• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یکم محرم اور یوم شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
یوم شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ


حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔آپ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو جنت کی خوشخبری دی گئی۔آپ کے دور میں اسلامی مملکت 28 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔

نام و*نسب
آپ کا نام مبارک عمر ہے اور لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و*کنیت دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔

ابتدائی زندگی
آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں پید ا ہوۓ اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے.

ہجرت
ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا.آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا " تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے" مگر کسی کافر کی ہممت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا
عمر ابن الخطاب ، رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں
رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمايا "اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔" [ جامع ترمذی، ج 2 ، ص 563
]

ایک اور موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا "جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔" [صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880 ]

مزید ایک موقع پر فرمايا " اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔

واقعات
آپ ایک انصاف پسند حاکم تھے۔ یک مرتبہ آپ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیۓ صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔
جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : 1-گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ 2-عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3-باریک کپڑا نہ پہننا۔ 4-حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔

عادات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے اور خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جلالت کے معترف تھے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو فرمایا آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر اللہ رحمت بھیجے کوئی شخص مجھے تمہارے درمیان اس ڈھکے ہوئے آدمی (مراد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی میت سے تھی) سے زیادہ پسند نہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔

شہادت
یکم محرم کو ایک ایرانی مجوسی غلام ابولولو فیروز نامی بدبخت نے آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ نماز پڑھارہے تھے۔آپ کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔

شکریہ لنک
 
شمولیت
ستمبر 12، 2017
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
5
یوم شہادت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ


حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔آپ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو جنت کی خوشخبری دی گئی۔آپ کے دور میں اسلامی مملکت 28 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔

نام و*نسب
آپ کا نام مبارک عمر ہے اور لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و*کنیت دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔

ابتدائی زندگی
آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں پید ا ہوۓ اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے.

ہجرت
ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا.آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا " تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے" مگر کسی کافر کی ہممت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا
عمر ابن الخطاب ، رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں
رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمايا "اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔" [ جامع ترمذی، ج 2 ، ص 563
]

ایک اور موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا "جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔" [صحیح بخاری، ج 2 ، رقم الحدیث 880 ]

مزید ایک موقع پر فرمايا " اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔

واقعات
آپ ایک انصاف پسند حاکم تھے۔ یک مرتبہ آپ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیۓ صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔
جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : 1-گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ 2-عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3-باریک کپڑا نہ پہننا۔ 4-حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔

عادات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے اور خود حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جلالت کے معترف تھے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو فرمایا آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر اللہ رحمت بھیجے کوئی شخص مجھے تمہارے درمیان اس ڈھکے ہوئے آدمی (مراد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی میت سے تھی) سے زیادہ پسند نہیں کہ میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔

شہادت
یکم محرم کو ایک ایرانی مجوسی غلام ابولولو فیروز نامی بدبخت نے آپ کو اس وقت شہید کردیا جب آپ نماز پڑھارہے تھے۔آپ کے بعد اتفاق رائے سے حضرت عثمان کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔

شکریہ لنک
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
امیر المومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یوم وفات یکم المحرم ہے یا نہیں اور کیا 26 ذولحجہ ہے
اس بارے میں بتادیں؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سیدنا عمر بن خطاب فاروق اعظم کی تاریخ شہادت ؛
امام محمد بن سعدؒ (المتوفى: 230هـ) الطبقات الکبریٰ میں فرماتے ہیں :
قال: أخبرنا عمرو بن عاصم الكلابي قال: أخبرنا همام بن يحيى قال: أخبرنا قتادة أن عمر بن الخطاب طعن يوم الأربعاء ومات يوم الخميس. رحمه الله.
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني أبو بكر بن إسماعيل بن محمد بن سعد عن أبيه قال: طعن عمر بن الخطاب يوم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين.

طبقات ابن سعد 3/287
پہلی روایت :
سیدنا عمرؓ بن خطاب پر بدھ کے روز حملہ کیا گیا ، اور جمعرات کے روز جام شہادت نوز کرگئے ۔
دوسری روایت :
سیدنا عمرؓ بدھ کے روز (26)ذی الحج سنۃ 23 تیئیس ہجری کو گھائل کیئے گئے ،اور اتوار کے روز یکم محرم (24)ہجری دفن کیئے گئے ،
اور امام أبو الحسن علي ، عز الدين ابن الأثير الجزري (المتوفى: 630هـ)
وقال ابن الاثير في اسد الغابة :
توفي عُمَر لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع عثمان يَوْم الأثنين لليلة بقيت من ذي الحجة.
سیدنا عمرؓ کی وفات ہوگئی تھی جبکہ ذی الحج کی چار راتیں باقی تھیں یعنی 26 ذی الحج کو ، اور اتوار کے دن سیدنا عثمانؓ کی بیعت ہوگئی تھی جبکہ ذی الحج کی ایک رات باقی تھی ؛
وقَالَ ابْنُ قُتَيْبَة: ضربه أَبُو لؤلؤة يَوْم الأثنين لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي، فصلى عَلَيْهِ صهيب، وقبر مَعَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأبي بَكْر.
وكانت خلافته عشر سنين، وستة أشهر، وخمس ليال، وتوفي وهو ابْنُ ثلاث وستين سنة، وقيل: كَانَ عمره خمسًا وخمسين سنة، والأول أصح ما قيل فِي عُمَر.

علامہ ابن قتیبہؒ فرماتے ہیں : ابو لؤلؤ مجوسی ملعون نے سیدنا عمرؓ پر بروز اتوار جبکہ ذوالحجہ کے چاف دن باقی تھے حملہ کیا ، پھر آپ تین اسی زخمی حالت میں رہے ،پھر شہادت پائی ،سیدنا صہیب بن سنان نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ،اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں مدفون ہوئے ،
مدت خلافت دس سال چھ ماہ اور پانچ دن پر محیط تھی ، جس وقت آپ کی وفات ہوئی آپ کی عمر مبارک تریسٹھ (63) برس تھی
،

امام ابوبکراحمد بن الحسین البیہقی (المتوفى: 458هـ) " السنن الکبری "(ج8 ص258) میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک خطبہ روایت کرکے فرماتے ہیں :
" وَمَاتَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ "
یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ذوالحجہ کی چھبیس تاریخ بدھ کے دن شہادت پائی "
اور دور حاضر کے نامور مؤرخ علي بن محمد الصلابي اپنی کتاب
" فصل الخطاب في سيرة ابن الخطاب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب "
میں لکھتے ہیں : قال الذهبي: "استشهد يوم الأربعاء لأربع أو ثلاث بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين من الهجرة، وهو ابن ثلاث وستين سنة على الصحيح (التهذيب)
امام ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بدھ کے روز جبکہ ذوالحجہ کے تین یا چار دن باقی تھے اور تیئیس ہجری تھی ، شہادت پائی ،اس وقت آپ کی عمر شریف (63) تریسٹھ برس تھی ،
https://archive.org/stream/waq58143/58143#page/n634
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابن الجوزیؒ نے "مناقب عمر رضی اللہ عنہ "
https://archive.org/stream/manaqibOmar/book1#page/n691
میں لکھا ہے کہ:
23 ھجری کے ذوالحجہ چھبیس تاریخ بدھ کے روز آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا، اور اتوار کے دن یکم محرم چوبیس ہجری کو دفن کئے گئے ۔ آپ کی مدت خلافت دس برس ،پانچ ماہ اور اکیس دن تھی ۔
"طعن عمر رضي الله عنه يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين، ودفن يوم الأحد صباح هلال المحرم سنة أربع وعشرين، فكانت ولايته عشر سنين وخمسة أشهر وإحدى وعشرين ليلة"
 
شمولیت
اگست 02، 2018
پیغامات
69
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
22
جزاک اللہ خیرا شیخ @اسحاق سلفی
آپ کے تحریر میں دو طرح کی روایتیں ہیں ایک یکم محرم کی دوسری ذوالحجہ کی، اس میں صحیح روایت کونسی ہے۔ یا پھر جمہور نے کس تاریخ کو روایت کیا؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
آپ کے تحریر میں دو طرح کی روایتیں ہیں ایک یکم محرم کی دوسری ذوالحجہ کی، اس میں صحیح روایت کونسی ہے۔ یا پھر جمہور نے کس تاریخ کو روایت کیا؟
محترم بھائی سند کے لحاظ سے سب سے اعلی روایت درج ذیل ہے :
امام محمد بن سعدؒ (المتوفى: 230هـ) الطبقات الکبریٰ میں فرماتے ہیں :
قال: أخبرنا عمرو بن عاصم الكلابي قال: أخبرنا همام بن يحيى قال: أخبرنا قتادة أن عمر بن الخطاب طعن يوم الأربعاء ومات يوم الخميس. رحمه الله.
ترجمہ :

سیدنا عمرؓ بن خطاب پر بدھ کے روز حملہ کیا گیا ، اور جمعرات کے روز جام شہادت نوز کرگئے ۔"

اور یہ بدھ اور جمعرات ذوالحج کی کس تاریخ کو تھے ابن اثیرؒ کے مطابق
قال ابن الاثير في اسد الغابة :
توفي عُمَر لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع عثمان يَوْم الأثنين لليلة بقيت من ذي الحجة.
سیدنا عمرؓ کی وفات ہوگئی تھی جبکہ ذی الحج کی چار راتیں باقی تھیں یعنی 26 ذی الحج کو ، اور اتوار کے دن سیدنا عثمانؓ کی بیعت ہوگئی تھی جبکہ ذی الحج کی ایک رات باقی تھی ؛

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلئے صحیح یہی ہے کہ 26 یا 27 ذوالحجہ تاریخ شہادت ہے ؛
 
Top