• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ کی امارت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لئے روانہ ہوئے۔۔۔ ہم قسطنطنیہ (استنبول) جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید ہمارے امیر جماعت تھے۔۔۔ یہاں سوال یہ ہے کے عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید کو امیر جماعت بنانے والے کون تھے؟؟؟۔۔۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کے جو جماعت مدینہ المنورہ سے نکلی ہے وہ لشکر کا حصہ بننے جارہی ہو جو حضرت یزید کی قیادت میں قسطنطنیہ پر حملہ کے لئے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مرتب کیا تھا۔۔۔ لہذا میں صرف اتنا ہی کہوں گا کے اختلاف صرف فہم کا ہے۔۔۔ کیونکہ آگے ہی لکھا ہے رومی لوگ اپنی پشت فصیل شہر کی طرف کئے ہوئے ہمارے مد مقابل تھے۔۔۔ یعنی یوں بھی تو ہوسکتا ہے جب لشکر قسطنطنیہ پہنچا تو وہاں پر لشکر کو مختلف جماعتوں میں منقسم کر کے ہر جماعت کا امیر مقرر کردیا ہو۔۔۔ کیونکہ جب وہ سب ہوسکتا ہے جو پچھلی کئی پوسٹس میں ہورہا ہے تو یہ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟؟؟۔۔۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
صرف صحیح حدیث پیش کر دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اس سے اپنے موقف کو ثابت کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

مثلاً کوئی شخص یہ موقف اختیار کرے کہ نبی کریمﷺ بشر نہیں تھے، اور اس دلیل یہ آيت پیش کرے:
قل إنما أنا بشر مثلكم يوحى إلي ۔۔۔
اور پھر شکوہ کرے کہ میں نے آیت کریمہ پیش کی ہے، کوئی اس آیت کو مانتا ہی نہیں۔

خلاصہ یہ کہ صرف صحیح دلیل پیش کرنا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اس سے اپنے موقف کو ثابت کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس دلیل کے کن الفاظ سے آپ کا مدّعا ثابت ہو رہا ہے؟



احتمالات بیان کرنے کی بجائے اپنے موقف کو ٹھوس دلیل سے ثابت کریں، جبکہ آپ کا موقف جمہور کے موقف کے مخالف بھی ہے، بلکہ حافظ ابن حجر﷫ نے تو اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/تحقیق-حدیث-231/یزید-بن-معاویہ-کی-امارت-7343/index2.html#post47156

آپ ٹھوس دلیل سے یہ ثابت کریں کہ یزید بن معاویہ والے جس لشکر میں سیدنا ابو ایوب انصاری﷜ فوت ہوئے، وہ پہلا لشکر کیوں نہیں ہو سکتا؟؟؟

شیخ زبیر علی زئی حفظ اللہ کی تحقیق کے مطابق ''قسطنطنیہ پرہونے والے پہلے حملے میں یزید رحمہ اللہ شامل نہیں تھے، اوراس حوالے سے بخاری کا جو حوالہ دیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں '' تفصیل مجلہ الحدیث ، شمارہ نمبر 6

تفصیل مجلہ الحدیث ، شمارہ نمبر 6 یہاں سے ڈونلوڈ کریں
http://www.ircpk.com/Mujalat/Al-Hadith/AL-HADITH%206.pdf

زبیر علی زئی صاحب کے مؤقف کی ویڈیو بھی دیکھ لیں

[video=youtube;PFAeJ1ipHww]http://www.youtube.com/watch?v=PFAeJ1ipHww&feature=player_embedded[/video]
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

پاک و ہند میں یزید کے جنتی ہونے کا نظریہ کس نے پیش کیا؟
یزید بن معاویہ کے جنتی ہونے کا نظریہ پاک و ہند میں سب سے پہلے محمو داحمد عباسی نے پیش کیا۔ یہ شخص کٹر ناصبی عقائد کا حامل تھا اور اس نے اپنی کتاب ’خلافت ِمعاویہ و یزید‘ اس زمانے میں تحریر کی کہ
جب وہ چینی سفارتخانہ میں ملازم تھا۔ میں بھی جب اس کی اس تحقیق جدید سے متاثر ہوا تھا تو اس سے ملاقات کے لیے اس کے گھر گیا اور میں نے دورانِ گفتگو اس سے کہا کہ آپ نے سیدنا حسینؓ کے سر کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے متعلق تمام روایات وضعی ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حسینؓ کا سر مبارک ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا۔ عباسی صاحب نے کہا: ’’ہاں! بخاری گدھے نے یہ بات لکھی ہے۔‘‘ (معاذ اللہ)
میں نے جب اُس سے امام بخاریؒ کے متعلق یہ گستاخی سنی تو مجھے سخت صدمہ پہنچا اور عباسی صاحب کی عقیدت کاسارا نشہ اسی وقت اُتر گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے تحقیق کی توفیق عنایت فرمائی۔ وللہ الحمد
دراصل محمود احمد عباسی نے یہ سب کچھ تحقیق کے نام سے پیش کیا تھا جس سے عام تعلیم یافتہ طبقہ کافی متاثر ہوا اور بعض علماء کرام بھی ان کی تحقیق سے متاثر ہوکر ان کے دامن گرفتہ ہوگئے اور پھر ان کی تحقیق ایسی بلند ہوئی کہ انہوں نے صحیح بخاری پربھی ہاتھ صاف کردیا جیسا کہ جناب حبیب الرحمن کاندھلوی نے ’مذہبی داستانیں‘ لکھیں اور جناب محمد عظیم الدین صدیق صاحب نے اپنی کتاب ’حیاتِ سیدنا یزید‘ میں یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان حضرات نے اپنی کتب میں سیدنا علی ؓ اور خاندانِ اہل بیت رسول اللہﷺسے بغض و عداوت کا کھل کر اِظہار کرکے اپنے چھپے ہوئے گندے ناصبی عقیدہ کو بھی ظاہر کیا۔ ایک طرف یہ سیدنا علیؓ کی خامیاں نکالتے ہیں اور دوسری طرف یزید کو ’سیدنا‘ یزید اور ’رحمتہ اللہ علیہ‘ لکھتے ہیں۔
ان حضرات نے صحیح بخاری کی ’اوّل جیش‘ والی روایت کو بنیاد بنا کر یزید کو پہلے جنتی ثابت کیا اور پھر اس کے سیاہ کارناموں مثلاً قتل حسین، واقعہ حرہ اور خانہ کعبہ پر حملہ وغیرہ کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ، حالانکہ یزیدبن معاویہ کے عہد ِخلافت میں سیدنا حسینؓ اور ان کے خاندان کا قتل ایک زبردست المیہ ہے اور جس سے وہ عہدہ برا قرار نہیں دیئے جاسکتے اور پھر مدینہ منورہ پر شامی فوج کا حملہ اور مدینہ طیبہ کو تاخت وتاراج کرنا صحابہ کرامؓ اور تابعین کا قتل عام اور مدینہ والوں کو خوفزدہ کرنا جس کے متعلق بہت سی احادیث ِصحیحہ موجود ہیں جن میں اہل مدینہ کو خوفزدہ کرنے والوں کو ڈرایا گیاہے۔اسی طرح حرم شریف اور خانہ کعبہ پرحملہ وغیرہ ؛ یہ خلافت ِیزید کے وہ سیاہ کارنامے ہیں کہ جنہیں آج تک اُمت ِمسلمہ فراموش نہیں کرسکی
اور ان میں حصہ لینے والوں میں سے اگر کسی نے حدیث بھی بیان کی ہے تواس کی حدیث کو اس کے اس سیاہ کارنامہ کی وجہ سے ردّ کردیا جاتا ہے۔
 

s.s.salafi

مبتدی
شمولیت
جون 28، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
60
پوائنٹ
15
کیا مجھے قسطنطنیہ والی روایت جو abu dawood سے بیان کی جاتی ھے کی شرٰح متقدیمین علماٰء سے بیان کرے گے lovelytime bhai
 

s.s.salafi

مبتدی
شمولیت
جون 28، 2012
پیغامات
15
ری ایکشن اسکور
60
پوائنٹ
15
is waqt zubair ali zai or hafz salah ud deen yousaf sahab ko bhool jae sirf meri isi baat ka jwab daina kyu ka hamaray ilam may aik bhi muhadis aisa nahi ha jis nay qustuntunia wali basharat yazeed kay ilawa kisi or par chaspa ki ho is lia mera manna ha daal may kuch kala ha zubair ali zae sahab kahi na kahi par khyanat kar rahay ha walahu alam
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کیا مجھے قسطنطنیہ والی روایت جو abu dawood سے بیان کی جاتی ھے کی شرٰح متقدیمین علماٰء سے بیان کرے گے lovelytime bhai
عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نُرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید والروم مُلصقو ظُہُورہم بحائط المدينة فحمل رجل علی العدوّ فقال الناس: مہ مہ لا إلہ إلا اﷲ یلقي بیدیہ إلی التهلكة۔فقال أبو أیوب: إنما نزلت ہذہ الآية فینا معشر الأنصار لما نصر اﷲ نبیَّہ وأظہر الإسلام قلنا ہلمَّ نقیم في أموالنا ونُصْلِحُہَا فأنزل اﷲ {وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی التَّهْلُكَةِ} فالإلقاء بالأیدي إلی التهلكة أن نقیم في أموالنا ونصلحہا وندع الجہاد۔ قال أبو عمران: فلم یزل أبو أیوب یجاہد في سبیل اﷲ حتی دفن بالقسطنطينية (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم)
’’سیدنا اسلم ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اس وقت امیر جیش سیدنا عبدالرحمن بن خالدبن الولید تھے۔رومی فوج شہر پناہ سے پشت لگائے مسلمانوں سے آمادہ پیکار تھی۔ اسی اثنا میں (مسلمانوں کی صف میں سے نکل کر) ایک شخص نے دشمن (کی فوج) پرحملہ کردیا۔ لوگ کہتے رہے: ’’رکو، رکو، لا الہ اِلا اللہ یہ شخص تو خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدنا اَبوایوب اَنصاری نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں اتری ہے۔ (واقعہ یہ ہے) کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایا تو ہم نے کہا تھا کہ اب تو ہم کو مدینہ میں رہ کر اپنے اَموال کی خبرگیری اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت ِشریفہ نازل فرمائی:
’’ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی االتَّهْلُكَةِ ‘‘ (البقرۃ:۱۹۵) ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میںنہ ڈالو۔‘‘
لہٰذا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تو جہاد کو چھوڑ کر ہمارا اپنے اَموال کی خبرگیری اور اس کی اصلاح کے خیال سے اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا۔ سیدنا ابوعمران کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب مسلسل اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے رہے تاآنکہ وہ دفن بھی قسطنطنیہ میں ہوئے۔‘‘

حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

’’سنن ابوداود والی روایت بالکل صحیح اور محفوظ ہے جس کی سند مع متن یہ ہے: ابن وھب عن حیوۃ بن شریح عن یزید بن أبي حبیب عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبد الرحمٰن بن خالد بن الولید… الخ‘‘
’’اسلم ابوعمران سنن ابی داؤد، ترمذی و نسائی کے راوی اور ثقہ تھے۔ (تقریب التہذیب: ص۱۳۵) یزید بن ابی حبیب کتب ِ ستہ کے راوی اور’’ثقة فقیہ وکان یرسل‘‘ ہیں۔ (ایضاً ص۱۰۷۳) وکان یُرسل کوئی جرح نہیں ہے۔ حیوہ بن شریح صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ تھے۔ (ایضاً ص۲۷۲ بہ تحقیق شیخ ابو اَشبال شاغف)
عبد اللہ بن وہب کتب ِستہ کے بنیادی راوی اور ثقہ حافظ عابد ہیں۔(تقریب التہذیب:ص۵۵۶) صحیح بخاری میں ان کی تقریباً ایک سو تیس روایات موجود ہیں۔آپ اُصولِ حدیث کی ایک قسم الرواية بالإجازۃ کے قائل تھے
جو کہ ایک مستقل فقہی موقف ہے اور راجح بھی یہی ہے کہ روایت بالا جازۃ جائز ہے۔ دیکھئے مقدمة ابن الصلاح وغیرہ

بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ سنن ابو داؤد کے علاوہ عبدالرحمن بن خالدبن الولید کے تمام لشکر پر سپہ سالار ہونے کا ثبوت کسی بھی دوسری کتاب میں نہیں ملتا

سنن ابو داود کی دوسری حدیث
ایسے ہی سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت سے بھی ثابت ہے کہ عبدالرحمن بن خالد بن الولیدؓ کے ساتھ ابوایوب انصاریؓ اس غزوہ میں شریک تھے اور عبدالرحمن پوری جماعت پر امیر تھے۔ پوری حدیث کے الفاظ حسب ِذیل ہیں:
عن ابن تِعْلی قال: غزونا مع عبد الرحمٰن بن خالد بن الولید فأتي بأربعة أعلاج من العدو فأمر بہم بہم فقتلوا صبرًا۔ قال أبو داود قال لنا غیر سعید عن ابن وہب في ہذا الحدیث قال بالنبل صبرا فبلغ ذلک أبا أیوب الأنصاري فقال سمعت رسول اﷲ ﷺ ینہیٰ عن قتل الصبر ۔۔۔ الحدیث (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب ۱۲۹، فی قتل الاسیر بالنبل:۲۶۸۷)
’’سیدنا عبیدبن تعلی بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدناعبدالرحمن بن خالد بن الولید کے ساتھ جہاد میں شریک تھے۔ (اسی مہم میں) ان کے سامنے دشمن کے چار شخص پیش کئے گئے جن کے قتل کرنے کا اُنہوں نے حکم دیا اور تعمیل حکم میں ان کو باندھ کر قتل کردیا گیا۔‘‘
امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ
’’ہم سے ہمارے استاذامام سعید بن منصور کے علاوہ ایک دوسرے صاحب نے ابن وہب سے اس حدیث کو یوں نقل کیا کہ ان چاروں کوباندھ کر تیروں کا ہدف بنایا۔ جب اس بات کی خبر سیدنا ابوایوبؓ انصاری کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اُنہوں نے اس طرح ہاتھ باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ بس قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کوئی مرغی بھی ہو تو میں اس کا باندھ کر نشانہ نہ لوں۔ جب یہ بات سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید کو پہنچی تو انہوں نے اس کے کفارے میں چار غلام آزاد کئے۔‘‘
یہ حدیث سنن ابوداؤد کے علاوہ سنن سعید بن منصور۶۶۷، مسنداحمد:۵؍۴۲۲، طبرانی:۴؍ ۵۹؍ ۴۰۰۲،السنن الکبریٰ:۹؍۷۱، الدارمی:۱۹۷۴، صحیح ابن حبان: ۸؍۴۵۰، ۵۵۸۰۱،الطحاوی: ۳؍۱۸۲، والشاشی:۱۱۶۰۔۱۱۶۱، مصنف ابن ابی شیبہ:۵؍۳۹۸ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: الموسوعة الحديثية مسند احمد:۳۸؍۵۶۱، امام ابوداؤد نے دوسرے اُستاد سے جو کچھ روایت کیا ہے، یہی کچھ امام سعید بن منصور بھی بیان کرتے ہیں۔ (السنن سعیدبن منصور:۲۶۶۷)
سنن ابوداؤد کی مذکورہ بالا حدیث کی سند ملاحظہ فرمائیں :
حدثنا سعید بن منصور قال حدثنا عبد اﷲ بن وہب قال أخبرني عمرو بن الحارث عن بکیر بن عبد اﷲ بن الأشج عن ابن تِعْلیٰ
نیز دیکھئے: سنن سعید بن منصور:

اس وضاحت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں:
1۔قسطنطنیہ پر ان حملوں کے دوران پوری جماعت پرعبدالرحمن بن خالد بن الولید امیر تھے۔
2۔شروع کے حملوں یا اوّل جیش میں یزید بن معاویہ شامل نہ تھے کیونکہ یہ واقعات ۴۴ھ، ۴۵ھ اور ۴۶ھ کے دوران پیش آئے تھے اور یہ حملے یزید بن معاویہ کے ۴۹ھ کے حملے سے پہلے ہوئے تھے کیونکہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید ۴۶ھ میں شہید ہوگئے تھے اور اس غزوہ میں بھی سیدنا اَبوایوب انصاری، سیدنا عبدالرحمن بن خالد کے ساتھ شریک تھے اور پھر وہ آخری معرکہ میں یزید بن معاویہؓ کے ساتھ بھی شریک ہوئے اور پھر اسی حملہ کے دوران بیمارہوکر اُنہوں نے وفات پائی تھی


قسطنطنیہ پر آخری حملہ
سیدنا معاویہؓ کے دورِ حکومت میں قسطنطنیہ پر جو آخری حملہ ہوا تھا، اس لشکر کے سپہ سالار یزید بن معاویہ تھے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس لشکر میں سیدنا اَبوایوب انصاری بھی شامل تھے جو اسی جہاد کے دوران وفات پاگئے تھے اور اُنہیں قسطنطنیہ کے دروازہ کے قریب دفن کیا گیا تھا اور اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)
’’معاویہؓ نے قسطنطنیہ پر جو لشکر کشی کی تھی، ان میں ایک لشکر سردیوں میں(شواتی) اور دوسرا گرمیوں میں (صوائف) حملہ آور ہوتا تھا۔ (البدایہ:۸؍۱۲۷)
ان لشکروں میں الصائفة (اپریل ۶۷۲ء تاستمبر ۶۷۲ء ) کا سالار یزید تھا۔(دیکھئے خلافت ِمعاویہ و یزید: ص۴۳۵) اور عام کتب ِتاریخ‘‘(ماہنامہ الحدیث، حضرو : شمارہ نمبر۶،ص۹)
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332

پاک و ہند میں یزید کے جنتی ہونے کا نظریہ کس نے پیش کیا؟
یزید بن معاویہ کے جنتی ہونے کا نظریہ پاک و ہند میں سب سے پہلے محمو داحمد عباسی نے پیش کیا۔ یہ شخص کٹر ناصبی عقائد کا حامل تھا اور اس نے اپنی کتاب ’خلافت ِمعاویہ و یزید‘ اس زمانے میں تحریر کی کہ
جب وہ چینی سفارتخانہ میں ملازم تھا۔ میں بھی جب اس کی اس تحقیق جدید سے متاثر ہوا تھا تو اس سے ملاقات کے لیے اس کے گھر گیا اور میں نے دورانِ گفتگو اس سے کہا کہ آپ نے سیدنا حسینؓ کے سر کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے متعلق تمام روایات وضعی ہیں جبکہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حسینؓ کا سر مبارک ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا۔ عباسی صاحب نے کہا: ’’ہاں! بخاری گدھے نے یہ بات لکھی ہے۔‘‘ (معاذ اللہ)
میں نے جب اُس سے امام بخاریؒ کے متعلق یہ گستاخی سنی تو مجھے سخت صدمہ پہنچا اور عباسی صاحب کی عقیدت کاسارا نشہ اسی وقت اُتر گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے تحقیق کی توفیق عنایت فرمائی۔ وللہ الحمد
دراصل محمود احمد عباسی نے یہ سب کچھ تحقیق کے نام سے پیش کیا تھا جس سے عام تعلیم یافتہ طبقہ کافی متاثر ہوا اور بعض علماء کرام بھی ان کی تحقیق سے متاثر ہوکر ان کے دامن گرفتہ ہوگئے اور پھر ان کی تحقیق ایسی بلند ہوئی کہ انہوں نے صحیح بخاری پربھی ہاتھ صاف کردیا جیسا کہ جناب حبیب الرحمن کاندھلوی نے ’مذہبی داستانیں‘ لکھیں اور جناب محمد عظیم الدین صدیق صاحب نے اپنی کتاب ’حیاتِ سیدنا یزید‘ میں یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان حضرات نے اپنی کتب میں سیدنا علی ؓ اور خاندانِ اہل بیت رسول اللہﷺسے بغض و عداوت کا کھل کر اِظہار کرکے اپنے چھپے ہوئے گندے ناصبی عقیدہ کو بھی ظاہر کیا۔ ایک طرف یہ سیدنا علیؓ کی خامیاں نکالتے ہیں اور دوسری طرف یزید کو ’سیدنا‘ یزید اور ’رحمتہ اللہ علیہ‘ لکھتے ہیں۔
ان حضرات نے صحیح بخاری کی ’اوّل جیش‘ والی روایت کو بنیاد بنا کر یزید کو پہلے جنتی ثابت کیا اور پھر اس کے سیاہ کارناموں مثلاً قتل حسین، واقعہ حرہ اور خانہ کعبہ پر حملہ وغیرہ کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ، حالانکہ یزیدبن معاویہ کے عہد ِخلافت میں سیدنا حسینؓ اور ان کے خاندان کا قتل ایک زبردست المیہ ہے اور جس سے وہ عہدہ برا قرار نہیں دیئے جاسکتے اور پھر مدینہ منورہ پر شامی فوج کا حملہ اور مدینہ طیبہ کو تاخت وتاراج کرنا صحابہ کرامؓ اور تابعین کا قتل عام اور مدینہ والوں کو خوفزدہ کرنا جس کے متعلق بہت سی احادیث ِصحیحہ موجود ہیں جن میں اہل مدینہ کو خوفزدہ کرنے والوں کو ڈرایا گیاہے۔اسی طرح حرم شریف اور خانہ کعبہ پرحملہ وغیرہ ؛ یہ خلافت ِیزید کے وہ سیاہ کارنامے ہیں کہ جنہیں آج تک اُمت ِمسلمہ فراموش نہیں کرسکی
اور ان میں حصہ لینے والوں میں سے اگر کسی نے حدیث بھی بیان کی ہے تواس کی حدیث کو اس کے اس سیاہ کارنامہ کی وجہ سے ردّ کردیا جاتا ہے۔
بھائی یہ سب کس کی باتیں ہیں کوئی حوالہ بھی ہے اسکا ؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کفا یت اللہ بھائی کیا زئی صاحب جھوٹے ھیں یا یوسف صاحب
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا یہ موقف تو مجھے اس وقت بھی معلوم تھا جب میں نے فورم کی دنیا میں قدم بھی نہیں رکھا تھا، بلکہ کمپوٹر تک بھی چلانا نہیں آتا تھا ، لیکن افسوس کہ میں ان کا معتقد ہونے اوران کا حد درجہ احترام کرنے کے باوجود بھی ان کے اس موقف پرکبھی مطمئن نہ ہوسکا۔
ہم حافظ موصوف کا حددرجہ احترام کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ ان کی ہربات تسلیم کرلیں خصوصا وہ بات جو متقدمین کی متفقہ فہم سے ٹکراتی ہو، متقدمین میں جو لوگ یزید کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے انہوں نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ یزید رحمہ اللہ ہی اس پہلے لشکرکے امیرتھے ، البتہ انہوں نے بخاری کی حدیث کی تاویل کی ہے، غور کریں جس حقیقت کا انکار یزیدکے کٹر سے کٹر مخالفین بھی نہ کرسکے ، آج ہم روزروشن کی طرح عیاں اس حقیقت کا کیسے انکار کردیں۔
رہا آپ کا سوال تو اس پر میں بھی آپ سے ایک سوال کرتاہوں ، ہمت ہو توجواب عنایت کریں:
کیا حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے قبل کے تمام اہل علم جھوٹے ہیں ؟؟؟؟؟؟


یادرے کہ حافظ موصوف نے مذکورہ ویڈیو میں جو روایت پیش کی ہے وہ منقطع ہے، روایت یوں ہے:
فأنبأنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي البزاز ، عن أبي إسحاق البرمكي ، عن أبي بكر عبد العزيز بن جعفر ، قال : ثنا مهنا بن يحي ، قال : سألتُ أحمد عن يزيد بن معاوية ، فقال : هو الذي فعل بالمدينة ما فعل ؟ قلت : وما فعل ؟ قال : نهبها . قلت : فنذكر عنه الحديث ؟! قال : لا يُذكر عنه الحديث ، ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثاً . قلت : ومن كان معه حين فعل ما فعل ؟. قال : أهل الشام [الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 40]۔

اس روایت میں یزید سے متعلق مدینہ میں لوٹ مار کی بات امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نقل فرمارہے ہیں اور امام احمدبن حبنل رحمہ اللہ نے یزید کا دور نہیں پایا ہے لہٰذا یہ روایت منقطع ہے جن لوگوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ان کی مراد یہ ہے کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ تک سلسلہ سند صحیح ہے لیکن اس سے آگے عہدیزیدرحمہ اللہ تک سلسلہ سند مذکورہی نہیں لہٰذا یہ روایت منقطع ٹہری ۔

رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
محدثین کو یہ حق توحاصل ہے کہ اپنے زمانہ سے قبل کے رواۃ پر حفظ و ضبط اورصدق و کذب کے لحاظ سے جرح کریں کیونکہ ان جروح کی بنیاد ان کی مرویات ہوتی ہیں ، علمی تنقید بھی اسی زمرہ میں آتی ہے ، لیکن کسی بھی محدث کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے سے قبل والے زمانہ کے کسی شخص پر لوٹ مار کا الزام عائد کرے کیونکہ اس کاتعلق علم غیب سے ہے اوریہ چیز شخص مذکور کے عہد تک صحیح سند کے بغیرنہیں معلوم کی جاسکتی ۔

لہٰذا ہم متاخرین کی زبانی ، متقدمین پر لوٹ مار کے ایسے الزامات کو قطعا نہیں قبول کرسکتے جس کی صحیح دلیل موجود نہ ہو۔

نیزامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے یزید پرروایت کے لحاظ سے یہاں جوجرح کی ہے اس کی دلیل بھی اسی لوٹ مار والی بات کو بنایا ہے ، اور یزید رحمہ اللہ کا یہ کردار سرے سے ثابت ہی نہیں لہٰذا غیرثابت شدہ امورکی بناد پر کی گئی جرح بھی مردود ہے، اوریزیدرحمہ اللہ کی شخصیت بے داغ ہے والحمدللہ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top