• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندوستانی ضیاء الحق -- میرا سر نہیں رہے گا ، مجھے اس کا غم نہیں ہے

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
یہ کہانی ایک ایسے جراءت مند [ہندوستانی] مسلم نوجوان کی ہے جس نے ایک معمولی خاندان میں جنم لے کر اپنا کیرئیر بنانے کی انتھک جدوجہد کی اور وہ پی پی ایس (پرونشل پولیس سروسز - Provincial Police Services) کے لئے منتخب کر لیا گیا۔ ضیاء الحق کے سامنے تابناک مستقبل تھا اور کچھ ایسے خواب بھی تھے جو وہ پولیس کی ملازمت میں رہ کر تعبیر کرنا چاہتا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ضیاء الحق کا قصور یہ تھا کہ اس نے بے ایمانی، دغا بازی، فریب اور غنڈہ گردی کے اس دور میں ایمانداری، وفا شعاری اور شرافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ [ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ آف پولیس] ضیاء الحق نے اپنی جان دے کر زندگی کے سنہرے اصولوں کی لاج بچائی ہے تو بے جانہ ہو گا۔
ایک انتہائی غریب گھرانے کے نوجوان ضیاء الحق کو جب 2009ء میں زبردست جدوجہد اور محنت کے بعد یو۔پی پولیس کی ملازمت ملی تھی تو اس کے گاؤں میں جشن کا ماحول تھا کیونکہ وہ اس عہدے تک پہنچنے والا اپنے گاوں کا پہلا نوجوان تھا لیکن گذشتہ اتوار [3/مارچ] کو جب گولیوں سے چھلنی اس کی لاش تجہیز و تکفین کیلئے گاوں میں لائی گئی تو ہر طرف ماتم چھایا ہوا تھا۔ ہر چہرے پر غم و غصے کی لکیریں تھیں لیکن ضیاء الحق کی نوجوان بیوہ رنج و الم کا پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود ان ظالموں سے لوہا لینے کا حوصلہ دکھا رہی تھی، جنہوں نے اس کے شوہر کو نہایت بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

یہ کہانی ایک ایسے جراءت مند مسلم نوجوان کی ہے جس نے ایک معمولی خاندان میں جنم لے کر اپنا کیرئیر بنانے کی انتھک جدوجہد کی اور وہ پی پی ایس (پرونشل پولیس سروسز - Provincial Police Services) کے لئے منتخب کر لیا گیا۔
ضیاء الحق کے سامنے تابناک مستقبل تھا اور کچھ ایسے خواب بھی تھے جو وہ پولیس کی ملازمت میں رہ کر تعبیر کرنا چاہتا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
ضیاء الحق کا قصور یہ تھا کہ اس نے بے ایمانی، دغا بازی، فریب اور غنڈہ گردی کے اس دور میں ایمانداری، وفا شعاری اور شرافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ضیاء الحق نے اپنی جان دے کر زندگی کے سنہرے اصولوں کی لاج بچائی ہے تو بے جانہ ہو گا۔
ضیاء الحق جیسے جراءت مند ہونہار اور ایماندار پولیس آفیسر کو آدم خور اور وحشی سیاست داں "راجہ بھیا" کے علاقے میں تعینات کرنے کا فیصلہ کس نے لیا تھا یہ تو ہمیں نہیں معلوم لیکن اتنا ضرور ہے کہ راجہ بھیا کے حلقہ انتخاب میں بطور پولیس آفیسر اپنی پوسٹنگ کے دوران ضیاء الحق نے کبھی اس کے دربار میں حاضری نہیں دی اور نہ ہی راجہ بھیا کے ناپاک قدموں کو چھونے کی دوسرے افسران کی روایت پر عمل کیا۔
ضیاء الحق کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ پرتاب گڑھ میں وہی افسر صحیح سالم اپنے گھر کو واپس جا سکتا ہے جو روزانہ صبح کو راجہ بھیا کا آشیرواد حاصل کرے اور خود کو اس کے رحم کرم کا محتاج سمجھے ۔
ضیاء الحق کی مجبوری یہ بھی تھی کہ اس کے غریب باپ نے اس کا نام "ضیاء الحق" رکھا تھا جس کا مفہوم ہے "حق کی روشنی"۔ اگر یہ کہا جائے کہ ضیاء الحق اپنے نام کی طرح اپنے کام کو بھی حق کی روشنی سے تابناک بنانا چاہتا تھا تو بے جانہ ہو گا۔
لیکن ضیاء الحق کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اس زمانہ میں جو لوگ سچائی کو پھیلانے اور حق کا پرچم بلند کرنے کی ہمت دکھاتے ہیں وہ اسی طرح گھناؤنی سیاست اور عداوت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا اقتدار اس وقت مسلمانوں کی ہمدرد کہلائی جانے والی سماج وادی پارٹی کے ہاتھوں میں ہے ۔ وزیراعلیٰ کی کرسی پر اکھلیش یادو موجود ہیں لیکن حکومت کی اصل کمان ان کے والد ملائم سنگھ یادو کے ہاتھوں میں ہے ۔ جنہیں ماضی میں ان کی مسلم نوازی کی وجہہ سے "مولانا ملائم" کے خطاب سے سرفراز کیا جا چکا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ ملائم سنگھ کو مسلمانوں کا مسیحا قرار دیتے تھے ۔ ایک سال قبل جب اکھلیش یادو کی تاج پوشی ہوئی تھی تو اس تقریب کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا تھا۔ وزیروں کی اجتماعی حلف برداری کے دوران جب راجہ بھیا نام پکارا گیا تو میری طرح کئی سنجیدہ لوگوں کی پیشانی پر تشویش کی لہریں ابھریں ۔ زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب راجہ بھیا کو جیل کے معاملات کی وزارت سونپی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ مایاوتی کے دور اقتدار میں راجہ بھیا نے بیشتر حصہ جیل ہی میں گذارا تھا۔ ظاہر ہے کہ جیل کے امور کی جانکاری راجہ بھیا سے زیادہ اور کسے ہو سکتی تھی۔
پرتاب گڑھ کے کنڈہ اسمبلی حلقہ سے پانچ بار چنے گئے راجہ بھیا کے بارے میں یہ بتانا صروری ہے کہ ان کے خلاف لوٹ مار، ڈکیتی، قتل، ناجائز وصولی اور دہشت گردی جیسے الزامات کے تحت 50 مقدمات درج ہیں ۔ انہوں نے اپنے قلعے نما مکان میں ایک تالاب بنا رکھا تھا جس میں مگر مچھ پالے ہوئے تھے ۔ مایاوتی انتظامیہ نے راجہ بھیا کو گرفتار کر کے جب اس تالاب کی تلاشی لی تو اس میں انسانی جسموں کے ان گنت ڈھانچے برآمد ہوئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ بھیا جس سے ناراض ہو جاتے تھے اسے ٹھکانے لگا کر مگر مچھوں کی غذا بنا دیتے تھے ۔
یہ دہشت، بربریت اور درندگی کی ایسی کہانی ہے جو آج کی سیاست کو بہت راس آتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یوپی کابینہ میں اس وقت تقریباً آدھے وزیر مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ یوپی نظم و نسق کی صورتحال پچھلے ایک سال میں جتنی بگڑی ہے اتنی شائد پچھلے 10برسوں میں بھی نہیں بگڑی تھی۔

سی بی آئی نے ضیاء الحق قتل کیس میں راجہ بھیا کوکلیدی ملزم کے طورپر نامزد کیا ہے ۔ جس واقعے میں پرتاب گڑھ کے ڈی ایس پی ضیاء الحق کا قتل ہوا ہے وہ بھی نظم و نسق کی بدترین صورتحال کی گواہی دیتا ہے ۔ راجہ بھیا کے حلقہ انتخاب میں ایک گاؤں کے سرپنچ کا قتل کر دیا گیا۔ الزام ہے کہ سرپنچ اور اس کے بھائی کو راجہ بھیا کے آدمیوں نے زمین کے تنازعہ میں قتل کیا تھا۔
ڈی ایس پی ضیاء الحق اپنی پوری ٹیم لے کر اس معاملے کی چھان بین کرنے وہاں گئے تھے ۔ راجہ بھیا کے آدمیوں نے اس پولیس ٹیم پر جان لیوا حملہ کیا۔
ضیاء الحق نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے ان غنڈوں کا دیوانہ وار مقابلہ کیا، جب کہ ان کی ٹیم کے باقی ساتھی جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ان میں ضیاء الحق کا ذاتی محافظ بھی شامل تھا۔ راجہ بھیا کے غنڈوں نے پہلے تو ضیاء الحق کو لاٹھیوں ، سلاخوں اور دیگر تیز دھار والے ہتھیاروں سے بری طرح زخمی کر دیا اور پھر ان کا ریوالور چھین کر انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔

اس طرح ضیاء الحق کی جرأت مندی اور فرض شناسی کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔

ضیاء الحق کی نوجوان بیوہ پروین آزاد نے اپنی شوہر کے قتل کیلئے براہ راست راجہ بھیا پر انگلی اٹھائی۔ جس کے نتیجے میں راجہ بھیا کو یو۔پی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا اور اب وہ اس معاملے سے اپنی جان بچانے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں ۔
راجہ بھیا اپنے علاقے میں غریب اور پسماندہ طبقات کے علاوہ مسلمانوں کو خوف و ہراس کی زندگی جینے پر مجبور کرتے رہے ہیں ۔ یوپی کی ایک غیر سرکاری تنظیم "رہائی منچ" کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں استھان کے واقعہ میں بھی راجہ بھیا کے آدمیوں کا ہاتھ تھا، جس میں 40 مسلمانوں کے گھر نذر آتش کر دئیے گئے تھے۔ اس کے بعد مقامی مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کیلئے وشوا ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا کو بلا کر کھلے اسٹیج سے دھمکیاں دلوائی گئی تھیں ۔ اس واقعہ میں راجہ بھیا اور ان کے والد کا نام سامنے آیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈی ایس پی ضیاء الحق ان فسادات کی رپورٹ تیار کر رہے تھے جو عنقریب حکومت کو پیش کی جانے والی تھی۔
ضیاء الحق کی بیوہ پروین آزاد نے ایک ایسے مرحلے میں جب کہ مضبوط ترین خواتین بھی اندر سے ٹوٹ جاتی ہیں ، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ وہ کہتی ہیں میں ہار نہیں مانوں گی!!
21 سالہ پروین آزاد کا کہنا ہیکہ میں اپنے لئے نہیں بلکہ اس لئے سنگھرش کر رہی ہوں تاکہ مستقبل میں کسی اور ضیاء الحق کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ ایمانداری سے کام کرنے والے افسروں کا حوصلہ نہیں ٹوٹنا چاہئے ۔ پروین سیاست دانوں اور جرائم پیشہ لوگوں کے گٹھ جوڑ کا سوال اٹھاتے ہوئے کہتی ہیں :
"مجھے جو کچھ کھونا تھا وہ میں کھوچکی ہوں ، اب اس کی تلافی زندگی بھر نہیں ہو گی لیکن یہ سلسلہ کب رکے گا؟ کون اس کیلئے لڑے گا؟"
قابل غور بات یہ ہے کہ پروین کا لہجہ المناک ضرور ہے لیکن اس کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ پروین بہار کے سیوان ضلع کی رہنے والی ہیں ۔

ضیاء الحق کا تعلق ایک بہت غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے والد شمس الحق معمولی نوکری کرتے تھے ۔ ضیاء الحق نے دیوریا ضلع کے شیواجی انٹر کالج میں اسکولی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے جنازے میں اس کالج کے پرنسپل آلوک رائے بھی موجود تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک ہونہار طالب علم کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ضیاء الحق اپنے گاؤں میں ایک اسپتال قائم کرنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے اپنے اس منصوبے کا تذکرہ ان سے کیا تھا اور وہ اپنی اہلیہ پروین آزاد کی میڈیکل تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسپتال قائم کرنے کے خواہش مند تھے ۔ لیکن ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔
ضیاء الحق نے اعلیٰ تعلیم کیلے الہ آباد یونیورسٹی کا رخ کیا۔ انہوں نے ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کئے ۔ وہ پی پی ایس کی ملازمت میں شامل ہونے کے بعد نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ ضیاء الحق کی تمام تر توجہ اپنی ذمہ داریوں پر تھی۔

پروین آزاد ان اسباب کو بیان کرتی ہیں کہ کیوں ضیاء الحق نے کبھی راجہ بھیا کے دربار میں حاضری نہیں تھی۔ پروین کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے تھے ۔ انہیں کسی کا خوف نہیں تھا اور وہ بے خوف ہو کر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے اپنے عزم پر عمل پیرا تھے ۔ انہوں نے اسی مشن کی تکمیل کرتے ہوئے اپنی جان ہاردی لیکن ظالم اور باطل قوتوں کے آگے سرنگوں نہیں کیا۔

راجہ بھیا کے بزدل غنڈوں کے ہاتھوں ضیاء الحق کے وحشیانہ قتل پر حبیب جالب کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے :

کسی تنگ دل کے در پہ مرا سر نہ جھک سکے گا
مرا سر نہیں رہے گا، مجھے اس کا غم نہیں ہے

بحوالہ :
تعمیر نیوز : میرا سر نہیں رہے گا ، مجھے اس کا غم نہیں ہے
 
Top