• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید کی مغفور لھم کی بشارت کیا ابدی ہے؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم ساتھیوں
یزید کے بارے میں بہت سے لوگ سلف صالحین اور اکابرین امت کے منھج کو چھوڑ کر اس ڈگر پر چلے گئے کہ اس کو واجبی جنتی قرار دینے لگے ہیں جیسا شیخ سنابلی صاحب نے اپ کتاب یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں ثابت کیا ہے یہ ان کی رائے ہے جس سے کوئی بھی اختلاف رکھ سکتے ہیں اور علمی انداز میں اس اختلاف کو بیان کرنے کا حق بھی رکھتا ہے میں شیخ صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں ان کے کتب سے میں نے بہت استفادہ بھی کیا ہے مگر اس بارے میں جو میں نے اکابرین کے اقوال پڑھے ہیں وہ شیخ صاحب کی رائے سے مختلف ہے پہلے ہم وہ حدیث بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد پر یزید مغفور لھم میں شامل ہوتا ہے حالانکہ میرے مطالعہ کی حد تک یزید اس بشارت میں بھی شامل نہیں ہے مگر وقت اور زندگی نے ساتھ دیا تو کسی اور تھرڈ پر بیان کروں گا فلحال ہم اس حدیث کا مزداق یزید کو مانتے ہوئے اس پر گفتگو کرتے ہیں جس میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا(صحیح بخاری کتاب جہاد باب قتال الروم رقم 2924)
اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں "
قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے آئیں اس کو ایک اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھتے ہیں۔
حدثنا عبيدالله بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا قرة بن خالد عن أبي الزبير عن جابر بن عبدالله قال
Y قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من يصعد الثنية ثنية المرار فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيلقال فكان أول من صعدها خيلنا خيل بني الخزرج ثم تتام الناس فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم وكلكم مغفور له إلا صاحب الجمل الأحمر فأتيناه فقلنا له تعال يستغفر لك رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال والله لأن أجد ضالتي أحب إلي من أن يستغفر لي صاحبكم قال وكان الرجل ينشد ضالة له(صحیح مسلم رقم 2780)
ترجمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے پس سب سے پہلے اس پر چڑھنے والا ہمارا شہسواریعنی بنو خزرج کے گھوڑے چڑھے پھر دوسرے لوگ یکے بعد دیگرے چڑھناشروع ہو گئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب بخش دیئے گئے سوائے سرخ اونٹ والے آدمی کے ہم سب اس کے پاس گئے اور اس سے کہا چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے مغفرت طلب کریں گےاس نے کہا اللہ کی قسم اگر میں اپنی گمشدہ چیز کو حاصل کروں تویہ میرے نذدیک تمہارے ساتھی کی میرے لئے مغفرت مانگنے سے پسندید ہے اور وہ آدمی اپنی گمشدہ چیز تلاش کرتا رہا۔
اس حدیث میں بنی اسرائیل کے لئے بھی مغفر لہ کے الفاظ ہیں جیسا بخاری کی اس حدیث میں ہیں اگر بخاری کے مذکورہ الفاظ مغفور لھم جنت کو واجب کرتے ہیں تو پر لازمی یہ ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیل پر بھی جنت واجب ہو گئی ہے کیونکہ ان کے لئے بھی بین ہی وہی الفاظ فرمائے گئے جو بخاری کی روایت میں ہیں اور یہ بات مسلمہ ہے کہ بنی اسرائیل پر جنت واجب نہیں ہے اس کا اقرار کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے تو لامحالہ بخاری میں مغفور لھم سے مراد ابدی جنت نہیں لی جاسکتی ہے اس سے مراد وہی ہے کہ جو مسلم کی روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل سے اس کے پچھلے گناہ ختم کردیئے گئے تھے اسی طرح بخاری میں موجود مغفور لھم سے مراد یہی ہے کہ اس گروہ جس نے قسطنطنیہ میں جہاد کیا ہے اس کے پچھلے گناہ کی معافی مراد ہے وگرنہ بنی اسرائیل کے لئے بھی ابدی جنت ماننا پڑے گی جو قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہے۔چنانچہ امت کے اکابرین نے بھی اس کو بین ہی اسی طرح بیان کیا ہے کہ یہ مغفور لھم کی بشارت پچھلے گناہوں سے معافی ہے اس سے مراد وجوب جنت نہیں ہے۔

اکابرین امت کے اقوال


حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں ابن التین وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔

ابن التين وابن المنير بما حاصله: أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه وسلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم(فتح الباری تحت رقم 2942)
اس میں یہی بیان ہوا ہے کہ اہل علم کا اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مغفور لھم اس شرط سے مشروط ہے کہ اگر کوئی اس غزوہ کے بعد مرتد ہو گیا تو وہ اس عمومی بشارت میں داخل نہیں ہے پس یہ دلیل ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ مغفرت یافتہ وہی ہو گا جس میں اس کی شرائط پائی جائیں۔
تو اس سے یہی ثابت ہے کہ مغفرت اس وقت ہو گی جب تک آگے بھی نیک اعمال پر قائم رہے ورنہ مغفرت سے محروم ہو جائے گا۔
اور یہی بات تقریبا بخاری کے کئی شارح نے بیان کی ہے
(1) امام عینی نے بھی یہی لکھا ہے۔
(2) امام قسطلانی نے بھی یہی لکھا ہے۔

اور شاہ ولی محدث دہلوی جن کا احترام تینوں (اہلحدیث، دیوبندی،برہلوی)کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنی کتاب بخاری تراجم ابواب میں اسی قتال الروم کے تحت رقمطراز ہیں۔
انہ لا یثبت بھذا الحدیث الا کونہ مغفورا لہ ما تقدم من ذنبہ علی ھذہ الغزوۃ لان الجھاد من الکفارات و شان الکفارات ازالۃ آثار الذنوب السابقۃ علیھا لا الواقعۃ بعدھا۔
نعم لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے واضح فرما دیا کے جہاد کفارہ ہوتا ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں ہاں اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔

آئمہ کے ان اقوال سے اظہر من الشمس ہے کہ وہ دونوں احادیث میں جو مغفور لھم کی بشارت ہے وہ سابقہ گناہوں کی بخشش ہے اور اس کی آئمہ سے بھی تائید ہوتی ہے۔

صحابہ کرام کی بشارتین وجوب جنت پر دل تھی
آخر میں یہ مسئلہ بھی حل کر دیا جائے کہ بعض لوگ یزید کی بشارت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بشارت جیسا سمجھتے ہوئے اس مغفور لھم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جیسی بشارت سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جو بشارات دی گئی ہیں ان میں جنت میں جانے کی اور آگلی تمام خطاؤں کی بخشش موجود تھی اس کی ایک آدھا مثال سے ہی پڑھنے والوں پر واضح ہو جائے گا۔

غزوہ بدر میں شمولیت اختیار کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے بشارت کے یہ الفاظ زبان اقدس سے جاری ہوئے ہیں ۔
غفرت لکم ماشئتم۔
تم بخشش دیئے گئے ہو جو چاہے کرو۔
بیعت رضوان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں موجود ہے کہ " لایدخل النار احد بایع تحت الشجرۃ(صحیح مسلم، ترمذی)
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مبشرات کے ساتھ قرینہ موجود ہے مگر مغفور لھم کی اس حدیث کے ساتھ کوئی قرینہ نہیں جیسا اوپر شاہ ولی اللہ کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے کہ " اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔

حاصل کلام

یزید کے بارے میں اس ساری بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر تو وہ اس غزوہ میں سب سے پہلے لشکر میں شامل تھا تب بھی اس کے لیے وجوب جنت کا دعوی اس حدیث کے مطابق بے بنیاد اور باطل ہے اللہ اپنے تمام بندوں سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وجوب کے نہیں مغفور لھم کے الفاظ جاری ہوئے کیونکہ حدیث وحی خفی ہے اور وحی کبھی بھی تضاد نہیں ہو سکتی ہے کہ ایک طرف جنت کی بشارت ہو اور دوسری طرف شفاعت سے محروم کرنے والے کو کیسے جنت کی بشارت مل سکتی ہے
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
صنفان من أمتي لن تنالهما شفاعتي , إمام ظلوم غشوم , و كل غال مارق (سلسلہ احادیث صحیحہ رقم470)
اس میں ظالم حکمران کو شفاعت سے محرومی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ جنتی بھی ہو اور شفاعت سے محروم یعنی جہنم میں بھی جائے۔
اللہ سب کو سمجھنے کی توفقیق عطا کرے۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَرْبٍ الْمَرْوَزِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏فُتِّحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ".
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے وضو کیا، اور اچھی طرح وضو کیا، پھر «أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں“کہا تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے جس سے چاہے وہ جنت میں داخل ہو“۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۶ (۲۳۴)، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۶۰ (۴۷۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۰۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطہارة ۴۱ (۵۵)، بزیادة ’’اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین‘‘، وأعادہ المؤلف فی عمل الیوم واللیلة ۳۴ (۸۴)، سنن ابی داود/فیہ ۶۵ (۱۶۹)، م (۴/۱۴۶، ۱۵۱، ۱۵۳) من مسند عقبة بن عامر، سنن الدارمی/الطہارة ۴۳ (۷۴۳) مطولاً (صحیح)
سنن النسائی : 148 - قال الشيخ الألباني: صحيح
اس حدیث میں تمام مسلمانوں کے لئے اس عمل سے جنت میں جانے کی بشارت ہے ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190

سنن ابی داؤد : حدیث نمبر: 169
حدثنا أحمد بن سعيد الهمداني حدثنا ابن وهب سمعت معاوية يعني ابن صالح يحدث عن أبي عثمان عن جبير بن نفير عن عقبة بن عامرقال:‏‏‏‏ كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خدام أنفسنا نتناوب الرعاية رعاية إبلنا فكانت علي رعاية الإبل فروحتها بالعشي فأدركت رسول الله يخطب الناس فسمعته يقول:‏‏‏‏ "ما منكم من أحد يتوضأ فيحسن الوضوء ثم يقوم فيركع ركعتين يقبل عليهما بقلبه ووجهه إلا قد أوجب فقلت:‏‏‏‏ بخ بخ ما أجود هذه. فقال رجل من بين يدي التي قبلها:‏‏‏‏ يا عقبة أجود منها فنظرت فإذا هو عمر بن الخطابفقلت:‏‏‏‏ ما هي يا أبا حفص؟ قال:‏‏‏‏ إنه قال آنفا قبل أن تجيء:‏‏‏‏ ما منكم من أحد يتوضأ فيحسن الوضوء ثم يقول حين يفرغ من وضوئه:‏‏‏‏ أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية يدخل من أيها شاء"قال معاوية:‏‏‏‏ وحدثني ربيعة بن يزيد عن أبي إدريس عن عقبة بن عامر

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا کام خود کرتے تھے، باری باری اپنے اونٹوں کو چراتے تھے، ایک دن اونٹ چرانے کی میری باری آئی، میں انہیں شام کے وقت لے کر چلا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پوری توجہ اور حضور قلب (دل جمعی) کے ساتھ ادا کرے تو اس نے (اپنے اوپر جنت) واجب کر لی“، میں نے کہا: واہ واہ یہ کیا ہی اچھی (بشارت) ہے، اس پر میرے سامنے موجود شخص نے عرض کیا: عقبہ! جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے فرمائی، وہ اس سے بھی زیادہ عمدہ تھی، میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے، عرض کیا: ابوحفص! وہ کیا تھی؟ آپ نے کہا: تمہارے آنے سے پہلے ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھے: «أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله» ”میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں“تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو“۔ معاویہ کہتے ہیں: مجھ سے ربیعہ بن یزید نے بیان کیا ہے، انہوں نے ابوادریس سے اور ابوادریس نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطھارة ۶ (۲۳۴)، سنن النسائی/الطھارة ۱۱۱ (۱۵۱)، سنن الترمذی/الطھارة ۴۱ (۵۵)، سنن ابن ماجہ/الطھارة۶۰ (۴۷۰)، (تحفة الأشراف: ۹۹۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۴۶،۱۵۱، ۱۵۳)، سنن الدارمی/الطھارة ۴۴ (۷۴۳) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
سنن ابی داؤد : حدیث نمبر: 169
حدثنا أحمد بن سعيد الهمداني حدثنا ابن وهب سمعت معاوية يعني ابن صالح يحدث عن أبي عثمان عن جبير بن نفير عن عقبة بن عامرقال:‏‏‏‏ كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم خدام أنفسنا نتناوب الرعاية رعاية إبلنا فكانت علي رعاية الإبل فروحتها بالعشي فأدركت رسول الله يخطب الناس فسمعته يقول:‏‏‏‏ "ما منكم من أحد يتوضأ فيحسن الوضوء ثم يقوم فيركع ركعتين يقبل عليهما بقلبه ووجهه إلا قد أوجب فقلت:‏‏‏‏ بخ بخ ما أجود هذه. فقال رجل من بين يدي التي قبلها:‏‏‏‏ يا عقبة أجود منها فنظرت فإذا هو عمر بن الخطابفقلت:‏‏‏‏ ما هي يا أبا حفص؟ قال:‏‏‏‏ إنه قال آنفا قبل أن تجيء:‏‏‏‏ ما منكم من أحد يتوضأ فيحسن الوضوء ثم يقول حين يفرغ من وضوئه:‏‏‏‏ أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية يدخل من أيها شاء"قال معاوية:‏‏‏‏ وحدثني ربيعة بن يزيد عن أبي إدريس عن عقبة بن عامر

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا کام خود کرتے تھے، باری باری اپنے اونٹوں کو چراتے تھے، ایک دن اونٹ چرانے کی میری باری آئی، میں انہیں شام کے وقت لے کر چلا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پوری توجہ اور حضور قلب (دل جمعی) کے ساتھ ادا کرے تو اس نے (اپنے اوپر جنت) واجب کر لی“، میں نے کہا: واہ واہ یہ کیا ہی اچھی (بشارت) ہے، اس پر میرے سامنے موجود شخص نے عرض کیا: عقبہ! جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے فرمائی، وہ اس سے بھی زیادہ عمدہ تھی، میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے، عرض کیا: ابوحفص! وہ کیا تھی؟ آپ نے کہا: تمہارے آنے سے پہلے ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھے: «أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله» ”میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں“تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو“۔ معاویہ کہتے ہیں: مجھ سے ربیعہ بن یزید نے بیان کیا ہے، انہوں نے ابوادریس سے اور ابوادریس نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطھارة ۶ (۲۳۴)، سنن النسائی/الطھارة ۱۱۱ (۱۵۱)، سنن الترمذی/الطھارة ۴۱ (۵۵)، سنن ابن ماجہ/الطھارة۶۰ (۴۷۰)، (تحفة الأشراف: ۹۹۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۴۶،۱۵۱، ۱۵۳)، سنن الدارمی/الطھارة ۴۴ (۷۴۳) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ان احادیث کو پیش کرنے کا مقصد بیان کریں
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
محترم ساتھیوں
یزید کے بارے میں بہت سے لوگ سلف صالحین اور اکابرین امت کے منھج کو چھوڑ کر اس ڈگر پر چلے گئے کہ اس کو واجبی جنتی قرار دینے لگے ہیں جیسا شیخ سنابلی صاحب نے اپ کتاب یزید پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں ثابت کیا ہے یہ ان کی رائے ہے جس سے کوئی بھی اختلاف رکھ سکتے ہیں اور علمی انداز میں اس اختلاف کو بیان کرنے کا حق بھی رکھتا ہے میں شیخ صاحب کا بہت احترام کرتا ہوں ان کے کتب سے میں نے بہت استفادہ بھی کیا ہے مگر اس بارے میں جو میں نے اکابرین کے اقوال پڑھے ہیں وہ شیخ صاحب کی رائے سے مختلف ہے پہلے ہم وہ حدیث بیان کرتے ہیں جس کی بنیاد پر یزید مغفور لھم میں شامل ہوتا ہے حالانکہ میرے مطالعہ کی حد تک یزید اس بشارت میں بھی شامل نہیں ہے مگر وقت اور زندگی نے ساتھ دیا تو کسی اور تھرڈ پر بیان کروں گا فلحال ہم اس حدیث کا مزداق یزید کو مانتے ہوئے اس پر گفتگو کرتے ہیں جس میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔


حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا(صحیح بخاری کتاب جہاد باب قتال الروم رقم 2924)
اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں "
قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے آئیں اس کو ایک اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھتے ہیں۔
حدثنا عبيدالله بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا قرة بن خالد عن أبي الزبير عن جابر بن عبدالله قال
Y قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من يصعد الثنية ثنية المرار فإنه يحط عنه ما حط عن بني إسرائيلقال فكان أول من صعدها خيلنا خيل بني الخزرج ثم تتام الناس فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم وكلكم مغفور له إلا صاحب الجمل الأحمر فأتيناه فقلنا له تعال يستغفر لك رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال والله لأن أجد ضالتي أحب إلي من أن يستغفر لي صاحبكم قال وكان الرجل ينشد ضالة له(صحیح مسلم رقم 2780)
ترجمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے پس سب سے پہلے اس پر چڑھنے والا ہمارا شہسواریعنی بنو خزرج کے گھوڑے چڑھے پھر دوسرے لوگ یکے بعد دیگرے چڑھناشروع ہو گئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب بخش دیئے گئے سوائے سرخ اونٹ والے آدمی کے ہم سب اس کے پاس گئے اور اس سے کہا چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے مغفرت طلب کریں گےاس نے کہا اللہ کی قسم اگر میں اپنی گمشدہ چیز کو حاصل کروں تویہ میرے نذدیک تمہارے ساتھی کی میرے لئے مغفرت مانگنے سے پسندید ہے اور وہ آدمی اپنی گمشدہ چیز تلاش کرتا رہا۔
اس حدیث میں بنی اسرائیل کے لئے بھی مغفر لہ کے الفاظ ہیں جیسا بخاری کی اس حدیث میں ہیں اگر بخاری کے مذکورہ الفاظ مغفور لھم جنت کو واجب کرتے ہیں تو پر لازمی یہ ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیل پر بھی جنت واجب ہو گئی ہے کیونکہ ان کے لئے بھی بین ہی وہی الفاظ فرمائے گئے جو بخاری کی روایت میں ہیں اور یہ بات مسلمہ ہے کہ بنی اسرائیل پر جنت واجب نہیں ہے اس کا اقرار کوئی بھی نہیں کر سکتا ہے تو لامحالہ بخاری میں مغفور لھم سے مراد ابدی جنت نہیں لی جاسکتی ہے اس سے مراد وہی ہے کہ جو مسلم کی روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل سے اس کے پچھلے گناہ ختم کردیئے گئے تھے اسی طرح بخاری میں موجود مغفور لھم سے مراد یہی ہے کہ اس گروہ جس نے قسطنطنیہ میں جہاد کیا ہے اس کے پچھلے گناہ کی معافی مراد ہے وگرنہ بنی اسرائیل کے لئے بھی ابدی جنت ماننا پڑے گی جو قرآن کی صریح آیات کے خلاف ہے۔چنانچہ امت کے اکابرین نے بھی اس کو بین ہی اسی طرح بیان کیا ہے کہ یہ مغفور لھم کی بشارت پچھلے گناہوں سے معافی ہے اس سے مراد وجوب جنت نہیں ہے۔


اکابرین امت کے اقوال


حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں ابن التین وغیرہ کے اقوال نقل کیے ہیں۔

ابن التين وابن المنير بما حاصله: أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه وسلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم(فتح الباری تحت رقم 2942)
اس میں یہی بیان ہوا ہے کہ اہل علم کا اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مغفور لھم اس شرط سے مشروط ہے کہ اگر کوئی اس غزوہ کے بعد مرتد ہو گیا تو وہ اس عمومی بشارت میں داخل نہیں ہے پس یہ دلیل ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ مغفرت یافتہ وہی ہو گا جس میں اس کی شرائط پائی جائیں۔
تو اس سے یہی ثابت ہے کہ مغفرت اس وقت ہو گی جب تک آگے بھی نیک اعمال پر قائم رہے ورنہ مغفرت سے محروم ہو جائے گا۔
اور یہی بات تقریبا بخاری کے کئی شارح نے بیان کی ہے
(1) امام عینی نے بھی یہی لکھا ہے۔
(2) امام قسطلانی نے بھی یہی لکھا ہے۔


اور شاہ ولی محدث دہلوی جن کا احترام تینوں (اہلحدیث، دیوبندی،برہلوی)کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنی کتاب بخاری تراجم ابواب میں اسی قتال الروم کے تحت رقمطراز ہیں۔
انہ لا یثبت بھذا الحدیث الا کونہ مغفورا لہ ما تقدم من ذنبہ علی ھذہ الغزوۃ لان الجھاد من الکفارات و شان الکفارات ازالۃ آثار الذنوب السابقۃ علیھا لا الواقعۃ بعدھا۔
نعم لو کان مع ھذا الکلام انہ مغفور لہ الی یوم القیامۃ لدل علی نجاتہ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے واضح فرما دیا کے جہاد کفارہ ہوتا ہے جس سے سابقہ گناہ معاف ہوتے ہیں ہاں اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔


آئمہ کے ان اقوال سے اظہر من الشمس ہے کہ وہ دونوں احادیث میں جو مغفور لھم کی بشارت ہے وہ سابقہ گناہوں کی بخشش ہے اور اس کی آئمہ سے بھی تائید ہوتی ہے۔

صحابہ کرام کی بشارتین وجوب جنت پر دل تھی
آخر میں یہ مسئلہ بھی حل کر دیا جائے کہ بعض لوگ یزید کی بشارت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بشارت جیسا سمجھتے ہوئے اس مغفور لھم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جیسی بشارت سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جو بشارات دی گئی ہیں ان میں جنت میں جانے کی اور آگلی تمام خطاؤں کی بخشش موجود تھی اس کی ایک آدھا مثال سے ہی پڑھنے والوں پر واضح ہو جائے گا۔


غزوہ بدر میں شمولیت اختیار کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے بشارت کے یہ الفاظ زبان اقدس سے جاری ہوئے ہیں ۔
غفرت لکم ماشئتم۔
تم بخشش دیئے گئے ہو جو چاہے کرو۔
بیعت رضوان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں موجود ہے کہ " لایدخل النار احد بایع تحت الشجرۃ(صحیح مسلم، ترمذی)
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مبشرات کے ساتھ قرینہ موجود ہے مگر مغفور لھم کی اس حدیث کے ساتھ کوئی قرینہ نہیں جیسا اوپر شاہ ولی اللہ کے حوالے سے بھی نقل کیا ہے کہ " اگر اس مغفور لھوم کے ساتھ قیامت تک کے الفاظ ہوتے تو یہ اس کی نجات کی دلیل ہوتے۔


حاصل کلام

یزید کے بارے میں اس ساری بحث سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر تو وہ اس غزوہ میں سب سے پہلے لشکر میں شامل تھا تب بھی اس کے لیے وجوب جنت کا دعوی اس حدیث کے مطابق بے بنیاد اور باطل ہے اللہ اپنے تمام بندوں سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ کس نے کیا کرنا ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے وجوب کے نہیں مغفور لھم کے الفاظ جاری ہوئے کیونکہ حدیث وحی خفی ہے اور وحی کبھی بھی تضاد نہیں ہو سکتی ہے کہ ایک طرف جنت کی بشارت ہو اور دوسری طرف شفاعت سے محروم کرنے والے کو کیسے جنت کی بشارت مل سکتی ہے
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
صنفان من أمتي لن تنالهما شفاعتي , إمام ظلوم غشوم , و كل غال مارق (سلسلہ احادیث صحیحہ رقم470)
اس میں ظالم حکمران کو شفاعت سے محرومی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ جنتی بھی ہو اور شفاعت سے محروم یعنی جہنم میں بھی جائے۔
اللہ سب کو سمجھنے کی توفقیق عطا کرے۔

زبیر علی زئی رحمہ الله کا موقف

http://videos1.date/watch/QFFXTHhvZ...li-hadith-mauqif-muhaddis-zubair-ali-zai.html

امام ابن جوزی رحم الله کا موقف

http://www.ahlesunnatpak.com/wp-con...i-Shakhsiyat(By-Mohaddis-Ibn-e-JAOZI-r.a).pdf

ڈاکٹر ابو جبر عبدالله دامانوی رحم الله کا موقف

http://www.ahlesunnatpak.com/wp-con...aur-Qustuntuniyah-By-DR-Abu-Jabir-DAMANWI.pdf
@مظاہر امیر
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
بھائی جان ان سب کے مفصل جوابات کے لئے یزید بن معاویہ پر الزمات کا جائزہ پڑھ لیں
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
قارئین کی سہولت کے لئے یہاں نقل کیے جا رہے ہیں جوابات اس موضوع کے متعلق --- ملاحظہ کیجیے ---
و السلام
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں !
اما بعد !
"یزیدؒ بن معاویہ کے لیے جنت کی بشارت "


ام حرام بنت ملحانؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا ہے ۔پھر رسول ﷺ کچھ دیر بعد نیند سے مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔( صحیح بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء بالجہاد عن انسؓ ) ۔۔۔۔۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت کاسب سے پہلا لشکر جو سمندر میں سفر کر کے جہاد کے لیئے جائے گا، ان کے لیے (جنت) واجب ہو گئی ۔ ام حرامؓ بیان کیا کہ میں نے کہا تھا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں گی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں تم بھی ان کے ساتھ ہو گی ، پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت کا سب سے پہلا لشکر ہے جوقیصر ( رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر یلغار کرے گا ۔ ان سب کی مغفرت ہو گئی ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ۔

( صحیح بخاری کتاب الجہاد باب ماقیل فی قتال الروم عن امِ حرامؓ ،و، باب الدعاء بالجہادعن انسؓ،و،باب من یصرع فی سبیل اللہ،و،باب رکوب البحر،و،کتاب التعبیرباب رؤیا النہار،وکتاب الاستئذان۔ وصحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الغزو فی البحرعن انسؓ)
محمودؓ بن ربیع بیان کرتے ہیں ۔۔ رسول اللہ ﷺ کے مشہور صحابی ابو ایوب انصاریؓ بھی موجود تھے ۔
یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی تھی ۔ فوج کے سپاہ سالار یزیدؒ بن معاویہؓ تھے ۔

(صحیح بخاری کتاب التہجد باب صلوٰۃ النوافل جماعۃ )
اس جہاد میں ابوایوب انصاریؓ شامل ہیں ۔ کیا ایک جلیل القدر صحابی یہ گوارہ کر سکتے ہیں کہ ان کا امیر کوئی خراب ، فاسق ،فاجر شخص ہو؟؟؟
تبصرہ : یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ ا نبیآء کے خواب اللہ ﷻ کی طرف سے سچے اور حق پر مبنی ہوتے ہیں ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کا خواب اللہ ﷻ کی طرف سے ان کو دیکھایا گیا تاکہ لوگوں کو بتا ئیں اور ان کورغبت دلائیں۔ انبیآء کے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی ایک قسم ہے ۔ جن لوگوں نے یزیدؒ بن معاویہؓ پر طرح طرح کے الزام لگائے ہیں ۔
اب یہاں ہم ان لوگوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اللہ ﷻ کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ بعد میں یزیدؒ گمراہ ہو جا ئے گا ؟؟؟
کیا اللہ ﷻ کسی ایسے شخص کے بارے میں بشارت دے سکتا ہے جو بعد میں گمراہ ہو جائے ؟؟؟

جبکہ وہ قادرِ مطلق ہے اور علم غیب اس کی صفات میں سے ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں :
جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیٹھ پرمسح کیا تو قیامت تک پیدا ہونے والی ہر روح نکل پڑی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی آنکھوں کے درمیان ایک نُور پیدا کیا، پھر ان کو آدمؑ کے سامنے پیش کیا ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے ربّ ، یہ کون لوگ ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! یہ تمہاری اولاد ہے ۔ آدمؑ کو ان میں سے ایک شخص کی آنکھوں کے درمیان جو نور تھا بہت پسند آیا ۔ انہوں نے کہا ، اے میرے ربّ ! یہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! یہ تمہاری اولاد کی آخری جماعتوں میں سے ایک شخص ہے جس کانام داؤدؑ ہے ۔
انہوں نے پوچھا اے میرے ربّ ! تو نے اس کی عمر کتنی رکھی ہے ؟
اللہ ﷻ نے فرمایا ! ساٹھ سال ۔ آدمؑ نے عرض کیا ! اے میرے ربّ ! میری عمر سے اس کی عمر میں چالیس سال بڑھا دے ۔

( رواہ الترمذی و صححہ فی تفسیر سورۃ الاعراف عن ابوہریرہؓ )
تبصرہ : اللہ تعالیٰ کو ہر بات پہلے سے معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ خالق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آدمؑ کی پیٹھ سے قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانو ں کی روحیں نکال کر آدم ؑ کے سامنے پیش کر دیں اور ان کو داؤدؑ کے بارے میں بتا دیا ۔اللہ ربّ العالمین قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اگر بشارت دی کہ قسطنطنیہ پر جہاد کرنے والےسب جنتی ہیں تو پھر یزیدؒ کیسے جہنمی ہو سکتے ہیں ؟؟؟
اگر کوئی شخص اس بشارت کے ہوتے ہوئے یزیدؒ پر الزام تراشی کرتا ہے اور ان کو برا بھلا کہتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی خیر منائے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کو جھٹلانا ہو گا ۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں !
اما بعد !
"بیعت وخلافتِ یزیدؒ "

صحیح روایات کے مقابلے میں تاریخ کے بے بنیاد اورغیرمحفوظ افسانوں کو ہی لوگوں نے سچ مان لیا اورتحقیق کی زحمت گوارہ نہیں کی، اورعلماء مذاہب نے بھی جھوٹی روایات کو پیش کرکے اپنی کم علمی کا ثبوت دیا اوراپنے ہی اسلاف کے خلاف زہرافشانی کرتے رہے ہیں ۔
یزیدؒ کے بارے میں انتہائی غلط تاثر قائم کر دیا گیا ہے اوران پر بے بنیاد اور قبیح الزام لگائے گئے ہیں ۔ جبکہ صحیح احادیث میں ان کو جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔
صحیح روایات میں ان کا کردار بالکل بے داغ ہے بلکہ اُن کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اہل مدینہ میں سے (بعض لوگوں نے) یزیدؒ کی بیعت توڑ دی (اورعبداللہ بن زبیرؓ کو خلیفہ بنانا چاہا)، جب ابن حنظلہ نے (یزیدؒ کے خلاف) بیعت لینی شروع کی ، وہ موت پر بیعت لے رہے تھے (اکابرِ امت یزیدؒ کی بیعت توڑنے کے خلاف تھے) عبداللہ بن زید ؓ نے (ابن حنظلہ کی بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا انہوں نے) فرمایا ،،میں رسول ﷺ کے بعد موت پر کسی سےبیعت نہ کروں گا ۔

(صحیح بخاری کتاب الجہاد بیعت فی الحرب عن عباد بن تمیمؓ وکتاب الفتن)
عبداللہ بن عمرؓ بھی اس بغاوت میں شامل نہیں تھے ،انہوں نے یزیدؒ کی بیعت نہیں توڑی بلکہ انہوں نے اس سازش کی سخت مخالفت کی ،انہوں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور اولاد کو جمع کیا اور فرمایا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ۔، آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی اور اب اس سے قتال شروع کر دیا ہے ، اگر مجھے معلوم ہوا کہ تم میں سے کسی نے یزیدؒ کی بیعت توڑی تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا ۔
( صحیح بخاری کتاب الفتن باب اذا قال عند قوم شیئا ثم خرج )
محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسودؓ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک لشکر تیار کیا گیا ( تاکہ یزیدؒ کے خلاف بغاوت کی جائے اوران کی فوج کا مقابلہ کیا جائے) میرا نام بھی اس میں لکھ لیا گیا (اگرچہ میری مرضی نہیں تھی) میں عکرمہؓ کے پاس گیا اور اُن سے اس بات کا تذکرہ کیا ۔ عکرمہؓ نے مجھے اس لشکر میں شامل ہونے سے سختی کے ساتھ ممانعت کی اور فرمایا کہ مجھے ابنِ عباسؓ نے خبردی کہ بعض مسلم (مجبوراً) کافروں کے ساتھ صحابہؓ کے خلاف میدانِ جنگ میں آگئے تھے اور (اگرچہ وہ لڑنے نہیں آئے تھے لیکن)مشرکین کی تعداد میں اضافہ کا موجب بنے ہوئے تھے ۔ (وہ مسلم اگرچہ لڑے نہیں لیکن پھر بھی ان میں سے) بہت سے تیروں کی ضرب سے قتل ہوتے رہے (جو تیر کافروں پر مارے جاتے تھے وہ ان پر بھی لگ جایا کرتے تھے) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق یہ آ یت نازل فرمائی :
ترجمہ !!! بے شک جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (اور کفار کی فوج میں شامل رہے) جب فرشتوں نے ان کی جان نکالی تو اُن سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے ( کیوں کفار کے ساتھ رہے) انہوں نے جواب دیا ہم ملک میں بے بس و مجبور تھے (مجبوراً ہمیں کفار ساتھ دینا پڑا) فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں تھی کہ اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت بُری جگہ ہے ۔
(سورۃ النسآء: 97) ۔
(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ النسآء )
تبصرہ : یعنی عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓو تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کردیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔ جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسولﷺ ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔ عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ ،،ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی ،، اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے کیونکہ سنت کے مطابق جن امور پر بیعت کی جاتی ہے وہ یہ ہیں ۔ : 1 ؛ شرک نہ کرنا ۔ 2 ؛ چوری نہ کرنا ۔ 3 ؛ زنا نہ کرنا ۔ 4 ؛ اولاد کو قتل نہ کرنا ۔ 5 ؛ کسی پر بہتان نہ لگانا ۔ 6 ؛ معروف باتوں میں نافرمانی نہ کرنا ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان ) 7؛ کسی کو ناحق قتل نہ کرنا ۔ (طبرانی اوسط ۱؍۵۰۴ ۔سندہ صحیح) 8 ؛ نوحہ و ماتم نہ کرنا ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز و روٰی نحوہ البخاری فی کتاب الاحکام ) یہ ہے وہ سنت کے مطابق بیعت جس کا ذکر عبداللہ بن عمرؓ نے کیا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت موجود تمام صحابہؓ نے بیعت کی تو وہ یزید ؒ کو امارت کا اہل و حق دار سمجھتے تھے اسی لیئے انہوں نے یزید ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔
وہ جانتے تھے کہ یزیدؒ امارت کے اہل ہیں ان کی بیعت کو توڑ کر ہم حدیث کی لپیٹ میں آجائیں گے یعنی ،،،
قیامت کے دن ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی اور اب اس سے قتال شروع کر دیا ،،، اگر یزیدؒ کے ایمان، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں اور ان کے کردار میں خامی ہوتی تو پھر بیعت توڑنے کا جواز ہوتا مگر ایسا نہیں تھا اسی لیئے صحابہؓ نے یزیدؒ کی بیعت نہیں توڑی جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ حق پر قائم تھے ۔
تب ہی تو عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے تمام رشتہ داروں اور اولاد کو جمع کیا اور ان کو بیعت یزیدؒ توڑنے سے سختی سے منع کیا ۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
غلط فہمی :

اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں "
قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے آئیں اس کو ایک اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھتے ہیں۔
ازالہ : جناب یہ آپ کی اپنی سوچ کی پیدا وار ہے ۔
کیونکہ جو بخش دیئے گئے ہیں وہ کہاں جائیں گے ؟؟؟

جن کی مغفرت ہو تو وہ جنت میں ہی جائیں گے ۔
اگر آپ کی سوچ کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو پھر (((قَدْ أَوْجَبُوا ))) سے پہلے اور بعد میں جنت کا لفظ نہیں ہے تو پھر ان پر کیا واجب ہوئی ؟؟؟
یہ آپ کی کم علمی ہے کہ (((مَغْفُورٌ لَهُمْ ))) کو جنت سے باہر نکال رہے ہیں ۔

اللہ ربّ العالمین جس کو بخشش عطاء فرمائے تو اس کا ٹھکانہ سوائے جنت کے اور کیا ہو سکتا ہے ۔
باقی آپ کا دوسری روایت کے ان الفاظ(((نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے ))) سے یہ قیاس کرنا کہ بنی اسرائیل سے مراد سارے زمانوں کے بنی اسرائیل ہیں تو یہ کسی صورت بھی صحیح نہیں ۔
یہ اس وقت کے ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ایمان لائے نہ کہ تمام زمانوں کے بنی اسرائیل کے لیئے ہے ۔
بنی اسرائیل نے بہت ہی زیادہ گناہ کیئے تھے بہت تاویلیں اور اپنی پسند سے اللہ تعالیٰ کے احکام بدل دینا ، حیلہ سازی سے حرام کو حلال کر دینا ، جیسے شرکیہ کام کا بھی بخش دیا جانا ، اللہ تعالیٰ کی بے حد مہربانی اور رحم ہے ۔
تو جناب یہ مبالغہ کا فقرہ ہے یعنی بنی اسرائیل کے بہت زیادہ اور بڑے گناہ بخش دیئے گئے تھے ۔
جب وہ ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کر دیا ۔
اللہ تعالیٰ کی بخشش کے بعد وہ کہاں جائیں گے ؟ ؟؟
ظاہر ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو تو وہ جنت میں ہی جائے گا ۔
لہذا یزیدؒ بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے جنت کی بشارت صحیح ہے

اسحاق ، بن یزیدد مشقی، یحیی بن حمزہ، ثور بن یزید، خالد بن معدان، عمیر بن اسود، عنسی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عبادہ ؓبن صامت کے پاس گئے جب کہ وہ ساحل حمص میں اپنے ایک محل میں تھے، اور ان کے ہمراہ ان کی بی بی ام حرامؓ بھی تھیں۔ عمیر کہتے ہیں کہ ہم سے ام حرام ؓ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کاسب سے پہلا لشکر جو سمندر میں سفر کر کے جہاد کے لیئے جائے گا ، ان کے لیے (جنت ) واجب ہو گئی ۔ ام حرام ؓ کہتی تھیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں انہیں میں سے ہو جاؤں تو فرمایا تم انہیں میں ہو، ام حرام ؓ کہتی تھیں، کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سب سے پہلے جو لوگ قیصر(رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ )میں جہادکریں گے، وہ مغفور ہیں(یعنی ان سب کی مغفرت ہو چکی ) میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ان لوگوں میں سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔
(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 193)
محمودؓ بن ربیع بیان کرتے ہیں ۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشہور صحابی ابوایوب انصاریؓ بھی موجود تھے ۔
یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی تھی ۔ فوج کے سپاہ سالار یزیدؒ بن
معاویہؓ تھے ۔ (صحیح بخاری کتاب التہجد باب صلوٰۃ النوافل جماعۃ )
یہ دونوں رویتیں صحیح بخاری کی ہیں جن کی حیثیت گھٹانے کے لیئے ایسے اعتراض کیئے جاتے ہیں ۔
(نوٹ : آپ نے جو صحیح مسلم کا حوالہ دیا ، تو آپ کی درج کردہ حدیث اس نمبر پر نہیں ہے بلکہ وہاں کوئی اور ہے ، اس کی تصحیح بھی کر لیجیے اور سکین پیج بھیج دیں - )
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین

والحمدللہ ربّ العالمین
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top