• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ سے متعلق راجح موقف درکار ہے؟؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
اس بات سے واقعی بڑی کوفت ہوتی ہے کہ ایک ہی موضوع مختلف مقامات پر زیر بحث رہتا ہے یا کسی نہ کسی طرح کهینچ تان کر لایا جاتا ہے. عموما دیکها گیا ہے کہ چند مخصوص افراد ہر جگہ اپنی ہٹ کیے رہتے ہیں.

ایک پوسٹ میں ایک شعر درج کیا گیا ہے مولانا محمد علی جوہر کا. اس سے کبهی کبهی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جو اقدام کیا اس کے پیچهے جو محرکات تهے وہ کون سے تهے؟ لوگوں کے اپنے حسن ظن محسوسات اور تاویلات کے علاوہ کچه ایسے شواہد بهی پائے جاتے ہیں جن سے یہ پتہ چلے کہ اسلام زندہ کرنے کا اقدام تها....... اور پہر جب یہ پورا قافلہ کربلا میں ناکام ہوگیا تو اسلام زندہ کیسے ہوا.؟
ایک بات یہ بهی ذہن میں آتی ہے کہ اگر حسین رضی اللہ عنہ ملوکیت کے خلاف خلافت کا اقتدار قائم کرنا چاہتے تهے تو وہ خلافت ہی کس نوع کی تهی یعنی کیا وہ موروثی قسم کی خلافت نہیں ہوتی یا وہ خلافت پر اپنا حق اس بنیاد پر نہیں سمجهتے تهے.
تاریخی ترتیب تو اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ حسن رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا ( یہ تو اٹل تها میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی تهی ) پهر اس کے بعد حسین رضی اللہ عنہ کی طرف نگاہیں تهیں.( ان سازشیوں کی جنہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے لیکر کئی صحابہ کا قتل اپنے لیے جائز کررکها تها اور جنهیں حسن رضی اللہ عنہ نے مایوس کردیا تها)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہی ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ یزید رحمہ اللہ کی خلافت موروثی تھی تو کیا یہی شبہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحریک خلافت سے پیدا نہیں ہوتا؟ کیوں کہ ان کا سفر کوفہ خلافت کے لیے ہی تھا اس پر دلائل موجود ہیں ۔
باپ کے بعد بیٹے کی حکومت کی ممانعت پر کوئی نص اگر ہے تو بیان کی جائے صرف سید نا عمر فاروق کا عمل علی اساس تقوی ممانعت پر دلیل نہیں بن سکتا بلکہ باپ کے بعد بیٹے کی حکومت اور اقتدار کی مثالیں قرآن مجید اور سیرت طیبہ اور خلفائے راشدین سے ثابت ہے
البتہ اس اعتبار سے جائزہ لیا جائے کہ یزید رحمہ اللہ میں اہلیت خلافت تھی یا نہیں ؟ کیونکہ اس امر کا تعلق صرف ایک صحابی سے ہی نہیں بلکہ بے شمار صحابہ سے جا ملتا ہے جن کے بارے میں ایک شبہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ فتنہ فساد سے بچنا چاہتے تھے گو کہ اس پر بھی تبصرہ کیا جا سکتا ہے
شیعیت نے سب سے بڑا کمال یہ کیا کہ ان دونوں شخصیات کو باہمی جوڑ دیا اور یہ تصور دیا کہ اگر یزید رحمہ اللہ کی تعریف کی جائے یا ان پر الزامات کو رد کرنے کی تحقیق کی جائے تو یہ حسین رضی اللہ عنہ کی توہین ہے یا حسین رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو مکمل اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب یزید رحمہ اللہ کو فاسق و فاجر یا کافر ثابت کیا جائے
اللہ کے بندو!
صحابی کا تابعی کے ساتھ کوئی جوڑ ہی نہیں ہے
حسین رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ان کی افضلیت مسلم ہے لا ریب فیہ
اور یزید رحمہ اللہ تابعی ہیں ان کا اپنا مقام ہے
البتہ جہاں ان دونوں کا تعارض واقع ہوا وہاں علمی مناقشہ کیا جائے لیکن شان حسن و حسین کے نام پر شیعیت کی ترویج نہ کی جائے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
قرآن اور سنت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ پچھلی شریعت میں اگر کوئی شرعی حکم موجود تھا تو اگر اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں جاری کیا تو وہ امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی حجت اور حکم ہے مثلا سنت ابراہیمی قتل ارتداد وغیرہ اور جس کو نہیں جاری کیا وہ چاہے پچھلی شریعت میں جائز ہو اب وہ ناجائز رہے گا جیسے تماثیل اور سجدہ تعظیمی وغیرہ اور جہاں تک بات ہے کہ قراں نے داود علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کے حکومت دی جس کو موروثی مانا جاتا ہے تو یہاں بھی وہی اصول کار فرما ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امت میں جاری کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کے جاری نہ کرنے کی یہی وجہ سمھ آتی ہے کہ قرآن نے جن کے بارے میں یہ بات موجود ہے وہ اللہ کے چنے ہوئے تھے اور اگر اس کو اس امت میں بھی جاری رکھا جاتا تو ضروری نہیں ہے کہ وہ نیک بھی ہو اس لئے سنت نبوی اور خلفاء راشدین سے ہمیں جو طریقہ کسی خلیفہ کو چنے کے لئے ملتےہیں فقط یہی ہیں
(1) امت کی شوری پر چھوڑ دیا جائے امت خود چنے گی( سب سے موزوں اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یہی ہے)
(2) اپنے بعد امت کے نیک آدمی کو بنایا جائے مگر اس پر بھی امت کے بہترین لوگوں سے شوری کی جائے۔(جیسا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا)
(3) کوئی کمیٹی بنا جائے کہ امت ان میں سے اپنا خلیفہ نامزد کر لے( جیسا عمر رضی اللہ عنہ نے کیا)
اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ سنت سے اور نہ خلفاء راشدین سے ثابت ہے اگر کوئی اس کے علاوہ بات کہتا ہے تو اس کے لئے صریح اورمستند روایت سے دلیل ہونی چاہئے۔
دوئم:
حسین رضی اللہ کے بارے میں کہ گمان کرنا کہ وہ اپنی حکومت کے لئے کھڑے ہوئے تھے وہ کتب احادیث کے ذخیرہ سے جو اس بارے میں موجود ہے اس سے ناپید ہے اور اسے حقیقت کا علم نہیں ہےکہ حسیں رضی اللہ عنہ کی تحریک حکومت کے لئے نہیں دین بچانے کے لئے تھی اور اس سے اسلام کیسے زندہ ہوا اس کے لئے ان احادیث کا مطالعہ ضروری ہے چند مثالیں حوالے کے ساتھ پیش ہیں
(1) عید کے خطبات نماز سے پہلے کیے جانے لگے۔(صحیح بخاری کتاب العیدین)
(2) نمازیں لیٹ پڑھائی جانے لگی(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
(3)حج میں تلبیہ پڑھنے سے روکا جانے لگا(سنن نسائی)
(4) علی رضی اللہ عنہ پر جمعہ اور عید کے خطبوں میں لعن کیا جانے لگا(نعوذ باللہ)(سنن ابو داود ،مسند احمد)
(5) سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین پر عمل ختم ہوتا جا رہا تھا۔ (سلسلہ احادیث الصحیحہ)
(6)زکوہ کا بے جا مصرف کیا جانے لگا( مصنف ابن ابی شیبہ ، اروء الغلیل للابانی)
(7) ظلم وجبر سے امت کو خاموش کروایا گیا( بخاری ، مسلم ،ابوداود)
(8) امت سے حق گوئی چھین لی گئی(فتح الباری مصنف ابن ابی شیبہ)
اج کے دور میں جب کہ ہر طرف بدعات نکالی جا رہی ہے تو ایک دین کی حمیت رکھنے والے مسلمان کا ان بدعات کو دیکھ کر خون جوش مارتا ہے تو جن کے گھر سے دین پھیلا تھا تو ان کے جوش کا عالم کیا ہو گا جب وہ اپنے نانا کے دین کو بدلتا دیکھ رہے تھے ان پر کیا گزرتی ہو گی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ہے۔
اور یہ اج ان کی قربانی ہے کہ ان کی یہ ساری بدعات کو امت کے اہل علم نے رد کر دیا وگرنہ اگر وہ بیعت کر لیتے تو پھر مہر لگ جانی تھی کہ خلیفہ راشد بھی جو کرے وہ سنت ہوتی ہے چنانچہ ان کے اس اقدام کی برکت ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی خلیفہ راشد نہیں کہا گیا سب ملوک ہی کہلائے ہیں۔ اللہ سب کو ہدایت دے۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
یزید پر لعنت اور نہ یزید سے محبت

ماخوذ از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫

ویسے تو ان نزاعات میں جتنی لمبی چاہیں بات کر لیں، یہ کبھی ختم ہونے میں نہ آئے گی۔ تاہم امت کے کچھ محققین ایسے ہیں جو نہ صرف اعتدال میں کمال ہیں، بلکہ اہل سنت کے مواقف کو جاننے اور نقل کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ ایسے ہی چنیدہ ناموں میں سے ایک ہیں۔ ائمہ کے مواقف کا استقصاء کرنے میں اس شخصیت کا جواب نہیں۔ مسئلۂ زیربحث پر افراط اور تفریط سے نکلنے کےلیے آئیے مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ سے ایک فصل پڑھیں۔

یزید کے معاملے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہیں: دو انتہائیں، اور تیسری راہِ وسط۔
دو انتہاؤں میں سے:
1. ایک کا کہنا ہے کہ یزید کافر تھا۔ منافق تھا۔ اسی نے نواسۂ رسول کے قتل کی تمام تر سعی کی، جس سے اس کا مقصد بھی رسول اللہ ﷺ سے اپنا بدلہ نکالنا تھا اور اپنے آباءو اجداد کا انتقام لینا اور اپنے نانا عتبہ اور نانا کے بھائی شیبہ اور ماموں ولید بن عتبہ وغیرہ کے خون کا حساب بے باک کرنا کہ جن کو نبیﷺ نے بدر کے روز علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تلواروں سے قتل کرایا تھا۔ اِس فریق کا کہنا ہے کہ یزید نے در اصل بدر کے بدلے چکائے تھے اور جاہلیت کے حسابات بے باک کئے تھے۔ اس فریق نے یزید کی زبان سے یہ شعر بھی کہلوائے ہیں:
لما بدت تلک الحمول وأشرفت تلک الرؤوس علی ربیٰ جیرونٖ
نعق الغراب، فقلت نح أو لا تنح فلقد قضیت من النبی دیونی
جس وقت وہ رخت ہائے سفر سامنے آئے اور وہ (نیزوں پر گاڑے ہوئے) سر جیرون کی چوٹیوں پر سے نظر آنے لگے، تب کوا نوحہ کرنے لگا۔ میں نے کہا نوحہ کر یا نہ کر، میں نے تو نبی (ﷺ) کے ساتھ اپنے قرض چکا لئے!
اس فریق کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس موقعہ پر یزید مستی میں آ کر ابن الزبعری کے یہ اشعار بھی گانے لگا جو زبعری نے اُحد میں مسلمانوں کو پچھاڑنے کے موقعہ پر گائے تھے:
لیت أشیاخی ببدر شھدوا جزع الخزرج من وقع الأسل
قد قتلنا الکثیر من أشیاخھم وعدلناہ ببدر فاعتدل
کاش میرے بڑے جو بدر میں مارے گئے آج دیکھ لیتے کہ کس طرح ہمارے نیزوں کی ضربوں سے خزرج کے لوگ تڑپتے پھر رہے ہیں۔ ہاں تو آج ہم نے اُن کے بڑوں کی ایک کثیر تعداد موت کے گھاٹ اتار ڈالی، اور ادلے کا بدلہ کر ڈالا۔ تو آج جاکر معاملہ برابر برابر ہوا۔
یہ فریق اسی طرح کی اور بہت سی باتیں بیان کرتا ہے۔
ایسی باتیں زبان پر لانا رافضہ کےلیے تو ویسے ہی بہت آسان ہے، جو کہ اس سے پہلے ابو بکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ کی تکفیر کر چکے ہوتے ہیں۔ اور ایسوں کےلیے ظاہر ہے یزید کی تکفیر کرنا کیا مسئلہ ہے؟!
2. دوسری انتہا پر چلے جانے والوں کا گمان ہے کہ یزید ایک صالح شخص تھا۔ امامِ عادل تھا۔ بلکہ ان ننھے صحابہ میں سے تھا جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں پیدا ہوئے تھے اور یہ کہ پیدائش کے بعد اس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، آنحضورﷺ نے اس کو گود میں اٹھایا اور برکت کی دعا دی! بلکہ ان میں سے بعض تو اس قدر آگے گئے کہ یزید کو ابو بکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت دی۔ کچھ تو اس کو نبی کہنے سے نہیں چوکے۔ یہ شیخ عدی یا حسن مقتول سے بھی ایک جھوٹا قول منسوب کرتے ہیں کہ: ستر ولی ایسے ہوئے جن کے چہرے موت کے وقت قبلہ سے پھیر کر دوسری طرف کر دیے گئے، اس لئے کہ (افضلیت) یزید کی بابت توقف کیا کرتے تھے!
عدویہ اور اکراد کے غالی طبقوں اور ان جیسے کچھ دیگر طوائف کا یہی مذہب ہے۔ یہ درست ہے کہ شیخ عدی بنی امیہ میں سے تھے۔ ایک صالح فاضل شخص تھے۔ مگر یہ بات کہیں پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی کہ شیخ عدی نے لوگوں کو سوائے اسی سنت راستے کے کسی اور چیز کی دعوت دی ہو جو کہ سبھی (اہلسنت) کی دعوت رہی ہے، مثلاً (ان کے دور کے بزرگ) شیخ ابو الفرج مقدسی۔ شیخ عدی کا وہی عقیدہ رہا ہے جو شیخ ابو الفرج مقدسی کا تھا، یعنی خالص سنت۔ لیکن ان لوگوں نے شیخ عدی کی نسبت سے سنت کے ساتھ اور بہت سی چیزیں شامل کر دیں، کہیں موضوع احادیث اور کہیں اللہ کی صفات میں تشبیہ۔ کہیں شیخ عدی اور یزید کے معاملہ میں غلو۔ کہیں پر روافض کی مذمت کی بابت شدید انداز کا غلو، یہاں تک کہ عقیدہ اختیار کر لینا کہ رافضی توبہ بھی کر لے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی! وغیرہ وغیرہ۔
اوپر جو دونوں انتہائیں بیان ہوئیں، ظاہر ہے وہ کسی بھی انسان کے نزدیک جو ذرہ بھر عقل کا مالک ہے اور دورِ سلف سے اور اس وقت کے امور سے ذرہ بھر واقف ہے اس پر ان دونوں انتہاؤں کا باطل ہونا آپ سے آپ واضح ہے۔ یہی وجہ ہے سنت پر پائے جانے والے معروف اہل علم میں سے کسی ایک کی بھی ان ہر دو انتہاؤں میں سے کسی ایک سے کوئی نسبت نہیں رہی۔ نیز سب عقلاءجو رائے رکھنے میں معتبر ہیں اور تاریخی روایات کھنگالنے میں تجربہ رکھتے ہیں ایسی کسی انتہا کی طرف نہیں گئے۔
تیسرا قول (جو کہ صحیح ہے اور وسط کی راہ ہے) یہ ہے کہ: یزید مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اس کی نیکیاں بھی ہیں، بدیاں بھی۔ یہ (دورِ نبوت میں نہیں) بلکہ خلافت عثمانؓ کے عہد میں پیدا ہوا۔ کافر نہیں تھا۔ مگر اس کے سبب سے قتل حسین رضی اللہ عنہ ایسا واقعہ رونما ہوا، اہل حرہ کے ساتھ بھی اس نے جو کیا وہ معروف ہے، یزید نہ صحابی ہے اور نہ اللہ کے نیک اولیاءمیں سے ہے۔ یہی قول اہل سنت و جماعت میں سے عام اہل عقل و اہل علم کا اختیار کردہ ہے۔
اس کے بعد یہ (یعنی تیسرا فریق) آگے مزید تین سمتوں میں تقسیم ہوا:
I. ایک طبقہ یزید پر لعنت کرنے کا قائل ہوا۔
II. ایک فریق یزید کے ساتھ محبت رکھنے کا قائل ہوا۔
III. اور ایک فریق (جوکہ وسط کی راہ ہے) نہ اس کو دشنام دینے کا قائل ہے اور نہ اس سے محبت رکھنے کا روادار۔ یہ تیسرا قول ہی امام احمدؒ سے منصوص ہے۔ اسی پر امام احمدؒ کے تلامذہ و اصحاب میں سے اہل اعتدال پائے گئے اور اسی پر دوسرے مذاہب کے اعتدال والے طبقے رہے ہیں۔
امام احمدؒ کے بیٹے صالح بن احمد روایت کرتے ہیں: میں نے اپنے والد سے کہا: کچھ لوگوں کا مذہب ہے کہ وہ یزید سے محبت رکھیں گے۔ والد صاحب (امام احمد) نے جواب دیا: بیٹے! کیا کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یزید سے محبت کا روادار ہو سکتا ہے؟ میں نے عرض کی: ابا جان! تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟ والد صاحب (امام احمد) نے جواب دیا: بیٹے! تو نے اپنے باپ کو کسی کو بھی لعنت کرتے ہوئے کب دیکھا ہے؟
مہنا روایت کرتے ہیں: میں نے امام احمد سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کی بابت پوچھا تو امام احمدؒ نے جواب دیا: وہی تو ہے جس نے اہل مدینہ کا حشر کیا ۔ میں نے عرض کی: اس نے اہل مدینہ کے ساتھ کیا کیا؟ فرمایا: لوٹ مار مچائی۔ میں نے پوچھا تو کیا اس سے حدیث روایت کی جائے گی؟ فرمایا: اس سے ہرگز حدیث روایت نہیں کی جائے گی۔ قاضی ابو یعلی نے (امام احمد سے) یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے۔
امام ابو محمد مقدسیؒ سے جب یزید کی بابت دریافت کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا: جو چیز مجھے (سلف سے) پہنچی ہے وہ یہی ہے کہ: نہ اس پر دشنام اور نہ اس کے ساتھ محبت۔
یزید اور اس جیسے دیگر لوگوں کی بابت یہی قول سب سے زیادہ عدل اور صحت پر مبنی قول ہے۔
جہاں تک یزید پر دشنام اور لعنت بھیجنے سے اجتناب کا معاملہ ہے تو وہ اس بنا پر کہ (ان اہل علم کے نزدیک) اس کا کوئی ایسا فسق ثابت نہیں ہوا جو اس پر لعنت کا متقاضی ہو۔ یا پھر اس بنا پر کہ ایک فاسق شخص کو متعین کر کے اس پر لعنت نہیں کی جائے گی، کوئی عالم اس کی "تحریم" کا قائل ہونے کے باعث اس سے احتراز کرے گا تو کوئی عالم اس کی "تنزیہ" کا قائل ہونے کے باعث۔ کیونکہ صحیح بخاری میں بروایت عمرؓ حمار نامی ایک شخص کے قصہ میں آتا ہے، جس کو شراب خوری کے مقدمہ میں بار بار لایا جاتا اور کوڑے لگتے، کہ جب ایک صحابی نے اس پر لعنت کی تو نبیﷺ نے اس کو منع کرتے ہوئے فرمایا: "اس پر لعنت مت کرو، کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے"۔ علاوہ ازیں ایک متفق علیہ حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا: لعن المؤمن کقتلہ "مومن پر لعنت کرنا بھی ایسا ہی جیسا کہ اس کو قتل کرنا"۔ جبکہ ہم جانتے ہیں نبیﷺ نے ایک عمومی معنیٰ میں شراب اور شراب خور ہر دو پر لعنت فرمائی ہے۔ جبکہ اس مذکورہ بالا حدیث میں جس لعنت سے ممانعت ہوئی وہ کسی شخص کو متعین کر کے لعنت کرنے سے متعلق ہے۔ اس کا معاملہ ان نصوص جیسا ہی ہے جن میں شریعت نے یتیموں کا مال کھانے والے شخص یا زانی یا چور کو کوئی وعید سنائی ہے۔ پھر بھی ہم کسی شخص پر جو ایسے کسی جرم میں ملوث پایا گیا ہو، اس کو متعین کر کے یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ اہل جہنم میں سے ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک نص کا اقتضاءکسی دوسری نص کے اقتضاءکے ساتھ متعارض ہونے کے باعث ٹل جائے۔ مثلاً کسی کا توبہ کر لینا۔ ایسی نیکیاں کر لینا جو برائیوں کو مٹا ڈالیں۔ یا مصائب جو آدمی کےلیے کفارہ بن جائیں۔ یا کوئی شفاعت جو خدا کے ہاں قبول ٹھہرے۔ وغیرہ وغیرہ۔
یزید پر لعنت کے قائل اہل علم میں سے ایک تعداد ایسی ہے جو اس لعنت کو مباح جانتے ہوئے اس بات کی قائل ہے کہ کوئی شخص اگر یزید پر لعنت نہیں کرتا تو وہ ایسا ہی ہے کہ کوئی آدمی کسی مباح فضول گوئی کو ترک کر کے رہے۔ نہ کہ اس باب سے کہ اس پر لعنت کرنا مکروہ ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ یزید کے ساتھ محبت نہیں رکھی جائے گی، تو وہ اس بنا پر کہ محبتِ خاصہ تو رکھی جاتی ہے نبیوں کے ساتھ، صدیقین کے ساتھ، شہداءکے ساتھ اور صالحین کے ساتھ۔ جبکہ یزید ان چاروں اصناف میں نہیں آتا۔ نیز رسول اللہﷺ نے فرما رکھا ہے: المرءمع من أحب "آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ اس کی محبت ہو" اب جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے کبھی یہ اختیار نہیں کرے گا کہ وہ یزید کے ساتھ ہو یا اس جیسے دیگر بادشاہوں کے ساتھ ہو جو عادل نہیں ہیں۔
اہل علم کا یہ موقف کہ یزید کے ساتھ محبت نہیں رکھی جائے گی، دو بنیادوں پر قائم ہے:
پہلی یہ کہ: یزید سے کوئی ایسے صالح اعمال صادر نہیں ہوئے جو اس کے ساتھ محبت کا موجب ہوں۔ لہٰذا وہ جبراً مسلط کئے گئے بادشاہوں ایسا ایک بادشاہ رہ جاتا ہے۔ اِس نوع کے اشخاص سے محبت کرنا شریعت کا تقاضا نہیں ہے۔
دوسری یہ کہ: یزید سے ایسے اعمال سرزد ہوئے جو اس کو ظالم اور فاسق ٹھہرانے والے ہیں، خصوصاً قتل حسین رضی اللہ عنہ اور واقعۂ اہل حرہ۔
٭٭٭٭٭
اہل علم میں سے وہ بزرگ جنہوں نے یزید پر لعنت کی ہے، مانند ابو الفرج بن الجوزی اور کیا ہراسی { ابو الحسن علی بن محمد بن علی طبری، بہ لقب عماد الدین، شافعی فقیہ، جن کا تعلق طبرستان سے تھا، بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں تدریس کے منصب پر فائز رہے، پیدائش 354ھ، وفات بغداد میں 405ھ۔ } وغیرہ، تو اس کی ان کے نزدیک تین بنیادیں ہو سکتی ہیں:
o یا تو یہ بنیاد یہ اختیار کرتے ہوئے کہ یزید سے ایسے افعال صادر ہوئے ہیں جو اس پر لعنت کو مباح ٹھہراتے ہیں۔
o یا پھر وہ اس بات کے قائل ہیں کہ یزید فاسق ہے اور ہر فاسق پر لعنت جائز ہے۔
o اور یا وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ایک بدی کرنے والے شخص پر لعنت کرنا جائز ہے اگر چہ اس پر فاسق ہونے کا حکم نہ بھی لگایا گیا ہو، جیسا کہ اہل صفین کی بابت آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر قنوت کرتے رہے تھے؛ چنانچہ علیؓ اور ان کے اصحاب اہل شام میں سے کچھ لوگوں کو متعین ٹھہرا کر ان پر لعن کرتے رہے تھے، اسی طرح اہل شام بھی فریق دیگر کے لوگوں پر لعن کرتے رہے تھے۔ حالانکہ (یہ ایک علمی مسئلہ ہے کہ) تاویل سائغ رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ قتال میں ملوث ہو جانے والے مسلمان خواہ وہ عادل ہوں یا باغی، ان میں سے کسی کو فاسق نہیں ٹھہرایا جاتا۔ یا پھر ایک آدمی کے کچھ نہایت سنگین گناہوں کے باعث اس پر لعنت کر دی جاتی ہے اگرچہ آدمی سب کے سب فاسق لوگوں پر لعنت نہ بھی کرنے والا ہو، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل معاصی میں سے کچھ انواع پر لعنت فرمائی یا نافرمانوں میں سے کچھ خاص نافرمانوں پر لعنت فرمائی اگرچہ آپ نے سب اہل معاصی اور سب نافرمانوں پر لعنت نہ بھی فرمائی ہو۔
تو یہ تین بنیادیں ہوئیں ان علماءکے نزدیک جو یزید پر لعنت کے قائل ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
رہا اہل علم کا دوسرا فریق جوکہ یزید کے ساتھ محبت رکھنے کا قائل ہوا ہے مانند غزالیؒ اور دستیؒ وغیرہ، تو یہ رائے رکھنے کے معاملہ میں اس فریق کی یہ دو بنیادیں ہیں:
پہلی یہ کہ: یزید مسلمان ہے۔ عہدِ صحابہؓ میں امت کا ولی امر رہا ہے اور صحابہؓ میں سے جو لوگ اس کے عہد تک رہ گئے تھے وہ اس کی امارت میں رہے ہیں۔ نیز اس کے اندر اچھے خصائل بھی تھے۔ رہ گیا واقعۂ حرہ اور دیگر امور جن کی بنیاد پہ یزید پر نکیر ہوتی ہے تو ان معاملات میں وہ تاویل رکھتا تھا۔ چنانچہ اس فریق کا قول ہے کہ یزید مجتہد مخطی ٹھہرتا ہے۔ اس فریق کا کہنا ہے کہ خود اہل حرہ ہی نے بیعت توڑنے میں پہل کی تھی اور اس پر عبد اللہ بن عمرؓ نے اُن پر نکیر بھی کی تھی۔ رہ گیا قتلِ حسینؓ تو یزید نے اس کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ وہ اس پر راضی ہوا تھا، بلکہ اس کی جانب سے اِس پر اظہار درد ہوا تھا، جن لوگوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یزید نے ان کی مذمت کی تھی، نیز حسین رضی اللہ عنہ کا سر بھی یزید کے پاس نہیں لایا گیا بلکہ ابن زیاد کے پاس لایا گیا تھا۔
دوسری یہ کہ: صحیح بخاری کی حدیث سے بروایت عبد اللہ بن عمرؓ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: أول جیش یغزو القسطنطینیة مغفور لہ "وہ پہلا لشکر جو قسطنطنیہ پر یورش کرے گا، بخشا جائے گا"۔ جبکہ وہ پہلا لشکر جس نے قسطنطنیہ پر یورش کی، اس کا امیر یزید تھا۔
٭٭٭٭٭
مبنی بر تحقیق بات البتہ یہی ہے کہ: ہر دو فریق کے قول میں اجتہادِ سائغ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اعمال بد کرنے والوں پر (معین کر کے) لعنت کرنے کا مسئلہ (کوئی متفق علیہ مسئلہ نہیں بلکہ) اس کے اندر اجتہاد کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایسے شخص کی محبت کا مسئلہ ہے جس کے ہاں حسنات اور سیئات ہر دو پائی گئی ہوں۔ بلکہ ہمارے ہاں یہ کوئی امرِ محال نہیں کہ ایک ہی شخص میں ستائش اور مذمت ہر دو کے اسباب جمع ہوں۔ ثواب اور عذاب ہر دو کے موجبات جمع ہوں۔ کسی حوالے سے ایک آدمی کی نمازِ جنازہ پڑھ لینا اور اس کےلیے دعائے خیر کر دینا بھی جائز ہو اور کسی دوسرے حوالے سے اس کو لعنت اور سب و شتم کا محل بھی ٹھہرایا جائے۔
در اصل اہل سنت کے ہاں قاعدہ یہ ہے (اور بالاتفاق ہے) کہ اہل ملت میں سے جو فساق ہیں اگر وہ دوزخ میں چلے جائیں یا دوزخ میں جانے کے سزاوار قرار پائیں تو بھی وہ کبھی نہ کبھی جنت میں داخل ہونے والے ہیں۔ چنانچہ ایک ہی شخص کے معاملہ میں ثواب اور عذاب ہر دو مجتمع ہو سکتے ہیں اور ان دو باتوں کے اندر کوئی تعارض نہیں۔ البتہ خوارج اور معتزلہ اس اصول کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ثواب کا مستحق ہے وہ عذاب کا سزاوار نہیں اور جو عذاب کا سزاوار ہے وہ ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ عقیدہ کا یہ ایک مشہور مسئلہ ہے اور اس کا مفصل بیان کسی اور مقام پر ہی ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
رہ گیا مسئلہ دعائے خیر اور دعائے بد کا، تو اس کی تفصیل جنائز کے باب میں ہے۔ چنانچہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ مسلمانوں کے فوت شدگان کا، خواہ کوئی نیکوکار ہو یا بدکار، جنازہ تو پڑھا جاتا ہے(جو کہ دعائے استغفار ہی ہوتی ہے)۔ البتہ ایک فاجر بدکار پر لعنت بھی کی جاتی ہے، کوئی اس کو متعین کر کے لعنت کر دیتا ہے تو کوئی اس کی نوع پر (یعنی "اس جیسوں" پر لعنت کر دیتا ہے)۔ گو اول الذکر زیادہ اعتدال پر مبنی ہے۔ یہی جواب میں نے (ابن تیمیہؒ نے) مغل بادشاہ بولائی خان کے سپہ سالار کے روبرو دیا، جب مغل لشکر بغداد پر چڑھائی کےلیے پیش قدمی کرتے ہوئے دمشق آگئے تھے، تب میرے اور اس کے مابین گفتگو کے کچھ دور چلے تھے۔ اس نے مجھ سے جو سوالات پوچھے ان میں یہ بھی تھا کہ: تم لوگ یزید کی بابت کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: نہ ہم اس کو دشنام دینے والے ہیں اور نہ اس سے محبت کرنے والے۔ کیونکہ وہ کوئی صالح انسان نہیں تھا جس سے ہم محبت کریں۔ البتہ مسلمانوں میں سے ہم کسی شخص کو متعین کرکے دشنام بھی نہیں دیتے۔ مغل بادشاہ بولا: کیا تم اس پر لعنت نہیں کرتے؟ کیا وہ ظالم نہیں تھا؟ کیا وہ حسینؓ کا قاتل نہیں؟ میں نے جواب دیا: ہمارے سامنے جب کسی ظالم کا ذکر ہو، جیسے حجاج بن یوسف یا اس جیسے دیگر، تو اس موقعہ پر ہم ویسے ہی الفاظ بولنا مناسب جانتے ہیں جیسے قرآن میں مذکور ہوئے: أَلاَ لَعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (ہود: 18) یعنی "خبردار ظالموں پر اللہ کی لعنت"۔ البتہ ہم کسی شخص کو متعین کر کے لعنت نہیں بھیجتے۔ اگرچہ علماءمیں سے ایک جماعت یزید پر لعنت کرتی ہے، اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اندر اجتہادات کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ تاہم پہلا قول ہمیں زیادہ پسند ہے اور ہمارے نزدیک بہتر نظر آتا ہے۔ ہاں جس کسی نے حسینؓ کو قتل کیا ہے اس پر لعنت ہو اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی۔ نہ اللہ اس سے کوئی تاوان قبول کرنے والا ہے اور نہ کوئی معاوضہ۔
مغل افسر بولا: تو کیا تم اہل بیت سے محبت نہیں کرتے؟ میں نے جواب دیا: اہل بیت کی محبت ہمارے نزدیک فرض ہے۔ واجب ہے۔ اور ثواب کا موجب ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں صحیح مسلم کی حدیث بروایت زید بن ارقم پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ: رسول اللہﷺ نے مکہ اور مدینہ کے مابین خم نامی ایک کنویں (غدیر) پر ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: "اے لوگو! میں تم میں دو امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب اللہ، آپ نے کتاب اللہ کا ذکر کیا اور اس پر نہایت زور دیا، پھر کہا: اور میرا کنبہ میرے اہل بیت، میں تمہیں اپنے اہل بیت کی بابت اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کی بابت اللہ کی یاد دلاتا ہوں"۔ میں نے سپہ سالا سے کہا: اور ہم روزانہ نماز کے اندر یہ کہتے ہیں: اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم انک حمید مجید، وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ سپہ سالار بولا: تو پھر اہل بیت سے بغض کرنے والے کون ہیں؟ میں نے جواب دیا: جو اہل بیت سے بغض رکھے اس پر لعنت ہو اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی، اللہ نہ اس سے کوئی تاوان قبول کرے اور نہ کوئی معاوضہ۔
تب میں نے وہاں بیٹھے ہوئے مغل وزیر سے پوچھا کہ اس سپہ سالار نے ہم سے یزید کی بابت سوال کیوں کیا، جبکہ یہ تاتاری ہے؟ تو اس نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے اس کو کہا تھا کہ اہل دمشق نواصب ہیں۔ تب میں نے آواز اونچی کر کے کہا: جس شخص نے یہ کہا ہے جھوٹا ہے، اور جو شخص اس بات کا قائل ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اللہ کی قسم اہل دمشق میں کوئی نواصب نہیں، میں نے ان میں کوئی ایک بھی ناصبی نہیں دیکھا، اور اگر کوئی شخص دمشق میں کھڑا ہو کر علی رضی اللہ عنہ کی عیب جوئی کرے تو سب مسلمان اس پر پل پڑیں۔ ہاں پہلے کسی زمانے میں ایسا تھا جب بنو امیہ اس ملک کے والی ہوا کرتے تھے اور بنو امیہ میں سے بعض نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ دشمنی اور آپؓ پر تبرا کرنے کا انداز اختیار کیا تھا۔ آج البتہ دمشق کے اندر ان میں سے کوئی باقی نہیں۔

(ماخوذ از مجموع فتاویٰ امام ابن تیمیہ جلد 4 ص 481 تا 488

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
میں یہ تو سوال کر رہا ہوں کہ ان روایات کو اکٹها کر دیجیے جس میں سیدنا حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے کهڑے ہونے کا مقصد صاف اور صریح الفاظ میں بیان کیا ہو. کسی کی تاویلات و تشریحات اور گمان یا ظن سے سروکار نہیں ہے.
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم اس میں ظن و گمان اور تاویلات کی کیا بات ہے حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی یہ مسلمہ بات ہے اور حکومت ان سے بیعت کروانا چاہتی تھی جیسا بخاری میں بھی درج ہے اس میں بھی دو رائے نہیں ہے تو وہ اس کو مان لیتے تو بات ہی ختم تھی اس باطل نظام کو مان لیا اور یہ روایت اس کی تشریح کرتی اگر اس کا کوئی اور مفہوم بنتا ہے تو اپ بتا دو۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یزید پر لعنت اور نہ یزید سے محبت

ماخوذ از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫

ویسے تو ان نزاعات میں جتنی لمبی چاہیں بات کر لیں، یہ کبھی ختم ہونے میں نہ آئے گی۔ تاہم امت کے کچھ محققین ایسے ہیں جو نہ صرف اعتدال میں کمال ہیں، بلکہ اہل سنت کے مواقف کو جاننے اور نقل کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ ایسے ہی چنیدہ ناموں میں سے ایک ہیں۔ ائمہ کے مواقف کا استقصاء کرنے میں اس شخصیت کا جواب نہیں۔ مسئلۂ زیربحث پر افراط اور تفریط سے نکلنے کےلیے آئیے مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ سے ایک فصل پڑھیں۔

یزید کے معاملے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہیں: دو انتہائیں، اور تیسری راہِ وسط۔
دو انتہاؤں میں سے:
1. ایک کا کہنا ہے کہ یزید کافر تھا۔ منافق تھا۔ اسی نے نواسۂ رسول کے قتل کی تمام تر سعی کی، جس سے اس کا مقصد بھی رسول اللہ ﷺ سے اپنا بدلہ نکالنا تھا اور اپنے آباءو اجداد کا انتقام لینا اور اپنے نانا عتبہ اور نانا کے بھائی شیبہ اور ماموں ولید بن عتبہ وغیرہ کے خون کا حساب بے باک کرنا کہ جن کو نبیﷺ نے بدر کے روز علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور حمزہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تلواروں سے قتل کرایا تھا۔ اِس فریق کا کہنا ہے کہ یزید نے در اصل بدر کے بدلے چکائے تھے اور جاہلیت کے حسابات بے باک کئے تھے۔ اس فریق نے یزید کی زبان سے یہ شعر بھی کہلوائے ہیں:
لما بدت تلک الحمول وأشرفت تلک الرؤوس علی ربیٰ جیرونٖ
نعق الغراب، فقلت نح أو لا تنح فلقد قضیت من النبی دیونی
جس وقت وہ رخت ہائے سفر سامنے آئے اور وہ (نیزوں پر گاڑے ہوئے) سر جیرون کی چوٹیوں پر سے نظر آنے لگے، تب کوا نوحہ کرنے لگا۔ میں نے کہا نوحہ کر یا نہ کر، میں نے تو نبی (ﷺ) کے ساتھ اپنے قرض چکا لئے!
اس فریق کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس موقعہ پر یزید مستی میں آ کر ابن الزبعری کے یہ اشعار بھی گانے لگا جو زبعری نے اُحد میں مسلمانوں کو پچھاڑنے کے موقعہ پر گائے تھے:
لیت أشیاخی ببدر شھدوا جزع الخزرج من وقع الأسل
قد قتلنا الکثیر من أشیاخھم وعدلناہ ببدر فاعتدل
کاش میرے بڑے جو بدر میں مارے گئے آج دیکھ لیتے کہ کس طرح ہمارے نیزوں کی ضربوں سے خزرج کے لوگ تڑپتے پھر رہے ہیں۔ ہاں تو آج ہم نے اُن کے بڑوں کی ایک کثیر تعداد موت کے گھاٹ اتار ڈالی، اور ادلے کا بدلہ کر ڈالا۔ تو آج جاکر معاملہ برابر برابر ہوا۔
یہ فریق اسی طرح کی اور بہت سی باتیں بیان کرتا ہے۔
ایسی باتیں زبان پر لانا رافضہ کےلیے تو ویسے ہی بہت آسان ہے، جو کہ اس سے پہلے ابو بکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ کی تکفیر کر چکے ہوتے ہیں۔ اور ایسوں کےلیے ظاہر ہے یزید کی تکفیر کرنا کیا مسئلہ ہے؟!
2. دوسری انتہا پر چلے جانے والوں کا گمان ہے کہ یزید ایک صالح شخص تھا۔ امامِ عادل تھا۔ بلکہ ان ننھے صحابہ میں سے تھا جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں پیدا ہوئے تھے اور یہ کہ پیدائش کے بعد اس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، آنحضورﷺ نے اس کو گود میں اٹھایا اور برکت کی دعا دی! بلکہ ان میں سے بعض تو اس قدر آگے گئے کہ یزید کو ابو بکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت دی۔ کچھ تو اس کو نبی کہنے سے نہیں چوکے۔ یہ شیخ عدی یا حسن مقتول سے بھی ایک جھوٹا قول منسوب کرتے ہیں کہ: ستر ولی ایسے ہوئے جن کے چہرے موت کے وقت قبلہ سے پھیر کر دوسری طرف کر دیے گئے، اس لئے کہ (افضلیت) یزید کی بابت توقف کیا کرتے تھے!
عدویہ اور اکراد کے غالی طبقوں اور ان جیسے کچھ دیگر طوائف کا یہی مذہب ہے۔ یہ درست ہے کہ شیخ عدی بنی امیہ میں سے تھے۔ ایک صالح فاضل شخص تھے۔ مگر یہ بات کہیں پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی کہ شیخ عدی نے لوگوں کو سوائے اسی سنت راستے کے کسی اور چیز کی دعوت دی ہو جو کہ سبھی (اہلسنت) کی دعوت رہی ہے، مثلاً (ان کے دور کے بزرگ) شیخ ابو الفرج مقدسی۔ شیخ عدی کا وہی عقیدہ رہا ہے جو شیخ ابو الفرج مقدسی کا تھا، یعنی خالص سنت۔ لیکن ان لوگوں نے شیخ عدی کی نسبت سے سنت کے ساتھ اور بہت سی چیزیں شامل کر دیں، کہیں موضوع احادیث اور کہیں اللہ کی صفات میں تشبیہ۔ کہیں شیخ عدی اور یزید کے معاملہ میں غلو۔ کہیں پر روافض کی مذمت کی بابت شدید انداز کا غلو، یہاں تک کہ عقیدہ اختیار کر لینا کہ رافضی توبہ بھی کر لے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی! وغیرہ وغیرہ۔
اوپر جو دونوں انتہائیں بیان ہوئیں، ظاہر ہے وہ کسی بھی انسان کے نزدیک جو ذرہ بھر عقل کا مالک ہے اور دورِ سلف سے اور اس وقت کے امور سے ذرہ بھر واقف ہے اس پر ان دونوں انتہاؤں کا باطل ہونا آپ سے آپ واضح ہے۔ یہی وجہ ہے سنت پر پائے جانے والے معروف اہل علم میں سے کسی ایک کی بھی ان ہر دو انتہاؤں میں سے کسی ایک سے کوئی نسبت نہیں رہی۔ نیز سب عقلاءجو رائے رکھنے میں معتبر ہیں اور تاریخی روایات کھنگالنے میں تجربہ رکھتے ہیں ایسی کسی انتہا کی طرف نہیں گئے۔
تیسرا قول (جو کہ صحیح ہے اور وسط کی راہ ہے) یہ ہے کہ: یزید مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اس کی نیکیاں بھی ہیں، بدیاں بھی۔ یہ (دورِ نبوت میں نہیں) بلکہ خلافت عثمانؓ کے عہد میں پیدا ہوا۔ کافر نہیں تھا۔ مگر اس کے سبب سے قتل حسین رضی اللہ عنہ ایسا واقعہ رونما ہوا، اہل حرہ کے ساتھ بھی اس نے جو کیا وہ معروف ہے، یزید نہ صحابی ہے اور نہ اللہ کے نیک اولیاءمیں سے ہے۔ یہی قول اہل سنت و جماعت میں سے عام اہل عقل و اہل علم کا اختیار کردہ ہے۔
اس کے بعد یہ (یعنی تیسرا فریق) آگے مزید تین سمتوں میں تقسیم ہوا:
I. ایک طبقہ یزید پر لعنت کرنے کا قائل ہوا۔
II. ایک فریق یزید کے ساتھ محبت رکھنے کا قائل ہوا۔
III. اور ایک فریق (جوکہ وسط کی راہ ہے) نہ اس کو دشنام دینے کا قائل ہے اور نہ اس سے محبت رکھنے کا روادار۔ یہ تیسرا قول ہی امام احمدؒ سے منصوص ہے۔ اسی پر امام احمدؒ کے تلامذہ و اصحاب میں سے اہل اعتدال پائے گئے اور اسی پر دوسرے مذاہب کے اعتدال والے طبقے رہے ہیں۔
امام احمدؒ کے بیٹے صالح بن احمد روایت کرتے ہیں: میں نے اپنے والد سے کہا: کچھ لوگوں کا مذہب ہے کہ وہ یزید سے محبت رکھیں گے۔ والد صاحب (امام احمد) نے جواب دیا: بیٹے! کیا کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یزید سے محبت کا روادار ہو سکتا ہے؟ میں نے عرض کی: ابا جان! تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟ والد صاحب (امام احمد) نے جواب دیا: بیٹے! تو نے اپنے باپ کو کسی کو بھی لعنت کرتے ہوئے کب دیکھا ہے؟
مہنا روایت کرتے ہیں: میں نے امام احمد سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کی بابت پوچھا تو امام احمدؒ نے جواب دیا: وہی تو ہے جس نے اہل مدینہ کا حشر کیا ۔ میں نے عرض کی: اس نے اہل مدینہ کے ساتھ کیا کیا؟ فرمایا: لوٹ مار مچائی۔ میں نے پوچھا تو کیا اس سے حدیث روایت کی جائے گی؟ فرمایا: اس سے ہرگز حدیث روایت نہیں کی جائے گی۔ قاضی ابو یعلی نے (امام احمد سے) یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے۔
امام ابو محمد مقدسیؒ سے جب یزید کی بابت دریافت کیا گیا، تو انہوں نے جواب دیا: جو چیز مجھے (سلف سے) پہنچی ہے وہ یہی ہے کہ: نہ اس پر دشنام اور نہ اس کے ساتھ محبت۔
یزید اور اس جیسے دیگر لوگوں کی بابت یہی قول سب سے زیادہ عدل اور صحت پر مبنی قول ہے۔
جہاں تک یزید پر دشنام اور لعنت بھیجنے سے اجتناب کا معاملہ ہے تو وہ اس بنا پر کہ (ان اہل علم کے نزدیک) اس کا کوئی ایسا فسق ثابت نہیں ہوا جو اس پر لعنت کا متقاضی ہو۔ یا پھر اس بنا پر کہ ایک فاسق شخص کو متعین کر کے اس پر لعنت نہیں کی جائے گی، کوئی عالم اس کی "تحریم" کا قائل ہونے کے باعث اس سے احتراز کرے گا تو کوئی عالم اس کی "تنزیہ" کا قائل ہونے کے باعث۔ کیونکہ صحیح بخاری میں بروایت عمرؓ حمار نامی ایک شخص کے قصہ میں آتا ہے، جس کو شراب خوری کے مقدمہ میں بار بار لایا جاتا اور کوڑے لگتے، کہ جب ایک صحابی نے اس پر لعنت کی تو نبیﷺ نے اس کو منع کرتے ہوئے فرمایا: "اس پر لعنت مت کرو، کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے"۔ علاوہ ازیں ایک متفق علیہ حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا: لعن المؤمن کقتلہ "مومن پر لعنت کرنا بھی ایسا ہی جیسا کہ اس کو قتل کرنا"۔ جبکہ ہم جانتے ہیں نبیﷺ نے ایک عمومی معنیٰ میں شراب اور شراب خور ہر دو پر لعنت فرمائی ہے۔ جبکہ اس مذکورہ بالا حدیث میں جس لعنت سے ممانعت ہوئی وہ کسی شخص کو متعین کر کے لعنت کرنے سے متعلق ہے۔ اس کا معاملہ ان نصوص جیسا ہی ہے جن میں شریعت نے یتیموں کا مال کھانے والے شخص یا زانی یا چور کو کوئی وعید سنائی ہے۔ پھر بھی ہم کسی شخص پر جو ایسے کسی جرم میں ملوث پایا گیا ہو، اس کو متعین کر کے یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ اہل جہنم میں سے ہے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک نص کا اقتضاءکسی دوسری نص کے اقتضاءکے ساتھ متعارض ہونے کے باعث ٹل جائے۔ مثلاً کسی کا توبہ کر لینا۔ ایسی نیکیاں کر لینا جو برائیوں کو مٹا ڈالیں۔ یا مصائب جو آدمی کےلیے کفارہ بن جائیں۔ یا کوئی شفاعت جو خدا کے ہاں قبول ٹھہرے۔ وغیرہ وغیرہ۔
یزید پر لعنت کے قائل اہل علم میں سے ایک تعداد ایسی ہے جو اس لعنت کو مباح جانتے ہوئے اس بات کی قائل ہے کہ کوئی شخص اگر یزید پر لعنت نہیں کرتا تو وہ ایسا ہی ہے کہ کوئی آدمی کسی مباح فضول گوئی کو ترک کر کے رہے۔ نہ کہ اس باب سے کہ اس پر لعنت کرنا مکروہ ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ یزید کے ساتھ محبت نہیں رکھی جائے گی، تو وہ اس بنا پر کہ محبتِ خاصہ تو رکھی جاتی ہے نبیوں کے ساتھ، صدیقین کے ساتھ، شہداءکے ساتھ اور صالحین کے ساتھ۔ جبکہ یزید ان چاروں اصناف میں نہیں آتا۔ نیز رسول اللہﷺ نے فرما رکھا ہے: المرءمع من أحب "آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ اس کی محبت ہو" اب جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے کبھی یہ اختیار نہیں کرے گا کہ وہ یزید کے ساتھ ہو یا اس جیسے دیگر بادشاہوں کے ساتھ ہو جو عادل نہیں ہیں۔
اہل علم کا یہ موقف کہ یزید کے ساتھ محبت نہیں رکھی جائے گی، دو بنیادوں پر قائم ہے:
پہلی یہ کہ: یزید سے کوئی ایسے صالح اعمال صادر نہیں ہوئے جو اس کے ساتھ محبت کا موجب ہوں۔ لہٰذا وہ جبراً مسلط کئے گئے بادشاہوں ایسا ایک بادشاہ رہ جاتا ہے۔ اِس نوع کے اشخاص سے محبت کرنا شریعت کا تقاضا نہیں ہے۔
دوسری یہ کہ: یزید سے ایسے اعمال سرزد ہوئے جو اس کو ظالم اور فاسق ٹھہرانے والے ہیں، خصوصاً قتل حسین رضی اللہ عنہ اور واقعۂ اہل حرہ۔
٭٭٭٭٭
اہل علم میں سے وہ بزرگ جنہوں نے یزید پر لعنت کی ہے، مانند ابو الفرج بن الجوزی اور کیا ہراسی { ابو الحسن علی بن محمد بن علی طبری، بہ لقب عماد الدین، شافعی فقیہ، جن کا تعلق طبرستان سے تھا، بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں تدریس کے منصب پر فائز رہے، پیدائش 354ھ، وفات بغداد میں 405ھ۔ } وغیرہ، تو اس کی ان کے نزدیک تین بنیادیں ہو سکتی ہیں:
o یا تو یہ بنیاد یہ اختیار کرتے ہوئے کہ یزید سے ایسے افعال صادر ہوئے ہیں جو اس پر لعنت کو مباح ٹھہراتے ہیں۔
o یا پھر وہ اس بات کے قائل ہیں کہ یزید فاسق ہے اور ہر فاسق پر لعنت جائز ہے۔
o اور یا وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ایک بدی کرنے والے شخص پر لعنت کرنا جائز ہے اگر چہ اس پر فاسق ہونے کا حکم نہ بھی لگایا گیا ہو، جیسا کہ اہل صفین کی بابت آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر قنوت کرتے رہے تھے؛ چنانچہ علیؓ اور ان کے اصحاب اہل شام میں سے کچھ لوگوں کو متعین ٹھہرا کر ان پر لعن کرتے رہے تھے، اسی طرح اہل شام بھی فریق دیگر کے لوگوں پر لعن کرتے رہے تھے۔ حالانکہ (یہ ایک علمی مسئلہ ہے کہ) تاویل سائغ رکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ قتال میں ملوث ہو جانے والے مسلمان خواہ وہ عادل ہوں یا باغی، ان میں سے کسی کو فاسق نہیں ٹھہرایا جاتا۔ یا پھر ایک آدمی کے کچھ نہایت سنگین گناہوں کے باعث اس پر لعنت کر دی جاتی ہے اگرچہ آدمی سب کے سب فاسق لوگوں پر لعنت نہ بھی کرنے والا ہو، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل معاصی میں سے کچھ انواع پر لعنت فرمائی یا نافرمانوں میں سے کچھ خاص نافرمانوں پر لعنت فرمائی اگرچہ آپ نے سب اہل معاصی اور سب نافرمانوں پر لعنت نہ بھی فرمائی ہو۔
تو یہ تین بنیادیں ہوئیں ان علماءکے نزدیک جو یزید پر لعنت کے قائل ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
رہا اہل علم کا دوسرا فریق جوکہ یزید کے ساتھ محبت رکھنے کا قائل ہوا ہے مانند غزالیؒ اور دستیؒ وغیرہ، تو یہ رائے رکھنے کے معاملہ میں اس فریق کی یہ دو بنیادیں ہیں:
پہلی یہ کہ: یزید مسلمان ہے۔ عہدِ صحابہؓ میں امت کا ولی امر رہا ہے اور صحابہؓ میں سے جو لوگ اس کے عہد تک رہ گئے تھے وہ اس کی امارت میں رہے ہیں۔ نیز اس کے اندر اچھے خصائل بھی تھے۔ رہ گیا واقعۂ حرہ اور دیگر امور جن کی بنیاد پہ یزید پر نکیر ہوتی ہے تو ان معاملات میں وہ تاویل رکھتا تھا۔ چنانچہ اس فریق کا قول ہے کہ یزید مجتہد مخطی ٹھہرتا ہے۔ اس فریق کا کہنا ہے کہ خود اہل حرہ ہی نے بیعت توڑنے میں پہل کی تھی اور اس پر عبد اللہ بن عمرؓ نے اُن پر نکیر بھی کی تھی۔ رہ گیا قتلِ حسینؓ تو یزید نے اس کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ وہ اس پر راضی ہوا تھا، بلکہ اس کی جانب سے اِس پر اظہار درد ہوا تھا، جن لوگوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یزید نے ان کی مذمت کی تھی، نیز حسین رضی اللہ عنہ کا سر بھی یزید کے پاس نہیں لایا گیا بلکہ ابن زیاد کے پاس لایا گیا تھا۔
دوسری یہ کہ: صحیح بخاری کی حدیث سے بروایت عبد اللہ بن عمرؓ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: أول جیش یغزو القسطنطینیة مغفور لہ "وہ پہلا لشکر جو قسطنطنیہ پر یورش کرے گا، بخشا جائے گا"۔ جبکہ وہ پہلا لشکر جس نے قسطنطنیہ پر یورش کی، اس کا امیر یزید تھا۔
٭٭٭٭٭
مبنی بر تحقیق بات البتہ یہی ہے کہ: ہر دو فریق کے قول میں اجتہادِ سائغ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اعمال بد کرنے والوں پر (معین کر کے) لعنت کرنے کا مسئلہ (کوئی متفق علیہ مسئلہ نہیں بلکہ) اس کے اندر اجتہاد کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ایسے شخص کی محبت کا مسئلہ ہے جس کے ہاں حسنات اور سیئات ہر دو پائی گئی ہوں۔ بلکہ ہمارے ہاں یہ کوئی امرِ محال نہیں کہ ایک ہی شخص میں ستائش اور مذمت ہر دو کے اسباب جمع ہوں۔ ثواب اور عذاب ہر دو کے موجبات جمع ہوں۔ کسی حوالے سے ایک آدمی کی نمازِ جنازہ پڑھ لینا اور اس کےلیے دعائے خیر کر دینا بھی جائز ہو اور کسی دوسرے حوالے سے اس کو لعنت اور سب و شتم کا محل بھی ٹھہرایا جائے۔
در اصل اہل سنت کے ہاں قاعدہ یہ ہے (اور بالاتفاق ہے) کہ اہل ملت میں سے جو فساق ہیں اگر وہ دوزخ میں چلے جائیں یا دوزخ میں جانے کے سزاوار قرار پائیں تو بھی وہ کبھی نہ کبھی جنت میں داخل ہونے والے ہیں۔ چنانچہ ایک ہی شخص کے معاملہ میں ثواب اور عذاب ہر دو مجتمع ہو سکتے ہیں اور ان دو باتوں کے اندر کوئی تعارض نہیں۔ البتہ خوارج اور معتزلہ اس اصول کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ثواب کا مستحق ہے وہ عذاب کا سزاوار نہیں اور جو عذاب کا سزاوار ہے وہ ثواب کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ عقیدہ کا یہ ایک مشہور مسئلہ ہے اور اس کا مفصل بیان کسی اور مقام پر ہی ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
رہ گیا مسئلہ دعائے خیر اور دعائے بد کا، تو اس کی تفصیل جنائز کے باب میں ہے۔ چنانچہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ مسلمانوں کے فوت شدگان کا، خواہ کوئی نیکوکار ہو یا بدکار، جنازہ تو پڑھا جاتا ہے(جو کہ دعائے استغفار ہی ہوتی ہے)۔ البتہ ایک فاجر بدکار پر لعنت بھی کی جاتی ہے، کوئی اس کو متعین کر کے لعنت کر دیتا ہے تو کوئی اس کی نوع پر (یعنی "اس جیسوں" پر لعنت کر دیتا ہے)۔ گو اول الذکر زیادہ اعتدال پر مبنی ہے۔ یہی جواب میں نے (ابن تیمیہؒ نے) مغل بادشاہ بولائی خان کے سپہ سالار کے روبرو دیا، جب مغل لشکر بغداد پر چڑھائی کےلیے پیش قدمی کرتے ہوئے دمشق آگئے تھے، تب میرے اور اس کے مابین گفتگو کے کچھ دور چلے تھے۔ اس نے مجھ سے جو سوالات پوچھے ان میں یہ بھی تھا کہ: تم لوگ یزید کی بابت کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: نہ ہم اس کو دشنام دینے والے ہیں اور نہ اس سے محبت کرنے والے۔ کیونکہ وہ کوئی صالح انسان نہیں تھا جس سے ہم محبت کریں۔ البتہ مسلمانوں میں سے ہم کسی شخص کو متعین کرکے دشنام بھی نہیں دیتے۔ مغل بادشاہ بولا: کیا تم اس پر لعنت نہیں کرتے؟ کیا وہ ظالم نہیں تھا؟ کیا وہ حسینؓ کا قاتل نہیں؟ میں نے جواب دیا: ہمارے سامنے جب کسی ظالم کا ذکر ہو، جیسے حجاج بن یوسف یا اس جیسے دیگر، تو اس موقعہ پر ہم ویسے ہی الفاظ بولنا مناسب جانتے ہیں جیسے قرآن میں مذکور ہوئے: أَلاَ لَعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (ہود: 18) یعنی "خبردار ظالموں پر اللہ کی لعنت"۔ البتہ ہم کسی شخص کو متعین کر کے لعنت نہیں بھیجتے۔ اگرچہ علماءمیں سے ایک جماعت یزید پر لعنت کرتی ہے، اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اندر اجتہادات کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ تاہم پہلا قول ہمیں زیادہ پسند ہے اور ہمارے نزدیک بہتر نظر آتا ہے۔ ہاں جس کسی نے حسینؓ کو قتل کیا ہے اس پر لعنت ہو اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی۔ نہ اللہ اس سے کوئی تاوان قبول کرنے والا ہے اور نہ کوئی معاوضہ۔
مغل افسر بولا: تو کیا تم اہل بیت سے محبت نہیں کرتے؟ میں نے جواب دیا: اہل بیت کی محبت ہمارے نزدیک فرض ہے۔ واجب ہے۔ اور ثواب کا موجب ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں صحیح مسلم کی حدیث بروایت زید بن ارقم پایۂ ثبوت کو پہنچی ہے کہ: رسول اللہﷺ نے مکہ اور مدینہ کے مابین خم نامی ایک کنویں (غدیر) پر ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: "اے لوگو! میں تم میں دو امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب اللہ، آپ نے کتاب اللہ کا ذکر کیا اور اس پر نہایت زور دیا، پھر کہا: اور میرا کنبہ میرے اہل بیت، میں تمہیں اپنے اہل بیت کی بابت اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کی بابت اللہ کی یاد دلاتا ہوں"۔ میں نے سپہ سالا سے کہا: اور ہم روزانہ نماز کے اندر یہ کہتے ہیں: اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم انک حمید مجید، وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید۔ سپہ سالار بولا: تو پھر اہل بیت سے بغض کرنے والے کون ہیں؟ میں نے جواب دیا: جو اہل بیت سے بغض رکھے اس پر لعنت ہو اللہ کی، فرشتوں کی اور سب انسانوں کی، اللہ نہ اس سے کوئی تاوان قبول کرے اور نہ کوئی معاوضہ۔
تب میں نے وہاں بیٹھے ہوئے مغل وزیر سے پوچھا کہ اس سپہ سالار نے ہم سے یزید کی بابت سوال کیوں کیا، جبکہ یہ تاتاری ہے؟ تو اس نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے اس کو کہا تھا کہ اہل دمشق نواصب ہیں۔ تب میں نے آواز اونچی کر کے کہا: جس شخص نے یہ کہا ہے جھوٹا ہے، اور جو شخص اس بات کا قائل ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اللہ کی قسم اہل دمشق میں کوئی نواصب نہیں، میں نے ان میں کوئی ایک بھی ناصبی نہیں دیکھا، اور اگر کوئی شخص دمشق میں کھڑا ہو کر علی رضی اللہ عنہ کی عیب جوئی کرے تو سب مسلمان اس پر پل پڑیں۔ ہاں پہلے کسی زمانے میں ایسا تھا جب بنو امیہ اس ملک کے والی ہوا کرتے تھے اور بنو امیہ میں سے بعض نے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ دشمنی اور آپؓ پر تبرا کرنے کا انداز اختیار کیا تھا۔ آج البتہ دمشق کے اندر ان میں سے کوئی باقی نہیں۔

(ماخوذ از مجموع فتاویٰ امام ابن تیمیہ جلد 4 ص 481 تا 488

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
جزاک اللہ بڑے سہل انداز میں اپ نے لکھا ہے عام فہم ہے اور خصوصا جو عربی سے ناواقف ہے ان کے لئے بہت ہی اچھا ہے کہ وہ سمجھ پائیں گے کہ یزید کے بارے میں امام ابن تیمیہ کا موقف یہی تھا کہ اس کو نہ کوئی نیک صالح سمجھتے تھے اور نہ اس سے محبت رکھتے تھے کیونکہ وہ بھی جانتے تھے کہ جس سے محبت کرے گا قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہو گا۔ اللہ سب کو ہدایت دے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امت میں جاری کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کے جاری نہ کرنے کی یہی وجہ سمھ آتی ہے
سیرت کا مطالعہ کریں باپ کے بعد بیٹا اسی ذمہ داری پر عاید کیا گیا اس کی مثالیں نہ صرف حیات طیبہ سے ملتی ہیں بلکہ خلفا راشدین سے بھی ملتی ہیں لہذا یہ تو آپ کی سیرت سے ناواقفیت پر دلالت کرتا ہے
لہذا آپ کا یہ مفروضہ اور خود ساختہ قیاس بھی باطل ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کے بیٹے کو اختیار نہیں دیا لہذا یہ طریقہ غیر مسنون اور غیر شرعی ہے محض جذبات میں آ کر بیان دے دینا کویی کمال نہیں
(1) امت کی شوری پر چھوڑ دیا جائے امت خود چنے گی( سب سے موزوں اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یہی ہے)
میں نے کہا نا کہ سیرت سے ناواقفیت بہت سے مسایل سامنے آتے ہیں ہمارے اسلاف رحمہم اللہ اس بات پر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت صغری کے لیے تعیین امامت کبری پر دلیل ہے اور اس پر بہت سے دلایل موجود ہیں اگر وقت ملے تو کتب سیرت کا مطالعہ کریں محض امت کے مشاورت سے انتخاب ابو بکر رضی اللہ عنہ عمل میں نہیں لایا گیا تھا
باقی جتنے امور لکھے ہیں ان پر تفصیلی کلام کیا جا سکتا ہے البتہ ایک کمال آپ نے ضرور کیا ہے کہ بنی امیہ پر مزعومہ الزامات پر احادیث کو ایک جگہ جمع کر کے یہ تاثر دیا کہ ان سب کے ذمہ دار بالواسطہ یا بلا واسطہ خلفا بنی امیہ تھے جن کا آغاز سید نا معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہوا
اور ایک مشورہ اور ہے آپ کے لیے ابن العربی رحمہ اللہ کی العواصم من القواصم پڑھیے آپ کا ذہن صاف ہو گا
اور مزید مشہور مورخ محمود شاکر کے تاریخ بنو امیہ پر مقدمہ بھی پڑھیں پھر اس کے بعد کم از کم آپ اس طرح کی جذباتی تحریرں نہیں لکھیں گے یا نقل بنقل تحریر نہیں پوسٹ کیا کریں گے
لیکن ایک اصطلاح آپ نے خالص شیعی اصطلاح استعمال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فکر شیعت سے آپ یا تو شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر متاثر ہیں
اسلام حسین کے نانا کا دین تھا ۔۔۔۔۔
آپ کو ابھی علم نہیں کہ شیعیت کا طریقہ واردات کیا ہوتا ہے وہ اپنی بات آپ کے منہ سے نکلواتے ہیں اور آپ کو علم بھی نہیں ہوتا جیسا کہ ابھی ہوا
مع السلامہ
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جزاک اللہ بڑے سہل انداز میں اپ نے لکھا ہے عام فہم ہے اور خصوصا جو عربی سے ناواقف ہے ان کے لئے بہت ہی اچھا ہے کہ وہ سمجھ پائیں گے کہ یزید کے بارے میں امام ابن تیمیہ کا موقف یہی تھا کہ اس کو نہ کوئی نیک صالح سمجھتے تھے اور نہ اس سے محبت رکھتے تھے کیونکہ وہ بھی جانتے تھے کہ جس سے محبت کرے گا قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہو گا۔ اللہ سب کو ہدایت دے
یہ میرا ترجمہ نہی بلکہ کسی اور کا ہے....اللہ آپ کا میرے بارے مین حسن ظن کو حقیقت بنائے...

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تو یہاں بھی وہی اصول کار فرما ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو امت میں جاری کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کے جاری نہ کرنے کی یہی وجہ سمھ آتی ہے
اس قاعدے کا ذکر کس کتاب میں ہوا ہے ذرا اس کا بھی حوالہ دیجیے گا
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top