• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندوستان میں مذہب اور سیکولرازم کی کشمکش

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فلم 'پی کے 'کی پذیرائی کا دوسرا رخ: اسلامی نظریات کے خلاف ذہن سازی


ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کو عالمی سیاست میں اہم ترین مقام عطا کر دیا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی ، سیاسی یا اقتصادی طاقت کی بجائے میڈیا کو استعمال کرنے لگی ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ اب فوجی طاقت کے ذریعے کسی کو غلام بنا دینے کا رواج نہیں رہا بلکہ میڈیا کے زور پر ذہنوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ، فلم ٹی وی ، انٹرنیٹ، اخبارات وغیرہ کے ذریعے 'نیوکالونیل ازم ' کا ایک نیا تصور فروغ پا رہا ہے۔ یہ مضمون کیونکہ ایک فلم کے تناظر میں لکھا جا رہا ہے، اس لئے فلم کے انتہائی اثر انگیز ذریعۂ ابلاغ ہونے کا تذکرہ کرنا انتہائی ضرور ی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
میڈیا کی ایک اہم ترین تھیوری 'میجک بلٹ تھیوری 'ہے ۔ اس تھیوری کے مطابق میڈیا کسی بھی معاشرے پر گولی کی طرح اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔یعنی جیسے کسی ہتھیار سے نکلی ہوئی گولی آناً فاناً ہلاکت و تباہی کا باعث بنتی ہے، اسی طرح میڈیا بھی معاشرے میں ایسا ہی کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ تھیوری جنگِ عظیم کے دوران مغربی ممالک کی جانب سے بنائی جانےوالی فلموں کے اثرات جاننے کے بعد پیش کی گئی تھی ۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم 'پی کے' کی مقبولیت اور بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور دیگر ممالک کے اُردو دان طبقے میں اس کے اثرات کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس فلم کا موضوع 'مذہب 'ہے جو کہ کارپوریٹ کلچر اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی سیڑھیاں چڑھتے بھارت کا ہاٹ ایشو بھی ہے۔ ہندومت نے برصغیر کے مخصوص معاشرتی رویوں کے باعث اس خطے کے بڑے طبقے کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا ہے لیکن اب مغرب اور سائنس کے زیر اثر اُبھرنے والی نوجوان نسل ہندومت کی فرسودہ رسومات ، مافوق الفطرت نظریات اور عجیب و غریب عبادات کو بوجھ سمجھنے لگی ہے اور وہ ہندو سادھوں اور مذہبی پنڈتوں کے طرزِ عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔یہ نسل مذہبی طبقے کی کسی بھی طرح برتری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اوپر راقم اس ساری صورتحال کا جائزہ پیش کرچکا ہے جو بھارت میں ہندومت اور سیکولرازم کی کشمکش کے حوالے سے جاری ہے ۔ یہاں ہم حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم 'پی کے' کا جائزہ نذرِ قارئین کرتے ہیں جس نے نہ صرف مقبولیت اور کمائی کے ریکارڈ بنائے ہیں بلکہ کئی طرح کی نئی بحثوں کو بھی جنم دیا ہے۔ یوں تو فلم کا ذکر کرنا کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے لیکن کوئی ایسی فلم جو بطور خاص مذہب کے موضوع پر ہو اور اس کا دائرۂ اثر بھی غیر معمولی حد تک پھیلتا نظر آرہا ہو، اور اس کی پذیرائی بڑے پیمانے پر کی جارہی ہو تو ایسی صورتحال میں اس کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فلم 'پی کے'کی پذیرائی اور مقبولیت نے بہت سے دینی حلقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لاہور کے ایک ایسے ہفت روزہ جہادی اخبار میں بھی اس فلم کا تذکرہ ہوا کہ جو ہندوستان پر تنقید اور ہندومت کا پوسٹ مارٹم کرنے میں شہرت رکھتا ہے ۔ اس فلم کے سبق کو اسلام کی سچائی کی علامت قرار دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ثابت ہو گیا کہ ہندو مذہب کس قدر کھوکھلا ہے اور یہ کہ ہندو مت کے سامنے اسلام کی حقانیت ثابت ہو گئی ہے اور ساتھ ساتھ احادیث کی روشنی میں اس بشارت کا بھی تذکرہ کر دیا گیا کہ اسلام ہی غالب آئے گا ۔ ایک معروف یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز کے معزّز پروفیسر نے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے جب سمیسٹر ختم ہونے کے بعد طلبہ کو اپنے بارے میں فیڈ بیک کے لئے کہا تو کئی نے اپنے فارم میں لکھا کہ '' سر آپ اتنے اچھے ہیں کہ اس 'گولے'کے لگتے ہی نہیں ہیں ۔'' مجھے حیرانی اس وقت بھی ہوئی کہ جب اچھے خاصے دین دار لوگ ایک دوسرے کو یہ فلم ضرور دیکھنے کی تلقین کرتے نظر آئے اور مجھے اپنے ایک معزز دوست کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک بڑے اسلامک سکالر نے اس فلم کو مثبت کوشش قرار دیا ۔ سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے افراد جو کہ اسلام کے نام پر ادا کی جانے والی فرسودہ رسومات اور تصوف کے پردے میں ہونےوالی خرافات پر تنقید کرتے ہیں ، ان کی جانب سے بھی اس سب کے لئے ' رانگ نمبر ' کا تذکرہ سننے کو ملا ۔حتی کہ ایک دینی جماعت کے سرگرم کارکن نے مجھے فخریہ انداز سے بتایا کہ اس نے یہ فلم تین سے چار بار دیکھی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض ' سائبر مجاہد'اس فلم کو اداکار عامر خان کے گزشتہ سال کئے جانے والے حج اور اس دوران ایک نامور پاکستانی تبلیغی عالم دین کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا نتیجہ قرار دیتے نظر آئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
میڈیا کی تعلیم اور موجودہ دور میں میڈیا کو معاشرتی تبدیلی کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے حقائق کے پیش نظر ہمیں یہ خیال ستانے لگا کہ چلو کچھ تو اس بارے میں اپنی رائے بھی دی جائے تاکہ بے دھیانی میں ایک خاص رو میں بہہ جانے والے اپنے مخلص احباب کو تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آئے۔

سب سے پہلے تو یہ بات کہ ان سب قدردانوں کو اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ یہ فلم جس مسلمان اداکار نے بنائی ہے، اس نے دو نوں شادیاں ہندو عورتوں سے کی ہیں اور اس کے گھر ابھی بھی ایک ہندو بیوی موجود ہے۔بعض حلقوں کے مطابق مسز عامر خان ' کرن راؤ' ملحد بن چکی ہیں ۔ وہی عامر خان چند ایسے سوال جواب جو کہ ان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر شیئر کئے گئے تھے، ان کے حوالے سے پاکستانی ویب سائٹس اور اخبارات کو قانونی نوٹس بھیجنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں ۔دراصل ان سوال و جوابات سے ایسا تاثر مل رہا تھا کہ جیسے عامر خان نے اس فلم میں ہندومت پر تنقید کرنے کو جائز جبکہ اسلام کو انتہائی مثبت انداز میں پیش کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ ٹھیک ہے کہ اس فلم میں ہندومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا اسلام سمیت کسی دوسرے مذہب کی حقا نیت ثابت کرنے کے لئے نہیں کیا گیا ۔ بلکہ اس کا واضح مقصد مذہب بیزاری، لادینیت اور سیکولرنظریات کا فروغ ہے ۔بظاہر ہندو پنڈت ، سادھو اور گرو ہدف بنائے گئے ہیں اور یہ فلم ان کی براہِ راست مخالفت پر مبنی ہے لیکن دراصل دیگر تمام مذاہب کے مذہبی رہنما بھی کسی رعایت کے مستحق نظر نہیں آتے۔ بین السّطور میں دیا جانے والا پیغام یہی ہے کہ تمام مذاہب اور دینی اقدار انسانیت کے لئے مضر اور بے فائدہ ہیں ۔ چند جملے اور مناظر تو ایسے ہیں کہ جن کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے۔ خیال رہے کہ یہ جائزہ ہم ایک مسلمان کے طور پر لیں گے اور ایک مسلمان کے لئے اس فلم کے پوشیدہ پیغامات کی اہمیت ومضمرات کو واضح کریں گے...:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
1--- فلم کا ہیرو عامر خان ایک موقعے پر کہتا ہے کہ ''اللہ کو ہماری مدد کی ضرورت نہیں ۔'' یہ انتہائی سادہ سا جملہ لگتا ہے ۔ لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ ایک پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ دعوتِ دین سے منسلک اور پیغامِ الٰہی کی دعوت دینے والے تمام علماے دین ،سکالرز اور دیگر افراد ایک فضول اور بے مقصد سرگرمی میں مشغول ہیں ۔ یعنی کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کی بات کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اللہ کو اپنا پیغام پہنچانے کے لئے کسی کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اس دنیا میں انبیاکی آمد اور ان کے رفقاے کار کی کاوشیں گویا کسی اہمیت کی حامل نہیں ۔ آج کے معاشرے میں بھی سب کو چاہیے کہ وہ 'اپنا اپنا کام ' کریں اور اُنہیں اللہ کی مدد کرنے کی ضرورت نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2---فلم میں کئی مواقع پرخدا، رام یا اللہ کے 'مینیجرز 'کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ اس لفظ کا استعمال ہی ایک واضح پیغام ہے کہ دین سے منسلک افراد کو تجارتی اور ذاتی مفادات کے روپ میں دکھایا جائے ۔ اُنہیں اس طرح دیکھا جائے کہ جیسے وہ خدا کے نام پر تجارت اور لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے ذمہ دار ہیں ۔' مینیجر ' وہ ہوتا ہے کہ جو معاملات طے کرتے وقت اپنی سوچ،مفادات اور طرزِ عمل کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے ۔ اسی طرح مذہب کو بھی'کمپنی 'کہا گیا ہے۔ اسلام کے علماے کرام تو خدا کی طرف بلاتے ہیں، نہ کہ اُس کے نام پر معاملات طے کرتے ہیں ۔ رائے کا اختلاف تو ہے لیکن کبھی کسی عالم دین نے واضح قرآنی احکامات کے مقابل اپنی سوچ نافذ کرنے کی بات نہیں کی ۔ جبکہ نہ ہی عبادات کا کوئی نیا طریقہ لایا گیا ہے۔

اسی طرح ہندو مت کے سادھوؤں اور گرو حضرات کے طرزِ عمل اور اسلام کے علماے کرام اور سکالرز کو ایک ہی نظر سے دیکھنا انصاف نہیں کیونکہ یہ خود کو خدا کا روپ قرار نہیں دیتے ۔یہ تو خود اسلامی حدود و قیود کے پابند ہوتے ہیں ۔ اسلام میں کہیں ایسا نہیں کہا گیا کہ علما و منتظمین کسی بھی قسم کی جوابدہی سے مستثنیٰ ہیں اور نہ کسی حلقے کی جانب سے ایسا دعویٰ سامنے آیا ہے۔ اسلام کا نفاذ ایک عامی اور عالم پر یکساں طور پر ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3--- ایک مو قعے پر مختلف روپ دھارے افراد کو پیش کیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مذہب تو صرف ظاہری روپ کا نام ہے ۔جس نے جو روپ دھار لیا، وہ ہی اس کا مذہب ہو گیا۔ اگر اس اُصول کو ٹھیک مان لیا جائے تو آج کے اسلامی معاشرے کا ایک بڑا طبقہ تو مسلمان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔اسلامی طرزِ زندگی پر مکمل عمل پیرا نہ ہونے والوں اور سنتِ نبوی کے مطابق ظاہری شکل و شباہت اختیار نہ کرنے والوں کو علماے کرام اور بزرگوں کی جانب سے تلقین کی جاتی ہے ، سمجھایا جاتا ہے لیکن اُنہیں کافر تو قرار نہیں دیا جاتا ۔ اسی طرح یہ تصور بھی انتہائی غلط ہے کہ کسی مذہب اورخصوصاً اسلام کی ظاہری شکل و شباہت کو اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام نے فطرت کے تقاضوں اور معاشرتی اصلاح کے لئے ایک مکمل طرزِ زندگی دیا ہے جس میں مرد و عورت کے لئے لباس ، ظاہری شکل و صورت اور دیگر احکامات موجود ہیں ۔ پردے کی پاسداری ، داڑھی کا رکھنا اور لباس کے متعلق احکام شریعت پر عمل پیرا ہونا معاشرتی برائیوں کو روکتا ہے، نہ کہ یہ سب صرف اور صرف ایک الگ شناخت کرنے کے لئے ہیں ۔ ایک ہندو لڑکی صرف برقعہ پہن کر مسلمان قرار نہیں دی جا سکتی کیونکہ مسلمان ہونا تو ان سب احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونا ہے کہ جن کا اللہ تعالیٰ اور نبی ﷺکی جانب سے حکم دیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4---اس فلم میں مذہب پر ایک بنیادی اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ مذہب کی حقیقت ایک خاندانی روایت، اور دین آبا سے زیادہ کچھ نہیں۔ لوگ اسی لیے مختلف مذاہب پر عمل کرتے ہیں کیونکہ انکی نسل و خاندان کا وہی دین ہوتا ہے۔ مذہب کے جواز اور ضرورت کو صرف اس ظاہری پہلو اور خاندانی ٹھپّہ سے منسلک کردینا بھی اسلام کی توہین ہے۔ کیونکہ اسلامی عقیدہ تو یہ ہے کہ آبا ؤ واجداد کے دین کی بجائے اپنی عقل وہوش کو استعمال کیا جائے اور اپنے خالق کی پہچان کی جائے۔ اسکے فرستادہ پیغمبر کی معرفت حاصل کرکے،اسکے مستند احکامات کی پابندی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سے مسلمان آج اس نظریے کی پاسداری نہیں کرتے، لیکن اس سے ان کا اسلام مشکوک نہیں ہوجاتا بلکہ اُنہیں بھی شعور وبصیرت کو کام میں لانا چاہیے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بھی خاندانی مذہبی روایت کی محض پاسداری کی بجائے انفس وآفاق میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔ مذہب کو ایک نسل اور خاندانی روایت قرار دینا اور اسلام کو بھی اس الزام کے تحت گھسیٹ لینا، اسلام پر غلط اور ناروا زیادتی ہے۔
 
Top