• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ آنسو نہ تھے ، پاک دامنی کا نشان تھے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ آنسو نہ تھے ، پاک دامنی کا نشان تھے


ابوبکر قدوسی

اپنا لکھا پڑھ کے بھی بندہ رو سکتا ہے ...........؟
جی میں رو رہا ہوں , آپ بھی رو لیجئے .

ہاں میری ماں ، آپ کی پاک دامنی کا نشان
ابوبکر قدوسی دامن دل بھی کہاں بچا ، جب قمیص کا دامن پھٹا ہو گا - ہمارے سردار سیدنا یوسف پر جب الزام لگا تو دل پر کیا کیا نہ بیت گئی ہو گی - (علیہ السلام )
پھر جب پاک باز ترین خاتون مریم کو کہنے والوں نے کہا کہ

يَآ اُخْتَ هَارُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا

"اے ہارون کی بہن ! نہ تو تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکار تھی۔"
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ سن کے پاک مریم کے دل پر کیا گزری ہو گی .. کیا کیا قیامت نہ ہو گی جو ان کے دل پر بیت گئی ہو گی -

پھر سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہ ) کا خیال آتا ہے ....بھلا دنیا نے ان سا بھی کوئی پاک دامن دیکھا ہو گا ؟

نہیں تاریخ کی گواہی ہے کہ کوئی نہیں ، ہاں کوئی ایک بھی تو نہیں جو میری ماں سا ہو ، کوئی ایسا خوش نصیب ہو ، کوئی ان سا مقدروں والا ہو ...کوئی ایک بھی نہیں .....جانتے ہیں کہ کیسے یہ اتنا بڑا دعوی ہے ؟
ہاں اس لیے کہ ہر کسی کی پاک دامنی کے واسطے کوئی نہ کوئی وسیلہ مقرر ہوا ، کوئی نہ کوئی انسانی ذریعہ بروے کار آیا ...لیکن آپ کا کیسا مقدر کہ آپ کی پاک دامنی کے لیے قران کی آیات نازل ہوئیں -
لیجئے کیسا اہتمام ہے ......
عجب اہتمام ہے -
کمال اہتمام ہے -
وہ جو ان کی عظمت کا منکر ہے وہ بھی مجبور ہے ان آیات کو پڑھنے پر ، ان عنایات کو پڑھنے پر
وہ سفر قیامت کا تھا ....غزوہ بنی مصطلق سے واپسی کا سفر قیامت کا ہی ثابت ہوا - ایک جگہ لشکر کا پڑاؤ تھا .. سیدہ حوائج ضروریہ کے لیے ذرا دور نکل گئیں - ان کے شوہر نامدار قافلے کی رخصت کے معاملات کو دیکھ رہے تھے اور ان کو خبر بھی نہ ہوئی کہ ان کی " آئیش " پیچھے رہ گئیں - ان کا ساتھ اور محبوب زوجہ قافلے میں موجود ہی نہ تھیں ، بے خبری میں کوچ کا حکم دے دیا -
پردے کے احکام نازل ہو چکے تھے سو امہات کے لیے ایک پالکی ہوتی تھی جس میں بیٹھ کر سفر کیا جاتا ...کہار آئے اور ہلکی پھلکی پالکی کو اونٹ پر رکھا ، لیکن اس کسی نے آواز نہ لگائی
کہارو ڈولی نہ چایوں ، اجے میرا بابل آیا نہیں
قافلہ رخصت ہوا ...اور سیدہ پہنچیں - جانے والوں کے محض قدموں کے نشان باقی تھے -- ایک پل تو وحشت نے ، وسوسوں نے ان گھیرا ..لیکن پھر خیال آیا کہ ممکن ہے کچھ دیر میں کسی کو احساس ہو جائے کہ آپ موجود نہیں ہیں - اسی خیال سے ادھر ہی بیٹھ گئیں اور انتظار کرنے لگیں کہ کوئی واپس آ جائے -
بس یہ انتظار قیامت ہو گیا - لیکن ذرا رک کے سوچئے کہ اماں کے لیے اس کے سوا کیا ممکن صورت تھی جو اختیار کرتیں ؟
اس زمانے میں کہ جب قافلے اونٹوں اپر سفر کرتے ، یہ احتیاط کی جاتی تھی کہ ایک بندے کی یہ ڈیوٹی ہوتی کہ وہ قافلے سے چند میل پیچھے چلا آتا - ایک تو یہ حفاظتی نقطہ نظر سے بھی ضروری تھا ، دوسرا مقصد یہ تھا کہ کسی کی کوئی شے گر جائے تو اسے سنبھال لیا جائے - اس روز یہ فرض سیدنا صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ نبھا رہے تھے - انہوں نے سیدہ کو دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ پردے کے احکامات کے نزول سے پہلے وہ آپ کو دیکھ چکے تھے - انہوں نے آپ کو دیکھ کے باواز بلند "انا للہ " پڑھا ..مقصود یہ تھا کہ آپ ، جو زمین پر پڑے پڑے سو رہی تھیں ، متوجہ ہو جائیں ....آپ نے جلدی سے پردہ کیا ، انہوں نے پاس آن کے اونٹ کو بٹھایا اور آپ کو سوار کیا اور تیزی سے قافلے کی سمت چل پڑے - وہاں پہنچے تو سب کو اس معاملے کی خبر ہوئی کہ جو بیت چکا تھا ....
کسی کے دل میں کوئی برا خیال نہ آیا لیکن ایک منافق عبد اللہ بن ابی نے آپ پر تہمت تراشی ...الزام گھڑا ، چند مزید افراد بھی اس کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش تھے ...سیدہ مدینہ پہنچ کے بیمار ہو گئیں اور اپنی والدہ کے گھر موجود تھیں کہ ایک خاتون آئیں ... ان کی باتوں سے یہ انکشاف ہوا کہ مدینہ میں چند افراد نے آپ بارے یہ تہمت تراشی ہے ...جب آپ نے سنا تو پہلا رد عمل یہ تھا کہ آپ بے ہوش ہو کے گر گئیں ، ہوش آیا تو شدید بخار تھا ...اس الزام تراشی کے سبب نبی کریم بھی بہت رنجیدہ تھے ... بخاری کی طویل حدیث میں سیدہ نے تمام واقعہ بیان کیا ہے ...واقعہ کیا ہے ایک اداس کر دینے والی کہانی ہے -
ان اداس دنوں میں ایک روز سیدہ عائشہ انتہائی غم کے عالم میں اپنی والدہ کے گھر منتقل ہو گئیں - سیدہ نے کو اب خبر ہو گئی یہی کہ کیا طوفان ان کے گھر کی دیواروں کو ڈھانے جا رہا ہے - صبح شام بس رونے میں ہی گذر جاتی -
لیکن ابھی تو غموں کی کہانی لکھی جانی تھی - غالب کا کہنا ہے کہ :

رگ و پے میں جب اترے زہر غم تب دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش ہے

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس روز پورا دن روتی رہی۔ نہ میرا آنسو تھمتا تھا اور نہ آنکھ لگتی تھی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آئے۔ دو راتیں اور ایک دن میرا روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس پورے عرصہ میں نہ میرا آنسو رکا اور نہ نیند آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ابھی میرے والدین میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے انہیں اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ بیان کیا کہ ہم ابھی اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ بیان کیا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا اور میرے بارے میں آپ کو وحی کے ذریعہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا ”امابعد“ اے عائشہ! مجھے تمہارے بارے میں اس اس طرح کی خبریں ملی ہیں ‘ اگر تم واقعی اس معاملہ میں پاک و صاف ہو تو اللہ تمہاری پاکی خود بیان کر دے گا لیکن اگر تم نے کسی گناہ کا قصد کیا تھا تو اللہ کی مغفرت چاہو اور اس کے حضور میں توبہ کرو کیونکہ بندہ جب (اپنے گناہوں کا) اعتراف کر لیتا ہے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ختم ہو چکی تھی ...سیدہ کہ جو دن رات روتی رہتیں ، بے قراری کہ حد سے گذر رہی تھی ، آنسو تھے کہ پل کو دامن نہ چھوڑتے تھے ..ایسے خشک ہو گئے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں ، فرماتی ہیں :
" جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کلام پورا کر چکے تو میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے کہ ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے پہلے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کلام کا جواب دیں۔ والد نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں کچھ نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ اس کا جواب دیں۔ والدہ نے بھی یہی کہا۔ اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ اس لیے میں نے خود ہی عرض کیا۔ حالانکہ میں بہت کم عمر لڑکی تھی اور قرآن مجید بھی میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا کہ اللہ کی قسم! مجھے بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگوں نے اس طرح کی افوہوں پر کان دھرا اور بات آپ لوگوں کے دلوں میں اتر گئی اور آپ لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس تہمت سے بری ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اگر اور اس گناہ کا اقرار کر لوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ لوگ اس کی تصدیق کرنے لگ جائیں گے۔ پس اللہ کی قسم! میری اور لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا

«فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏» (یوسف: 18)

”پس صبر جمیل بہتر ہے اور اللہ ہی کی مدد درکار ہے اس بارے میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو“


پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا"
لیجئے ....بات اس ہستی تک آ گئی کہ جس نے سیدہ کو تخلیق کیا تھا ...بھلا کوئی اپنی تخلیق کو بھی ناحق رسوا کرتا ہے ؟
بس اک امتحان تھا ، اک ابتلاء تھی ، مشکل مشکل دن تھے ..کبھی تو ختم ہونا تھے ...لیکن سیدہ نے دل کا غم نکال کے سب کے سامنے رکھ دیا ...لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ اب انہیں کسی کی ضرورت نہیں وہ جانیں اور ان کا رب جانے - ہماری پاک باز ، طاہرہ ، مطہرہ ، عفت مآب ماں نے یہ کہا اور جا کر کے اپنے بستر پر لیٹ گئیں - ا فرماتی ہیں :
"اللہ خوب جانتا تھا کہ میں اس معاملہ میں قطعاً بری تھی اور وہ خود میری برات ظاہر کرے گا۔ کیونکہ میں واقعی بری تھی لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ قرآن مجید میں میرے معاملے کی صفائی اتارے گا کیونکہ میں اپنے کو اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملہ میں خود کوئی کلام فرمائے ‘ مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ میری برات کر دے گا"
لیکن سیدہ نے امید اس ہستی سے لگا لی تھی کہ جس کے دربار سے خالی کون جاتا ہے ؟... سب ایک دم خاموش ہو کے رہ گئے ...کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا - اس خاموشی کے بیچ میں جبرائیل آ گئے ، ہاں وحی کا نزول شروع ہو گیا .... آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کی شدت میں طاری ہوتی تھی۔ موتیوں کی طرح پسینے کے قطرے آپ کے چہرے سے گرنے لگے۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا۔ یہ اس وحی کی وجہ سے تھا جو آپ پر نازل ہو رہی تھی۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ کی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ تبسم فرما رہے تھے-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ عائشہ اللہ نے تمھاری براءت نازل کر دی ....... ماحول ایک دم بدل گیا ، بوجھل پن رخصت ہوا ....سیدہ کی والدہ نے بیٹی سے کہا کہ نبی کریم کے سامنے کھڑی ہو جائیں ...لیکن سیدہ نے کمال ناز سے فرمایا کہ :
" نہیں اللہ کی قسم! میں آپ کے سامنے نہیں کھڑی ہوں گی۔ میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کی حمد و ثنا نہیں کروں گی (کہ اسی نے میری برات نازل کی ہے)"
...... سیدہ کے کے دشمنوں نے سیدہ بارے لب کشائی کر کے ہمیشہ کے لیے ذلت خود پر مسلط کر لی ..ہماری ماں کی پاک دامنی کا گواہ اللہ خود ہو گیا ، کہ خود کلام کیا ... جنت ہیں ایسا کیوں کیا گیا ؟
اللہ سے بہتر کون جانتا ہے کہ اسے خبر تھی کہ عبد اللہ بن ابی ایک شخص نہیں ، پوری ایک برادری کا نام تھا کہ جس نے آتے رہنا تھا ، خباثت چلتی رہنا تھی ، پلتی رہنا تھی ... سو سیدہ کی براءت ، سیدہ کے حق میں کسی فرد کی گواہی کافی نہ تھی ...کہ گواہ ہوتا ، گواہی دیتا ، مٹ جاتا اور تاریخ کی نظر ہو جاتا ...سیدہ کو ازل تک گواہی کی ضرورت تھی ... سو ازل ازل کی یہ گواہی قران میں رقم ہوئی ....سیدہ کے آنسو آنکھوں سے کہاں نکلے تھے ، یہ آنسو تو بہت قیمتی تھے کہ نبی کی حرم کے دل سے نکلے تھے ، سو ان آنسوؤں نے سب کچھ جیت لیا ...عبد اللہ بن ابی رسواء ہوا اس کی ذریت بھی اس کے قدم قدم پر چلی اور قران کی ان دس آیات میں ان کی رسوائی درج ہوئی روسیاہی رقم ہوئی
..............

رضی اللہ عنہا
 
Top