• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندوستان میں مذہب اور سیکولرازم کی کشمکش

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بھارتی معاشرے کی اس تبدیلی نے ہر طبقے کو بھرپور طریقے سے متاثر کیا ہے ۔ ملک میں جنسی تشدد کے حوالے سے ہونے والی بحثیں اور اس قسم کے واقعات کی بے پناہ کوریج کو بھی ایسی ہی ایک کوشش قرار دیا جاتا ہے کہ بہت سی قوتیں بھارت میں سوچ کی تبدیلی اور ایسی بحثیں پیدا کرنا چاہتی ہیں کہ جو معاشرے کو مروّجہ مذہبی اور ثقافتی روایات سے دور کر دیں ۔بھارت میں جنسی تشدد کے مسئلے کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی غرض سے ایک نئی تصویری کہانی شائع کی گئی ہے جس کی مرکزی کردار یا 'سپر ہیرو' ایک ایسی لڑکی ہے جو 'ریپ' کے تلخ تجربے سے گزر چکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کچھ سال پہلے تک ہندو انتہا پسند تنظیمیں ویلنٹائن ڈے جیسے مغربی تہواروں کے خلاف احتجاج کرتی اور منانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹتی تھیں ۔ لیکن اب حالات نے خود بھارتی قانون ، عدلیہ اور اداروں کو بعض ایسی روایات کے تحفظ کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جو اس خطے کی ثقافت اورخود ہندو مذہبی نظریات کی عکاس نہیں۔بھارت میں بہت سے نوجوان جوڑے جن کے خاندان والے اور والدین اُن کے جیون ساتھی کے چناؤ سے خوش نہیں ہیں، پولیس کے زیرِ انتظام خصوصی پناہ گاہوں میں آ رہے ہیں۔عدالت نے پولیس کو ایسے جوڑوں کو تحفظ دینے اور اسی مقصد کے لیے بنائی گئی پناہ گاہوں میں رہائش مہیا کرنے کا حکم دیا۔ پچھلے سال ہریانہ میں ایسے دو سو جوڑے تھے جنہوں نے ان پناہ گاہوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں ایک جوڑے کی کہانی بہت مشہور ہوئی جنہیں بمبئی کے 'لو کمانڈوز' نے اُن کے والدین سے بازیاب کروا کر ایک کر دیا ۔ یہ لو کمانڈوز بوڑھے تاجروں اور صحافیوں کا گروہ ہے جو دس سال پہلے نوجوانوں کو قدامت پسند ہندوؤں اور مسلمانوں سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے ۔یہ ہے جدید بھارت کی بدلتی ہوئی روایات کی ایک تصویر!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بھارتی سپریم کورٹ کا فلم 'پی کے' کے بارے میں فیصلہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جب کسی عدالت نے کٹر مذہبی نظریات کی بجائے ایسا فیصلہ سنایا جو کہ ہندو قدامت پرستوں کے لئے غیر یقینی تھا ۔ ممبئی ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ کسی بھی فرد کو اپنے مذہب کے بارے میں بتانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔عدالت نے اپنے مشاہدے میں کہا کہ مذہب اور ضمیر کی آزادی کے ضمن میں 'کسی مذہب پر یقین نہ کرنے کا حق' بھی شامل ہے۔ اس فیصلے کو ماہرین بھارت میں سیکولر حلقوں کے لئے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

بھارت میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مذہب ، مذہبی پیشواؤں ، روایات اور عقائد پر تنقید کی جو مہم جاری ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خالص اسلامی الفاظ ، اللہ تعالیٰ کے ناموں اور دیگر عقائد کو عشقیہ گانوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ اسلامی عقائد اور روایات کو بھی اسی ترازو میں تولا جاتا ہے کہ جس میں ہندومت کی قدامت پرستی ، دقیانوسیت اور فرسودہ رسوم و رواج کو رکھا جاتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر اسلامی عقائد و نظریات کو بھی انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جائے گا تو دیکھنے والوں کے دل سے انکے بارے میں عقیدت و احترام کے جذبات کم کئے جا سکیں گے۔ جی ہاں! یہی وہ مقصد ہوتا ہے کہ جو ان عناصر نے ایسی فلموں کے ذریعے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ عقیدت ختم ہو جائے ، ذاتِ باری پر ایمان اور مقدس ہستیوں کے احترام کو موضوعِ بحث بنا دیا جائے تو یقیناً اس سے مذہب سے دوری اور مکمل بیزاری کی منزل حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
المیہ یہ ہے کہ بھارتی فلموں میں مقدس اسلامی الفاظ کے استعمال کے بڑے ذمہ دار بھی وہ مسلمان رائٹر اور فنکار ہیں کہ جو بھارتی فلم انڈسٹری میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں ۔ یہ ہی ایسے گانے اور جملے لکھتے ہیں کہ جن سے مقدس الفاظ کی بے حرمتی ہوتی ہے اور سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ ایسے بیہودہ فلمی مناظر کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ جو اسلام کے طرزِ معاشرت کی کھلی مخالفت ہے۔ کسی فلم کی لو سٹوری بیان کرتے کرتے اس محبت کے کرداروں کو خدا ، قرآنی آیات اور اسلامی القابات کے الفاظ میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ اسلامی سلوگنزاور سمبلز کو گانوں میں ملاکر ان کا تقدس پامال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے نبی آخرالزماں ﷺکے ماننے والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں، بلکہ کچھ ان حقائق سے لاعلم ہیں تو کچھ جانتے بوجھتے ان ہی گانوں سے تفریح حاصل کررہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
انتہائی معذرت کے ساتھ چند مثالیں صرف اس لئے پیش کی جا رہی ہیں کہ شاید ان کو دیکھ کر ہمارے دینی جذبہ رکھنے والے حلقوں میں کوئی بیداری پیدا ہو۔ وہ اس کو بھی ایک معاشرتی مسئلہ سمجھیں اور کبھی کسی فورم پر یہ بھی بات ہو کہ کس طرح انتہائی خاموشی سے ہمارے دل سے ذاتِ باری تعالیٰ ، قرآن اور مقدس الفاظ کی عقیدت نکالی جا رہی ہے ۔ ان کو فحش و عریاں مناظر کے ساتھ پیش کرکے کتنا بے قدر کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ان الفاظ کے چناؤ سے بھی آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح محبوب و محبت کے تقابل کے لئے اور کتنے غلیظ خیالات کے اظہار کے لئے مقدس اسلامی الفاظ کو استعمال کر لیا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
1--اگست 1998ء میں ریلیز کی گئی فلم 'دل سے' کا گانا چھیّاں چھیّاں میں جنت اور آیات کے لفظوں کو کچھ یوں استعمال کیا گیا ہے: ''جن کے سر ہو عشق کی چھاؤں ، پاؤں کے نیچے جنت ہوگی ....چل چھیّاں چھیّاں ....تعویذ بنا کے پہنو اسے.... آیت کی طرح مل جائے کہیں.... وہ یار ہے جو ایماں کی طرح میرا نغمہ ،وہی میرا کلمہ،وہی....''

2-- جولائی 2002ء میں ریلیز کی گئی فلم 'مجھ سے دوستی کروگی'کے گانے کے الفاظ ہیں: ''جانے دل میں کب سے ہے تو ....مجھ کو میرے ربّ کی قسم، یارا ربّ سے پہلے ہے تو...''

3-- 2006ء میں کشمیر کے موضوع پر بننے والی فلم 'فنا' میں ایک پہلو یہ تھا کہ تحریک ِآزادئ کشمیر کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی فلم کے ایک گانے میں کہا گیا کہ ''چاند سفارش جو کرتا ہماری....دیتا وہ تم کو بتا ....شرم و حیا کے پردے گرا کے کرنی ہے ہم کو خطا ....سبحان اللہ، سبحان اللہ، سبحان اللہ ....''اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفات ِمبارکہ اور اسماے حسنیٰ کے ساتھ بے ہودہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کے پس منظر میں نازبیا حرکتوں کی عکس بندی ہوتی ہے اور پس منظر میں رقص وسرود کے منظر فلمائے جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4-- نومبر 2007ء میں ریلیز کی گئی فلم 'سانوریا'کے گانے کے الفاظ ہیں:'' جب سے تیرے نینا میرے نینوں سے لاگے رے ....تب سے دیوانہ ہوا ....سب سے بیگانہ ہوا ....ربّ بھی دیوانہ لاگے رے (نعوذباللہ) اسی فلم کے ایک اور گانے میں ماشاءاللہ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ....دل نشیں دلکشی ہو یا جنت کا نور ہو، ماشاءاللہ، ماشاءاللہ، ماشاءاللہ، ماشاءاللہ ....''

5--اکتوبر2007ءمیں ریلیز کی گئی فلم 'بھول بھلیاں' کا گانا:'' معاف کریں ، انصاف کریں ، ربّ ہو نہ خفا ، جانِ جہاں سے بیگانے ، جہاں سے اب میں ہوں ، جدا جان لیا ہے میں نے ، مان لیا ہے میں نے ، پیار کو اپنا خدا سجدہ کروں میں، پیار کا سجدہ سجدہ کروں میں ، یار کا سجدہ سجدہ کروں، دیدار کا سجدہ''

6--جولائی2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم 'گجنی' کے گانے کے الفاظ ہیں: ''....کیسے مجھے تم مل گئیں ....قسمت پہ آئے نہ یقین ....میں تو یہ سوچتا تھا ....کہ آج کل اوپر والے کو فرصت نہیں ....پھر بھی تمہیں بنا کے ....وہ میری نظر میں چڑھ گیا ....رتبے میں وہ اور بڑھ گیا....''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
7-- اگست2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم' بچنا اے حسینو' کا گانا: سجدے میں یوں ہی جھکتا ہوں ....تم پہ ہی آکے رکتا ہوں ....کیا یہ سب کو ہوتا ہے.... ہم کو کیا لینا ہے سب سے.... تم سے ہی سب باتیں اب سے ....بن گئے ہو تم میری دعا ....خدا جانے میں فدا ہوں ....خدا جانے میں مٹ گیا ہوں ....خدا جانے یہ کیوں ہوا کہ بن گئے ہو تم میرے خدا''

8-- دسمبر 2008ءمیں ریلیز کی گئی فلم 'ربّ نے بنا دی جوڑی' کا گانا ''....تجھ میں ربّ دکھتا ہے کے الفاظ ہیں ....تجھ میں رب دکھتا ہے ....یارا میں کیا کروں ....سجدے میں دل جھکتا ہے ....یارا میں کیا کروں ....''

9-- جولائی 2009ءمیں فلمLove Aaj Kal کے لیے بھی کچھ اسی قسم کا گانا 'آج دن چڑھیا' گایا ہے۔جس کے الفاظ ہیں: ''مانگا جو میرا ہے ....جاتا کیا تیرا ہے.... میں نے کون سی تجھ سے جنت مانگ لی ....کیسا خدا ہے تو بس نام کا ہے ....تو ربا جو تیری اتنی سی بھی نہ چلی ....چاہے جو کردے تو مجھ کو عطا ،جیتی رہے سلطنت تیری ....جیتی رہے عاشقی میری....''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
10--فروری 2010ء میں ریلیز کی گئی فلم My Name is Khan کے گانے کو بھی پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے: ''اب جان لوٹ جائے ...یہ جہاں چھوٹ جائے ... سنگ پیار رہے ... میں رہوں نہ رہوں ... سجدہ تیرا سجدہ کروں .... میں تیرا سجدہ ...''

11-- مارچ 2010ءمیں ریلیز کی گئی فلم 'پرنس' میں عاطف اسلم نے ایک گانا گایا ہے: 'تیرے لیے۔'اس میں کہا گیا ہے: ''جنتیں سجائیں میں نے تیرے لیے، چھوڑ دی میں نے خدائی تیرے لیے....''

12-- جولائی 2010ءمیں ریلیز کی گئی فلم Once Upon Time in Mumbai کے گانے کے الفاظ ہیں ....''تم جو آئے، زندگی میں بات بن گئی ....عشق مذہب عشق میری ذات بن گئی...''.یہ گانا پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان نے گایا ہے۔

13-- اس کے علاوہ راحت فتح علی خان نے جولائی 2010ء میں ریلیز کی گئی فلم I Hate Love Story کا گانا بھی ملاحظہ کریں ....''صدقہ کیا یوں عشق کا کہ سر جھکا، جہاں دیدار ہوا ، وہ ٹھیری تیری ادا کہ رک بھی گیا میرا خدا....''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حاصل کلام یہ کہ پاکستان کے دینی حلقوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف بھارت میں جاری مذہب اور سیکولرازم کے درمیان کشمکش پر بھرپور نظر رکھیں بلکہ بھارتی فلموں اور دیگر مواقع پر اسلامی نظریات و عقائد کو انتہائی غلط انداز میں پیش کرنے کی کوششوں سے بھی بھرپور آگاہ ہوں۔ زبان کی یکسانیت کے باعث یہ سارا مواد پاکستانی اور دنیا بھر میں موجود اُردو دان طبقے کو پوری شدت سے متاثر کر رہا ہے۔ گانوں کے ان گمراہ کن بولوں کے ذریعے جہاں اہل اسلام عشق ومستی کے دل دادہ ہورہے ہیں، وہاں ایمان ویقین کی لازوال دولت سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں، اور بعض اوقات یہ بول اسلامی عقائد کی توہین اور ذاتِ باری تعالیٰ کی کھلی گستاخی کا بھی مرتکب بنا دیتے ہیں۔ ایسے بولوں کو مسلسل سننے سے انسان فاسق وفاجر ہونے کے ساتھ ساتھ الحاد ودہریت کی گہری کھائیوں میں بھی گر تا چلا جاتا ہے۔

ہمیں اپنی نوجوان نسل اور معاشرے کے ہر طبقے کو وہ فرق سمجھانے کی بھی ضرورت ہے کہ جو اسلام کی لازوال الہامی تعلیمات اور ہندو مت کے عقائد میں ہے ۔ اُنہیں یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ہندو مت کی قدامت پرستی و مذہبی جنونیت اور اسلامی تعلیمات کو ایک ہی پلڑے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر آج ہندوستانی معاشرے میں مذہب بیزاری کے آثار نظر آ رہے ہیں تو ہرگز ضروری نہیں کہ اسلام کے ماننے والے بھی اسی ڈگر پر چلنا شروع ہو جائیں یا کم از کم ان نظریات سے متاثر نظر آئیں ۔ اس تحریر کا مقصد اس اہم پہلو کی طرف اہل علم و دانش کی توجہ بھی مبذول کرانا تھا ۔ اگر ہمارے سماجی ماہرین ، علماے کرام ، سکالرز اور دیگر اہل دانش اس حوالے سے بھی توجہ دیں تو یقیناً اس سے مثبت تبدیلی آئے گی اور اسلامی معاشرے کو بھارتی ثقافتی اثرات سے محفوظ بنانے میں خاطرہ خواہ مدد ملے گی۔

٭ ...........٭ ...........٭​
 
Top