• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندوستان میں مذہب اور سیکولرازم کی کشمکش

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
5---ایک موقعے پر عامرخان مندر کے چندہ بکس سے رقم چراتا ہے ، اور منطق یہ دیتا ہے کہ چونکہ اس کا کام نہیں ہوا، اس لئے وہ اپنی رقم واپس لینے آیا ہے ، وہ خدا کے مینیجرز کو یہ رقم استعمال نہیں کرنے دے گا ۔ اس سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ چندے وغیرہ کی رقم جیسے مذہبی رہنماؤں کی ذاتی ملکیت بن جاتی ہے اور اُنہی کے لئے سہولیات کا باعث بنتی ہے ۔ یہ بھی مذہب کی ایک غلط اور محدود تصویر ہے ۔

اسلام نے چندے اور صدقات و خیرات کے استعمال کا انتہائی شفّاف نظام دیا ہے۔ اس میں بدعنوانی اور ذاتی استعمال کے بارے انتہائی سخت وعید بھی ہے ۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اتنا ہی گناہ گار ہوتا ہے جیسا کہ کوئی عام شخص اگر کسی برائی کاارتکاب کرے ۔ معاشرے میں ایسی مثالیں مل جاتی ہے کہ جہاں عوام کی رقوم کا غلط استعمال ہوتا ہے لیکن ایسا بڑے پیمانے پر ہر گز نہیں ہے۔ علماے دین اور دینی تعلیم و تربیت سے منسلک زیادہ تر قراء و اساتذہ کرام ایک محدودتنخواہ پر کام کرتے ہیں، نہ کہ اس مسجد و مدرسے کے چندے کو ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال میں لاتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6--- اسی طرح ہندووں کی عبادات کے مافوق الفطرت ہونے ، توہم پرستی اور انسانیّت سوز ہونے کا ذکر کرتے کرتے اسلامی عبادات کو بھی اس تناظر میں بھی دیکھنا انصاف کا تقاضانہیں ہے ۔ ہندو بھرت اور اسلامی روزہ ایک جیسی مذہبی عبادت نہیں ۔ روزہ صرف کھانا پینا چھوڑ دینے کا نام نہیں ۔ ایک مسلمان کو روزہ رکھ عملی اخلاقیات کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے ، چغلی نہیں کر سکتا ، بد نظری سے مکروہ ہوتا ہے ، گالی گلوچ اس کو متاثر کرتے ہیں ، حرام کی کمائی نہیں کھا سکتا ، جھوٹ بولنے سے مکروہ ہو جاتا ہے ۔ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے کہ اسلام کا نظام عبادت کس طرح دیگر مذاہب سے مختلف ہے ۔ یہ کسی بھی انسان کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے ہے، نہ کہ ایک راہب اور معاشرے سے کٹا ہوا ایک فرد بنانے کے لئے ۔ یاد رہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پیش نظر فلم کے ذریعے بظاہر تو ہندومت کو ہدف بنایا گیا ہے، لیکن اس کے پس پردہ اور بین السطور پیغام میں اسلامی احکام وروایات کی بھی بیخ کنی کی گئی ہے، جس سے مسلمان ناظرین کا متاثر ہونا ایک لازمی امر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
7---فلم میں ایسے ڈائیلاگ شامل ہیں جن سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عبادات کے لئے پیسہ خرچ کرنے کی بجائے لوگوں کی مدد کی جائے۔ یہ سب ہندووں کی جانب سے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے کی جانے والی عبادات کے تناظر میں دکھایا گیا ہے ، مثلا ًدودھ پھینکنا وغیرہ ۔ ہمارے ہاں بھی باقاعدہ ایک طبقہ ایسا موجود ہے کہ جو حج و قربانی جیسی عبادات کو ترک کرنے کے لئے یہی دلیل دیتا ہے ۔ اسلام غریب اور نادار افراد کی مدد کرنے کی بھرپور تلقین کرتا ہے لیکن اسکے تحت حج و قربانی جیسی عبادات کو ترک کرنا ٹھیک نہیں ہے ، ان کی اپنی ایک دینی اہمیت ہے ۔ حج اسی پر فرض ہے کہ جو صاحبِ استطاعت ہو اور اسی طرح قربانی بھی ۔ یہ خیال پیش کرنا کہ ان عبادات کو ترک کر دینا چاہیے، اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
8--- فلم میں مذہب پر عمل پیرا ہونے کی وجہ خوف کو قرار دیا گیا ہے ۔ عامر خان واضح طور پر کہتا ہے کہ ''جوڈرتا ہے، وہی مندر جاتا ہے ۔'' یعنی مذہب کی پیروی صرف اور صرف خوف کے تحت ہی کی جاتی ہے ۔ اس کے لئے امتحانات کے تناظر میں طلبہ کے خوف کو دکھایا گیا ہے ۔ دراصل ہمارے ہاں بھی ایک ایسا طبقہ موجود ہے جس کا موقف ہے کہ لوگ محض جہنم سے ڈر اور جنت کے لالچ میں مذہب کی پاسداری کرتے ہیں ۔ یہ ایک غلط تصور ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام میں نیک لوگوں کے لئے انعامات اور گناہوں کی عادت بنا لینے والوں کے لئے جہنم کی سزا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب انسان کو معاشرے کاایک بہتر اور باعمل فرد بنانے کے لئے ہی تو ہے، نہ کہ کسی مذہبی پیشوا کی خدمت گزاری کے لئے ۔ اسلام ہمیں ایک مضبوط معاشرتی نظام بھی دیتا ہے جس میں تمام کے حقوق اور سب سے مساوی سلوک کی تلقین موجود ہے۔ہمسایوں کے حقوق ادا نہ کرنے والوں کے لئے سزا ہے، بیوی بچوں، رشتہ داروں، حتیٰ کہ غلاموں تک کے حقوق کی پاسداری کرنے کی تلقین ہے اور نہ کرنے کی صورت میں سزا۔ ذرا تصور کریں کہ اسلام کا سزا کا نظام کس قدر منفرد ہے کہ یہ انسان کو دوسروں کے زیادہ قریب کر دیتا ہے اور مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا مقصد ہی دوسرے انسانوں کا فائدہ پہنچانا ہے ۔ اسلام کسی ایسے خوف کا تصور پیش نہیں کرتا کہ جس کا مقصد انسان کو ڈرا کربزدل بنانا ہو بلکہ سزا کا تصور صرف اس لئے ہے کہ زندگی کو بامقصد اور منظم بنایا جا سکے۔مزید برآں عبادات ،حسن اخلاق،صلہ رحمی اور خدمتِ خلق کے ذریعے بھی اسلام انسان کو پرسکون وبااطمینان زندگی کی ضمانت دیتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
9--- اسی طرح فلم میں یہ بھی تصور پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چونکہ ہم سب کو بھگوان نے بنایا ہے ، ہم اس کے بندے ہیں، اس لئے وہ اپنے بندوں کو کبھی بھی مشکل میں نہیں ڈال سکتا ،عبادات اور رسوم و رواج کی سختیاں اس کی طرف سے نہیں ہے ۔ یعنی اگر کسی پر کوئی مشکل ہے تو وہ بھگوان کی جانب سے نہیں ہے ۔ یہ تصور بھی انتہائی غلط ہے ۔ اسلام میں واضح طور پر موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے بندوں کو آزماتے بھی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سختی اور تنگی اور اس کے ساتھ عیش و عشرت دے کر بھی اپنے بندوں کو آزماتے ہیں ۔ یعنی یہ سمجھنا کہ جن کے ساتھ خدا راضی ہو، ان کو کوئی مشکل نہیں آنی چاہیے جبکہ اگر کوئی مشکل آجائے تو اس سے خدا کے تصور کو ہی جھٹلانا ٹھیک نہیں ہے ۔ آزمائش کا آنا خدا کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے ۔اور اسی طرح اگر کسی عبادت میں کوئی مشکل نظر آتی ہے مثلا روزہ رکھنا ، حج کے دوران سفر کی صعوبت وغیرہ تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ایسی عبادات ہی ٹھیک نہیں ہیں حالانکہ اس فلم میں ایسا تصور دینے کی کوشش کی گئی ہے۔آزمائشیں اور پریشانیاں، اسلام کی نظر میں انسان کے درجات کی بلندی کے لیے ہوتی ہیں، جس پر بہت سی احادیثِ مبارکہ شاہد ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
10--- فلم کے ایک سین میں مسلمان چرچ میں شادی کے لئے پہنچتا ہے اور وہ ایک ہندو عورت سے شادی کر رہا ہوتا ہے جبکہ آخر میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ وہ دنوں اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ اس لڑکی کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہوتا ہے کہ جو کٹر ہندو نظریات کی حامل ہوتی ہے ۔ اس سے بھی ایک متنازعہ ایشو کو چھیڑا گیا ہے جس کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا ۔ عامر خان اور اس جیسے دیگر مسلمان اداکاروں کے لئے تو یہ عام سی بات وہ گی لیکن شریعت کی ذرا سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی فرد اس کو ہرگز ٹھیک نہیں سمجھتا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
11--- فلم کے ایک سین میں عامر خان شراب کی بوتلیں لیکر مسجد کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے ۔ اس دوران بیک گراونڈ میں ایک قوالی چلائی گئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ '' زاہدشراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر یا وہ جگہ بتا دے، جہاں پر خدا نہ ہو ۔'' ان دونوں باتوں کی غلطی بڑی واضح ہے۔

12--فلم میں متنازعہ مواد کے ساتھ ساتھ دیگر بالی وڈ فلموں کی طرح فحاشی کا عنصر بھی بھرپور موجود ہے ۔ اس فلم کو ہندومت پر تنقید اور مثبت کاوش قرار دینے والوں کو اس بارے بھی ذرا غور کرنا چاہیے۔فلم میں عامر خان انتہائی گھٹیا زبان بولتا ہے جبکہ گالیوں کا بکثرت استعمال بھی کرتا ہے۔ ایک طوائف سے زبان سیکھتا ہے جبکہ 'ڈانسنگ کارز' کو بار بار دکھانے کا مقصد بھی ایک خاص پیغام عام کرنا ہی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ اس فلم کے ذریعے دیگر مذاہب کے شرکیہ عقائد پر کڑی ضرب لگائی گئی ہے اور اسلام میں غلط رسوم ورواج اور بدعات وخرافات پر بھی اس میں شدید تنقید موجود ہے، یہ اس فلم کا مثبت پہلو ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی دعوت کے لیے فلم کا میڈیا کوئی جائزاور مناسب ذریعہ نہیں ہے ۔ مزید برآں اس کے نقصان دہ مضمرات بھی کچھ کم نہیں، جیساکہ ان کی طرف اوپر اشارہ کردیا گیا ہے کہ اس فلم میں ایسے کئی مناظر اور ڈائیلاگ ہیں جن کے ذریعے مذہب ، مذہبی اقدار اور مذہبی طبقے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ایسا ہندو مذہب کے تناظر میں کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اس کا مقصد دیگر تمام مذاہب کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
شاید دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اس بات پر کچھ زیادہ اعتراض نہ ہو کیونکہ ان کے پاس ان سوالات کا جواب ہے ہی نہیں کہ جو اس فلم کے ذریعے اُٹھائے گئے ہیں لیکن الحمداللہ اسلام کا دامن اس حوالے سے خالی نہیں ۔ اسلام کے پاس ایک مکمل ضابطہ حیات اور ایسا عالمگیر نظام موجود ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت کی بھلائی اور پرامن معاشرے کاخواب پورا ہو سکتا ہے ۔ہمیں اس کااحساس کرنے کی ضرورت ہے کہ میڈیا پر پیش کئے جانے والے مواد کے مقاصد کو بھی سمجھا جائے تاکہ اسکے پوشیدہ پیغامات کے اثرات سے آگاہی ہو سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حوالہ و حواشی

یہ بات اپنے ظاہری معنیٰ کے لحاظ سے تو درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی مدد یا عبادت کی کوئی ضرورت نہیں، تاہم اس کے باوجود قرآنِ مجید انصاراللہ بننے کی تلقین کرتا ہے، عیسائی اپنے آپ کو نصرانی اور مدینہ منورہ کے مسلمان اَنصار کہلاتے ہیں۔ اس لحاظ سے انصار کی نسبت حقیقت سے بڑھ کر اسی طرح کی ایک عزت افزائی ہے ، جیسے بیت اللہ کو اللہ کا گھر ، محرم الحرام کو اللہ کا مہینہ قرار دے کر، اُن کے مقام وفضیلت کو نمایاں کیا گیا ہے، جبکہ اللہ عزوجل کو کسی گھر یامہینہ کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہی صورتِ حال سیدنا عیسیٰ کو روح اللہ اور قوم ثمود کی اونٹی کو ناقۃ اللہ قرار دینے میں ہے۔ اس بنا پر جب اللہ تعالیٰ نے عزت افزائی فرمائی تو انصار اللہ بننا ایک بڑی سعادت کا کام ہوا، جو مبارک ترین فرض ہے۔ ح م

یہ درست ہے کہ اسلام میں کسی مذہبی پیشوائیت کی کوئی گنجائش نہیں، اور اسلام ، یہودی وعیسائی اَحبار ورہبان کی شدید مذمت کرتا ہے۔لیکن علما وفقہا کا اسلام میں خاص مقام ومرتبہ ہے، اور دین کے بہت سے معاملات کے لیے ان کی طرف رجوع کیے بغیر چارہ نہیں۔ مثلاً دینی احکام کا کسی مخصوص صورتحال پر اطلاق جسے فتویٰ کہتے ہیں، بزبانِ قرآن اہل الذکر کی رہنمائی کا ہی محتاج ہے۔ تاہم یہ پیشوائیت ذاتی فضیلت کے بجائے، اس علم وبصیرت کی طرف لوٹتی ہے جس کا کوئی عالم دین حامل ہوتا ہے۔ غلط پیشوائیت جیسے مینیجرز یا ملّا کا نام دیا گیا اور درست رہنمائی جو علماے حق کرتے ہیں، میں حد امتیاز؍ فاصل یعنی کتاب وسنت کی اتباع کی پرواہ کیے بغیر، ہردو کو یکساں اور قابل مذمت قراردینا، دینی رہنمائی کو ہی سرے سے مشکوک وغیر معتبر بنا دیتا ہے۔ دین میں ہر ایسا کا م جو کوئی مذہبی پیشوا اپنی طرف سے اضافہ کرے ، وہ بہر حال قابل مذمت ہے۔ اس بنا پر ہر عالم دین کو کاروباری مینیجرز کی فہرست میں شمار کرنا سراسر زیادتی اور عصر حاضر میں دین کے پیغام کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ ح م

اس طرح دینی صدقات وخیرات کو خالصتاً ایک کاروباری ڈیل اور لین دین کا معاملہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ تصور دیا گیا ہے کہ اسی انسان کو صدقہ دینا چاہیے جس کی ادائیگی کے بعد اس کے دنیا کے مسائل ختم ہوجائیں، بصورتِ دیگر یہ صدقہ اللہ تعالیٰ کی بجائے کسی مذہبی پیشوا کی جیب کی نذر ہورہا ہے۔اس تصور کو مان لیا جائے توپھر صدقہ وخیرات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، اور اسلام کا نظام زکوٰۃ وصدقات ختم ہوکررہ جاتا ہے۔ جب کہ اسلام تو صدقہ وخیرات کو ایک عظیم نیکی قرار دیتا اور آخرت میں پہاڑ کی مثل بدلہ ملنے کی غرض سے اس کی تلقین کرتا ہے۔ ح م
 
Top