• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ جرح وتعدیل کے میزان میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جرح وتعدیل کا میزان



جرح و تعدیل کے میزان میں صرف ان رواۃ سے بحث ہوتی ہے جنوں نے احادیث کوبیان کرنے میں حصہ لیا ہے اورجن لوگوں نے احادیث بیان کرنے میں حصہ نہیں لیا ایسے لوگوں پر اس فن میں بحث نہیں ہوتی خواہ وہ اچھے ہوں یا برے۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ جرح وتعدیل کے میزان میں ان رواۃ سے بحث ہوتی ہے جنہوں نے احادیث کی روایت میں حصہ لیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس میزان سے ان راویوں کو پرکھا ہی نہیں جاسکتا جنہوں نے احادیث کو بیان کرنے میں حصہ ہی نہیں لیا ۔

مثال کے طور پر یزید ہی کے معاصرین میں ایک عظیم شخصیت أويس بن عامر القرنی کا نام ملتاہے انہیں سید التابعین کہا جاتا ہے اس کے باوجود بھی انہوں نے احادیث روایت کی ہی نہیں اور ان کے حوالہ سے جو روایات ملتی ہے ہیں (جن کی تعداد صرف دو ہے ) ان میں اویس کے نیچے کی سندصحیح نہیں ہے یعنی اویس قرنی کا ان احادیث کو بیان کرنا ثابت ہی نہیں ہے ۔
اسی لئے ان کا نام آنے پر اہل فن نے یہی کہاہے کہ حدیث کی روایت میں انہوں نے حصہ نہیں لیااس لئے ان کے بارے میں جرح یا تعدیل کی کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ، چنانچہ:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قلت: هذه عبارته، يريد أن الحديث الذي روى عن أويس في الإسناد إلى أويس نظر، ولولا أن البخاري ذكر أويساً في الضعفاء لما ذكرته أصلا، فإنه من أولياء الله الصادقين، وما روى الرجل شيئا فيضعف أو يوثق من أجله
یعنی اویس قرنی سے جو روایت نقل کی جاتی ہے اس کا اویس قرنی سے بیان کرنا ثابت ہی نہیں ہے اگر امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں ضعفاء میں نہ ذکر کیا ہوتا تو میں بھی سرے سےان کا تذکرہ ہی نہیں کرتا کیونکہ یہ اللہ کےسچے اولیاء میں سے تھے اورانہوں نے کچھ روایت ہی نہیں کیا لہٰذا اس پہلو سے انہیں ضعیف کہنے یاثقہ کہنے کی کوئی بنیاد ہی نہیں[ميزان الاعتدال للذهبي: 1/ 279]


عرض ہے کہ بالکل یہی معاملہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کا بھی ہے اویس القرنی ہی کی طرح انہوں نے بھی احادیث کی روایت کی ہی نہیں اور ان سے جو روایات منقول ہیں (جن کی تعداد دو ہے ، یادرہے اویس قرنی کی منقول مرویات کی بھی یہی تعداد ہے) ان میں یزید بن معاویہ سے نیچے کی سند صحیح نہیں ہے اس لئے ان احادیث کا روایت کرنا یزید بن معاویہ رحمہ اللہ سے ثابت ہی نہیں ۔
پھر امام ذہبی رحمہ اللہ کے پیش کردہ اصول کی روشنی میں اس پہلو سے یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو ضعیف کہنے یا ثقہ کہنے کی کوئی بنیاد ہے ہی نہیں ۔

تنبیہ بلیغ:
واضح رہے کہ کسی کا روایت بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان کے پاس روایات تھی ہی نہیں مثلا اویس قرنی رحمہ اللہ ہی کی مثال لے لیں انہوں نے کوئی روایت بیان نہیں کی ہے لیکن یہ صاحب فضل تھے ، تابعین کے دور کے تھے اور ناممکن ہے کہ اس دور میں انہوں نے اپنے دور کے اہل علم سے احادیث نہ سنی ہوں ۔
یہی حال یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کا بھی ہے وہ بھی تابعین کے دور کے ہیں بلکہ ایک عظیم صحابی کے بیٹے ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ ان کے گھر میں کبھی حدیث نہ سنائی گئی ہو۔
بلکہ آگے ہم ایک صحیح روایت پیش کریں گے جس سے ثابت ہوتاہے کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ باقاعدہ علم دین سے متعلق اہل علم سے پوچھتے بھی تھے یعنی انہوں نے اپنے گھر میں بھی کتاب وسنت سنا اور دیگر لوگوں سے بھی استفادہ کیا ، والحمدللہ ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
توثیق کی بنیاد


کسی راوی کو ثقہ کہنے کے لئے دو چیزوں کا ثبوت ضروری ہے ۔

  • اول : عدالت
  • دوم : ضبط
اوران چیزوں کا فیصلہ یا تو ناقدین کے استقراء سے ہوتا ہے یا معاصرین کی شہادت وگواہی سے۔تفصیل ملاحظہ ہو:


ناقدانہ استقراء

عام طور سے ان دونوں کا فیصلہ راوی کی مرویات کو دیکھ کر ہوتا ہے جب ایک راوی ایسی روایات بیان کرے جو دوسرے ثقہ رواۃ کی مرویات کے موافق ہوں تو ایسے راوی کوثقہ کہا جاتا ہے کیونکہ روایات کی موافقت جہاں ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ راوی ضابط ہے یعنی اس کا حافظہ ٹھیک ہے وہیں دوسری طرف اس میں اس بات کی بھی دلیل ہوتی ہے کہ راوی عادل بھی ہے کیونکہ اس نے ان روایات میں تبدیلی نہیں کی ہے ۔ یعنی عام طور سے عدالت و ضبط کا فیصلہ راوی کی مرویات ہی کی بنا پر ہوتا ہے جیساکہ اوپر امام ذہبی رحمہ اللہ کے حوالہ دے گذرا۔
جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ راوی کی توثیق یا تضعیف کے لئے عام طور سے راوی کی مرویات کو بنیاد بنایا جاتاہے تو یہیں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی راوی کی توثیق یا تضعیف کے لئے ضروری نہیں ہے کہ توثیق یا تضعیف کرنے والا اس راوی کے دور کا ہو کیونکہ جب روایات دیکھ کر فیصلہ کیا جاتاہے تو کسی بھی دور کا ناقد محدث کسی بھی دور کے راوی کی مرویات کا استقراء کرکے اس کے بارے میں ثقاہت یا ضعف کا فیصلہ کردیتاہے۔
اوریہیں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ راوی کی روایات کو پرکھ کر راوی کے بارےمیں فیصلہ دینا یہ اجتہادی معاملہ ہوتاہے اور فقہی اجتہاد کی طرح جرح وتعدیل کے اس اجتہاد میں بھی مجتہد سے خطا وصواب دونوں باتوں کا احتمال ہوتا ہے اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی راوی سے متعلق ناقدین کے اقوال میں اختلاف ہوجاتاہے کیونکہ ہر ناقد اپنے اپنے اجتہاد کی روشنی میں فیصلہ کرتاہے ۔
مناسب معلوم ہوتا کہ اس معاملہ کے اجتہادی ہونے سے متعلق بعض اہل علم کی تصریحات پیش کردی جائے ۔

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728)فرماتے ہیں:
و كلام يحيى بن معين و البخاري و مسلم و أبي حاتم و أبي زرعة و النسائي و أبي أحمد بن عدي و الدارقطني و أمثالهم في الرجال و صحيح الحديث و ضعيفه هو مثل كلام مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي و أمثالهم في الأحكام و معرفة الحلال من الحرام[الرد على البكري لابن تیمیہ: 1/ 72]۔
حدیث کی تصحیح وتضعیف اور راویوں سے متعلق امام یحیی بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابوحاتم ، امام ابوزرعہ ، امام نسائی ، امام ابن عدی ،امام دارقطنی اوران جیسے ائمہ کا کلام ایسے ہی ہے جیسے احکام اور حلال وحرام کی معرفت سے متعلق امام مالک، امام ثوری ، امام اوزاعی ، امام شافعی اور دیگر ائمہ کا کلام ہے۔
امام منذری رحمہ اللہ نے اسی بات کو اورواضح انداز میں بیان کیا ہے ، چنانچہ:
امام منذري رحمه الله (المتوفى656)فرماتے ہیں:
واختلاف هؤلاء كاختلاف الفقهاء، كل ذلك يقتضيه الاجتهاد، فأن الحاكم إذا شهد عنده بجرح شخص، اجتهد في أن ذلك القدرمؤثر أم لا؟ وكذلك المحدث إذا أراد الاحتجاج بحديث شخص ونقل إليه فيه جرح، اجتهد فيه هل هو مؤثر أم لا؟ ويجري الكلام عنده فيما يكون جرحا ، في تفسير الجرح وعدمه، وفي اشتراط العدد في ذلك، كما يجري عند الفقيه، ولا فرق بين أن يكون الجارح مخبرا بذلك للمحدث مشافهة أو ناقلا له عن غيره بطريقه، والله عز وجل أعلم. [جواب الحافظ المنذري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص: 83]۔
ان محدثین کا اختلاف فقہاء کے اختلاف کی طرح ہے ، یہ سب کچھ اجتہاد کی بنا پرہوتا ہے ، کیونکہ حاکم کے پاس جب کسی شخص سے متعلق جرح پیش ہوتی ہے تو وہ اجتہاد کرتا ہے کہ یہ جرح اثرانداز ہوگی یا نہیں ، اسی طرح محدث جب کسی راوی کی حدیث سے حجت پکڑنا چاہتا ہے اور اوراس راوی سے متعلق اسے جرح ملتی ہے تو وہ اجتہاد کرتا ہے کہ یہ جرح اثرانداز ہوگی یا نہیں اوراس کے نزیک اس بات کا فیصلہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ جرح مفسر ہے یا نہیں ، اسی طرح جارحین کا تعداد کتنی ہے ، ٹھیک ایسا ہی معاملہ فقیہ کے ساتھ بھی ہوتا ہے ، اوراس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ جارح اپنی جرح سے محدث کو براہ راست خبردیتا ہے یا دوسرے کی جرح اپنی سند سے پیش کرتا ہے۔
امام سخاوی رحمہ اللہ بھی انہیں الفاظ میں بات کرتے ہیں چنانچہ:
امام سخاوي رحمه الله (المتوفى902)فرماتے ہیں:
وولاة الجرح والتعديل بعد من ذكرنا يحيى ابن معين وقد سأله عن الرجال غير واحد من الحفاظ ومن ثم اختلفت آراؤه وعبارته في بعض الرجال كاجتهاد الفقهاء وصارت لهم الأقوال والوجوه فاجتهدوا في المسائل كما اجتهد ابن معين في الرجال[الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ للسخاوی :ص: 289]۔
اورمذکورہ ائمہ کے بعد جرح و تعدیل کے ائمہ میں سے امام یحیی بن معین بھی ہیں ان سے راویوں کے بارے میں کئی حفاظ نے سوالات کئے اسی لئے بعض راویوں سے متعلق ان کی آراء وعبارات میں اختلاف ہوا جیساکہ فقہاء کا اختلاف ہوتا ہے اوران سے کئی آراء و اقوال صادر ہوتے ہیں ، پس فقہاء نے مسائل میں جس طرح اجتہاد کیا اسی طرح امام معین نے راویوں سے متعلق اجتہادکیا۔
امام ذہبی رحمہ اللہ کے تعارف کی ضرورت نہیں ہے وہ بھی اسی اسلوب میں بات کرتے ہیں چنانچہ:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
يحيى بن معين وقد ساله عن الرجال عباس الدوري وعثمان الدرامي وابو حاتم وطائفة واجاب كل واحد منهم بحسب اجتهادات الفقهاء المجتهدين وصارت لهم في المسالة اقوال[ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ص: 185]۔
امام یحیی بن معین سے راویوں کے بارے میں عباس دوری ، عثمان دارمی ، ابوحاتم اور بہت سارے لوگوں نے سوالات کئے ، اورامام ابن معین رحمہ اللہ نے مجتہدین فقہاء کے اجتہاد کے مطابق ہرایک کو جوابات دئے پھر لوگوں کے پاس ایک ہی مسئلہ میں ان کے کئی اقوال ہوگئے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا جرح تعدیل میں کیا مقام ہے محتاج تعارف نہیں انہوں نے بھی یہی کہا ہے ، چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)فرماتے ہیں:
فأقام الله طائفة كثيرة من هذه الأمة للذب عن سنة نبيه صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فتكلموا في الرواة على قصد النصيحة ، ولم يعد ذلك من الغيبة المذمومة ، بل كان ذلك واجبا عليهم وجوب كفاية. ثم ألف الحفاظ في أسماء المجروحين كتبا كثيرة ، كل منهم على مبلغ علمه ، ومقدار ما وصل إليه اجتهاده [لسان الميزان لابن حجر: 1/ 191]۔
اللہ تبارک وتعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے تحفظ کے لئے اس امت میں کئی گروہ پیداکئے جنہوں نے راویوں کے بار ےمیں خیراخواہی کی نیت سے کلام کیا ، اوریہ مذموم غیبت میں شمار نہیں ہوتا بلکہ ایسا کرنا تو ان پر فرض کفایہ تھا ، پھر حفاظ نے مجروحین کے ناموں پر بہت سی کتابیں تالیف کیں، ان میں سے ہر ایک نے اپنے علم اور اپنے اجتہاد کے بقدرمعلومات پیش کیں۔
امام بدر الدين ، الزركشي (المتوفى: 794 ) فرماتے ہیں:
فلا شك أن في الجرح والتعديل ضربين من الاجتهاد وأئمة النقل يختلفون في الأكثر فبعضهم يوثق الرجل إلى الغاية وبعضهم يوهنه إلى الغاية [النكت على مقدمة ابن الصلاح 3/ 342]۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جرح و تعدیل میں بھی دو طرح کا اجتہاد ہوتا ہے اورائمہ نقل کا اکثر اختلاف ہوجاتاہے، چنانچہ بعض ایک روای کی حددرجہ توثیق کردیتے ہیں اوربعض اسی راوی کی حددرجہ تضعیف کردیتے ہیں۔
اورجس طرح فقہی امورمیں مجتہد سے غلطی ہوجائے تواس کے لئے ایک اجرہے اسی طرح جرح وتعدیل کے امور میں بھی کسی مجتہدسے غلطی ہوجائے تو اس کے لئے ایک اجرہے یہ بات ہماری نہیں امام ذہبی کی ہے ، چنانچہ:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
ولكنَّ هذا الدين مؤيَّد محفوظ من الله تعالى ، لم يَجتمع علماؤه على ضلالة ، لا عَمْداً ولا خطأ ، فلا يَجتمِعُ اثنانِ على توثيقِ ضعيف ، ولا على تضعيفِ ثقة ، وإنما يقعُ اختلافُهم في مراتبِ القُوَّةِ أو مراتبِ الضعف . والحَاكمُ منهم يَتكلَّمُ بحسبِ اجتهادِهِ وقُوَّةِ مَعارِفِه ، فإن قُدِّرَ خطؤه في نقده ، فله أجرٌ واحد ، والله الموفق . [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 20، ]۔
لیکن یہ دین موید اوراللہ کی طرف سے محفوظ ہے، اس فن کے علماء گمراہی پرجمع نہیں ہوئے نہ جان بوجھ کراورنہ ہی غلطی سے ، پس کسی ضعیف راوی کی توثیق پر یا ثقہ راوی کی تضعیف پر دو امام جمع نہیں ہوسکتے ، بلکہ ان کااختلاف قوۃ و ضعف کے مرتبہ پر ہوتا ہے ، اوران میں حکم لگانے والا اپنے اجتہاد اور اپنی معلومات کے بقدرکلام کرتا ہے، پس اگر اپنے نقد میں وہ غلطی کرجائے تب بھی اسے ایک اجرملے گا۔
اہل علم کی ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ راوی کی توثیق یا تضعیف عام طور سے اجتہادی معاملہ ہوتا ہے اور ایک ناقد محدث کسی راوی کی تعدیل یا توثیق کرتاہے تو یہ اس کا اجتہاد ہی ہوتا ہے نہ کی اس کی شہادت وگواہی ، یہ اور بات ہے کہ لغوی اعتبار سے محدثین کے اس طرح کے فیصلے کو شہادت سے بھی تعبیرکردیا جاتاہے لیکن محدثین کے یہ فیصلے درحقیقت اور فی نفسہ شہادت کی نوعیت کے نہیں ہوتے ہیں بلکہ اجتہادی نوعیت کے ہوتے ہیں۔۔




شہادت وگواہی

تاہم اس عمومی طرزعمل کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار راوی کی عدالت کے سلسلے میں راوی کے اخلاق وکردار کو بھی پیش نظر رکھ کر فیصلہ کیا جاتاہے مثلا کسی راوی کے بارے میں یہ شہادت مل جائے کہ نمازی تھا ، دیندار تھا ، تقوی شعار تھا تو اس کی تعدیل کی جاتی ہے ۔یا اس کے برعکس یہ مل جائے کہ وہ فاسق تھا یا شرابی تھا یا بددین تھا وغیرہ وغیرہ ۔تواس پرجرح کی جاتی ہے۔ اوریہ معاملہ خالص شہادت پرمبنی ہوتاہے نہ کی اجتہاد پر اس لئے اس معاملہ میں شہادت وگواہی کا ثابت شدہ ہونا ضروری ہے نیز اس طرح کی شہادت وگواہی دینے کا حق صرف انہیں لوگوں کو حاصل ہے جو راوی کے ہم عصر ہوں اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے ہوں ۔
یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی شہادت کو بنیاد بناکر جب محدثین جرح وتعدیل کرتے ہیں تو اس بارے میں صرف معاصرین ہی کی شہادت وگواہی قبول کرتے ہیں نیز معاصرین سے بھی اس کا بسندصحیح نقل ہونا ضروری سمجھتے ہیں ۔ بصورت دیگر اس طرح کی باتوں کو رد کردیتے ہیں خواہ اس کی ہمنوائی بعد کے کسی بڑے سے بڑے امام ہی نے کیوں نہ کی ہے ۔ آئیے اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔

احادیث کی روایت کرنے والوں میں ایک نام ’’عمربن سعد بن ابی وقاص‘‘ کا بھی ملتاہے ان پر جرح وتعدیل کے ایک بہت بڑے امام ابن معین رحمہ اللہ نے جرح کی ہے اور انہیں غیرثقہ قرار دیا ہے لیکن امام ابن معین رحمہ اللہ نے ان پر جرح کے سلسلے میں جس چیز کو بنیاد بنایا ہے اس کا تعلق اخلاق و کردار سے ہیں ،چنانچہ امام معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ راوی ثقہ نہیں ہے کیونکہ اس نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے۔ملاحظہ ہو:

امام ابن أبي خيثمة رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
سألت يحيى بن معين عن عمر بن سعد أثقة هو فقال كيف يكون من قتل الحسين بن على رضي الله عنه ثقة
میں امام ابن معین رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ کیا عمربن سعد ثقہ ہیں ؟ تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے جواب دیا: جس نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا وہ کیسے ثقہ ہوسکتاہے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 111 ت 592 واسنادہ صحیح وانظر : تاريخ ابن أبي خيثمة 2/ 945 ت 4033]

یہاں پر امام ابن معین رحمہ اللہ نے عمربن سعد رحمہ اللہ جو کہ کبار تابعین میں سے ہیں انہیں غیرثقہ کہا دیا اور اس کے لئے عمربن سعد رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک کردار(قتل حسین رضی اللہ عنہ) کو بنیاد بنایا لیکن چونکہ عمربن سعد رحمہ اللہ کا یہ کردار ثابت نہیں ہے ، عمربن سعد رحمہ اللہ کے معاصرین میں سے کسی نے بھی ان کے اس کردار کی گواہی نہیں دی ہے اس لئے دیگر محدثین نے امام ابن معین رحمہ اللہ کی اس جرح کو رد کردیا ہے ۔ اور عمربن سعد رحمہ اللہ کو ثقہ وصدوق تسلیم کیا ہے۔

واضح رہے کہ عمربن سعد رحمہ اللہ اس لشکر کے کمانڈر تھے جو حسین رضی اللہ عنہ سے کربلا میں ملاتھا اوربعد میں یہیں پر حسین رضی اللہ عنہ شہید کردئے گئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عمربن سعد رحمہ اللہ نے انہیں قتل کیا ہے یا ان کے قتل کا حکم دیا ہے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
صحابہ کرام نے اہل کوفہ وعراق کو حسین رضی اللہ کا قاتل قرار دیا ہے اور عمربن سعد رحمہ اللہ کوفہ میں وارد ہوئے تھے لیکن کوفی نہیں تھے ۔ لہٰذا یہ قتل کے الزام سے بری ہیں ، قتل کوفیوں نے کیا ہے یہ کوفی یا تو کربلا میں کوفہ سے پہنچ گئے تھے یا عمربن سعد کے لشکر میں پہلے سے موجود ہے جنہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو دھوکہ سے قتل کیا لیکن عمربن سعد رحمہ اللہ کے بارے اس چیز کا ثبوت نہیں ملتا کہ انہوں نے قتل کیا ہے کہ یا ان کی مرضی سے ان کے لشکر کے آدمیوں نے حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کیا ہے اس لئے ہم بغیر کسی پختہ ثبوت کے قتل حسین رضی اللہ عنہ کی ذم داری عمربن سعد رحمہ اللہ پرنہیں ڈال سکتے ۔
انہیں باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے محدثین نے عمربن سعد رحمہ اللہ سے متعلق امام ابن معین رحمہ اللہ کی جرح کو غیرثابت بات پر قائم ہونے کی وجہ سے یکسر رد کردیا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یزید بن معاویہ جرح وتعدیل کے میزان میں


اوپربتایا جاچکاہے کہ سیدالتابعین اویس القرنی رحمہ اللہ ہی کی طرح امیر المؤمنین یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے بھی احادیث کی روایت کی ہی نہیں ہے اس لئے جرح وتعدیل کی کسوٹی پر انہیں پرکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ تاہم اس کے باوجود بھی اگر کوئی انہیں جرح وتعدیل کی کسوٹی پر چڑھانا ہی چاہتاہے تو ان کے بارے میں بھی وہی نتائج سامنے آئیں گے جو سیدالتابعین اویس قرنی رحمہ اللہ کے بارے میں ملتے ہیں۔ تفصیل ملاحظہ ہو:

ناقدانہ استقراء

یزید بن معاویہ سے متعلق جرح وتعدیل میں ناقدانہ استقراء کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ ان سے کسی بھی حدیث کی روایت کرنے کا ثبوت نہیں ملتا ۔ اور جو روایات ان کے حوالہ سے منقول ہیں ان میں یزید کے نیچے کی سند صحیح نہیں ہے۔
تاہم اگر نیچے کی سند کو نظر اندار کردیا جائے اور یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یزیدنے ان روایات کو بیان کیا ہے تو امام ابن عدی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق یہ روایت یزید کی عدالت وثقاہت پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان دونوں روایات کے شواہد موجود ہیں تفصیل ملاحظہ ہوں:

پہلی حدیث:
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو محمد بن الأكفاني نا أبو محمد الكتاني أنا تمام بن محمد حدثني أبي حدثني أبو بكر بن أبي قحافة الرملي نا سعيد بن نفيس ،قال وأنا تمام حدثني أبو محمد الحسن بن علي بن عمر الحلبي ثنا سعيد بن نفيس المصري بحلب نا عبدالرحمن بن خالد العمري حدثني أبي حدثني الهقل بن زياد عن حريز بن عثمان سمعه من عبدالملك بن مروان يخبره عن أبي خالد عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ،أبو خالد هو يزيد بن معاوية [تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 395]۔

اس حدیث کو ابوخالدیعنی یزید بن معاویہ نے اپنے والد یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہی حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے دیکھئے : بخاری رقم 71 ۔

دوسری حدیث:
أبو القاسم تمام بن محمد الرازي ثم الدمشقي (المتوفى: 414 ) نے کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلَّانَ الْحَرَّانِيُّ ثنا أَبُو عَلِيٍّ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ ثنا عَبْدُ اللَّهِ الْمَقْدِسِيُّ، بِبَغْدَادَ ثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ الْفَضْلُ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو خَالِدٍ، حَدَّثَنِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَقَالَ: «هَذَا وُضُوئِي، وَوُضُوءُ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي» [مسند المقلين من الأمراء والسلاطين لتمام بن محمد الدمشقي ص: 31 رقم 14]

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی اعضاء وضوء کو تین بار دھونے والی حدیث صحیح سند سے ابوداؤد میں موجود ہے دیکھئے سنن ابی داؤد رقم 125۔
نیز ’’هذا وضوئي ووضوء الأنبياء قبلي‘‘ کا جملہ بھی دیگر احادیث سے ثابت ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ میں نقل کیا ہے دیکھئے : سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 523) رقم 261 ۔

معلوم ہوا کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ سے جو دو احادیث منقول ہیں وہ ثابت شدہ ہیں اب اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے ان احادیث کی روایت کی ہے تو چونکہ یزید بن معاویہ کی بیان کردہ یہ احادیث ثقہ رواۃ کے موافق ہیں اس کے شواہد متابعات موجود ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ان احادیث کی روایت میں یزید بن معاویہ عادل اورضابط ہیں یعنی ثقہ وصدوق ہیں ۔
اسی بنیاد پر امام ابن عدی رحمہ اللہ اویس قرنی رحمہ اللہ کو بھی ثقہ قرار دیا ہے چنانچہ ان سے بھی صرف دو احادیث منقول ہیں ملاحظہ ہو:

پہلی حدیث:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
حدثنا محمد بن أبي يعقوب ثنا القاسم بن القاسم السياري المروزي ثنا أبو الموجه محمد بن عمرو بغير حديث وحدثنا محمد بن الحسين بن موسى ثنا عبدالواحد بن علي السياري ثنا خالي أبو العباس القاسم بن القاسم السياري ثنا أحمد بن عباد بن سلم وكان من الزهاد ثنا محمد بن عبيدة النافقاني ثنا عبدالله بن عبيدة العامري ثنا سورة بن شداد الزاهد عن سفيان النوري ! عن إبراهيم بن أدهم عن موسى بن يزيد عن أويس القرني عن علي بن أبي طالب قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إن لله تسعة وتسعين اسما مائة غير واحد ما من عبد يدعو بهذه الأسماء إلا وجبت له الجنة إنه وتر يحب الوتر هو الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم الملك القدوس السلام إلى قوله الرشيد الصبور[حلية الأولياء 10/ 380]

دوسری حدیث:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430) نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْهُذَيْلِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْعَنْبَرِيُّ، ثنا عَمْرٌو شَيْخٌ كُوفِيٌّ، عَنْ أَبِي سِنَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ صَالِحٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أُوَيْسًا الْقَرَنِيَّ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي فَإِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَلْعَنَ آخِرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلَهَا وَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ الْمَقْتُ عَلَى الْأَرْضِ وَأَهْلِهَا فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ فَلْيَضَعْ سَيْفَهُ عَلَى عَاتِقِهِ ثُمَّ لِيلْقَ رَبَّهُ تَعَالَى شَهِيدًا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ» [حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 2/ 87 ]

امام ابن عدی رحمہ اللہ نے راجح اسی بات کو سمجھا ہے کہ اویس قرنی رحمہ اللہ نے کوئی حدیث روایت نہیں کی ہے کیونکہ ان سے مروی احادیث میں ان سے نیچے کی سند ثابت نہیں ہے لیکن چونکہ ان سے منقول ان روایات کے بھی شواہد ومتابعات ملتے ہیں اس لئے اس قلیل مقدار کی روایات کی روشنی میں بھی اویس قرنی ثقہ وصدوق قرارپاتے ہیں چنانچہ:

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وَلَيْسَ لأُوَيْسٍ مِنَ الرِّوَايَةِ شَيْءٌ، وإِنَّما لَهُ حِكَايَاتٌ وَنُتَفٌ وَأَخْبَارٌ فِي زُهْدِهِ وَقَدْ شَكَّ قَوْمٌ فِيهِ إِلا أَنَّهُ مِنْ شُهْرَتِهِ فِي نَفْسِهِ وَشُهْرَةِ أَخْبَارِهِ لا يَجُوزُ أَنْ يُشَكَّ فيه وليس لَهُ مِنَ الأَحَادِيثِ إِلا الْقَلِيلُ فَلا يَتَهَيَّأُ أَنْ يُحْكَمَ عَلَيْهِ الضَّعْفُ بَلْ هُوَ صَدُوقٌ ثِقَةٌ مِقْدَارِ مَا يُرْوَى عَنْهُ.
اویس قرنی کی ایک بھی روایت نہیں ہے بلکہ ان سے متعلق حکایات وقصص اور ان کے زہد کی خبریں ہی ملتی ہیں ۔اوربعض لوگوں نے ان کے وجود ہی کے بارے میں شک کیا ہے لیکن چونکہ یہ بذات خود مشہور ہیں اوران کی خبریں بھی مشہور ہیں اس لئے ان کے وجود کے بارے میں شک کرنا درست نہیں ہے ، اور ان سے منقول احادیث بہت کم ہیں جس کے سبب ان پر ضعف کا حکم لگانے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ یہ اپنی روایات کی مقدار کے حساب سے سچے اور ثقہ ہیں [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 2/ 111]

عرض ہے کہ اگر اویس قرنی سے مروی صرف دو روایات کی مقدار ان کے ثقہ وصدوق ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو ٹھیک اسی طرح یزید بن معاویہ رحمہ اللہ سے بھی مروی دو احادیث ان کے ثقہ وصدوق ہونے پر دلالت کرتی ہیں بالخصوص جبکہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کی مرویات کے صحیح شواہد ومتابعات موجود ہیں۔


اوراگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے کوئی روایت بیان نہیں کی ہے تب بھی ان کا وہی معاملہ ہوگا جو اویس بن قرنی رحمہ اللہ کا ہے چنانچہ راجح قول کے مطابق اویس قرنی رحمہ اللہ نے کوئی روایت بیان ہی نہیں کی اس لئے اس پہلو سے انہیں ضعیف یا ثقہ کہنے کی گنجائش ہی نہیں ہے جیساکہ اوپر امام ذہبی رحمہ اللہ کی کے حوالہ سے صراحت گذری ہے۔

لیکن چونکہ اویس قرنی کی خوبیاں منقول ہیں اس لئے اس اعتبار سے انہیں ابن سعد رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے چنانچہ:

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
وكان أويس ثقة وليس له حديث عن أحد
اویس ثقہ تھے اور کسی سے بھی ان کی کوئی روایت نہیں ہے[الطبقات لابن سعد: 6/ 207]

عرض ہے کہ اگر روایت میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی بعض خوبیوں کے پیش نظر اویس قرنی رحمہ اللہ ثقہ ہیں تو اسی اصول کے تحت امیرالمؤمنین یزید بن معاویہ رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں والحمدللہ کیونکہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کی خوبیاں منقول ہیں کما سیاتی ، بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنت کی بشارت دی ہے اس لئے یہ بھی ثقہ ہیں ۔




شہادت وگواہی


اولا:
صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسطنطنیہ پر سب سے پہلے حملہ کرنے والے لشکر کوبخشا ہوا قرار دیا ہے (بخاری رقم 2924) اور بخاری ہی کی روایت کے مطابق یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے قسطنطنیہ پرحملہ کیا (بخاری رقم 1186)
اوریزید سے قبل قسطنطنیہ پرکسی بھی حملہ کا بسند صحیح کوئی ثبوت نہیں ملتا لہٰذا بخاری ہی کی روایات سے ثابت ہوا کہ یزید ہی نے سب سے پہلے قسطنطنیہ پر حملہ کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے ۔[فتح الباري لابن حجر: 6/ 103]۔

ثانیا:
قسطنطنیہ پرحملہ کرتے وقت یزید اس لشکر کے اصل امیرتھے (بخاری رقم 1186) اور ان کی زیرامارت صحابہ کرام بھی تھے ، صحابہ کرام کا ان کی زیرامارت اس لشکر میں شامل ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کی نظر میں یزید بن معاویہ دیندار اور معتبر شخص تھے۔

ثالثا:
صحیح سند سے ثابت ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کو ’’ امیر المؤمنین ‘‘ کہا ہے[تاريخ الأمم والرسل والملوك- الطبري 3/ 299 واسنادہ صحیح]۔ صحیح تاریخ الطبری کے محققین نے بھی اس روایت کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے اور اسے صحیح تاریخ الطبری میں نقل کیا ہے۔دکتور شیبانی نے بھی طبری کی اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے دیکھئے مواقف المعارضہ ص 342 ۔
حسین رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کا یزید کو امیر المؤمنین جیسے مقدس لقب سے متصف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی نظر میں یزید نیک اور صالح اور معتبر شخص تھے ۔
اسی وجہ سے امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے بھی یزید کو ’’امیرالمؤمنین‘‘ کہا ہے [تاريخ خليفة بن خياط ص٢٥٣ واسناده صحيح].
امام ابوبکرابن العربی(المتوفی: 543) رحمہ اللہ بجاطور پرفرماتے ہیں:
فإن قيل. كان يزيد خمارًا. قلنا: لا يحل إلا بشاهدين، فمن شهد بذلك عليه بل شهد العدل بعدالته. فروى يحيى بن بكير، عن الليث بن سعد، قال الليث: " توفي أمير المؤمنين يزيد في تاريخ كذا " فسماه الليث " أمير المؤمنين " بعد ذهاب ملكهم وانقراض دولتهم، ولولا كونه عنده كذلك ما قال إلا " توفي يزيد ".
اگرکہاجائے کہ یزید شرابی تھا تو ہم کہتے ہیں کہ بغیردوگواہ کے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی تو کس نے اس بات کی گواہی دی ہے؟؟ بلکہ عادل لوگوں نے تو یزید کے عدل کی گواہی دی ہے۔چنانچہ یحیی بن بکیرنے روایت کیا کہ امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے کہا: امیرالمؤمنین یزید فلاں تاریخ میں فوت ہوئے ۔تو یہاں پراما م لیث رحمہ اللہ نے یزید کو’’امیرالمؤمنین‘‘ کہا ہے ان کی حکومت اور ان کا دور ختم ہونے کے بعد ۔اگران کے نزدیک یزید اس درجہ قابل احترام نہ ہوتا تو یہ صرف یوں کہتے کہ یزید فوت ہوئے [العواصم من القواصم ط الأوقاف السعودية ص: 228]۔
واضح رہے کہ یہ روایت بالکل جھوٹی اور من گھڑت ہے کہ عمربن عبدالعزیزکے سامنے کسی نے یزید بن معاویہ کو ’’امیرالمؤمنین‘‘ کہہ دیا تو ان انہوں نے اسے بیس کوڑے لگانے کا حکم دیا تفصیل کے لئے دیکھئے میرا مضمون:’’ کیا یزیر بن معاویہ رحمہ اللہ کو امير المؤمنين کہنے والے پر عمربن عبدالعزیررحمہ اللہ نے بیس کوڑے لگوائے؟‘‘ ۔
دراصل عمربن عبدالعزیز نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو کوڑے لگوائے تھے لیکن سبائییوں نے اس بات کو بدل کو پیش کردیا تفصیل کے لئے دیکھئے میرا مذکورہ مضمون ۔

رابعا:
صحابہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں نیک اورصالح ترین شخص کہا ہے [أنساب الأشراف للبلاذري: 5/ 290 واسنادہ حسن لذاتہ]۔دکتور محمدبن ہادی الشیبانی نے بھی اس روایت کو حسن قراردیا ہے ، دیکھئے : [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية :ص 164 ]۔
واضح رہے کہ صحابہ کا لفظ ’’صالح‘‘ کے ساتھ توثیق کرنا بہت بڑی اہمیت رکھتاہے کیونکہ یہ انداز توثیق انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سیکھا ہے چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی توثیق کرتے ہوئے انہیں ’’صالح‘‘ قراردیا ہے۔[صحيح البخاري 5/ 25 رقم 3740 مسلم4/ 1927 رقم2478]۔

خامسا:
تابعین میں محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ نے انہیں عبادت گذار ، خیر کا متلاشی ، سنت کا پاسداراور علم دین کا شیدائی کہا ہے [البداية والنهاية: 8/ 233 ،تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274 واسنادہ صحیح]۔دکتور محمدبن ہادی الشیبانی نے بھی اس روایت کو حسن قراردیا ہے ، دیکھئے : [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية :ص 384 ]۔

فائدہ:
محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ کی گواہی سے معلوم ہوا کہ یزید بن معاویہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے تھے ان کے پاس احادیث بھی تھیں لیکن یہ اور بات ہے کہ انہوں نے احادیث روایت نہیں کی جس طرح اویس قرنی رحمہ اللہ نے بھی احادیث روایت نہیں کی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یزید کی توثیق کی ایک اور دلیل


یزید کے ثقہ وصدوق ومعتبر ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یزید کو خلافت کے لئے منتخب کیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی اسی طرح خلافت سے قبل غزوہ قسطنطنیہ میں بھی صحابہ نے انہیں امیر بنایا اوران کی ماتحتی میں جہاد کیا ۔
یادرہے کہ خلافت و امارت کے استحقاق کے لئے اہل علم نے جو شرطین بیان کی ہیں انہیں میں سے ایک شرط امیر کا عادل ومعتبر ہونا بھی ہے[الأحکام السلطانية لأبي يعلي الفراء ص: 22 وعام کتب احکام].۔یعنی یہ لازم ہے کہ امیر بنانے کے لئے اسی شخص کا انتخاب کیا جائے جو ثقہ وعادل ہو ۔ البتہ اگر کوئی غیرثقہ زبردستی امارت پر قبضہ کرلے تو گرچہ یہ اس کا اہل نہیں ہے لیکن اس کی مخالفت سے روکا گیا ہےاور اسے برداشت کرنے کی گنجائش دی گئ ہے لیکن انتخاب کے وقت اس بات کی قطعا گنجائش نہیں ہے کہ غیرثقہ وغیرعادل کو امارت وخلافت کے لئے منتخب کرلیا جائے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو خلافت وامارت کی ذمہ داری دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یزید بن معاویہ ثقہ وصدوق تھے ورنہ اس پہلو سے ان کے انتخاب پر اعتراض ضرور ہوتا لیکن ہم جانتے ہیں یزید بن معاویہ کی خلافت سے صرف گنتی کے دو اشخاص نے اختلاف کیا اور انہوں نے بھی اختلاف کی وجہ یزید کی نا اہلیت کو نہیں بتایا بلکہ وجہ یہ بتلائی کہ یزید موجودہ خلیفہ کے بیٹے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اب اصول ہی بن جائے کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ بنے گا ۔یعنی فی نفسہ یزید کی ثقاہت وعدالت سے کسی کو اختلاف نہ تھا۔بلکہ اختلاف باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ بنانے سے تھا۔
اس کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اگر اختلاف کی وجہ یزید کی ثٖقاہت وعدالت ہوتی تو قسطنطنیہ پرحملہ کے وقت بھی ان کی امارت پر اعتراض ہوتا لیکن تاریخ میں ہمیں کہیں نہیں ملتا کہ قسطنطنیہ میں یزید کوامارت دئے جانے پر کسی نے اختلاف کرتے ہوئے ایک حرف بھی کہا ہو۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
توثیق یزید کی مزید تائید


مؤمل بن اسماعیل کی توثیق کی تائید میں حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

زمانہ تدوین حدیث کے محدثین کرام نے ضعیف ومجروح راویوں پرکتابیں لکھی ہیں مثلا:
کتاب الضعفاء للامام البخاری
کتاب الضعفاء للامام النسائی
کتاب الضعفاء للامام ابی زرعہ الرازی
کتاب الضعفاء لابن شاہین
کتاب المجروحین لابن حبان
کتاب الضعفاء الکبیر للعقیلی
کتاب الضعفاء والمتروکین للدارقطنی
الکامل لابن عدی الجرجانی
احوال الرجال للجوزجانی
یہ سب کتابین ہماری پاس موجود ہیں (والحمدللہ) اوران میں سے کسی ایک کتاب میں بھی مؤمل بن اسماعیل پرجرح کا تذکرہ نہیں ہے گویا ان مذکورین کے نزدیک مؤمل پرجرح مردود یا ثابت نہیں ہے حتی کی ابن الجوزی نے کتاب الضعفاء والمتروکین (ج 3ص 31 ، 32 ) میں بھی مؤمل بن اسماعیل کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔[نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام: ص 36].

عرض ہے کہ بالکل یہی صورت حال یزید بن معاویہ سے متعلق بھی ہے درج بالاکتابوں میں سے کسی ایک میں بھی یزید بن معاویہ کا تذکرہ نہیں حتی کی ابن الجوزی نے کتاب الضعفاء والمتروکین میں بھی یزید بن معاویہ کا ذکر تک نہیں کیا ہے۔


فائدہ:
حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:
’’امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکین میں مؤمل کا تذکرہ موجود نہیں ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام دارقطنی نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا ہے‘‘ [علمی مقالات ج 1 ص 419]۔
عرض ہے کہ اس اصول کے تحت ابن الجوزی کا رجوع بھی ثابت ہوگیا کیونکہ ابن الجوزی نے یزید کے خلاف لکھی گئی کتاب میں یزید پرجرح کی ہے لیکن خاص ضعفاء ومتروکین پر لکھی گئی اپنی کتاب میں یزیدبن معاویہ کا تذکرہ تک نہیں کیاہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ابن الجوزی نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جارحین کا بے بنیاد کلام

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
جیساکہ اوپربتایا جاچکا ہے کہ کسی راوی پرجرح کی اصل بنیاد اس کی مرویات ہی ہوتی ہے اور یزید نے چونکہ احادیث کی روایت میں حصہ لیا ہی نہیں اس لئے اس کی روایات کی بنیاد پر یزید کی عدالت و ضبط پر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ۔یہی معاملہ اویس قرنی رحمہ اللہ کا ہے جیساکہ تفصیل گذرچکی ہے۔
جب یہ بات صاف ہوگئی کی یزید پرجرح کی لئے اس کی مرویات کودلیل بنانے کے گنجائش نہیں ہے تو ظاہر ہے اب اس پر جرح کرنے کا حق صرف اسی کو ہے جو یزید کے دورکا ہے اور اس کے کسی عیب کا چشم دید گواہ ہے ۔
یا بعد میں اس پر کوئی جرح کررہا ہے تو اس کے پاس یزید کا کوئی عیب صحیح سند کے ساتھ مع ثبوت پہنچا ہو اس کے بغیر بعد کے لوگوں کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ۔

اس اصولی بات کی وضاحت کے بعد عرض ہے کہ امام احمدرحمہ اللہ نے یزید پر جرح کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ اس نے مدینہ میں لوٹ مار کیا ۔
عرض ہے کہ لوٹ مار کی بات بسندصحیح ثابت ہی نہیں اورامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی ہے اس لئے اصل بنیاد منہدم ہونے کے سبب یہ جرح بھی منہدم ومردود اور غیرمقبول ہے۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ہمارا مضمون : ’’یزید بن معاویہ سے متعلق امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنے سابق موقف سے رجوع‘‘۔

اوراگربالفرض یہ تسلیم بھی کرلیں کہ یزید کی فوج میں سے کچھ لوگوں نے مدینہ میں لوٹ مار کیا تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ایسا یزید کے حکم سے ہوا ۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آپ کے لشکر کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بعض کو بلاوجہ قتل کردیا تھا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اظہار برات کیا ۔دیکھئے صحیح بخاری رقم 4339 ۔

اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے دور میں انہیں کے گروہ میں سے ایک شخص نے جنت کی بشارت یافتہ صحابی زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور ان کا سر کاٹ کے علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر لایا دیکھئے :[الطبقات الكبرى لابن سعد: 3/ 110 واسنادہ صحیح ، واخرجہ ایضا ابن عساکر من طریق ابن سعد بہ]۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ہوا۔

اسی طرح عمربن سعد کربلا میں لشکر کے کمانڈر تھے اور ان کے سامنے ہی حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا عمربن سعد کے حکم سے ہوا تھا اسی لئے محدثین نے عمربن سعد کو ثقہ وصدوق تسلیم کیا اورابن معین نے جب انہیں اس وجہ سے غیرثقہ کہا کہ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے تو ابن معین رحمہ اللہ کی اس بات کر رد کردیا گیا کیونکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایسا عمربن سعد کے حکم سے ہوا ۔

الغرض یہ کہ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ مدینہ میں تھوڑی بہت لوٹ مار ہوئی تو بھی اس کے لئے یزید ذمہ دار نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے یزید پر جرح کے لئے جس چیز کو بنیاد بنایا ہے وہ ثابت ہی نہیں یہ وجہ ہے کہ بعد میں خود امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اس جرح سے رجوع کرلیا تفصیل کے لئے دیکھے ہمارا مضمون :''یزید بن معاویہ سے متعلق امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنے سابق موقف سے رجوع''۔

امام ذہبی رحمہ اللہ
آپ نے کہا:
يزيد بن معاوية بن أبي سفيان الأموي. روى عن أبيه. وعنه ابنه خالد، وعبد الملك بن مروان. مقدوح في عدالته. ليس بأهل أن يروى عنه. وقال أحمد بن حنبل: لا ينبغي أن يروي عنه. [ميزان الاعتدال للذهبي: 4/ 440]۔

عرض ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی امام احمدہی کے قول کو اپنی تائید میں پیش کیا ہے جس کی وضاحت کی جاچکی ہے ۔
اسی طرح اپنی دوسری کتاب میں امام ذہبی رحمہ اللہ یزید کو شرابی کہا ہے جس سے اشارہ ملتاہے کہ اس بات سے بھی امام ذھبی نے استدلال کیا ہے اور ظاہر ہے کہ یزید کے شراب پینے والی بات اسی طرح دیگر الزامات محض گپ اورجھوٹ ہیں یعنی اصل بنیاد ہی ثابت نہیں اس لئے غیرثابت بنیاد پرقائم جرح بھی مردود ہے۔

علاوہ بریں خود امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
ويزيد ممن لا نسبه ولا نحبه، وله نظراء من خلفاء الدولتين، وكذلك في ملوك النواحي، بل فيهم من هو شر منه
یعنی یزید ان لوگوں میں سے ہے جسے نہ ہم برا کہتے ہیں اور جس سے نہ ہم محبت کرتے ہیں اوربعد کے خلفاء وبادشاہوں میں اس طرح کے اور بھی کئی لوگ ہیں بلکہ ان میں کئی لوگ ایسے ہیں تو یزید سے کہیں زیادہ برے ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 4/ 36]۔

معلوم ہوا کہ امام ذہبی کی طرف سے سکوت والے موقف اور ان کی جرح میں تعارض ہے کیونکہ جرح کی بنیاد یزید کو برا بھلا کہنے والی باتیں ہیں لہذا خود امام ذہبی رحمہ اللہ کے اصول سے ان کی جرح منسوخ ہے یا پھر سکوت والی بات سے ٹکرا کر ان کا دونوں قول ساقط ہوگیا جیساکہ خود انہوں نے ہی یہ اصول پیش کیا ہے۔چنانچہ آپ نے کہا:
وقال ابن حبان: فحش خلافه للاثبات فاستحق الترك.وقال أبو حاتم الرازي: ليس عندي بمنكر الحديث، ليس بحديثه بأس.قلت: وروى عنه ابنه عبدالله، وذكره أيضا ابن حبان في الثقات فتساقط قولاه.[ميزان الاعتدال 2/ 552]۔

اس اصول سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا دونوں موقف ایک دوسرے سے ٹکرا کر ساقط ہوگیا۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ
آپ نے تقریب میں لکھا:
ليس بأهل أن يروى عنه [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم7777]۔

عرض ہے کہ یہ ہوبہو وہی الفاظ ہیں جو امام ذہبی نے لکھے ہیں معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی ہی کا قول یہاں پیش کیا ہے اور اوپر وضاحت کی جاچکی ہے کہ اس قول کی بنیاد ثابت نہیں ہے لہٰذا اصل بنیاد منہدم ہونے کے سبب یہ جرح بھی منہدم ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خلاصہ بحث

جرح وتعدیل کے اعتبار سے یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کی مثال اویس قرنی رحمہ اللہ ہی کی طرح ہے راجح قول کے مطابق ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی احادیث بیان کرنا بسند صحیح ثابت نہیں ہے۔یہ اور بات ہے کہ ان حضرات کو احادیث کا بخوبی علم تھا۔
اب رہ جاتی ہیں معاصرین کی شہادتیں تو ان شہادتوں کی بنیاد پر اویس قرنی رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں اور یزید بن معاویہ رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں ۔اوررہی یزید سے متعلق شراب نوشی لوٹ مار وغیرہ کی باتیں تو یہ سب سبائیوں کی گھڑی ہوئی خرافات ہیں ان میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بہت زبردست۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top