• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یوم عاشوراء اور اس کا روزہ، فضائل و مسائل

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
یوم عاشوراء اور اس کا روزہ، فضائل و مسائل



حافظ اکبر علی اختر علی سلفی حفظہ اللہ


الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد ہ ، اما بعد :
یوم عاشوراء دس محرم کو کہتے ہیں جیساکہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :”اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ بِصِيَامِ يَومِ عَاشُورَاءَ يَومَ العَاشِرِ“ نبی کریم ﷺ نے دس محرم کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔(مسند البزار بتحقیق عادل وغیرہ :18/153،ح:122ومختصر زوائد مسند البزار بتحقیق صبری :1/406، ح :672،اس کی سند صحیح ہے ،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)
یوم عاشوراء دورِ جاہلیت میں :
دور جاہلیت میں قریش اس دن روزہ رکھا کرتےتھے اور رسول اللہ ﷺ جب تک مکہ مکرمہ میں رہے، مسلسل اس دن کا روزہ رکھتے رہے جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ” كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصُومُ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَصُومُهُ“ ”دور جاہلیت میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ ﷺ بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے“۔(صحیح مسلم :1125) نیز دیکھیں: (صحیح مسلم:1126)
یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت اور اس دن روزہ رکھنے کا سبب:
جب آپ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے ،تب بھی آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا جیساکہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ”فَلَمَّا هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ “”رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو بھی آپ نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا"۔(صحیح مسلم :1125)
اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ مدینہ کے ارد گرد کی بستیوں میں بھی عاشوراء کا روزہ رکھنے کا پیغام بھجواتے تھے ۔ (صحیح مسلم :1136)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم ِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ نے ان سے پوچھا : تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا: یہ ایک ایسا عظیم دن ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھا ، اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ، اس پر آپ ﷺنے فرمایا : ”فَنَحنُ أَحَقُّ وَ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ“ ” تب تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں اور تمہاری بنسبت ہم موسی علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں ۔ پھر آپ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا “۔ (صحیح بخاری :2004، صحیح مسلم :1130)
[فائدہ] یوم عاشوراء کی فضیلت میں اور بھی کئی احادیث مروی ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ،سخت ضعیف ،موضوع اور منکر ہیں۔

یوم عاشوراءکے روزے کا حکم :
رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت سے پہلے رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، اس پر ابھارتے تھےاور اس موقع پر ان کی نگرانی کرتے تھےجیسا کہ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:1128) لیکن جب رمضان کے روزے فرض کر دیے گئےتو آپ ﷺ نے فرمایا : ”هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ وَلَمْ يَكْتُبِ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ شَاءَفَلْيَصُمْ ،وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ“ ”یہ عاشوراء کا دن ہے ، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس دن کا روزہ فرض نہیں کیا ہے، میں روزے سے ہوں، چنانچہ جو چاہے(اس دن کا) روزہ رکھے اور جو چاہے، نہ رکھے“۔(صحیح بخاری:2003 )
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے : ”إِنَّ عَاشُورَاءَ يَوْمٌ مِنْ أَيَّامِ اللہِ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ“ ”عاشوراء اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے ، پس جس کا جی چاہے ، اس دن کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے، چھوڑ دے“۔ (رقم الحدیث : 1126)
پھر آپ ﷺ نے، نہ صحابہ کرام کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ، نہ منع کیا اور نہ ہی اس موقع پر ان کی نگرانی کی جیسا کہ جابر بن سمرہ العامری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ (دیکھیں : صحیح مسلم :1128)
[فائدہ] نبی کریم ﷺ نے رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد بھی صحابہ کرام کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا جیسا کہ صحیح مسلم (1134) کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے اور وہ اس طرح سے کہ ماہ رمضان کے روزے 2ھ میں فرض ہوے اور آپ ﷺ کی وفات 11ھ میں ہوئی اور مذکورہ صحیح مسلم کی حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے اپنی وفات سے قبل آنے والے یوم عاشوراء میں صحابہ کرام کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا ۔
رہی بات صحابی رسول کے قول کی تو ان کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس طرح سے حکم نہیں دیا ،جس طرح سے آپ رمضان کے روزے کی فرضیت سے پہلے حکم دیا کرتے تھے ۔واللہ اعلم بالصواب.
یوم عاشوراء کے روزے کی فضیلت :
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا اليَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ“ ”میں نے نبی کریم ﷺ کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کسی ایک دن کو دوسرے دنوں پر فوقیت دیتے ہوئے بطور خاص اس روزے کا قصد کرتے ہوں ، سوائے یوم عاشوراء اور ماہ رمضان کے“۔(صحیح بخاری :2006)
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے یوم عاشوراء کے روزے کی بابت سوال کیا گیا ،تو آپ نے فرمایا: ” يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ“ ”وہ پچھلے ایک سال کے (تمام صغیرہ) گناہوں کو مٹا دیتا ہے “۔(صحیح مسلم: 1162)
[فائدہ] یوم عاشوراء کے روزے کی فضیلت میں اور بھی کئی احادیث مروی ہیں لیکن وہ سب کی سب سخت ضعیف اور موضوع ہیں۔
یوم عاشوراءکا روزہ اور یہود کی مخالفت :
پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہودیوں کی مخالفت کرنے کا حکم دیا تو آپ نے ان کی مخالفت کرنے کا عزم بھی کر لیا جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آپ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی رکھنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ !یہ ایک ایسا عظیم دن ہے، جس کی تعظیم یہود و نصاری بھی کرتے ہیں تو آپ ﷺنے فرمایا : ’’فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللهُ، صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ“ ’’جب آئندہ سال آئے گا تو ان شاء اللہ ہم نو محرم کا روزہ (بھی) رکھیں گے“ ۔ (صحیح مسلم: 1134)
ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں : ”لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ“ ’’اگر میں آئندہ سال زندہ رہا ، تو نو محرم کا روزہ ( بھی) ضرور رکھوں گا “۔ (صحیح مسلم : 1134) لیکن آپ ﷺ اپنے عزم کو عملی جامہ پہنائے بغیر ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم (ص:705)میں رقم طراز ہیں:
”امام شافعی اور ان کے اصحاب ، امام احمد و امام اسحاق رحمہم اللہ اور دوسرے علماء کہتے ہیں کہ نو اور دس دونوں کا ایک ساتھ روزہ رکھنا مستحب ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے دس محرم کا روزہ رکھا اور نو محرم کے روزے کی نیت کی“۔
نیزا بن عباس رضی اللہ عنہ یوم عاشوراء کی بابت فرماتے ہیں :
”خَالِفُوا الْيَهُودَ وَصُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ“ ”تم (یوم عاشوراء کے روزے میں) یہودیوں کی مخالفت کرو اور نو (9) اور دس (10) محرم کا روزہ رکھو“۔(مصنف عبد الرزاق بتحقیق الاعظمی :4/102، رقم : 7981 واسنادہ صحیح)
اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو نو اور دس محرم کا روزہ رکھنے کی توفیق بخشے ۔ آمین۔
[فائدہ] صیامِ عاشوراء کے تعلق سے اور بھی کئی اقوال ہیں لیکن جو راجح ہے، اسے گزشتہ سطور میں ذکر کر دیا گیا ہے۔
کیا عاشوراء کے دن یا رات میں کوئی خاص کیفیت والی نماز ثابت ہے؟
جی نہیں ! اس تعلق سے جو روایتیں مروی ہیں ،وہ موضوع ہیں۔دیکھیں : ( الموضوعات لابن الجوزی بتحقیق شکری :1005 و 1004و 1140)
عاشوراء کی رات کی فضیلت:
عاشوراء کی رات کی فضیلت میں بھی جو روایتیں مروی ہیں ، وہ سب بھی سخت ضعیف اور موضوع ہیں ، انہیں میں سے دو روایتوں کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا گیا ہے۔
چند ضعیف اور موضوع روایتیں:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے جب یہودیوں سے پوچھا کہ تم یوم عاشوراء کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ تو انہوں نے کہا: ’’یہ وہ دن ہے جس میں نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر جا لگی تھی ، لہذا انہوں نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا تھا“۔(مسند احمد بتحقیق الارنووط ورفقائہ :14/335،ح:8717، شیخ شعیب اور ان کی ٹیم نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے)
(2) رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یوم عاشوراء کو اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اور یونس علیہ السلام کے شہر والوں کی توبہ قبول کی تھی اور اسی دن ابراہیم علیہ السلام کی ولادت بھی ہوئی تھی“۔ (المعجم الکبیر للطبرانی بتحقیق حمدی:6/69، ح: 5538 و الضعیفۃ:11/692، ح:5413، علامہ البانی نے موضوع قرار دیا ہے)
(3) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ وَسَّعَ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ“ ’’جس نے عاشوراء کے روز اپنے گھر والوں پر فراخی( کشادگی ) کی ، تو اللہ تعالی اس پر پورا سال فراخی کریگا“۔ (شعب الایمان للبیہقی بتحقیق عبد العلی :5/333،ح:3514 والضعیفۃ:14/738، ح: 6824، اس حدیث کو امام ابن حجر ،علامہ البانی اور دیگر اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے)
(4) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا" یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو (اس طرح سے کہ) اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھ لو“۔(مسند احمد بتحقیق الارنؤوط:1 /241، ح:2154والضعیفۃ :9/288،ح:4297، امام البانی اور شیخ شعیب وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے)
(5) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے عاشوراء کی رات شب بیداری کی تو گویا اس نے آسمان والوں کی عبادت کی مثل اللہ تعالی کی عبادت کی“۔(الموضوعات بتحقیق نور الدین ، ح:1004 و1140، ائمہ کرام نے اسے موضوع قرار دیا ہے)
(6) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ عید الاضحی کی رات، عید الفطر کی رات ، نصف شعبان کی رات اور عاشوراء کی رات میں بھلائی انڈیلی جاتی ہے“۔ (مجموع فیہ رسائل للحافظ ابن ناصر الدین الدمشقی بتحقیق مشعل ،ص :65، یہ حدیث موضوع ہے کیونکہ اس میں عبد اللہ الموصلی کذاب راوی ہے جیساکہ ائمہ کرام نے کہا ہے)

--------------------
Pdf لنک
https://drive.google.com/file/d/17MtF3Z6WGsgVdB5bAvi6FuCrfnD4mBvq/view?usp=drivesdk
 
Last edited by a moderator:
Top