• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ کی امارت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
مئی 21، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
331
پوائنٹ
0
lovelyalltime کا موقف ٹھیک لگا مجھ آگے واللہ اعلم
بہتر ہے کہ اس معاملے میں ذیادہ بحث نہ کی جائے اگر وہ جنتی ہے تو ہمیں کیا اگر جہنمی ہے تو ہمیں کیا اس پرب ات کرنے سے حاصل کچھ نہیں ہو گا البتہ کوئی نہ کوئی گمراہ ضرور ہو جائے گا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
واہ جناب میں نے آپ سے متقدمین ٖعلماء کا پوچھا تھا آپ نے متاخرین کا بتا دیا ھے مھربانی کر کے متقدیمین کی راے بیان کرے
آپ خود سلفی ہیں ۔ آپ نے بھی خود تحقیق کی ھو گی ۔ آپ خود ہی یہاں پر مہربانی فرما کر متقدیمین کی راے بیان فرما دیں ۔ شکریہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا یہ موقف تو مجھے اس وقت بھی معلوم تھا جب میں نے فورم کی دنیا میں قدم بھی نہیں رکھا تھا، بلکہ کمپوٹر تک بھی چلانا نہیں آتا تھا ، لیکن افسوس کہ میں ان کا معتقد ہونے اوران کا حد درجہ احترام کرنے کے باوجود بھی ان کے اس موقف پرکبھی مطمئن نہ ہوسکا۔
ہم حافظ موصوف کا حددرجہ احترام کرتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ ان کی ہربات تسلیم کرلیں خصوصا وہ بات جو متقدمین کی متفقہ فہم سے ٹکراتی ہو، متقدمین میں جو لوگ یزید کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے انہوں نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ یزید رحمہ اللہ ہی اس پہلے لشکرکے امیرتھے ، البتہ انہوں نے بخاری کی حدیث کی تاویل کی ہے، غور کریں جس حقیقت کا انکار یزیدکے کٹر سے کٹر مخالفین بھی نہ کرسکے ، آج ہم روزروشن کی طرح عیاں اس حقیقت کا کیسے انکار کردیں۔
رہا آپ کا سوال تو اس پر میں بھی آپ سے ایک سوال کرتاہوں ، ہمت ہو توجواب عنایت کریں:
کیا حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے قبل کے تمام اہل علم جھوٹے ہیں ؟؟؟؟؟؟


یادرے کہ حافظ موصوف نے مذکورہ ویڈیو میں جو روایت پیش کی ہے وہ منقطع ہے، روایت یوں ہے:
فأنبأنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي البزاز ، عن أبي إسحاق البرمكي ، عن أبي بكر عبد العزيز بن جعفر ، قال : ثنا مهنا بن يحي ، قال : سألتُ أحمد عن يزيد بن معاوية ، فقال : هو الذي فعل بالمدينة ما فعل ؟ قلت : وما فعل ؟ قال : نهبها . قلت : فنذكر عنه الحديث ؟! قال : لا يُذكر عنه الحديث ، ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثاً . قلت : ومن كان معه حين فعل ما فعل ؟. قال : أهل الشام [الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص: 40]۔

اس روایت میں یزید سے متعلق مدینہ میں لوٹ مار کی بات امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نقل فرمارہے ہیں اور امام احمدبن حبنل رحمہ اللہ نے یزید کا دور نہیں پایا ہے لہٰذا یہ روایت منقطع ہے جن لوگوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ان کی مراد یہ ہے کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ تک سلسلہ سند صحیح ہے لیکن اس سے آگے عہدیزیدرحمہ اللہ تک سلسلہ سند مذکورہی نہیں لہٰذا یہ روایت منقطع ٹہری ۔

رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
محدثین کو یہ حق توحاصل ہے کہ اپنے زمانہ سے قبل کے رواۃ پر حفظ و ضبط اورصدق و کذب کے لحاظ سے جرح کریں کیونکہ ان جروح کی بنیاد ان کی مرویات ہوتی ہیں ، علمی تنقید بھی اسی زمرہ میں آتی ہے ، لیکن کسی بھی محدث کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے سے قبل والے زمانہ کے کسی شخص پر لوٹ مار کا الزام عائد کرے کیونکہ اس کاتعلق علم غیب سے ہے اوریہ چیز شخص مذکور کے عہد تک صحیح سند کے بغیرنہیں معلوم کی جاسکتی ۔

لہٰذا ہم متاخرین کی زبانی ، متقدمین پر لوٹ مار کے ایسے الزامات کو قطعا نہیں قبول کرسکتے جس کی صحیح دلیل موجود نہ ہو۔

نیزامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے یزید پرروایت کے لحاظ سے یہاں جوجرح کی ہے اس کی دلیل بھی اسی لوٹ مار والی بات کو بنایا ہے ، اور یزید رحمہ اللہ کا یہ کردار سرے سے ثابت ہی نہیں لہٰذا غیرثابت شدہ امورکی بناد پر کی گئی جرح بھی مردود ہے، اوریزیدرحمہ اللہ کی شخصیت بے داغ ہے والحمدللہ۔

علماے کرام کے اَقوال میں تضاد و اِضطراب
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ، حافظ ابن کثیرؒ اور حافظ ابن تیمیہؒ وغیرہ نے ایک طرف یزید بن معاویہ کے لشکر کو اوّل جیش کا مصداق قرار دیا ہے لیکن پھر یہی علما یہ بات نقل کرتے ہیں کہ یزیدبن معاویہ کا یہ حملہ ۴۹ھ سے شروع ہوا تھا اور اس کی سب سے بڑی دلیل صحیح بخاری کی وہ روایت ہے کہ
جس میں سیدنا محمود بن الربیع کا یہ بیان موجود ہے کہ یزید بن معاویہ اس لشکر کے سالار تھے جس میں ابوایوب انصاری بھی شریک تھے اور اس میں اُنہوں نے وفات پائی تھی۔ (صحیح بخاری:۱۱۸۶)
اور ابوایوب انصاریؓ کی وفات ۵۲ھ میں ہوئی حالانکہ دیگر تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس غزوہ سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوچکے تھے جن کا ذکر احادیث اور تاریخ کی کتب میں موجود ہے اور ان کو آگے ذکر کیا جارہا ہے۔
اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ یہ حملہ نہ تو پہلا حملہ ہے اور نہ ہی ان کا لشکر ’اوّل جیش‘ کا مصداق ہے۔ جن حضرات نے یزید بن معاویہؓ کے لشکر کو اوّل جیش کا مصداق قراردیا ہے اُنہیں اس سلسلہ میں غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس بات کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور نہ سنداً کوئی روایت بیان کی ہے بلکہ صرف یہی بات ذکر کرکے کہ یزید کے لشکر نے قسطنطنیہ پر لشکرکشی کی تھی اور بس… چنانچہ اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ قسطنطنیہ پر کتنے حملے کئے گئے اور ان حملوں میں سب سے پہلا حملہ کس نے کیا تھا۔


قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہؓ نے کیا تھا
حافظ ابن کثیرؒ نے اگرچہ یزیدبن معاویہؓ کے لشکر کو ’اوّل جیش‘ کا مصداق قرار دیا ہے لیکن وہ خود ہی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
’’اور ۳۲ھ میں سیدنا معاویہؓ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی۔ یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔‘‘ (البداية والنہاية:ج۷؍ص۱۵۹)
حافظ موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
’’کہتے ہیں کہ خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا معاویہ کی امارت میں ۳۲ھ میں ہوئی اور وہ خود اس سال لوگوں پرامیر تھے۔‘‘ (ایضاً: ج۸؍ ص۱۲۶)
حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’یہ حملہ ۳۲ھ بمطابق ۶۵۲،۶۵۳ھ میںہوا تھا۔ (دیکھئے تاریخ طبری: ج۴؍ ص۳۰۴، العبر از ذہبی:ج۱؍ ص۲۴، المنظم از ابن جوزی:ج۵؍ ص۱۹ طبع۱۹۹۲ئ، البداية والنھاية:ج۷؍ ص۱۵۹، ج۸؍ ص۱۲۶، تاریخ الاسلام از ذہبی وغیرہ)
اس وقت یزید کی عمر تقریباً چھ سال تھی۔ (دیکھئے تقریب التہذیب وغیرہ)
صرف اس ایک دلیل سے ہی روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ ’اوّل جیش‘ والی حدیث ِمبارکہ کو یزید پر فٹ کرنا صحیح نہیں ہے۔ ‘‘(ماہنامہ ’الحدیث‘ حضرو: شمارہ ۶؍ ص۹؛ مقالات ج۱؍ ص۳۱۱)
موصوف دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’یہ حملہ قسطنطنیہ پر مضیق القسطنطينية کی طرف سے ہوا تھا، یہ مقام اس شہر سے قریب ہے۔‘‘

حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
’’فیھا کانت وقعة المضیق بالقرب من قسطنطينة وأمیرھا معاوية‘‘ (تاریخ اسلام از ذہبی، عہد خلفاے راشدین: ص۳۷۱)
’’اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر معاویہؓ تھے۔ لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔ معاویہؓ نے یہ حملہ عثمان بن عفان کے دورِ خلافت میں کیا تھا۔‘‘


سیدنا معاویہؓ کا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ

قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ سیدنا معاویہؓ نے اپنے دورِ خلافت میںکیا تھا جس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

امام بخاری روایت کرتے ہیں:

حدثنا عبداﷲ بن صالح حدثنی معاوية عن عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر عن أبیہ عن أبي ثعلبۃ الخشني قال سمعتہ في خلافة معاوية بالقسطنطينية وکان معاوية غزا الناس بالقسطنطينية إن اﷲ لا یعجز ھذہ الأمة من نصف یوم (التاریخ الصغیر: ص۵۶ طبع سانگلہ ہل پاکستان؛ طبع دوم ۱؍۱۲۳، التاریخ الکبیر: ج۱؍ص۲۴۸ ق۲،ج۱)

’’سیدنا ابوثعلبہ خشنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاویہ ؓ کو ان کے دورِ خلافت میں قسطنطنیہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا جبکہ وہ لوگوں کو قسطنطنیہ پر چڑھائی کے لیے روانہ کررہے تھے کہ
’’بے شک اللہ تعالیٰ اس امت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجزنہیں کرے گا۔‘‘

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے کیونکہ اسے روایت کرنے والے سیدنا ابوثعلبہ خشنی مشہور صحابی رسولﷺ ہیں اور ان سے ان کے شاگرد سیدنا جبیر بن نفیر ثقہ اور جلیل القدر تابعی ہیں اور صحاحِ ستہ میں سے امام بخاریؒ کے علاوہ سب نے ان سے حدیث روایت کی ہے اور امام بخاریؒ نے بھی الادب المفرد، التاریخ الصغیر اور التاریخ الکبیر میں ان سے حدیث روایت کی ہے۔ جبیر سے ان کے بیٹے عبدالرحمن بن جبیر اس روایت کو بیان کرتے ہیں اور وہ ثقہ ہیں اور ان محدثین نے ان سے حدیث روایت کی ہے کہ جنہوں نے ان کے والد ِمحترم سے حدیث لی ہے۔ عبدالرحمن کے شاگرد معاویہ بن صالح ہیں جو صدوق ہیں اور اُنہیں اَوہام بھی ہوئے ہیں۔ امام بخاری کے علاوہ دیگر صحاحِ ستہ والوں نے ان کی حدیث روایت کی ہے۔ گویا یہ تینوں راویان صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ معاویہ سے اس روایت کو نقل کرنے والے عبداللہ بن صالح ہیں جن کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
’’وہ صدوق ہیں،بہت غلطیاں کرنے والے ہیں لیکن جب وہ کتاب سے روایت کرتے ہیں تو ان کی روایت مضبوط ہوتی ہے اور ان میں کچھ فضیلت پائی جاتی ہے۔ (تقریب) لیکن عبداللہ بن صالح اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ مسنداحمد میں لیث بن سعد نے ان کی متابعت کررکھی ہے اور لیث ثقہ، تبت، فقیہ اور مشہور امام ہیں اور صحاحِ ستہ کے راوی ہیں لہٰذا یہ روایت صحیح ہے۔‘‘

مسند احمد کی متابعت والی روایت کے الفاظ یہ ہیں :

’’عن عبد الرحمٰن بن جبیر عن أبیہ قال سمعت أبا ثعلبة الخشني صاحب رسول اﷲ ﷺ أنہ سمعہ یقول وھو بالفسطاط في خلافة معاوية وکان معاوية أغزٰی الناس القسطنطينية فقال: واﷲ لا تعجز ھذہ الأمة من نصف یوم إذا رأیت الشام مائدۃ رجل واحد وأھل بیتہ فعند ذلک فَتْحُ القسطنطينية ‘‘
’’سیدنا جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے صحابی سیدنا ابوثعلبہ خشنی کو اس وقت فرماتے سنا جب کہ وہ خیمہ میں تھے اور یہ معاویہ ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا اور سیدنا معاویہ اس وقت لوگوں کو قسطنطنیہ پر لشکر کشی کے لیے روانہ فرما رہے تھے پس اُنہوں نے فرمایا اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ اس اُمت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کرے گا اور جب توشام میں ایک شخص اور اس کے گھر والوں کے لیے ایک دستر خوان دیکھے تو اس وقت قسطنطنیہ فتح ہوگا۔‘‘ (مسنداحمد:ج۴؍ ص۱۹۳، وقال شیخ شعیب ارناوط: اسنادہ علیٰ شرط مسلم؛ مسندالامام احمدبن حنبل :۲۹؍۲۶۹،ح۱۷۷۳۴، وقال ہیثمی: رواہ احمد و رجالہ رجال الصحیح؛مجمع الزوائد:۶؍۲۱۹)
اس حدیث میں یہ الفاظ
’’ واﷲ لاتعجز ھذہ الأمة من نصف یوم‘‘مرفوعاً بھی ثابت ہیں۔ (دیکھئے سنن ابوداؤد:۴۳۴۹، مستدرک حاکم:۴؍۴۲۴ علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی والطبرانی فی الکبیر: ۲۲؍۵۷۲، ۵۷۶ وفی الشامیین:۲۰۲۹)
سیدنا معاویہؓ نے
رومیوں کی سرزمین پر سولہ حملے کئے تھے۔(البدایہ:۸؍۱۳۳)
اور ان میں سے جس جس حملہ کی بھی کچھ تفصیلات ملی ہیں، اسے بیان کیا جارہا ہے نیز اس سلسلہ میں مزید کوشش کی جائے اور مطالعہ کیا جائے تو بہت سے حقائق سامنے آسکتے ہیں۔


سیدنا معاویہ کا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ
سیدنا معاویہؓ کے قسطنطنیہ پر ایک اور حملہ کی نشاندہی سیدنا عبداللہ بن عباس کی اس روایت سے ہوتی ہے۔ عبداللہ بن عباس سیدنا ابوایوب انصاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

إن أبا أیوب خالد بن زید الذي کان رسول اﷲ ﷺ نزل في دارہ، غزا أرض الروم فمرَّ علی معاوية فجفاہ معاوية ثم رجع من غزوتہ فجفاہ ولم یرفع بہ رأسًا قال أبو أیوب: إن رسول اﷲ ﷺ أنبأنا: إنا سنرٰی بعدہ إثرۃ۔قال معاوية: فما أمرَکم؟ فقال: أمرنا أن نصبر۔قال: فاصبروا (مستدرک حاکم:۳؍۴۶۲، وقال الحاکم والذہبی: صحیح؛ المعجم الکبیر للطبرانی:۴؍۱۲۵، ج:۳۸۷۶)
’’بے شک ابوایوب انصاری خالد بن زید وہ ہیں کہ جن کے ہاں ان کے گھر پر رسول اللہﷺ اُترے تھے(اور اُنہوں نے نبیﷺ کی کئی دن تک میزبانی فرمائی تھی)۔ اُنہوں نے ارضِ روم میں جنگ کی۔ پس معاویہ ان پر گزرے اور معاویہ نے ان سے بے رختی برتی پھر وہ اس غزوہ سے واپس آگئے تو پھر بھی معاویہ نے ان سے بے رخی برتی اور ان کی طرف سر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ سیدنا ابوایوب نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا تھا کہ ہم آپؐ کے بعد حق تلفی دیکھیں گے یعنی ہم(انصار) کو نظرانداز کیا جائے گا۔ معاویہؓ نے کہا کہ ایسی صورت میں تمہیں کیا حکم دیا گیاہے؟ کہا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم صبر کریں تو اُنہوں نے کہا کہ بس پھر صبر کرو ۔‘‘
اس روایت سے واضح ہورہا ہے کہ سیدنا ابوایوب انصاری، سیدنا معاویہ کے ساتھ بھی قسطنطنیہ کے جہاد میںشریک ہوئے تھے اور پھر اس جہاد میں حصہ لے کر وہ معاویہ کے ساتھ واپس بھی آگئے۔ سیدنا ابوثعلبہ خشنی اور عبداللہ بن عباس دونوں کی روایات کو الگ الگ واقعات مانا جائے تو خلیج قسطنطنیہ کوملا کر یہ تین حملے بنتے ہیں جو معاویہ کے زیر امارت قسطنطنیہ پر کئے گئے تھے کیونکہ بقول حافظ ابن کثیرؒ : معاویہؓ نے ارضِ روم پر سولہ مرتبہ لشکرکشی کی تھی جیسا کہ پیچھے باحوالہ گزر چکا ہے۔


قسطنطنیہ پر چوتھا حملہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید کے زیر امارت ہوا


سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن ولید اپنے باپ خالدؓ بن ولید کی طرح انتہائی شجاع تھے۔ اُنہیں بعض محدثین نے صغار صحابہ میں بھی شمار کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒنے الإصابة في تمییز الصحابة میں ان کا مفصل ترجمہ لکھا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تصریح کردی ہے کہ
أخرج ابن عساکرمن طرق کثیرۃ أنہ کان یؤمر علی غزو الروم أیام معاوية
’’حافظ ابن عساکرنے بہت سی سندوں سے نقل کیا ہے کہ جناب معاویہؓ کے عہد ِحکومت میں ان کو رومیوں سے جو جنگیں لڑی جاتی تھیں، ان میں امیر بنایا جاتاتھا۔‘‘ (الاصابہ:۳؍۶۸)
امام ابن جریر طبریؒ نے اپنی تاریخ میں ۴۴ھ اور ۴۵ ھ کے واقعات کے ضمن میں اور حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں۴۴ھ اور ۴۶ھ کے واقعات کے ذیل میں بلادِ روم میں ان کی زیر امارت رومیوں سے مسلمانوں کے سرمائی جہاد کا ذکر کیاہے۔ افسوس کہ ۴۶ھ میں بلادِ روم ہی میں ان کو حمص میں زہر دے کر شہید کردیاگیا تھا۔ عبدالرحمن بن خالدؓ اپنے غزوات و جہاد کی وجہ سے شامی مسلمانوں میں بڑے محبوب و بااثر تھے۔ (البدایہ والنہایہ:۸؍۳۱)


عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نُرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید والروم مُلصقو ظُہُورہم بحائط المدينة فحمل رجل علی العدوّ فقال الناس: مہ مہ لا إلہ إلا اﷲ یلقي بیدیہ إلی التهلكة۔فقال أبو أیوب: إنما نزلت ہذہ الآية فینا معشر الأنصار لما نصر اﷲ نبیَّہ وأظہر الإسلام قلنا ہلمَّ نقیم في أموالنا ونُصْلِحُہَا فأنزل اﷲ {وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی التَّهْلُكَةِ} فالإلقاء بالأیدي إلی التهلكة أن نقیم في أموالنا ونصلحہا وندع الجہاد۔ قال أبو عمران: فلم یزل أبو أیوب یجاہد في سبیل اﷲ حتی دفن بالقسطنطينية (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم)
’’سیدنا اسلم ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اس وقت امیر جیش سیدنا عبدالرحمن بن خالدبن الولید تھے۔رومی فوج شہر پناہ سے پشت لگائے مسلمانوں سے آمادہ پیکار تھی۔ اسی اثنا میں (مسلمانوں کی صف میں سے نکل کر) ایک شخص نے دشمن (کی فوج) پرحملہ کردیا۔ لوگ کہتے رہے: ’’رکو، رکو، لا الہ اِلا اللہ یہ شخص تو خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدنا اَبوایوب اَنصاری نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں اتری ہے۔ (واقعہ یہ ہے) کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایا تو ہم نے کہا تھا کہ اب تو ہم کو مدینہ میں رہ کر اپنے اَموال کی خبرگیری اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت ِشریفہ نازل فرمائی:
’’ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی االتَّهْلُكَةِ ‘‘ (البقرۃ:۱۹۵) ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میںنہ ڈالو۔‘‘
لہٰذا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تو جہاد کو چھوڑ کر ہمارا اپنے اَموال کی خبرگیری اور اس کی اصلاح کے خیال سے اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا۔ سیدنا ابوعمران کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب مسلسل اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے رہے تاآنکہ وہ دفن بھی قسطنطنیہ میں ہوئے۔‘‘

ایسے ہی سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت سے بھی ثابت ہے کہ عبدالرحمن بن خالد بن الولیدؓ کے ساتھ ابوایوب انصاریؓ اس غزوہ میں شریک تھے اور عبدالرحمن پوری جماعت پر امیر تھے۔ پوری حدیث کے الفاظ حسب ِذیل ہیں:
عن ابن تِعْلی قال: غزونا مع عبد الرحمٰن بن خالد بن الولید فأتي بأربعة أعلاج من العدو فأمر بہم بہم فقتلوا صبرًا۔ قال أبو داود قال لنا غیر سعید عن ابن وہب في ہذا الحدیث قال بالنبل صبرا فبلغ ذلک أبا أیوب الأنصاري فقال سمعت رسول اﷲ ﷺ ینہیٰ عن قتل الصبر ۔۔۔ الحدیث (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب ۱۲۹، فی قتل الاسیر بالنبل:۲۶۸۷)
’’سیدنا عبیدبن تعلی بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدناعبدالرحمن بن خالد بن الولید کے ساتھ جہاد میں شریک تھے۔ (اسی مہم میں) ان کے سامنے دشمن کے چار شخص پیش کئے گئے جن کے قتل کرنے کا اُنہوں نے حکم دیا اور تعمیل حکم میں ان کو باندھ کر قتل کردیا گیا۔‘‘
امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ
’’ہم سے ہمارے استاذامام سعید بن منصور کے علاوہ ایک دوسرے صاحب نے ابن وہب سے اس حدیث کو یوں نقل کیا کہ ان چاروں کوباندھ کر تیروں کا ہدف بنایا۔ جب اس بات کی خبر سیدنا ابوایوبؓ انصاری کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اُنہوں نے اس طرح ہاتھ باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ بس قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کوئی مرغی بھی ہو تو میں اس کا باندھ کر نشانہ نہ لوں۔ جب یہ بات سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید کو پہنچی تو انہوں نے اس کے کفارے میں چار غلام آزاد کئے۔‘‘
یہ حدیث سنن ابوداؤد کے علاوہ سنن سعید بن منصور۶۶۷، مسنداحمد:۵؍۴۲۲، طبرانی:۴؍ ۵۹؍ ۴۰۰۲،السنن الکبریٰ:۹؍۷۱، الدارمی:۱۹۷۴، صحیح ابن حبان: ۸؍۴۵۰، ۵۵۸۰۱،الطحاوی: ۳؍۱۸۲، والشاشی:۱۱۶۰۔۱۱۶۱، مصنف ابن ابی شیبہ:۵؍۳۹۸ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: الموسوعة الحديثية مسند احمد:۳۸؍۵۶۱، امام ابوداؤد نے دوسرے اُستاد سے جو کچھ روایت کیا ہے، یہی کچھ امام سعید بن منصور بھی بیان کرتے ہیں۔ (السنن سعیدبن منصور:۲۶۶۷)
سنن ابوداؤد کی مذکورہ بالا حدیث کی سند ملاحظہ فرمائیں :
حدثنا سعید بن منصور قال حدثنا عبد اﷲ بن وہب قال أخبرني عمرو بن الحارث عن بکیر بن عبد اﷲ بن الأشج عن ابن تِعْلیٰ
نیز دیکھئے: سنن سعید بن منصور:

اس وضاحت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں:
1۔قسطنطنیہ پر ان حملوں کے دوران پوری جماعت پرعبدالرحمن بن خالد بن الولید امیر تھے۔
2۔شروع کے حملوں یا اوّل جیش میں یزید بن معاویہ شامل نہ تھے کیونکہ یہ واقعات ۴۴ھ، ۴۵ھ اور ۴۶ھ کے دوران پیش آئے تھے اور یہ حملے یزید بن معاویہ کے ۴۹ھ کے حملے سے پہلے ہوئے تھے کیونکہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید ۴۶ھ میں شہید ہوگئے تھے اور اس غزوہ میں بھی سیدنا اَبوایوب انصاری، سیدنا عبدالرحمن بن خالد کے ساتھ شریک تھے اور پھر وہ آخری معرکہ میں یزید بن معاویہؓ کے ساتھ بھی شریک ہوئے اور پھر اسی حملہ کے دوران بیمارہوکر اُنہوں نے وفات پائی تھی، جس کی تفصیل اوپربیان ہوچکی ہے۔



قسطنطنیہ پر پانچواں حملہ (زیر امارت: سفیان بن عوف)

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
’’یزید بن معاویہؓ کے آخری حملہ سے پہلے قسطنطنیہ پر سابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
واستعمل معاوية سفیانَ بن عوف علی الصوائف وکان یعظّمہ
’’اور معاویہؓ نے سفیان بن عوف کوقسطنطنیہ پر صیفی(موسم گرماکے) حملوں میں امیر بنایا اور آپ ان کی تعظیم کرتے تھے۔‘‘(الإصابة: ج۲؍ص۵۶)
محمد خضیری کی محاضرات الأمم الإسلامية میں ہے کہ
’’وفي ۴۸ھـ جھَّز معاوية جیشًا عظیمًا الفتح قسطنطينية وکان علی الجیش سفیان بن عوف‘‘ (ج۲؍ ص ۱۱۴)
’’اور ۴۸ھ میں معاویہؓ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے ایک عظیم لشکربھیجا جس کے امیر سیدنا سفیان بن عوف تھے۔‘‘

قسطنطنیہ پر آخری حملہ


سیدنا معاویہؓ کے دورِ حکومت میں قسطنطنیہ پر جو آخری حملہ ہوا تھا، اس لشکر کے سپہ سالار یزید بن معاویہ تھے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس لشکر میں سیدنا اَبوایوب انصاری بھی شامل تھے جو اسی جہاد کے دوران وفات پاگئے تھے اور اُنہیں قسطنطنیہ کے دروازہ کے قریب دفن کیا گیا تھا اور اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)
’’معاویہؓ نے قسطنطنیہ پر جو لشکر کشی کی تھی، ان میں ایک لشکر سردیوں میں(شواتی) اور دوسرا گرمیوں میں (صوائف) حملہ آور ہوتا تھا۔ (البدایہ:۸؍۱۲۷)
ان لشکروں میں الصائفة (اپریل ۶۷۲ء تاستمبر ۶۷۲ء ) کا سالار یزید تھا۔(دیکھئے خلافت ِمعاویہ و یزید: ص۴۳۵) اور عام کتب ِتاریخ‘‘(ماہنامہ الحدیث، حضرو : شمارہ نمبر۶،ص۹)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
lovelyalltime صاحب، اسپیمنگ سے گریز کریں۔ اور طویل مضامین کی کاپی پیسٹنگ بھی نہ کریں۔ جو بات چل رہی ہو، اس کے تعلق سے اپنا موقف اسی قدر بیان کریں ، جس قدر موضوع سے متعلق ہو۔ امید ہے کہ آپ تعاون کریں گے۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
کفا یت اللہ بھائی کیا زئی صاحب جھوٹے ھیں یا یوسف صاحب
علماء کے مابین اختلاف پر یہ جملہ بہت بڑی جسارت ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں! پہلے بھی آپ نے مولانا صلاح الدین یوسف صاحب﷾ کے متعلق نازیبا کلمات ادا کیے تھے، جس سے آپ کو معذرت کرنا پڑی۔

صحابہ کرام﷢ کے مابین بہت سے مسائل میں اختلاف ہوا، کیا وہاں بھی آپ یہ کہنے کی جرات کریں گے؟؟؟

یہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں میں حق کے قریب کون ہے؟

دین اسلام میں زبان کا کنٹرول اور الفاظ کے انتخاب کی بہت اہمیت ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت ۔۔۔ صحيح البخاري ومسلم

ایک حدیث مبارکہ میں ہے:
إنّ الرجلَ ليتكلم بالكلمةِ من رضوان الله تعالى، ما يظنُّ أن تبلغ ما بلغت، فيكتُب اللهُ له بها رضوانه إلى يوم القيامة، وإنّ الرجلَ ليتكلّمُ بالكلمةِ من سخطِ الله ، ما يظنُ أن تبلغَ ما بلغت، فيكتُبُ اللهُ عليه بها سخطَهُ إلى يوم القيامة ۔۔۔ صحيح الجامع
ایک شخص ایک کلمہ ایک کی رضامندی کا بولتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تک پہنچے گا، تو اس کلمے کی بناء پر اس کیلئے قیامت تک اللہ کی رضامندی لکھ دی جاتی ہے۔ اسی طرح آدمی اللہ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ بولتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تک پہنچے گا، تو اس کلمے کی وجہ سے اس کیلئے قیامت تک اللہ کی ناراضگی لکھ دی جاتی ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
علماء کے مابین اختلاف پر یہ جملہ بہت بڑی جسارت ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں! پہلے بھی آپ نے مولانا صلاح الدین یوسف صاحب﷾ کے متعلق نازیبا کلمات ادا کیے تھے، جس سے آپ کو معذرت کرنا پڑی۔

صحابہ کرام﷢ کے مابین بہت سے مسائل میں اختلاف ہوا، کیا وہاں بھی آپ یہ کہنے کی جرات کریں گے؟؟؟

یہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں میں حق کے قریب کون ہے؟

دین اسلام میں زبان کا کنٹرول اور الفاظ کے انتخاب کی بہت اہمیت ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت ۔۔۔ صحيح البخاري ومسلم

ایک حدیث مبارکہ میں ہے:
إنّ الرجلَ ليتكلم بالكلمةِ من رضوان الله تعالى، ما يظنُّ أن تبلغ ما بلغت، فيكتُب اللهُ له بها رضوانه إلى يوم القيامة، وإنّ الرجلَ ليتكلّمُ بالكلمةِ من سخطِ الله ، ما يظنُ أن تبلغَ ما بلغت، فيكتُبُ اللهُ عليه بها سخطَهُ إلى يوم القيامة ۔۔۔ صحيح الجامع
ایک شخص ایک کلمہ ایک کی رضامندی کا بولتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تک پہنچے گا، تو اس کلمے کی بناء پر اس کیلئے قیامت تک اللہ کی رضامندی لکھ دی جاتی ہے۔ اسی طرح آدمی اللہ کی ناراضگی کا کوئی کلمہ بولتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تک پہنچے گا، تو اس کلمے کی وجہ سے اس کیلئے قیامت تک اللہ کی ناراضگی لکھ دی جاتی ہے۔
بلکل ٹھیک صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلاف رہا ۔ لکن جب ان کو ایک صحیح بات پتا چلی تو انھوں نے اسی وقت رجوح کر لیا

لکن کیا ہمارے علماء ایسا کرتے ہیں ۔ہم دوسروں کو تو تقلید سے روکتے ہیں لکن خود اپنے بزرگوں کی تقلید کرتے ہیں ۔ کیا صحابہ کرام بھی سچ معلوم ہونے کے بعد ایسا کرتے تھے ۔

کچھ مثالیں خود پڑھ لیں

ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اس امت میں انبیاءکے بعد سب سے افضل ہیں ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں مرنے والے کی نانی لگتی ہوں اس کی وراثت میں میرا کونسا حصہ ہے؟ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میرے علم کے مطابق تمہارا کوئی حصہ نہیں ۔مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نانی کو چھٹا حصہ وراثت میں سے دلایا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو کہا کہ تمہارا چھٹا حصہ ہے۔
(موطا اما م مالک رحمتہ اللہ علیہ )

عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ آئے ‘ تین دفعہ دستک دی جواب نہیں ملا واپس چلے گئے۔دوبارہ ملاقات پر عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا تم واپس کیوں چلے گئے تھے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہے کہ تین دفعہ دستک دو جواب نہ ملے واپس چلے جاﺅ۔عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا جاﺅ گواہی لے کر آﺅ ۔وہ مسجد نبوی میں گئے وہاں کچھ صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ حدیث سنی ہے تو ان میں سے ایک نے جا کر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے گواہی دی ۔(بخاری )


عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ کوفہ میں ایک عورت سے نکاح کیا پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا اب اس عورت کی ماں سے نکاح کرنا کیسا ہے؟آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہاکہ درست ہے پھر ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ میں آئے اور ان کو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ عورت کی ماں مطلقاً حرام ہے خواہ وہ عورت سے صحبت کرے یا نہ کرے اور صحبت کی قید ربائب میں ہے پھر جب ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ واپس لوٹے تو اسی سائل کے گھر گئے اور اس کو بتلایا کہ اس عورت (ماں ) کو چھوڑ دے ۔
(موطا امام مالک کتاب النکاح)


سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام جارہے تھےراستہ میں انہیں معلوم ہوا کہ شام میں طاعون پھیلا ہوا ہے۔آپ نے صحابہ کرامسے مشورہ کیا،کسی کو بھی حدیثِ رسول معلوم نہ تھی یہاں تک کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اورانہوں نے حدیث رسولﷺبیان کی کہ
‘‘جب کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تووہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو اور جب تمہیں پتہ چل جائے کہ کسی علاقے میں طاعون پھیل چکا ہےتو وہاں مت جاؤ

(صحیح بخاری: ۵۷۲۹)


کیا ہمارے علماء کا درجہ صحابہ کرام سے بڑھ کر ہے ۔

سچ سچ ہوتا ہے میرے بھائی

عزت و تعظیم کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں سے ہر ایک کی ہر اک بات کو ہم من و عن تسلیم کر لیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس ایک معیار موجود ہے کہ دین کی ہر ایک بات کو کتاب و سنت پر پیش کیا جانا چاہئے۔ اب اگر کسی بزرگ کی بات اس معیار پر پوری نہ اترے تو کیا اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ‫:
ہمارے نزدیک اس بزرگ کا کوئی مقام نہیں یا ہم ان کی ہر بات کو یکسر مسترد کرتے ہیں یا ہمارا ان کی بات کو نہ ماننا ، ان کی توہین کے زمرے میں آتا ہے ؟


ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
lovelyalltime صاحب، اسپیمنگ سے گریز کریں۔ اور طویل مضامین کی کاپی پیسٹنگ بھی نہ کریں۔
میری رائے یہ ہے کہ انہیں پوری طرح سے سارا مواد یہاں پیش کرنے دیں تاکہ اُسی مواد کی بناء پر ترتیب سے جوابات دیئے جائیں... ہم حدیث کو غلط ثابت نہیں کریں گے مگر علماء پر بات کی جاسکتی ہے...
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ہمیں اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی کے بھی قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے چاہے وہ کتنے بھی بڑے امام کا ہو یا کتنی ہی مشہور کتاب میں درج ہو۔
یا للعجب !
اب تک آپ نے اپنے موقف (یزید کی اول جیش کی فضیلت سے محرومی) کی تائید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی صحیح حدیث پیش کی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہمیں تو آپ کی پوری تحریر میں ایک بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہ آئی جسے آپ نے اپنے موقف کے دلیل میں پیش کیا ہو !!!!

کہیں ایسا تو نہیں کہ حدیث کی کتابوں میں آپ جو روایت بھی دیکھ لیتے ہیں اسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اگرایسا ہے تو دوہری مصیبت:
  • ایک تو غیرمتعلق روایت پیش کرنا ۔
  • اوردوسرے اس روایت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھنا ۔

بہت خوب !
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یا للعجب !
اب تک آپ نے اپنے موقف (یزید کی اول جیش کی فضیلت سے محرومی) کی تائید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی صحیح حدیث پیش کی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہمیں تو آپ کی پوری تحریر میں ایک بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہ آئی جسے آپ نے اپنے موقف کے دلیل میں پیش کیا ہو !!!!

کہیں ایسا تو نہیں کہ حدیث کی کتابوں میں آپ جو روایت بھی دیکھ لیتے ہیں اسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اگرایسا ہے تو دوہری مصیبت:
  • ایک تو غیرمتعلق روایت پیش کرنا ۔
  • اوردوسرے اس روایت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سمجھنا ۔

بہت خوب !
لگتا ہے کہ آپ نے میری پیش کردہ حدیث کو غور سے نہیں پڑھا

پہلی حدیث
عن أسلم أبي عمران قال: غزونا من المدينة نُرید القسطنطينية وعلی الجماعة عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید والروم مُلصقو ظُہُورہم بحائط المدينة فحمل رجل علی العدوّ فقال الناس: مہ مہ لا إلہ إلا اﷲ یلقي بیدیہ إلی التهلكة۔فقال أبو أیوب: إنما نزلت ہذہ الآية فینا معشر الأنصار لما نصر اﷲ نبیَّہ وأظہر الإسلام قلنا ہلمَّ نقیم في أموالنا ونُصْلِحُہَا فأنزل اﷲ {وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی التَّهْلُكَةِ} فالإلقاء بالأیدي إلی التهلكة أن نقیم في أموالنا ونصلحہا وندع الجہاد۔ قال أبو عمران: فلم یزل أبو أیوب یجاہد في سبیل اﷲ حتی دفن بالقسطنطينية (سنن ابو داؤد: کتاب الجہاد: باب فی قولہ عزوجل ولا تلقوا بایدیکم)

’’سیدنا اسلم ابو عمران کا بیان ہے کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اس وقت امیر جیش سیدنا عبدالرحمن بن خالدبن الولید تھے۔رومی فوج شہر پناہ سے پشت لگائے مسلمانوں سے آمادہ پیکار تھی۔ اسی اثنا میں (مسلمانوں کی صف میں سے نکل کر) ایک شخص نے دشمن (کی فوج) پرحملہ کردیا۔ لوگ کہتے رہے: ’’رکو، رکو، لا الہ اِلا اللہ یہ شخص تو خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔‘‘ یہ سن کر سیدنا اَبوایوب اَنصاری نے فرمایا کہ یہ آیت تو ہم انصاریوں کے بارے میں اتری ہے۔ (واقعہ یہ ہے) کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی مدد فرمائی اور اسلام کو غلبہ نصیب فرمایا تو ہم نے کہا تھا کہ اب تو ہم کو مدینہ میں رہ کر اپنے اَموال کی خبرگیری اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دینا چاہئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت ِشریفہ نازل فرمائی:
’’ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلی االتَّهْلُكَةِ ‘‘ (البقرۃ:۱۹۵) ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میںنہ ڈالو۔‘‘
لہٰذا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تو جہاد کو چھوڑ کر ہمارا اپنے اَموال کی خبرگیری اور اس کی اصلاح کے خیال سے اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا۔ سیدنا ابوعمران کہتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب مسلسل اللہ کی راہ میں جہاد ہی کرتے رہے تاآنکہ وہ دفن بھی قسطنطنیہ میں ہوئے۔‘‘

دوسری حدیث
صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:

’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)


ایک غزوہ میں حضرت ایوب انصاری راضی اللہ زندہ ہیں اور دوسرے غزوہ میں انھوں نے وفات پائی

اب بتایں کہ کون سا لشکر پہلا تھا
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top