• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ احادیث ضعیف ہیں یا صحیح؟؟؟

shizz

رکن
شمولیت
مارچ 10، 2012
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
166
پوائنٹ
31
ایک فورم پر بحث چل رہی ہے جس کے لیے مجھے ان دو احادیث کے بارے میں جاننا تھا ان احادیث کے بارے میں مجھے پتہ چلا ہے کہ کچھ نے انہیں صحیح کہا ہے کچھ نے ضعیف، براہ مہربانی پوری تفصیل سےاسبارے میں بتا کرمیری رہنمائی فرمائیں،

سواد اعظم والی حدیث کے حوالے کے بارے میں، میں نے ان کو یہ کہا تھا:
سواد اعظم والی حدیث ضعیف ہے
یہ وہ سندیں ہیں جو اس روایت کی ہیں
- أخرجه الامام ابن ماجه فى سننه كتاب الفتن باب السواد الأعظم بهذا الاسناد
حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي قال : حدثنا الوليد بن مسلم قال : حدثنا معان بن رفاعة السلامي قال : حدثني أبو خلف الأعمى ، قال : سمعت أنس بن مالك ، يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : " إن أمتي لا تجتمع على ضلالة ، فإذا رأيتم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم "
2- أخرجه ابن حميد فى سمنده بمسند أنس ابن مالك بلفظه بهذا الاسناد
أنا يزيد بن هارون ، أنا بقية بن الوليد ، أنا معان بن رفاعة السلامي ، عن أبي خلف الأعمى ، عن أنس بن مالك
3- ذكره ابن عاصم فى كتاب السنة بلفظه بهذا الاسناد
ثنا محمد بن مصفى ، ثنا أبو المغيرة ، عن معان بن رفاعة ، عن أبي خلف الأعمى ، عن أنس بن مالك
ان تمام اسناد یں ایک شخص ہے ’’معان بن رفاعۃ‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں تقریب میں فرمایا ہے کہ ’لین الحدیث ہے، کثرت سے مرسل بیان کرتا ہے.
اور پھر اس سند میں ’’ابوخلف الاعمی‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’متروک الحدیث ہے۔‘‘
اور ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے
تو انکا جواب یہ آیا کہ
آپ نے اوپر جو روایت بیان کی ہے وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس کے علاوہ سواد اعظم کی حدیث پاک حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے اور مستدرک الاحاکم میں موجود ہے۔
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ ہٰذِہٖ الأمَّۃَ عَلَی الضَّلَالَۃِ أبَداً وَ قَالَ : یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ ، فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الأعْظَمَ، فَإنّہٗ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِی النَّارِ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں فرمائیگا ۔ جماعت پر اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہے ۔ لہذا مسلمانوں کے بڑ ے گروہ کی پیروی کرو، جو اس سے جدا ہوا وہ جہنم میں جدا ہوا

دوسری حدیث یہ ہے. جو کہ نبی کی وفات کے بعد انکی دنیاوی زندگی ثابت کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب میں اُس حجرہ مبارک میں داخل ہوتی جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق) مدفون ہیں تو میں پردے کا کپڑا اُتار دیتی تھی اور کہتی تھی : بے شک وہاں میرے خاوند اور میرے والد ہیں (جن سے پردہ ضروری نہیں ہوتا) لیکن جب وہاں اُن کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مدفون ہو گئے تو میں وہاں حضرت عمر سے حیاء کی خاطر مکمل حجاب میں داخل ہوتی تھی۔‘‘
اِس حدیث کو امام اَحمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ اور امام زرکشی نے بھی فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 202، الرقم : 25701، والحاکم في المستدرک، 3 / 63، الرقم : 4402، وأيضًا، 4 / 8، الرقم : 6721، والزرکشي في الإجابة لما استدرکت عائشة / 68، الرقم : 68، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 26، وأيضًا، 9 / 37
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
لا تبكُوا على الدِّينِ إذا وَلِيَهُ أهلُهُ ، ولكنِ ابكوا عليْهِ إذا ولِيَهُ غيرُ أهلِهِ
الراوي: أبو أيوب الأنصاري المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الضعيفة - الصفحة أو الرقم: 373
خلاصة حكم المحدث: ضعيف

لا تَبْكُوا على الدِّينِ إذا وَلِيَهُ أَهْلُهُ ، ولكِنِ ابْكُوا عليه إذا وَلِيَهُ غيرُ أَهْلِهِ
الراوي: أبو أيوب الأنصاري المحدث:الألباني - المصدر: ضعيف الجامع - الصفحة أو الرقم: 6188
خلاصة حكم المحدث: ضعيف
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
ایک فورم پر بحث چل رہی ہے جس کے لیے مجھے ان دو احادیث کے بارے میں جاننا تھا ان احادیث کے بارے میں مجھے پتہ چلا ہے کہ کچھ نے انہیں صحیح کہا ہے کچھ نے ضعیف، براہ مہربانی پوری تفصیل سےاسبارے میں بتا کرمیری رہنمائی فرمائیں،

سواد اعظم والی حدیث کے حوالے کے بارے میں، میں نے ان کو یہ کہا تھا:
سواد اعظم والی حدیث ضعیف ہے
یہ وہ سندیں ہیں جو اس روایت کی ہیں
- أخرجه الامام ابن ماجه فى سننه كتاب الفتن باب السواد الأعظم بهذا الاسناد
حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي قال : حدثنا الوليد بن مسلم قال : حدثنا معان بن رفاعة السلامي قال : حدثني أبو خلف الأعمى ، قال : سمعت أنس بن مالك ، يقول : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : " إن أمتي لا تجتمع على ضلالة ، فإذا رأيتم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم "
2- أخرجه ابن حميد فى سمنده بمسند أنس ابن مالك بلفظه بهذا الاسناد
أنا يزيد بن هارون ، أنا بقية بن الوليد ، أنا معان بن رفاعة السلامي ، عن أبي خلف الأعمى ، عن أنس بن مالك
3- ذكره ابن عاصم فى كتاب السنة بلفظه بهذا الاسناد
ثنا محمد بن مصفى ، ثنا أبو المغيرة ، عن معان بن رفاعة ، عن أبي خلف الأعمى ، عن أنس بن مالك
ان تمام اسناد یں ایک شخص ہے ’’معان بن رفاعۃ‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں تقریب میں فرمایا ہے کہ ’لین الحدیث ہے، کثرت سے مرسل بیان کرتا ہے.
اور پھر اس سند میں ’’ابوخلف الاعمی‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’متروک الحدیث ہے۔‘‘
اور ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے
تو انکا جواب یہ آیا کہ
آپ نے اوپر جو روایت بیان کی ہے وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس کے علاوہ سواد اعظم کی حدیث پاک حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے اور مستدرک الاحاکم میں موجود ہے۔
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ ہٰذِہٖ الأمَّۃَ عَلَی الضَّلَالَۃِ أبَداً وَ قَالَ : یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ ، فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الأعْظَمَ، فَإنّہٗ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِی النَّارِ
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں فرمائیگا ۔ جماعت پر اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہے ۔ لہذا مسلمانوں کے بڑ ے گروہ کی پیروی کرو، جو اس سے جدا ہوا وہ جہنم میں جدا ہوا

دوسری حدیث یہ ہے. جو کہ نبی کی وفات کے بعد انکی دنیاوی زندگی ثابت کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب میں اُس حجرہ مبارک میں داخل ہوتی جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق) مدفون ہیں تو میں پردے کا کپڑا اُتار دیتی تھی اور کہتی تھی : بے شک وہاں میرے خاوند اور میرے والد ہیں (جن سے پردہ ضروری نہیں ہوتا) لیکن جب وہاں اُن کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مدفون ہو گئے تو میں وہاں حضرت عمر سے حیاء کی خاطر مکمل حجاب میں داخل ہوتی تھی۔‘‘
اِس حدیث کو امام اَحمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ اور امام زرکشی نے بھی فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 202، الرقم : 25701، والحاکم في المستدرک، 3 / 63، الرقم : 4402، وأيضًا، 4 / 8، الرقم : 6721، والزرکشي في الإجابة لما استدرکت عائشة / 68، الرقم : 68، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 26، وأيضًا، 9 / 37
اس بارے میں مکمل تفصیل کے ساتھ تو کفایت اللہ بھائی بتا سکتے ہیں، آج کل کچھ مصروفیات کی بناء پر وہ فورم پر نہیں آرہے۔
 
Top