• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزیدؒ بن معاویہ ؓ سے متعلق اہلحدیث کا متفّقہ مؤقف؟

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
خلافت ِ یزید ؒ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق و اجماع تھا سوائے حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے، اور یہ ایک نا قابلِ انکار حقیقت ہے لیکن فسقِ یزید ؒ پر محض مبصرین کے دعوے کے ،کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔

یزید بن معاویہ پر اعتراضات کا تحقیق جائزہ

کا مطالعہ بھی کیجیے گا ۔ اس میں جو تنقید حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر کی گئی ہے کیا آپ اس سے متفق ہیں ۔ اور اس کو حق بجانب سمجھتے ہیں ۔(آپ کے انداز تحریر سے مجھے اس بات کا ہی گمان ہوتا ہے کہ آپ اس نظریے سے متفق ہیں لیکن بہر حال یہ میرا اندازہ ہے جو بالکل غلط بھی ہوسکتا ہے )
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم
سیدھا سیدھا کہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام غلط تھا اور انہوں نے یزید کی بیعت نہ کر کے بغاوت کی تھی۔اور یزید کا اقدام صحیح تھا۔ جو عقیدہ ہے وہ کھل کر بیان کریں آپ تو شیعہ نہیں پھر تقیہ کیوں کر رہے ہیں۔
مکرمی و محترمی !
محض مبہم تاریخی روایات کی بنیاد پر میں عقیدہ بنانے کا قائل نہیں ہوں۔
اور جہاں آپ بار بار بات کرتے ہیں کہ یزید پر تمام مسلمانوں کا اتفاق و اجماع تھا تو یہ تو کوئی بھی حکمران بن جائے کیسا بھی ہو عوام کی انتہائی قلیل تعداد اس پر اعتراض کرتی ہے اکثریت خاموش ہی رہتی ہے ۔ اپنے ملک پاکستان کی مثال لے لیں یہاں کیسے بھی حکمران آجائیں لوگ قبول کرلیں گے۔جس کے پاس طاقت ہوتی ہے سکہ اسی کا چلتا ہے یہ ہر دور کا دستور رہا ہے۔
ذرا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور و فکر کریں کہ امیر المؤمنین یزید ؒ کی بیعت موجودہ دور کے ”جمہوریت زدہ“ اور بریانی کی فقط ایک پلیٹ کے لیے ووٹ ڈالنے والی عوام نے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے منتخب کردہ اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت و تعلیم سے سر فراز ہونے والی مقدس جماعتِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے کی تھی ۔
محترم اس بات کی بھی وضاحت کر دیجیے گا کہ جن دونوں اصحاب رسول کا آپ نے ذکر کیا ہے ۔ کیا ان کے کسی اقدام پر اعتراض کرنا صحیح ہوگا۔ کیا یہ مشاجرات صحابہ رضی اللہ کے تحت نہیں آتا۔ ؟
میں نے شائد یہ بات پہلے بھی کہی تھی کہ خاص اس معاملے( حادثہ ٔ کربلاء) میں راویوں کی معلومات ” امکانی“ ہیں قرآن و سنت کی طرح ” یقینی“ نہیں ۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو حضرات علی و حسن و حسین رضی اللہ تعالٰی عنہم کے متعلق بھی ایسا مواد ملے گا جو ان کی بلند سیرت و کردار سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتا ۔
صحابہ کرام ؓ عظمت و رفعت کے بلند ترین درجے پر فائز ہونے کے باوجود معصوم عن الخطا ء نہیں ہیں ۔
آپ خودسوچیں کہ اس حادثے کے بعد بھی معاملات متواتر چلتے رہے ،مسلمانوں میں کوئی انتشار پیدا نہیں ہوا اور نہ صحابہ کرام ؓ نے امیر یزیدؒ کے خلاف کوئی تحریک چلائی کیونکہ وہ حضرات جانتے تھے کہ خلافتِ یزید ؒ کے متعلق حضرت حسین ؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا مؤقف صحیح نہیں ہے۔
ویسے میرا ماننا ہے کہ ہماری پُر خلوص نیکیاں بھی صحابہ کرامؓ کی ” اجتہادی غلطیوں“ کے سامنے ہیچ ہیں ۔ ہماری نیکیوں میں شرکِ خفی یا دنیاوی لالچ کا عنصر موجود ہو سکتا ہے لیکن ان حضرات کے کسی اقدام ( خواہ وہ اجتہادی غلطیاں ہی کیوں نہ ہوں )کے متعلق ایسا ہونا بھی ناممکن ہے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
مکرمی و محترمی !
محض مبہم تاریخی روایات کی بنیاد پر میں عقیدہ بنانے کا قائل نہیں ہوں۔
محترم
آپ دونوں حضرات کا اقدام غلط کہہ کر اپنا عقیدہ ہی تو بیان کر رہے ہیں ۔ اب اس عقیدے کی بنیاد مبہم ہیں یا واضح روایات ہیں اس کا آپ کو بخوبی ادراک ہوگا۔
میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا آپس کا اختلاف سامنے آئے تو خاموش رہوں لیکن اگر کسی غیر صحابی کا کسی صحابی سے دین کے معاملے اختلاف آئے تو غیر صحابی کو حق پر نہ سمجھوں ۔
ایک بات کی اور وضاحت کر دیجیے گا کیا آپ کا اس بات پر بھی یقین ہے کہ واقعہ کربلا رونما ہوا تھا یا یہ محض ایک راویوں کا بنایا ہوا فسانہ ہے جسے شیعہ گروہوں نے تاریخ اور اسلام بنادیا ہے ۔ وہ راوی جنہوں نے ایسی تو ساری روایات یاد رکھیں اور ان تک پہنچیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرات حسنین سے بے پناہ محبت کا ذکر ہے ۔ اور ان کے درجات کے متعلق بھی احادیث پہنچ گئیں ۔ لیکن جب ان کے اسی پیارے نواسے کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا تو کسی کو اس کا ذکر صحیح طرح یاد کر نا بھی یاد نہ رہا ۔جب کہ اس سے پہلے کے واقعات جزئیات کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔ یعنی آپ کے موقف کے مطابق اہل اسلام کے نزدیک یہ ایک انتہائی عام واقعہ تھا جس کو اس کی جزئیات کے ساتھ یاد رکھنا بھی ضروری نہیں تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محنت کا اجر صرف یہ مانگا تھا کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو ۔ کیا وہ محبت اس طرح سے نبھائی گئی ؟
یا آپ حبیب الرحمان کاندھلوی صاحب مرحوم کی تحقیق کو صحیح سمجھتے ہیں جن کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ تو صحابیت کے درجے پر بھی نہیں پہنچے تھے۔
آپ یقیناً علم میں مجھ سے کہیں آگے ہیں ۔ لیکن میرے بھائی یہ چیز بھی ذہن میں رکھیں کہ جب ذہن میں کسی چیز کا پرسیپشن بن جاتا ہے تو ذہن اس کے خلاف کوئی بھی دلیل قبول نہیں کرتا اس کو اپنے بنائے ہوئے امیج کے علاوہ باقی تمام امیجز غلط نظر آتے ہیں ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
ذرا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور و فکر کریں کہ امیر المؤمنین یزید ؒ کی بیعت موجودہ دور کے ”جمہوریت زدہ“ اور بریانی کی فقط ایک پلیٹ کے لیے ووٹ ڈالنے والی عوام نے نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے منتخب کردہ اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت و تعلیم سے سر فراز ہونے والی مقدس جماعتِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے کی تھی ۔
محترم میں نے یہاں ایک عام پیرائے میں بات کی تھی تقابل نہیں کیا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ جب کوئی حکمران بن جاتا ہے تو وہ ایک طاقت ور شخص ہوجاتا ہے اور اس کے خلاف بغاوت شاذ و ناذ ہی ہوتی ہے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تو آخری وقت تک لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔ آپ کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین یزید کی خلافت کو حق بجانب سمجھتے تھے ۔ کیا صحابہ کرام مروان بن حکم کو بھی عبداللہ بن زبیر جو بدری صحابی کے صاحبزادے تھے کے مقابلے میں خلافت کا اہل سمجھتے تھے ۔ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اقدام کو غلط سمجھتے تھے۔ ؟
موجود دنیا کی چند مثالوں پیش خدمت ہیں ۔ خلافت عثمانیہ مصطفی کمال نے ختم کی کیا کوئی اس کے مقابل ترکی میں کھڑا ہوا۔
ہٹلر نے اپنی طاقت کے زور پر دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا کیا اس کے عوام اس کے خلاف احتجاج کیا کرتے تھے ۔ سعودی عر ب میں بادشاہی نظام عرصے سے چل رہا ہے کیا کسی میں اتنی ہمت ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکے ۔
 
Last edited by a moderator:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
دھمکانے والی بات کدھر ہے؟
میں ایک دفعہ پھر عرض کروں گا کہ ’ زیب داستان‘ سے گریز کرنا چاہیے۔ خیر القرون کے ان معاملات کو بگاڑ کر پیش کرنے کا ثواب کہیں بھی مرقوم نہیں۔ اور یہ عرض طرفین کو ہی ہے۔ کسی ایک کو نہیں۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 4827 میں ہے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کی بات سن کر ناگواری کا اظہار کیا تو حجاز کے گورنر نے ان سے سختی کرنا چاہی تو انہوں نے اپنی بہن ام المومین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں پناہ لی۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم میں نے یہاں ایک عام پیرائے میں بات کی تھی تقابل نہیں کیا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ جب کوئی حکمران بن جاتا ہے تو وہ ایک طاقت ور شخص ہوجاتا ہے اور اس کے خلاف بغاوت شاذ و ناذ ہی ہوتی ہے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تو آخری وقت تک لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔ آپ کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین یزید کی خلافت کو حق بجانب سمجھتے تھے ۔ کیا صحابہ کرام مروان بن حکم کو بھی عبداللہ بن زبیرجو بدری صحابی تھے کے مقابلے میں خلافت کا اہل سمجھتے تھے ۔ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اقدام کو غلط سمجھتے تھے۔ ؟
موجود دنیا کی چند مثالوں پیش خدمت ہیں ۔ خلافت عثمانیہ مصطفی کمال نے ختم کی کیا کوئی اس کے مقابل ترکی میں کھڑا ہوا۔
ہٹلر نے اپنی طاقت کے زور پر دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا کیا اس کے عوام اس کے خلاف احتجاج کیا کرتے تھے ۔ سعودی عر ب میں بادشاہی نظام عرصے سے چل رہا ہے کیا کسی میں اتنی ہمت ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکے ۔
اس تحریر میں سہوا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بدری صحابی لکھ دیا ہے ۔ لکھنا یہ تھا کہ بدری صحابی کے صاحبزادے تھے ۔ انتظامیہ سے گذارش ہے کہ اس کی تصحیح کردی جائے ۔
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس تحریر میں سہوا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بدری صحابی لکھ دیا ہے ۔ لکھنا یہ تھا کہ بدری صحابی کے صاحبزادے تھے ۔ انتظامیہ سے گذارش ہے کہ اس کی تصحیح کردی جائے ۔
محترم بھائی @محمد نعیم یونس صاحب
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ایک بات کی اور وضاحت کر دیجیے گا کیا آپ کا اس بات پر بھی یقین ہے کہ واقعہ کربلا رونما ہوا تھا یا یہ محض ایک راویوں کا بنایا ہوا فسانہ ہے جسے شیعہ گروہوں نے تاریخ اور اسلام بنادیا ہے ۔
اگر آپ میری ” چھٹی حس“ کا فیصلہ جاننا چاہیں تو مجھے یہ ایک ” افسانہ “ ہی معلوم ہوتا ہے اور تاریخ کو ”بنایا“ ہی ایسی نہج پر ہے کہ جس سے نہ حضرت حسینؓ کی اصل شخصیت نکھر کر سامنے آئے اور نہ ہی امیر یزیدؒ کی خلافت صحیح ثابت ہو سکے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محنت کا اجر صرف یہ مانگا تھا کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو ۔ کیا وہ محبت اس طرح سے نبھائی گئی ؟
اصل الفاظ ہیں : اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰییعنی میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر " قربٰی " کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ اس لفظ " قربٰی " کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہوگیا ہے۔
ایک گروہ نے اس کو قرابت (رشت دری) کے معنی میں لیا ہے اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ " میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا، مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ (یعنی اہل قریش) کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے۔ لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم تو نہ کرو کہ سارے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تل گئے ہو "۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر ہے جسے بکثرت راویوں کے حوالہ سے امام احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی، اور ابن سعد وغیرہم نے نقل کیا ہے، اور یہی تفسیر مجاہد، عکرمہ، قتادہ، سدی، ابو مالک، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم، ضحاک، عطاء بن دینار اور دوسرے اکابر مفسرین نے بھی بیان کی ہے۔

دوسرا گروہ " قربٰی " کو قرب اور تقرب کے معنی میں لیتا ہے، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ " میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی چاہت پیدا ہوجائے " یعنی تم ٹھیک ہوجاؤ، بس یہی میرا اجر ہے۔ یہ تفسیر حضرت حسن بصری سے منقول ہے، اور ایک قول قتادہ سے بھی اس کی تائید میں نقل ہوا ہے بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں ابن عباس کی طرف بھی یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔ خود قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر یہی مضمون ان الفاظ میں ارشاد ہوا ہے :
قُلْ مَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہ سَبِیْلاً (الفرقان۔ 57) ۔ " ان سے کہہ دو کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کرلے۔ "

تیسرا گروہ " قربٰی " کو اقرب (رشتہ داروں) کے معنی میں لیتا ہے، اور آیت کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ " میں تم سے اس کام پر کوئی اجر اس کے سوا نہیں چاہتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو "۔ پھر اس گروہ کے بعض حضرات اقارب سے تمام بنی عبدالمطلب مراد لیتے ہیں، اور بعض اسے صرف حضرت علی و فاطمہ اور ان کی اولاد تک محدود رکھتے ہیں۔ یہ تفسیر سعید بن جبیر اور عمرو بن شعیب سے منقول ہے، اور بعض روایات میں یہی تفسیر ابن عباس اور حضرت علی بن حسین (زین العابدین) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ لیکن متعدد وجوہ سے یہ تفسیر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ اول تو جس وقت مکہ معظمہ میں سورة شوریٰ نازل ہوئی ہے اس وقت حضرت علی و فاطمہ کی شادی تک نہیں ہوئی تھی، اولاد کا کیا سوال۔ اور بنی عبدالمطلب میں سب کے سب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، بلکہ ان میں سے بعض کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھی تھے۔ اور ابو لہب کی عداوت کو تو ساری دنیا جانتی ہے۔ دوسرے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار صرف بنی عبدالمطلب ہی نہ تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ، آپ کے والد ماجد اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے واسطے سے قریش کے تمام گھرانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور ان سب گھرانوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہترین صحابی بھی تھے اور بدترین دشمن بھی۔ آخر حضور کے لیے یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سب اقرباء میں سے آپ صرف بنی عبد المطلب کو اپنا رشتہ دار قرار دے کر اس مطالبہ محبت کو انہی کے لیے مخصوص رکھتے۔ تیسری بات، جو ان سب سے زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ایک نبی جس بلند مقام پر کھڑا ہو کر دعوت الی اللہ کی پکار بلند کرتا ہے، اس مقام سے اس کار عظیم پر یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو، اتنی گری ہوئی بات ہے کہ کوئی صاحب ذوق سلیم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اللہ نے نبی کو یہ بات سکھائی ہوگی اور نبی نے قریش کے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی ہوگی۔ قرآن مجید میں انبیاء (علیہم السلام) کے جو قصے آئے ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اٹھ کر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (یونس 72 ۔ ہود 29 ۔ 51 ۔ الشعراء 109 ۔ 127 ۔ 145 ۔ 164 ۔ 180) ۔ سورة یٰسٓ میں نبی کی صداقت جانچنے کا معیار یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی دعوت میں بےغرض ہوتا ہے (آیت 21) ۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے قرآن پاک میں بار بار یہ کہلوایا گیا ہے کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہو (الانعام 90 ۔ یوسف 104 ۔ المؤمنون 72 ۔ الفرقان 57 ۔ سبا 47 ۔ ص 82 ۔ الطور 40 ۔ القلم 46) ۔ اس کے بعد یہ کہنے کا آخر کیا موقع ہے کہ میں اللہ کی طرف بلانے کا جو کام کر رہا ہوں اس کے عوض تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو۔ پھر یہ بات اور بھی زیادہ بےموقع نظر آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس تقریر کے مخاطب اہل ایمان نہیں بلکہ کفار ہیں۔ اوپر سے ساری تقریر ان ہی سے خطاب کرتے ہوئے ہوتی چلی آ رہی ہے، اور آگے بھی روئے سخن ان ہی کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام میں مخالفین سے کسی نوعیت کا اجر طلب کرنے کا آخر سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اجر تو ان لوگوں سے مانگا جاتا ہے جن کی نگاہ میں اس کام کی کوئی قدر ہو جو کسی شخص نے ان کے لیے انجام دیا ہو۔ کفار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کام کی کون سی قدر کر رہے تھے کہ آپ ان سے یہ بات فرماتے کہ یہ خدمت جو میں نے تمہاری انجام دی ہے اس پر تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرنا۔ وہ تو الٹا اسے جرم سمجھ رہے تھے اور اس کی بنا پر آپ کی جان کے درپے تھے۔( تفہیم القرآن )
اُمید ہے کہ آپ غور و فکر فرمائیں گے !
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس تحریر میں سہوا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بدری صحابی لکھ دیا ہے ۔ لکھنا یہ تھا کہ بدری صحابی کے صاحبزادے تھے ۔ انتظامیہ سے گذارش ہے کہ اس کی تصحیح کردی جائے ۔
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تصحیح کر دی گئی ہے!
ویسے جب آپ نے خود ہی وضاحت کر دی تو یہ بھی تصحیح ہی تھی...ابتسامہ!
 
Top