• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہومیو پیتھک [علاج بالمثل] کا حکم ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہومیو پیتھک [علاج بالمثل] کا حکم ؟؟؟
سوال:

میں "علاج بالمثل" کے طریقہ علاج کو اپنانے کا حکم جاننا چاہتا ہوں، یہ معلوم ہو ا کہ اس طریقہ علاج میں جن قطروں کو استعمال کیا جاتا ہے، انکی حفاظت کیلئے الکحل شامل کیا جاتا ہے، تو کیا ان دواؤں کا استعمال کرنا جائز ہے؟


الحمد للہ:


اول:

"علاج بالمثل" یا ہو میو پیتھی طریقہ علاج ، اصل میں مریض کو لاحق مرض کی انتہائی قلیل مقدار دینے کا نام ہے!، اس طریقہ علاج کے بارے میں تحقیقات اور ریسرچز جاری ہیں، اور دنیائے طب میں ابھی تک اسے حتمی طور پر کامیاب طریقہ علاج قرار نہیں دیا گیا۔

چنانچہ " الموسوعة العربية العالمية " میں ہے:

"علاج بالمثل، یعنی: ہومیوپیتھی:

علاج بالمثل ایک ایسا طریقہ علاج ہے جو کہ "لوہے کو لوہا کاٹے اور گرمی کو گرمی مارے" کی بنیاد پر قائم ہے، اس طریقہ علاج کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ: عام طور پر جو مادہ صحیح تندرست شخص میں کچھ بیماری یا مرض پیدا کرتا ہے، وہی مادہ بیمار شخص کیلئے شفا یابی کا باعث بن سکتا ہے، چنانچہ -مثال کے طور پر-کچھ جڑی بوٹیاں جلدی سوزش کا باعث بنتی ہیں، علاج بالمثل کے طریقہ پر چلنے والے طبی ماہرین انہی نباتات کو جلدی سوزش کیلئے بطورِ علاج استعمال کرتے ہیں، ایسے ہی پیاز کی وجہ سے آنسو آتے ہیں، اور ناک سے پانی بہنے لگتا ہے، اور علاج بالمثل کے طبی ماہرین پیاز کے ذریعے ہی سردی کے نزلے کا علاج کرتے ہیں، ایک جرمن طبی ماہر "سموئیل ہانی من" نے علاج بالمثل کو اٹھارویں صدی عیسوی کے آخر میں دریافت کیا تھا۔

علاج بالمثل میں طریقہ علاج کی توثیق "خود آزمائی" کے اصول کے تحت کی جاتی ہے، جس میں تجویز کردہ دوا کو صحت مند افراد پر تجربے کے طور پر آزمایا جاتا ہے، اور اس دوران ان افراد پر رونما ہونے والے اثرات کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، علاج بالمثل کے طریقہ کار کو اپنانے والے طبی ماہرین ایک وقت میں مریض کو ایک ہی دوا دیتے ہیں، کیونکہ انکا کہنا ہے کہ ایک سے زائد ادویات ایک دوسرے کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے، علاج بالمثل کے دوران ایک مریض کو دوا کی تھوڑی سے تھوڑی مؤثر مقدار دی جاتی ہے، اور ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح دوا کا بھر پور فائدہ ہوتا ہے، اور اسکا یہ بھی فائدہ ہے کہ اس سے جانبی نقصانات ظاہر نہیں ہوتے۔

علاج بالمثل کیلئے استعمال شدہ ادویہ میں استعمال کیا جانے والا مادہ اس وقت زہر کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے،جب زیادہ مقدار میں دوا کا ااستعمال کیا جائے۔

ان سب باتوں سے بڑھ کر سائنسی طور پر بھی علاج بالمثل کی افادیت واضح نہیں ہو سکی، چنانچہ انہی اسباب کی وجہ سے علاج بالمثل کا طریقہ علاج بہت سے طبی ماہرین کی طرف سے تنقید کا محور ہے" انتہی

دوم:

علاج بالمثل کیلئے استعمال ہونی والی ادویہ کے مرکبات کے بارے میں انکی اصل ماہیت کی طرف دیکھا جائے گا، اور پھر ہر ایک کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں فیصلہ ہوگا۔ مثلا

1- زہریلے مادوں کے شامل ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ:

"کچھ علمائے کرام نے زہریلا مادہ تناول کرنے سے منع کیا ہے، چاہے اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ، نقصان دہ ہو یا فائدے کی توقع ہو ہر صورت میں منع قرار دیا ہے۔

جبکہ کچھ علمائے کرام نے زہریلا مادہ تناول کرنا جائز قرار دیا ہے، تاہم انہوں نے اس کیلئے کچھ شرائط و ضوابط بیان کیے ہیں، جائز قرار دینے والے علمائے کرام کے ہاں اس زہریلے مادے کے اثرات کو دیکھا جائے گا کہ مریض کے بدن کیلئے کس حد تک سود مند ہے، افادے کی مقدار جاننے کیلئے متعدد تجربات کئے جائیں، تا کہ زہریلے مادے کے نتائج کے متعلق دل بالکل مطمئن ہو، اور یہ بھی کہ اس زہریلے مادے کا اثر لاحق بیماری کے اثرات سے زیادہ نہ ہو۔


چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جن ادویات میں زہریلا مادہ پایا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ: اگر اسے کھانے کی وجہ سے موت یا دماغی توازن خراب ہونے کا خدشہ ہو تو زہریلا مادہ کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر ظنِ غالب یہ ہو کہ اس سے نقصان نہیں ہوگا، بلکہ فائدہ کی امید ہو، تو اس بنا پر زہریلا مادہ تناول کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس سے بڑی بیماری ٹل جائے گی، یہی صورت حال دیگر ادویات کی ہے۔

تا ہم یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ زہریلا مادہ نگلنا ناجائزقرار دیا جائے ؛ کیونکہ یہ اپنے آپ کو موت کے دہانے پر ڈالنے کے مترادف ہے، لیکن صحیح بات پہلا موقف ہی ہے، کیونکہ بہت سی ادویات ایسی ہیں جن کے مضر اثرات کا خدشہ رہتا ہے، اس کے باوجود ان کو بڑی بیماری سے بچنے کیلئے تناول کیا جاتا ہے، اور یہ مباح ہے" انتہی مختصراً

"المغنی" (1/447)

2- ایسی ادویات کا استعمال جن میں الکحل استعمال کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ الکحل کے بارے میں یہاں دو مسئلے ہیں: [1] کیا الکحل نجس ہے یا پاک؟ [2] کیا الکحل کو دوائی وغیرہ یا کسی اور چیز میں ملانے سے اس کے اثرات متنقل ہوتے ہیں، یا نہیں؟


پہلی چیز:

جمہور اہل علم شراب [الکحل] کو حسی طور پر نجس کہتے ہیں، جبکہ بعض دیگر علمائے کرام شراب کی نجاست کو معنوی نجاست کہتے ہیں۔

دوسری چیز:

الکحل کو جب دیگر ادویہ کیساتھ ملایا جائے تو اسکی تاثیر یا تو بالکل واضح، قوی اور مؤثر ہوگی، یا نہیں ہوگی، چنانچہ اگر تو تاثیر بالکل واضح ہے تو الکحل سے بنا ہوا مرکب حرام ہوگا، اور ان ادویات کو استعمال کرنا بھی حرام ہوگا۔

اور اگر الکحل کی ذاتی تاثیر ان ادویہ میں نہ ہو تو انہیں استعمال کرنا درست ہوگا، کیونکہ الکحل کو براہِ راست پینے اور دیگر کسی چیز میں ملا کر استعمال کرنے میں فرق ہے، اس لئے کہ خالص الکحل تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ ہر حالت میں ناجائز ہے، اور اگر الکحل کو کسی دوسری چیز میں ملا دیا جائے تو مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق حکم ہوگا۔

اس بارے میں علمائے دائمی فتوی کمیٹی کا فتوی سوال نمبر: (40530) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

اور اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا تفصیلی فتوی سوال نمبر: (59899) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

خلاصہ:

1- حاذق طبی ماہرین کے ہاں علاج بالمثل کوئی مفید طریقہ علاج نہیں ہے، بلکہ کچھ تو اس طریقہ علاج کے شدید مخالف ہیں، اور اس سے منع بھی کرتے ہیں۔

2- کسی بھی طریقہ علاج کو اپنانے کیلئے اس بات کو یقینی بنا نا ضروری ہے کہ عام طور پر مریض اس طریقہ علاج سے مستفید ہوتا ہے، اور اسے شفا ملتی ہے، یا کم از کم غالب گمان یہی ہو۔

3- ایسی ادویہ سے اپنے آپ کو بچائیں جو زہریلے مواد یا الکحل پر مشتمل ہوں، الا کہ ان کی مقدار کم از کم ہو، ایسے ہی ان ادویات کا موّثق و معتمد نتائج کے مطابق مریضوں پر مثبت اثر ہو۔

4- اس موقع پر ہم آپکو شرعی دم کرنے کا بھی مشورہ دینگے، جو کہ قرآن مجید، اذکار، اور شرعی دعاؤں پر مشتمل ہو، آپ خود پڑھ کر اپنے آپ پر دم کریں، اور اللہ تعالی سے مدد مانگیں کہ آپکی بیماری کو آپ سے دور کر دے، اسی طرح ہم آپ کو ایسی ادویات استعمال کرنے کا مشورہ بھی دینگے جن کے متعلق شرعی نصوص میں مفید ہونے کا ذکر ہے، مثلاً: شہد، اور کلونجی، تاہم انکی مقدار ، اور طریقہ استعمال کے تعین کیلئے طبی ماہرین سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی مسلمان مریضوں کو شفا و عافیت سے نوازے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/111004
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
انگریزی زبان میں ’’الکحل‘‘ شراب یعنی وائن کو بھی کہتے ہیں۔ شراب یعنی وائن عموما" اجناس یا پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ صرف اور صرف پینے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس قسم کی تمام شراب (وائن) کو کھانے پینے کے طور پر استعمال کرنامتفقہ طور پر حرام ہے۔

"الکحل" کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہ ایک ’’کیمیکل‘‘ کا نام ہے۔ ’’کیمیکل الکحل‘‘ کی بہت سی اقسام ہیں۔ جیسے ایتھے نال (ایتھائل الکحل)، میتھے نال ( میتھائل الکحل)، پرو پے نال، بیو ٹے نال وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب اقسام الکحل کی ہیں، جوکیمیا وی طور پر تیار کی جاتی ہیں۔ انہیں ’’سینتھے ٹک الکحل‘‘ بھی کہتے ہیں۔ صنعتوں میں ان کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے اور بالعموم یہ استعمال غیر غذائی صنعتوں میں ہوتا ہے۔ الکحل کی مندرجہ بالا اقسام میں صرف اور صرف ’’ ایتھے نال‘‘ یا ایتھائل الکحل کو ہی بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب اس کا نیا استعمال پیٹرول کے متبادل کے طورپر بھی کیا جانے لگا ہے۔ اجناس یا پھلوں سے تیار شدہ شراب یا وائن بھی کیمیاوی طور پر ’’ایتھے نال‘‘ ہی ہے۔

کیمیکل الکحل کو نیل پالش، فرنیچر پالش، اور پرفیوم وغیرہ میں بھی ( بطورنان فوڈ آئٹم) استعمال کیا جاتا ہے۔ الکحل کیمیکل سے تیار کیا جائے یا اجناس اور پھل وغیرہ سے، یہ ناپاک یا پلید نہیں ہوتا۔ ناپاک اور پلید ہونا ایک الگ بات ہے اور کسی شئے کا بطور غذا حرام ہونا الگ بات۔ جیسے اگر مردار(حلال) جانور کا کھانا حرام ہے۔ لیکن مردار جانور ناپاک یا پلید نہیں ہوتا۔ اس کی کھال اور چربی کا غیر غذائی استعمال بلا شک و شبہ حلال ہے۔ اسی طرح کتے کا گوشت کھانا حرام ہے۔ لیکن یہ ’’ناپاک‘‘ نہییں کیونکہ اس کے ذریعہ کیا گیا شکار حلال ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

گویا الکحل بذات خود نجس، ناپاک نہیں ہے کہ اگر کپڑے کو لگ جائے تو کپڑا ناپاک ہوجائے، نیل پالش کے ذریعہ ناخن کو لگ جائے تو ناخن ناپاک ہوجائے، اس سے فرنیچر کو پالش کیا جائے تو فرنیچر ناپاک ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح پرفیوم میں شامل الکحل کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ یعنی الکحلک پرفیوم کا استعمال بلا شک و شبہ جائز ہے۔

اس عہد کے بہت سے اسلامک اکالرز بشمول ڈاکٹر مفتی تقی عثمانی نے ہومیو پیتھک ادویات کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ تمام ہومیو پیتھک ادویات صرف اور صرف (سینتھے ٹک) الکحل میں تیار کی جاتی ہیں۔ یہی مصنوعی یا کیمیاوی الکحل بعض ایلو پیتھک ادویات یعنی سیرپ وگیرہ مین بھی استعمال ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ ہومیو میں جائز ہیں تو ایلو پیتھک میں بھی جائز ہیں۔ ایک بار پھر واضح رہے کہ دواؤں میں صرف اور صرف کیمیاوی الکحل (ایتھے نال) استعمال ہوتی ہے،اجناس یا پھلون سے بننے والی شراب یا وائن نہیں، جس کا پینا متفقہ طور پر حرام ہے۔
حوالہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ہومیو ڈاکٹر محترمہ نسرین فاطمہ کی ایک تحریر:

ہومیو پیتھک طریقہ علاج کو متعارف ہوئے تقریبا دو صدی سے بھی زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اس عرصہ میں یہ مختلف مدارج سے گذرا اور اسے شدید مخالفتوں کا نشانہ بنایا گیالیکن جادو وہ جو سر چڑھ کہ بولےاس کے شدید مخالف بھی آہستہ آہستہ اس طریقہ علاج کے قائل ہو گئے یہ اس لئے نہیں کہ لوگوں سے اس کو ماننے کی درد مندانہ اپیل کی گئی بلکہ اس لئے کہ ہو میو پیتھی ایک حقیقت ہے ایک قوت ہے جنہونے اسے پرکھا وہ اس کے گرویدہ ہو گئے ۔
ہومیوپیتھک طریقہ علاج سے متعلق مختلف قسم کے خیالات کا اظھار کیا جاتا رہا ہے جن میں بہت سی باتیں محض قیاس آرائیاں ہوتی ہیں اظہار خیال کرنے والوں میں سے بیشترہومیو پیتھی کے فلسفے اور اصول سے ناواقف ہو تے ہیں اس لئے اس طریقہ علاج کو غیر سائینٹیفک یاغیر اسلامی کہنا بلکل مناسب نہیں کسی بھی فن یا شعبہ سے متعلق پہلے بنیادی معلومات حاصل کرلی جائیں اس کا تھوڑا بہت مطالعہ کرلیا جائےپھر اظھار خیال کیا جائےتو اس میںوزن بھی ہوگا اور بات دل کو لگے گی
ہومیو پیتھی طریقہ علاج کوئی معجزہ ،جادویا جھاڑ پھونک نہیں یامحض اتفاق نہیں بلکہ دوسرے طریقہ علاج کی طرح یہ بھی ایک طریقہ ہے جو دوسرے طریقوں سے اس لئے منفرد ہے کہ اس کے اصولوں کی بنیادقدرتی طریقہ شفا پر ہےجو کہ زیادہ سائینٹیفک اور یقینی ہے
انسانی جسم ایک مادی چیز ہے اس جسم میں ایک غیر مادی چیز بھی ہے جسے "قوت حیات" کہتے ہیں منفی سوچ اور منفی اصول زندگی ہمارے اندر ایک سممیت(ایک قسم کا زہر) پیدا کر دیتے ہیں جس سے قوت حیات متاثر ہوتی ہے اور اس کا اظہار جسم میں مختلف علامات سے ہو تا ہے ان علامات کو مرکزی شکل دیکر دوا تجویز کی جاتی ہے جو قوت حیات کو بیدار کرتی ہے اور بیماری کی علامات ختم ہو نا شروع ہو جاتی ہیں یہ ایک زبردست طریقہ علاج ہے
اسی طرح عارضی قوت حیات یا Anti _bodies پیدا کی جاتی ہیں جو بعد میں قدرتی مدافعت بن کر جسم کو ان بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہیں اس طرح ہومیو پیتھی نہ صرف آج کے دور کے تقاضوںکو پورا کرتی ہے بلکہ آنے والے ترقی یافتہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی پوری صلاحیت بھی رکھتی ہے
ہو میو پیتھی کی ادویات کی تیاری میں انتہائی معمولی مقدار الکحول کی استعمال کی جاتی ہے جو ادویات کی تیاری کے بعد فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے اور ادویات کی قلیل ترین مقدارایٹم کے مثل شوگر آف ملک کے ساتھ ملا کر مریض کو دی جاتی ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
الكحل پر مشتمل غذائى مواد اور ميك اپ كى اشياء كا حكم؟؟؟

ميں يونيورسٹى سٹوڈنٹ ہوں اور دوران تعليم كالج كى ڈسپنسرى ميں مجھ پر منكشف ہوا كہ اكثر غذائى مواد ميں بہت قليل سى مقدار ميں الكحل كا اضافہ كيا جاتا ہے، يہ اسے محفوظ ركھنے يا پھر اسے موٹا كرنے كے ليے يا دو مادوں كو ملانے كے ليے استعمال كى جاتى ہے، اور وہ درج ذيل ہيں:

GLYCEROL; SORBIT; XYLIT; MALTIT; VANILIN; TRIACETIN; AGAR AGAR; PEKTIN.

دوسرا سوال:

كريم اور خوشبوجات اور عمومى ميك اپ سامان ميں اس كے استعمال كا حكم كيا ہے ؟


الحمد للہ:

اول:

الكحل نشہ آور مواد ميں سے ہے، اور ہر نشہ آور چيز خمر ( شراب ) ہے، اور شراب حرام ہے، يہاں الكحل سے دو چيزيں متعلق ہيں:

اول:

كيا يہ نجس ہے يا نہيں ؟

دوم:

كيا كسى دوسرى چيز ادويات اور غذائى مواد ميں ملانے سے اس ميں اثرانداز ہوتى ہے ؟

پہلى چيز كے متعلق عرض يہ ہے كہ:

جمہور علماء كرام كے ہاں شراب حسى نجاست ہے، اور صحيح يہ ہے كہ يہ ايسے نہيں، بلكہ اس كى نجاست معنوى ہے.

اور دوسرى چيز كے متعلق عرض ہے كہ:

جب الكحل كسى دوسرى چيز دوائى يا غذائى مواد ميں مكس كى جائے تو اس كى دو شكليں ہيں: يا تو اس كى تاثير واضح ہو يا پھر تاثير واضح نہ ہو، اگر اس كى تاثير واضح ہو تو وہ مخلوط شدہ چيز حرام ہو گى، اور اس غذائى مواد اور دوائى كو كھانا اور پينا حرام ہو گا.

ليكن اگر ان غذائى مواد اور دوائيوں وغيرہ ميں اگر اس كى تاثير واضح نہ ہو تو اسے كھانا اور پينا جائز ہو گا، صرف الكحل استعمال كرنا يا كسى چيز ميں الكحل ملا كر استعمال كرنے ميں فرق ہے، صرف الكحل استعمال كرنى جائز نہيں بلكہ حرام ہے، چاہے اس كى مقدار كتنى بھى قليل ہى كيوں نہ ہو، ليكن اگر وہ كسى دوسرى چيز ميں ملائى جائے تو اس كى مندرجہ بالا سطور ميں تفصيل بيان ہو چكى ہے اگر اثر انداز ہو تو جائز نہيں.

اس مسئلہ كى تفصيل ميں ہم ذيل ميں شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كا فتوى نقل كرتے ہيں:

شيخ رحمہ اللہ كہا كہنا ہے:

" الكحل نشہ آور مادہ ہے، جيسا كہ معروف ہے، تو اس طرح يہ خمر شمار ہو گى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر نشہ آور چيز حرام ہے "

اور ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

" ہر نشہ آور چيز خمر ہے "

اس بنا پر اگر يہ الكحل كسى چيز ميں ملائى جائے اور جس ميں ملائى گئى ہے وہ چيز اس الكحل كو ختم نہ كرے تو وہ چيز بھى اس سے حرام ہو جائيگى؛ كيونكہ اس نے اس چيز ميں اثر كيا ہے، ليكن اگر وہ الكحل اس چيز ميں مل كر ختم ہو جائے اور اس كا كوئى اثر باقى نہ رہے تو پھر يہ اس سے حرام نہيں ہو گى؛ كيونكہ اہل علم رحمہ اللہ اس پر متفق ہيں كہ:

جب پانى ميں نجاست مل جائے اور وہ اسے تبديل نہ كرے تو وہ پانى طاہر ہے، اور جس چيز ميں الكحل ملائى جا رہى ہے بعض اوقات اس ميں الكحل كى مقدار اور تناسب زيادہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات قليل مقدار، دوسرے معنوں ميں اس طرح كہ بعض اوقات يہ الكحل بہت زيادہ قوى ہوتى ہے اور مخلوط شدہ چيز ميں اس تھوڑى سى الكحل كا اثر ہوگا، اور بعض اوقات الكحل ضعيف ہوتى ہے اور اس ميں كوئى اثر نہيں ہوتا، چنانچہ سارے كا سارا دار و مدار تاثير پر ہے.

پھر يہاں دو مسئلے ہيں:

پہلا مسئلہ:

كيا خمر اور شراب نجاست حسى ہے ؟

يعنى اس سے بچنا اور اگر كپڑے اور بدن كو لگنے كى صورت ميں اسے دھونا ضرورى ہے، اور اسى طرح اگر برتن ميں ہو تو كيا اسے دھونا ضرورى ہو گا يا نہيں ؟

جمہور علماء كرام كہتے ہيں كہ خمر يعنى شراب نجاست حسى ہے، اور اگر بدن يا كپڑے يا برتن، يا قالين وغيرہ كو لگ جائے تو اسے بالكل اسى طرح دھونا ضرورى ہے جس طرح پيشاب اور گندگى دھونى ضرورى ہے.

انہوں نے درج ذيل فرمان بارى تعالى سے استدلال كيا ہے:

{ اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ }المآئدۃ ( 90 ).

الرجس: نجس كو كہتے ہيں، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

{ آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے }الانعام ( 145 ).

تو يہاں رجس كا معنى ناپاك اور نجس ہے.

اور انہوں نے درج ذيل حديث سے بھى استدلال كيا ہے:

ابو ثعلبۃ الخشنى رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كفار كے برتنوں ميں كھانے كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ان برتنوں ميں مت كھاؤ، ليكن اگر تمہيں كوئى اور برتن نہ مليں تو پھر انہيں دھو كر ان ميں كھا لو "

اور ان برتنوں ميں نہ كھانے كى علت كے متعلق يہ وارد ہے كہ وہ ان برتنوں ميں شراب اور خنزير كا گوشت وغيرہ ركھتے تھے.

ليكن اس مسئلہ ميں دوسرا قول يہ ہے كہ:

يہ نجاست حسى نہيں، انہوں نے اس قول كى دليل يہ دى ہے كہ اشياء ميں اصل طہارت و پاكيزگى ہے، اور اور كسى چيز كے حرام ہونے سے اس كا نجس ہونا لازم نہيں آتا، بلاشك و شبہ زہر حرام ہے، ليكن اس كے باوجود وہ نجس نہيں.

اور ان كا كہنا ہے كہ: شرعى قاعدہ ہے كہ: " ہر نجس حرام ہے، ليكن ہر حرام نجس نہيں "

اس بنا پر خمر اور شراب حرام ہى رہے گى، ليكن نجس نہيں حتى كہ اس كى نجاست كى كوئى دليل نہ مل جائے.

اور انہوں نے اس سے بھى استدلال كيا ہے كہ:

جب شراب حرام كى گئى تو مسلمانوں نے اسے بازاروں اور گليوں ميں بہا ديا اور اس سے برتن دھوئے نہيں تھے، اور اسے بازاروں اور گليوں ميں بہانا اس كے نجس نہ ہونے كى دليل ہے؛ كيونكہ كسى بھى انسان كے ليے جائز نہيں كہ وہ مسلمانوں كى گليوں اور بازاروں ميں كوئى نجس چيز بہائے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" دو لعنت والى چيزوں سے بچ كر رہو.

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ لعنت والى دو چيزيں كونسى ہيں ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ جو لوگوں كى راہ ميں پيشاب و پاخانہ كرتا ہے، يا ان كے سايہ والى جگہ ميں "


اور اس ليے بھى كہ انہوں نے اس سے برتن نہيں دھوئے تھے، اور اگر شراب نجس ہوتى تو اس سے برتن دھونے واجب ہوتے، اور اس قول كى دليل درج ذيل مسلم شريف كى حديث سے بھى لى گئى ہے:

ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايك مشكيزہ شراب ہديہ دى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بتايا كہ يہ حرام ہو چكى ہے، تو چپكے سے ايك صحابى نے اس مشكيزے كے مالك كو كہا اسے فروخت كر دو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے دريافت كيا كہ تم نے اس سے چپكے سے كيا كہا ہے ؟ تو اس نے كہا: ميں نے اسے كہا ہے كہ اسے فروخت كر دو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فروخت كرنے سے منع كر ديا اور فرمايا: جب اللہ تعالى كسى چيز كو حرام كرتا ہے تو اس كى قيمت بھى حرام كر ديتا ہے "

يہ حديث يا حديث كا معنى ہے، پھر اس شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موجودگى ميں ہى مشكيزے كا منہ كھول كر شراب بہا دى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے مشكيزہ دھونے كا حكم نہيں ديا، اور اگر شراب نجس ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے اس كى نجاست كے متعلق بتا ديتے اور اس مشكيزے كو دھونے كا حكم ديتے.

اور حسى نجاست كے قائلين نے جو درج ذيل فرمان بارى تعالى سے استدلال كيا ہے:

{ اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ }المآئدۃ ( 90 ).اس كے متعلق كہا جائيگا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے يہاں رجس كو مقيد كر تے ہوئے كہا ہے كہ يہ عملى رجس ہے، يعنى شيطان كے عمل ميں سے ہے، نہ كہ بعينہ رجس ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ جوا اور تھان اور پانسے كے تيروں كى نجاست حسى نجاست نہيں، اور ان اشياء اور شراب كى خبر ايك ہى عامل كے ساتھ ہے كہ:

{ بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں}
المآئدۃ ( 90 ).

اور اس طرح كى دلالت كو بغير كسى معين دليل كے جدا اور اس ميں فرق نہيں كيا جا سكتا.

اور ابو ثعلبہ الخشنى رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث ميں برتن دھونے كا حكم نجاست كى وجہ سے نہيں، كيونكہ يہاں احتمال ہے كہ دھونے كا حكم اس ليے ديا گيا كہ مكمل طور پر كفار كے برتنوں سے دور رہا جائے، جنہيں وہ چھوتے ہيں يہ ان كى نجاست كى وجہ سے نہيں، كيونكہ معروف ہے كہ احتمال كے ساتھ نجاست ثابت نہيں ہوتى.

بہر حال: يہ پہلى چيز ہے جس سے الكحل كے متعلق اس سوال كے جواب ميں سرچ متعين ہو جاتى ہے، اور جب يہ واضح ہو جائے كہ شراب كى نجاست حسى نجاست نہيں، تو يہ الكحل بھى حسى نجاست نہيں ہو گى تو يہ اپنى طہارت پر باقى رہے گى.

دوسرى چيز يہ ہے كہ: جب يہ متعين ہو جائے كہ ان خوشبوجات ميں الكحل كى مقدار زيادہ ہونے كى وجہ سے مؤثر ہے تو كيا يہ پينے كے علاوہ كسى اور كام ميں استعمال كرنا جائز ہے ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ: كہا جائيگا: اللہ تعالى كا فرمان ہے: " اس سے اجتناب كرو " يہ ہر قسم كے استعمال ميں عام ہے، يعنى ہم اسے كھانے اور پينے اور لگانے وغيرہ ميں استعمال كرنے سے اجتناب كرينگے، بلا شك و شبہ اسى ميں احتياط ہے.

ليكن يہ پينے كے علاوہ ميں متعين نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اجتناب كے امر كو اس علت كے ساتھ بيان كيا ہے:

شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوئے كے ذريعہ تمہارے آپس ميں ميں عدوات اور بغض پيدا كر دے اور تمہيں اللہ تعالى كى ياد سے اور نماز روك دے تو اب بھى باز آ جاؤ}المآئدۃ ( 90 ).

اور يہ شراب نوشى كرنے كے علاوہ ميں نہيں ہو سكتا، اس بنا پر تقوى و ورع يہى ہے كہ ان خوشبوجات سے اجتناب كيا جائے، ليكن اسے يقينى حرام كہنا ممكن نہيں ... " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب " النساء " ويب سائٹ كے ذريعہ.

سوم:

رہا مسئلہ ميك اپ والى اشياء كے متعلق تو اس كے حكم كے بارہ ميں معلومات حاصل كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 41052 ) اور ( 20226 ) اور ( 26799 ) اور ( 26861 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب


http://islamqa.info/ur/59899
 
Top