• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں

اس لیے کہ ہم ﷲ کے فضل سے اہل حدیث ہیں اورقرآن وحدیث پر عمل کرنا اہل حدیث کا مذہبی شعار ہے۔ جب رفع یدین سنت ہے جو صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے تو ہم اس سنت پر عمل کیوں نہ کریں۔ رفع یدین کی احادیث مختلف صحابہ رضی اللہ عنہما سے تمام کتب احادیث میں مروی ہیں۔

سب سے صحیح حدیث حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ہے جو صحاح ستہ اور دیگر تمام کتب حدیث میں مذکور ہے۔ وھو ہذا:
((عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اللہ اِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرَّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ))۱

عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کودیکھا کہ وہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور سجدہ میں آپ ایسا نہیں کرتے تھے۔


ماننے والوں کے لیے رفع یدین کے ثبوت میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کی ایک یہی حدیث کافی ہے کیونکہ یہ سب سے صحیح ہے ۔ا س کے مقابلے میں کوئی ایک حدیث صحیح تو درکنار اس کے پاسنگ بھی نہیں۔

امام بخاری کے استاد امام علی بن مدینی اسحدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔

رَفْعُ الْیَدَیْنِ حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کُلُّ مَنْ سَمِعَہ‘ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّعْمَلَ بِہِ۔۲

یعنی اس حدیث کی رو سے رفع یدین کرنا ہر مسلمان پر حق ہے۔ یہ حدیث اتنی صحیح ہے کہ مخلوق پر حجت ہے جو اس کو سنے اس کو چاہیے کہ اس پرعمل کرے۔


مولانا انور شاہ کشمیری حنفی دیوبندی جو حنفیوں میں بہت بڑے محدث ہو گزرے ہیں او ر دارالعلوم دیو بند میں حدیث کے استاد رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے رسالہ ’’ نیل الفرقدین‘‘ صفحہ 26میں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:


’’اَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ فَھُوَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کَمَا ذَکَرَہ‘ عَنِ ابْنِ الْمَدِیْنِیْ‘‘۳

یعنی امام علی ابن مدینی نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ یہ حدیث ہر لحاظ سے اتنی صحیح ہے کہ سچ مچ ہی مسلمانوں پر رفع الیدین کو لازم کرتی ہے۔


کتاب الام میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’لاَ یَجُوْزُ لِاَحَدٍ عَلِمَہ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عِنْدِیْ اَنْ یَّتْرُکَہ‘‘‘

امام ابن جوزی بھی اپنی کتاب ’’نزہۃ الناظر‘‘ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک ایسا ہی قول نقل کرتے ہیں:

’’لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ سَمِعَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ اَنْ یَّتْرُکَ الْاِقْتِدَاءَ بِفِعْلِہ وَ ھٰذَا صَرِیْحٌ اِنَّہ‘ یُوْجِبُ ذٰلِکَیعنی

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی ایسی صحیح حدیث سنے اور پھر رفع یدین نہ کرے۔

ایسی صحیح حدیث ہو تو اس پر عمل کرنا خود بخود واجب ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ائمہ نماز میں رفع یدین کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ایسی صحیح اور صریح حدیث کے بعد کسی اور حوالے کی ضرورت تو نہ تھی ‘


لیکن حنفیوں کے مزید اطمینان کے لیے ترمذی شریف سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔

امام ترمذی فرماتے ہیں رفع الیدین کی حدیث کے راوی صرف حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت کعب بن مالک بن الحویرثؓ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ ‘ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ‘ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ‘ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت عمیر اللیثی رضی اللہ عنہ ۔۔۔ یہ صحابہ کرام بھی رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں۔ دیگر کتابوں میں اور بہت سے صحابہ سے رفع یدین کی روایات آتی ہیں‘ لیکن سب کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مسئلے کے ثبوت کے لیے تو ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے


رفع یدین منسوخ بھی نہیں

حنفی علما یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث تو صحیح ہے ‘ لیکن رفع یدین شروع میں تھی‘ پھر منسوخ ہو گئی‘ کیوں کہ:

1- جن صحابہ سے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا رفع یدین کرنا مروی ہے ‘ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے بعد میں ترک کر دی تھی۔

2- حضرت عبد ﷲ بن عمررضی ﷲ عنہ جو رفع یدین کی صحیح ترین روایت کے راوی ہیں حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔۶بلکہ جو رفع یدین نہ کرتا تو وہ اس کو کنکر مارتے۷

3- حضرت مالک بن الحویرث 9 ھ میں گرمی میں مسلمان ہوئے‘ انھوں نے رسول ﷲ ﷺ کو متنازعہ رفع یدین کرتے دیکھا۔۸

4- حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9ھ میں سردی میں مسلمان ہوئے انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ ﷺ کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ پھر جب اگلے سال 10ھ میں وہ سردیوں میں دوبارہ مدینہ آئے تو انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو رفع یدین کرتے دیکھا۔

اس سے ثابت ہوا کہ رسول ﷲ ﷺ 10ھ یعنی اپنی آخری زندگی میں رفع الیدین کرتے تھے۔

5- رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کا رفع یدین کرنا ۔


چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام حمید بن ہلال رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

((کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ یَرْفَعُوْنَ))۱۰قریباً تمام صحابہ رفع یدین کرتے تھے۔


6- حضرت سعید بن جبیر جو جلیل القدر تابعی ہیں وہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔

7- حضرت ابوحمید ساعدی کا دس صحابہ کی موجودگی میں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر دکھانا اور اس میں رفع یدین کرنا اسی طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھنا اور پھر کہنا کہ اس طرح نماز پڑھا کرو اور خاص کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع یدین کرکے نماز پڑھنا (تلخیص اور بیھقی )


یہ سب ایسے دلائل ہیں جن سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے مولانا انور شاہ کشمیری کو ماننا پڑا۔

’لَمْ یُنْسَخْ وَ لاَ حَرفٌ مِنْہُ‘‘

رفع یدین کی سنت کا منسوخ ہونا تو درکنار‘ رفع یدین کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔


یعنی ان کو بھی تسلیم ہے کہ رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی دائمی اورمستقل سنت ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی مستقل اور دائمی سنت ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور منسوخ بھی قطعاً نہیں تو پھر حنفی نماز میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے‘ کیا حنفی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی احادیث کو نہیں مانتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی ‘ حنفی مذہب کا پابند ہوتا ہے ۔ چونکہ حنفی مذہب میں رفع یدین نہیں اس لیے حنفی رفع یدین نہیں کرتے۔ رہ گیا احادیث کے ماننے کا سوال تو حنفی صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو ان کے مذہب کے مطابق ہوں ‘ جو احادیث ان کے مذہب کے خلاف ہوں خواہ وہ کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہوں حنفی ان کو نہیں مانتے۔ اگر حنفی احادیث کو مانیں تو وہ حنفی نہیں رہ سکتے۔ اگر انھوں نے احادیث کو ماننا ہو تو وہ حنفی کیوں بنیں؟ یہی وجہ ہے حنفیوں کے بہت سے مسائل حدیث کے خلاف ہیں۔ حنفیوں کا اصل مذہب حنفی ہے‘ وہ فقہ حنفی پر ہی چلتے ہیں خواہ وہ حدیث کے موافق ہو یا مخالف۔ حنفی اہل حدیث نہیں جو وہ حدیث پر چلیں۔ حدیث پر چلنا تو اہل حدیث کا کام ہے۔ اہل حدیث کسی کی تقلید نہیں کرتے کہ کسی کی فقہ ان کا مذہب ہو۔ ان کا مذہب تو حدیث ہے‘ جب حدیث صحیح ثابت ہو گئی تو وہ اس پر عمل کریں گے۔

انتباہ :

بعض حنفی مولوی یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہو گئی۔ اب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ 10ھ تک بلکہ وفات تک رسول ﷲ ﷺ کا رفع یدین کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت وائل اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خاص کر


عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل اور بیان سے واضح ہے۔

فَمَا زَالَتْ تِلْکَ صَلٰوتُہ‘ حَتّٰی لَقِیَ اﷲَ۱۵یعنی ’’ رسول اﷲﷺ دنیا سے رخصت ہونے تک رفع یدین کرتے رہے‘‘ ۔۔۔


ملاحظہ ہو حنفیوں کی مشہور کتاب ’’ نصب الرایۃ فی تخریج احایث الھدایۃ‘‘ اب جس مولوی یا مفتی کا یہ دعویٰ ہو کہ رفع یدین منسوخ ہے تو اس کا فرض ہے کہ 10ھ کے بعد کی کوئی ایسی صحیح حدیث دکھائے جس میں یہ صراحت ہو کہ 10ھ کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے رفع یدین بالکل ترک کردی تھی۔ رہ گئی عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایات جن کو اکثر حنفی مولوی پیش کرتے ہیں تو اولا تو وہ سخت ضعیف ہیں‘ بڑے بڑے ائمہ محدثین

مثلا امام بخاری‘ امام احمد‘ امام ابوداؤد ‘ امام دار قطنی‘ وغیرھم ان کو ضعیف کہتے ہیں۔ ثانیا ان ضعیف احادیث کی تاریخ کا کوئی پتا نہیں کہ وہ 10ھ سے پہلے کی ہیں یا بعد کی۔ رفع یدین کو منسوخ ثابت کرنے کے لیے 10ھ کے بعد کی کوئی صحیح حدیث ہونی چاہیے۔ پہلے کی کسی حدیث کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر حنفی مولوی یہ ثابت نہ کر سکیں کہ یہ حدیث10ھ کے بعد کی ہے اور صحیح ہے جس سے ان کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ اور وہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے(لَوْ کاَنَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا)[17:الاسراء:88]

تو ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ انھیں رسول ﷲ ﷺ کی ثابت شدہ سنت رفع یدین کی مخالفت ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ جب رسولؐ ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کا ترک بہت بڑا جرم ہے تو اس کی مخالفت کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا۔ترک سنت کی سزا


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

((سِتَّۃٌ لَعَنْتُھُم وَ لَعْنَھُمُ ﷲُ وَ کُلُّ نَبِیٍّ کَانَ الزاءِدُ فِی کِتَابِ ﷲِ وَالْمُکَذِّبُ بِقَدَرِ ﷲِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِیُعِزَّمَنْ اَذَلَّ ﷲُ وَ یُذِلَّ مَنْ اَعَزَّ ﷲُ وَالْمُسْتَحِّلُ لِحَرَمِ ﷲِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِن عِتْرَتِیْ مَا حَرَّمَ ﷲُ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِیْ))۱۶

یعنی چھ شخصوں پر ﷲ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی لعنت کرتا ہے اور ﷲ بھی لعنت کرتا ہے اور ان چھ شخصوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تارک ہو۔


کیا ان کو ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے ڈر نہیں لگتا جو رفع یدین جیسی اہم اور دائمی سنت کے صرف تارک ہی نہیں بلکہ مخالف بھی ہیں۔ جو اس سنت پر عمل کرتا ہے وہ اس کو برا جانتے ہیں۔ انجام بخیر چاہنے والے ہر حنفی کو چاہیے کہ وہ تعصب کوچھوڑ کر ٹھنڈے دل سے اس رسالہ کو پڑھے اور اپنے مولوی اور مفتی کو بھی پڑھائے پھر ان سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم د ے کر پوچھے کہ کیا رفع یدین سنت نبوی نہیں ؟ کیا واقعی یہ منسوخ ہے جس مولوی یا مفتی کے دل میں ذرا بھی آخرت کا خوف ہوگا وہ یہ رسالہ پڑھ کر کبھیبھی قرآن پر ہاتھ کر قسم نہیں کھائے گا کہ رفع یدین سنت نبوی نہیں۔یا یہ منسوخ ہے۔ برعکس اس کے کہ ہم اہل حدیث ہر وقت قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں اور بڑے دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ مذہب اہل حدیث ﷲ اور رسول کا مذہب ہے جو یقیناً حق ہے۔

رفع یدین سنت رسول ہے صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے جس پر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم آخر تک عمل کرتے رہے۔ یہ سنت ہر گز منسوخ نہیں جو جھوٹ پر قسم کھائے گا اس پر یقیناً اللہ کی لعنت ہوگی۔ ﷲ ہر مسلمان کو حق پر چلنے اور رفع یدین جیسی سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ ترک سنت کی وجہ سے ﷲ اور رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے بچ جائے۔


والھدایۃ بیداﷲ ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ

*****************************************

۱ (بخاری ‘ کتاب الاذان‘ باب الی این یرفع یدیہ ‘رقم 736:۔۔۔ مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذوالمنکبین مع تکبیرہ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود ‘ رقم 211:۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘رقم721:۔۔۔ ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم 255:۔۔۔ نسائی : کتاب الافتتاح ‘ باب رفع الیدین حذوا المنکبین ‘رقم879: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا ص2548‘ رقم (858:

۲ (جزء رفع الیدین رقم (2:

۳ (نیل الفرقدین ص (26:

۴ (کتاب الام ‘ باب رفع الیدین فی التکبیر فی الصلٰوہ ج 1 ص(91

۵ (ترمذی :ابواب الصلٰوہ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم(256:

۶ (بخاری:کتاب الاذان‘ باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین‘ رقم (739:

۷ (جزء رفع الیدین رقم (15:

۸ (بخاری : کتاب الاذان ‘ باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع وا ذا رفع‘ رقم 737۔۔۔مسلم: کتاب الصلوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود‘ عن مالک بن حویرث ‘رقم (23:

۹ (نسائی :کتاب التطبیق ‘ باب مکان الیدین من السجود ‘رقم 1103:۔۔ ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘ رقم (726:

۱۰(جزء رفع الیدین رقم (30:۱۱(جزء رفع الیدین رقم (39:

۱۲ (ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب افتتاح الصلوۃ ‘ رقم 73:۔۔۔صحیح ابن خزیمہ کتاب الصلوۃ ‘ باب الاعتدال فی الرکوع والتجانی و وضع الیدین علی الرکبتین 297/1رقم 587: عن ابی حمید الساعدی )

۱۳(بیہقی کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الراس منہ ج 2ص 73

( ۱۴ (نیل الفرقدین ص (22:

۱۵ (تلخیص الحبیر 218/1‘کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ رقم 328:‘ نصب الرایۃ ‘کتاب الصلٰوۃ ‘ باب صفۃ الصلٰوۃ ‘ ج 1ص 483)

۱۶ (ترمذی‘ کتاب القدر‘ باب اعظام امرالایمان بالقدر‘ ص 1868‘رقم الحدیث2154: ۔۔ مشکٰوۃ المصابیح ‘ کتاب الایمان ‘ باب الایمان بالقدر‘ 38/1 رقم الحدیث109:)


 
Last edited:

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں

اس لیے کہ ہم ﷲ کے فضل سے اہل حدیث ہیں اورقرآن وحدیث پر عمل کرنا اہل حدیث کا مذہبی شعار ہے۔ جب رفع یدین سنت ہے جو صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے تو ہم اس سنت پر عمل کیوں نہ کریں۔ رفع یدین کی احادیث مختلف صحابہ رضی اللہ عنہما سے تمام کتب احادیث میں مروی ہیں۔

سب سے صحیح حدیث حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ہے جو صحاح ستہ اور دیگر تمام کتب حدیث میں مذکور ہے۔ وھو ہذا:
((عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اللہ اِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرَّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ))۱

عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کودیکھا کہ وہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور سجدہ میں آپ ایسا نہیں کرتے تھے۔


ماننے والوں کے لیے رفع یدین کے ثبوت میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کی ایک یہی حدیث کافی ہے کیونکہ یہ سب سے صحیح ہے ۔ا س کے مقابلے میں کوئی ایک حدیث صحیح تو درکنار اس کے پاسنگ بھی نہیں۔

امام بخاری کے استاد امام علی بن مدینی اسحدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔

رَفْعُ الْیَدَیْنِ حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کُلُّ مَنْ سَمِعَہ‘ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّعْمَلَ بِہِ۔۲

یعنی اس حدیث کی رو سے رفع یدین کرنا ہر مسلمان پر حق ہے۔ یہ حدیث اتنی صحیح ہے کہ مخلوق پر حجت ہے جو اس کو سنے اس کو چاہیے کہ اس پرعمل کرے۔


مولانا انور شاہ کشمیری حنفی دیوبندی جو حنفیوں میں بہت بڑے محدث ہو گزرے ہیں او ر دارالعلوم دیو بند میں حدیث کے استاد رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے رسالہ ’’ نیل الفرقدین‘‘ صفحہ 26میں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:


’’اَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ فَھُوَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کَمَا ذَکَرَہ‘ عَنِ ابْنِ الْمَدِیْنِیْ‘‘۳

یعنی امام علی ابن مدینی نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ یہ حدیث ہر لحاظ سے اتنی صحیح ہے کہ سچ مچ ہی مسلمانوں پر رفع الیدین کو لازم کرتی ہے۔


کتاب الام میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’لاَ یَجُوْزُ لِاَحَدٍ عَلِمَہ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عِنْدِیْ اَنْ یَّتْرُکَہ‘‘‘

امام ابن جوزی بھی اپنی کتاب ’’نزہۃ الناظر‘‘ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک ایسا ہی قول نقل کرتے ہیں:

’’لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ سَمِعَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ اَنْ یَّتْرُکَ الْاِقْتِدَاءَ بِفِعْلِہ وَ ھٰذَا صَرِیْحٌ اِنَّہ‘ یُوْجِبُ ذٰلِکَیعنی

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی ایسی صحیح حدیث سنے اور پھر رفع یدین نہ کرے۔

ایسی صحیح حدیث ہو تو اس پر عمل کرنا خود بخود واجب ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ائمہ نماز میں رفع یدین کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ایسی صحیح اور صریح حدیث کے بعد کسی اور حوالے کی ضرورت تو نہ تھی ‘


لیکن حنفیوں کے مزید اطمینان کے لیے ترمذی شریف سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔

امام ترمذی فرماتے ہیں رفع الیدین کی حدیث کے راوی صرف حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت کعب بن مالک بن الحویرثؓ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ ‘ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ‘ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ‘ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت عمیر اللیثی رضی اللہ عنہ ۔۔۔ یہ صحابہ کرام بھی رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں۔ دیگر کتابوں میں اور بہت سے صحابہ سے رفع یدین کی روایات آتی ہیں‘ لیکن سب کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مسئلے کے ثبوت کے لیے تو ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے


رفع یدین منسوخ بھی نہیں

حنفی علما یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث تو صحیح ہے ‘ لیکن رفع یدین شروع میں تھی‘ پھر منسوخ ہو گئی‘ کیوں کہ:

1- جن صحابہ سے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا رفع یدین کرنا مروی ہے ‘ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے بعد میں ترک کر دی تھی۔

2- حضرت عبد ﷲ بن عمررضی ﷲ عنہ جو رفع یدین کی صحیح ترین روایت کے راوی ہیں حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔۶بلکہ جو رفع یدین نہ کرتا تو وہ اس کو کنکر مارتے۷

3- حضرت مالک بن الحویرث 9 ھ میں گرمی میں مسلمان ہوئے‘ انھوں نے رسول ﷲ ﷺ کو متنازعہ رفع یدین کرتے دیکھا۔۸

4- حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9ھ میں سردی میں مسلمان ہوئے انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ ﷺ کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ پھر جب اگلے سال 10ھ میں وہ سردیوں میں دوبارہ مدینہ آئے تو انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو رفع یدین کرتے دیکھا۔

اس سے ثابت ہوا کہ رسول ﷲ ﷺ 10ھ یعنی اپنی آخری زندگی میں رفع الیدین کرتے تھے۔

5- رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کا رفع یدین کرنا ۔


چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام حمید بن ہلال رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

((کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ یَرْفَعُوْنَ))۱۰قریباً تمام صحابہ رفع یدین کرتے تھے۔


6- حضرت سعید بن جبیر جو جلیل القدر تابعی ہیں وہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔

7- حضرت ابوحمید ساعدی کا دس صحابہ کی موجودگی میں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر دکھانا اور اس میں رفع یدین کرنا اسی طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھنا اور پھر کہنا کہ اس طرح نماز پڑھا کرو اور خاص کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع یدین کرکے نماز پڑھنا (تلخیص اور بیھقی )


یہ سب ایسے دلائل ہیں جن سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے مولانا انور شاہ کشمیری کو ماننا پڑا۔

’لَمْ یُنْسَخْ وَ لاَ حَرفٌ مِنْہُ‘‘

رفع یدین کی سنت کا منسوخ ہونا تو درکنار‘ رفع یدین کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔


یعنی ان کو بھی تسلیم ہے کہ رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی دائمی اورمستقل سنت ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی مستقل اور دائمی سنت ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور منسوخ بھی قطعاً نہیں تو پھر حنفی نماز میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے‘ کیا حنفی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی احادیث کو نہیں مانتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی ‘ حنفی مذہب کا پابند ہوتا ہے ۔ چونکہ حنفی مذہب میں رفع یدین نہیں اس لیے حنفی رفع یدین نہیں کرتے۔ رہ گیا احادیث کے ماننے کا سوال تو حنفی صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو ان کے مذہب کے مطابق ہوں ‘ جو احادیث ان کے مذہب کے خلاف ہوں خواہ وہ کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہوں حنفی ان کو نہیں مانتے۔ اگر حنفی احادیث کو مانیں تو وہ حنفی نہیں رہ سکتے۔ اگر انھوں نے احادیث کو ماننا ہو تو وہ حنفی کیوں بنیں؟ یہی وجہ ہے حنفیوں کے بہت سے مسائل حدیث کے خلاف ہیں۔ حنفیوں کا اصل مذہب حنفی ہے‘ وہ فقہ حنفی پر ہی چلتے ہیں خواہ وہ حدیث کے موافق ہو یا مخالف۔ حنفی اہل حدیث نہیں جو وہ حدیث پر چلیں۔ حدیث پر چلنا تو اہل حدیث کا کام ہے۔ اہل حدیث کسی کی تقلید نہیں کرتے کہ کسی کی فقہ ان کا مذہب ہو۔ ان کا مذہب تو حدیث ہے‘ جب حدیث صحیح ثابت ہو گئی تو وہ اس پر عمل کریں گے۔

انتباہ :

بعض حنفی مولوی یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہو گئی۔ اب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ 10ھ تک بلکہ وفات تک رسول ﷲ ﷺ کا رفع یدین کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت وائل اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خاص کر


عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل اور بیان سے واضح ہے۔

فَمَا زَالَتْ تِلْکَ صَلٰوتُہ‘ حَتّٰی لَقِیَ اﷲَ۱۵یعنی ’’ رسول اﷲﷺ دنیا سے رخصت ہونے تک رفع یدین کرتے رہے‘‘ ۔۔۔


ملاحظہ ہو حنفیوں کی مشہور کتاب ’’ نصب الرایۃ فی تخریج احایث الھدایۃ‘‘ اب جس مولوی یا مفتی کا یہ دعویٰ ہو کہ رفع یدین منسوخ ہے تو اس کا فرض ہے کہ 10ھ کے بعد کی کوئی ایسی صحیح حدیث دکھائے جس میں یہ صراحت ہو کہ 10ھ کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے رفع یدین بالکل ترک کردی تھی۔ رہ گئی عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایات جن کو اکثر حنفی مولوی پیش کرتے ہیں تو اولا تو وہ سخت ضعیف ہیں‘ بڑے بڑے ائمہ محدثین

مثلا امام بخاری‘ امام احمد‘ امام ابوداؤد ‘ امام دار قطنی‘ وغیرھم ان کو ضعیف کہتے ہیں۔ ثانیا ان ضعیف احادیث کی تاریخ کا کوئی پتا نہیں کہ وہ 10ھ سے پہلے کی ہیں یا بعد کی۔ رفع یدین کو منسوخ ثابت کرنے کے لیے 10ھ کے بعد کی کوئی صحیح حدیث ہونی چاہیے۔ پہلے کی کسی حدیث کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر حنفی مولوی یہ ثابت نہ کر سکیں کہ یہ حدیث10ھ کے بعد کی ہے اور صحیح ہے جس سے ان کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ اور وہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے(لَوْ کاَنَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا)[17:الاسراء:88]

تو ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ انھیں رسول ﷲ ﷺ کی ثابت شدہ سنت رفع یدین کی مخالفت ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ جب رسولؐ ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کا ترک بہت بڑا جرم ہے تو اس کی مخالفت کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا۔ترک سنت کی سزا


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

((سِتَّۃٌ لَعَنْتُھُم وَ لَعْنَھُمُ ﷲُ وَ کُلُّ نَبِیٍّ کَانَ الزاءِدُ فِی کِتَابِ ﷲِ وَالْمُکَذِّبُ بِقَدَرِ ﷲِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِیُعِزَّمَنْ اَذَلَّ ﷲُ وَ یُذِلَّ مَنْ اَعَزَّ ﷲُ وَالْمُسْتَحِّلُ لِحَرَمِ ﷲِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِن عِتْرَتِیْ مَا حَرَّمَ ﷲُ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِیْ))۱۶

یعنی چھ شخصوں پر ﷲ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی لعنت کرتا ہے اور ﷲ بھی لعنت کرتا ہے اور ان چھ شخصوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تارک ہو۔


کیا ان کو ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے ڈر نہیں لگتا جو رفع یدین جیسی اہم اور دائمی سنت کے صرف تارک ہی نہیں بلکہ مخالف بھی ہیں۔ جو اس سنت پر عمل کرتا ہے وہ اس کو برا جانتے ہیں۔ انجام بخیر چاہنے والے ہر حنفی کو چاہیے کہ وہ تعصب کوچھوڑ کر ٹھنڈے دل سے اس رسالہ کو پڑھے اور اپنے مولوی اور مفتی کو بھی پڑھائے پھر ان سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم د ے کر پوچھے کہ کیا رفع یدین سنت نبوی نہیں ؟ کیا واقعی یہ منسوخ ہے جس مولوی یا مفتی کے دل میں ذرا بھی آخرت کا خوف ہوگا وہ یہ رسالہ پڑھ کر کبھیبھی قرآن پر ہاتھ کر قسم نہیں کھائے گا کہ رفع یدین سنت نبوی نہیں۔یا یہ منسوخ ہے۔ برعکس اس کے کہ ہم اہل حدیث ہر وقت قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں اور بڑے دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ مذہب اہل حدیث ﷲ اور رسول کا مذہب ہے جو یقیناً حق ہے۔

رفع یدین سنت رسول ہے صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے جس پر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم آخر تک عمل کرتے رہے۔ یہ سنت ہر گز منسوخ نہیں جو جھوٹ پر قسم کھائے گا اس پر یقیناً اللہ کی لعنت ہوگی۔ ﷲ ہر مسلمان کو حق پر چلنے اور رفع یدین جیسی سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ ترک سنت کی وجہ سے ﷲ اور رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے بچ جائے۔


والھدایۃ بیداﷲ ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ

*****************************************

۱ (بخاری ‘ کتاب الاذان‘ باب الی این یرفع یدیہ ‘رقم 736:۔۔۔ مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذوالمنکبین مع تکبیرہ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود ‘ رقم 211:۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘رقم721:۔۔۔ ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم 255:۔۔۔ نسائی : کتاب الافتتاح ‘ باب رفع الیدین حذوا المنکبین ‘رقم879: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا ص2548‘ رقم (858:

۲ (جزء رفع الیدین رقم (2:

۳ (نیل الفرقدین ص (26:

۴ (کتاب الام ‘ باب رفع الیدین فی التکبیر فی الصلٰوہ ج 1 ص(91

۵ (ترمذی :ابواب الصلٰوہ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم(256:

۶ (بخاری:کتاب الاذان‘ باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین‘ رقم (739:

۷ (جزء رفع الیدین رقم (15:

۸ (بخاری : کتاب الاذان ‘ باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع وا ذا رفع‘ رقم 737۔۔۔مسلم: کتاب الصلوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود‘ عن مالک بن حویرث ‘رقم (23:

۹ (نسائی :کتاب التطبیق ‘ باب مکان الیدین من السجود ‘رقم 1103:۔۔ ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘ رقم (726:

۱۰(جزء رفع الیدین رقم (30:۱۱(جزء رفع الیدین رقم (39:

۱۲ (ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب افتتاح الصلوۃ ‘ رقم 73:۔۔۔صحیح ابن خزیمہ کتاب الصلوۃ ‘ باب الاعتدال فی الرکوع والتجانی و وضع الیدین علی الرکبتین 297/1رقم 587: عن ابی حمید الساعدی )

۱۳(بیہقی کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الراس منہ ج 2ص 73

( ۱۴ (نیل الفرقدین ص (22:

۱۵ (تلخیص الحبیر 218/1‘کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ رقم 328:‘ نصب الرایۃ ‘کتاب الصلٰوۃ ‘ باب صفۃ الصلٰوۃ ‘ ج 1ص 483)

۱۶ (ترمذی‘ کتاب القدر‘ باب اعظام امرالایمان بالقدر‘ ص 1868‘رقم الحدیث2154: ۔۔ مشکٰوۃ المصابیح ‘ کتاب الایمان ‘ باب الایمان بالقدر‘ 38/1 رقم الحدیث109:)


حدثنا عبداللہ بن ایب المخزومی وسعد ان بن نصر و شعیب بن عمرو فی آخرین قالو احدثنا سفیان بن عینیۃ عن الزھری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ حتیٰ یحاذی بھما وقال بعضہم حذو منکبیہ واذا ارد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لا یرفعھما وقال بعضہم ولا یرفع بین السجدتین والمغی واحد آھ بلفظہٖ
دلیل نمبر1، مستخرج صحیح ابوعوانہ صفحہ 90/2ج، طبع حیدر اآباد دکن میں ہے
محدث ابوعوانہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ایوب مخزومیؒ اور سعدان بن نصر اور شعیب بن عمرو ؒ تینوں نے حدیث بیان کی اور انہوں نے فرمایا کہ ہم نے سفیان بن عیینہ ؒ نے حدیث بیان کی انہوں نے زہری سے اور انہوں نے سالم ؒ سے اور اور وہ اپنے باپ عمر سے روایت کی اور حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے کندھوں کے برابر اور جب ارادہ کرتے کہ رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد تو آپ رفع یدین نہ کرتے اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ سجدتین میں بھی رفع یدین نہ کرتے مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہے۔

مستخرج صحیح ابو عوانہ کا تعارف
اس کتاب کے مصنف محدث ابوعوانہ ؒ یعقوب بن اسحٰق اسفرائنی المتوفی 316ھ ہیں ان کی کتاب ہذا بھی عند لمحدثین صحیح مسلم کی طرح صحیح ہے علامہ ذہبی ؒ تذکرۃ الحفاظ ص6 ج3 میں اس کتاب کو الصحیح المسند کہتے ہیں اور ص3ج3 میں لکھتے ہیں کہ ابوعوانہ ؒ الحافظ الثقۃ الکبیر میں اور علامہ تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیۃ الکربی س321 ج2 تا س322 میں ان کے فضائل و مناقت بیان کئے ہیں اور کنزالعمال س3 ج1 میں ہے کہ تمام حدیثیں صحیح ہیں اور امام سیوطیؒ تدریب الراوی میں صحیح ابوعوانہ کو صحیح کتابوں میں شمار کرتے ہیں ۔اور مولانا عبدالرحمٰن صاحب مبارکپوری غیر مقلد تحقیق الکلام ص118 ج2 میں لکھتے ہیں کہ اور حافظ ابوعوانہ کی سند کا بھی صحیح ہونا ظاہر ہے کیونکہ انہوں نے اپنے صحیح میں صحت کا التزام کی ہے ۔ حافظ عبداللہ روپڑی غیر مقلد اپنی کتاب رفع یدین اور آمین کے ص22 میں لکھتے ہیں برخلاف ان کتابوں کے جن میں صحت کی شرط ہے ان اکیلی اکیلی کو صحیح کہتے ہین جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن حبان ، صحیح
ابوعوانہ، صحیح ابوالسکن وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح صحیح ابن خزیمہ ہے چنانچہ علامہ زیلعیؒ کی عبارت بھی ابھی گزری پس ان بزرگوں کا اپنی کتابوں میں کسی حدیث کو لانا اور سکوت کرنا یہی صحیح کہنا ہے ورنہ صحت کی شرط کا فائدہ کیا۔
اور روپڑی صاحب اسی رسالہ کے ص123 میں لکھتے ہیں اور جن مصنفین نے اپنی کتب میں صحت کی شرط کی ہے ان کی کتابوں میں کسی حدیث کا ہونا صحت کے لئے کافی ہے۔ جیسے کتاب ابن خزیمہ اور ایسے ہی کسی حدیث کا ان کتابوں میں ہونا جو بخاری مسلم پر بطور تخریج لکھی گئی ہیں صحت کے لئے کافی ہے۔ جیسے کتاب ابی عوانہ الاسفرائنی اور کتاب ابی بکر اسماعیلی اور کتاب ابی بکر برقانی وغیرہ یہ محدثین بخاری مسلم کی احادیث کو اپنی اسانید سے روایت کرتے ہیں جن میں بخاری مسلم کا واسطہ نہیں ہوتا اور ان کا مقصد بخاری مسلم کی احادیث میں کمی بیشی کو بیان کرنا ہے مثلاََ مسلم میں کوئی مخذوف ہے اس کو پورا کر دیا کوئی زیادتی بخاری مسلم سے رہ گئی جس سے مطلب حدیث کی وضاحت ہوتی ہو اس کا ذکر کر دیا الخ بلفظٖہ
قاریئن کرام صحیح ابو عوانہ کی جب تمام حدیثیں محدثین کے ہاں صحیح ہیں تو یہ ترک رفع یدین کی حدیث صحیح ہونے کے ساتھ صریح بھی ہے۔
جناب روپڑی صاحب کی عبارت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں (1) صحیح ابو عوانہ ان کتابوں میں شمار ہے جن کی تمام حدیثیں صحیح ہیں (2) صحیح ابوعوانہ کی سند وہی بخاری مسلم والی ہوتی ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ مسلم کا درمیان میں واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ خود اپنی سند سے حدیث بیان کرتے ہیں (3) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بعض حدیثیں ایسی بھی ہیں جن میں الفاظ کی کمی بیشی ہے اور بعض الفاظ (مخذوفات) ان میں مذکور نہیں ہیں جس کی وجہ سے مطلب حدیث وضاحت نہیں ہوتی (4) اور مخرجین حضرات کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کمی بیشی ور محذوف کو ذکر کر دیا جائے تا کہ مطلب حدیث واضح ہو جائے۔ قارئین کام آپ حضرات نے جب یہ بتیں ذہن نشین کر لیں تو اب ہم آپ سے اس روایت میں جو حضرت ابوعمر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین میں پیش کی جاتی ہے عرض کرتے ہیں کہ بخاری وغیرہ میں جزاء یرفعہما ہے اور ابوعوانہ وغیرہ میں لا یرفعھما اور ابو داؤد ج1 ص104 میں روایت یوں ہے
راءیت رسول اللہ ﷺ اذا استفتح الصلاۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راء سہ من الرکوع (الیٰ) ولا یرفع بین السجدتین یہاں اذا شرطیہ دو 2 ہیں پہلا اذا استفتح لصلاۃ اور اس کی جزاء رفع یدیہ مذکور ہے اور دوسرے واذا ارادان یرکع وبعد ما یرفع راءسہ من الرکوع ہے اور اس کی جزاء مذکور نہیں ہے بعض حضرات نے اس حدیث کو رفع الیدین کے با ب میں ان الفاظ کے ساتھ لا کر یوں رفع یدین ثابت کی (جیسے امام بودائود ؒ نے دوسرے اذا کا بذریعہ واؤ عطف ہے پہلے اذا پر اور س کی جازا رفع یدیہ ہے تو اس کی جزاء بھی رفع یدیہ سمجھی ہے بعض حضرات نے بذریعہ عطف یہ جزاء سمجھ کر اپنی طر ف سے جزاء کے الفاظ بھی ذکر کر دیئے ۔ چنانچہ بعض حضرات نے جزاء رفع یدیہہ ذکر کر دی اور بعض حضرات نے واذا ارادان یرکع فعل مثل ذالک ذکر کر دیا اور بعض حضرات نے اذا اراہ ان یرکع کذالک رفعھما ذکر کر دی حالانکہ جزاء اس طرح ہے جس طرح کہ صحیح ابوعوانہ میں ہے ۔ واذا ارادان یر کع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفعھما
اس جزاء مخذوف کے ذکر کرنے سے مطلب حدیث کی پوری وضاحت ہو گئی کہ یہ حدیث ترک رفع الیدین میں واضح ہے اسے رفع یدین میں حتمی طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے ور امام ابوعوانہ کی طرح امام بخاری کے استاد امام حمیدی نے بھی اپنے مسند حمیدی میں جزاء مخذوف کا ذکر کیا ہے جیسے کہ دلیل نمبر2 کے تحت اس کا ذکر آرہا ہے۔ اور حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد کا زیادتی اور مخذوف کے بارے میں ایک اور حوالہ بھی ملاحظہ کریں۔ وہ اپنی کتاب رفع الیدین اور آمین کے ص 129 میں لکھتے ہیں اس طرح وہ روایتیں بھی صحیح ہیں جو مستخرجات علی الصحیحین میں پائی جاتی ہیں جیسے کوئی زیادتی یا تتمہ کسی مخذوف کا آ ھ بلفظٖہ
نیز اس حدیث (ترک رفع الیدین ) کی تمام سندوں سے زیادہ صحیح ہے چنانچہ حافظ عبداللہ روپڑی غیر مقلد رفع لیدین اور آمین کے ص 64 میں لکھتے ہیں دوم زہری سالم ابن عمر اصح السانید ہے یعنی سب سندوں سے زیادہ صحیح ہے ملاحظہ ہو شرح نخبہ اور رسالہ امیر علی حنفی التہذیب للتقریب ملحقہ تقریب التہذیب ص الخ بلفظٖہ
روپڑی صاحب کے فرمان کے مطابق جب یہ سب باتیں صحیح ہیں تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حتمی طور پر رفع یدین کی روایت کا بالکل خاتمہ ہو گیا اور روپڑی صاحب کا یہ کہنا جو انہوں نے رفع یدین اور آمین کے ص 65 میں لکھا ہے کہ محدثین نے قطع نظر اس سے کہ کسی فقاہت کی کمی بیشی میں بحث کریں اور رفع یدین کے متلعق روایات کی اتنی بھرمار کر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث قریب قریب تواتر تک پہنچا دی۔
حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری ص175 ج2 میں لکھا ہے کہ پچاس 50صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے (جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں) آہ بلفظٖہ غلط ہے۔
اولاََ تو اس لئے کہ حضرت ابن عمر سے جب یرفعھما کی روایت ہی نہیں بلکہ لا یرفعھما کی بھی سند سے مروی ہے اور ان کا معمول بھی بعض اوقات ترک رفع یدین تھا تو مولانا روپڑی صاحب کا حضرت ابن عمر سے رفع یدین کی روایت کو متواتر کہنا اور ان کی دوسری روایت لا یرفعھما کا ذکر تک نہ کرنا انصاف سے بعید ہے چونکہ مولانا روپڑی نے پہلے ہی تعصب کا شکار ہو کر یہ ٹھان لی ہے کہ رفع یدین ہی ثابت ہے نہ کہ ترک رفع یدین تو اس لئے ان سے پے در پے یہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں بقول شخصے
خشت اول نہد معمار کج تا ثریا مرود دیوار کج
وثانیاََ روپڑی صاحب کا پچاس صحابہ رضوان اللہ علیہم سے رفع الیدین ثابت کرنا دھوکہ ہے اور مقدمہ میں غیر مقلدین حضرات کا ایک اور دھوکہ کے عنوان کے تحت علامہ شوکانی ؒ وار علامہ امیر یمانی ؒ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ ابتاء نماز کے وقت رفع الیدین جو متفق علیہ ہے اس سے پچاس صحابہ راوی ہیں اور عند الرکوع وغیرہ رفع الیدین کے نہ تو پچاس صحابہ راوی ہیں نہ عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہ۔ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کو ہم ان کی ہی عبارت یاد دلاتے ہیں وہ رفع یدین اور آمین کے ص117 میں لکھتے ہیں اپنے مذہب کی پاسبانی کوئی بری چیز نہیں مگر تعصب کرنا اور دیانت داری کے خلاف قدم اٹھانا یہ مذہبی پاسبانی نہیں بلکہ خواہش نفسانی کی پاسبانی ہے آھ بلفظٖہ مگر روپڑی صاحب تمہیں عادت ہے بھول جانے کی ۔ دیراں را نصیحت خود را فضیحت
حافظ عبداللہ صاحب روپڑی سے ہم عرض کرتے ہیں۔
آثار سحر کے پیدا ہیں اب رات کا جادو ٹوٹ چکا ظلمت کے بھیانک ہاتھوں سے تنویر کا دامن چھوٹ چکا
دلیل نمبر2، مستخرج صحیح ابوعوانہ ص91 ج3 میں ہے
حدثنا الصائغ بمکۃ قال حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان عن الزھری قال اخبرنی سالم عن ابیہ قال راءیت رسول اللہ صلی اللہ عللیہ وسلم مثلہ آھ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور پہلی حدیث کی طرح بیان فرمایا
پہلی حدیث میں رفع الیدین عند الافتتاح تھا اور اس کے بعد ترک رفع الیدین تھا اس حدیث میں بھی ویسے ہی ہے امام ابوعوانہ کے استاد الصائغؒ کا ذکر صحیح ابوعوانہ ص95 ج2 ص133 ج3، ص227ج2، میں بھی اسی طرح ہیں لیکن صحیح ابوعوانہ ص97 ج2، ص124 ج2 و ص185 ج2 میں ان کا پورا نام محمد بن اسماعیل الصائغ ذکر کیا گیا ہے (المتوفی 276ھ) اور وہ ثقہ ہیں اور الصائغ کے بعد حمدی کا ذکر آتا ہے جو امام بخاری کے استاد ہیں جن کا نام عبداللہ بن زبیر ہے جو زبرداست ثقہ ہیں اور حدیث کی کتاب مسند حمیدی کے مصنف ہیں اور یہ حدیث امام ابوعوانہ نے امام حمیدی کے طریق سے ذکر کی ہے اور امام حمیدی نے یہ حدیث ترک رفع الیدین کی اپنے مسند حمیدی میں بھی اسی سند کے ساتھ ذکر کی ہے۔ چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو
حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان قال حدثنا الزھری قال اخبرنی سالم بن عبداللہ بن عبداللہ عن ابیہ قال راءیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتح الصلوۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا ارادان یرکع وبعد م یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفع ولا بین السجدتین مسند حمیدی قلمی ص79 جو خانقاہ سراجیہ کے کتب خانے میں موجود ہے دیکھئے مسند حمیدی ص 377 ج2 حدیث نمبر 614 اور یہ حدیث بھی حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی واضح دلیل ہے اور پہلی حدیث کے متن کی طرح اس کا متن ہے اور سای کی سند کی طرح سند ہے۔ (تنبیہ) مسند حمیدی کے مطبوعہ نسخہ میں حدثنا سفیان کا جملہ چھوٹ گیا ہے حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی دامت برکتہم مشیع و محشی مسند حمیدی سے جب رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کی صحیح سند ہے حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان قال حدثنا الزھری الخ مسندی حمیدی کے نسخہ مکتبہ ظاہریہ اور اس کے ہندوستانی مخطوطات میں بھی یونہی ہے۔ مطبوعہ نسخوں میں حروف جوڑنے والے کی غلطی سے قال حدثنا سفیان چھوٹ گیا ہے تصحیح غلاط میں اس کو دینا چاہئے تھا مگر سہواََ رہ گیا ۔ والسلام حبیب الرحمن الاعظمی بقلم خود پٹھان ٹولہ، مئو اعظم گڑھ 15 اگست 65ء اور مولانا کا یہ گرامی نامہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔ قارئین کرام ! حضرت امام بخاری ؒ وغیرہ نے حضرت ابن عمر سے رفع یدین کی روایت میں ذا شرطی کی جزاء رفعہما کذالک الخ نقل کی ہے او ان کے استاد امام حمیدی نے (جنکے قول کو امام بخاری بطور سند پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو بخاری ج1، ص96، ج2، ص845) اپنے مسند ج2 ص277 میں اور مام ابوعوانہ نے صحیح ابوعوانہ میں جزاء لا یرفعھما روایت کی ہے اور صحیح ابوعوانہ وغیرہ کی احادیث میں صحیح ہیں کیونکہ ن کی کتاب بھی حدیث کی صحیح کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ ما مرتواب یا تو دونوں رایتوں سے استدلال تک کر دیا جائے جیسا کہ او اتعارضا تساقطا کا قاعدہ ہے اور یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جائے اور وجہ ترجیح یہ ہے کہ چونکہ نماز میں خشوع و خضوع اور سکون مطلوب ہے اور حضرت ابن عمر سے فعلاََ بھی ترک رفع یدین ثابت ہے اس لئے ترک رفع یدین کی روایت ہی کو ترجیح ہو گی۔ اور دوسری جزاء کو بعض روات کی غلطی اور وہم پر حمل کیا جائیگا۔ مولوی محؐمد صاحب غیر مقلد جونا گڑھی عقیدہ محمدی ص7، ماہ ذی الحجہ 1353 میں لکھتے ہیں کوئی ایسا نہیں جس سے احکام شرع میں غلطی اور خطاء نہ ہوئی ہو سوا پیغمر ہے الخ ہم جناب حافظ عبداللہ صاحب روپڑی اور ان کی جماعت سےت درخواست کرتے ہیں کہ جب صحیح ابوعوانہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں تو ابوعوانہ نے اپنے مستخرج صحیح ابوعوانہ میں دو 2حدیثیں ایسی پیش کی ہیں جو صحیح ہونے کے ساتھ رفع الیدین نہ کرنے میں صریح بھی ہیں کیا آپ حضرات رفع لیدین چھوڑیں گے؟ یہ درخواست ہم نے اس بناء پر کی ہے کہ حافظ عبداللہ روپڑی اپنے رسالہ رفع یدین اور آمین کے ص 152 میں فرماتے ہیں کہ ہم تو ایسے موقعہ پر ایک اصول جانتے ہیں کہ جب کسی مسئلہ کے متعلق صریح حدیث آجائے تو اس کو معمول بہ بنا لیں اور اس کے مقابلے میں کسی کی نہ سنیں آھ بلفظٖہ اور اسی رسالہ کے ص 46 میں لکھتے ہیں ہمیں تو ہماری حدیث تمہاری حدیث یہ تقسیم کا لفظ ہی مکروہ معلوم ددیتا ہے کیونکہ صحیح سب کی ہے اور ضعیف کسی ک بھی نہیں کیونکہ مسلمان کی شان ہی اذا صح الحدیث فھو مذھبی
ہونی چاہئے جس کے یہ معنی ہیں
مصور کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ ادائی ہو ادھر حکم پیغمبر ہو ادھر گردن جھکائی ہو ۔آھ بلفظٖہ
ہم نے حافظ صاحب کا یہ زبانی جمع خرچ سن لیا ہے بس اس پر عمل کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
بنتے ہو وفادار وفا کر کے دکھاؤ کہنے کی وفا اور ہے کرنے کی وفا اور
غیر مقلدین حضرات کے عالم مولوی محمد صاحب دیلوی کا فرمان ملاحظہ ہ
دوستو میرے خیل سے تو میں نے مختصراََ ان تینوں مسئلو ںکو بالکل صاف کر دیا ہے اب اتن اور بھی سن رکھئے کہ کوئی حدیث ان کے خلاف نہیں اگر کوئی صاحب مدعی ہو تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر وہ رفع الیدین نہ کرنے کی یا منسوخ ہونے کی ایک حدیث بھی لائیں جو صریح صحیح اور مرفوع ہو جس پر کسی قسم کی جرح نہ ہو تو ہم حلفیہ اقرار کرتے ہیں کہ انہیں ایک سو روپیہ انعام دیں گے اور تحریر اقرار کریں گے کہ رفع یدین منسوخ ہے آھ۔ بلفظٖہ دلائل محمدی ص9، حصہ اول ماہ شوال المکرم 1355ھ، 1937 مؤلفہ مولوی محمد صاحب غیر مقلد ایڈیٹر اخبار محمدی دہلی
قارئین کرام ۔ مولوی محمد صاحب غیر مقلدی نے جن شرائط کے ساتھ ترک رفع الیدین میں حدیث کا مطالبہ کیا تھا تو ایک کے بجائے دو حدیثیں پیش ہو چکی ہیں۔ (1)جو صریح بھی ہیں اور صحیح بھی ہیں کیونکہ صحیح ابوعوانہ کی تمام حدیثیں آپ کے ہاں صحیح ہیں۔ (2) مرفوع بھی ہیں (4) کسی قسم کی جرح بھی موجود نہیں۔ اب غیر مقلدین حضرات سے التما س ہے کہ رفع الیدین کو چھوڑ دیں اور انعام بھی ادا کریں اور حلفیہ طور پر ایک تحریر ی اقرار نامہ بھی اپنی اخباروں میں شائع کریں اگر مطالبہ پورا ہوجانے کے بعد بھی آپ اس پر عمل نہیں کریں گے تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ
جھوٹ کہنے سے جن کو عار نہیں ان کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں
دلیل نمبر3: مالکیہ حضرات کی معتبر کتاب حدیث مدونہ کبری ص71، ج1 میں ہے

عن ابن وھب و ابن القاسم عن مالک عن بن شہاب عن سالم عن ابیہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ حزومنکبیہ اذا افتح الصلوۃ
بحوالہ معارف السنن ص 497، ج 2 مولانا محمد یوسف بنوری
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ رفع الیدین اپنے کاندھوں کے برابر اس وقت کرتے تھے جب نماز شروع کرتے تھے
یہ حدیث ترک رفع کے دلائل میں مالکیہ حضرات نے پیش کی ہے اور ابن وہب اور ابن القاسم دونوں حضرت امام مالک کے شاگرد اپنے استاد امام مالک سے یہ روایت کرتے ہیں اس سے امام مالک کے مذہب ترک رفع الیدین کا مزید ثبوت مل گیا ہے۔ سوال: اس حدیث میں ترک رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
جواب: جزاء کان یرفع مقدم ہے شرط اذا افتتح الصلوۃ مؤخر ہے۔ اور ضابطہ مشہور ہے التقدیم ما حقہ التاخیر بقید الحصر تو عند الافتتاح رفع یدین کا حصر ہو گیا کہ مابعد رفع الیدین نہیں ہے اور حافظ ابن حضرہ کا حملہ مالکیوں اور ابن القاسم پر غلط ثابت ہوا (لطیفہ) حافظ ابن حجرؒ الشافعی (المتوفی 852ھ) اور علامہ بدر الدین عینی ؒ (المتوفی 855ھ) حنفی معاصر تھے ان کا آپس میں خوب مقابلہ اور مناظرہ ہوتا رہتا تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابن حجر ؒ عینی کی مسجد میں تشریف لائے مسجد کا مینار دیکھ کر فرمیا قد وقعت علیہ العین
اس کے دو معنی ہیں (1) اس منار کو نظر لگ جانے کے باعث خرابی پیش آئی (2) عینی اس منار پر گرے ہیں اور منار خراب ہو گیا ہے۔
علامہ عینی نے فوراَ جواب دیا ۔ لا لابل خربت الحجر نہیں نۃٰن بلکہ پتھر خراب ہو گیا ہے اس کے بھی دو معنی ہیں (1) منار کا پتھر خراب ہو گیا ہے ۔ (2) ابن حجر کا باپ حجر خراب ہو گیا ہے ۔ ابن حجر یہ جواب سن کر خاموش ہو گئے
دلیل نمبر4: نصب الرایہ ص 404 میں بحوالہ خلافیات بیہقی یہ حدیث نقل کی گئی ہے
عن عبداللہ بن عون الخراز ثنا مالک عن الزھری عن سالم عن ابن عمر ان النبی کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰۃ ثم لا یمود:
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رفع الیدین اس وقت کرتے جب شروع کرتے پھر رفع الیدین کرنے کے لئے نہ لوٹتے تھے.
قارئین کرام یہ حدیث بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے اور پہلی تین حدیثوں کی طرح ترک رفع الیدین میں واضح ہے اور سند کے لحاظ سے تواصح الاسانید ہے جیسا کہ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد کے حوالہ سے گزر چکا ہے اور اس حدیث کے راوی بھی امام مالک ہیں لیکن مدونہ کبری میں امام مالک کے شاگرد ابن وہب اور ابن القاسم تھے جو نہایت ہی ثقہ تھے وار یہاں شاگر عبداللہ بن عون الخراز ہیں جو زبردست ثقہ ہیں اور ان کی توثیق پر سب حضرات محدثین متفق ہیں دیکھئے تقریب 210 طبع دہی و تہذیب التہذیب ص229 ج5 ص250 اور اس حدیث کی سند اور متن کے الفاظ اس سے پہلی حدیث کے ساتھ ملتے جلتے ہیں البتہ اس حدیث میں ثم لا یعود کا جملہ زیادہ ہے جو اس حصر کی تاکید ہے جو جزا کے مقدم کرنے کے باعث حاصل ہوئی ہے۔ اگ یہ جملہ نہ بھی ہوتا پہلی حدیث کی طرح تب بھی رفع الیدین عند الافتتاح پر ہی بند تھا۔
اعتراض: امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ امام حاکم ؒ نے فرمایا کہ یہ روایت موضوع ہے کیونکہ ہم نے امام مالک سے رفع الیدین کی روایت بیان کی ہے اور حافظ ابن حجرؒ تلخیص الجبر میں فرماتے ہیں مقلوب موضوع
الجواب: امام حاکم کی یہ سخت غلطی ہے اور اس کے کئی جواب ہیں ۔ جواب نمبر1۔ جب اس حدیث کی سند صحیح ہے تو پھر موضوع کیسے؟ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔

الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ماشاء
اسناد حدیث دین میں سے ہے اگر سند نہ ہوتی تو جس کے خیال میں جو بات آجاتی وہی کہہ دیتا۔
مقدمہ مسلم ص12، و سنن ترمذی ص236، ج2
اور جب سند ہو گی تو کسی کو غلط بات کرنے کی جراءت نہ ہو گی جیسے کہ امام حاکم ؒ نے غلطی کی ہے جواب نمبر2۔ امام حاکم کثیر الغلط ہیں مستدرک میں انہوں نے کافی غلطیاں کی ہیں۔
بعض دفعہ ضعیف بلکہ موضوع حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین کہہ دیتے ہیں۔ علامہ ذہبی ؒ نے اس لئے تلخیص المستدرک لکھ کر ان اغلاط کو ظاہر کیا ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
بعض دفعہ علامہ ذہبی اغلاط بیان کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور غصہ میں آکر امام حاکم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ تجھے اے مؤلف حیاء نہیں اآتی ایسی غلط باتیں کرتے ہو۔ چنانچہ قاضی شوکانی ؒ، غیر مقلد الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ص496 میں ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔
قال الحاکم ہذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی افمااستحی الحاکم من اللہ یصحح مثل ہذا وقال فی تلخیص المستدرک ہذا موضوع قبح اللہ من وضعہ وما کنت احسب ان الجھل بالحاکم یبلغ الیٰ ان یصحح مثل ہذا وھو مما افتراہ یزید بن یزید البلوی آھ بلفظہٖ
امام حکم ؒ نے ایک حدیث کے بارے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے علامہ ذہبی نے فرمایا کیا حاکم کو اللہ تعالیٰ سے حیاء نہیں آتی ایسی موضوع حدیث کی تصحیح کرتا ہے اور علامہ ذہبی ؒ نے تلخیص المستدرک میں کہا ہے کہ ی حدیث موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ وضع کرنے والے کو ذلیل و خوار کرے مجھے یہ گمان نہ تھا کہ حاکم ایسی جہالت تک پہنچ جائیگا کہ ایسی موضوع حدیث کی تصحیح کرے گا حالانکہ یہ حدیث یزید بن یزید بلوی کا افتراء ہے۔
اور علامہ زیلعی ؒ نصب الرایہ ص351،، ج1 میں لکھتے ہیں کہ علامہ ذہبی ؒ نے کہا
اما استحی الحاکم یورد فی کتابہ مثل ہذا الحدیث الموضوع فانا اشہد باللہ واللہ انہ لکذب آھ
کیا حاکم کو حیا ء نہیں آتی کہ ایسی موضوع حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے میں (ذہبیؒ) خدا تعالیٰ کی قسم اٹھا کر گواہی دیتا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے۔
اور علامہ ذہبی ؒ تلخیص مستدرک مع المستدرک ص60 ، ج3 میں امام حاکم کو اسی قسم کے الفاظ استعمال کر کے سخت سست کہا ہے اگر امام حاکم ایسی موضوع حدیثوں کو صحیح کہنے میں غلطی کر سکتے ہیں تو یقین جانیئے کہ صحیح حدیث کو موضوع کہنے کی غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کون سی بات ہے؟
لطیفہ: میناء ایک راوی ہے جو کہ محدیث کے ہاں رافضی اور کذاب ہے امام حاکم فرماتے ہیں۔
قد ادرک النبی وسمع منہ واللہ اعلم۔ مستدرک حاکم ص160، ج3
منیاء نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پالیا ہے اور آنحضرت ﷺ سے سنا بھی ہے۔ واللہ اعلم
علامہ ذہبی فرماتے ہیں
قلت ما قال ہذا بشر سوی الحاکم وانما ذاتا بعی ساقط وقال ابو حاتم کذاب یکذب وقال ابن معین لیس بثقۃ (الیٰ) اھما استحیت ایھا المؤلف ان تورد ہذاہ الا خلوقات من اقوال الطرقیۃ فیما یستدرک علی الشیخین۔ تلخیص المستدرک ص160، ج3
میں (ذھبیؒ) کہتا ہوں کہ یہ بات سوا حاکم کے اور کسی بشر نے نہیں کی حالانکہ یہ (منیاء) تابعی ہے جو ساقط العدالت ہے اور ابو حاتم ؒ نے کہا ہے کہ کذاب ہے جھوٹ بولتا ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ ثقہ نہیں ہے (الیٰ) کیا اے مؤلف تجھے حیاء نہیں آتی کہ ایسی جھوٹی باتوں کو ایسی سندوں سے مستدرک علی الشیخین میں لاتے ہو
اور حافظ ابن حجرؒ تقریب ص 259 طبع دہلی میں لکھتے ہیں

مینا متروک و رمی بالرفض و کذبہ ابو حاتم من الثالثۃ ووھم الحاکم فجعل لہ صحبۃ ۔ واللہ اعلم
مینا متروک الحدیث ہے اور رفض کی تمہت سے متہم ہے اور ابو حاتمؒ نے اسے کذب قرار دیا ہے اور امام حاکم ایسے وہم میں پڑے کہ اس کی صحابیت ثابت کر ڈالی ۔ واللہ اعلم
قارئین کرام اگر امام حاکم ترک رفع الیدین کی صحیح حدیث کو موضوع کہتے ہیں تو اس میں حیرت نہیں ہے۔
جواب نمبر3: امام حاکم ؒ کا اس حدیث کو اس بناء پر موضوع کہہ دینا کہ انہوں نے امام مالک سے رفع الیدین روایت کیا ہے صحیح نہیں کیونکہ اگر مالکیہ حضرات یہی طریقہ اختیار کر کے امام حاکم ؒ کی رفع لیدین عن مالک روایت کو موضوع کہہ دیں اسی بناء پر کہ انہوں نے (جیسے ابن وہب مالکی اور ابن القاسم مالکی نے مدونہ کبری میں اور عبداللہ بن عون اخراز نے خلافیات بیہقی میں) امام مالک سے ترک رفع الیدین کی روایت کی ہے تو امام حاکم اس کا کیا جواب دیں گے۔ ان الظن لا یغنی من الحق شیاََ
جواب نمبر4: امام مالک سےئ ترک رفع الیدین کی ایک روایت تو یہی ہے جو زیر بحث ہے دوسری اس سے پہلے مدونہ کبریٰ کے حوالہ سے گزر چک ہے۔ تیسری موطا امام محمد کے حوالہ سے آرہی ہے کیا ان سب کو موضوع سمجھا جائے گا ۔ بہتر تو یہ ہے کہ ن سب کو موضوع کہنے سے اس روایت کو ہی موضوع قرار دیا جائے ۔ جو امام حاکم نے امم مالک سے رفع الیدین کے متعلق بیان کی ہے۔
جواب نمبر5: امام مالک کا مذہب ترک رفع الیدین ہے جیسا کہ باب اول میں اس کا ٹھوس حوالوں سے ثبوت پیش کیا گیا ہے امام حاکم ہی بتائیں کہ انہوں نے کس حدیث کی بناء پر ترک رفع الیدین کا مذہب اختیار کیا ہے ۔ کیا امام مالکؒ احادیث نبویہ کے زیادہ ماہر تھے یا (امام حاکمؒ) آپ زیادہ ماہر ہیں۔ اس لئے علامہ سید محمد انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ
ہذا حکم من الحاکم لا یکفی ولا یشفی۔ نیل الفرقدین ص127
حاکم کا یہ حکم ناکافی اور غیر تسلی بخش ہے
باقی رہا حافظ ابن حجرؒ کا اس حدیث کو مقلوب "موضوع" کہنا تو یہ بھی کئی وجوہ سے غلط ہے اولاََ تو اس لئے کہ سند جب صحیح ہے تو پھر یہ موضوع کیسے و ثانیاََ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کی روایت ہی ثابت نہیں جیسے دلیل نمبر1 کے تحت گزرا تو پھر اس ترک رفع لیدین کی روایت کو مقلوب کہنا کیسے صحیح ہوا۔و ثالثاََ امام مالک سے ترک رفع لیدین کی صرف یہی روایت نہیں بلکہ اور روایات بھی ہیں و رابعاََ مستخرج صحیح ابوعوانہ اور مسند حمیدی کے حوالہ سے ترک رفع الیدین کی روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے گزر چکی ہیں جو سا روایت کی تصحیح کا مزید ثبوت فراہم کرتی ہیں و خامساََ امام شافعی کی مدح میں تو حافظ ابن حجر موضوع حدیث بیان کر نے سے دریغ نہیں کرتے اور پھر سکوت کر جاتے ہیں۔ بحوالہ مقدمہ نصب الرایہ ص60۔ پتہ نہیں اس حدیث کو وہ موضوع کیوں کہتے ہیں شاید کہ ان کے امام کے مذہب کے خلاف ہے؟ اور حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر ص181 و درایہ ص 85 میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بین کی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ آخری عمر تک رفع الیدین کرتے رہے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو ذکر کر کے اس پر مہر سکوت لگائی ہے۔ (بحوالہ رفع یدین و آمین) حالانکہ یہ حدیث موضوع ہے جیسا کہ اپنے مقام پر اس کی بحث آرہی ہے شاید کہ یہی ہو کہ جو حدیث موضوع ان کے امام کی مدح میں ہو اور ان کے مذہب کی تائید کرتی ہو تو وہاں بیان کرنیکے بعد خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور جو حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہو اس پر کوئی نہ کوئی جرح کر ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری اور ان کی لغزشوں کو معاف فرما دے آمین۔ حافظ ابن حجرؒ کی یہ پانچویں غلطی ثابت ہوئی کیونکہ چار پہلے باب میں ذکر ہو چکی ہیں۔
(لطیفہ) حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب ص198 ج2 میں لکھتے کہ حجاج بن ارطاۃ کی ایک روایت بطور متعابعت کے صحیح بخاری کتاب العتق میں موجود ہے حالانکہ صحیح بخاری ص343۔ ج1 میں وہ متابع بن حجاج اسلمی باھلی ہے اور بقول علامہ ذہبی کے امام بخاری نے صحیح بخاری میں کہیں بھی اس کی روایت متابعۃ ذکر نہیں کی البتہ امام مسلم نے متبعۃ پیش کی ہے چنانچہ الفاظ اس طرح ہیں۔ لم یخرج لہ البخاری وقرنہ مسلم بالآخر تذکرۃ الحفاظ ص175، ج1
شیخ محمد عابد سندھی محدث مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفاََ و کرامۃ کا فیصلہ ملاحظہ ہو:
وہ مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قلت تضعیف الحدیث لا یثبت بمجرد الحکم وانما یثبت ببیان وجوہ العن فیہ وحدیث ابن عمر الذی رواہ البیہقی فی خلافیاتہ رجالہ رجال الصحیح فما اری لہ ضعفاََ بعد ذالک اللھم الا ان یکون الراوی عن مالک مطعونا لٰکن الاصل العدم فحذا الحدیث عندی صحیح لا محالۃ آھ ۔ بحوالہ معارف السنن ص498، ج2
میں (عابد سندھی) کہتا ہوں کہ حدیث کا ضعف ہوتا محض کسی کے حکم لگانے سے ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ اسباب جرح کے بیان کرنے سے ہوتا ہے اور یہ حدث (ترک رفع یدین) کی جو امام بیہقی نے خلافیات میں حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے اس کے رجال صحیح (بخاری و مسلم) کے ہیں پس اس حدیث کا ضعف مجھے نظر نہیں آتا مگر یہ کہ امام مالک سے راوی مجروح ہو لیکن یسا بھی نہیں پس یہ حدیث میرے نزدیک بالیقین صحیح ہے۔
شیخ محمد عابد سندھی کا تعارف:
علامہ احمد محمد شاکرؒ غیر مقلد مقدمہ شرح ترمذی ص13 میں ان کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں ۔ العالم العظیم الشیخ محمد عابد السندی محدث المدینہ المنورۃ فی القرن الماضی ۔ اور مقدمہ شرح ترمذی ص14 میں لکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ حافظ سید عبدالحی کتانی ؒ نے اپنی کتاب فہرس الفہارس مطبوعہ فاس 1346ھ میں ان کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے۔ شیخ شیوخنا محدث الحجاز ومسندہ عالم الحنفیۃ بہ الشیخ محمد عابد بن احمد بن علی السندی الانصاری المدنی الحنفی المتوفی بالمدینۃ المنورہ 1285ھ الغرض حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا چاروں احادیث اصح الاسانید ہیں۔
دلیل نمبر5: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رویات ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ترفع الیدی فی سبعۃ مواطن عند افتتاح الصلٰوۃ واستقبال البیت والصفا والمروۃ والموقفین والجمرتین (بحوالہ نصب الرایہ ص391، ج1)
رفع الیدین سات مقامات پر کیا جائے۔ ابتداء نماز کے وقت ۔ بیت اللہ کی زیارت کے وقت ۔ صفا اور مروہ پہاڑی پر قیام کے وقت ۔ وقوف عرفہ اور مزدلفہ کے وقت، رمی الجمار کے وقت
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ رفع الیدین صرف افتتاح صلوۃ کے وقت ہے نماز کے اندر رکوع سجود اور قیام الی الثالثہ کے وقت نہیں اور ہمارا مدعا بھی اتنا ہی ہے ۔ اس روایت پر کئی داخلی اور خارجی اعتراضات کئے گئے ہیں جن میںسے ایک یہ ہے کہ سا کی سند میں محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ راوی ہے جو قوی نہیں ہے۔
جواب: بلا شبہ اس راوہ پر بعض محدیثین کرام ؒ نے جرح کی ہے لیکن اس کو ثقہ کہنے والے بھی موجود ہیں امام دارقطنی ؒ فرمتے ہیں۔ ثقۃ فی حفظہٖ شئی۔ (الدار قطنی ص46،ج2) میں انکی ایک حدیث کے بارے میں محدیثین کرام سے فیصلہ یوں نقل کرتے ہیں قالو ہذا اسناد صحیح ان کی مزید توثیق حضرت براء رضی اللہ عنہ بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث ترک رفع الیدین میں بیان کی جائے گی بہر حال یہ حدیث بقول ابن قیم صحیح ہے۔ اور قابل احتجاج۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے مرفوع نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا مرفوع ہونا ہی مسلم ہے اگر موقوف بھی ہو تو حکماََ مرفوع ہے کیونکہ اس میں قیاس کو کیا دخل ہو سکتا ہے؟ اگر یہ روایت موقوف بھی ہو تب بھی ہمارا استدلال صحیح ہے کما لا یخفی۔
دلیل نمبر6: حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ لا ترفع الایدی الافی سبع مواطن حین تفتتح الصلوٰۃ وحین یدخل مسجد الحرام فینظر الی البیت وحین یقوم علی الصفا وحین یقوم علی المروۃ وحین یقف مع الناس عثیۃ عرفۃ ویجمع المقامین حین یرمی الجمرۃ۔ معجم طبرانی (بحوالہ نزل الابرار ص44)۔
رفع یدین نہ کیا جائے مگر ست مقامات میں۔ جب نماز شروع کی جائے اور جب مسجد حرام میں داخل ہوئے ہوئے بیت اللہ پر نظر پڑے اور جب صفا اور مروہ پہاڑی پر کھڑا ہو اور عرفہ میں بعد از زوال جب لوگوں کے ساتھ وقوف کرے اور مزدلفہ میں وقوف کے وقت اور جمرتین کی رمی کرتے وقت
اور یہ روایت نصب الرایہ ص390 ج1 میں بھی موجود ہے۔
غیر مقلدین حضرات کے رئیس المحققین نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں۔ من حدیث ابن عباس بسند جید ۔ نزل الابرر ص44 اور علامہ عزیزی السراج المنیر ص258 ج2 شرح جمع الصغیر میں فرماتے ہیں حدیث صحیح (بحوالہ نیل الفرقدین ص118).
قارئین کرام یہ حدیث صحیح ہے اور ترک رفع الیدین میں صریح بھی ہے اور اس میں منع بھی ہے کہ ان مقامات کے سوا نماز میں رفع الیدین نہ کیا جائے اب اگر کوئی رفع یدین عند الرکوع والسجود و وعند الی الثالثہ کرے گا تو وہ ان احادیث کے پیش نظر ضرور نافرمانی کی زد میں آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی ﷺ کے مابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور غیر مقلدین حضرات کا یہ عذر لنگ بھی ختم ہو گیا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے بعض اوقات رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ کو چھوڑا ہے۔ برائے جواز اور آپ نے رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ سے منع نہیں فرمایا غیر مقلدین حضرات اس حدیث میں دیکھ لیں کہ یہاں منع کیا گیا ہے اور حدیث بھی صحیح ہے خود ان کے نواب صاحب فرماتے ہیں کہ سند اس کی جید یعنی کھری ہے امید ہے کہ غیر مقلدین حضرات اپنے وعدے کے مطابق رفع الیدین چھوڑ دیں گے۔
 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں

اس لیے کہ ہم ﷲ کے فضل سے اہل حدیث ہیں اورقرآن وحدیث پر عمل کرنا اہل حدیث کا مذہبی شعار ہے۔ جب رفع یدین سنت ہے جو صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے تو ہم اس سنت پر عمل کیوں نہ کریں۔ رفع یدین کی احادیث مختلف صحابہ رضی اللہ عنہما سے تمام کتب احادیث میں مروی ہیں۔

سب سے صحیح حدیث حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ہے جو صحاح ستہ اور دیگر تمام کتب حدیث میں مذکور ہے۔ وھو ہذا:
((عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عُمَرَ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اللہ اِذَا قَامَ فِی الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی تَکُوْنَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یُکَبِّرُ لِلرَّکُوْعِ وَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہ‘ مِنَ الرَّکُوْعِ وَ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ‘ وَ لاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ))۱

عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ‘ میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کودیکھا کہ وہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور سجدہ میں آپ ایسا نہیں کرتے تھے۔


ماننے والوں کے لیے رفع یدین کے ثبوت میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و سلم کی ایک یہی حدیث کافی ہے کیونکہ یہ سب سے صحیح ہے ۔ا س کے مقابلے میں کوئی ایک حدیث صحیح تو درکنار اس کے پاسنگ بھی نہیں۔

امام بخاری کے استاد امام علی بن مدینی اسحدیث کے بارے میں فرماتے ہیں۔

رَفْعُ الْیَدَیْنِ حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کُلُّ مَنْ سَمِعَہ‘ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّعْمَلَ بِہِ۔۲

یعنی اس حدیث کی رو سے رفع یدین کرنا ہر مسلمان پر حق ہے۔ یہ حدیث اتنی صحیح ہے کہ مخلوق پر حجت ہے جو اس کو سنے اس کو چاہیے کہ اس پرعمل کرے۔


مولانا انور شاہ کشمیری حنفی دیوبندی جو حنفیوں میں بہت بڑے محدث ہو گزرے ہیں او ر دارالعلوم دیو بند میں حدیث کے استاد رہے ہیں۔ ان کو بھی اپنے رسالہ ’’ نیل الفرقدین‘‘ صفحہ 26میں یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑی ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:


’’اَمَّا حَدِیْثُ ابْنِ عُمَرَ فَھُوَ حُجَّۃٌ عَلَی الْخَلْقِ کَمَا ذَکَرَہ‘ عَنِ ابْنِ الْمَدِیْنِیْ‘‘۳

یعنی امام علی ابن مدینی نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ یہ حدیث ہر لحاظ سے اتنی صحیح ہے کہ سچ مچ ہی مسلمانوں پر رفع الیدین کو لازم کرتی ہے۔


کتاب الام میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’لاَ یَجُوْزُ لِاَحَدٍ عَلِمَہ‘ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عِنْدِیْ اَنْ یَّتْرُکَہ‘‘‘

امام ابن جوزی بھی اپنی کتاب ’’نزہۃ الناظر‘‘ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک ایسا ہی قول نقل کرتے ہیں:

’’لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ سَمِعَ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ رَفْعِ الْیَدَیْنِ اَنْ یَّتْرُکَ الْاِقْتِدَاءَ بِفِعْلِہ وَ ھٰذَا صَرِیْحٌ اِنَّہ‘ یُوْجِبُ ذٰلِکَیعنی

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کی ایسی صحیح حدیث سنے اور پھر رفع یدین نہ کرے۔

ایسی صحیح حدیث ہو تو اس پر عمل کرنا خود بخود واجب ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ائمہ نماز میں رفع یدین کو واجب قرار دیتے ہیں۔ ایسی صحیح اور صریح حدیث کے بعد کسی اور حوالے کی ضرورت تو نہ تھی ‘


لیکن حنفیوں کے مزید اطمینان کے لیے ترمذی شریف سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے۔

امام ترمذی فرماتے ہیں رفع الیدین کی حدیث کے راوی صرف حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت کعب بن مالک بن الحویرثؓ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابواسید رضی اللہ عنہ ‘ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ‘ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ‘ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت عمیر اللیثی رضی اللہ عنہ ۔۔۔ یہ صحابہ کرام بھی رفع الیدین کی حدیث کے راوی ہیں۔ دیگر کتابوں میں اور بہت سے صحابہ سے رفع یدین کی روایات آتی ہیں‘ لیکن سب کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مسئلے کے ثبوت کے لیے تو ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے


رفع یدین منسوخ بھی نہیں

حنفی علما یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حدیث تو صحیح ہے ‘ لیکن رفع یدین شروع میں تھی‘ پھر منسوخ ہو گئی‘ کیوں کہ:

1- جن صحابہ سے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا رفع یدین کرنا مروی ہے ‘ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے بعد میں ترک کر دی تھی۔

2- حضرت عبد ﷲ بن عمررضی ﷲ عنہ جو رفع یدین کی صحیح ترین روایت کے راوی ہیں حضور ﷺ کی وفات کے بعد بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔۶بلکہ جو رفع یدین نہ کرتا تو وہ اس کو کنکر مارتے۷

3- حضرت مالک بن الحویرث 9 ھ میں گرمی میں مسلمان ہوئے‘ انھوں نے رسول ﷲ ﷺ کو متنازعہ رفع یدین کرتے دیکھا۔۸

4- حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9ھ میں سردی میں مسلمان ہوئے انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ ﷺ کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ پھر جب اگلے سال 10ھ میں وہ سردیوں میں دوبارہ مدینہ آئے تو انھوں نے اس وقت بھی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو رفع یدین کرتے دیکھا۔

اس سے ثابت ہوا کہ رسول ﷲ ﷺ 10ھ یعنی اپنی آخری زندگی میں رفع الیدین کرتے تھے۔

5- رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کا رفع یدین کرنا ۔


چنانچہ امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام حمید بن ہلال رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

((کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ یَرْفَعُوْنَ))۱۰قریباً تمام صحابہ رفع یدین کرتے تھے۔


6- حضرت سعید بن جبیر جو جلیل القدر تابعی ہیں وہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔

7- حضرت ابوحمید ساعدی کا دس صحابہ کی موجودگی میں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر دکھانا اور اس میں رفع یدین کرنا اسی طرح حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا رفع یدین کے ساتھ نماز پڑھنا اور پھر کہنا کہ اس طرح نماز پڑھا کرو اور خاص کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع یدین کرکے نماز پڑھنا (تلخیص اور بیھقی )


یہ سب ایسے دلائل ہیں جن سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہوئی۔ اسی وجہ سے مولانا انور شاہ کشمیری کو ماننا پڑا۔

’لَمْ یُنْسَخْ وَ لاَ حَرفٌ مِنْہُ‘‘

رفع یدین کی سنت کا منسوخ ہونا تو درکنار‘ رفع یدین کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔


یعنی ان کو بھی تسلیم ہے کہ رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی دائمی اورمستقل سنت ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب رفع یدین رسول ﷲ ﷺ کی مستقل اور دائمی سنت ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہے اور منسوخ بھی قطعاً نہیں تو پھر حنفی نماز میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے‘ کیا حنفی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی احادیث کو نہیں مانتے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی ‘ حنفی مذہب کا پابند ہوتا ہے ۔ چونکہ حنفی مذہب میں رفع یدین نہیں اس لیے حنفی رفع یدین نہیں کرتے۔ رہ گیا احادیث کے ماننے کا سوال تو حنفی صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو ان کے مذہب کے مطابق ہوں ‘ جو احادیث ان کے مذہب کے خلاف ہوں خواہ وہ کتنی بھی صحیح کیوں نہ ہوں حنفی ان کو نہیں مانتے۔ اگر حنفی احادیث کو مانیں تو وہ حنفی نہیں رہ سکتے۔ اگر انھوں نے احادیث کو ماننا ہو تو وہ حنفی کیوں بنیں؟ یہی وجہ ہے حنفیوں کے بہت سے مسائل حدیث کے خلاف ہیں۔ حنفیوں کا اصل مذہب حنفی ہے‘ وہ فقہ حنفی پر ہی چلتے ہیں خواہ وہ حدیث کے موافق ہو یا مخالف۔ حنفی اہل حدیث نہیں جو وہ حدیث پر چلیں۔ حدیث پر چلنا تو اہل حدیث کا کام ہے۔ اہل حدیث کسی کی تقلید نہیں کرتے کہ کسی کی فقہ ان کا مذہب ہو۔ ان کا مذہب تو حدیث ہے‘ جب حدیث صحیح ثابت ہو گئی تو وہ اس پر عمل کریں گے۔

انتباہ :

بعض حنفی مولوی یہ کہہ کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ رفع یدین شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہو گئی۔ اب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ 10ھ تک بلکہ وفات تک رسول ﷲ ﷺ کا رفع یدین کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت وائل اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خاص کر


عبدﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل اور بیان سے واضح ہے۔

فَمَا زَالَتْ تِلْکَ صَلٰوتُہ‘ حَتّٰی لَقِیَ اﷲَ۱۵یعنی ’’ رسول اﷲﷺ دنیا سے رخصت ہونے تک رفع یدین کرتے رہے‘‘ ۔۔۔


ملاحظہ ہو حنفیوں کی مشہور کتاب ’’ نصب الرایۃ فی تخریج احایث الھدایۃ‘‘ اب جس مولوی یا مفتی کا یہ دعویٰ ہو کہ رفع یدین منسوخ ہے تو اس کا فرض ہے کہ 10ھ کے بعد کی کوئی ایسی صحیح حدیث دکھائے جس میں یہ صراحت ہو کہ 10ھ کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے رفع یدین بالکل ترک کردی تھی۔ رہ گئی عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایات جن کو اکثر حنفی مولوی پیش کرتے ہیں تو اولا تو وہ سخت ضعیف ہیں‘ بڑے بڑے ائمہ محدثین

مثلا امام بخاری‘ امام احمد‘ امام ابوداؤد ‘ امام دار قطنی‘ وغیرھم ان کو ضعیف کہتے ہیں۔ ثانیا ان ضعیف احادیث کی تاریخ کا کوئی پتا نہیں کہ وہ 10ھ سے پہلے کی ہیں یا بعد کی۔ رفع یدین کو منسوخ ثابت کرنے کے لیے 10ھ کے بعد کی کوئی صحیح حدیث ہونی چاہیے۔ پہلے کی کسی حدیث کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر حنفی مولوی یہ ثابت نہ کر سکیں کہ یہ حدیث10ھ کے بعد کی ہے اور صحیح ہے جس سے ان کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ اور وہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے(لَوْ کاَنَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا)[17:الاسراء:88]

تو ان کو اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ انھیں رسول ﷲ ﷺ کی ثابت شدہ سنت رفع یدین کی مخالفت ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ جب رسولؐ ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کا ترک بہت بڑا جرم ہے تو اس کی مخالفت کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا۔ترک سنت کی سزا


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:

((سِتَّۃٌ لَعَنْتُھُم وَ لَعْنَھُمُ ﷲُ وَ کُلُّ نَبِیٍّ کَانَ الزاءِدُ فِی کِتَابِ ﷲِ وَالْمُکَذِّبُ بِقَدَرِ ﷲِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِیُعِزَّمَنْ اَذَلَّ ﷲُ وَ یُذِلَّ مَنْ اَعَزَّ ﷲُ وَالْمُسْتَحِّلُ لِحَرَمِ ﷲِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِن عِتْرَتِیْ مَا حَرَّمَ ﷲُ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِیْ))۱۶

یعنی چھ شخصوں پر ﷲ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی لعنت کرتا ہے اور ﷲ بھی لعنت کرتا ہے اور ان چھ شخصوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تارک ہو۔


کیا ان کو ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے ڈر نہیں لگتا جو رفع یدین جیسی اہم اور دائمی سنت کے صرف تارک ہی نہیں بلکہ مخالف بھی ہیں۔ جو اس سنت پر عمل کرتا ہے وہ اس کو برا جانتے ہیں۔ انجام بخیر چاہنے والے ہر حنفی کو چاہیے کہ وہ تعصب کوچھوڑ کر ٹھنڈے دل سے اس رسالہ کو پڑھے اور اپنے مولوی اور مفتی کو بھی پڑھائے پھر ان سے قرآن پر ہاتھ رکھوا کر قسم د ے کر پوچھے کہ کیا رفع یدین سنت نبوی نہیں ؟ کیا واقعی یہ منسوخ ہے جس مولوی یا مفتی کے دل میں ذرا بھی آخرت کا خوف ہوگا وہ یہ رسالہ پڑھ کر کبھیبھی قرآن پر ہاتھ کر قسم نہیں کھائے گا کہ رفع یدین سنت نبوی نہیں۔یا یہ منسوخ ہے۔ برعکس اس کے کہ ہم اہل حدیث ہر وقت قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا سکتے ہیں اور بڑے دعوے سے کہ سکتے ہیں کہ مذہب اہل حدیث ﷲ اور رسول کا مذہب ہے جو یقیناً حق ہے۔

رفع یدین سنت رسول ہے صحیح ترین احادیث سے ثابت ہے جس پر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم آخر تک عمل کرتے رہے۔ یہ سنت ہر گز منسوخ نہیں جو جھوٹ پر قسم کھائے گا اس پر یقیناً اللہ کی لعنت ہوگی۔ ﷲ ہر مسلمان کو حق پر چلنے اور رفع یدین جیسی سنت نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ وہ ترک سنت کی وجہ سے ﷲ اور رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کی لعنت سے بچ جائے۔


والھدایۃ بیداﷲ ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ

*****************************************

۱ (بخاری ‘ کتاب الاذان‘ باب الی این یرفع یدیہ ‘رقم 736:۔۔۔ مسلم: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذوالمنکبین مع تکبیرہ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود ‘ رقم 211:۔۔۔ ابوداؤد: کتاب الصلوۃ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘رقم721:۔۔۔ ترمذی: کتاب الصلٰوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم 255:۔۔۔ نسائی : کتاب الافتتاح ‘ باب رفع الیدین حذوا المنکبین ‘رقم879: ۔۔۔ ابن ماجۃ : کتاب ابواب اقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا ص2548‘ رقم (858:

۲ (جزء رفع الیدین رقم (2:

۳ (نیل الفرقدین ص (26:

۴ (کتاب الام ‘ باب رفع الیدین فی التکبیر فی الصلٰوہ ج 1 ص(91

۵ (ترمذی :ابواب الصلٰوہ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع ‘ رقم(256:

۶ (بخاری:کتاب الاذان‘ باب رفع الیدین اذا قام من الرکعتین‘ رقم (739:

۷ (جزء رفع الیدین رقم (15:

۸ (بخاری : کتاب الاذان ‘ باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع وا ذا رفع‘ رقم 737۔۔۔مسلم: کتاب الصلوۃ ‘ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام والرکوع و فی الرفع من الرکوع و انہ لا یفعلہ اذا رفع من السجود‘ عن مالک بن حویرث ‘رقم (23:

۹ (نسائی :کتاب التطبیق ‘ باب مکان الیدین من السجود ‘رقم 1103:۔۔ ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین فی الصلوۃ ‘ رقم (726:

۱۰(جزء رفع الیدین رقم (30:۱۱(جزء رفع الیدین رقم (39:

۱۲ (ابوداؤد: ابواب تفریع استفتاح الصلوۃ ‘ باب افتتاح الصلوۃ ‘ رقم 73:۔۔۔صحیح ابن خزیمہ کتاب الصلوۃ ‘ باب الاعتدال فی الرکوع والتجانی و وضع الیدین علی الرکبتین 297/1رقم 587: عن ابی حمید الساعدی )

۱۳(بیہقی کتاب الصلوۃ ‘ باب رفع الیدین عند الرکوع و عند رفع الراس منہ ج 2ص 73

( ۱۴ (نیل الفرقدین ص (22:

۱۵ (تلخیص الحبیر 218/1‘کتاب الصلوۃ ‘ باب صفۃ الصلوۃ رقم 328:‘ نصب الرایۃ ‘کتاب الصلٰوۃ ‘ باب صفۃ الصلٰوۃ ‘ ج 1ص 483)

۱۶ (ترمذی‘ کتاب القدر‘ باب اعظام امرالایمان بالقدر‘ ص 1868‘رقم الحدیث2154: ۔۔ مشکٰوۃ المصابیح ‘ کتاب الایمان ‘ باب الایمان بالقدر‘ 38/1 رقم الحدیث109:)


حدثنا عبداللہ بن ایب المخزومی وسعد ان بن نصر و شعیب بن عمرو فی آخرین قالو احدثنا سفیان بن عینیۃ عن الزھری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ حتیٰ یحاذی بھما وقال بعضہم حذو منکبیہ واذا ارد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لا یرفعھما وقال بعضہم ولا یرفع بین السجدتین والمغی واحد آھ بلفظہٖ
دلیل نمبر1، مستخرج صحیح ابوعوانہ صفحہ 90/2ج، طبع حیدر اآباد دکن میں ہے
محدث ابوعوانہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ایوب مخزومیؒ اور سعدان بن نصر اور شعیب بن عمرو ؒ تینوں نے حدیث بیان کی اور انہوں نے فرمایا کہ ہم نے سفیان بن عیینہ ؒ نے حدیث بیان کی انہوں نے زہری سے اور انہوں نے سالم ؒ سے اور اور وہ اپنے باپ عمر سے روایت کی اور حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے کندھوں کے برابر اور جب ارادہ کرتے کہ رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد تو آپ رفع یدین نہ کرتے اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ سجدتین میں بھی رفع یدین نہ کرتے مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہے۔

مستخرج صحیح ابو عوانہ کا تعارف
اس کتاب کے مصنف محدث ابوعوانہ ؒ یعقوب بن اسحٰق اسفرائنی المتوفی 316ھ ہیں ان کی کتاب ہذا بھی عند لمحدثین صحیح مسلم کی طرح صحیح ہے علامہ ذہبی ؒ تذکرۃ الحفاظ ص6 ج3 میں اس کتاب کو الصحیح المسند کہتے ہیں اور ص3ج3 میں لکھتے ہیں کہ ابوعوانہ ؒ الحافظ الثقۃ الکبیر میں اور علامہ تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیۃ الکربی س321 ج2 تا س322 میں ان کے فضائل و مناقت بیان کئے ہیں اور کنزالعمال س3 ج1 میں ہے کہ تمام حدیثیں صحیح ہیں اور امام سیوطیؒ تدریب الراوی میں صحیح ابوعوانہ کو صحیح کتابوں میں شمار کرتے ہیں ۔اور مولانا عبدالرحمٰن صاحب مبارکپوری غیر مقلد تحقیق الکلام ص118 ج2 میں لکھتے ہیں کہ اور حافظ ابوعوانہ کی سند کا بھی صحیح ہونا ظاہر ہے کیونکہ انہوں نے اپنے صحیح میں صحت کا التزام کی ہے ۔ حافظ عبداللہ روپڑی غیر مقلد اپنی کتاب رفع یدین اور آمین کے ص22 میں لکھتے ہیں برخلاف ان کتابوں کے جن میں صحت کی شرط ہے ان اکیلی اکیلی کو صحیح کہتے ہین جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن حبان ، صحیح
ابوعوانہ، صحیح ابوالسکن وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح صحیح ابن خزیمہ ہے چنانچہ علامہ زیلعیؒ کی عبارت بھی ابھی گزری پس ان بزرگوں کا اپنی کتابوں میں کسی حدیث کو لانا اور سکوت کرنا یہی صحیح کہنا ہے ورنہ صحت کی شرط کا فائدہ کیا۔
اور روپڑی صاحب اسی رسالہ کے ص123 میں لکھتے ہیں اور جن مصنفین نے اپنی کتب میں صحت کی شرط کی ہے ان کی کتابوں میں کسی حدیث کا ہونا صحت کے لئے کافی ہے۔ جیسے کتاب ابن خزیمہ اور ایسے ہی کسی حدیث کا ان کتابوں میں ہونا جو بخاری مسلم پر بطور تخریج لکھی گئی ہیں صحت کے لئے کافی ہے۔ جیسے کتاب ابی عوانہ الاسفرائنی اور کتاب ابی بکر اسماعیلی اور کتاب ابی بکر برقانی وغیرہ یہ محدثین بخاری مسلم کی احادیث کو اپنی اسانید سے روایت کرتے ہیں جن میں بخاری مسلم کا واسطہ نہیں ہوتا اور ان کا مقصد بخاری مسلم کی احادیث میں کمی بیشی کو بیان کرنا ہے مثلاََ مسلم میں کوئی مخذوف ہے اس کو پورا کر دیا کوئی زیادتی بخاری مسلم سے رہ گئی جس سے مطلب حدیث کی وضاحت ہوتی ہو اس کا ذکر کر دیا الخ بلفظٖہ
قاریئن کرام صحیح ابو عوانہ کی جب تمام حدیثیں محدثین کے ہاں صحیح ہیں تو یہ ترک رفع یدین کی حدیث صحیح ہونے کے ساتھ صریح بھی ہے۔
جناب روپڑی صاحب کی عبارت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں (1) صحیح ابو عوانہ ان کتابوں میں شمار ہے جن کی تمام حدیثیں صحیح ہیں (2) صحیح ابوعوانہ کی سند وہی بخاری مسلم والی ہوتی ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ مسلم کا درمیان میں واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ خود اپنی سند سے حدیث بیان کرتے ہیں (3) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بعض حدیثیں ایسی بھی ہیں جن میں الفاظ کی کمی بیشی ہے اور بعض الفاظ (مخذوفات) ان میں مذکور نہیں ہیں جس کی وجہ سے مطلب حدیث وضاحت نہیں ہوتی (4) اور مخرجین حضرات کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کمی بیشی ور محذوف کو ذکر کر دیا جائے تا کہ مطلب حدیث واضح ہو جائے۔ قارئین کام آپ حضرات نے جب یہ بتیں ذہن نشین کر لیں تو اب ہم آپ سے اس روایت میں جو حضرت ابوعمر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین میں پیش کی جاتی ہے عرض کرتے ہیں کہ بخاری وغیرہ میں جزاء یرفعہما ہے اور ابوعوانہ وغیرہ میں لا یرفعھما اور ابو داؤد ج1 ص104 میں روایت یوں ہے
راءیت رسول اللہ ﷺ اذا استفتح الصلاۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راء سہ من الرکوع (الیٰ) ولا یرفع بین السجدتین یہاں اذا شرطیہ دو 2 ہیں پہلا اذا استفتح لصلاۃ اور اس کی جزاء رفع یدیہ مذکور ہے اور دوسرے واذا ارادان یرکع وبعد ما یرفع راءسہ من الرکوع ہے اور اس کی جزاء مذکور نہیں ہے بعض حضرات نے اس حدیث کو رفع الیدین کے با ب میں ان الفاظ کے ساتھ لا کر یوں رفع یدین ثابت کی (جیسے امام بودائود ؒ نے دوسرے اذا کا بذریعہ واؤ عطف ہے پہلے اذا پر اور س کی جازا رفع یدیہ ہے تو اس کی جزاء بھی رفع یدیہ سمجھی ہے بعض حضرات نے بذریعہ عطف یہ جزاء سمجھ کر اپنی طر ف سے جزاء کے الفاظ بھی ذکر کر دیئے ۔ چنانچہ بعض حضرات نے جزاء رفع یدیہہ ذکر کر دی اور بعض حضرات نے واذا ارادان یرکع فعل مثل ذالک ذکر کر دیا اور بعض حضرات نے اذا اراہ ان یرکع کذالک رفعھما ذکر کر دی حالانکہ جزاء اس طرح ہے جس طرح کہ صحیح ابوعوانہ میں ہے ۔ واذا ارادان یر کع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفعھما
اس جزاء مخذوف کے ذکر کرنے سے مطلب حدیث کی پوری وضاحت ہو گئی کہ یہ حدیث ترک رفع الیدین میں واضح ہے اسے رفع یدین میں حتمی طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے ور امام ابوعوانہ کی طرح امام بخاری کے استاد امام حمیدی نے بھی اپنے مسند حمیدی میں جزاء مخذوف کا ذکر کیا ہے جیسے کہ دلیل نمبر2 کے تحت اس کا ذکر آرہا ہے۔ اور حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد کا زیادتی اور مخذوف کے بارے میں ایک اور حوالہ بھی ملاحظہ کریں۔ وہ اپنی کتاب رفع الیدین اور آمین کے ص 129 میں لکھتے ہیں اس طرح وہ روایتیں بھی صحیح ہیں جو مستخرجات علی الصحیحین میں پائی جاتی ہیں جیسے کوئی زیادتی یا تتمہ کسی مخذوف کا آ ھ بلفظٖہ
نیز اس حدیث (ترک رفع الیدین ) کی تمام سندوں سے زیادہ صحیح ہے چنانچہ حافظ عبداللہ روپڑی غیر مقلد رفع لیدین اور آمین کے ص 64 میں لکھتے ہیں دوم زہری سالم ابن عمر اصح السانید ہے یعنی سب سندوں سے زیادہ صحیح ہے ملاحظہ ہو شرح نخبہ اور رسالہ امیر علی حنفی التہذیب للتقریب ملحقہ تقریب التہذیب ص الخ بلفظٖہ
روپڑی صاحب کے فرمان کے مطابق جب یہ سب باتیں صحیح ہیں تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حتمی طور پر رفع یدین کی روایت کا بالکل خاتمہ ہو گیا اور روپڑی صاحب کا یہ کہنا جو انہوں نے رفع یدین اور آمین کے ص 65 میں لکھا ہے کہ محدثین نے قطع نظر اس سے کہ کسی فقاہت کی کمی بیشی میں بحث کریں اور رفع یدین کے متلعق روایات کی اتنی بھرمار کر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث قریب قریب تواتر تک پہنچا دی۔
حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری ص175 ج2 میں لکھا ہے کہ پچاس 50صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے (جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں) آہ بلفظٖہ غلط ہے۔
اولاََ تو اس لئے کہ حضرت ابن عمر سے جب یرفعھما کی روایت ہی نہیں بلکہ لا یرفعھما کی بھی سند سے مروی ہے اور ان کا معمول بھی بعض اوقات ترک رفع یدین تھا تو مولانا روپڑی صاحب کا حضرت ابن عمر سے رفع یدین کی روایت کو متواتر کہنا اور ان کی دوسری روایت لا یرفعھما کا ذکر تک نہ کرنا انصاف سے بعید ہے چونکہ مولانا روپڑی نے پہلے ہی تعصب کا شکار ہو کر یہ ٹھان لی ہے کہ رفع یدین ہی ثابت ہے نہ کہ ترک رفع یدین تو اس لئے ان سے پے در پے یہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں بقول شخصے
خشت اول نہد معمار کج تا ثریا مرود دیوار کج
وثانیاََ روپڑی صاحب کا پچاس صحابہ رضوان اللہ علیہم سے رفع الیدین ثابت کرنا دھوکہ ہے اور مقدمہ میں غیر مقلدین حضرات کا ایک اور دھوکہ کے عنوان کے تحت علامہ شوکانی ؒ وار علامہ امیر یمانی ؒ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ ابتاء نماز کے وقت رفع الیدین جو متفق علیہ ہے اس سے پچاس صحابہ راوی ہیں اور عند الرکوع وغیرہ رفع الیدین کے نہ تو پچاس صحابہ راوی ہیں نہ عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہ۔ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کو ہم ان کی ہی عبارت یاد دلاتے ہیں وہ رفع یدین اور آمین کے ص117 میں لکھتے ہیں اپنے مذہب کی پاسبانی کوئی بری چیز نہیں مگر تعصب کرنا اور دیانت داری کے خلاف قدم اٹھانا یہ مذہبی پاسبانی نہیں بلکہ خواہش نفسانی کی پاسبانی ہے آھ بلفظٖہ مگر روپڑی صاحب تمہیں عادت ہے بھول جانے کی ۔ دیراں را نصیحت خود را فضیحت
حافظ عبداللہ صاحب روپڑی سے ہم عرض کرتے ہیں۔
آثار سحر کے پیدا ہیں اب رات کا جادو ٹوٹ چکا ظلمت کے بھیانک ہاتھوں سے تنویر کا دامن چھوٹ چکا
دلیل نمبر2، مستخرج صحیح ابوعوانہ ص91 ج3 میں ہے
حدثنا الصائغ بمکۃ قال حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان عن الزھری قال اخبرنی سالم عن ابیہ قال راءیت رسول اللہ صلی اللہ عللیہ وسلم مثلہ آھ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور پہلی حدیث کی طرح بیان فرمایا
پہلی حدیث میں رفع الیدین عند الافتتاح تھا اور اس کے بعد ترک رفع الیدین تھا اس حدیث میں بھی ویسے ہی ہے امام ابوعوانہ کے استاد الصائغؒ کا ذکر صحیح ابوعوانہ ص95 ج2 ص133 ج3، ص227ج2، میں بھی اسی طرح ہیں لیکن صحیح ابوعوانہ ص97 ج2، ص124 ج2 و ص185 ج2 میں ان کا پورا نام محمد بن اسماعیل الصائغ ذکر کیا گیا ہے (المتوفی 276ھ) اور وہ ثقہ ہیں اور الصائغ کے بعد حمدی کا ذکر آتا ہے جو امام بخاری کے استاد ہیں جن کا نام عبداللہ بن زبیر ہے جو زبرداست ثقہ ہیں اور حدیث کی کتاب مسند حمیدی کے مصنف ہیں اور یہ حدیث امام ابوعوانہ نے امام حمیدی کے طریق سے ذکر کی ہے اور امام حمیدی نے یہ حدیث ترک رفع الیدین کی اپنے مسند حمیدی میں بھی اسی سند کے ساتھ ذکر کی ہے۔ چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو
حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان قال حدثنا الزھری قال اخبرنی سالم بن عبداللہ بن عبداللہ عن ابیہ قال راءیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتح الصلوۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا ارادان یرکع وبعد م یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفع ولا بین السجدتین مسند حمیدی قلمی ص79 جو خانقاہ سراجیہ کے کتب خانے میں موجود ہے دیکھئے مسند حمیدی ص 377 ج2 حدیث نمبر 614 اور یہ حدیث بھی حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی واضح دلیل ہے اور پہلی حدیث کے متن کی طرح اس کا متن ہے اور سای کی سند کی طرح سند ہے۔ (تنبیہ) مسند حمیدی کے مطبوعہ نسخہ میں حدثنا سفیان کا جملہ چھوٹ گیا ہے حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی دامت برکتہم مشیع و محشی مسند حمیدی سے جب رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کی صحیح سند ہے حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان قال حدثنا الزھری الخ مسندی حمیدی کے نسخہ مکتبہ ظاہریہ اور اس کے ہندوستانی مخطوطات میں بھی یونہی ہے۔ مطبوعہ نسخوں میں حروف جوڑنے والے کی غلطی سے قال حدثنا سفیان چھوٹ گیا ہے تصحیح غلاط میں اس کو دینا چاہئے تھا مگر سہواََ رہ گیا ۔ والسلام حبیب الرحمن الاعظمی بقلم خود پٹھان ٹولہ، مئو اعظم گڑھ 15 اگست 65ء اور مولانا کا یہ گرامی نامہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔ قارئین کرام ! حضرت امام بخاری ؒ وغیرہ نے حضرت ابن عمر سے رفع یدین کی روایت میں ذا شرطی کی جزاء رفعہما کذالک الخ نقل کی ہے او ان کے استاد امام حمیدی نے (جنکے قول کو امام بخاری بطور سند پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو بخاری ج1، ص96، ج2، ص845) اپنے مسند ج2 ص277 میں اور مام ابوعوانہ نے صحیح ابوعوانہ میں جزاء لا یرفعھما روایت کی ہے اور صحیح ابوعوانہ وغیرہ کی احادیث میں صحیح ہیں کیونکہ ن کی کتاب بھی حدیث کی صحیح کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ ما مرتواب یا تو دونوں رایتوں سے استدلال تک کر دیا جائے جیسا کہ او اتعارضا تساقطا کا قاعدہ ہے اور یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جائے اور وجہ ترجیح یہ ہے کہ چونکہ نماز میں خشوع و خضوع اور سکون مطلوب ہے اور حضرت ابن عمر سے فعلاََ بھی ترک رفع یدین ثابت ہے اس لئے ترک رفع یدین کی روایت ہی کو ترجیح ہو گی۔ اور دوسری جزاء کو بعض روات کی غلطی اور وہم پر حمل کیا جائیگا۔ مولوی محؐمد صاحب غیر مقلد جونا گڑھی عقیدہ محمدی ص7، ماہ ذی الحجہ 1353 میں لکھتے ہیں کوئی ایسا نہیں جس سے احکام شرع میں غلطی اور خطاء نہ ہوئی ہو سوا پیغمر ہے الخ ہم جناب حافظ عبداللہ صاحب روپڑی اور ان کی جماعت سےت درخواست کرتے ہیں کہ جب صحیح ابوعوانہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں تو ابوعوانہ نے اپنے مستخرج صحیح ابوعوانہ میں دو 2حدیثیں ایسی پیش کی ہیں جو صحیح ہونے کے ساتھ رفع الیدین نہ کرنے میں صریح بھی ہیں کیا آپ حضرات رفع لیدین چھوڑیں گے؟ یہ درخواست ہم نے اس بناء پر کی ہے کہ حافظ عبداللہ روپڑی اپنے رسالہ رفع یدین اور آمین کے ص 152 میں فرماتے ہیں کہ ہم تو ایسے موقعہ پر ایک اصول جانتے ہیں کہ جب کسی مسئلہ کے متعلق صریح حدیث آجائے تو اس کو معمول بہ بنا لیں اور اس کے مقابلے میں کسی کی نہ سنیں آھ بلفظٖہ اور اسی رسالہ کے ص 46 میں لکھتے ہیں ہمیں تو ہماری حدیث تمہاری حدیث یہ تقسیم کا لفظ ہی مکروہ معلوم ددیتا ہے کیونکہ صحیح سب کی ہے اور ضعیف کسی ک بھی نہیں کیونکہ مسلمان کی شان ہی اذا صح الحدیث فھو مذھبی
ہونی چاہئے جس کے یہ معنی ہیں
مصور کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ ادائی ہو ادھر حکم پیغمبر ہو ادھر گردن جھکائی ہو ۔آھ بلفظٖہ
ہم نے حافظ صاحب کا یہ زبانی جمع خرچ سن لیا ہے بس اس پر عمل کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
بنتے ہو وفادار وفا کر کے دکھاؤ کہنے کی وفا اور ہے کرنے کی وفا اور
غیر مقلدین حضرات کے عالم مولوی محمد صاحب دیلوی کا فرمان ملاحظہ ہ
دوستو میرے خیل سے تو میں نے مختصراََ ان تینوں مسئلو ںکو بالکل صاف کر دیا ہے اب اتن اور بھی سن رکھئے کہ کوئی حدیث ان کے خلاف نہیں اگر کوئی صاحب مدعی ہو تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر وہ رفع الیدین نہ کرنے کی یا منسوخ ہونے کی ایک حدیث بھی لائیں جو صریح صحیح اور مرفوع ہو جس پر کسی قسم کی جرح نہ ہو تو ہم حلفیہ اقرار کرتے ہیں کہ انہیں ایک سو روپیہ انعام دیں گے اور تحریر اقرار کریں گے کہ رفع یدین منسوخ ہے آھ۔ بلفظٖہ دلائل محمدی ص9، حصہ اول ماہ شوال المکرم 1355ھ، 1937 مؤلفہ مولوی محمد صاحب غیر مقلد ایڈیٹر اخبار محمدی دہلی
قارئین کرام ۔ مولوی محمد صاحب غیر مقلدی نے جن شرائط کے ساتھ ترک رفع الیدین میں حدیث کا مطالبہ کیا تھا تو ایک کے بجائے دو حدیثیں پیش ہو چکی ہیں۔ (1)جو صریح بھی ہیں اور صحیح بھی ہیں کیونکہ صحیح ابوعوانہ کی تمام حدیثیں آپ کے ہاں صحیح ہیں۔ (2) مرفوع بھی ہیں (4) کسی قسم کی جرح بھی موجود نہیں۔ اب غیر مقلدین حضرات سے التما س ہے کہ رفع الیدین کو چھوڑ دیں اور انعام بھی ادا کریں اور حلفیہ طور پر ایک تحریر ی اقرار نامہ بھی اپنی اخباروں میں شائع کریں اگر مطالبہ پورا ہوجانے کے بعد بھی آپ اس پر عمل نہیں کریں گے تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ
جھوٹ کہنے سے جن کو عار نہیں ان کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں
دلیل نمبر3: مالکیہ حضرات کی معتبر کتاب حدیث مدونہ کبری ص71، ج1 میں ہے

عن ابن وھب و ابن القاسم عن مالک عن بن شہاب عن سالم عن ابیہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ حزومنکبیہ اذا افتح الصلوۃ
بحوالہ معارف السنن ص 497، ج 2 مولانا محمد یوسف بنوری
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ رفع الیدین اپنے کاندھوں کے برابر اس وقت کرتے تھے جب نماز شروع کرتے تھے
یہ حدیث ترک رفع کے دلائل میں مالکیہ حضرات نے پیش کی ہے اور ابن وہب اور ابن القاسم دونوں حضرت امام مالک کے شاگرد اپنے استاد امام مالک سے یہ روایت کرتے ہیں اس سے امام مالک کے مذہب ترک رفع الیدین کا مزید ثبوت مل گیا ہے۔ سوال: اس حدیث میں ترک رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
جواب: جزاء کان یرفع مقدم ہے شرط اذا افتتح الصلوۃ مؤخر ہے۔ اور ضابطہ مشہور ہے التقدیم ما حقہ التاخیر بقید الحصر تو عند الافتتاح رفع یدین کا حصر ہو گیا کہ مابعد رفع الیدین نہیں ہے اور حافظ ابن حضرہ کا حملہ مالکیوں اور ابن القاسم پر غلط ثابت ہوا (لطیفہ) حافظ ابن حجرؒ الشافعی (المتوفی 852ھ) اور علامہ بدر الدین عینی ؒ (المتوفی 855ھ) حنفی معاصر تھے ان کا آپس میں خوب مقابلہ اور مناظرہ ہوتا رہتا تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابن حجر ؒ عینی کی مسجد میں تشریف لائے مسجد کا مینار دیکھ کر فرمیا قد وقعت علیہ العین
اس کے دو معنی ہیں (1) اس منار کو نظر لگ جانے کے باعث خرابی پیش آئی (2) عینی اس منار پر گرے ہیں اور منار خراب ہو گیا ہے۔
علامہ عینی نے فوراَ جواب دیا ۔ لا لابل خربت الحجر نہیں نۃٰن بلکہ پتھر خراب ہو گیا ہے اس کے بھی دو معنی ہیں (1) منار کا پتھر خراب ہو گیا ہے ۔ (2) ابن حجر کا باپ حجر خراب ہو گیا ہے ۔ ابن حجر یہ جواب سن کر خاموش ہو گئے
دلیل نمبر4: نصب الرایہ ص 404 میں بحوالہ خلافیات بیہقی یہ حدیث نقل کی گئی ہے
عن عبداللہ بن عون الخراز ثنا مالک عن الزھری عن سالم عن ابن عمر ان النبی کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰۃ ثم لا یمود:
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رفع الیدین اس وقت کرتے جب شروع کرتے پھر رفع الیدین کرنے کے لئے نہ لوٹتے تھے.
قارئین کرام یہ حدیث بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے اور پہلی تین حدیثوں کی طرح ترک رفع الیدین میں واضح ہے اور سند کے لحاظ سے تواصح الاسانید ہے جیسا کہ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد کے حوالہ سے گزر چکا ہے اور اس حدیث کے راوی بھی امام مالک ہیں لیکن مدونہ کبری میں امام مالک کے شاگرد ابن وہب اور ابن القاسم تھے جو نہایت ہی ثقہ تھے وار یہاں شاگر عبداللہ بن عون الخراز ہیں جو زبردست ثقہ ہیں اور ان کی توثیق پر سب حضرات محدثین متفق ہیں دیکھئے تقریب 210 طبع دہی و تہذیب التہذیب ص229 ج5 ص250 اور اس حدیث کی سند اور متن کے الفاظ اس سے پہلی حدیث کے ساتھ ملتے جلتے ہیں البتہ اس حدیث میں ثم لا یعود کا جملہ زیادہ ہے جو اس حصر کی تاکید ہے جو جزا کے مقدم کرنے کے باعث حاصل ہوئی ہے۔ اگ یہ جملہ نہ بھی ہوتا پہلی حدیث کی طرح تب بھی رفع الیدین عند الافتتاح پر ہی بند تھا۔
اعتراض: امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ امام حاکم ؒ نے فرمایا کہ یہ روایت موضوع ہے کیونکہ ہم نے امام مالک سے رفع الیدین کی روایت بیان کی ہے اور حافظ ابن حجرؒ تلخیص الجبر میں فرماتے ہیں مقلوب موضوع
الجواب: امام حاکم کی یہ سخت غلطی ہے اور اس کے کئی جواب ہیں ۔ جواب نمبر1۔ جب اس حدیث کی سند صحیح ہے تو پھر موضوع کیسے؟ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔

الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ماشاء
اسناد حدیث دین میں سے ہے اگر سند نہ ہوتی تو جس کے خیال میں جو بات آجاتی وہی کہہ دیتا۔
مقدمہ مسلم ص12، و سنن ترمذی ص236، ج2
اور جب سند ہو گی تو کسی کو غلط بات کرنے کی جراءت نہ ہو گی جیسے کہ امام حاکم ؒ نے غلطی کی ہے جواب نمبر2۔ امام حاکم کثیر الغلط ہیں مستدرک میں انہوں نے کافی غلطیاں کی ہیں۔
بعض دفعہ ضعیف بلکہ موضوع حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین کہہ دیتے ہیں۔ علامہ ذہبی ؒ نے اس لئے تلخیص المستدرک لکھ کر ان اغلاط کو ظاہر کیا ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
بعض دفعہ علامہ ذہبی اغلاط بیان کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور غصہ میں آکر امام حاکم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ تجھے اے مؤلف حیاء نہیں اآتی ایسی غلط باتیں کرتے ہو۔ چنانچہ قاضی شوکانی ؒ، غیر مقلد الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ص496 میں ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔
قال الحاکم ہذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی افمااستحی الحاکم من اللہ یصحح مثل ہذا وقال فی تلخیص المستدرک ہذا موضوع قبح اللہ من وضعہ وما کنت احسب ان الجھل بالحاکم یبلغ الیٰ ان یصحح مثل ہذا وھو مما افتراہ یزید بن یزید البلوی آھ بلفظہٖ
امام حکم ؒ نے ایک حدیث کے بارے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے علامہ ذہبی نے فرمایا کیا حاکم کو اللہ تعالیٰ سے حیاء نہیں آتی ایسی موضوع حدیث کی تصحیح کرتا ہے اور علامہ ذہبی ؒ نے تلخیص المستدرک میں کہا ہے کہ ی حدیث موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ وضع کرنے والے کو ذلیل و خوار کرے مجھے یہ گمان نہ تھا کہ حاکم ایسی جہالت تک پہنچ جائیگا کہ ایسی موضوع حدیث کی تصحیح کرے گا حالانکہ یہ حدیث یزید بن یزید بلوی کا افتراء ہے۔
اور علامہ زیلعی ؒ نصب الرایہ ص351،، ج1 میں لکھتے ہیں کہ علامہ ذہبی ؒ نے کہا
اما استحی الحاکم یورد فی کتابہ مثل ہذا الحدیث الموضوع فانا اشہد باللہ واللہ انہ لکذب آھ
کیا حاکم کو حیا ء نہیں آتی کہ ایسی موضوع حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے میں (ذہبیؒ) خدا تعالیٰ کی قسم اٹھا کر گواہی دیتا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے۔
اور علامہ ذہبی ؒ تلخیص مستدرک مع المستدرک ص60 ، ج3 میں امام حاکم کو اسی قسم کے الفاظ استعمال کر کے سخت سست کہا ہے اگر امام حاکم ایسی موضوع حدیثوں کو صحیح کہنے میں غلطی کر سکتے ہیں تو یقین جانیئے کہ صحیح حدیث کو موضوع کہنے کی غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کون سی بات ہے؟
لطیفہ: میناء ایک راوی ہے جو کہ محدیث کے ہاں رافضی اور کذاب ہے امام حاکم فرماتے ہیں۔
قد ادرک النبی وسمع منہ واللہ اعلم۔ مستدرک حاکم ص160، ج3
منیاء نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پالیا ہے اور آنحضرت ﷺ سے سنا بھی ہے۔ واللہ اعلم
علامہ ذہبی فرماتے ہیں
قلت ما قال ہذا بشر سوی الحاکم وانما ذاتا بعی ساقط وقال ابو حاتم کذاب یکذب وقال ابن معین لیس بثقۃ (الیٰ) اھما استحیت ایھا المؤلف ان تورد ہذاہ الا خلوقات من اقوال الطرقیۃ فیما یستدرک علی الشیخین۔ تلخیص المستدرک ص160، ج3
میں (ذھبیؒ) کہتا ہوں کہ یہ بات سوا حاکم کے اور کسی بشر نے نہیں کی حالانکہ یہ (منیاء) تابعی ہے جو ساقط العدالت ہے اور ابو حاتم ؒ نے کہا ہے کہ کذاب ہے جھوٹ بولتا ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ ثقہ نہیں ہے (الیٰ) کیا اے مؤلف تجھے حیاء نہیں آتی کہ ایسی جھوٹی باتوں کو ایسی سندوں سے مستدرک علی الشیخین میں لاتے ہو
اور حافظ ابن حجرؒ تقریب ص 259 طبع دہلی میں لکھتے ہیں

مینا متروک و رمی بالرفض و کذبہ ابو حاتم من الثالثۃ ووھم الحاکم فجعل لہ صحبۃ ۔ واللہ اعلم
مینا متروک الحدیث ہے اور رفض کی تمہت سے متہم ہے اور ابو حاتمؒ نے اسے کذب قرار دیا ہے اور امام حاکم ایسے وہم میں پڑے کہ اس کی صحابیت ثابت کر ڈالی ۔ واللہ اعلم
قارئین کرام اگر امام حاکم ترک رفع الیدین کی صحیح حدیث کو موضوع کہتے ہیں تو اس میں حیرت نہیں ہے۔
جواب نمبر3: امام حاکم ؒ کا اس حدیث کو اس بناء پر موضوع کہہ دینا کہ انہوں نے امام مالک سے رفع الیدین روایت کیا ہے صحیح نہیں کیونکہ اگر مالکیہ حضرات یہی طریقہ اختیار کر کے امام حاکم ؒ کی رفع لیدین عن مالک روایت کو موضوع کہہ دیں اسی بناء پر کہ انہوں نے (جیسے ابن وہب مالکی اور ابن القاسم مالکی نے مدونہ کبری میں اور عبداللہ بن عون اخراز نے خلافیات بیہقی میں) امام مالک سے ترک رفع الیدین کی روایت کی ہے تو امام حاکم اس کا کیا جواب دیں گے۔ ان الظن لا یغنی من الحق شیاََ
جواب نمبر4: امام مالک سےئ ترک رفع الیدین کی ایک روایت تو یہی ہے جو زیر بحث ہے دوسری اس سے پہلے مدونہ کبریٰ کے حوالہ سے گزر چک ہے۔ تیسری موطا امام محمد کے حوالہ سے آرہی ہے کیا ان سب کو موضوع سمجھا جائے گا ۔ بہتر تو یہ ہے کہ ن سب کو موضوع کہنے سے اس روایت کو ہی موضوع قرار دیا جائے ۔ جو امام حاکم نے امم مالک سے رفع الیدین کے متعلق بیان کی ہے۔
جواب نمبر5: امام مالک کا مذہب ترک رفع الیدین ہے جیسا کہ باب اول میں اس کا ٹھوس حوالوں سے ثبوت پیش کیا گیا ہے امام حاکم ہی بتائیں کہ انہوں نے کس حدیث کی بناء پر ترک رفع الیدین کا مذہب اختیار کیا ہے ۔ کیا امام مالکؒ احادیث نبویہ کے زیادہ ماہر تھے یا (امام حاکمؒ) آپ زیادہ ماہر ہیں۔ اس لئے علامہ سید محمد انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ
ہذا حکم من الحاکم لا یکفی ولا یشفی۔ نیل الفرقدین ص127
حاکم کا یہ حکم ناکافی اور غیر تسلی بخش ہے
باقی رہا حافظ ابن حجرؒ کا اس حدیث کو مقلوب "موضوع" کہنا تو یہ بھی کئی وجوہ سے غلط ہے اولاََ تو اس لئے کہ سند جب صحیح ہے تو پھر یہ موضوع کیسے و ثانیاََ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کی روایت ہی ثابت نہیں جیسے دلیل نمبر1 کے تحت گزرا تو پھر اس ترک رفع لیدین کی روایت کو مقلوب کہنا کیسے صحیح ہوا۔و ثالثاََ امام مالک سے ترک رفع لیدین کی صرف یہی روایت نہیں بلکہ اور روایات بھی ہیں و رابعاََ مستخرج صحیح ابوعوانہ اور مسند حمیدی کے حوالہ سے ترک رفع الیدین کی روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے گزر چکی ہیں جو سا روایت کی تصحیح کا مزید ثبوت فراہم کرتی ہیں و خامساََ امام شافعی کی مدح میں تو حافظ ابن حجر موضوع حدیث بیان کر نے سے دریغ نہیں کرتے اور پھر سکوت کر جاتے ہیں۔ بحوالہ مقدمہ نصب الرایہ ص60۔ پتہ نہیں اس حدیث کو وہ موضوع کیوں کہتے ہیں شاید کہ ان کے امام کے مذہب کے خلاف ہے؟ اور حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر ص181 و درایہ ص 85 میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بین کی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ آخری عمر تک رفع الیدین کرتے رہے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو ذکر کر کے اس پر مہر سکوت لگائی ہے۔ (بحوالہ رفع یدین و آمین) حالانکہ یہ حدیث موضوع ہے جیسا کہ اپنے مقام پر اس کی بحث آرہی ہے شاید کہ یہی ہو کہ جو حدیث موضوع ان کے امام کی مدح میں ہو اور ان کے مذہب کی تائید کرتی ہو تو وہاں بیان کرنیکے بعد خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور جو حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہو اس پر کوئی نہ کوئی جرح کر ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری اور ان کی لغزشوں کو معاف فرما دے آمین۔ حافظ ابن حجرؒ کی یہ پانچویں غلطی ثابت ہوئی کیونکہ چار پہلے باب میں ذکر ہو چکی ہیں۔
(لطیفہ) حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب ص198 ج2 میں لکھتے کہ حجاج بن ارطاۃ کی ایک روایت بطور متعابعت کے صحیح بخاری کتاب العتق میں موجود ہے حالانکہ صحیح بخاری ص343۔ ج1 میں وہ متابع بن حجاج اسلمی باھلی ہے اور بقول علامہ ذہبی کے امام بخاری نے صحیح بخاری میں کہیں بھی اس کی روایت متابعۃ ذکر نہیں کی البتہ امام مسلم نے متبعۃ پیش کی ہے چنانچہ الفاظ اس طرح ہیں۔ لم یخرج لہ البخاری وقرنہ مسلم بالآخر تذکرۃ الحفاظ ص175، ج1
شیخ محمد عابد سندھی محدث مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفاََ و کرامۃ کا فیصلہ ملاحظہ ہو:
وہ مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قلت تضعیف الحدیث لا یثبت بمجرد الحکم وانما یثبت ببیان وجوہ العن فیہ وحدیث ابن عمر الذی رواہ البیہقی فی خلافیاتہ رجالہ رجال الصحیح فما اری لہ ضعفاََ بعد ذالک اللھم الا ان یکون الراوی عن مالک مطعونا لٰکن الاصل العدم فحذا الحدیث عندی صحیح لا محالۃ آھ ۔ بحوالہ معارف السنن ص498، ج2
میں (عابد سندھی) کہتا ہوں کہ حدیث کا ضعف ہوتا محض کسی کے حکم لگانے سے ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ اسباب جرح کے بیان کرنے سے ہوتا ہے اور یہ حدث (ترک رفع یدین) کی جو امام بیہقی نے خلافیات میں حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے اس کے رجال صحیح (بخاری و مسلم) کے ہیں پس اس حدیث کا ضعف مجھے نظر نہیں آتا مگر یہ کہ امام مالک سے راوی مجروح ہو لیکن یسا بھی نہیں پس یہ حدیث میرے نزدیک بالیقین صحیح ہے۔
شیخ محمد عابد سندھی کا تعارف:
علامہ احمد محمد شاکرؒ غیر مقلد مقدمہ شرح ترمذی ص13 میں ان کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں ۔ العالم العظیم الشیخ محمد عابد السندی محدث المدینہ المنورۃ فی القرن الماضی ۔ اور مقدمہ شرح ترمذی ص14 میں لکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ حافظ سید عبدالحی کتانی ؒ نے اپنی کتاب فہرس الفہارس مطبوعہ فاس 1346ھ میں ان کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے۔ شیخ شیوخنا محدث الحجاز ومسندہ عالم الحنفیۃ بہ الشیخ محمد عابد بن احمد بن علی السندی الانصاری المدنی الحنفی المتوفی بالمدینۃ المنورہ 1285ھ الغرض حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا چاروں احادیث اصح الاسانید ہیں۔
دلیل نمبر5: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رویات ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ترفع الیدی فی سبعۃ مواطن عند افتتاح الصلٰوۃ واستقبال البیت والصفا والمروۃ والموقفین والجمرتین (بحوالہ نصب الرایہ ص391، ج1)
رفع الیدین سات مقامات پر کیا جائے۔ ابتداء نماز کے وقت ۔ بیت اللہ کی زیارت کے وقت ۔ صفا اور مروہ پہاڑی پر قیام کے وقت ۔ وقوف عرفہ اور مزدلفہ کے وقت، رمی الجمار کے وقت
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ رفع الیدین صرف افتتاح صلوۃ کے وقت ہے نماز کے اندر رکوع سجود اور قیام الی الثالثہ کے وقت نہیں اور ہمارا مدعا بھی اتنا ہی ہے ۔ اس روایت پر کئی داخلی اور خارجی اعتراضات کئے گئے ہیں جن میںسے ایک یہ ہے کہ سا کی سند میں محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ راوی ہے جو قوی نہیں ہے۔
جواب: بلا شبہ اس راوہ پر بعض محدیثین کرام ؒ نے جرح کی ہے لیکن اس کو ثقہ کہنے والے بھی موجود ہیں امام دارقطنی ؒ فرمتے ہیں۔ ثقۃ فی حفظہٖ شئی۔ (الدار قطنی ص46،ج2) میں انکی ایک حدیث کے بارے میں محدیثین کرام سے فیصلہ یوں نقل کرتے ہیں قالو ہذا اسناد صحیح ان کی مزید توثیق حضرت براء رضی اللہ عنہ بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث ترک رفع الیدین میں بیان کی جائے گی بہر حال یہ حدیث بقول ابن قیم صحیح ہے۔ اور قابل احتجاج۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے مرفوع نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا مرفوع ہونا ہی مسلم ہے اگر موقوف بھی ہو تو حکماََ مرفوع ہے کیونکہ اس میں قیاس کو کیا دخل ہو سکتا ہے؟ اگر یہ روایت موقوف بھی ہو تب بھی ہمارا استدلال صحیح ہے کما لا یخفی۔
دلیل نمبر6: حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ لا ترفع الایدی الافی سبع مواطن حین تفتتح الصلوٰۃ وحین یدخل مسجد الحرام فینظر الی البیت وحین یقوم علی الصفا وحین یقوم علی المروۃ وحین یقف مع الناس عثیۃ عرفۃ ویجمع المقامین حین یرمی الجمرۃ۔ معجم طبرانی (بحوالہ نزل الابرار ص44)۔
رفع یدین نہ کیا جائے مگر ست مقامات میں۔ جب نماز شروع کی جائے اور جب مسجد حرام میں داخل ہوئے ہوئے بیت اللہ پر نظر پڑے اور جب صفا اور مروہ پہاڑی پر کھڑا ہو اور عرفہ میں بعد از زوال جب لوگوں کے ساتھ وقوف کرے اور مزدلفہ میں وقوف کے وقت اور جمرتین کی رمی کرتے وقت
اور یہ روایت نصب الرایہ ص390 ج1 میں بھی موجود ہے۔
غیر مقلدین حضرات کے رئیس المحققین نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں۔ من حدیث ابن عباس بسند جید ۔ نزل الابرر ص44 اور علامہ عزیزی السراج المنیر ص258 ج2 شرح جمع الصغیر میں فرماتے ہیں حدیث صحیح (بحوالہ نیل الفرقدین ص118).
قارئین کرام یہ حدیث صحیح ہے اور ترک رفع الیدین میں صریح بھی ہے اور اس میں منع بھی ہے کہ ان مقامات کے سوا نماز میں رفع الیدین نہ کیا جائے اب اگر کوئی رفع یدین عند الرکوع والسجود و وعند الی الثالثہ کرے گا تو وہ ان احادیث کے پیش نظر ضرور نافرمانی کی زد میں آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی ﷺ کے مابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور غیر مقلدین حضرات کا یہ عذر لنگ بھی ختم ہو گیا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے بعض اوقات رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ کو چھوڑا ہے۔ برائے جواز اور آپ نے رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ سے منع نہیں فرمایا غیر مقلدین حضرات اس حدیث میں دیکھ لیں کہ یہاں منع کیا گیا ہے اور حدیث بھی صحیح ہے خود ان کے نواب صاحب فرماتے ہیں کہ سند اس کی جید یعنی کھری ہے امید ہے کہ غیر مقلدین حضرات اپنے وعدے کے مطابق رفع الیدین چھوڑ دیں گے۔
 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
حدثنا عبداللہ بن ایب المخزومی وسعد ان بن نصر و شعیب بن عمرو فی آخرین قالو احدثنا سفیان بن عینیۃ عن الزھری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ حتیٰ یحاذی بھما وقال بعضہم حذو منکبیہ واذا ارد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لا یرفعھما وقال بعضہم ولا یرفع بین السجدتین والمغی واحد آھ بلفظہٖ
دلیل نمبر1، مستخرج صحیح ابوعوانہ صفحہ 90/2ج، طبع حیدر اآباد دکن میں ہے
محدث ابوعوانہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ایوب مخزومیؒ اور سعدان بن نصر اور شعیب بن عمرو ؒ تینوں نے حدیث بیان کی اور انہوں نے فرمایا کہ ہم نے سفیان بن عیینہ ؒ نے حدیث بیان کی انہوں نے زہری سے اور انہوں نے سالم ؒ سے اور اور وہ اپنے باپ عمر سے روایت کی اور حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے کندھوں کے برابر اور جب ارادہ کرتے کہ رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد تو آپ رفع یدین نہ کرتے اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ سجدتین میں بھی رفع یدین نہ کرتے مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہے۔
مستخرج صحیح ابو عوانہ کا تعارف
اس کتاب کے مصنف محدث ابوعوانہ ؒ یعقوب بن اسحٰق اسفرائنی المتوفی 316ھ ہیں ان کی کتاب ہذا بھی عند لمحدثین صحیح مسلم کی طرح صحیح ہے علامہ ذہبی ؒ تذکرۃ الحفاظ ص6 ج3 میں اس کتاب کو الصحیح المسند کہتے ہیں اور ص3ج3 میں لکھتے ہیں کہ ابوعوانہ ؒ الحافظ الثقۃ الکبیر میں اور علامہ تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیۃ الکربی س321 ج2 تا س322 میں ان کے فضائل و مناقت بیان کئے ہیں اور کنزالعمال س3 ج1 میں ہے کہ تمام حدیثیں صحیح ہیں اور امام سیوطیؒ تدریب الراوی میں صحیح ابوعوانہ کو صحیح کتابوں میں شمار کرتے ہیں ۔اور مولانا عبدالرحمٰن صاحب مبارکپوری غیر مقلد تحقیق الکلام ص118 ج2 میں لکھتے ہیں کہ اور حافظ ابوعوانہ کی سند کا بھی صحیح ہونا ظاہر ہے کیونکہ انہوں نے اپنے صحیح میں صحت کا التزام کی ہے ۔ حافظ عبداللہ روپڑی غیر مقلد اپنی کتاب رفع یدین اور آمین کے ص22 میں لکھتے ہیں برخلاف ان کتابوں کے جن میں صحت کی شرط ہے ان اکیلی اکیلی کو صحیح کہتے ہین جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن حبان ، صحیح
ابوعوانہ، صحیح ابوالسکن وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح صحیح ابن خزیمہ ہے چنانچہ علامہ زیلعیؒ کی عبارت بھی ابھی گزری پس ان بزرگوں کا اپنی کتابوں میں کسی حدیث کو لانا اور سکوت کرنا یہی صحیح کہنا ہے ورنہ صحت کی شرط کا فائدہ کیا۔
اور روپڑی صاحب اسی رسالہ کے ص123 میں لکھتے ہیں اور جن مصنفین نے اپنی کتب میں صحت کی شرط کی ہے ان کی کتابوں میں کسی حدیث کا ہونا صحت کے لئے کافی ہے۔ جیسے کتاب ابن خزیمہ اور ایسے ہی کسی حدیث کا ان کتابوں میں ہونا جو بخاری مسلم پر بطور تخریج لکھی گئی ہیں صحت کے لئے کافی ہے۔ جیسے کتاب ابی عوانہ الاسفرائنی اور کتاب ابی بکر اسماعیلی اور کتاب ابی بکر برقانی وغیرہ یہ محدثین بخاری مسلم کی احادیث کو اپنی اسانید سے روایت کرتے ہیں جن میں بخاری مسلم کا واسطہ نہیں ہوتا اور ان کا مقصد بخاری مسلم کی احادیث میں کمی بیشی کو بیان کرنا ہے مثلاََ مسلم میں کوئی مخذوف ہے اس کو پورا کر دیا کوئی زیادتی بخاری مسلم سے رہ گئی جس سے مطلب حدیث کی وضاحت ہوتی ہو اس کا ذکر کر دیا الخ بلفظٖہ
قاریئن کرام صحیح ابو عوانہ کی جب تمام حدیثیں محدثین کے ہاں صحیح ہیں تو یہ ترک رفع یدین کی حدیث صحیح ہونے کے ساتھ صریح بھی ہے۔
جناب روپڑی صاحب کی عبارت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں (1) صحیح ابو عوانہ ان کتابوں میں شمار ہے جن کی تمام حدیثیں صحیح ہیں (2) صحیح ابوعوانہ کی سند وہی بخاری مسلم والی ہوتی ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ مسلم کا درمیان میں واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ خود اپنی سند سے حدیث بیان کرتے ہیں (3) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بعض حدیثیں ایسی بھی ہیں جن میں الفاظ کی کمی بیشی ہے اور بعض الفاظ (مخذوفات) ان میں مذکور نہیں ہیں جس کی وجہ سے مطلب حدیث وضاحت نہیں ہوتی (4) اور مخرجین حضرات کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کمی بیشی ور محذوف کو ذکر کر دیا جائے تا کہ مطلب حدیث واضح ہو جائے۔ قارئین کام آپ حضرات نے جب یہ بتیں ذہن نشین کر لیں تو اب ہم آپ سے اس روایت میں جو حضرت ابوعمر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین میں پیش کی جاتی ہے عرض کرتے ہیں کہ بخاری وغیرہ میں جزاء یرفعہما ہے اور ابوعوانہ وغیرہ میں لا یرفعھما اور ابو داؤد ج1 ص104 میں روایت یوں ہے
راءیت رسول اللہ ﷺ اذا استفتح الصلاۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راء سہ من الرکوع (الیٰ) ولا یرفع بین السجدتین یہاں اذا شرطیہ دو 2 ہیں پہلا اذا استفتح لصلاۃ اور اس کی جزاء رفع یدیہ مذکور ہے اور دوسرے واذا ارادان یرکع وبعد ما یرفع راءسہ من الرکوع ہے اور اس کی جزاء مذکور نہیں ہے بعض حضرات نے اس حدیث کو رفع الیدین کے با ب میں ان الفاظ کے ساتھ لا کر یوں رفع یدین ثابت کی (جیسے امام بودائود ؒ نے دوسرے اذا کا بذریعہ واؤ عطف ہے پہلے اذا پر اور س کی جازا رفع یدیہ ہے تو اس کی جزاء بھی رفع یدیہ سمجھی ہے بعض حضرات نے بذریعہ عطف یہ جزاء سمجھ کر اپنی طر ف سے جزاء کے الفاظ بھی ذکر کر دیئے ۔ چنانچہ بعض حضرات نے جزاء رفع یدیہہ ذکر کر دی اور بعض حضرات نے واذا ارادان یرکع فعل مثل ذالک ذکر کر دیا اور بعض حضرات نے اذا اراہ ان یرکع کذالک رفعھما ذکر کر دی حالانکہ جزاء اس طرح ہے جس طرح کہ صحیح ابوعوانہ میں ہے ۔ واذا ارادان یر کع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفعھما
اس جزاء مخذوف کے ذکر کرنے سے مطلب حدیث کی پوری وضاحت ہو گئی کہ یہ حدیث ترک رفع الیدین میں واضح ہے اسے رفع یدین میں حتمی طور پر پیش کرنا صحیح نہیں ہے ور امام ابوعوانہ کی طرح امام بخاری کے استاد امام حمیدی نے بھی اپنے مسند حمیدی میں جزاء مخذوف کا ذکر کیا ہے جیسے کہ دلیل نمبر2 کے تحت اس کا ذکر آرہا ہے۔ اور حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد کا زیادتی اور مخذوف کے بارے میں ایک اور حوالہ بھی ملاحظہ کریں۔ وہ اپنی کتاب رفع الیدین اور آمین کے ص 129 میں لکھتے ہیں اس طرح وہ روایتیں بھی صحیح ہیں جو مستخرجات علی الصحیحین میں پائی جاتی ہیں جیسے کوئی زیادتی یا تتمہ کسی مخذوف کا آ ھ بلفظٖہ
نیز اس حدیث (ترک رفع الیدین ) کی تمام سندوں سے زیادہ صحیح ہے چنانچہ حافظ عبداللہ روپڑی غیر مقلد رفع لیدین اور آمین کے ص 64 میں لکھتے ہیں دوم زہری سالم ابن عمر اصح السانید ہے یعنی سب سندوں سے زیادہ صحیح ہے ملاحظہ ہو شرح نخبہ اور رسالہ امیر علی حنفی التہذیب للتقریب ملحقہ تقریب التہذیب ص الخ بلفظٖہ
روپڑی صاحب کے فرمان کے مطابق جب یہ سب باتیں صحیح ہیں تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حتمی طور پر رفع یدین کی روایت کا بالکل خاتمہ ہو گیا اور روپڑی صاحب کا یہ کہنا جو انہوں نے رفع یدین اور آمین کے ص 65 میں لکھا ہے کہ محدثین نے قطع نظر اس سے کہ کسی فقاہت کی کمی بیشی میں بحث کریں اور رفع یدین کے متلعق روایات کی اتنی بھرمار کر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث قریب قریب تواتر تک پہنچا دی۔
حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری ص175 ج2 میں لکھا ہے کہ پچاس 50صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے (جن میں عشرہ مبشرہ بھی ہیں) آہ بلفظٖہ غلط ہے۔
اولاََ تو اس لئے کہ حضرت ابن عمر سے جب یرفعھما کی روایت ہی نہیں بلکہ لا یرفعھما کی بھی سند سے مروی ہے اور ان کا معمول بھی بعض اوقات ترک رفع یدین تھا تو مولانا روپڑی صاحب کا حضرت ابن عمر سے رفع یدین کی روایت کو متواتر کہنا اور ان کی دوسری روایت لا یرفعھما کا ذکر تک نہ کرنا انصاف سے بعید ہے چونکہ مولانا روپڑی نے پہلے ہی تعصب کا شکار ہو کر یہ ٹھان لی ہے کہ رفع یدین ہی ثابت ہے نہ کہ ترک رفع یدین تو اس لئے ان سے پے در پے یہ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں بقول شخصے
خشت اول نہد معمار کج تا ثریا مرود دیوار کج
وثانیاََ روپڑی صاحب کا پچاس صحابہ رضوان اللہ علیہم سے رفع الیدین ثابت کرنا دھوکہ ہے اور مقدمہ میں غیر مقلدین حضرات کا ایک اور دھوکہ کے عنوان کے تحت علامہ شوکانی ؒ وار علامہ امیر یمانی ؒ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ ابتاء نماز کے وقت رفع الیدین جو متفق علیہ ہے اس سے پچاس صحابہ راوی ہیں اور عند الرکوع وغیرہ رفع الیدین کے نہ تو پچاس صحابہ راوی ہیں نہ عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہ۔ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی کو ہم ان کی ہی عبارت یاد دلاتے ہیں وہ رفع یدین اور آمین کے ص117 میں لکھتے ہیں اپنے مذہب کی پاسبانی کوئی بری چیز نہیں مگر تعصب کرنا اور دیانت داری کے خلاف قدم اٹھانا یہ مذہبی پاسبانی نہیں بلکہ خواہش نفسانی کی پاسبانی ہے آھ بلفظٖہ مگر روپڑی صاحب تمہیں عادت ہے بھول جانے کی ۔ دیراں را نصیحت خود را فضیحت
حافظ عبداللہ صاحب روپڑی سے ہم عرض کرتے ہیں۔
آثار سحر کے پیدا ہیں اب رات کا جادو ٹوٹ چکا ظلمت کے بھیانک ہاتھوں سے تنویر کا دامن چھوٹ چکا
دلیل نمبر2، مستخرج صحیح ابوعوانہ ص91 ج3 میں ہے
حدثنا الصائغ بمکۃ قال حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان عن الزھری قال اخبرنی سالم عن ابیہ قال راءیت رسول اللہ صلی اللہ عللیہ وسلم مثلہ آھ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اور پہلی حدیث کی طرح بیان فرمایا
پہلی حدیث میں رفع الیدین عند الافتتاح تھا اور اس کے بعد ترک رفع الیدین تھا اس حدیث میں بھی ویسے ہی ہے امام ابوعوانہ کے استاد الصائغؒ کا ذکر صحیح ابوعوانہ ص95 ج2 ص133 ج3، ص227ج2، میں بھی اسی طرح ہیں لیکن صحیح ابوعوانہ ص97 ج2، ص124 ج2 و ص185 ج2 میں ان کا پورا نام محمد بن اسماعیل الصائغ ذکر کیا گیا ہے (المتوفی 276ھ) اور وہ ثقہ ہیں اور الصائغ کے بعد حمدی کا ذکر آتا ہے جو امام بخاری کے استاد ہیں جن کا نام عبداللہ بن زبیر ہے جو زبرداست ثقہ ہیں اور حدیث کی کتاب مسند حمیدی کے مصنف ہیں اور یہ حدیث امام ابوعوانہ نے امام حمیدی کے طریق سے ذکر کی ہے اور امام حمیدی نے یہ حدیث ترک رفع الیدین کی اپنے مسند حمیدی میں بھی اسی سند کے ساتھ ذکر کی ہے۔ چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو
حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان قال حدثنا الزھری قال اخبرنی سالم بن عبداللہ بن عبداللہ عن ابیہ قال راءیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتح الصلوۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا ارادان یرکع وبعد م یرفع راسہ من الرکوع فلا یرفع ولا بین السجدتین مسند حمیدی قلمی ص79 جو خانقاہ سراجیہ کے کتب خانے میں موجود ہے دیکھئے مسند حمیدی ص 377 ج2 حدیث نمبر 614 اور یہ حدیث بھی حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی واضح دلیل ہے اور پہلی حدیث کے متن کی طرح اس کا متن ہے اور سای کی سند کی طرح سند ہے۔ (تنبیہ) مسند حمیدی کے مطبوعہ نسخہ میں حدثنا سفیان کا جملہ چھوٹ گیا ہے حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی دامت برکتہم مشیع و محشی مسند حمیدی سے جب رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کی صحیح سند ہے حدثنا الحمیدی قال حدثنا سفیان قال حدثنا الزھری الخ مسندی حمیدی کے نسخہ مکتبہ ظاہریہ اور اس کے ہندوستانی مخطوطات میں بھی یونہی ہے۔ مطبوعہ نسخوں میں حروف جوڑنے والے کی غلطی سے قال حدثنا سفیان چھوٹ گیا ہے تصحیح غلاط میں اس کو دینا چاہئے تھا مگر سہواََ رہ گیا ۔ والسلام حبیب الرحمن الاعظمی بقلم خود پٹھان ٹولہ، مئو اعظم گڑھ 15 اگست 65ء اور مولانا کا یہ گرامی نامہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔ قارئین کرام ! حضرت امام بخاری ؒ وغیرہ نے حضرت ابن عمر سے رفع یدین کی روایت میں ذا شرطی کی جزاء رفعہما کذالک الخ نقل کی ہے او ان کے استاد امام حمیدی نے (جنکے قول کو امام بخاری بطور سند پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو بخاری ج1، ص96، ج2، ص845) اپنے مسند ج2 ص277 میں اور مام ابوعوانہ نے صحیح ابوعوانہ میں جزاء لا یرفعھما روایت کی ہے اور صحیح ابوعوانہ وغیرہ کی احادیث میں صحیح ہیں کیونکہ ن کی کتاب بھی حدیث کی صحیح کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ ما مرتواب یا تو دونوں رایتوں سے استدلال تک کر دیا جائے جیسا کہ او اتعارضا تساقطا کا قاعدہ ہے اور یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جائے اور وجہ ترجیح یہ ہے کہ چونکہ نماز میں خشوع و خضوع اور سکون مطلوب ہے اور حضرت ابن عمر سے فعلاََ بھی ترک رفع یدین ثابت ہے اس لئے ترک رفع یدین کی روایت ہی کو ترجیح ہو گی۔ اور دوسری جزاء کو بعض روات کی غلطی اور وہم پر حمل کیا جائیگا۔ مولوی محؐمد صاحب غیر مقلد جونا گڑھی عقیدہ محمدی ص7، ماہ ذی الحجہ 1353 میں لکھتے ہیں کوئی ایسا نہیں جس سے احکام شرع میں غلطی اور خطاء نہ ہوئی ہو سوا پیغمر ہے الخ ہم جناب حافظ عبداللہ صاحب روپڑی اور ان کی جماعت سےت درخواست کرتے ہیں کہ جب صحیح ابوعوانہ کی تمام حدیثیں صحیح ہیں تو ابوعوانہ نے اپنے مستخرج صحیح ابوعوانہ میں دو 2حدیثیں ایسی پیش کی ہیں جو صحیح ہونے کے ساتھ رفع الیدین نہ کرنے میں صریح بھی ہیں کیا آپ حضرات رفع لیدین چھوڑیں گے؟ یہ درخواست ہم نے اس بناء پر کی ہے کہ حافظ عبداللہ روپڑی اپنے رسالہ رفع یدین اور آمین کے ص 152 میں فرماتے ہیں کہ ہم تو ایسے موقعہ پر ایک اصول جانتے ہیں کہ جب کسی مسئلہ کے متعلق صریح حدیث آجائے تو اس کو معمول بہ بنا لیں اور اس کے مقابلے میں کسی کی نہ سنیں آھ بلفظٖہ اور اسی رسالہ کے ص 46 میں لکھتے ہیں ہمیں تو ہماری حدیث تمہاری حدیث یہ تقسیم کا لفظ ہی مکروہ معلوم ددیتا ہے کیونکہ صحیح سب کی ہے اور ضعیف کسی ک بھی نہیں کیونکہ مسلمان کی شان ہی اذا صح الحدیث فھو مذھبی
ہونی چاہئے جس کے یہ معنی ہیں
مصور کھینچ وہ نقشہ کہ جس میں یہ ادائی ہو ادھر حکم پیغمبر ہو ادھر گردن جھکائی ہو ۔آھ بلفظٖہ
ہم نے حافظ صاحب کا یہ زبانی جمع خرچ سن لیا ہے بس اس پر عمل کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
بنتے ہو وفادار وفا کر کے دکھاؤ کہنے کی وفا اور ہے کرنے کی وفا اور
غیر مقلدین حضرات کے عالم مولوی محمد صاحب دیلوی کا فرمان ملاحظہ ہ
دوستو میرے خیل سے تو میں نے مختصراََ ان تینوں مسئلو ںکو بالکل صاف کر دیا ہے اب اتن اور بھی سن رکھئے کہ کوئی حدیث ان کے خلاف نہیں اگر کوئی صاحب مدعی ہو تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر وہ رفع الیدین نہ کرنے کی یا منسوخ ہونے کی ایک حدیث بھی لائیں جو صریح صحیح اور مرفوع ہو جس پر کسی قسم کی جرح نہ ہو تو ہم حلفیہ اقرار کرتے ہیں کہ انہیں ایک سو روپیہ انعام دیں گے اور تحریر اقرار کریں گے کہ رفع یدین منسوخ ہے آھ۔ بلفظٖہ دلائل محمدی ص9، حصہ اول ماہ شوال المکرم 1355ھ، 1937 مؤلفہ مولوی محمد صاحب غیر مقلد ایڈیٹر اخبار محمدی دہلی
قارئین کرام ۔ مولوی محمد صاحب غیر مقلدی نے جن شرائط کے ساتھ ترک رفع الیدین میں حدیث کا مطالبہ کیا تھا تو ایک کے بجائے دو حدیثیں پیش ہو چکی ہیں۔ (1)جو صریح بھی ہیں اور صحیح بھی ہیں کیونکہ صحیح ابوعوانہ کی تمام حدیثیں آپ کے ہاں صحیح ہیں۔ (2) مرفوع بھی ہیں (4) کسی قسم کی جرح بھی موجود نہیں۔ اب غیر مقلدین حضرات سے التما س ہے کہ رفع الیدین کو چھوڑ دیں اور انعام بھی ادا کریں اور حلفیہ طور پر ایک تحریر ی اقرار نامہ بھی اپنی اخباروں میں شائع کریں اگر مطالبہ پورا ہوجانے کے بعد بھی آپ اس پر عمل نہیں کریں گے تو لوگ سمجھ جائیں گے کہ
جھوٹ کہنے سے جن کو عار نہیں ان کی باتوں کا کوئی اعتبار نہیں
دلیل نمبر3: مالکیہ حضرات کی معتبر کتاب حدیث مدونہ کبری ص71، ج1 میں ہے

عن ابن وھب و ابن القاسم عن مالک عن بن شہاب عن سالم عن ابیہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ حزومنکبیہ اذا افتح الصلوۃ
بحوالہ معارف السنن ص 497، ج 2 مولانا محمد یوسف بنوری
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ رفع الیدین اپنے کاندھوں کے برابر اس وقت کرتے تھے جب نماز شروع کرتے تھے
یہ حدیث ترک رفع کے دلائل میں مالکیہ حضرات نے پیش کی ہے اور ابن وہب اور ابن القاسم دونوں حضرت امام مالک کے شاگرد اپنے استاد امام مالک سے یہ روایت کرتے ہیں اس سے امام مالک کے مذہب ترک رفع الیدین کا مزید ثبوت مل گیا ہے۔ سوال: اس حدیث میں ترک رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
جواب: جزاء کان یرفع مقدم ہے شرط اذا افتتح الصلوۃ مؤخر ہے۔ اور ضابطہ مشہور ہے التقدیم ما حقہ التاخیر بقید الحصر تو عند الافتتاح رفع یدین کا حصر ہو گیا کہ مابعد رفع الیدین نہیں ہے اور حافظ ابن حضرہ کا حملہ مالکیوں اور ابن القاسم پر غلط ثابت ہوا (لطیفہ) حافظ ابن حجرؒ الشافعی (المتوفی 852ھ) اور علامہ بدر الدین عینی ؒ (المتوفی 855ھ) حنفی معاصر تھے ان کا آپس میں خوب مقابلہ اور مناظرہ ہوتا رہتا تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ابن حجر ؒ عینی کی مسجد میں تشریف لائے مسجد کا مینار دیکھ کر فرمیا قد وقعت علیہ العین
اس کے دو معنی ہیں (1) اس منار کو نظر لگ جانے کے باعث خرابی پیش آئی (2) عینی اس منار پر گرے ہیں اور منار خراب ہو گیا ہے۔
علامہ عینی نے فوراَ جواب دیا ۔ لا لابل خربت الحجر نہیں نۃٰن بلکہ پتھر خراب ہو گیا ہے اس کے بھی دو معنی ہیں (1) منار کا پتھر خراب ہو گیا ہے ۔ (2) ابن حجر کا باپ حجر خراب ہو گیا ہے ۔ ابن حجر یہ جواب سن کر خاموش ہو گئے
دلیل نمبر4: نصب الرایہ ص 404 میں بحوالہ خلافیات بیہقی یہ حدیث نقل کی گئی ہے
عن عبداللہ بن عون الخراز ثنا مالک عن الزھری عن سالم عن ابن عمر ان النبی کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰۃ ثم لا یمود:
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رفع الیدین اس وقت کرتے جب شروع کرتے پھر رفع الیدین کرنے کے لئے نہ لوٹتے تھے.
قارئین کرام یہ حدیث بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ہے اور پہلی تین حدیثوں کی طرح ترک رفع الیدین میں واضح ہے اور سند کے لحاظ سے تواصح الاسانید ہے جیسا کہ حافظ عبداللہ صاحب روپڑی غیر مقلد کے حوالہ سے گزر چکا ہے اور اس حدیث کے راوی بھی امام مالک ہیں لیکن مدونہ کبری میں امام مالک کے شاگرد ابن وہب اور ابن القاسم تھے جو نہایت ہی ثقہ تھے وار یہاں شاگر عبداللہ بن عون الخراز ہیں جو زبردست ثقہ ہیں اور ان کی توثیق پر سب حضرات محدثین متفق ہیں دیکھئے تقریب 210 طبع دہی و تہذیب التہذیب ص229 ج5 ص250 اور اس حدیث کی سند اور متن کے الفاظ اس سے پہلی حدیث کے ساتھ ملتے جلتے ہیں البتہ اس حدیث میں ثم لا یعود کا جملہ زیادہ ہے جو اس حصر کی تاکید ہے جو جزا کے مقدم کرنے کے باعث حاصل ہوئی ہے۔ اگ یہ جملہ نہ بھی ہوتا پہلی حدیث کی طرح تب بھی رفع الیدین عند الافتتاح پر ہی بند تھا۔
اعتراض: امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ امام حاکم ؒ نے فرمایا کہ یہ روایت موضوع ہے کیونکہ ہم نے امام مالک سے رفع الیدین کی روایت بیان کی ہے اور حافظ ابن حجرؒ تلخیص الجبر میں فرماتے ہیں مقلوب موضوع
الجواب: امام حاکم کی یہ سخت غلطی ہے اور اس کے کئی جواب ہیں ۔ جواب نمبر1۔ جب اس حدیث کی سند صحیح ہے تو پھر موضوع کیسے؟ عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں :۔
الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ماشاء
اسناد حدیث دین میں سے ہے اگر سند نہ ہوتی تو جس کے خیال میں جو بات آجاتی وہی کہہ دیتا۔
مقدمہ مسلم ص12، و سنن ترمذی ص236، ج2
اور جب سند ہو گی تو کسی کو غلط بات کرنے کی جراءت نہ ہو گی جیسے کہ امام حاکم ؒ نے غلطی کی ہے جواب نمبر2۔ امام حاکم کثیر الغلط ہیں مستدرک میں انہوں نے کافی غلطیاں کی ہیں۔
بعض دفعہ ضعیف بلکہ موضوع حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین کہہ دیتے ہیں۔ علامہ ذہبی ؒ نے اس لئے تلخیص المستدرک لکھ کر ان اغلاط کو ظاہر کیا ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء۔
بعض دفعہ علامہ ذہبی اغلاط بیان کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور غصہ میں آکر امام حاکم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ تجھے اے مؤلف حیاء نہیں اآتی ایسی غلط باتیں کرتے ہو۔ چنانچہ قاضی شوکانی ؒ، غیر مقلد الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ص496 میں ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں۔
قال الحاکم ہذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی افمااستحی الحاکم من اللہ یصحح مثل ہذا وقال فی تلخیص المستدرک ہذا موضوع قبح اللہ من وضعہ وما کنت احسب ان الجھل بالحاکم یبلغ الیٰ ان یصحح مثل ہذا وھو مما افتراہ یزید بن یزید البلوی آھ بلفظہٖ
امام حکم ؒ نے ایک حدیث کے بارے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے علامہ ذہبی نے فرمایا کیا حاکم کو اللہ تعالیٰ سے حیاء نہیں آتی ایسی موضوع حدیث کی تصحیح کرتا ہے اور علامہ ذہبی ؒ نے تلخیص المستدرک میں کہا ہے کہ ی حدیث موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ وضع کرنے والے کو ذلیل و خوار کرے مجھے یہ گمان نہ تھا کہ حاکم ایسی جہالت تک پہنچ جائیگا کہ ایسی موضوع حدیث کی تصحیح کرے گا حالانکہ یہ حدیث یزید بن یزید بلوی کا افتراء ہے۔
اور علامہ زیلعی ؒ نصب الرایہ ص351،، ج1 میں لکھتے ہیں کہ علامہ ذہبی ؒ نے کہا
اما استحی الحاکم یورد فی کتابہ مثل ہذا الحدیث الموضوع فانا اشہد باللہ واللہ انہ لکذب آھ
کیا حاکم کو حیا ء نہیں آتی کہ ایسی موضوع حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے میں (ذہبیؒ) خدا تعالیٰ کی قسم اٹھا کر گواہی دیتا ہوں کہ یہ جھوٹ ہے۔
اور علامہ ذہبی ؒ تلخیص مستدرک مع المستدرک ص60 ، ج3 میں امام حاکم کو اسی قسم کے الفاظ استعمال کر کے سخت سست کہا ہے اگر امام حاکم ایسی موضوع حدیثوں کو صحیح کہنے میں غلطی کر سکتے ہیں تو یقین جانیئے کہ صحیح حدیث کو موضوع کہنے کی غلطی بھی کر سکتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کون سی بات ہے؟
لطیفہ: میناء ایک راوی ہے جو کہ محدیث کے ہاں رافضی اور کذاب ہے امام حاکم فرماتے ہیں۔
قد ادرک النبی وسمع منہ واللہ اعلم۔ مستدرک حاکم ص160، ج3
منیاء نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پالیا ہے اور آنحضرت ﷺ سے سنا بھی ہے۔ واللہ اعلم
علامہ ذہبی فرماتے ہیں
قلت ما قال ہذا بشر سوی الحاکم وانما ذاتا بعی ساقط وقال ابو حاتم کذاب یکذب وقال ابن معین لیس بثقۃ (الیٰ) اھما استحیت ایھا المؤلف ان تورد ہذاہ الا خلوقات من اقوال الطرقیۃ فیما یستدرک علی الشیخین۔ تلخیص المستدرک ص160، ج3
میں (ذھبیؒ) کہتا ہوں کہ یہ بات سوا حاکم کے اور کسی بشر نے نہیں کی حالانکہ یہ (منیاء) تابعی ہے جو ساقط العدالت ہے اور ابو حاتم ؒ نے کہا ہے کہ کذاب ہے جھوٹ بولتا ہے اور ابن معین نے کہا ہے کہ ثقہ نہیں ہے (الیٰ) کیا اے مؤلف تجھے حیاء نہیں آتی کہ ایسی جھوٹی باتوں کو ایسی سندوں سے مستدرک علی الشیخین میں لاتے ہو
اور حافظ ابن حجرؒ تقریب ص 259 طبع دہلی میں لکھتے ہیں

مینا متروک و رمی بالرفض و کذبہ ابو حاتم من الثالثۃ ووھم الحاکم فجعل لہ صحبۃ ۔ واللہ اعلم
مینا متروک الحدیث ہے اور رفض کی تمہت سے متہم ہے اور ابو حاتمؒ نے اسے کذب قرار دیا ہے اور امام حاکم ایسے وہم میں پڑے کہ اس کی صحابیت ثابت کر ڈالی ۔ واللہ اعلم
قارئین کرام اگر امام حاکم ترک رفع الیدین کی صحیح حدیث کو موضوع کہتے ہیں تو اس میں حیرت نہیں ہے۔
جواب نمبر3: امام حاکم ؒ کا اس حدیث کو اس بناء پر موضوع کہہ دینا کہ انہوں نے امام مالک سے رفع الیدین روایت کیا ہے صحیح نہیں کیونکہ اگر مالکیہ حضرات یہی طریقہ اختیار کر کے امام حاکم ؒ کی رفع لیدین عن مالک روایت کو موضوع کہہ دیں اسی بناء پر کہ انہوں نے (جیسے ابن وہب مالکی اور ابن القاسم مالکی نے مدونہ کبری میں اور عبداللہ بن عون اخراز نے خلافیات بیہقی میں) امام مالک سے ترک رفع الیدین کی روایت کی ہے تو امام حاکم اس کا کیا جواب دیں گے۔ ان الظن لا یغنی من الحق شیاََ
جواب نمبر4: امام مالک سےئ ترک رفع الیدین کی ایک روایت تو یہی ہے جو زیر بحث ہے دوسری اس سے پہلے مدونہ کبریٰ کے حوالہ سے گزر چک ہے۔ تیسری موطا امام محمد کے حوالہ سے آرہی ہے کیا ان سب کو موضوع سمجھا جائے گا ۔ بہتر تو یہ ہے کہ ن سب کو موضوع کہنے سے اس روایت کو ہی موضوع قرار دیا جائے ۔ جو امام حاکم نے امم مالک سے رفع الیدین کے متعلق بیان کی ہے۔
جواب نمبر5: امام مالک کا مذہب ترک رفع الیدین ہے جیسا کہ باب اول میں اس کا ٹھوس حوالوں سے ثبوت پیش کیا گیا ہے امام حاکم ہی بتائیں کہ انہوں نے کس حدیث کی بناء پر ترک رفع الیدین کا مذہب اختیار کیا ہے ۔ کیا امام مالکؒ احادیث نبویہ کے زیادہ ماہر تھے یا (امام حاکمؒ) آپ زیادہ ماہر ہیں۔ اس لئے علامہ سید محمد انور شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ
ہذا حکم من الحاکم لا یکفی ولا یشفی۔ نیل الفرقدین ص127
حاکم کا یہ حکم ناکافی اور غیر تسلی بخش ہے
باقی رہا حافظ ابن حجرؒ کا اس حدیث کو مقلوب "موضوع" کہنا تو یہ بھی کئی وجوہ سے غلط ہے اولاََ تو اس لئے کہ سند جب صحیح ہے تو پھر یہ موضوع کیسے و ثانیاََ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کی روایت ہی ثابت نہیں جیسے دلیل نمبر1 کے تحت گزرا تو پھر اس ترک رفع لیدین کی روایت کو مقلوب کہنا کیسے صحیح ہوا۔و ثالثاََ امام مالک سے ترک رفع لیدین کی صرف یہی روایت نہیں بلکہ اور روایات بھی ہیں و رابعاََ مستخرج صحیح ابوعوانہ اور مسند حمیدی کے حوالہ سے ترک رفع الیدین کی روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے گزر چکی ہیں جو سا روایت کی تصحیح کا مزید ثبوت فراہم کرتی ہیں و خامساََ امام شافعی کی مدح میں تو حافظ ابن حجر موضوع حدیث بیان کر نے سے دریغ نہیں کرتے اور پھر سکوت کر جاتے ہیں۔ بحوالہ مقدمہ نصب الرایہ ص60۔ پتہ نہیں اس حدیث کو وہ موضوع کیوں کہتے ہیں شاید کہ ان کے امام کے مذہب کے خلاف ہے؟ اور حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص الحبیر ص181 و درایہ ص 85 میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بین کی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ آخری عمر تک رفع الیدین کرتے رہے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو ذکر کر کے اس پر مہر سکوت لگائی ہے۔ (بحوالہ رفع یدین و آمین) حالانکہ یہ حدیث موضوع ہے جیسا کہ اپنے مقام پر اس کی بحث آرہی ہے شاید کہ یہی ہو کہ جو حدیث موضوع ان کے امام کی مدح میں ہو اور ان کے مذہب کی تائید کرتی ہو تو وہاں بیان کرنیکے بعد خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور جو حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہو اس پر کوئی نہ کوئی جرح کر ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری اور ان کی لغزشوں کو معاف فرما دے آمین۔ حافظ ابن حجرؒ کی یہ پانچویں غلطی ثابت ہوئی کیونکہ چار پہلے باب میں ذکر ہو چکی ہیں۔
(لطیفہ) حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب ص198 ج2 میں لکھتے کہ حجاج بن ارطاۃ کی ایک روایت بطور متعابعت کے صحیح بخاری کتاب العتق میں موجود ہے حالانکہ صحیح بخاری ص343۔ ج1 میں وہ متابع بن حجاج اسلمی باھلی ہے اور بقول علامہ ذہبی کے امام بخاری نے صحیح بخاری میں کہیں بھی اس کی روایت متابعۃ ذکر نہیں کی البتہ امام مسلم نے متبعۃ پیش کی ہے چنانچہ الفاظ اس طرح ہیں۔ لم یخرج لہ البخاری وقرنہ مسلم بالآخر تذکرۃ الحفاظ ص175، ج1
شیخ محمد عابد سندھی محدث مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفاََ و کرامۃ کا فیصلہ ملاحظہ ہو:
وہ مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ میں لکھتے ہیں:
قلت تضعیف الحدیث لا یثبت بمجرد الحکم وانما یثبت ببیان وجوہ العن فیہ وحدیث ابن عمر الذی رواہ البیہقی فی خلافیاتہ رجالہ رجال الصحیح فما اری لہ ضعفاََ بعد ذالک اللھم الا ان یکون الراوی عن مالک مطعونا لٰکن الاصل العدم فحذا الحدیث عندی صحیح لا محالۃ آھ ۔ بحوالہ معارف السنن ص498، ج2
میں (عابد سندھی) کہتا ہوں کہ حدیث کا ضعف ہوتا محض کسی کے حکم لگانے سے ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ اسباب جرح کے بیان کرنے سے ہوتا ہے اور یہ حدث (ترک رفع یدین) کی جو امام بیہقی نے خلافیات میں حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے اس کے رجال صحیح (بخاری و مسلم) کے ہیں پس اس حدیث کا ضعف مجھے نظر نہیں آتا مگر یہ کہ امام مالک سے راوی مجروح ہو لیکن یسا بھی نہیں پس یہ حدیث میرے نزدیک بالیقین صحیح ہے۔
شیخ محمد عابد سندھی کا تعارف:
علامہ احمد محمد شاکرؒ غیر مقلد مقدمہ شرح ترمذی ص13 میں ان کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں ۔ العالم العظیم الشیخ محمد عابد السندی محدث المدینہ المنورۃ فی القرن الماضی ۔ اور مقدمہ شرح ترمذی ص14 میں لکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ حافظ سید عبدالحی کتانی ؒ نے اپنی کتاب فہرس الفہارس مطبوعہ فاس 1346ھ میں ان کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے۔ شیخ شیوخنا محدث الحجاز ومسندہ عالم الحنفیۃ بہ الشیخ محمد عابد بن احمد بن علی السندی الانصاری المدنی الحنفی المتوفی بالمدینۃ المنورہ 1285ھ الغرض حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا چاروں احادیث اصح الاسانید ہیں۔
دلیل نمبر5: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رویات ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ترفع الیدی فی سبعۃ مواطن عند افتتاح الصلٰوۃ واستقبال البیت والصفا والمروۃ والموقفین والجمرتین (بحوالہ نصب الرایہ ص391، ج1)
رفع الیدین سات مقامات پر کیا جائے۔ ابتداء نماز کے وقت ۔ بیت اللہ کی زیارت کے وقت ۔ صفا اور مروہ پہاڑی پر قیام کے وقت ۔ وقوف عرفہ اور مزدلفہ کے وقت، رمی الجمار کے وقت
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ رفع الیدین صرف افتتاح صلوۃ کے وقت ہے نماز کے اندر رکوع سجود اور قیام الی الثالثہ کے وقت نہیں اور ہمارا مدعا بھی اتنا ہی ہے ۔ اس روایت پر کئی داخلی اور خارجی اعتراضات کئے گئے ہیں جن میںسے ایک یہ ہے کہ سا کی سند میں محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ راوی ہے جو قوی نہیں ہے۔
جواب: بلا شبہ اس راوہ پر بعض محدیثین کرام ؒ نے جرح کی ہے لیکن اس کو ثقہ کہنے والے بھی موجود ہیں امام دارقطنی ؒ فرمتے ہیں۔ ثقۃ فی حفظہٖ شئی۔ (الدار قطنی ص46،ج2) میں انکی ایک حدیث کے بارے میں محدیثین کرام سے فیصلہ یوں نقل کرتے ہیں قالو ہذا اسناد صحیح ان کی مزید توثیق حضرت براء رضی اللہ عنہ بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث ترک رفع الیدین میں بیان کی جائے گی بہر حال یہ حدیث بقول ابن قیم صحیح ہے۔ اور قابل احتجاج۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے مرفوع نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اصول حدیث کے لحاظ سے اس کا مرفوع ہونا ہی مسلم ہے اگر موقوف بھی ہو تو حکماََ مرفوع ہے کیونکہ اس میں قیاس کو کیا دخل ہو سکتا ہے؟ اگر یہ روایت موقوف بھی ہو تب بھی ہمارا استدلال صحیح ہے کما لا یخفی۔
دلیل نمبر6: حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ لا ترفع الایدی الافی سبع مواطن حین تفتتح الصلوٰۃ وحین یدخل مسجد الحرام فینظر الی البیت وحین یقوم علی الصفا وحین یقوم علی المروۃ وحین یقف مع الناس عثیۃ عرفۃ ویجمع المقامین حین یرمی الجمرۃ۔ معجم طبرانی (بحوالہ نزل الابرار ص44)۔
رفع یدین نہ کیا جائے مگر ست مقامات میں۔ جب نماز شروع کی جائے اور جب مسجد حرام میں داخل ہوئے ہوئے بیت اللہ پر نظر پڑے اور جب صفا اور مروہ پہاڑی پر کھڑا ہو اور عرفہ میں بعد از زوال جب لوگوں کے ساتھ وقوف کرے اور مزدلفہ میں وقوف کے وقت اور جمرتین کی رمی کرتے وقت
اور یہ روایت نصب الرایہ ص390 ج1 میں بھی موجود ہے۔
غیر مقلدین حضرات کے رئیس المحققین نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں۔ من حدیث ابن عباس بسند جید ۔ نزل الابرر ص44 اور علامہ عزیزی السراج المنیر ص258 ج2 شرح جمع الصغیر میں فرماتے ہیں حدیث صحیح (بحوالہ نیل الفرقدین ص118).
قارئین کرام یہ حدیث صحیح ہے اور ترک رفع الیدین میں صریح بھی ہے اور اس میں منع بھی ہے کہ ان مقامات کے سوا نماز میں رفع الیدین نہ کیا جائے اب اگر کوئی رفع یدین عند الرکوع والسجود و وعند الی الثالثہ کرے گا تو وہ ان احادیث کے پیش نظر ضرور نافرمانی کی زد میں آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت نبوی ﷺ کے مابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور غیر مقلدین حضرات کا یہ عذر لنگ بھی ختم ہو گیا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے بعض اوقات رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ کو چھوڑا ہے۔ برائے جواز اور آپ نے رفع الیدین عند الرکوع وغیرہ سے منع نہیں فرمایا غیر مقلدین حضرات اس حدیث میں دیکھ لیں کہ یہاں منع کیا گیا ہے اور حدیث بھی صحیح ہے خود ان کے نواب صاحب فرماتے ہیں کہ سند اس کی جید یعنی کھری ہے امید ہے کہ غیر مقلدین حضرات اپنے وعدے کے مطابق رفع الیدین چھوڑ دیں گے۔
’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ بُکَیْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ عَطَائٍ اَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا مَعَ نَفْرٍ مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّصلی اللہ علیہ و سلم فَذَکَرْنَا صَلٰوۃَ النَّبِیِّصلی اللہ علیہ و سلم فَقَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیُّرضی اللہ عنہما اَنَا کُنْتُ اَحْفَظُکُمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم رَاَ یْتُہٗ اِذَا کَبَّرَ جَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ ثُمَّ ھَصَرَظَھْرَہٗ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ اِسْتَویٰ حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَّکَانَہٗ وَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفَتَرِشٍ وَّلَا قَابِضَہُمَا‘‘(صحیح بخاری؛ ج۱ ص۱۱۴‘ صحیح ابن خزیمہ؛ ج۱ ص۲۹۸)
ترجمہ :محمدبن عمرو بن عطاء رحمہ اللہ،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کےصحابہ کرام کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے فرماتے ہیں: ’’ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کا ذکر کیا (کہ حضورصلی اللہ علیہ و سلم کیسے نماز پڑھتے تھے؟) توحضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’میں تم سےحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز پڑھنے کے طریقے کو زیادہ یاد رکھنے والا ہوں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نماز پڑھنے کے طریقے کو بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھایا اور جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑا پھر اپنی پیٹھ کو جھکایا جب سر کو رکوع سے اٹھایا تو سیدھے کھڑے ہو گئے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی اور جب سجدہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو اپنے حال پر رکھا نہ پھیلایا اور نہ ہی ملایا۔

اعتراض: ”صحیح بخاری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے ترک کا کوئی ذکر نہیں“
جواب: ہمارا مؤقف یہ ہے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا جائے،اس کے علاوہ پوری نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے۔حدیثِ مذکور جو سنداًصحیح ہے،میں سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا ذکر کرتے ہیں،باقی مقامات کا ذکر نہیں کرتے۔اس سے ہمارا مؤقف ثابت ہے۔
اعتراض: ”محمد قاسم نانوتوی(بانی مدرسہ دیوبند)نے لکھا: مذکورنہ ہونا معدوم ہونے کی دلیل نہیں“
جواب:
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا قول اس استدلال کے خلاف نہیں،اس لیے کہ اصول ہے:
السکوت فی معرض البیان بیان(مرعاۃ المصابیح لعبیداللہ المبارکپوری ج3ص385،روح المعانی ج18ص7)
وہ مقام جہاں ایک شے کو بیان کرنا چاہیے،وہاں اس کے بیان کو چھوڑنے کا مطلب اس شے کا عدم بیان کرنا ہوتاہے۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نماز کے اس نقشہ کو بیان فرمارہے ہیں جو دیکھنے سے نظر آتا ہے کمافی الحدیث ”رایتہ“ (میں نے انھیں دیکھا)۔ اگررفع یدین عندالرکوع وبعد الرکوع ہوتا تو ضرور بیان کرتے۔معلوم ہو ا کہ یہ رفع یدین نہیں ہوتا تھا۔

حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا قاعدہ مطلق ہے اور ہمارا بیان کردہ اصول ایک قید فی معرض البیانکے ساتھ مقید ہے۔دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ کسی کو یہ اصطلاح سمجھ میں نہ آئے تو اصول فقہ کی کتب کی طرف مراجعت فرما لیں اور خوب سمجھنے کی کوشش کریں۔
نوٹ:سنن ابی داؤد وغیرہ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر موجود ہے۔”عرض“ہے کہ اس میں ایک راوی عبدالحمید بن جعفر ہے جو کہ ضعیف، خطاکار اور قدری ہے۔


  • امام نسائی فرماتے ہیں: لیس بالقوی (ضعفاء صغیر ص 48)
  • امام ابوحاتم فرماتے ہیں: لا یحتج بہ اور امام سفیان الثوریؒ بھی اس کی تضعیف کرتے تھے؛ وکان الثوری یضعفہ (میزان الاعتدال، ج 2 ص 94)
  • حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: وکان یحی بن سعید یضعفہ امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس سے روایت بھی لیتے تھے تو ابن معین نے فرمایا کہ حضرت یحیی القطانؒ اس سے روایت بھی لیتے تھے وکان یضعفہ وکان یری القدر اور ساتھ ہی اس کی تضعیف بھی کرتے تھے اور یہ تقدیر کا منکر تھا۔ (تہذیب التہذیب، ج 6 ص 112)
  • امام ابن حبان: وقال ابن حبان ربما اخطاء ؛ اور ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس نے اکثر اوقات خطا کی ہے۔
  • امام ترمذیؒ نے بھی اس کی ایک روایت کو غیر اصح قرار دیا ہے۔ (سنن ترمذی ج 2 ص 140، سورۃ حجر)
  • امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ شرح المعانی الآثار ج 1 ص 111 میں فرماتے ہیں۔
"عبد الحمید ابن جعفر کو جب وہ خود ضعیف قرار دیتے ہیں اور اس سے احتجاج نہیں کرتے تو پھر اس کی حدیث سے کس طرح حجت پکڑتے ہیں۔" اور شرح المعانی الآثار (ج 1 ص 127) میں خود امام طحاویؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
  • حافظ ابن قیم حنبلیؒ اس کی ایک حدیث کا جواب یوں دیتے ہیں۔
"امام یحییٰ بن سعیدؒ اور امام ثوریؒ نے عبد الحمید بن جعفر کو ضعیف قرار دیا ہے۔"
  • قاضی شوکانی غیر مقلد عبد الحمید بن جعفر کی ایک روایت بارے یوں لکھتے ہیں:
"ابن المنذر نے فرمایا اس راوی کو محدثین کرامؒ مضبوط قرار نہیں دیتے اور اس سند میں کلام ہے۔"
نیز صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ابو حمید الساعدیؓ کی یہی مذکورہ بالا روایت ذکر کی ہے مگر رفع الیدین عند افتتاح الصلوٰۃ کے علاوہ کا اور کوئی ذکر نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ امیر یمانی غیر مقلد لکھتے ہیں:
"حضرت ابوحمیدؓ کی حدیث جو بخاری کی روایت سے گزر چکی ہے اس میں رفع یدین تکبیر احرام کے سوا اور کہیں نہیں لیکن ابو داؤد کی یہ روایت اس کے خلاف ہے اور اس میں تین مقامات میں رفع الیدین کا ذکر ہے۔ " (سبل السلام، ج 1 ص 105)
معلوم ہوا کہ رفع الیدین کا بیان بخاریؒ میں اس لیے نہیں ہے کہ وہاں راوی عبدالحمید بن جعفر نہیں ہے اور چونکہ ابوداؤد میں عبدالحمید ہے اس لیے اس نے بطور خطاء رفع الیدین کا ذکر کر دیا ہے اگر رفع یدین کا ذکر صحیح ہوتا تو امام بخاریؒ اسے صحیح البخاری میں بیان کرنے سے ہرگز نہ چُوکتے کیونکہ انہوں نے جزء رفع الیدین میں ہر قسم کی رطب و یابس روایات کی بھرتی کی ہے۔
نیز یہ روایت منقطع بھی ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کا سماع حضرت ابوقتادہ سے نہیں اور سنداً متنًابھی یہ روایت مضطرب ہے۔(دیکھیے نورالصباح ج1ص203تا210)
آپ نے سند کا حال تو ملاحظہ کرلیا، غیر مقلدین کے شیخ زبیر علی زئی کا” فرمان“ بھی ملاحظہ کیجیے، موصوف فرماتے ہیں:”اور یہ سند صحیح ہے“ (
ضرب حق:21 ص37)
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
 

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا یَحْیٰ بْنُ بُکَیْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّیْثُ عَنْ خَالِدٍ عَنْ سَعِیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ عَطَائٍ اَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا مَعَ نَفْرٍ مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّصلی اللہ علیہ و سلم فَذَکَرْنَا صَلٰوۃَ النَّبِیِّصلی اللہ علیہ و سلم فَقَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیُّرضی اللہ عنہما اَنَا کُنْتُ اَحْفَظُکُمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم رَاَ یْتُہٗ اِذَا کَبَّرَ جَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ ثُمَّ ھَصَرَظَھْرَہٗ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ اِسْتَویٰ حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَّکَانَہٗ وَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفَتَرِشٍ وَّلَا قَابِضَہُمَا‘‘(صحیح بخاری؛ ج۱ ص۱۱۴‘ صحیح ابن خزیمہ؛ ج۱ ص۲۹۸)
ترجمہ :محمدبن عمرو بن عطاء رحمہ اللہ،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کےصحابہ کرام کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے فرماتے ہیں: ’’ہم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کا ذکر کیا (کہ حضورصلی اللہ علیہ و سلم کیسے نماز پڑھتے تھے؟) توحضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’میں تم سےحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز پڑھنے کے طریقے کو زیادہ یاد رکھنے والا ہوں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نماز پڑھنے کے طریقے کو بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھایا اور جب رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑا پھر اپنی پیٹھ کو جھکایا جب سر کو رکوع سے اٹھایا تو سیدھے کھڑے ہو گئے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی اور جب سجدہ کیا تو اپنے ہاتھوں کو اپنے حال پر رکھا نہ پھیلایا اور نہ ہی ملایا۔

اعتراض: ”صحیح بخاری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے ترک کا کوئی ذکر نہیں“
جواب: ہمارا مؤقف یہ ہے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا جائے،اس کے علاوہ پوری نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے۔حدیثِ مذکور جو سنداًصحیح ہے،میں سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا ذکر کرتے ہیں،باقی مقامات کا ذکر نہیں کرتے۔اس سے ہمارا مؤقف ثابت ہے۔
اعتراض: ”محمد قاسم نانوتوی(بانی مدرسہ دیوبند)نے لکھا: مذکورنہ ہونا معدوم ہونے کی دلیل نہیں“
جواب:
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا قول اس استدلال کے خلاف نہیں،اس لیے کہ اصول ہے:

السکوت فی معرض البیان بیان(مرعاۃ المصابیح لعبیداللہ المبارکپوری ج3ص385،روح المعانی ج18ص7)
وہ مقام جہاں ایک شے کو بیان کرنا چاہیے،وہاں اس کے بیان کو چھوڑنے کا مطلب اس شے کا عدم بیان کرنا ہوتاہے۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نماز کے اس نقشہ کو بیان فرمارہے ہیں جو دیکھنے سے نظر آتا ہے کمافی الحدیث ”رایتہ“ (میں نے انھیں دیکھا)۔ اگررفع یدین عندالرکوع وبعد الرکوع ہوتا تو ضرور بیان کرتے۔معلوم ہو ا کہ یہ رفع یدین نہیں ہوتا تھا۔

حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا قاعدہ مطلق ہے اور ہمارا بیان کردہ اصول ایک قید فی معرض البیانکے ساتھ مقید ہے۔دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ کسی کو یہ اصطلاح سمجھ میں نہ آئے تو اصول فقہ کی کتب کی طرف مراجعت فرما لیں اور خوب سمجھنے کی کوشش کریں۔
نوٹ:سنن ابی داؤد وغیرہ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر موجود ہے۔”عرض“ہے کہ اس میں ایک راوی عبدالحمید بن جعفر ہے جو کہ ضعیف، خطاکار اور قدری ہے۔

  • امام نسائی فرماتے ہیں: لیس بالقوی (ضعفاء صغیر ص 48)
  • امام ابوحاتم فرماتے ہیں: لا یحتج بہ اور امام سفیان الثوریؒ بھی اس کی تضعیف کرتے تھے؛ وکان الثوری یضعفہ (میزان الاعتدال، ج 2 ص 94)
  • حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: وکان یحی بن سعید یضعفہ امام الجرح والتعدیل حضرت یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس سے روایت بھی لیتے تھے تو ابن معین نے فرمایا کہ حضرت یحیی القطانؒ اس سے روایت بھی لیتے تھے وکان یضعفہ وکان یری القدر اور ساتھ ہی اس کی تضعیف بھی کرتے تھے اور یہ تقدیر کا منکر تھا۔ (تہذیب التہذیب، ج 6 ص 112)
  • امام ابن حبان: وقال ابن حبان ربما اخطاء ؛ اور ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس نے اکثر اوقات خطا کی ہے۔
  • امام ترمذیؒ نے بھی اس کی ایک روایت کو غیر اصح قرار دیا ہے۔ (سنن ترمذی ج 2 ص 140، سورۃ حجر)
  • امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ شرح المعانی الآثار ج 1 ص 111 میں فرماتے ہیں۔
"عبد الحمید ابن جعفر کو جب وہ خود ضعیف قرار دیتے ہیں اور اس سے احتجاج نہیں کرتے تو پھر اس کی حدیث سے کس طرح حجت پکڑتے ہیں۔" اور شرح المعانی الآثار (ج 1 ص 127) میں خود امام طحاویؒ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
  • حافظ ابن قیم حنبلیؒ اس کی ایک حدیث کا جواب یوں دیتے ہیں۔
"امام یحییٰ بن سعیدؒ اور امام ثوریؒ نے عبد الحمید بن جعفر کو ضعیف قرار دیا ہے۔"
  • قاضی شوکانی غیر مقلد عبد الحمید بن جعفر کی ایک روایت بارے یوں لکھتے ہیں:
"ابن المنذر نے فرمایا اس راوی کو محدثین کرامؒ مضبوط قرار نہیں دیتے اور اس سند میں کلام ہے۔"
نیز صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے ابو حمید الساعدیؓ کی یہی مذکورہ بالا روایت ذکر کی ہے مگر رفع الیدین عند افتتاح الصلوٰۃ کے علاوہ کا اور کوئی ذکر نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ امیر یمانی غیر مقلد لکھتے ہیں:
"حضرت ابوحمیدؓ کی حدیث جو بخاری کی روایت سے گزر چکی ہے اس میں رفع یدین تکبیر احرام کے سوا اور کہیں نہیں لیکن ابو داؤد کی یہ روایت اس کے خلاف ہے اور اس میں تین مقامات میں رفع الیدین کا ذکر ہے۔ " (سبل السلام، ج 1 ص 105)
معلوم ہوا کہ رفع الیدین کا بیان بخاریؒ میں اس لیے نہیں ہے کہ وہاں راوی عبدالحمید بن جعفر نہیں ہے اور چونکہ ابوداؤد میں عبدالحمید ہے اس لیے اس نے بطور خطاء رفع الیدین کا ذکر کر دیا ہے اگر رفع یدین کا ذکر صحیح ہوتا تو امام بخاریؒ اسے صحیح البخاری میں بیان کرنے سے ہرگز نہ چُوکتے کیونکہ انہوں نے جزء رفع الیدین میں ہر قسم کی رطب و یابس روایات کی بھرتی کی ہے۔
نیز یہ روایت منقطع بھی ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کا سماع حضرت ابوقتادہ سے نہیں اور سنداً متنًابھی یہ روایت مضطرب ہے۔(دیکھیے نورالصباح ج1ص203تا210)
آپ نے سند کا حال تو ملاحظہ کرلیا، غیر مقلدین کے شیخ زبیر علی زئی کا” فرمان“ بھی ملاحظہ کیجیے، موصوف فرماتے ہیں:”اور یہ سند صحیح ہے“ (
ضرب حق:21 ص37)

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین

’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَّا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَرضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَا لَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیْلٍ شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘
(صحیح ابن حبان ج3ص178،صحیح مسلم ج1ص181 )
ترجمہ:حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجدمیں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’انہوں نے اپنے ہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دموںکی طرح اٹھایا ہےتم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘ (نماز میں رفع یدین نہ کرو)۔



مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے۔
ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے:

اعتراض نمبر 1= اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں۔
جواب =
ہمار ا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے،چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:
انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472، شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)
کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔
لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

اعتراض نمبر 2 = حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے نقل کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو بطور دلیل پیش نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سلام کے متعلق ہے۔
جواب =
الف: ان دونوں حضرات کا موقف ترک رفع یدین کا ہے(ادلہ کاملہ،درس ترمذی)
ب: عرض ہے کہ اگر ان حضرات نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا تو دیگرحضرات محققین ومحدثین نے تو بنایاہے۔مثلاً
1.امام ابوالحسن القدوری (التجرید ج2ص519)
2.علامہ زیلعی (نصب الرایہ ج1ص472)
3.علامہ عینی (شرح سنن ابی داود ج3ص29)
4.ملاعلی قاری (فتح باب العنایہ ج1ص78 اور حاشیہ مشکوٰۃ ص 75)
5.امام محمد علی بن زکریا المنبجی (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)
6.مولانا محمد ہاشمی سندھی )رسالہ کشف الرین(
7.حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
8.شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (اوجز المسالک: ج 2ص66)
9.شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (فتح الملہم: ج3 ص317)
10.شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
11.مولانا الشیخ محمد عبد اللہ بن مسلم البہلوی (ادلۃ الحنفیۃ: ص167)
12.امین الملۃ مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی (تجلیات صفدر: ج2، ص313)
13.مناظر اسلام حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی (نور الصباح: ج1 ص76)
د: اسی حدیثِ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے ترکِ رفع پر استدلال کی نسبت سےمفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور مولانا حبیب اللہ ڈیروی علیہ رحمہ کی آپس میں بات چیت بذریعہ خط و کتابت تفصیلاً ملاحظہ فرمانے کے لیے دیکھیں " نور الصباح ، ج 2، ص 321"
تنبیہ:شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ایک تحریر کی تصدیق کرتے ہوئے”الجواب صحیح“ لکھاہے۔ ان دلائل میں یہی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ موجود ہے۔خود علی زئی کی زبانی یہ حقیقت سنیے:
”مری سے تجمل حسین صاحب نے ایک چار ورقی پمفلٹ: ”مسئلہ رفع یدین “کے عنوان سے بھیجا ہے، جسے کسی دوست محمد مزاری دیوبندی نے لکھاہے اور محمد رفیع عثمانی دیوبندی نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے،نیز محمد تقی عثمانی، محمد عبدالمنان اور عبدالرؤف وغیرہ نے ”الجواب صحیح“لکھ کر اس پر مہریں لگائی ہیں۔“ (الحدیث :93ص11)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین

’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَّا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَرضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَا لَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیْلٍ شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘
(صحیح ابن حبان ج3ص178،صحیح مسلم ج1ص181 )
ترجمہ:حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجدمیں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’انہوں نے اپنے ہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دموںکی طرح اٹھایا ہےتم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘ (نماز میں رفع یدین نہ کرو)۔



مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے۔
ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے:

اعتراض نمبر 1= اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں۔
جواب =
ہمار ا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے،چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:
انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472، شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)
کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔
لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

اعتراض نمبر 2 = حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے نقل کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو بطور دلیل پیش نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ یہ سلام کے متعلق ہے۔
جواب =
الف: ان دونوں حضرات کا موقف ترک رفع یدین کا ہے(ادلہ کاملہ،درس ترمذی)
ب: عرض ہے کہ اگر ان حضرات نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا تو دیگرحضرات محققین ومحدثین نے تو بنایاہے۔مثلاً
1.امام ابوالحسن القدوری (التجرید ج2ص519)
2.علامہ زیلعی (نصب الرایہ ج1ص472)
3.علامہ عینی (شرح سنن ابی داود ج3ص29)
4.ملاعلی قاری (فتح باب العنایہ ج1ص78 اور حاشیہ مشکوٰۃ ص 75)
5.امام محمد علی بن زکریا المنبجی (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)
6.مولانا محمد ہاشمی سندھی )رسالہ کشف الرین(
7.حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
8.شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (اوجز المسالک: ج 2ص66)
9.شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (فتح الملہم: ج3 ص317)
10.شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)
11.مولانا الشیخ محمد عبد اللہ بن مسلم البہلوی (ادلۃ الحنفیۃ: ص167)
12.امین الملۃ مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی (تجلیات صفدر: ج2، ص313)
13.مناظر اسلام حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی (نور الصباح: ج1 ص76)
د: اسی حدیثِ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے ترکِ رفع پر استدلال کی نسبت سےمفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور مولانا حبیب اللہ ڈیروی علیہ رحمہ کی آپس میں بات چیت بذریعہ خط و کتابت تفصیلاً ملاحظہ فرمانے کے لیے دیکھیں " نور الصباح ، ج 2، ص 321"
تنبیہ:شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ایک تحریر کی تصدیق کرتے ہوئے”الجواب صحیح“ لکھاہے۔ ان دلائل میں یہی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ موجود ہے۔خود علی زئی کی زبانی یہ حقیقت سنیے:
”مری سے تجمل حسین صاحب نے ایک چار ورقی پمفلٹ: ”مسئلہ رفع یدین “کے عنوان سے بھیجا ہے، جسے کسی دوست محمد مزاری دیوبندی نے لکھاہے اور محمد رفیع عثمانی دیوبندی نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے،نیز محمد تقی عثمانی، محمد عبدالمنان اور عبدالرؤف وغیرہ نے ”الجواب صحیح“لکھ کر اس پر مہریں لگائی ہیں۔“ (الحدیث :93ص11)

آپ کی تمام پوسٹوں کا ایک ہی جواب :

یہ عتیق الرحمن کشمیری ہے کو کہ انور شاہ کشمیری کے بھائی کے بیٹے ہے یہ جب دیوبند مدرسہ سے عالم بن کے نکلے تو انھیں مناظرہ کو شوق ہوا وہ بھی اہل حدیثوں سے خاص طور پر رفع الدین پر جب تحقیق کے میدان میں آئے تو -

4 سال کی تحقیق کے بعد اہل حدیث ہو گئے - اسی رفع الدین کی تحقیق پر

الحمدللہ : اللہ جیسے چاھتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے



سید عتیق الرحمن شاہ کشمیری : میں اہلحدیث کیوں ہوا ؟


لنک


 
Last edited:

اقراء

مبتدی
شمولیت
جنوری 13، 2015
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
آپ کی تمام پوسٹوں کا ایک ہی جواب :

یہ عتیق الرحمن کشمیری ہے کو کہ انور شاہ کشمیری کے بھائی کے بیٹے ہے یہ جب دیوبند مدرسہ سے عالم بن کے نکلے تو انھیں مناظرہ کو شوق ہوا وہ بھی اہل حدیثوں سے خاص طور پر رفع الدین پر جب تحقیق کے میدان میں آئے تو -

4 سال کی تحقیق کے بعد اہل حدیث ہو گئے - اسی رفع الدین کی تحقیق پر

سید عتیق الرحمن شاہ کشمیری : میں اہلحدیث کیوں ہوا ؟


لنک


اس سے کام نہیں چلے گا۔جو دلیلیں دی ہیں۔ان کا رد لکھو
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
Top