• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ رحمہ الله کا اہل بیت سے حسن سلوک کی روایت پر ایک رافضی کا شیخ کفایت الله پر الزام

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله

محترم شیخ کفایت الله سنابلی صاحب - امید ہے آپ خیریت سے ہونگے -

پیش کردہ مندرجہ ذیل روایت پر کسی رافضی یا نیم رافضی نے آپ پر کچھ رکیک قسم کے اعتراضات کیے ہیں ( جو مجھے فیس بک پر ملے) - آپ سے ان کا تسلی بخش جواب درکار ہے-

روایت :

وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ دَخَلْنَا الْكُوفَةَ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ، فَدَخَلْنَا مَنْزِلَهُ فَأَلْحَفْنَا، فَنِمْتُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِحِسِّ الْخَيْلِ فِي الْأَزِقَّةِ، فَحَمَلْنَا إِلَى يَزِيدَ، فَدَمَعَتْ عَيْنُهُ حِينَ رآنا، وأعطانا ما شئنا، وقال لي: إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي قَوْمِكَ أُمُورٌ، فَلَا تَدْخُلَ مَعَهُمْ فِي شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَا كَانَ، كَتَبَ مَعَ مُسْلِمِ بْنِ عُقْبَةَ كِتَابًا فِيهِ أَمَانِي، فَلَمَّا فَرَغَ مُسْلِمٌ مِنَ الْحَرَّةِ بَعَثَ إِلَيَّ، فَجِئْتُهُ وَقَدْ كَتَبْتُ وَصِيَّتِي، فَرَمَى إِلَيَّ بِالْكِتَابِ، فَإِذَا فِيهِ: اسْتَوْصِ بِعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ خَيْرًا، وَإِنْ دَخَلَ مَعَهُمْ فِي أَمْرِهِمْ فَأَمِّنْهُ وَاعْفُ عَنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ فَقَدْ أَصَابَ وَأَحْسَنَ.


ترجمہ : علی بن حسین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب حسین رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے تو ہم کوفے میں پہنچے۔ ہم سے ایک آدمی نے ملاقات کی اور ہم اس کے گھر داخل ہوئے، اس نے ہمارے سونے کا بندوبست کیا اور میں سو گیا۔پھر گلیوں میں گھوڑوں کی آواز سے میری نیند کھلی، پھر ہم یزید بن معاویہ کے پاس پہنچائے گئے تو جب یزید نے ہمیں دیکھا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں ،یعنی وہ رو پڑے، پھر انھوں نے ہمیں وہ سب کچھ دیا، جو ہم نے چاہا اور مجھ سے کہا: آپ کے یہاں کچھ معاملات پیش آئیں گے، آپ ان لوگوں کے کسی معاملے میں شرکت مت کیجئے گا ۔پھر جب اہل مدینہ کی طرف سے یزید کی مخالفت ہوئی تو مسلم بن عقبہ کو یزید بن معاویہ نے خط لکھا، جس میں انہوں نے مجھے امان دی اور جب مسلم حرہ کے واقعے سے فارغ ہوئے تو مجھے بلوایا تو میں ان پاس حاضر ہوا اور میں اپنی وصیت لکھ چکا تھا تو انھوں نے مجھے وہ خط دیا جس میں لکھا ہوا تھا: علی بن حسین کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنا۔ اگر وہ اہل مدینہ کے معاملے میں شریک ہوجائیں تو بھی انہیں امان دینا اور انھیں معاف کر دینا اور اگر وہ ان کے ساتھ شریک نہ ہوئے تو یہ انھوں نے بہت اچھا اور بہتر کیا۔


اعتراضات:
ناصبی سنابلی غیرمقلد نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے
تاریخ الاسلام ط بشار(2/583) نقلا عن المدائنی ، و اسنادہ صحیح۔
یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر338-339

ناصبی سنابلی کا رد بلیغ
پہلے تو سنابلی کو شرم آنی چاہیے جو اس طرح کی سند کی تصحیح کر ڈالی وہ بھی بنا اصل کتاب کو دیکھے بنا۔

امام ذہبی کی پیدائش 673 ہجری کو ہوئی اور علامہ مدائنی کی وفات پر کئی قول موجود ہیں 215ھ، 224ھ، 225ھ 228 ھ، 234ھ سن وفات ذکر کتب رجال میں موجود ہے۔

لیکن سنابلی نے بنا کوئی مضبوط دلیل کے 215 ھ کو امام مدائنی کی وفات والے قول کو راجح قرار دے دیا۔
یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، صفحہ نمبر771

پھر بھی سند منقطع ہے کیونکہ امام ذہبی سے لے کر علامہ مدائنی تک سند کا کوئی اتا پتا نہیں۔

پھر سنابلی نے ایک نے نئی کہانی رچائی کہ امام ذہبی نے علامہ مدائنی کی کتاب سے نقل کرکے لکھا ہے لہذا امام ذہبی تک سند کا اعتراض ختم ہوا۔ اور علامہ مدائنی کی ایک کتاب الحرہ بھی ہے جس کا ذکر امام ابن جوزی نے کیا ہے یزید کی مذمت والی کتاب میں۔ اور امام بن عساکر نے بھی اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
ملاحظہ ہو یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ، ص 711-712))

الجواب
سچ کہتے ہیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے امام ذہبی نے روایت کو لکھتے وقت علامہ مدائنی کی کوئی کتاب کو ذکر نہیں کیا صرف یہی لکھا
وَقَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ:

تاریخ الاسلام ط بشار(2/583)
امام ابن جوزی نے منقطع سند کے ساتھ اس کتاب کا نام لیا
امام ابن الجوزی لکھتے ہیں:
ذکر المدائنی فی کتاب (الحرۃ) عن الزھری۔۔۔الخ (الرد علی المتعصب العنید، ص 67)
امام ابن جوزی نے بنا سند کے الحرہ کتاب کو علامہ مدائنی کی طرف منسوب کیا اور پتا نہیں یہ (بریکٹ) میں الحرۃ لفظ امام جوزی کا ہے یا اس کتاب کے محقق نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے؟؟؟

اور علامہ مدائنی کی اس کتاب کو روایت کرنے والا کون ہے ثقہ ہے غیر ثقہ ہے اس بات کا کچھ پتہ نہیں۔

امام ابن عساکر نے بغیر کوئی سند کے الحرۃ کتاب کو علامہ مدائنی کی طرف منسوب کیا ہے لہذا امام ابن عساکر تک بھی اس کتاب کی صحیح یا حسن سند ثابت نہیں۔

مخارق الكلبي له ذكر في كتاب الحرة كان في من وجهه يزيد إلى أهل المدينة مع مسرف بن عقبة المري واستعمله مشرف على ميسرة جيشه وقد تقدم ذكر ذلك في ترجمة طريف بن الخشخاش
(تاریخ دمشق لابن عساکر 57/132، رقم 7268)

لہذا سنابلی کا امام ذہبی امام جوزی اور ابن کثیر سے دلیل پکڑنا باطل ہے
 
Last edited:
Top