• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم کسی سے کم نہیں

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
ہم کسی سے کم نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✍ عبيد الله الباقي أسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہم کسی سے کم نہیں"؛ یہ متعدد بیماریوں کی جڑ ہے، جس سے انانیت، غرور، تکبر، اور گھمنڈ جیسی مختلف شاخیں جنم لیتی ہیں، اس خطرناک بیماری کی وجہ سے دل میں زعم پسندی اور خود پرستی کا زہر سرایت کرنے لگتا ہے، اور دھیرے دھیرے یہ زہر جسم کے تمام اعضاء میں اس قدر پھیل جاتا ہے کہ انسان کو مجبورا عزت و احترام کے لبادے سے عاری ہونا پڑتا ہے۔
افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ آج اسی"ہم پرستی" کی بیماری میں ایک بڑا طبقہ مبتلا ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے پر " کریلا پر نیم چڑھا" کی صورت حال ہے؛ کیونکہ ایک طرف پہلے ہی لادینیت، الحاد، اور مختلف برائیوں نے افراد و مجتمع کو اپنے سخت پنجوں سے جکڑ چکا ہے، تو دوسری طرف قیادت و سیادت کے بھوکے معاشرے کی شناخت کو لقمہ بنانے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں۔۔۔
علم ہو یا نہ ہو؛ ہر میدان میں ٹانگ لڑانا ان کی بد ترین عادت بن چکی ہے؛ سیاست و قیادت، تعلیم و تعلم، ارشاد و توجیہ، عدل و انصاف، فیصلہ و محکمہ، فتوی و فرائض ہر میدان میں خود کو نمایاں دیکھنا ہی ان کا اصل مقصود بن چکا ہے، کہیں نا کہیں اسی کی طرف نبی علیہ السلام نے اشارہ فرمایا تھا:"إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا"(صحيح البخاري[100]، وصحيح مسلم[2673]).
کہتے ہیں کہ "نیم حکیم خطرے جان"، جی ہاں؛ کم علمی یا لا علمی کی وجہ سے انسان کی جان جا سکتی ہے، گمراہی کا شکار ہو سکتا ہے، ہلاکت و بربادی مقدر بن سکتی ہے، اور اسی لئے اخلاق و آداب، تعامل و سلوک، عام بات چیت بلکہ تمام شعبہائے حیات میں احتیاط برتنے کی تلقین کی گئی ہے.
غلط بیانی کرنا جھوٹ سے خطرناک ہے، اسی لئے ایسے لوگوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے، اور اس قبیح عمل کو حرام قرار دیتے ہوئے رب فرماتا ہے:{وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ}(سورة الأعراف:33)۔
لہذا اگر واقعی ہم اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا چاہتے ہیں؛ تو اس کے لئے دو باتوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے :
1- انسان جب بھی بولے تو سچ بولے، دلائل کی روشنی میں اپنی باتیں پیش کرے، جیسا کہ فرمان الہی ہے:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا}(سورة الأحزاب:70)، اور نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:"مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ"(صحيح البخاري[6575]، وصحيح مسلم[47]).
2- جب کبھی کسی مسئلے پر ٹھوس معلومات نہ ہوں، یا اس سے متعلق کسی وجہ سے کوئی شک یا تردد واقع ہو؛ تو اپنی طرف سے من گھڑت باتیں پیش نہ کی جائیں؛ بلکہ اہل علم کی طرف رجوع کیا جائے، یہی رب کا حکم ہے:{فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}(سورة النحل:43)، اور اس باب میں حدیث جبریل علیہ السلام ایک شاندار مثال ہے؛ جس پر نہ صرف دین کی بنیاد رکھی گئی ہے، بلکہ زندگی گزارنے کے بہت سارے اصول بیان کئے گئے ہیں.
اس بیماری کا صحیح علاج یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے ہی میدان میں رہ کر مسئلے کا حل تلاش کرے، کسی دوسرے میدان میں بے جا دخل اندازی کی کوشش نہ کرے، ورنہ اس کا انجام بڑا ہی خطرناک ہو سکتا ہے، اسی لئے اس مسئلے کی حساسیت کو بیان کرتے ہوئے امام جرجانی-رحمہ اللہ- فرماتے ہیں:"إذا تعاطى الشيء غير أهله، وتولى الأمر غير البصير به؛ أعضل الداء واشتد البلاء"(دلائل الإعجاز، ص:٤٨٢)، اور اس پر امام ابن حزم - رحمہ اللہ - نے بھی یہ کہہ کر تنبیہ فرمائی ہے:"لا آفة على العلوم و أهلها أضر من الخلاء فيها، فإنهم يجهلون يظنون أنهم يعلمون، ويفسدون ويقّدرون أنهم يصلحون"(مدواة النفوس:١/٣٤٥).
خود پرستی یا خود نمائی کسی بھی اعتبار سے مستحسن عمل نہیں ہے؛ لہذا جھوٹ، فریب، اور دھوکہ جیسی بری عادتوں کو چھوڑ کر انسان صدق و سچائی، اور خیر و بھلائی کی راہ کو اپنا لے، اسی میں کامیابی ہے، ورنہ فیصلہ ہمارے سامنے واضح ہے:"عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ ؛ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا. وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ ؛ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا"(صحيح البخاري[6094] و صحيح مسلم[2607]).
رب سے یہی دعا ہے کہ آئے اللہ! تو ہمیں نیک بنا دے، پکے اور سچے مسلمان بنا دے، سچ اور سچوں کی راہ پر چلنے والے بنا دے، اس پُر فتن دور میں راہ حق پر استقامت نصیب عطاء فرما، اور ان لوگوں میں شامل کر دے؛ جس پر تو نے انعام کیا ہے، جب تک زندہ رکھ توحید پر باقی رکھ، اور خاتمہ ہو تو ایمان بالخیر ہو؛ آمین یا رب العالمین.
 
Top