• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یومِ پیدائش: اِبتداء و اِرتقاء

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

بِسْمِ اللّٰھِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمؔ

السلام علیکم ۔

قدیم یونانی بے شمار دیوی دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے۔ انہی میں اُن کی ایک دیوی تھی جس کا نام آرٹی مِس (ARTEMIS) تھا ۔ پہلے پہل وہ جنگلات کی دیوی سمجھی جاتی تھی۔ پھر وہ شکار کی دیوی کے طور پر پوجی جانے لگی اور آخرکار وہ چاند کی دیوی ٹھہری۔ یونانی اِس دیوی کے مندر بناتے تھے اور ہر مہینے جب نیا چاند نظر آتا تھا، وہ اِس دیوی کا یومِ پیدائش (BIRTHDAY) منانے کے لئے اُس کے مندر میں جمع ہوتےتھے اور عبادت کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ وہ ایک گول کیک نما چیز وہاں لاتے اور اُس پر موم بتیاں لگا کر جلاتے ۔ اپنی عبادت کے اخیر میں اُس کیک کو کاٹ کر کھا جاتے۔
کیک گول اِس لئے ہوتا تھا کہ چاند گول ہوتا ہے اور اُس پر موم بتّیاں اِس لئے جلائی جاتی جاتی تھیں کہ چاند روشن ہوتا ہے۔
وقت گذرا اور تقریباً تمام یونانیوں نے عیسائیت قبول کر لی اور اپنے قدیم دیوی دیوتاؤں کو چھوڑ دیا۔ مگر جن رسومات کے وہ عادی تھے اُنہیں وہ ترک نہ کر سکے بلکہ ان رسومات کو اُنہوں نے عیسائیت میں داخل کرنے کے راستے تلاش کر لئے۔
یومِ پیدائش منانے کے لئے عیسائیت میں باپ (FATHER) اور روح القدس (HOLY GHOST) مشکل اور غیر موزوں محسوس ہوتے تھے لہٰذا اِس رسمِ عبادت کے لئے انہوں نے عیسیٰ ؑ کا انتخاب کیا اور ماہانہ کے بجائے سالانہ ان کا جشنِ ولادت منایا جانے لگا۔ عیسائی یورپ نے اپنے خدا کی تکریم کا یہ انداز بہت پسند کیا اور جلد ہی یہ رسم تمام یورپ میں ایک عیسائی تہوار کے طور پر رائج ہو گئی۔ اِس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یونانی اُس زمانے میں بہت ذہین قوم سمجھے جاتے تھے۔ اُن کے طور طریقوں کی تقلید کو زمانے سے ہم آہنگی کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ لہٰذا بہت جلد اُن کی بہت سی رسومات کا رنگ عیسائیت پر غالب نظر آنے لگا اور صدہا سال تک بلکہ آج بھی عیسائی ان رسومات کو اِس قدر اپنا سمجھتے ہیں گویا کہ وہ عین عیسائیت ہوں۔
وقت کے ساتھ یورپی اقوام کو عروج و غلبہ حاصل ہؤا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غالب اقوام کی ثقافت بھی غالب ہوتی ہے۔ لہٰذا بہت ساری رسومات اور طور طریقوں کے ساتھ یومِ پیدائش کی یہ رسم بھی مغلوب اقوام نے ان سے سیکھی اور اپنے مذہبی پیشواؤں کے یومِ پیدائش منانا شروع کر دئے۔ ساتھ ہی ساتھ اِن مغلوب اقوام میں اِس رسم کو قبولیت فراہم کرنے کے کچھ اور عوامل پہلے سے بھی چلے آتے تھے۔
مگر آہستہ آہستہ یورپ میں مذہب (جو وہاں صرف عیسائیت ہی کی شکل میں موجود تھا) کا زور ٹوٹنے لگا۔ لادینی (SECULAR) قوتوں کو فروغ حاصل ہؤا۔ یہاں تک کہ مذہب کو ریاست (STATE) کے معاملات سے علٰیحدہ ایک انفرادی چیز قرار دے دیا گیا جو چند رسومات کے مجموعے (RITUALS) سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا۔
ریاست و سیاست کی اہمیت بڑھ جانے سے سیاسی قائدین کا درجہ بھی مذہبی پیشواؤں کی طرح اہمیت اختیار کر گیا۔ یومِ پیدائش منانے کی یہ رسم، اتنی بڑی بڑی مذہبی، معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کے باوجود جاری رہی اور اب یہ یومِ پیدائش مذہبی پیشواؤں کے ساتھ ساتھ سیاسی عمائدین اور انقلابی شخصیات کی طرف بھی مائل ہو گیا لہٰذا لِنکن، لینن، گاندھی اور جناح صاحب وغیرہ کے یومِ پیدائش اسی کا نتیجہ ہیں۔
جشن پسندی کا یہ سفر جاری رہا۔ لادینیت کے لازمی نتیجے کے طور پر خواہش پرستی کا سیلاب رونما ہؤا۔ جشن پسندی کی تسکین کے لئے یہ سالانہ اجتماعی جشن کافی نہ رہے۔ مذہبی اور سیاسی میدانوں سے گذر کر یہ رسم معاشرتی میدان میں ایک انفرادی جشن کے طور پر ظاہر ہوئی۔ اجتماعی جشن سب کے لئے ہوتے ہیں جبکہ انفرادی جشن کی خصوصیت یہ ہے کہ جشن کسی ایک فرد کا ہوتا ہے اور اُس میں دوسرے لوگ شرکت کرکے جشن کی رونق بڑھاتے ہیں۔ اِس طرح تقریباً ہر کسی کے گھر سال کے کئی انفرادی جشن نکل آئے اور تقریباً ہر دِن ہی کسی نہ کسی کے گھر اُن کے بچّے کا یومِ پیدائش منایا جا رہا ہوتا ہے۔
محمد طارق انصاری
۶ اپریل ۲۰۱۳
 
Top