• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں !!!

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
انفرادی نماز اسی طریقہ پر ادا کی جاتی ہے جس طریقہ پر فرض نماز یا جمعہ۔
یہ میں بھی جانتا ہوں، آپ تو یہ ثابت کریں کہ انفرادی نماز، جمعہ اور فرض نماز میں رفع یدین سکون کے خلاف ہے جبکہ عیدین اور وتر میں عین سکون؟
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
احادیث سے روگردانی کے لئے کتنے جتن کیئے جارہے ہیں۔
یہ جتن احادیث سے روگردانی کے لیے نہیں بلکہ افہام حدیث اور آپ کی پول کھول نے کے لئے ہیں، آپ سمجھیں یا نا سمجھیں ہمیں امید ہے کوئی نا کوئی تو ضرور سمجھے گا إن شاء الله

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو (جو انفردی نماز پڑھ رہے تھے) رفع الیدین سے منع کیا۔
کبھی کہتے ہو اس میں رکوع کا ذکر نہیں، کبھی کہتے ہو کہ فلاں نماز کو اس سے کیوں استثناء فلاں کو کیوں؟
تأویلات کون کر رہا ہے؟
کبھی اصول کرخی کا رونا روتے ہو کبھی دو مختلف احادیث کو بلا دلیل ایک ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہو۔
یہ سب کیا ہے؟
بھائی آپ کیوں نہیں ایسی حدیث پیش فرما دیتے جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ انفرادی، فرض اور جمعہ کی نماز میں رکوع والا اور تیسری رکعت والا رفع الیدین سکون کے خلاف ہے جبکہ تحریمہ والا عین سکون اور عیدین اور وتر میں تحریمہ کے ساتھ ساتھ اور بھی رفع یدین عین سکون ہیں؟ اس کے بجائے آپ تو بمصداق ' کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھانمتی نے کنبہ جوڑا! ' ادھر ادھر تاویلات میں لگے ہیں. یہ مذموم کوشش امام نووی بھی کر چکے ہیں اس پر بھی کچھ عرض کریں گے؟ حقیقت میں مذموم کوشش تو آپ نے کی تھی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ اور حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بلا دلیل ایک ساتھ جوڑ کر!
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
سنن الترمذي :
وَكَذَلِكَ قَالَ الفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الحَدِيثِ
لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے مختلف مقامات میں جن فقہاء کے نام بتائیں ہیں ان میں فقہاء کوفہ کا تو کہیں ذکر نہیں ہے ائمہ ثلاثہ کے علاوہ جن فقہاء کا نام امام ترمذی نے فقہاء کی فہرست میں ذکر کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں، سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اسحاق ابن راہویہ، یحییٰ بن سعید، ربیعہ، الليث بن سعد، عبد الوهاب الثقفي عباد بن عباد المہلبی رحمہم اللہ اجمعین، کیا آپ ان لوگوں کو فقہاء کی فہرست میں شمار کرتے ہیں؟ اگر کرتے تو کیوں اور نہیں کرتے تو کیوں؟
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
ایک اہلحدیث نے کہا؛

اب آپ اگر سمجھدار ہیں تو سمجھ جانا چاہیئے کہ جو اہل ہوگا رائے کا اسی کا فہم معتبر ہوگا نا کہ اہلحدیث کا۔
ہاں اگر کوئی اہلحدیث (جیسے احمد بن حنبل رحمہ اللہ) اہل الرائے بھی ہے تو الگ بات ہے۔

ہاں اہلحدیث قابل احترام ہے کہ اس نے وہ حدیث (بفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم) فقہاء تک پہنچائی۔
اہل حدیث یعنی محدثین کو نا اہل سمجھنا آپ جیسے مقلدوں ہی کی جرات ہے، محترم اصحاب الرائے (اہل کوفہ) میں کوئی ایسا آدمی بتائیں جو ایک ہی مجلس میں سو غلط احادیث کو سن کر ان کی غلطی کو سمجھ جائے اور ان کو فورا یاد کرکے ان کی غلطیوں کی وضاحت بھی بیان کرکے تصحیح فرما دے؟ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہاں اپنے آپ کو شمار کیا ہے؟ آپ کون ہوتے ہیں بلا دلیل کسی کو فقیہ اور کسی کو اہل رائے کا تمغہ دینے والے؟
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
اب آپ اگر سمجھدار ہیں تو سمجھ جانا چاہیئے کہ جو اہل ہوگا رائے کا اسی کا فہم معتبر ہوگا نا کہ اہلحدیث کا۔
مولانا عبدالحی لکھنویؒ حنفی نے لکھا ہے:
كل ما ذكرنا من ترتيب المصنفات إنما هو بحسب المسائل الفقهية وأما بحسب ما فيها من الأحاديث النبوية فلا فكم من كتاب معتمد اعتمد عليه أجلة الفقهاء مملوء من الأحاديث الموضوعة ولا سيما الفتاوى فقد وضح لنا بتوسيع النظر أن أصحابهم وإن كانوا من الكاملين لكنهم في نقل الأخبار من المتساهلين
ان تصنیفات کی یہ ترتیب جو ہم نے ذکر کی ہے یہ مسائل فقہیہ کے اعتبار سے ہے، ان میں جو احادیث نبویہ ہیں ان کے اعتبار سے نہیں، کتنی ہی قابل اعتماد کتابیں جن پر اجلہ فقہاء نے اعتماد کیا ہے مگر وہ احادیث موضوعہ سے بھری پڑی ہیں، بالخصوص جو فتاوی کی کتابیں ہیں، وسعت نظر سے ہم پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ان کے مصنفین گو کاملین میں سے تھے مگر احادیث نقل کرنے میں وہ متساہلین میں شمار ہوتے ہیں۔
النافع الكبير ٣١

شیخ ابوغدہ حنفیؒ رقم طراز ہیں:
ولا تغتر بذكر بعض الفقهاء من أجلة الحنفية والشافعية لهذه الجملة الأذان جزم والإقامة جزم والتكبير جزم حديثاً نبويّاً في كتب الفقه، فقد علمت أنّها من كلام إبراهيم الحنفي، وليس بحديث نبوي والمعلول علیه فی هذا الباب قول المحدثین لا الفقهاء علی جلالة قدرهم
بعض جلیل القدر حنفی اور شافعی فقہاء کا اپنی فقہ کی کتابوں میں اس جملہ الأذان جزم والإقامة جزم والتكبير جزم کو حدیث نبوی کے طور پر ذکر کرنا تمہیں دھوکا میں مبتلا نہ کردے، تم نے بلاشبہ یہ جان لیا ہے کہ یہ ابراہیم نخعیؒ کا قول ہے حدیث نبوی نہیں ہے، اور اس باب میں رجوع محدثین کی طرف کیا جائے گا، فقہاء کی جلالت قدر کے باوصف ان کے قول پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔
حاشیة المصنوع في معرفة الحديث الموضوع ٨٣

ملا علی قاری حنفیؒ رقم طراز ہیں:
لا عبرة بنقل صاحب النهاية ولا بقية شراح الهداية لأنهم ليسوا من المحدثين ولا أسندوا الحديث إلى أحد من المخرجين
نہایہ اور دیگر ہدایہ کے شارحین کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ وہ محدثین میں سے نہیں اور نہ ہی وہ حدیث کی سند محدثین تک پہنچاتے ہیں۔
الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ۸۵

مولانا عبدالحی لکھنویؒ حنفی فرماتے ہیں:
وهذا قول أظنّ أنّ من صَدَرَ عنه جاهل لا يعرف مراتب المحققين، ولا يعلم الفرق بين الفقهاء والمحدثين، فإنّ الله تعالى خلق لكلّ فنّ رجالاً، وَجَعَلَ لكل مقام مقالاً، ويلزم علينا أن نزلهم منازلهم ونضعهم بمراتبهم، فاجلة الفقهاء اذا کانوا عارین من تنقید الاحادیث لانسلم الروایات التی ذکروها من غیر سن ولا مستند الا بتحقیق المحدثین
یعنی میرا خیال ہے کہ یہ بات جس نے کہی وہ جاہل ہے، محققین کے مرتبہ سے بےخبر ہے اور فقہاء اور محدثین کے فرق سے بھی واقف نہیں، اللہ تعالی نے ہر فن کے علیحدہ علیحدہ آدمی اور ہر جگہ کلام کرنے والے پیدا کیے ہیں، ہمارے لیے ضرور ہے کہ ہم ہر ایک کا مرتبہ و مقام ملحوظ رکھیں، بڑے بڑے فقہاء جب تنقید حدیث کے علم سے واقف نہیں تو ہم ان کی ذکر کردہ روایات کو محدثین کی تحقیق کے بغیر بلاسند و حوالہ تسلیم نہیں کرتے۔
الأجوبة الفاضلة للأسئلة العشرة الكاملة ۳۴

عبدالطیف ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں:
یجوز أن یکون هذا الحدیث ضعیفا غیر قابل الاستدلال به ومع هذا استدل به کاستدلال صاحب الهدایة و کثیر من الفقهاء العرفاء بالله بالاحادیث الضعیفة و الغریبة التی لم توجد فی کتب الحدیث
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف اور استدلال کے قابل نہ ہو لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس سے استدلال کیا جیسے صاحب ہدایہ اور بہت سے فقہاء جو عارف باللہ حضرات ضعیف اور ایسی غریب روایات سے استدلال کرتے ہیں جو کتب حدیث میں پائی نہیں جاتیں۔
ذب ذبابات الدراسات ۷۷۵
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
احادیث سے روگردانی کے لئے کتنے جتن کیئے جارہے ہیں۔
پہلا جتن
امام نووی رحمہ اللہ اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں جس کو آپ نے پیش کیا ہے والمراد بالرفع المنهي عنه هنا: رفعهم أيديهم عند السلام مشيرين إلى السلام من الجانبين كما صرح به في الرواية الثانية. اس شرح کی روشنی میں آپ کی تاویل باطل ٹھہرتی ہے، اس کے بعد بھی میں اس حنفی مجتہد کا نام ضرور جاننا چاہوں گا جس نے مسلم شریف میں موجود ان دونوں احادیث کو دو الگ الگ واقعات پر محمول کیا ہے؟
امام نووی کی مانتے ہو مگر ابن مسعود رضی الللہ تعالیٰ عنہ کی نہیں مانتے۔

محترم جن کو باطل تاویلات کی لت لگ جاتی ہے ان کو محدثین کی فہم سمجھ نہیں آتی
پہلے بتایا جاچکا کہ حدی کا فہم محدثین کا معتبر نہیں فقہاء کا معتبر ہؤا کرتا ہے۔

امام مسلم کا عام طریقہ یہی ہے کہ وہ پہلے مختصر روایت بیان کرتے ہیں پھر اس کے اجمال کو ختم کرنے کے لئے مفصّل روایات بیان کرتے ہیں اور یہی طریقہ انہوں نے یہاں اپنایا ہے جس کو آپ دو واقعہ بتا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں،
دو واقعہ حدیث کے دو مختلف وقوع کے سبب کہا۔
ایک میں صحابہ کرام انفرادی نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے۔
دوسری میں صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ انفرادی نماز پڑھتے ہوئے ہر کوئی مختلف حالت میں ہؤا کرتا ہے اس لئے اس میں کسی خاص مقام کی رفع الیدین کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
باجماعت میں سب کا عمل ایک ہی ہؤا کرتا ہے اس لئے اس میں سلام کی تخصیص موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ماننے والا بنائے۔ آمین


آپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس پر سوال ہے کہ حدیث میں (خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ) کی وضاحت حدیث کی روشنی میں فرما دیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں سے نکلے تھے؟
خرج علینا کا مطلب دخل علینا؛
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذَا الناس رافعوا أيديهم في الصلاة، فَقَالَ: "مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة"

دوسرا سوال یہ ہے کہ حدیث میں ایک خاص رفع الیدین سے منع کیا گیا ہے اور وہ ہے كأنها أذناب خيل شمس کیا آپ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین ایسے ہی کرتے ہیں؟
سلام کے وقت کے اشارہ کے لئے بھی یہی الفاظ استعمال کیئے گئے۔
کیا سلام کے وقت اشارہ اور رفع الیدین میں (سوائے ایک ہاتھ اور دو ہاتھ کے) کوئی فرق ہے؟
اگر آپ کے خیال میں فرق ہے تو براہِ کرم ایک وڈیو بنائیں جو ان دونوں کے فرق کو ظاہر کرے۔


انفرادی نماز، جمعہ اور فرض نماز میں رفع یدین سکون کے خلاف ہے جبکہ عیدین اور وتر میں عین سکون؟
اس کے لئے عرض کیا تھا کہ نصوص کا مطالعہ کریں تو شائد بات سمجھ آجائے۔
میری خیال میں نزول قرآن سے نماز میں تبدیلیاں آئیں۔
ممکن ہے کہ آیت {إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي} [طه: 14] کے باعث نماز کی وہ تمام رفع الیدین ترک کی گئیں ہوں جن کے ساتھ مسنون ذکر نا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
یہ میں بھی جانتا ہوں، آپ تو یہ ثابت کریں کہ انفرادی نماز، جمعہ اور فرض نماز میں رفع یدین سکون کے خلاف ہے جبکہ عیدین اور وتر میں عین سکون؟
کیا آپ ان مذکورہ نمازوں کے علاوہ (سنن و نوافل) کے لئے اس حدیث کے حکم کو مانتے ہو؟
جب آپ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردانی کے لئے قیل قال سے کام لے رہے ہو تو ان مذکورہ کی دلیل دینے سے کیا فائدہ؟
یاد رہے کہ صحیح مسلم کی حدیث کی تشریح میں جو حدیث لکھی گئی وہ ان تمام کے لئے ہے۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے مختلف مقامات میں جن فقہاء کے نام بتائیں ہیں ان میں فقہاء کوفہ کا تو کہیں ذکر نہیں ہے ائمہ ثلاثہ کے علاوہ جن فقہاء کا نام امام ترمذی نے فقہاء کی فہرست میں ذکر کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں، سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اسحاق ابن راہویہ، یحییٰ بن سعید، ربیعہ، الليث بن سعد، عبد الوهاب الثقفي عباد بن عباد المہلبی رحمہم اللہ اجمعین، کیا آپ ان لوگوں کو فقہاء کی فہرست میں شمار کرتے ہیں؟ اگر کرتے تو کیوں اور نہیں کرتے تو کیوں؟
بات اصول کی ہے نا کہ مخصوص افراد کی۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
مولانا عبدالحی لکھنویؒ حنفی نے لکھا ہے:
كل ما ذكرنا من ترتيب المصنفات إنما هو بحسب المسائل الفقهية وأما بحسب ما فيها من الأحاديث النبوية فلا فكم من كتاب معتمد اعتمد عليه أجلة الفقهاء مملوء من الأحاديث الموضوعة ولا سيما الفتاوى فقد وضح لنا بتوسيع النظر أن أصحابهم وإن كانوا من الكاملين لكنهم في نقل الأخبار من المتساهلين
ان تصنیفات کی یہ ترتیب جو ہم نے ذکر کی ہے یہ مسائل فقہیہ کے اعتبار سے ہے، ان میں جو احادیث نبویہ ہیں ان کے اعتبار سے نہیں، کتنی ہی قابل اعتماد کتابیں جن پر اجلہ فقہاء نے اعتماد کیا ہے مگر وہ احادیث موضوعہ سے بھری پڑی ہیں، بالخصوص جو فتاوی کی کتابیں ہیں، وسعت نظر سے ہم پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ان کے مصنفین گو کاملین میں سے تھے مگر احادیث نقل کرنے میں وہ متساہلین میں شمار ہوتے ہیں۔
النافع الكبير ٣١

شیخ ابوغدہ حنفیؒ رقم طراز ہیں:
ولا تغتر بذكر بعض الفقهاء من أجلة الحنفية والشافعية لهذه الجملة الأذان جزم والإقامة جزم والتكبير جزم حديثاً نبويّاً في كتب الفقه، فقد علمت أنّها من كلام إبراهيم الحنفي، وليس بحديث نبوي والمعلول علیه فی هذا الباب قول المحدثین لا الفقهاء علی جلالة قدرهم
بعض جلیل القدر حنفی اور شافعی فقہاء کا اپنی فقہ کی کتابوں میں اس جملہ الأذان جزم والإقامة جزم والتكبير جزم کو حدیث نبوی کے طور پر ذکر کرنا تمہیں دھوکا میں مبتلا نہ کردے، تم نے بلاشبہ یہ جان لیا ہے کہ یہ ابراہیم نخعیؒ کا قول ہے حدیث نبوی نہیں ہے، اور اس باب میں رجوع محدثین کی طرف کیا جائے گا، فقہاء کی جلالت قدر کے باوصف ان کے قول پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔
حاشیة المصنوع في معرفة الحديث الموضوع ٨٣

ملا علی قاری حنفیؒ رقم طراز ہیں:
لا عبرة بنقل صاحب النهاية ولا بقية شراح الهداية لأنهم ليسوا من المحدثين ولا أسندوا الحديث إلى أحد من المخرجين
نہایہ اور دیگر ہدایہ کے شارحین کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ وہ محدثین میں سے نہیں اور نہ ہی وہ حدیث کی سند محدثین تک پہنچاتے ہیں۔
الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ۸۵

مولانا عبدالحی لکھنویؒ حنفی فرماتے ہیں:
وهذا قول أظنّ أنّ من صَدَرَ عنه جاهل لا يعرف مراتب المحققين، ولا يعلم الفرق بين الفقهاء والمحدثين، فإنّ الله تعالى خلق لكلّ فنّ رجالاً، وَجَعَلَ لكل مقام مقالاً، ويلزم علينا أن نزلهم منازلهم ونضعهم بمراتبهم، فاجلة الفقهاء اذا کانوا عارین من تنقید الاحادیث لانسلم الروایات التی ذکروها من غیر سن ولا مستند الا بتحقیق المحدثین
یعنی میرا خیال ہے کہ یہ بات جس نے کہی وہ جاہل ہے، محققین کے مرتبہ سے بےخبر ہے اور فقہاء اور محدثین کے فرق سے بھی واقف نہیں، اللہ تعالی نے ہر فن کے علیحدہ علیحدہ آدمی اور ہر جگہ کلام کرنے والے پیدا کیے ہیں، ہمارے لیے ضرور ہے کہ ہم ہر ایک کا مرتبہ و مقام ملحوظ رکھیں، بڑے بڑے فقہاء جب تنقید حدیث کے علم سے واقف نہیں تو ہم ان کی ذکر کردہ روایات کو محدثین کی تحقیق کے بغیر بلاسند و حوالہ تسلیم نہیں کرتے۔
الأجوبة الفاضلة للأسئلة العشرة الكاملة ۳۴

عبدالطیف ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں:
یجوز أن یکون هذا الحدیث ضعیفا غیر قابل الاستدلال به ومع هذا استدل به کاستدلال صاحب الهدایة و کثیر من الفقهاء العرفاء بالله بالاحادیث الضعیفة و الغریبة التی لم توجد فی کتب الحدیث
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف اور استدلال کے قابل نہ ہو لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس سے استدلال کیا جیسے صاحب ہدایہ اور بہت سے فقہاء جو عارف باللہ حضرات ضعیف اور ایسی غریب روایات سے استدلال کرتے ہیں جو کتب حدیث میں پائی نہیں جاتیں۔
ذب ذبابات الدراسات ۷۷۵
کیا آپ احناف کو حجت مانتے ہو؟
اگر ایسا ہے تو جھگڑا ہی ختم۔
اگر نہیں تو قرآنی حکم اور خود کے منہج سے روگردانی کا مقصد؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
محدثین نے کمال ایمانداری سے احادیث فقہاء تک پہچائیں۔
فقہاء نے بکمال دیانتداری و تقویٰ ان سے مسائل اخذ کیئے۔
علماء احادیث سے مستفید ہوئے عوام مسائل الفقہ سے ۔
 
Top