔جیسا کہ آپ علیہ السلام اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور بعد کے آنے والے مسلمانوں نے کفر کے ان اڈوں کے خلاف کیا ان کو منہدم کیا ان کو ڈھادیاان سے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اس میں یہ داخل ہوں۔
ابو زینب بھائی مجھے آپ اپنے آقاوں کی اس کتاب سے یا کسی بھی فتوے سے یہ دلیل پیش کر دو کہ شعیوں کی مساجد میں خودکش حملے کرنا جائزہے اور باقی میں حرام۔(یاد رہے میں آپ سے دلیل صرف آپکے آقاوں کی مانگ رہا ہوں ،کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ کو شریعت سے جس قدر مس ہے۔اس لیے شریعت سے دلیل مانگ کر آپکو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا)
آپ مجھ سے کیا فتوی ٰ طلب کرسکتے ہو جاؤجاکہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرو کہ اہل السنۃ والجماعۃ اور ان کے حکمرانوں نے ان کفریہ اڈوں کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کیا ۔پڑھتے جاؤ اور شرمندہ ہوتے جاؤ۔
واہ جی واہ۔۔کیا اصول گھڑا ہے ابو زینب صاحب۔۔۔آج آپ کی اس ٹوپی ڈرامہ پر مشتمل کتاب کی بھی سمجھ آگئی۔کہ ہم مساجد پر دھماکوں کو حرام کہتے ہیں ،لیکن۔۔۔۔۔اگر مسجد شعیوں کی ہو تو وہ جائز ہے،اگر مسجد جماعۃالدعوہ کی ہوتو ۔۔۔اگر مسجد بریلویوں کی ہو تو ۔۔۔اور اگر دربار ہو تو۔۔۔۔۔۔یہی آپ کا مطلب ہے نا؟؟؟یقینا یہی۔۔۔۔ہے اس کی آپ کے پاس شریعت سے کوئی دلیل؟؟جاؤ چیلنج ہے پوری سیرت النبی ﷺ سیرت صحابہ کرام اور سیرت سلف صالحین سے اس کی کوئی ایک مثال پیش کر دو۔کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو دھماکوں سے اڑانا۔جیسا کہ آپ نے اسلام آباد میں کرنے کی کوشش کی۔پولیس اہلکاروں کے علاوہ باقی لوگ کون تھے؟کیا وہ سب کے سب مرتد تھے؟کیا آپ کے کارندے نے ان کے ایمان اور عمل کو جان کر پھر جیکٹ پھاڑی؟پولیس اہلکاروں پر تو تم اپنے دل کو جھوٹی تسلی دے سکتے ہو لیکن اس کے علاوہ جو اس دھماکے کا شکار ہوئے یا اس میں زخمی ہوئے؟ان کے بارے کیا حکم ہوگا؟کوئی دلیل؟کوئی فتوی؟لیں جی۔۔کام مکمل۔۔۔۔ایک نیا فتوی۔۔اگر مسجد پبلک مقام پر نہ ہو،لیکن اس میں چاہے جنتے بھی بے گناہ،نمازی،یا پھر جو بھی آجائے۔۔جو مسجد پولیس کے علاقے میں ہے اس میں خودکش حملہ جائز ہے۔۔۔ایسے ہی ہے نہ؟؟؟میں غلط تو نہیں سمجھا؟؟یاد رہے:اس سارے سانحے میں ابو زینب اپنے کالے کرتوتوں کا دفاع کررہا ہے کہ مسجد میں فلاں لوگ تھے اور فلاں جگہ تھی اور فلاں فلاں ۔۔۔۔لیکن ابو زینب سے میرا ایک روح کو ہلادینے والا سوال ہے زرا اس کا جواب چاہئے:ابو زینب وہ مسجد جس کی بھی تھی،اس میں جو بھی تھے وہ جس بھی علاقے کی تھی۔۔۔۔لیکن اسے میں قرآن تو مسلمانوں کے ہی تھے،اس میں مقدس کتابیں تو مسلمانوں کی ہی تھیں؟قرآن کو دھماکے سے اڑانا،احادیث کو دھماکے سے اڑانا اور جان بوجھ کر۔۔۔(استغفراللہ)اس کی کیا دلیل پیش فرمائیں گے؟امید ہے فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے دلیل سے بات کریں گے۔تاکہ وقت اور فورم کی جگہ بچ سکے۔جزاک اللہ خیرا
اب القول السدید نے گمراہ کن خیالات کا اظہار کرنا شروع کردیاہے اور اوٹ پٹانگ باتوں کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ان باتوں کا جواب ہم نے اپنے پوسٹ میں پہلے ہی بیان کرچکے ہیں۔جن کا مزید اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔جو پولیس مجاہدین کو گرفتار کرے ان کو قتل کرے ان کے گھروں کو اجاڑے ڈائنامائٹ کرے کیا ان کے سامنے مجاہدین اپنے آپ کو پیش کردیں یا جنگ کریں گے؟؟؟مجاہدین پاکستان کی پولیس اور فوج سے حالت جنگ میں ہیں کیونکہ یہ فوج اور پولیس صلیبی جنگ کا لشکر ہے۔اس لئے ان کے ساتھ شریعت کے وہی احکام ہوں گے جو کہ صلیبیوں کے بارے میں شریعت کے احکام ہیں۔یاد رہے کہ جو صلیبیوں کے لشکر میں شامل ہے اس کا حکم بھی صلیبیوں والا ہی ہوگا۔اب وہ نماز پڑھتا ہو۔یا روزہ رکھتا ہویا یہ دعویٰ کرے کہ وہ مسلمان ہے۔جاکر اسلامی شریعت کا مطالعہ کرلو فقہاٗ ومحدثین اور علماء سلف کے فتاویٰ کو پڑھ لو سب کچھ آپ کو پتہ چل جائے گا۔ لیکن آپ کو تو ان تمام فتاویٰ کا علم ہے قرآن وسنت کی ان تمام باتوں کو جانتے ہیں ۔ آپ ہی نے تو دوستی دشمنی کتاب شائع کی تھی جس میں یہ تمام باتیں موجود ہیں۔لیکن کیا کیاجائے کہ آپ نے اپنے عمل سے اپنے آپ کو صفت یہود میں شامل کروالیا ۔ یہود نے تو آیت رجم پر ہاتھ رکھا تھا تاکہ رجم کے دلائل کو پڑھا نہ جاسکتے ۔ آپ نے بھی یہود کی طرح عمل کیا کہ یہ کتاب شائع کرنے کے بعد اس کو بازاروں سے اٹھالیا اور مرکزقادسیہ کے تہہ خانوں کے سپرد کردیا تاکہ مسلمان اس کتاب میں بیان ہونے والے شریعت کے اس علم سے بہرہ ور نہ ہوسکیں ۔ ہے نا بالکل یہود جیسا عمل ۔ یہود نے بھی یہی کیا کہ حق کو چھپانے کی کوشش کی ۔ جماعۃ الدعوۃ نے بھی یہود کی طرح یہی کیا کہ بازار سے اس کتاب کو اٹھا کر مرکز قادسیہ کے تہہ خانوں کے سپرد کردیا۔اللہ آپ کو ہدایت دے
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
ابوبصیر صاحب اب آپ کی سمجھ میں اچھی طرح آگیا ہوگا کہ یہ مسجد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھی اور پولیس لائن کے اندر واقع تھی ۔اور خبر کے مطابق وہاں پر پولیس کی اعلیٰ قیادت موجود تھی لہٰذا طالبان نے اس مسجد میں ان کی قیادت کو نشانہ بنایا۔یقیناً یہ مسجد پبلک مقام پر واقع نہیں تھی
. بڑا سوہنا نیکی دا کم کیتا جے..
کیا ہی اچھی لاجک دی ھے مسجد پر حملے کی.
کوئی شرم تو نہی آئی ہو گی؟ کوئی اللہ کا ذرہ برابر خوف؟؟؟
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
. بڑا سوہنا نیکی دا کم کیتا جے..
کیا ہی اچھی لاجک دی ھے مسجد پر حملے کی.
کوئی شرم تو نہی آئی ہو گی؟ کوئی اللہ کا ذرہ برابر خوف؟؟؟
بس اسی طرح کے جواب دینا آپ کا خاصہ بن چکا ہے۔آپ کے طواغیت نے تو بیت اللہ میں پناہ لینے والوں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کیا ۔ شاید تاریخ کا مطالعہ آپ نے کبھی نہیں کیا۔جس فوج کی حمایت آپ اور آپ کی جماعۃ الدعوۃ اور ان کا امام انجینئر حافظ محمد سعید کرتے ہیں اسی فوج نے کعبہ میں پناہ لینے والی عثمانی فوج پر گولیاں چلا کر ان کو قتل کیا تھا۔وہ فوجی کہاں سے گئے تھے کچھ معلوم ہے آپ کو؟ جہاں آپ رہتے ہیں وہ فوجی وہیں سے گئے تھے۔صلیبیت کی خدمت گزاری تو آپ کی فوج کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ اگر میرا وہ پوسٹ اس فورم سے ڈیلیٹ نہیں ہوتا تو میں آپ کو یہ ثابت کردیتا کہ آپ کی فوج کس کی ہے؟یقینا آپ کی فوج کے صلیبیوں کی ہے ۔ انہوں ہی نے اس فوج کو تیار کیا ہے۔اور آج تک آپ کی یہ فوج صلیبیوں کے مقاصد کو انجام دے رہی ہے۔ لیکن اس فوج کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجانی چاہیے کہ اب یہ فوج مسلمانوں کو مزید دھوکہ میں نہیں رکھ سکتی ۔ صلیبیوں کے ساتھ ان کا بھی وہی انجام ہے جو ان کے آقاؤں کا ہے۔کچھ شرم تو ان لوگوں کو بھی کرلینی چاہیے جو اس فوج کو اپنی فوج قرار دیتے ہیں جبکہ یہ فوج تو مسلمانوں ہی کا قتل عام کررتی رہے ۔اور اگر طالبان صلیبی لشکر سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کو ان اپنی مسجد میں نشانہ بنایا تو اس میں شرم کی کیا بات ہوئی ۔یہ لوگ تو مجاہدین سے جنگ میں مصروف ہی ہیں اب ان کی پکڑ کہیں بھی ہوجائے ۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
گھبراؤ نہیں اسحاق،القول السدید،متلاشی ان شاء اللہ ہم جلد تمہیں یہ بتائیں گے کہ تمہاری پسندیدہ فوج نے سوات اور وزیرستان میں مسلمانوں کی کتنی مساجد کو تباہ کیا ہے۔اور ان مساجد میں کتنے مسلمانوں کو شہید کیا ہے۔ان شاء اللہ جلد ہم تمہیں ان تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔پھر تم کبھی بھی ایجنسیوں کی پناگاہوں کے بارے میں شور نہ مچاسکوگے۔ان شاء اللہ
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
بس اسی طرح کے جواب دینا آپ کا خاصہ بن چکا ہے۔آپ کے طواغیت نے تو بیت اللہ میں پناہ لینے والوں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کیا ۔ شاید تاریخ کا مطالعہ آپ نے کبھی نہیں کیا۔جس فوج کی حمایت آپ اور آپ کی جماعۃ الدعوۃ اور ان کا امام انجینئر حافظ محمد سعید کرتے ہیں اسی فوج نے کعبہ میں پناہ لینے والی عثمانی فوج پر گولیاں چلا کر ان کو قتل کیا تھا۔وہ فوجی کہاں سے گئے تھے کچھ معلوم ہے آپ کو؟ جہاں آپ رہتے ہیں وہ فوجی وہیں سے گئے تھے۔صلیبیت کی خدمت گزاری تو آپ کی فوج کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ اگر میرا وہ پوسٹ اس فورم سے ڈیلیٹ نہیں ہوتا تو میں آپ کو یہ ثابت کردیتا کہ آپ کی فوج کس کی ہے؟یقینا آپ کی فوج کے صلیبیوں کی ہے ۔ انہوں ہی نے اس فوج کو تیار کیا ہے۔اور آج تک آپ کی یہ فوج صلیبیوں کے مقاصد کو انجام دے رہی ہے۔ لیکن اس فوج کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجانی چاہیے کہ اب یہ فوج مسلمانوں کو مزید دھوکہ میں نہیں رکھ سکتی ۔ صلیبیوں کے ساتھ ان کا بھی وہی انجام ہے جو ان کے آقاؤں کا ہے۔کچھ شرم تو ان لوگوں کو بھی کرلینی چاہیے جو اس فوج کو اپنی فوج قرار دیتے ہیں جبکہ یہ فوج تو مسلمانوں ہی کا قتل عام کررتی رہے ۔اور اگر طالبان صلیبی لشکر سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کو ان اپنی مسجد میں نشانہ بنایا تو اس میں شرم کی کیا بات ہوئی ۔یہ لوگ تو مجاہدین سے جنگ میں مصروف ہی ہیں اب ان کی پکڑ کہیں بھی ہوجائے ۔
مساجد کے بدلے مساجد؟
واہ رے تیری منطق...
 

اسحاق

مشہور رکن
شمولیت
جون 25، 2013
پیغامات
894
ری ایکشن اسکور
2,131
پوائنٹ
196
گھبراؤ نہیں اسحاق،القول السدید،متلاشی
میں تو ڈر ہی گیا تھا... ابتسامہ
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
گھبرائیں نہیں اسحاق بھائی یہ صرف فورم پر دھماکے کر سکتے ہیں ۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
ابو زینب بھائی میں نے پہلے گزارش کی تھی کہ لمبی لمبی مکھیاں مارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔بامقصد اور مدلل گفتگو ہی موثرہوتی ہے،لیکن آپ اس سے عاری محسوس ہوتے ہیں۔
کیونکہ آپ نے کاپی پیسٹ اور ایک ایسی بات پر اپنی ساری توانائی صرف کردی جس کا سوال تک ہی نہیں کیاگیا۔جبکہ جو سوال کئے گئے ہیں ان کے بارے آپ کی زبان اور قلم میں کوئی جنبش نظر نہیں آئی۔
اگر شعیہ کا اپنی عبادت گاہوں میں شرک کرنے کی وجہ سے آپ ان کی عبادت گاہوں کو دھماکے سے اڑانا جائز ہے، تو پھر بریلوی بھی تو اپنی عبادت گاہوں میں شرک کرتے ہیں ان کو کس بات کا استشنیٰ؟دیوبندی بھی تو شرک کرتے ہیں،ان کو کس بات کا استشنیٰ؟
آپ مجھ سے کیا فتوی ٰ طلب کرسکتے ہو جاؤجاکہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرو کہ اہل السنۃ والجماعۃ اور ان کے حکمرانوں نے ان کفریہ اڈوں کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ کیا ۔پڑھتے جاؤ اور شرمندہ ہوتے جاؤ۔
ابتسامہ۔۔۔۔ہائی لائیٹ کیا گیا لفظ ایک مرتبہ پھر پڑھ اور اپنے پیش کی گئی دلیل پر غور کر۔امید ہے دوبارہ ایسی جہالت پر مبنی دلیل پیش نہیں کریں گے۔

غیرضروری صفحات کالے کرنے کی بجائے موضوع کے متعلق ہی رہیں۔
سوال2:(جس پر آپ نے کلام کرنے پر آپ کو پسینے آنے لگے)جس مسجد میں دھماکہ ہوا،اس میں پولیس والوں کے علاوہ جو لوگ مرے ان کے بارے میں کیا کہو گے؟کیا ان کو بھی مارنا جائز تھا؟
سوال3:مسجد جس کی بھی ہو،خواہ وہاں شرک ہوتا ہو یا عبادت۔لیکن مسجد میں پڑے ہوئے قرآن اور مقدس کتابوں کو دھماکے سے اڑانے کی دلیل طلب کی تھی جو ہنوز آپ نے نہیں دی۔
امید ہے جواب مدلل اور موضوع سے متعلق ہوں گے۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
ابو زینب بھائی میں نے پہلے گزارش کی تھی کہ لمبی لمبی مکھیاں مارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔بامقصد اور مدلل گفتگو ہی موثرہوتی ہے،لیکن آپ اس سے عاری محسوس ہوتے ہیں۔
کیونکہ آپ نے کاپی پیسٹ اور ایک ایسی بات پر اپنی ساری توانائی صرف کردی جس کا سوال تک ہی نہیں کیاگیا۔جبکہ جو سوال کئے گئے ہیں ان کے بارے آپ کی زبان اور قلم میں کوئی جنبش نظر نہیں آئی۔
اگر شعیہ کا اپنی عبادت گاہوں میں شرک کرنے کی وجہ سے آپ ان کی عبادت گاہوں کو دھماکے سے اڑانا جائز ہے، تو پھر بریلوی بھی تو اپنی عبادت گاہوں میں شرک کرتے ہیں ان کو کس بات کا استشنیٰ؟دیوبندی بھی تو شرک کرتے ہیں،ان کو کس بات کا استشنیٰ؟

ابتسامہ۔۔۔۔ہائی لائیٹ کیا گیا لفظ ایک مرتبہ پھر پڑھ اور اپنے پیش کی گئی دلیل پر غور کر۔امید ہے دوبارہ ایسی جہالت پر مبنی دلیل پیش نہیں کریں گے۔

غیرضروری صفحات کالے کرنے کی بجائے موضوع کے متعلق ہی رہیں۔
سوال2:(جس پر آپ نے کلام کرنے پر آپ کو پسینے آنے لگے)جس مسجد میں دھماکہ ہوا،اس میں پولیس والوں کے علاوہ جو لوگ مرے ان کے بارے میں کیا کہو گے؟کیا ان کو بھی مارنا جائز تھا؟
سوال3:مسجد جس کی بھی ہو،خواہ وہاں شرک ہوتا ہو یا عبادت۔لیکن مسجد میں پڑے ہوئے قرآن اور مقدس کتابوں کو دھماکے سے اڑانے کی دلیل طلب کی تھی جو ہنوز آپ نے نہیں دی۔
امید ہے جواب مدلل اور موضوع سے متعلق ہوں گے۔
آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے
نئی دہلی میں 13 دسمبر 2001 کو لشکر طیبہ کے ایک نامعلوم جنگجو کی لاش پارلیمان کی عمارت کے مرکزی دروازے کے سامنے ڈھکی ہوئی پڑی ہے۔ دن دھاڑے کیے جانے والے اس حملے میں لشکر طیبہ کے خود کش اسکواڈ نے عمارت پر دھاوا بول دیا۔ سیکیورٹی فورسز کی طر ف سے جنگجوؤں پر قابو پانے سے قبل ان کے ہاتھوں 12 لوگ ہلاک ہوئے۔​
[اسٹرنگر/ رائٹرز]​
لشکر طیبہ کے شدت پسندوں کے ہاتھوں ہونے والے نومبر 2006 کے ٹرین بم دھماکے کی شکار خاتون اپنے دو بچوں کے ساتھ بھارت کے شمال مشرقی شہر سیلیگوری سے 48 کلومیٹر (30 میل) کے فاصلے پر واقع جلپےگوری کے ایک ہسپتال میں علاج کی منتظر ہے۔ پورے بھارت میں مسافر ٹرینوں پر ہونے والے حملوں نے ریل اور سرحدی سیکیورٹی میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا، جب کئی ٹرین بم دھماکوں میں 182 لوگ ہلاک ہوئے اور کم از کم 842 زخمی ہوئے۔​
[روپک ڈی چوہدری/ رائٹرز]​

اگست 2009 کی اس فائل فوٹو میں پولیس اہلکار محمد حنیف (درمیان والے) کو لے جا رہے ہیں۔ حنیف کو اگست 2003 میں ممبئی کے دو مربوط حملوں کی منصوبہ بندی کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ ایک خصوصی عدالت نے تین لوگوں کو لشکر طیبہ کی طرف سے بھارت کےتجارتی ہب میں دھماکوں کے ایک سلسلے کی منصوبہ بندی کا مجرم پایا۔
[پُنیت پرانج پی/ رائٹرز]

نومبر، 2009 کو پولیس لشکر طیبہ کے مشتبہ رہنماؤں الامین الیاس سیفل (دائیں سے دوسرا)، مفتی ہارون اظہار (درمیان) اور شاہد الاسلام (بائیں سے دوسرا) کو ڈھاکہ کی عدالت میں لے جا رہی ہے۔ یہ تینوں مشتبہ لوگ پاکستانی دارالحکومت میں غیر ملکی سفارتخانوں پر حملے کے ایک دہشت گردانہ منصوبے سے متعلق ہونے پر بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ کے ایک مدرسے سے زیر حراست لیئے گئے۔
[اینڈریو براج/ رائٹرز]

بھارتی اہلکار مسافروں کی لاشوں کا جائزہ لے رہے ہیں جو لشکر طیبہ کے شدت پسندوں کی طرف سے چتراپتی شیواجی ٹرمینس (وکٹوریہ ٹرمینس) ریلوے اسٹیشن، ممبئی پر 26 نومبر، 2008 کو ہونے والے سفاکانہ حملے میں مارے گئے۔ بندوق برداروں نے ہوٹلوں، ہسپتالوں، ایک کیفے اور ریلوے اسٹیشن کو نشانہ بنایا جہاں انہوں نے لوگوں کو یرغمال بنایا اور انہیں قتل کیا اور کمرہ در کمرہ ایلیٹ کمانڈوز سے لڑائی لڑی۔ 166 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 315 سے زیادہ زخمی ہوئے۔
[رائٹرز]

29 نومبر، 2008 کو لشکر طیبہ کے جنگجوؤں کے ساتھ ہونے والی مسلح لڑائی کے دوران بھارتی اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کا ایک رکن جلتے ہوئے تاج محل ہوٹل کے سامنے بھاگ رہا ہے۔ جب سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں پر قابو پایا، تب تک پورے شہر میں ہونے والے منظم حملوں میں 160 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے تھے۔ ایک امریکی شریک جرم ڈینئیل ہیڈلے کو بعد میں دہشت گردوں کی معاونت کا مجرم ٹھہرایا گیا جو اس نے لشکر طیبہ کے دہشت گردوں کو علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کر کے کی۔ وہ سمندری راستے سے کسی کے علم میں آئے بغیر وارد ہوئے اور قریبی ٹیکسیوں کے ذریعے اپنے اہداف پر پہنچے۔
[آرکو ڈاٹا/ رائٹرز]
اب کوئی انصاف کرنے والا انصاف کرے کہ طالبان نے کوئٹہ میں جو کاروائی کی تھی اس سے مقصود یہ تھا کہ پولیس والوں کو نشانہ بنایا جائے۔بس اس کے علاوہ اور کوئی بھی مقصد نہ تھا۔یہ کاروائی ایک مسجد میں نماز جنازہ کے دوران ہوئی ۔ہم القول السدید سے پوچھتے ہیں کہ تمہاری فوج نے جو سوات میں گولہ باری کرکے مساجد شہید کی ہیں اس کا شریعت میں کیا جواز تھا؟
سوات میں جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان اتوار کی شب ہونے والی جھڑپ کے دوران سکیورٹی فورسزکے مارٹر گولوں اور فائرنگ سے 2مساجد شہید جبکہ 3افراد ہلاک ہوئے اور 70 سے زائدگھروں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔http://pak.net/خبریں/سوات-فورسز-اور-جنگجوؤں-میں-جھڑپ،3-افراد-ہلاک،گولہ-باری-سے2-مساجد-شہید،70-گھروں-کو-نقصان-6725/
القول السدید تمہاری فوج نے سوات میں بمباری کرکے دومساجد اور تین افرا کو شہید کیا اور ۷۰ سے زائد گھروں کو شدید نقصان پہنچایا یہ کیا جائز تھا؟

سوات میں جاری فوج کا آپریشن راہ حق کا ایک سال
24 نومبر 2007 تا 24 نومبر 2008​
خودکُش حملے
70 ریموٹ کنٹرول بم حملے​
مجموعی ہلاکتیں: 1500
سیکیورٹی اہلکار: 190 (69 آرمی، 61 پولیس اور 35 ایف سی اہلکار)
مبینہ طالبان: 300
عام شہری: 1000
(زخمیوں کی تعداد : 1500 اہلکار ، عام شہریوں کی تعداد: 1200 )
کرفیو کا نفاذ : پورے گیا رہ مہینے (24 نومبر 2007 تا یکم اکتوبر2008 )
گرفتار کئے گئے طالبان : 1000
اغواہ شدہ سرکاری اہلکاروں کی تعداد: 86
تباہ شدہ سکول، کالجز کی تعداد: 123
گرلز سکول/کالج : 84
بوائز سکول/کالج: 39
تباہ شدہ سرکاری اور نجی املاک کی تفصیل
تباہ شدہ پلوں کی تعداد: 18
بجلی گریڈ سٹیشن منگورہ ( بجلی 24 دن بعد بحال ہوئی)
سوئی گیس پلانٹ (15 دن بعد گیس بحال ہوا)
پولیس تھانے اور چوکیاں: 10 عدد
ڈسپنسریاں : 5 عدد
سی ڈیز سنٹر /سنوکر کلب/ حجام کی دکانیں : 100 عدد
کیبل نیٹ ورک آفس: 3 عدد
سوات سے نکل مکانی کرنے والوں کی تعداد: 5 لاکھ افراد (کل آبادی: 16 لاکھ)
ہوٹل جو بند پڑے ہیں: 800
دوران آپریشن 2000 مکانات تباہ جبکہ 40 مساجد شہید
یہ سب آپ کی فوج کے کارنامے ہیں جو اس نے ایک سال کے دوران انجام دیئے۔
پاکستانی مجرم فوج کے کارنامے جنہوں نے اللہ کی مساجد کی حرمت کو پامال کرکے رکھ دیا:
ارشاد احمد ارشد
آپریشن لال مسجد: آنکھوں دیکھے درد ناک مناظر:
3جولائی کوشروع ہونے والے آپریشن کے وقت لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے قرب وجوار میں انتہائی سختی تھی۔ کرفیو نافذ تھا' کسی ذی روح کوقریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہ تھی' مسجد کے اندرجانے کی اجازت صحافیوں اورعلماء کی مذاکراتی ٹیم کوبھی نہ تھی۔ اس کے باوجود مسجد وجامعہ حفصہ میں جوہوا' اس کی داستانیں ایک ایک کرکے منظرعام پر آرہی ہیں۔
آبپارہ میں ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی جس کا بھائی حافظ ابوبکر عمر17سال جامعہ فریدیہ کا طالب علم تھا اور وہ لال مسجد آپریشن میں شہید ہوچکا ہے۔
حافظ ابوبکرکا بھائی کہتا ہے' مجھے آپریشن کے فوراً بعد معلوم ہوگیا تھاکہ مسجد اور جامعہ کی صفائی C.D.A کے خاکروب کررہے ہیں۔ لہٰذا میں اپنے جاننے والے خاکروبوں کی تلاش میں تھا۔ تین دن بعد میری چندخاکروبوں سے ملاقات ہوئی' توانہوں نے بتایا ہم نے لال مسجداورجامعہ حفصہ میں جوصفائی کی' وہ گولیوں سے چھلنی لاشوں اور لاشوں کے بکھرے ہوئے اعضاءکواٹھانے اور تابوتوں میں بندکرنے کی صفائی تھی۔
ایک خاکروب کاکہنا تھا ' ہمارے لئے یہ شمار کرنا مشکل تھا کہ اندر بکھرے ہوئے انسانی اعضاءزیادہ ہیں یا گولہ باری کے نتیجہ میں ٹوٹی اوربکھری ہوئی اینٹیں زیادہ ہیں۔ ہرجگہ انسانی اعضاءاور گوشت کے لوتھڑے تھے۔ مسجد کا فرش' سیڑھیاں ' تہہ خانے' بیت الخلاء' منبرومحراب اور پانی کا تالاب الغرض ہر جگہ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے خون کاچھڑکاؤ کردیا ہو۔ اینٹوں اور ملبے کے ڈھیر'کٹی پھٹی کھوپڑیاں 'کھوپڑیوں میں لڑکیوں کے بالوں کے گچھے' آنکھوں کے ڈھیلے اور بعض جگہ کھوپڑیوں میں جما ہوا خون عجیب ڈراؤنا اور وحشت ناک منظر تھا۔ بہت کم لاشیں سلامت یا اصلی حالت میں تھیں۔ لاشوں کودیکھ کر یوں لگتاتھا جیسے کسی نے ان کے معدوں میں پٹرول انڈیل کر آگ لگادی ہو یاجسموں کے ساتھ ڈائنامیٹ باندھ کر انہیں اڑا دیا ہو۔ جامعہ حفصہ کی حالت بہت ابتراورعبرتناک تھی ۔ وہاں بعض جگہوں پراتنا خون تھاکہ پاؤں پھسل جاتا' ہرطرف تعفن اور بدبوتھی۔ بعض لاشیں انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں تھیں۔ یہاں بھی اکثرلاشیں کٹی پھٹی تھیں۔ بچیوں کے خون آلود کپڑے اور گولیوں سے تارتار دوپٹے ہرطرف بکھرے پڑے تھے۔ وہاں اگرچہ آرمی کا سخت پہرا تھا مگرہم نے دیکھا کہ بلیاں کسی نہ کسی طرف سے خون اور گوشت کی بوسونگھ کر آنکلتیں۔ بلیاں لاشوں اورگوشت کے لوتھڑوں کوسونگھتی ضرورتھیں مگر کھاتی نہیں تھیں۔ شاید اس لئے کہ دوران حملہ زہریلے ہتھیار استعمال کئے گئے تھے۔ ہمارا کام لاشوں 'اعضاءاور گوشت کے انسانی لوتھڑوں کو تابوتوں میں بند کرنا تھا۔ مجھے نہیں یاد کہ ہم نے کسی تابوت میں کوئی مکمل یا صرف ایک ہی لاش بند کی ہو۔ بہت سے تابوتوں میں ملے جلے اعضاء ڈال دئیے گئے۔ ایسے بھی تابوت تھے جن میں دھڑ کسی کا تھا تو ٹانگیں کسی کی۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ تھا۔ خون کی صفائی ۔ یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ کام تھا۔ مسجد کے پانی کااپنا سسٹم تباہ ہوچکا تھا ۔ سب سے پہلے اسے ہنگامی طور پر درست کیا گیا مگریہ پانی ناکا فی تھا ۔ فائربریگیڈکی گاڑیاں اور C.D.A کے واٹرٹینک منگوائے گئے اور پریشر والے پائپ سے دیواریں اور فرش دھوئے گئے۔
( جاری ہے )
ماھنامہ "الدعوہ"
جامعہ حفصہ کی دینی کتب اور قرآن مجید
لال مسجدکے قریبی ذرائع کے مطابق لال مسجد میں ایک ہزار سے زائد قرآن مجید سادہ اور ترجمے والے تھے۔ دو سے اڑھائی ہزار مکمل سیٹ کی صورت میں سپارے تھے' دعاؤں کی کتابیں اور نورانی قاعدے بھی لاتعداد تھے۔ مولانا عبدالعزیز کے خاندان کے ایک قریبی رشتہ دار جو جامعہ فریدیہ میں ایک اہم ذمہ دار بھی ہیں' ان کے مطابق جامعہ حفصہ میں 6000 طالبات زیرتعلیم تھیں۔ 6000 طالبات کے لئے کم ازکم 4000 قرآن مجید کا عمومی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 6000 طالبات کے لئے کلاس اول سے کلاس ہشتم تک کورس کی دینی کتب 'تفسیر اور احادیث کی بھی ہزاروں کتابیں ہوں گی۔ بتایا جاتاہے کہ جامعہ حفصہ کی لائبریری بھی بہت شاندار اور خوبصورت تھی ۔جس میں ہزاروں کتابیں تھیں۔ یہ ہزاروں قرآن مجید' ہزاروں احادیث اور تفسیرکی کتابیں سب کہاں گئیں؟ اگرحکومت نے انہیں کسی دوسری جگہ منتقل کیا ہے تو مجموعی طورپر لاکھ ڈیڑھ لاکھ کتب کی منتقلی میڈیاکی آنکھ سے کیوں کرپوشیدہ رہ گئی۔ اگرخدانخواستہ قرآن مجید اور کتب احادیث کا ذخیرہ کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کیاجاسکا تو وہ اس وقت کہاںہے؟ کیالال مسجد اور جامعہ حفصہ میں کتاب اللہ اور دینی کتب کے ساتھ وہ سلوک ہوا ہے جو سقوط اندلس کے وقت عیسائیوں نے کیاتھا؟ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بعض ذرائع کاکہناہے کہ آپریشن میں آگ لگانے والے بم اور مارٹر گولے استعمال کئے گئے۔ آبپارہ کا ایک رہائشی جس کا تعلق ماضی میں پاکستان آرمی سے رہا ہے' اس کا کہنا تھا کہ آپریشن میں آرٹلری نے بھی حصہ لیا ہے۔ ایسی حالت میں جب جامعہ حفصہ کی عمارت کا بیشترحصہ آگ کی لپیٹ میں آجائے اور ملبے کا ڈھیربن جائے توپھر قرآن مجید اور دینی کتب کہاں محفوظ رہے ہوں گے۔
قرآن مجید اور دینی کتب کے ساتھ جوکچھ ہوا 'اس کا ہلکا سااندازہ اسلام آباد کی ستارہ مارکیٹ (ٹینکی سٹاپ) سٹریٹ 27 کے سامنے جامعہ حفصہ کے پھینکے جانے والے ملبہ کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ جس نالے میں ملبہ پھینکا گیا ہے 'اس کے ساتھ ہی پبلک لیٹرینیں ہیں۔ یہ ملبہ جمعرات کی شب 19جولائی کو پھینکا گیا ۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ جمعرات کی شب ہمارے علاقے کی بجلی تقریباً 4 گھنٹے کے لئے بند ہوگئی۔اسی دوران C.D.Aکے ٹرکوں کے ذریعے ملبہ پھینکا گیا۔ یہ بات طے ہے کہ جرم ہمیشہ نشان چھوڑتا ہے۔ یہاں بھی ایسے ہی ہوا۔ جامعہ حفصہ میں بہت ساقیمتی سامان ایسابھی تھا جو جلنے اور تباہ ہونے سے بچ گیا۔C.D.A کے خاکروبوں نے اس سامان کوالگ کرلیا۔
آپریشن انچارج کی طرف سے سختی سے ہدایت تھی کہ جامعہ حفصہ کا ملبہ شہر سے باہر دور دراز مقامات پر پھینکا جائے لیکن قیمتی سامان دیکھ کرخاکروبوں کا دل للچایا۔ لہٰذا انہوں نے ستارہ مارکیٹ کے نالے میں پہلے تو قرآن مجید' دینی کتب اور انسانی اعضاءپھینکے'اوپر ٹوٹی اینٹوں'دیواروں 'فرش کا ملبہ پھینکا اور اس کے اوپر دیگرقیمتی چیزیں۔ C.D.A کے ٹرک یہ چیزیں پھینک کرچلے گئے تو بعدمیں خاکروب بہت سا سامان رات کواٹھا کرلے گئے۔ باقی جوچیزیں رہ گئی تھیں ' انہیں اٹھانے کے لئے وہ علی الصبح پہنچ گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی وہاں مسلمان بچے اور اس کے بعد بڑے بھی اکٹھے ہوگئے۔ پھرلوگوں نے جب ملبے کواوپرنیچے کیا توانسانی اعضاء' صحیح سلامت اور شہید قرآن مجید کے نسخے برآمد
ہونے لگے۔ راقم نے بھی وہاں بہت سے خون آلود' گولیوں سے چھلنی' پھٹے ہوئے کپڑے دیکھے' جن میں خواتین کی قمیضیں 'شلواریں' دوپٹے اور مردانہ کپڑے بھی تھے۔ اسی طرح وہاں خون آلود جرسیاں اور سویٹربھی تھے۔ جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ مسجد اورجامعہ میں بہت زیادہ خون بہایا گیا جسے صاف کرنے کے لئے ہرقسم کے کپڑے استعمال کئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا ملبہ پتھر سے پتھردل انسان کوبھی رلادیتا ہے۔ خودمیرے لئے بھی یہاں آنسو ضبط کرنا ممکن نہ رہا۔ ذرائع کے مطابق اس طرح کاملبہ اسلام آباد سے باہر دوردراز 7,6جگہوں پر پھینکا گیا ہے۔
( جاری ہے )
ماھنامہ "الدعوہ "
Hالیون کے قبرستان میں:
C.D.A نے اسلامی یونیورسٹی کے قریب حال ہی میں ایک نیاقبرستان بنایا ہے ۔ لال مسجد کے سانحہ سے پہلے اس قبرستان میں صرف 105قبریں تھیں۔10جولائی کے بعد یہاں 78 نئی قبروں کااضافہ ہوچکا ہے۔ یہ قبریں لال مسجد کے شہدا کی ہیں۔ میں جب Hالیون کے قبرستان گیا تووہاں لوگوں کاایک بڑا ہجوم تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے بچے'بچیاں شہید ہوچکے ہیں یا ابھی تک لاپتہ ہیں' سب کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پردعائیں تھیں۔ قبرستان کے گورکن نے بتایا" ہمارے پاس لائے گئے تابوت چاروں طرف سے مکمل بند تھے۔ تابوت میں چہرے کی جگہ عام طورپرشیشہ لگا ہوتا ہے لیکن ان تابوتوں میں شیشہ نہیں تھا۔" گورکن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا" ہم عرصہ سے میتیں' تابوت اٹھانے اور قبریں کھودنے کاکام کر رہے ہیں۔ تابوت اٹھاکر ہمیں میت کے وزن کااندازہ ہو جاتا ہے۔ لال مسجد سے لائے جانے والے تابوت غیرمعمولی طورپر بہت بھاری تھے۔ یوں معلوم ہورہا تھا جیسے تابوت ٹھونس ٹھونس کر بھردئیے گئے ہوں اور تابوتوں میں ایک سے زائد میتیں یا پھربہت سے کٹے پھٹے اعضا ڈال دئیے گئے ہوں۔
لا پتہ طلبہ و طا لبات :
اس وقت کوئی ایسا مصدقہ ذریعہ موجود نہیں جس سے لاپتہ طالبات کی تعداد کا حتمی اور یقینی اندازہ کیاجاسکے۔
صرف دوہی افراد ہیں جولاپتہ طالبات کی حتمی یا یقین کے قریب تعداد بتاسکتے ہیں۔ وہ ہیں مولاناعبدالعزیز اور ام حسان۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ 2000 سے زائد طالبات لاپتہ ہیں۔ جامعہ حفصہ کی تین طالبات جوآخروقت میں باہر آئی تھیں' ان سے اس سلسلے میں راقم کا فون پررابطہ ہوا توانہوں نے بھی یہ تعداد 2000 کے لگ بھگ بتائی ہے۔ طالبات کی تعداد کے بارے میں یہ تین ذرائع بظاہر مستند ہیں ۔اس لئے فی الوقت انہی اعدادوشمار پریقین کرنا پڑے گا۔ مولاناعبدالعزیز کے خاندان کاایک قریبی ذریعہ جس سے اسلام آباد میں میری ملاقات ہوئی ' اس نے راقم کوبتایا کہ جامعہ حفصہ میں بہت سی لاوارث خواتین' بچیاں اور طالبات تھیں ۔اسی طرح زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کی بھی بہت سی لاوارث خواتین 'چھوٹی بچیاں اور طالبات تھیں جن کی مجموعی تعداد 1000 کے قریب ہے' یہ سب بھی لاپتہ ہیں۔
اس معاملے کا تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ کچھ ایسے افراد جواپنی بچیوں کی تلاش میں اسلام آباد آئے تھے'اب ان کے اپنے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں درج ہو چکے ہیں۔ لاپتہ افراد کی عمریں 10 سے 65 سال ہیں۔ ان میں اکثریت نوعمربچوں اور بچیوں کی ہے۔ مثلاً ہنگو سے ہادیہ بی بی اور ہاجرہ بی بی لاپتہ ہیں' ان کی عمریں بالترتیب 10سے12 سال ہیں۔ اٹک کا 65 سالہ محمد یونس خان اپنی نواسی کی تلاش میں آیا اور خودبھی لاپتہ ہوگیا۔
راقم نے اسلام آباد میں ایک رات سپورٹس کمپلیکس کی مسجد سلمہ بن اکوع میں گزاری۔ سپورٹس کمپلیکس میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے امدادی اور اطلاعاتی مرکز بنایاگیا ہے۔یہاں آکر لاپتہ افراد کے ورثاء کی درماندگی و پریشانی کااندازہ ہوتا ہے ۔کوئی اپنے بچے کوتلاش کررہا ہے ' کوئی بچی کو' کوئی بھتیجے کو اور کوئی بھانجی کو ' کسی کا بچہ یا بچی گم ہے' کسی کا بچہ شہید ہے تولاش نہیں مل رہی ہے۔ عجب بے بسی کی کیفیت ہے۔
یہاں خیبرایجنسی کے مقبول احمد سے ملاقات ہوئی ۔ مقبول احمد ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ کہتے ہیں3جولائی کو میں گاؤں میں تھا ' معلوم ہوا کہ لال مسجد پرحملہ ہوگیا ہے'میں6 جولائی کواسلام آباد پہنچ گیا۔ میرے بیٹے کانام گل شیرہے اورعمر18سال ہے۔ وہ دوسال سے جامعہ فریدیہ میں پڑھ رہا تھا۔ جب فون پرمیرا اس سے رابطہ ہوا تومیں نے اسے کہا"اے فرزند! میں نے تجھے یہاں پڑھنے کے لئے بھیجا تھا نہ کہ حکومت سے مقابلہ کرنے ۔ اس لئے فوراً مسجد سے باہر نکل آؤ ۔ میرابیٹا باہرنکل آیا تو سرنڈر کرنے کی خوشی میں اسے رینجرز نے پکڑلیا' اس وقت سے بیٹا جیل میں ہے اورمیں دھکے کھارہا ہوں۔
کمپلیکس میں اگرایک طرف دکھ اور درد کی کہانیاں ہیں تو دوسری طرف امید اورروشنی کے چراغ بھی ہیں۔ یہاں ہنگوسے تعلق رکھنے والے سیدگل شاہ سے ملاقات ہوئی۔ ان کے بیٹے کانام ہے سیدجمیل بادشاہ اور عمرہے20 سال۔ گل شاہ کہتے ہیں' میں11 جولائی کوبیٹے کی تلاش میں آیا ۔ 19 جولائی کو پمزہسپتال میں بیٹے کے دودوستوں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا' 9 جولائی کے دن میرا بیٹامسجد کے ہال میں بیٹھا تلاوت قرآن کررہا تھا ۔اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف نہیں بلکہ قرآن مجید تھا کہ اچانک گولہ لگا جس سے میرے بیٹے کو آگ لگ گئی' وہ آگ میں زندہ جل کرشہید ہوگیا۔ گل شاہ کہتے ہیں" اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے شہید بیٹا عطا کیا۔ میرے بیٹے کے ساتھ اس کا ایک دوست اعجاز بھی شہید ہوگیا۔ جمیل کے بعد میرے 8 بیٹے اور ہیں'اللہ نے چاہا تومیں سب کودین کاعالم بناؤں گا۔ میں چاہوں گا کہ میرے باقی بیٹے بھی اللہ کے راستے میں شہادت کی سعادت حاصل کریں۔"
یہاں کوٹلیستیاں کے عبدالخالق سے بھی ملاقات ہوئی۔ان کا 17 سالہ بھائی حافظ ابوبکر جامعہ فریدیہ کا طالب علم تھا۔ عبدالخالق کہتے ہیں "میرے والدکا اصرار تھا کہ ابوبکر باہر آجاؤ ۔ والد' والدہ اور میں اس سے باربار رابطہ کرتے 'اسے کہتے باہرآجاؤ۔ ہمار اس سے آخری رابطہ 5 جولائی کوشام 6 بجے ہوا۔ والد نے اسے پھرباہرآنے کے لئے کہا تو وہ کہنے لگا میرے اردگرد قرآن مجید کے شہید نسخوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے' گولیاں قرآن کے اوراق سے آرپار ہورہی ہیں اور میرے بہت سے دوست زخمی یا شہید ہوچکے ہیں۔ ایسے حالات میں میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں ان افسروں کے ہاتھوں گرفتاری دے دوں جن کے ہاتھ قرآن مجید کی شہادت اور توہین سے آلودہ ہیں۔"
ہم فون پراس کی بات سن ہی رہے تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا اورہمارے بیٹے کا موبائل خاموش ہوگیا۔ اس کے تین دوستوں کے نمبربھی ہمارے پاس تھے'ان پررابطہ کیا تو وہ بھی خاموش تھے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہواکہ ہمارا بھائی شہید ہوچکا ہے' ابھی تک ہمیں بھائی کی لاش نہیں ملی۔ عبدالخالق کہتے ہیں ' دو دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ تین فوجی ٹرکوں کے ذریعے لاشیں سہالہ پولیس اکیڈمی لائی گئی ہیں۔ ہم وہاں پہنچے توپولیس والوں نے اندر داخل نہ ہونے دیا۔ ہم نے اصرارکیا توگولی مارنے کی دھمکی دی گئی۔ وہاں مقامی لوگوں نے بتایا کہ رات کے وقت بلڈوزروں کے ذریعے گڑھے کھود کر سینکڑوں لاشیں دفنا دی گئی ہیں۔"
عبدالخالق کہتے ہیں۔ حافظ ابوبکرکی شہادت کی مجھے اور میرے والدین کوخوشی ہے۔ ہم سے کسی کی آنکھوں میں آنسو نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لال مسجد کے منبرومحراب سے دوبارہ اذان کی آواز گونجے۔ ہم 6 بھائی ہیں۔ اس مقصد کے لئے جانیں قربان کرنا فخرسمجھتے ہیں۔"
( ارشاد احمد ارشد کا یہ مضمون مکمل ہوچکا ہے )
ما ھنامہ " الدعوہ "
میران شاہ: مدرسہ بم سے اڑا دیا گیا
شمالی وزیرستان کے مقام میران شاہ کے قریب واقع ایک مدرسہ کو سکیورٹی فورسز نے منہدم کر دیا ہے۔
منہدم کیے جانے والے اس نجی مدرسے کا نام خلیفہ اسلامی مدرسہ تھا اور اس سے حکام کو مطلوب طالبان رہنما جلال الدین حقانی کا بھی تعلق بتایا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق فوجی اہلکاروں نے پہلے مدرسے کی عمارت سے تمام کتابیں نکال لیں اور پھر اس کے اندر دھماکہ خیز مواد رکھ کر اس میں دھماکہ کر دیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2006/03/060315_miranshah_madrasa_uk.shtml
میرے خیال ایک حق کے متلاشی کے لئے اتنے ہی دلائل کافی ہیں۔
 
Top