• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یقینِ کامل :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یقینِ کامل


اپنی مرضی کی سمت میں جانا، اڑنے کی رفتار کو کم یا زیادہ کرنا، غوطہ لگانا اور من پسند ٹہنی پر ننھے پنجے جما کر بیٹھنا خود بخود یوں ہوتا چلا گیا جیسے وہ صدیوں سے اڑ رہا تھا۔ فوٹو: فائل

691147-yy-1482738158-259-640x480.jpg

چند ماہ قبل اِس کا نام و نشان نہ تھا مگر دور کہیں اُس کو حالت عدم سے وجود بخشنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ بظاہر اُس کے بغیر بھی فضاؤں کی رونق میں کمی نہ تھی لیکن وہ بھی ان میں ایک حسین اضافہ ہوسکتا تھا۔ شاید اسی مقصد کے پیشِ نظر سفید رنگت والا چھوٹا سا نازک اور نفیس خول تخلیق ہوا جو بذاتِ خود ایک عجوبہ تھا، ہر طرف سے مکمل اور بے جوڑ جس میں سے ہوا، پانی اور مٹی کا دخول نہیں ہوسکتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ خول اندر سے خالی نہ تھا بلکہ حیات بخش عناصر سے لبالب بھرا ہوا تھا۔

یہ خول نہایت احتیاط کے ساتھ اُس کی ماں کے جسم سے نکلا اور صحیح سلامت ایک نرم جگہ پر ٹِک گیا۔ اُس کی ماں نے خول میں موجود حیات بخش مادے کو بار آور بنانے کیلئے مسلسل کئی دن تک خول کو ایک مخصوص درجہ حرارت فراہم کیا جس کی وجہ سے درون خول حیات کی تشکیل کا عمل جاری رہا۔ اس دوران خول کو موسمی اثرات اور ہر طرح کے موذی سے محظوظ رکھنے کا بندوبست بھی کیا گیا۔

مقررہ مدت ختم ہونے کو تھی کہ خول کے اندر خفیف سی حرکت پیدا ہوئی جو زندگی کی پہلی علامت تھی۔ حرکت کی شدت زرا بڑھی تو نازک سا خول ٹوٹ گیا اور زندگی ایک وجود لئے ہوئے بھرپور طریقے سے ظاہر ہوگئی۔ یہ وجود نہایت حقیر اور بے معنی تھا جو محض ایک چھٹانک گوشت اور نصف چھٹانک ہڈیوں پر مشتمل تھا۔ تیز دھڑکن، بے پر بدن اور بے بسی۔۔۔۔ یہ تھا زندگی کا آغاز۔

ابھی شعور نے اُسے چھوا تک نہ تھا کہ اُس کی خوراک کا بندوبست کردیا گیا۔ اُس کی جسمانی ضروریات کے عین مطابق دانہ دنکا اُس تک پہنچتا رہا، حتیٰ کہ پانی کی ننھی بوندیں بھی۔ اُس کی ماں اپنے جسم کو اُس کے ساتھ جوڑے رکھتی تاکہ وہ کچھ حرارت پکڑے اور بیماری سے بچا رہے۔ دھیرے دھیرے اُس کا جسم پروان چڑھنے لگا۔

جب اُس نے ہلکا سا ہوش سنبھالا تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ تنہا نہیں ہے بلکہ اُس کے ساتھ چند اور نفوس بھی پرورش پا رہے ہیں اور قریب ہی خول کے شکستہ ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی تو خود کو ایک درخت کی کھوہ میں بنے ہوئے گھاس پھونس کے گھر میں موجود پایا جو فن تعمیر کا شاہکار تھا۔

یہ نرم بھی تھا اور گرم بھی،
مضبوط بھی تھا اور ہلکا بھی،
گھنا بھی تھا اور گہرا بھی۔

چند دن بعد اُسے پتا چلا کہ جو چونچ اُس کے منہ میں روزانہ درجنوں بار تھوڑی تھوڑی خوراک پیس کر ڈالتی ہے وہ اُس کی ماں کی ہے اور کھوہ کے باہر ٹہنی پر جو ہر وقت بغرض حفاظت بیٹھا رہتا ہے وہ اُس کا باپ ہے البتہ ابھی وہ اُس بات سے بے خبر تھا کہ یہ ماں باپ اُس کی خاطر اتنے جتن کیوں کررہے ہیں؟

آہستہ آہستہ اُس کے بدن پر دلکش نقش و نگار والی سبز چادر چڑھنے لگی اور ہلکے ہلکے پر نکلنا شروع ہوگئے جنہیں پھڑپھڑانے میں اُسے مزہ آتا۔ ایک دن اُس نے آگے بڑھ کر کھوہ سے باہر جھانکا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اردگرد درخت ہی درخت تھے اور پرندوں کا ایک جہان آباد۔ چہار سو رنگ برنگے پنچھی اڑانیں بھرتے نظر آئے جنہیں دیکھ کر اُس کے اندر اڑنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی مگر ابھی وہ اڑ نہیں سکتا تھا۔ اُس نے سمجھا کہ وہ اُس فن سے ناواقف ہے مگر اُسے کیا علم تھا کہ یہ فن تو اُسے خول کے اندر ہی سکھا دیا گیا تھا۔ اب تو صرف مطلوبہ اعضاء کے حصول کی دیر تھی۔

رفتہ رفتہ اُس کے پر توانا ہوتے گئے حتی کہ ایک دن جب اُس نے غیر ارادی طور پر اُنہیں ہلایا تو اُسے اپنا جسم ہوا میں اوپر اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ یہ احساس اتنا مسحور کن تھا کہ اُس کے پروں کی حرکت خودبخود تیز ہوتی گئی اور وہ ہوا میں تیرنے لگا۔ اب اپنی مرضی کی سمت میں جانا، اُڑنے کی رفتار کو کم یا زیادہ کرنا، غوطہ لگانا اور من پسند ٹہنی پر ننھے پنجے جما کر بیٹھنا خود بخود یوں ہوتا چلا گیا جیسے وہ صدیوں سے اڑ رہا تھا۔

یکلخت اسے خیال آیا کہ :
  • اتنی مہارت سے اُڑنا مجھے کس نے سکھایا ہے؟
  • مجھے ہرے رنگ کا دیدہ زیب لباس کس نے پہنایا ہے؟
  • میرے متوازن جسم میں بڑھوتری کیسے ہوتی رہی؟
  • میرے ماں باپ کو میرے لئے گھونسلہ بنانے کی تکنیک کس نے سکھائی؟
  • مجھے پیدا کس نے کیا؟
اُس کے اندر سے آواز آئی کہ ’’اللہ نے‘‘۔
اُس نے پوچھا کہ ’’اللہ‘‘ کون ہے؟
جواب ملا کہ ’’وہ تمہارا خالق ہے‘‘۔
اُس نے کہا ’’سبحان اللہ‘‘۔

پھر سبحان اللہ اس کی زبان بن گئی، بولتا تو دنیا سمجھتی کہ طوطا ’’ٹیں ٹیں‘‘ کرتا ہے مگر اللہ کہتا ہے کہ نہیں وہ میری تسبیح بیان کرتا ہے کیونکہ وہ مجھے بطور خالق اپنا رب مانتا ہے۔

دوسری طرف آج کا انسان خود کو عقلِ کُل کا مالک سمجھتا ہے کہ:،

  • سائنس اور ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے،
  • ناقابل تقسیم ایٹم کے اندر موجود ذرات تک رسائی رکھتا ہے،
  • خلاء کی وسعتوں کو کھنگالنے پر قادر ہے،
  • ہوا میں اُڑ سکتا ہے،
  • پانی کی سطح اور گہرائیاں اُس کے تسلط میں ہیں،
  • پہاڑوں کی چوٹیاں زیرپا ہیں
مگر ایک سامنے کی بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہورہا بلکہ کوئی ہے جو کائنات کے ہر جزو اور اجزاء کے ملاپ سے کروڑوں، اربوں مربوط نظام بنانے والا ہے۔

کسی غیر مرئی اور لامحدود قوتوں کی مالک ہستی کے وجود کا حقیقی تصور بذاتِ خود ایک خوف دلانے والی چیز ہے اور اگر یہ یقین بھی شامل ہوجائے کہ کائنات کے چپے چپے اور ذرے ذرے میں اُسی مختار کل ہستی کا امر کارفرما ہے جسے ’’اللہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ وہی رب ہے جو مارنے کے بعد دوبارہ اٹھانے پر ویسے ہی قادر ہے جیسے پہلی بار پیدا کرنے پر قادر تھا تو تقویٰ اور توکل جیسی دولت نصیب ہوتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ آج اللہ کی ذات پر ہی کامل یقین نہیں، صفات پر یقین تو بعد کی بات ہے۔ اگر یہ یقین اپنی اصل حالت میں ہو تو گناہ کرنے سے پہلے انسان پر لرزہ طاری ہو، اس کے ہاتھ کانپیں، اس کی آنکھوں سے لہو ٹپکے مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
  • خلوتیں و جلوتیں گناہوں سے آلودہ،
  • نظام حکومت میں بدعنوانیوں کے ڈیرے،
  • کاروبار میں ملاوٹ، جھوٹ اور کم تول،
  • دفاتر میں رشوت کا دور دورہ اور کام چوری،
  • رشتہ داریاں تعصب، حسد، چغلی اور غیبت کی ڈسی ہوئیں،
انفرادی و اجتماعی سطح پر منافقت اور خود غرضی کا راج
بدقسمتی سے یہ اس ملک کا معاشرتی خاکہ ہے جو دنیا بھر میں اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے اور جس میں بسنے والے 20 کروڑ انسان اس بات کے دعوے دار ہیں کہ وہ اللہ کو مانتے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم واقعی اللہ کو مانتے ہیں؟

اِس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں، اِس کا جواب آپ مجھے نہیں بلکہ خود کو دیجئے مگر دیانتداری سے۔

 
Top