• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہینڈ پریکٹس یا مشت زنی

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس تحریر میں اس موضوع پر موجود آیت اور حدیث کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس آیت سے بہت سے علماء نے استمناء بالید کی حرمت پر استدلال کیا ہے اور وجہ استدلال وراء ذلک کا عموم ہے یعنی جس نے مذکورہ دو موقعوں کے علاوہ کوئی موقع "تلاش" کیا۔
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہاں استمناء پر دلالت موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پہلے فروج کی حفاظت کرنے کا ذکر ہے۔ پھر اس سے دو استثناءات کیے گئے ہیں: باندی اور بیوی
اس حفاظت سے کیا مراد ہے؟ دو چیزیں ممکن ہیں۔ اول: جماع سے حفاظت (یعنی ان کے سوا کسی سے جماع نہیں کرتے)، دوم: تمام دواعی جماع بشمول ستر کھولنے سے حفاظت (یعنی ان کے علاوہ کسی کے سامنے ستر نہیں کھولتے نہ دواعی جماع کرتے ہیں۔
اور چاہے پہلی صورت مراد لیں یا دوسری استمناء بالید اس میں شامل نہیں ہوتا۔ نہ تو یہ جماع ہے اور نہ دواعی جماع (یہ تو ظاہر ہے)۔ اور رہی بات ستر کھولنے کی تو اس پر سب متفق ہیں کہ انسان کا اپنے ستر سے پردہ نہیں ہے نہ اپنے اعضاء مخصوصہ کو چھونے سے ممانعت ہے۔
وراء کا مطلب ہم "علاوہ" یا "غیر" کر سکتے ہیں اور علاوہ یا غیر اسی چیز کا ہوگا جس کا پیچھے ذکر ہے۔ یہاں پیچھے ذکر ہے باندی یا بیوی سے جماع کرنے کا یا ان کے سامنے ستر کھولنے کا۔ تو آگے اس کا غیر ان کے علاوہ سے جماع کرنا یا ان کے علاوہ سامنے ستر کھولنا ہونا چاہیے۔
گویا کہ آیت زنا سے روکنے کے لیے ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ مومنین زنا سے بچتے ہیں، صرف باندی اور بیوی سے جماع کرتے ہیں اور جو ان کے علاوہ کسی سے کرتے ہیں تو وہ لوگ سرکش ہیں۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ زنا ہی اتنا بڑا گناہ ہے جس کے کرنے پر ایمان میں کمی (علی اختلاف التفاسیر) آتی ہے (جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے لا یزنی الزانی وہو مومن)۔ استمناء بالید کو تو زنا کے درجے کا گناہ نہیں سمجھا جاتا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

جہاں تک فعل مشت زنی (استمناء بالید) کا تعلق ہے تو اس کے جائز و ناجائز ہونے کے بارے میں دو پہلو ہیں-

ایک یہ کہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی صریح ممانعت موجود ہے یا نہیں -
دوسرے یہ کہ اگر قرآن و حدیث یا کسی تاویل یا نص سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ فعل ایک قبیح فعل ہے یا ناجائز ہے- تو آیا یہ فعل حرام افعال میں آتا یا اس کا شمار مکروہات میں ہوتا ہے -

جہاں تک قرآن کی سوره المومنون کی آیات ٥-٧ کا تعلق ہے تو اس تو بظاھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرد کی شرم گاہ صرف اپنی بیوی یا اس کی لونڈی کے لئے جائز ہے- اور فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "استمنا بالید" بھی اس عموم میں شامل ہے جس میں باقی ناجائز جنسی افعال شامل ہیں- لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس فعل کی ممانعت کے وہی حیثیت ہے جو زنا یا لواطت جیسے گناہوں کے لئے ہے ؟؟ تو اس کا جواب حدیث نبوی کے مفہوم کے مطابق یہ ہے کہ : نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ حرام بھی واضح ہے اور حلال بھی واضح ہے اور کچھ امور ایسے ہیں جن کا حرام و حلال ہونا واضح نہیں ہے (یعنی جن میں شکوک ہیں)- ایک مسلمان کے ایمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان مشکوک افعال سے اجتناب کرے - جو ان سے بچ گیا وہ حرام افعال کے ارتکاب سے بھی بچ گیا - (متفق علیہ)

مجتہدین کے نزدیک کسی فعل کے حرام و حلال قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن یا احادیث نبوی کی نص صریح سے ثابت ہو- باقی ایسے افعال یا گناہ جو کہ نبی کریم صل الله علیہ کے دور میں سر انجام نہیں دیے گئے اور جن کی قرآن و احادیث میں کوئی واضح ممانعت نہیں ملتی اس کے بارے میں یہ دیکھا جائے گا کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود ہے یا نہیں - شریعت کا ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ جس چیز کا نقصان اس کے فائدہ سے زیادہ ہوگا وہ بہرحال ناجائز ہوگی- جتنا نقصان کا تناسب فائدہ سے زیادہ گا وہ اتنا ہی حرام یا حرام سے نزدیک ہوگا -اور جتنا نقصان کا تناسب فائدہ کے مقابلے میں کم ہوگا اتنا وہ فعل مکروہات میں شمار کیا جائے گا- مثال کے طور پرنشہ آور چیزیں جیسے ہیروئن ، افیون ، چرس وغیرہ جیسے افعال نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے دور میں نہیں تھے- صرف شراب اور خنزیر کی ممانعت قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہے- لیکن ڈاکٹرز کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا نشہ آور چیزیں اسی طرح انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں جس طرز پر شراب اور خنزیر وغیرہ ہیں تو یہ بھی اسی بنا حرام قرار پائیں گی جیسے شراب یا خزیر- جب کہ کچھ چیزیں جیسا کہ پان گٹکا ، سگریٹ ، وغیرہ اگرچہ انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ضرور ہیں لیکن نہ تو یہ فوری طور پرعقل پر اثر انداز ہوتی ہیں اور نہ ہی ان سے کوئی ایسا ہیجان یا بےغیرتی پیدا ہوتی ہے جو معاشرے کے لئے ناسور بن جائے جیسا کہ شراب یا خنزیر سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے- اس لئے شریعت کے اصول کے تحت یہ چیزیں مکروہات میں تو شمار ہونگی لیکن مطعلقاً حرام نہیں ہونگی -

اگر شریعت کے اس اصول کو سامنے رکھا جائے جو اوپر بیان کیا گیا ہے تو اس بظاھر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مشت زنی (استمناء بالید) ایک ایسا فعل ضرور ہے کہ اس کو مکروہات میں شمار کیا جائے لیکن اس کو مطعلقاً حرام میں شمار نہیں کیا جا سکتا - وجہ اس کی یہ ہے کہ ڈاکٹروں کے مطابق اس کے بد اثرات تو انسانی صحت ضرور پڑتے ہیں لیکن زنا اور لواطت کے بد اثرات جو معاشرے میں ایک بڑے بگاڑ کا سبب ہیں ان کی نسبت مشت زنی کے بد اثرات بہت کم ہیں- (واللہ اعلم)-

نوٹ: یہ میری اپنی راے ہے اور تحقیق ہے- ضروری نہیں کہ کوئی بھائی اس سے لازماً متفق ہو-

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس تحریر میں اس موضوع پر موجود آیت اور حدیث کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس آیت سے بہت سے علماء نے استمناء بالید کی حرمت پر استدلال کیا ہے اور وجہ استدلال وراء ذلک کا عموم ہے یعنی جس نے مذکورہ دو موقعوں کے علاوہ کوئی موقع "تلاش" کیا۔
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہاں استمناء پر دلالت موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پہلے فروج کی حفاظت کرنے کا ذکر ہے۔ پھر اس سے دو استثناءات کیے گئے ہیں: باندی اور بیوی
اس حفاظت سے کیا مراد ہے؟ دو چیزیں ممکن ہیں۔ اول: جماع سے حفاظت (یعنی ان کے سوا کسی سے جماع نہیں کرتے)، دوم: تمام دواعی جماع بشمول ستر کھولنے سے حفاظت (یعنی ان کے علاوہ کسی کے سامنے ستر نہیں کھولتے نہ دواعی جماع کرتے ہیں۔
اور چاہے پہلی صورت مراد لیں یا دوسری استمناء بالید اس میں شامل نہیں ہوتا۔ نہ تو یہ جماع ہے اور نہ دواعی جماع (یہ تو ظاہر ہے)۔ اور رہی بات ستر کھولنے کی تو اس پر سب متفق ہیں کہ انسان کا اپنے ستر سے پردہ نہیں ہے نہ اپنے اعضاء مخصوصہ کو چھونے سے ممانعت ہے۔
وراء کا مطلب ہم "علاوہ" یا "غیر" کر سکتے ہیں اور علاوہ یا غیر اسی چیز کا ہوگا جس کا پیچھے ذکر ہے۔ یہاں پیچھے ذکر ہے باندی یا بیوی سے جماع کرنے کا یا ان کے سامنے ستر کھولنے کا۔ تو آگے اس کا غیر ان کے علاوہ سے جماع کرنا یا ان کے علاوہ سامنے ستر کھولنا ہونا چاہیے۔
گویا کہ آیت زنا سے روکنے کے لیے ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ مومنین زنا سے بچتے ہیں، صرف باندی اور بیوی سے جماع کرتے ہیں اور جو ان کے علاوہ کسی سے کرتے ہیں تو وہ لوگ سرکش ہیں۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ زنا ہی اتنا بڑا گناہ ہے جس کے کرنے پر ایمان میں کمی (علی اختلاف التفاسیر) آتی ہے (جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے لا یزنی الزانی وہو مومن)۔ استمناء بالید کو تو زنا کے درجے کا گناہ نہیں سمجھا جاتا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
آگے ہم اس حدیث مبارکہ کو دیکھتے ہیں جس میں روزہ کا حکم دیا گیا ہے تو احناف کے نزدیک تو ویسے بھی مفہوم مخالف معتبر نہیں ہے اور یہاں مفہوم مخالف مراد لیا گیا ہے۔
جو حضرات مفہوم مخالف کے معتبر ہونے کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھے اور صرف ڈائٹنگ یا صرف دوپہر میں کھانا شروع کر دے جس سے جسمانی قوت میں کمی کی وجہ سے وہ زنا سے بچ جائے تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نوافل میں یا تسبیح میں اتنا مگن رہے کہ اسے شہوت کا خیال ہی نہ آئے تو یہ بھی جائز ہے۔ تو پھر بھلا روزہ کے فرمان سے صرف استمناء بالید سے روکنا مراد کیونکر ہو سکتا ہے جب یہ چیزیں جائز ہیں۔
بات یہ ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں شہوت کو قطع کرنے والے ایک کام کا ذکر ہے جو نہ صرف قاطع شہوت ہے بلکہ عبادت بھی ہے۔ نیز اس سے دن بھر میں حفاظت بھی رہتی ہے کیوں کہ روزہ دار شخص زنا کرتے وقت جہاں اس کے گناہ کا احساس کرتا ہے وہیں اسے روزہ کے ٹوٹنے کا بھی احساس ہوتا ہے۔ اور یہ سب چیزیں مل کر اسے اس فعل قبیح سے بچاتی ہیں۔ اس حدیث میں اس کے علاوہ کسی اور فعل کی ممانعت نہیں ہے۔ یہ مشاہدہ ہے کہ بہت سے ایسے نوجوان ہیں جنہیں شہوت کافی ہوتی ہے لیکن اگر وہ روزے رکھنا شروع کر دیں تو جسمانی قوت کی کمی کی وجہ سے فرائض کی ادائیگی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن کی شہوت روزوں سے ختم ہی نہیں ہوتی۔ حضرت عمر رض کا رات کا قصہ اور وہ صحابی جن پر کفارہ آیا تھا وہ رمضان کے روزوں کے دوران کے ہی واقعات ہیں۔
تو کیا ہم اس کی وجہ سے یہ کہیں گے کہ یہ حدیث مبارکہ صحیح نہیں ہے؟ یہ ممکن نہیں۔ لہذا ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ طریقہ جو نبی کریم ﷺ نے تجویز فرمایا تھا یہ خاص طبیعت کے نوجوانوں کے لیے تھا اور حدیث مبارکہ میں وہی نوجوان مخاطب تھے۔ اور اس حدیث میں کسی دوسرے طریقے کی قطعا نفی موجود نہیں ہے۔

رہ گئیں وہ احادیث جن میں اس فعل کے کرنے والے پر لعنت مذکور ہے تو ہم جانتے ہیں کہ وہ سب ضعیف ہیں۔ ان شاء اللہ انہیں بھی پیش کر کے ان کے بارے میں بحث کرتا ہوں۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

arifkarim

مبتدی
شمولیت
مئی 11، 2015
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
17
اس سے اجتناب ہی کرنا چاہئے کہ مغرب میں یہ عام ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اس سلسلے میں سب سے زیادہ پیش کی جانے والی اور صریح ترین روایات میں سے یہ روایت ہے:
حدثني علي بن ثابت الجزري، عن مسلمة بن جعفر، عن حسان بن حميد، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العالمين، يدخلون النار أول الداخلين، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا ممن تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل , والمفعول به، ومدمن الخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره "
جزء ابن العرفہ 1۔64 ط دار الاقصی

اس حدیث کا مفہوم ہے کہ سات شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ پاک روز محشر نہ نظر کرم سے دیکھیں گے، نہ پاک کریں گے اور نہ لوگوں کے ساتھ جمع کریں گے اور وہ جہنم میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔ ان میں سے ایک ناکح ید ہے۔
اس روایت میں انس بن مالک رض سے روایت کرنے والے حسان بن حمید اور ان کے شاگرد مسلمہ بن جعفر دونوں مجہول ہیں۔ لسان المیزان میں مذکور ہے:

عن حسان بن حميد، عَن أَنس رضي الله عنه في سب الناكح يده.
يجهل هو وشيخه.
8۔57 ط دار البشائر

لیکن البانیؒ نے سلسلہ ضعیفہ میں ابن ابی حاتمؒ کے حوالے سے مسلمہ بن جعفر کے بارے میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جس مجہول راوی سے چھ راوی روایت کریں اور ان میں سے اکثر ثقہ ہوں تو اس کے حق میں اولی یہ ہے کہ اسے "صدوق" کہا جائے۔ اور اس پر تائید ابن حبانؒ كے ان کو ثقات میں ذکر کرنے سے پیش کی ہے اور حافظؒ کا حوالہ دیا ہے جس کی عبارت یہ ہے:
وفي "الثقات" لابن حِبَّان: مسلمة بن جعفر البجلي الأحمسي من أهل الكوفة يروي عن عمرو بن قيس والركين بن الربيع , روى عنه عمرو بن محمد العنقزي وأبو غسان النهدي. فيحتمل أن يكون هو ثم ظهر أنه هو فقد ذكره بذلك كله البخاري ولم يذكر فيه جرحا.
لسان المیزان۔ ایضا

حافظؒ کے مطابق بخاریؒ نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان پر جرح نقل نہیں کی ہے۔
لیکن یہ تمام باتیں درست معلوم نہیں ہوتیں۔ اول تو یہ کہ مجہول الحال ہیں مجہول العین نہیں کیوں کہ ان سے ایک سے زائد راوی روایت کرتے ہیں۔ بخاریؒ کا ان کے بارے میں جرح ذکر نہ کرنا انہیں جہالت حال سے نہیں نکالتا۔ بلکہ اگر وہ جرح کرتے تو یہ اس سے نکلتے۔ ثانی ابن حبان کا یہ اصول ہے کہ اگر کسی مجہول راوی سے دو ثقہ راوی روایت کر لیں تو وہ اسے ثقات میں ذکر کرتے ہیں لیکن ان کا یہ اصول مرجوح ہے۔ ثالث جو بات ابن ابی حاتمؒ نے فرمائی ہے اس کو اس وقت تو کسی حد تک ممکن سمجھا جا سکتا ہے جب چھ ثقہ راوی ایک ہی روایت کریں۔ تب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ثقات کو اپنے استاد پر یقین تھا اس لیے انہوں نے یہ روایت کی ہے۔ لیکن اگر الگ الگ روایات کریں تو پھر تو یہ متصور ہی نہیں ہے۔ بے شمار ثقہ روات ضعفاء سے روایت کرتے ہیں اور ان کا روایت کرنا ان کی تائید نہیں ہوتی تو بھلا مجہول الحال راوی کی تائید کیونکر ہو سکتی ہے؟؟؟

اسی مضمون کی ایک روایت عبد اللہ بن عمرو رض (امالی ابن بشران) یا عبد اللہ بن عمر رض (ذم اللواط للآجری) سے بھی روایت کی گئی ہے:
وأخبرنا محمد بن الحسين قال: حدثنا الفريابي , قال: حدثنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا عبد الله بن لهيعة , عن عبد الرحمن بن زياد بن أنعم , عن أبي عبد الرحمن الحبلي , عن عبد الله بن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سبعة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة , ولا يزكيهم , ويقول ادخلوا النار مع الداخلين: الفاعل والمفعول به , والناكح يده , وناكح البهيمة , وناكح المرأة في دبرها , وجامع بين المرأة وابنتها , والزاني بحليلة جاره , والمؤذي لجاره حتى يلعنه "
ذم اللواط 1۔72 ط مکتبۃ القرآن

اس روایت کو جناب ابو عزام بن یوسف نے خضر بھائی کے فراہم کردہ ربط مذکورہ روایت کا شاہد قرار دیا ہے۔ لیکن بندہ کا یہ خیال ہے کہ روایت مناکیر میں سے ہے۔
اس کے راوی ہیں عبد اللہ بن لہیعہ جو روایت کرتے ہیں عبد الرحمان بن زیاد بن انعم افریقی سے۔ قطع نظر افریقی کے ضعف کی بحث کے عبد اللہ بن لہیعہ آخری عمر میں مختلط ہو گئے تھے اور ان کی اس زمانے میں کثیر مناکیر ہیں۔ ان کا اختلاط کافی مشہور ہے اور اس کا ذکر حافظ، امام احمد، سبط ابن العجمی اور کئی دیگر نے کیا ہے۔ اس لیے جو اختلاط سے قبل کے رواۃ ہیں ان کی ان سے روایات قبول کی جاتی ہیں اور بعد والوں کی نہیں کی جاتیں۔
ان ابن لہیعہ سے روایت کرتے ہیں قتیبہ بن سعید۔ اور علامہ مزیؒ تہذیب الکمال میں امام احمد سے روایت کرتے ہیں کہ یہ (قتیبہ) ابن لہیعہ سے آخری سماعت کرنے والوں میں سے ہیں۔
اس لیے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل روایت تو پچھلی سند سے تھی اور انہوں نے اختلاط کے باعث اس کی سند کو تبدیل کر دیا۔
اس کے علاوہ ابن لہیعہ اور افریقی دونوں ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی ہیں اور یہ روایت "عن" سے منقول ہے جو مدلس سے قبول نہیں۔ لہذا ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ روایت اپنے دونوں طریق کے باوجود قابل احتجاج نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس تحریر میں اس موضوع پر موجود آیت اور حدیث کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس آیت سے بہت سے علماء نے استمناء بالید کی حرمت پر استدلال کیا ہے اور وجہ استدلال وراء ذلک کا عموم ہے یعنی جس نے مذکورہ دو موقعوں کے علاوہ کوئی موقع "تلاش" کیا۔
لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہاں استمناء پر دلالت موجود نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پہلے فروج کی حفاظت کرنے کا ذکر ہے۔ پھر اس سے دو استثناءات کیے گئے ہیں: باندی اور بیوی
اس حفاظت سے کیا مراد ہے؟ دو چیزیں ممکن ہیں۔ اول: جماع سے حفاظت (یعنی ان کے سوا کسی سے جماع نہیں کرتے)، دوم: تمام دواعی جماع بشمول ستر کھولنے سے حفاظت (یعنی ان کے علاوہ کسی کے سامنے ستر نہیں کھولتے نہ دواعی جماع کرتے ہیں۔
اور چاہے پہلی صورت مراد لیں یا دوسری استمناء بالید اس میں شامل نہیں ہوتا۔ نہ تو یہ جماع ہے اور نہ دواعی جماع (یہ تو ظاہر ہے)۔ اور رہی بات ستر کھولنے کی تو اس پر سب متفق ہیں کہ انسان کا اپنے ستر سے پردہ نہیں ہے نہ اپنے اعضاء مخصوصہ کو چھونے سے ممانعت ہے۔
وراء کا مطلب ہم "علاوہ" یا "غیر" کر سکتے ہیں اور علاوہ یا غیر اسی چیز کا ہوگا جس کا پیچھے ذکر ہے۔ یہاں پیچھے ذکر ہے باندی یا بیوی سے جماع کرنے کا یا ان کے سامنے ستر کھولنے کا۔ تو آگے اس کا غیر ان کے علاوہ سے جماع کرنا یا ان کے علاوہ سامنے ستر کھولنا ہونا چاہیے۔
قرآنی آیات میں شرمگاہوں کی حفاظت کا ذکر ہے ، پھر اس سے دو استثناء ہیں ، گو جو ان دو کے علاوہ کسی بھی طریقے سے شرمگاہ کی حفاظت میں کوتاہی کرتا ہے ، وہ حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہے ۔ یعنی جو جائز تھا وہ ذکر کردیا ، اس کے علاوہ سب طریقے ناجائز ہیں ، عدم جواز کے اس عموم کو کسی طرح خاص کرنا بلا دلیل ہے ۔
آگے ہم اس حدیث مبارکہ کو دیکھتے ہیں جس میں روزہ کا حکم دیا گیا ہے تو احناف کے نزدیک تو ویسے بھی مفہوم مخالف معتبر نہیں ہے اور یہاں مفہوم مخالف مراد لیا گیا ہے۔
جو حضرات مفہوم مخالف کے معتبر ہونے کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھے اور صرف ڈائٹنگ یا صرف دوپہر میں کھانا شروع کر دے جس سے جسمانی قوت میں کمی کی وجہ سے وہ زنا سے بچ جائے تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نوافل میں یا تسبیح میں اتنا مگن رہے کہ اسے شہوت کا خیال ہی نہ آئے تو یہ بھی جائز ہے۔ تو پھر بھلا روزہ کے فرمان سے صرف استمناء بالید سے روکنا مراد کیونکر ہو سکتا ہے جب یہ چیزیں جائز ہیں۔
مجھے آپ کے یہاں وجہ استدلال یا رد کی سمجھ نہیں آئی ، بہر صورت ہم روزوں والی حدیث سے استمناء بالید کی حرمت ثابت نہیں کرنا چاہتے ہیں ، بلکہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ شادی کی طاقت نہ رکھنے والے کو صرف روزوں کی ترغیب دلانا ، اس بات کا قرینہ ہے کہ مرد و عورت کے جائز تعلقات کے علاوہ شہوت پوری کرنے کا کوئی جائز اور حلال ذریعہ اسلام میں نہیں تھا ، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شادی کی طاقت نہیں رکھتے تھے ، انہیں ایک شہوت پوری کرنے کا ایک اور طریقہ جائز بتلانے کی بجائے ، شہوت کو توڑنے کا طریقہ بتلایا ہے ۔
گویا اگر کوئی اور طریقہ جائز ہوتا ہے ، تو آپ شہوت پوری کرنے کا وہ طریقہ بتلاتے نہ کہ اس کو کنٹرول کرنے کا ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے بات جہاں سے چھوڑی ، وہیں سے مکمل کر لیں ، میری گزارشات پر تبصرہ بعد میں کرلیں ۔
 
شمولیت
مئی 20، 2012
پیغامات
128
ری ایکشن اسکور
257
پوائنٹ
90
جتنی تحقیق کر سکا ہو یہ حرام ہے مگر مجبورا جائز ہے مثلا زنا ، فحث چیٹ ، یا فحش ویڈیوز وغیرہ میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لئے کوئی کرسکتا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
قرآنی آیات میں شرمگاہوں کی حفاظت کا ذکر ہے ، پھر اس سے دو استثناء ہیں ، گو جو ان دو کے علاوہ کسی بھی طریقے سے شرمگاہ کی حفاظت میں کوتاہی کرتا ہے ، وہ حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہے ۔ یعنی جو جائز تھا وہ ذکر کردیا ، اس کے علاوہ سب طریقے ناجائز ہیں ، عدم جواز کے اس عموم کو کسی طرح خاص کرنا بلا دلیل ہے ۔
کافی عرصہ کے بعد اس تھریڈ کا لنک دوبارہ ملا ہے۔
میں نے اس تھریڈ میں لکھنا اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ میں نے کافی تحقیق کی تو مجھے اسلاف میں سے ایسا کوئی معتمد نام نہیں ملا جس نے یہ موقف اختیار کیا ہو۔ اور میں ایسی صورت میں اپنے فہم کو ناقص سمجھتا ہوں۔ ٹھیک ہے کہ مجھ پر لازم میری تحقیق ہے لیکن بصورت خطا میں دوسروں کے لیے غلط راہ کا سبب نہیں بننا چاہتا۔

البتہ اس اشکال پر میں اپنی صرف اس بات کی وضاحت کر دوں۔
خضر بھائی شرمگاہ کی حفاظت سے کیا مراد ہے؟ میں نے اسی پر بات کی ہے۔ استثناء مستثنی منہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے یہ عرض کیا ہے:
اس حفاظت سے کیا مراد ہے؟ دو چیزیں ممکن ہیں۔ اول: جماع سے حفاظت (یعنی ان کے سوا کسی سے جماع نہیں کرتے)، دوم: تمام دواعی جماع بشمول ستر کھولنے سے حفاظت (یعنی ان کے علاوہ کسی کے سامنے ستر نہیں کھولتے نہ دواعی جماع کرتے ہیں۔
اور چاہے پہلی صورت مراد لیں یا دوسری استمناء بالید اس میں شامل نہیں ہوتا۔ نہ تو یہ جماع ہے اور نہ دواعی جماع (یہ تو ظاہر ہے)۔ اور رہی بات ستر کھولنے کی تو اس پر سب متفق ہیں کہ انسان کا اپنے ستر سے پردہ نہیں ہے نہ اپنے اعضاء مخصوصہ کو چھونے سے ممانعت ہے۔
وراء کا مطلب ہم "علاوہ" یا "غیر" کر سکتے ہیں اور علاوہ یا غیر اسی چیز کا ہوگا جس کا پیچھے ذکر ہے۔ یہاں پیچھے ذکر ہے باندی یا بیوی سے جماع کرنے کا یا ان کے سامنے ستر کھولنے کا۔ تو آگے اس کا غیر ان کے علاوہ سے جماع کرنا یا ان کے علاوہ سامنے ستر کھولنا ہونا چاہیے۔
گویا کہ آیت زنا سے روکنے کے لیے ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ مومنین زنا سے بچتے ہیں، صرف باندی اور بیوی سے جماع کرتے ہیں اور جو ان کے علاوہ کسی سے کرتے ہیں تو وہ لوگ سرکش ہیں۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ زنا ہی اتنا بڑا گناہ ہے جس کے کرنے پر ایمان میں کمی (علی اختلاف التفاسیر) آتی ہے (جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے لا یزنی الزانی وہو مومن)۔ استمناء بالید کو تو زنا کے درجے کا گناہ نہیں سمجھا جاتا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
عمدہ تھریڈ ہے. الحمد للہ علم میں اضافہ ہوا.
جزاک اللہ خیرا محترم @اشماریہ بھائ.
 

فضل ملی

مبتدی
شمولیت
دسمبر 24، 2017
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
11
کیا ایسی کوئ حدیث ہے مشت زنی کرنےوالا ہاتہ قیا مت کے دن حاملہ ہو گا
 
Top