• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم کس کی مانیں محدث فورم کے احادیث کے مجموعہ کی یا کفایت الله صاحب کی

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
دوست
اللہ اپ کو جزا خیر عطا کرے کہ اپ نیک نیت ہے میرا مدعا اپ سمجھ ہی گئے ہیں مگر دوست اس کی اور بھی اسناد ہیں جو اس کو قوی کرتی ہیں
اس کی اور بھی اسناد ہیں؟؟
کدھر ہیں یہ اسناد؟؟؟


اور دوئم یہ کہ امام بخاری نے ان کو متصل مانا ہے اور اس کے درمیان ایک واسطہ جس کا ذکر امام دارقطنی نے علل میں کیا ہے اس کا انکار کیا ہے چنانچہ
امام دارقطنی لکھتے ہیں" عَبد اللهِ بْنُ ظَالِمٍ.
عَنْ سَعِيد بْنِ زَيد، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ عَشرَةٌ في الجَنَّةِ.
قَاله عُبَيد بْن سَعِيد، عَنْ سُفيان، عَنْ مَنصُور، عَنْ هِلاَل بْن يِساف، عَنْ عَبد اللهِ بْنِ ظَالِمٍ التَّمِيميّ، سَمِعَ سَعِيد بْنِ زَيد، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم.
وَقَالَ مُسَدَّد: عَنْ خَالِدٍ، عَنْ حُصَين، مِثْله، وَلَمْ يَقُلِ: التَّمِيميّ.
وَقَالَ أَبو الأَحوَص: عَنْ مَنصُور، عَنْ هِلاَل، عَنْ سَعِيد، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم.
وَزَادَ بعضُهم: ابْنَ حَيّان، فيهِ، وَلَمْ يَصِحَّ.
وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا، وبِحَسبِ أَصحابِي القَتلُ.
یہ کلام امام دارقطنی کا نہیں پتہ نہیں کہاں سے آپ نے کاپی پیسٹ کردیا اور اسے امام دارقطنی کا کلام بتا دیا ۔
بلکہ ان کی کتاب علل کا حوالہ بھی دے دیا ۔
مجھے بتائیں علل میں یہ کلام کہاں ہے ۔جلد وصفحہ کا حوالہ دیں۔

اصل میں یہ کلام امام بخاری کا ہے ۔جیساکہ آگے آرہا ہے۔

امام بخاری نے اس انقطاع کا انکار کیا یہ بات ضرور ہے کہ انہوں نے اس عشرہ مبشرہ والی اس طرق کا انکار کیا ہے مگر وہ ان دونوں کے درمیان سماع مانتے ہیں
امام بخاری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
عبد الله بن ظالم عن سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه و سلم عشرة في الجنة
قاله عبيد بن سعيد عن سفيان عن منصور عن هلال بن يساف عن عبد الله بن ظالم التميمي سمع سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه و سلم
وقال مسدد عن خالد عن حصين مثله ولم يقل التميمي
وقال أبو الأحوص عن منصور عن هلال عن سعيد عن النبي صلى الله عليه و سلم
وزاد بعضهم بن حيان فيه

ولم يصح
وليس له حديث إلا هذا وبحسب أصحابي القتل روى عنه عبد الملك بن ميسرة

[التاريخ الكبير للبخاري 5/ 124]


امام بخاری رحمہ اللہ نے نہ تو اس انقطاع کا انکار کیا ہے اور نہ ہی سماع مانتے ہیں ۔
انہوں نے سندوں کا اختلاف ذکر کرکے اس حدیث پر عدم صحت کاحکم لگایا ہے۔

شعیب ارنؤوط نے امام بخاری کے کلام کا یہی مطلب سمجھا ہے لکھتے ہیں:
قلنا: ثم إنه حصل فيه ما حصل من الاختلاف، ولهذا قال البخاري عنه: لم يصح.
وكنا قد ذهلنا عن تعليل البخاري والنسائي لهذا الخبر في "مسند أحمد" فحسناه، فيستدرك من هنا.

(سنن أبي داود ت الأرنؤوط 6/ 333)

امام عقيلي رحمه الله روایت کرتے ہیں:
حدثني آدم بن موسى، قال: سمعت البخاري قال: عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يصح[الضعفاء للعقيلي، : 3/ 254]

امام عقیلی کی روایت سے واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ امام بخاری عبداللہ بن ظالم عن سعید والی سند کو غیر صحیح قراردیتے ہیں اور سماع ثابت نہیں مانتے ۔
اس سے شعیب ارنووط صاحب کی بات کی تائید ہوتی ہے اور آپ کی بات کی پرزور تردید ہوتی ہے۔

اگر تسلیم کرلیں کہ امام بخاری نے لم یصح سے صرف آخری سند پرکلام کیا ہے تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ انہوں نے پہلی سند کو متصل مانا ہے؟؟
امام بخاری نے کل چار سندیں پیش کی ہے۔
پہلی سند پیش کی جس پرکوئی خصوصی حکم مذکور نہیں ۔
اس کے بعد دوسری سند پیش کی جو شدید منقطع ہے اس پر بھی کوئی خصوصی کلام نہیں ۔
اس کے بعد تیسری سند پیش کی وہ بھی منقطع ہے۔
پھرچوتھی سند کی طرف اشارہ کیا اس پر آپ کے بقول کلا م کیا ۔
لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ پہلی سند پر صحت یا اتصال کاحکم لگایا ہے؟
درمیاں میں یہ سند بھی ہے:
وقال مسدد عن خالد عن حصين مثله ولم يقل التميمي
یہ ڈبل منقطع ہے ۔اس پر امام بخاری کا کیا فیصلہ مانا جائے گا وہ تو بتائیں ؟؟؟؟

نیز یہ بھی ہے:
وقال أبو الأحوص عن منصور عن هلال عن سعيد عن النبي صلى الله عليه و سلم
یہ بھی منقطع ہے ۔اس پر امام بخاری کا کیا فیصلہ مانا جائے ؟؟؟


شیخ شعیب نے بھی اسی بنیاد پر اس روایت کو صحیح کہا ہے چنانچہ صحیح ابن حبان کے حاشیہ میں یہی نقل کیا ہے
قال البخاري في "التاريخ" 5/125 بعد أن ذكر رواية هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد: وزاد بعضهم ابن حيان فيه ولم يصح
(صحیح ابن حبان 6996)
شیخ شعیب ارنووط نے صحیح ابن حبا ن کی تحقیق میں جو بھی کہا مگر سنن ابی داؤد کی تحقیق میں انہوں نے اس سند کو ڈبل منقطع ثابت کیا ہے لکھتے ہیں:
وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، فإن هلال بن يِساف لم يسمعه من سعيد بن زيد، بينهما فيه رجلان، جاء ذكرهما في رواية سفيان الثوري الآتي ذكرها، أحدهما مبهم، وقال البخاري في "تاريخه الكبير" 5/ 124 عن هذا الحديث: لم يصح[سنن أبي داود ت الأرنؤوط 6/ 333]

نیز امام بخاری کے کلام سے انہوں نے یہاں یہ سمجھا ہے کہ امام بخاری اس حدیث کو ضعیف ہی گردانتے ہیں ۔جیساکہ انہوں نے امام بخاری سے یہاں یہی نقل کیا ہے ۔
اور امام عقیلی کی روایت سے اسی کی تائید ہوتی ہے کما تقدم ۔

بلکہ مسند احمد میں اپنی سابق تحقیق سے رجوع کا اعلان بھی ان الفاظ میں کیا:
وكنا قد ذهلنا عن تعليل البخاري والنسائي لهذا الخبر في "مسند أحمد" فحسناه، فيستدرك من هنا. (سنن أبي داود ت الأرنؤوط 6/ 333)

اور اس اعلان میں تو امام بخاری اور امام نسائی دونوں کی طرف اس حدیث کی تضعیف منسوب کردی ہے۔

اس کے علاوہ شیخ احمد شاکر نے بھی اس میں اتصال ہی مانا ہے (مسند احمد رقم 1630 تحقیق احمد شاکر)
اول:
یہاں رقم 1630 کے تحت جو حدیث ہے وہ یہ ہے:
1630 - حدثنا وكيع حدثنا سفيان عن حُصين ومنصور عن هلالابن يسَاف عن سعيد بن زيد، قال وكيع مرةً: قال منصور: عن سعيد بن زيد، وقال مرةً: حصين: عن ابن ظالمٍ عن سعيد بن زيد: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: اسكُنْ حراء، فليس عليك إلا نبيّ أو صدّيقٌ / أو شهيد، قال: وعليه النبىُّ - صلى الله عليه وسلم -، وأبو بكر، وعمر، وعثمان، َ وَعلى، وطلحة، والزبير، وسعد، وعبد الرحمن ابن وعوف، وسعيد بن زيد، رضى الله عنهم.[مسند أحمد ت شاكر 2/ 290]

اس سند میں خود امام وکیع کا اختلاف ہے ۔
سفيان عن حُصين ومنصور عن هلالابن يسَاف عن سعيد بن زيد
قال منصور: عن سعيد بن زيد
حصين: عن ابن ظالمٍ عن سعيد بن زيد

یہاں سب سے پہلے تو حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ اما م وکیع کا بیان کردہ کون سا طرق محفوظ ہے ؟
ابتدائی دو تو واضح طور پر منقطع ہیں ۔
اور آخری بھی بقول نسائی منقطع ہے ا س کا کوئی جواب شیخ احمد شاکر نے نہیں دیا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ اس روایت میں یہ طریق محفوظ ہے اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ۔
ان حالات میں شیخ شاکر رحمہ اللہ کا فیصلہ کیونکر قابل قبول ہوسکتا ہے؟؟؟


اس کے علاوہ اس کی دیگر سند پیش ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے
أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ خَطَبَ، فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " رَسُولُ اللهِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ "، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شِئْتُمِ أخْبَرْتُكُمْ بِالْعَاشِرِ، ثُمَّ ذَكَرَ نَفْسَهُ(مسند احمد رقم 1638)
امام احمد نے اس کو ھلال بن یساف سے سعید بن زید کی سند سے مختصر نقل کیا ہے
یہ تمام دلائل اس روایت کو ثابت کرتے ہیں۔
میرا مدعا صرف یہ روایت ہے اور کچھ نہیں ہے
یہ دیگرسند ہے؟
اگر دیگر سند ہے تو آپ نے سند اڑا کر صرف متن کیوں درج کیا؟
یہ دیکھ لیں میں پوری سند درج کرتاہوں:

1638 - حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم، قال: خطب المغيرة بن شعبة فنال من علي، فخرج سعيد بن زيد، فقال: ألا تعجب من هذا يسب عليا؟ . أشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنا كنا على حراء - أو أحد -، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اثبت حراء - أو أحد - فإنما عليك صديق أو شهيد "، فسمى النبي صلى الله عليه وسلم العشرة فسمى: " أبا بكر، وعمر، وعثمان، وعليا، وطلحة، والزبير، وسعدا، وعبد الرحمن بن عوف، وسمى نفسه سعيدا " ( مسند أحمد ط الرسالة3/ 181)

اس میں بھی ھلال بن یساف عبداللہ بن ظالم سے نقل کرتے ۔
اور عبداللہ بن ظالم سے انہوں نے یہ حدیث نہیں سنی جیساکہ امام نسائی نے کہا۔
پھر یہ دیگر سند کیسے ہوئی ؟؟؟؟؟؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
باقی بات چیت تو آپ حضرات کرتے رہیے۔
میرا ایک مشورہ ہے کہ سافٹ وئیر میں اگر "صحیح لغیرہ" کا حکم بھی شامل کر دیں تو اس طرح کی احادیث پر حکم میں یہ ابہام ختم ہو جائے گا۔
مجھے معلوم نہیں کہ اس مشورہ کے لیے کسے ٹیگ کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@وجاہت صاحب! آپ عام بندے تو معلوم نہیں ہوتے! آپ ایک ''خاص عامی'' معلوم ہوتے ہیں!
آپ عام ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر، لیکن جاہل ضرور ہیں، اور شیطان آپ کی اس جہالت کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے واسطے سے وسوسہ پیدا کرنے کا کام لے رہا ہے!

اب دیکھئے:

یہ آپ کی غلط فہمی ہے، ذرا غور سے دیکھیں، وہاں سند کو صحیح نہیں کہا، بلکہ اس حدیث کو صحیح کہا ہے!
اور یہ بات بھی ذہن میں رہے، اس روایت کے موقوف حصہ کو نہیں، بلکہ اس میں موجود مرفوع حدیث کو!
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث دوسری اسناد سے بھی ثابت ہے، لہٰذا یہ مرفوع حدیث صحیح ہے۔


شیخ کفایت اللہ نے بالکل درست فرمایا ہے، اور اس کی دلیل بھی امام نسائی سے ہی اسی کتاب سے نقل کی ہے، اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس روایت کو امام نسائی نے چند روایات کے آگے پیچھے تین بار بیان کیا ہے، اور اسی روایت کے متعلق پہلی دو بار اس بات کی صراحت کرتے ہوئے کہ ہلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا، یعنی کہ سند منقطع ہے؛

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 327 السنن الكبرى للنسائي - أحمد بن شعيب النسائي - مؤسسة الرسالة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 332 السنن الكبرى للنسائي - أحمد بن شعيب النسائي - مؤسسة الرسالة

یاد رہے، کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس کی سند پر حکم لگایا ہے، جبکہ اس میں موجود مرفوع حدیث شیخ کفایت اللہ سنابلی کے نزدیک بھی صحیح ہے، لیکن اس روایت کی سند کے ضعیف ہونے کے سبب اس روایت کا موقوف حصہ ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح نہ سنن ابو داود کی روایت کا موقف حصہ ثابت ہوگا، کیونکہ دونوں کی سند ایک ہی ہیں، الا یہ کہ کسی دوسری سند سے ثابت ہوجائے، جیسے کہ اس روایت میں موجود مرفوع حدیث دوسری سند سے ثابت ہے!

تو میرے بھائی جان! یہ مرزا جہلمی والا رافضی چورن یہاں نہیں بکے گا!
جو سند آپ ضعیف کہہ رہے ہیں - اس کو غلام مصطفیٰ ظہیر حافظ الله حسن کہہ رہے ہیں - یہ امام نسائی کی کتاب شان صحابہ بزبان مصطفیٰ جس کا ترجمہ اردو زبان میں ہو چکا ہے - اور اس کی تخریج شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر حافظ الله نے کی ہے - انہوں نے اس حدیث کو حسن کہا ہے -


3.jpg
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان صفحات کو مکمل لگائیے، پورا صفحہ نظر نہیں آرہا، ی نہ ہی صفحہ نمبر! ا اگر پی ڈی ایف میں ہو تو لنک دیجئے!
پہلے دیکھ لیں کہ شیخ غلام مصطفی ظہیر نے کیا کہا ہے، پھر اس پر بات کرتے ہیں!
لیکن ہم نے جس سند کو ضعیف کہا ہے، اس کا ضعف بھی بتلا دیا ہے ، اور محترم غازی بھائی نے تو اسے بہت عمدہ طریقہ سے واضح کردیا ہے!
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
شیخ شعیب ارنووط نے صحیح ابن حبا ن کی تحقیق میں جو بھی کہا مگر سنن ابی داؤد کی تحقیق میں انہوں نے اس سند کو ڈبل منقطع ثابت کیا ہے لکھتے ہیں:
وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، فإن هلال بن يِساف لم يسمعه من سعيد بن زيد، بينهما فيه رجلان، جاء ذكرهما في رواية سفيان الثوري الآتي ذكرها، أحدهما مبهم، وقال البخاري في "تاريخه الكبير" 5/ 124 عن هذا الحديث: لم يصح[سنن أبي داود ت الأرنؤوط 6/ 333]

اس عبارت کو ابو داود میں کس حدیث کے تحت نقل کیا ہے کیونکہ مجھ اس حدیث کے تحت جو ابو داؤد میں تخریج ملی ہے اس میں شیخ شعیب نے اس کو صحیح ہی قرار دیا ہے فلحال یہ عبارت کس حدیث کے تحت نقل ہے براۓ مہربانی اس کا حوالہ دیں



shaikh suaib.png


اگر وہ اس کی سند کو ضعیف مانتے تو محدثین کا ایک طریقہ ہوتا ہے وہ اس طرح لکھتے ہیں (حدیث صحیح هذا اسناد ضعیف )
مگر یہاں ایسا بھی نہیں ہے بہرحال اپ اس کا حوالہ نقل کر دیں
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ان صفحات کو مکمل لگائیے، پورا صفحہ نظر نہیں آرہا، ی نہ ہی صفحہ نمبر! ا اگر پی ڈی ایف میں ہو تو لنک دیجئے!
پہلے دیکھ لیں کہ شیخ غلام مصطفی ظہیر نے کیا کہا ہے، پھر اس پر بات کرتے ہیں!
لیکن ہم نے جس سند کو ضعیف کہا ہے، اس کا ضعف بھی بتلا دیا ہے ، اور محترم غازی بھائی نے تو اسے بہت عمدہ طریقہ سے واضح کردیا ہے!
پی ڈی ایف تو ابھی نہیں ملی - ملتے ہی یہاں لگا دوں گا - یہ دو سکین ملے ہیں -


1.jpg
2.jpg
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
اس عبارت کو ابو داود میں کس حدیث کے تحت نقل کیا ہے کیونکہ مجھ اس حدیث کے تحت جو ابو داؤد میں تخریج ملی ہے اس میں شیخ شعیب نے اس کو صحیح ہی قرار دیا ہے فلحال یہ عبارت کس حدیث کے تحت نقل ہے براۓ مہربانی اس کا حوالہ دیں
18815 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اگر وہ اس کی سند کو ضعیف مانتے تو محدثین کا ایک طریقہ ہوتا ہے وہ اس طرح لکھتے ہیں (حدیث صحیح هذا اسناد ضعیف )
مگر یہاں ایسا بھی نہیں ہے بہرحال اپ اس کا حوالہ نقل کر دیں
اولا:
بات سند کی کیفیت پر ہورہی تھی ۔اوراب آپ کو سند کے ساتھ متن یاد آرہا ہے؟؟
پہلے کیوں متن یاد نہیں آیاآپ کو ؟؟
آپ نے اپنی سابقہ پوسٹ میں امام بخاری کے کلام کاحوالہ دیا تو امام بخاری کاکلام کس متن پرہے؟؟ پلٹ کردیکھ لیں۔
اسی طرح احمد شاکرکے کلام کا حوالہ دیا آپ نے تو احمد شاکر کے کلام والی سند پر کون سا متن ہے ؟؟ یہ متن میں پچھلی پوسٹ میں پیش کرچکا دیکھ لیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ امام نسائی نے سند میں جو انقطاع بتلایا ہے کیا شعیب ارنووط نے اسے یہاں تسلیم کیا ہے یا نہیں؟؟
یقینا تسلیم کیا ہے اور یہ علت ابوداود والی اس سند میں بھی ہے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔
لہٰذ ایہ سندبھی شعیب ارنووط کےنزدیک ضعیف ہی ہے۔



ثانیا:
آپ نے تصحیح کا جوحوالہ دیا ہے وہ سند کی نہیں حدیث کی تصحیح ہے متابعات کی وجہ ۔شعیب الارنوو ط کے جو الفاظ آپ نے اسکین میں دئے ہیں وہی دیکھیں:
حديث صحيح، عبد الله بن ظالم المازني متابع كما في الروايتين الأتيتين[سنن أبي داود ت الأرنؤوط 7/ 45]

غو ر کریں :
اسنادہ صحیح نہیں کہا بلکہ حدیث صحیح کہا ۔
نیز آگے عبداللہ بن ظالم کی دو متابعات بتا کر یہ بھی اشارہ دے دیا کہ یہاں کی سند فی نفسہ صحیح نہیں ہے بلکہ متابعات کے سبب متن صحیح ہے۔
اب متابع لہ اور متابعات کا ایک ایک لفظ پڑھ لیں ۔
نسائی والے الفاظ کہاں ہیں ؟

ثالثا:
شعیب الارنووط آگے پہلی متابعت کی تخریج میں لکھتے ہیں:
وهذا الرجل الذي زكر علياً رضي الله عنه ونال منه جاء مصرّحاً باسمه عند أحمد (1631) والنسائي في الموضع الثالث وابن حبان (6993) وأنه المغيرة بن شعبة.لكلن يخالفه ما جاء بعده بإسناد صحيح عن سعيد بن زيد أن الذي سب علياً ونا ل من رجل يقال له: قيس بن علقمة كان بحضرة المغيرة لا المغيرةُ نفسُه، وهذا أصح.وهو في "المسند" (1629).وانظر ما قبله وما بعده.[سنن أبي داود ت الأرنؤوط 7/ 46]
دیکھ رہے ہیں آپ ؟
شعیب الارنووط نے اس بات کی غلط قرار دے رہے ہیں کہ برا بھلا کہنے والے مغیر ہ بن شعبہ ہیں ۔
اور آپ کی پیش کردہ ابوداؤد والی حدیث کے الفاظ ہیں:
لَمَّا قَدِمَ فلانٌ إلى الكوفة أقام فلانٌ خطيباً، فأخذ بيدي سعيدُ بنُ زيدٍ، فقال: ألا ترى إلى هذا الظالم۔۔۔۔
یہاں پہلے فلاں سے مراد امیرمعاویہ اور دوسرے فلاں سے مراد مغیر بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔
یعنی اس روایت کی رو سے برا بھلا کہنے والے مغیر بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہیں۔

اب بتلائیے کیا شعیب الارنوووط اس بات کو صحیح مانتے کہ برا بھلا کہنے والے مغیر بن شعبہ رضی اللہ عنہ تھے ؟؟
انہوں نے تو اگلی متابعت کی تخریج میں پوری صراحت سے اس بات کوغلط قراردیا ہے۔
پھر بھی آپ دعوی کریں گے شعیب الارنووط نے جس روایت کو صحیح کہاہے اس کے پورے متن کو بھی صحیح کہا ہے ؟؟؟

رابعا:
فرض کرلو شعیب الارنووط نے اس حدیث کو پورے متن کے ساتھ صحیح کہا ہے پھربھی یہ روایت منقطع ہے
جیساکہ دلیل دی جاچکی ہے ۔
پھر تضعیف کے دلیل کے جواب میں تصحیح پیش کرنا چہ معنی دارد؟
کیا اسی کا نام تحقیق ہے ؟
یہ تحقیق نہیں بلکہ اندھی تقلید ہے ۔

خامسا:
اگر آپ کو تقلید ہی کرنی ہے تو امام نسائی کی تقلید کریں وہ شعیب ارنوووط سے کتنے بڑے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
جو سند آپ ضعیف کہہ رہے ہیں - اس کو غلام مصطفیٰ ظہیر حافظ الله حسن کہہ رہے ہیں - یہ امام نسائی کی کتاب شان صحابہ بزبان مصطفیٰ جس کا ترجمہ اردو زبان میں ہو چکا ہے - اور اس کی تخریج شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر حافظ الله نے کی ہے - انہوں نے اس حدیث کو حسن کہا ہے -
پی ڈی ایف تو ابھی نہیں ملی - ملتے ہی یہاں لگا دوں گا - یہ دو سکین ملے ہیں -
جس روایت کی بات آپ کررہے ہیں وہ مع سند ومتن یہ ہے :
104 - أخبرنا محمد بن العلاء قال أنا ابن إدريس قال أنا حصين عن هلال بن يساف عن عبد الله بن ظالم وعن سفيان بن منصور عن هلال عن عبد الله بن ظالم وذكر سفيان رجلا فيما بينه وبين عبد الله بن ظالم قال سمعت سعيد بن زيد قال لما قدم معاوية الكوفة أقام مغيرة بن شعبة خطباء يتناولون عليا فأخذ بيدي سعيد بن زيد فقال ألا ترى هذا الظالم الذي يأمر بلعن رجل من أهل الجنة فأشهد على التسعة أنهم في الجنة ولو شهدت على العاشر قلت من التسعة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على حراء أثبت إنه ليس عليك إلا نبي أو صديق أو شهيد قال ومن التسعة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر وعثمان وعلي وطلحة والزبير وسعد وعبد الرحمن قلت من العاشر قال أنا
(فضائل الصحابة للنسائي ص: 32)

اولا:
اس روایت کو خود اس کتاب کے مصنف امام نسائی نے ضعیف قرار دے دیاہے ۔
جیساکہ پہلے حوالہ پیش کردیا گیا ہے۔

ثانیا:
اس روایت کی تضعیف میں دلیل پیش کی جاچکی ہے کہ یہ منقطع ہے ۔
اس لئے اس کی تصحیح کرنا غلط ہے۔

ثالثا:
غلام مصفطفی ظہیر صاحب کے اصول سے تو یہ روایت ایک اور وجہ سے ضعیف ہے ۔
وہ یہ کہ اس کی سندمیں حصین ہیں ۔
اور غلام مصطفی صاحب حصین کو مختلط مانتے ہیں اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ابن ادریس نے ان سے اختلاط سے قبل سنا ہے ۔

لیکن ہمارے نزدیک یہ علت صحیح نہیں کیونکہ حصین کا اصطلاحی مختلط ہونا ثابت نہیں ۔

اس لئے صحیح بات یہ کہ انقطاع کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
میں نے اپ سے فقط حوالہ مانگا تھا کہ کس حدیث کے تحت یہ تبصرہ نقل کیا ہے اپ وہ بتا دیں جلد ہی اپ کو بتا دوں گا کہ امام نسائی کا اس کو انقطا ع کہنے کی کیا وجہ ہے اور امام بخاری کا کیا مدعا ہے فلحال اپ حوالہ پیش کریں اس کو کس حدیث کے تحت لکھا ہے
 
Top