- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
یہ ایک شخص کی نہیں بلکہ پوری قوم کی دیت ہے !
بالآخر وفاقی اور صوبائی حکومت امریکہ بہادر کی آشیر باد حاصل کرنے کے لیے ریمنڈ ڈیوس کودوپاکستانیوں فہیم اور فیضان کے قتل کے کیس سے بری کروانے اورکابل بھجوانے میں کامیاب ہو ہی گئی ہے۔ اخبارات اور میڈیا کے مطابق مقتول فہیم اور فیضان کے ورثاکو ٢٠ کروڑ بطور دیت ادا کیے گئے ہیں جبکہ ہیلری صاحبہ یہ دعوی کر رہی ہیں کہ ہم نے یہ دیت ادا نہیں کی ہے یعنی امریکی تو کسی پاکستانی کے قتل کو اس قدر بھی اہمیت نہیں دیتے کہ اس کی دیت ہی ادا کر دیں ۔ہیلری کا یہ بیان پوری قوم کے منہ پر طمانچہ ہے اور ذلیل کرنے کی انتہا ہے۔ یہ دو پاکستانیوں کی نہیں پوری قوم کی غیرت، حمیت اور عزت نفس کے قتل کی دیت ادا کی گئی ہے۔ ایک امریکی نے کہا تھا کہ پاکستانی تو ١٠ ڈالر میں اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں اور اب ٢٠ کروڑ میں پوری قوم کا سودا کر دیا گیا۔ہر پاکستانی کو ایک روپیہ بطور دیت ادا کیا گیا ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ دو پاکستانیوں کے قتل کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک قوم کی آزادی، غیرت، حمیت، وقار اورعزت نفس کا مسئلہ تھا۔ مسلم لیگ کے جیالے اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ صاحب میڈیا میں یہ دعوی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ریمنڈ کیس کا فیصلہ اسلامی شریعت اور قانون کے مطابق ہو اہے۔ اس مملکت خداداد کو نظام عدل وقسط کے لیے ترستے ہوئے ٦٣ سال گزر گئے لیکن ظالم وفاسق حکمرانوں نے یہاں اسلامی قانون کے نفاذ میں ہمیشہ روڑے اٹکائے اور آج اپنے ایک امریکی آقا کی جان بچانے کے لیے ان غلاموں کو اسلامی قانون یاد آ گیاہے۔ڈرون حملوں کے ذریعے وزیرستان میںشہید ہونے والے ہزاروں مسلمان بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور شہری جوانوں کے قصاص اور دیت کے لیے انہیں کبھی اسلامی قانون یاد نہیں آیا؟ ریمنڈ ڈیوس کیس کے دو پہلو ہیں:
قومی پہلو
سی آئی اے، بلیک واٹر اور ڈرونز پاکستان میں جو کچھ کر رہے ہیں اگر اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ صرف قصاص کا نہیں ہے بلکہ یہ قصاص سے بڑھ کر فساد فی الارض اور 'حرابہ' کا مسئلہ ہے۔
١۔ ریمنڈ ڈیوس حربی یعنی جنگی کافر تھاکیونکہ یہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا اور اس امریکی خفیہ تنظیم کے لیے عرصہ دراز سے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پاکستان کی حدود میں کام کرتا رہا ہے۔ اور حربی کافر کی سزا گردن اڑانا ہے۔قرآ ن مجید میں سورة مائدہ کی آیت ٣٣ میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربہ یعنی جنگ کی سزا بری طرح قتل کرنے ، سولی دینے،مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور قید کرنے کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔
٢۔ ریمنڈ ڈیوس ، دن دیہاڑے دوہرے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے صرف قانون قصاص کا مستحق نہیں تھا بلکہ اس پر فساد فی الارض کی آیات کا بھی اطلاق ہوتا ہے یعنی جب قتل وغارت کی نوعیت ایسی ہو کہ اس سے زمین میں فساد پھیلے، لوگوں میں خوف ہراس اور دہشت پیدا ہو تو ایسی قتل وغارت کو 'حرابہ' کہتے ہیں جس کی سزا سورة مائدة کی آیت ٣٣ میں بری طرح قتل کرنا یا بری طرح سولی دینا یا مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹنا یا قید کرنے کی صورت میں دی جاتی ہے۔ جس قدر 'حرابہ' یعنی دہشت گردی میں شناعت، قباحت اور ظلم وزیادتی ہو گی، اسی نسبت سے ان سزاؤں میں سے کوئی سخت تر یا کم تر یا ایک سے زائد سزاؤں کا بھی مجرم پر اطلاق ہو سکتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : نما جزاؤ الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الأرض فسادا أن یقتلوا أو یصلبوا أو تقطع أیدیھم وأرجلھم من خلاف أو ینفوا من الأرض ذلک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الآخرة عذاب عظیم۔(المائدة : ٣٣) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں تو ان کی سزا صرف یہی ہے کہ انہیں بری طرح قتل کیا جائے یا انہیں بری طرح سولی دی جائے یا ان کے مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں قید کر دیا جائے، یہ ان کی رسوائی ہے اس دنیا میں۔ اور آخرت میں بھی ان کے ایک بہت بڑا عذاب ہے۔
خاندانی مسئلہ
اگر تو ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ ایک خاندان اور صرف قصاص کا مسئلہ قرار دیا جائے جیسا کہ حکومت پاکستان اس کیس کو صرف اسی پہلو سے دیکھ رہی ہے تو پھر بھی اس کیس کا فیصلہ غلط ہوا ہے:
١۔ اگر ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو قتل کر دے تو اس صورت میں تین آپشنز ہیں:یا تو قاتل سے قصاص لیا جائے یا پھر ورثا قاتل سے دیت لے لیں یا پھر اسے معاف کر دیں۔ اور اگر کوئی کافر کسی مسلمان کو عمداقتل کر دے تو اس صورت میں قصاص ہی ہے کیونکہ قرآن میں قتل عمد کی صورت میں دیت یا عفو کی ادائیگی کے حکم میں 'فمن عفی لہ من أخیہ شیئ' کے الفاظ ہیں یعنی اگر قاتل کو اس کے بھائی یعنی مقتول کے ولی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے۔ یہاں مقتول کے ولی کو قاتل کا بھائی قرار دیا گیا ہے اور 'نما المؤمنون خوة'کے قرآنی حکم کے تحت ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کا بھائی ہو سکتا ہے۔ مزید برآں آیت کے آخر میں دیت یا عفو کے حکم کو'ذلک تخفیف من ربکم ورحمة' کے الفاظ میں تخفیف اور رحمت قرار دیا گیا ہے اور تخفیف اور رحمت اللہ کی نعمتیں ہیں جن کے مستحق کسی طور بھی کفار نہیں ہو سکتے ہیں۔کافر سے کسی مسلمان کے عمدا قتل کے بدلے دیت یا عفو کا آپشن قبول کرنے کی کوئی شرعی دلیل ہمارے عمل میں کم ازکم نہیں ہے۔
٢۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سر کچل دیا اور بعد میں اپنے اس قتل کا اعتراف کر لیا تو آپ نے قصاص میں اس یہودی کا سر بھی پتھر سے کچلوا دیا۔ یہاں تو ایک لونڈی کا مسئلہ تھا کہ جس کے مالکان بڑے آسانی سے دیت قبول کر لیتے لیکن اس یہودی کو دیت کی کوئی آپشن دیے بغیر قصاص میں قتل کیا گیا۔
٣۔روزنامہ جنگ ١٧ مارچ کے بیان کے مطابق ایک حاضر سروس فاضل جج نے اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ (پی ایل ڈی ٢٠٠٦ پشاور ٨٢) میں مجرم کو دیت کی ادائیگی کے بعد بھی رہا نہیں کیا تھا لہٰذا ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ میں اس فیصلے کو عدالتی نظیر(precedent) بنانا چاہیے تھا کیونکہ ریمنڈ ڈیوس فساد فی الارض کا مرتکب ہوا تھا۔
٤۔ جن دو افراد کو ریمنڈ ڈیوس نے قتل کیا تھا یعنی فہیم اور فیضان، ان میں سے ایک یعنی فہیم کی اہلیہ نے حکومت پاکستان سے اس مسئلہ میں عدل وانصاف کی امید ختم ہو جانے پر خود کشی کر لی تھی۔اس خاتون کی خود کشی کے بعد یہ دعوی سمجھ سے بالاتر ہے کہ مقتولین کے تمام ورثا دیت لینے پر راضی تھے۔
٥۔ روزنامہ جنگ ١٧ مارچ کے بیان کے مطابق دیت کی رقم پاکستانی قومی خزانے سے ادا کی گئی ہے اور اس کی وجہ پاکستانی سرکار نے قومی خودداری بتلائی ہے۔ایک کافر کی دیت اور وہ بھی کروڑوں میں، مسلمانوں کے بیت المال یا خزانے سے کیسے ادا کی جا سکتی ہے؟مسلم لیگ کے مفتی رانا ثناء اللہ صاحب اس بارے بھی شرعی رہنمائی ضرور فرمائیں۔
٦۔ قتل عمد کی صورت میں دیت کی مقداد سو اونٹ ہے اور اگر ان سو اونٹوں کی قیمت نکالی جائے تو وہ تقریباً ایک کروڑ بنتی ہے اور اگر سونے کو نصاب بنائیں تو بمشکل پونے دو کروڑ بنتی ہے بقیہ ١٩ یا ١٨کروڑ قومی خزانے سے کس خوشی میں ادا کیے گئے ہیں؟اسلامی دیت تو ایک کروڑ بنتی ہے جبکہ ٢٠ کروڑ دیت صوبائی اور وفاقی حکومت نے کسی مذہب کے تحت ادا کی ہے ،اس کی بھی ذرا وضاحت کی جائے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے تو کسی امریکی کو قتل بھی نہیں کیا تھا بلکہ صرف گولی چلانے کا الزام تھا تو ا سکی دیت امریکہ قبول کیوں نہیں کر لیتا؟ خوددار ہمارے حکمران نہیں بلکہ امریکہ ہے۔ اور ہم دوسری طرف ہم یعنی پاکستانی ، مقتول بھی ہم ہیں اور دیت بھی ہم ہی ادا کر رہے ہیں۔اسے کہتے ہیں ہمارے حکمران قومی خود داری!۔
بالآخر وفاقی اور صوبائی حکومت امریکہ بہادر کی آشیر باد حاصل کرنے کے لیے ریمنڈ ڈیوس کودوپاکستانیوں فہیم اور فیضان کے قتل کے کیس سے بری کروانے اورکابل بھجوانے میں کامیاب ہو ہی گئی ہے۔ اخبارات اور میڈیا کے مطابق مقتول فہیم اور فیضان کے ورثاکو ٢٠ کروڑ بطور دیت ادا کیے گئے ہیں جبکہ ہیلری صاحبہ یہ دعوی کر رہی ہیں کہ ہم نے یہ دیت ادا نہیں کی ہے یعنی امریکی تو کسی پاکستانی کے قتل کو اس قدر بھی اہمیت نہیں دیتے کہ اس کی دیت ہی ادا کر دیں ۔ہیلری کا یہ بیان پوری قوم کے منہ پر طمانچہ ہے اور ذلیل کرنے کی انتہا ہے۔ یہ دو پاکستانیوں کی نہیں پوری قوم کی غیرت، حمیت اور عزت نفس کے قتل کی دیت ادا کی گئی ہے۔ ایک امریکی نے کہا تھا کہ پاکستانی تو ١٠ ڈالر میں اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں اور اب ٢٠ کروڑ میں پوری قوم کا سودا کر دیا گیا۔ہر پاکستانی کو ایک روپیہ بطور دیت ادا کیا گیا ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ دو پاکستانیوں کے قتل کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک قوم کی آزادی، غیرت، حمیت، وقار اورعزت نفس کا مسئلہ تھا۔ مسلم لیگ کے جیالے اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ صاحب میڈیا میں یہ دعوی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ریمنڈ کیس کا فیصلہ اسلامی شریعت اور قانون کے مطابق ہو اہے۔ اس مملکت خداداد کو نظام عدل وقسط کے لیے ترستے ہوئے ٦٣ سال گزر گئے لیکن ظالم وفاسق حکمرانوں نے یہاں اسلامی قانون کے نفاذ میں ہمیشہ روڑے اٹکائے اور آج اپنے ایک امریکی آقا کی جان بچانے کے لیے ان غلاموں کو اسلامی قانون یاد آ گیاہے۔ڈرون حملوں کے ذریعے وزیرستان میںشہید ہونے والے ہزاروں مسلمان بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور شہری جوانوں کے قصاص اور دیت کے لیے انہیں کبھی اسلامی قانون یاد نہیں آیا؟ ریمنڈ ڈیوس کیس کے دو پہلو ہیں:
قومی پہلو
سی آئی اے، بلیک واٹر اور ڈرونز پاکستان میں جو کچھ کر رہے ہیں اگر اس کے تناظر میں دیکھا جائے تو ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ صرف قصاص کا نہیں ہے بلکہ یہ قصاص سے بڑھ کر فساد فی الارض اور 'حرابہ' کا مسئلہ ہے۔
١۔ ریمنڈ ڈیوس حربی یعنی جنگی کافر تھاکیونکہ یہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا اور اس امریکی خفیہ تنظیم کے لیے عرصہ دراز سے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف پاکستان کی حدود میں کام کرتا رہا ہے۔ اور حربی کافر کی سزا گردن اڑانا ہے۔قرآ ن مجید میں سورة مائدہ کی آیت ٣٣ میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محاربہ یعنی جنگ کی سزا بری طرح قتل کرنے ، سولی دینے،مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور قید کرنے کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔
٢۔ ریمنڈ ڈیوس ، دن دیہاڑے دوہرے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے صرف قانون قصاص کا مستحق نہیں تھا بلکہ اس پر فساد فی الارض کی آیات کا بھی اطلاق ہوتا ہے یعنی جب قتل وغارت کی نوعیت ایسی ہو کہ اس سے زمین میں فساد پھیلے، لوگوں میں خوف ہراس اور دہشت پیدا ہو تو ایسی قتل وغارت کو 'حرابہ' کہتے ہیں جس کی سزا سورة مائدة کی آیت ٣٣ میں بری طرح قتل کرنا یا بری طرح سولی دینا یا مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹنا یا قید کرنے کی صورت میں دی جاتی ہے۔ جس قدر 'حرابہ' یعنی دہشت گردی میں شناعت، قباحت اور ظلم وزیادتی ہو گی، اسی نسبت سے ان سزاؤں میں سے کوئی سخت تر یا کم تر یا ایک سے زائد سزاؤں کا بھی مجرم پر اطلاق ہو سکتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : نما جزاؤ الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الأرض فسادا أن یقتلوا أو یصلبوا أو تقطع أیدیھم وأرجلھم من خلاف أو ینفوا من الأرض ذلک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الآخرة عذاب عظیم۔(المائدة : ٣٣) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں تو ان کی سزا صرف یہی ہے کہ انہیں بری طرح قتل کیا جائے یا انہیں بری طرح سولی دی جائے یا ان کے مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں قید کر دیا جائے، یہ ان کی رسوائی ہے اس دنیا میں۔ اور آخرت میں بھی ان کے ایک بہت بڑا عذاب ہے۔
خاندانی مسئلہ
اگر تو ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ ایک خاندان اور صرف قصاص کا مسئلہ قرار دیا جائے جیسا کہ حکومت پاکستان اس کیس کو صرف اسی پہلو سے دیکھ رہی ہے تو پھر بھی اس کیس کا فیصلہ غلط ہوا ہے:
١۔ اگر ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو قتل کر دے تو اس صورت میں تین آپشنز ہیں:یا تو قاتل سے قصاص لیا جائے یا پھر ورثا قاتل سے دیت لے لیں یا پھر اسے معاف کر دیں۔ اور اگر کوئی کافر کسی مسلمان کو عمداقتل کر دے تو اس صورت میں قصاص ہی ہے کیونکہ قرآن میں قتل عمد کی صورت میں دیت یا عفو کی ادائیگی کے حکم میں 'فمن عفی لہ من أخیہ شیئ' کے الفاظ ہیں یعنی اگر قاتل کو اس کے بھائی یعنی مقتول کے ولی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے۔ یہاں مقتول کے ولی کو قاتل کا بھائی قرار دیا گیا ہے اور 'نما المؤمنون خوة'کے قرآنی حکم کے تحت ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کا بھائی ہو سکتا ہے۔ مزید برآں آیت کے آخر میں دیت یا عفو کے حکم کو'ذلک تخفیف من ربکم ورحمة' کے الفاظ میں تخفیف اور رحمت قرار دیا گیا ہے اور تخفیف اور رحمت اللہ کی نعمتیں ہیں جن کے مستحق کسی طور بھی کفار نہیں ہو سکتے ہیں۔کافر سے کسی مسلمان کے عمدا قتل کے بدلے دیت یا عفو کا آپشن قبول کرنے کی کوئی شرعی دلیل ہمارے عمل میں کم ازکم نہیں ہے۔
٢۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سر کچل دیا اور بعد میں اپنے اس قتل کا اعتراف کر لیا تو آپ نے قصاص میں اس یہودی کا سر بھی پتھر سے کچلوا دیا۔ یہاں تو ایک لونڈی کا مسئلہ تھا کہ جس کے مالکان بڑے آسانی سے دیت قبول کر لیتے لیکن اس یہودی کو دیت کی کوئی آپشن دیے بغیر قصاص میں قتل کیا گیا۔
٣۔روزنامہ جنگ ١٧ مارچ کے بیان کے مطابق ایک حاضر سروس فاضل جج نے اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ (پی ایل ڈی ٢٠٠٦ پشاور ٨٢) میں مجرم کو دیت کی ادائیگی کے بعد بھی رہا نہیں کیا تھا لہٰذا ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ میں اس فیصلے کو عدالتی نظیر(precedent) بنانا چاہیے تھا کیونکہ ریمنڈ ڈیوس فساد فی الارض کا مرتکب ہوا تھا۔
٤۔ جن دو افراد کو ریمنڈ ڈیوس نے قتل کیا تھا یعنی فہیم اور فیضان، ان میں سے ایک یعنی فہیم کی اہلیہ نے حکومت پاکستان سے اس مسئلہ میں عدل وانصاف کی امید ختم ہو جانے پر خود کشی کر لی تھی۔اس خاتون کی خود کشی کے بعد یہ دعوی سمجھ سے بالاتر ہے کہ مقتولین کے تمام ورثا دیت لینے پر راضی تھے۔
٥۔ روزنامہ جنگ ١٧ مارچ کے بیان کے مطابق دیت کی رقم پاکستانی قومی خزانے سے ادا کی گئی ہے اور اس کی وجہ پاکستانی سرکار نے قومی خودداری بتلائی ہے۔ایک کافر کی دیت اور وہ بھی کروڑوں میں، مسلمانوں کے بیت المال یا خزانے سے کیسے ادا کی جا سکتی ہے؟مسلم لیگ کے مفتی رانا ثناء اللہ صاحب اس بارے بھی شرعی رہنمائی ضرور فرمائیں۔
٦۔ قتل عمد کی صورت میں دیت کی مقداد سو اونٹ ہے اور اگر ان سو اونٹوں کی قیمت نکالی جائے تو وہ تقریباً ایک کروڑ بنتی ہے اور اگر سونے کو نصاب بنائیں تو بمشکل پونے دو کروڑ بنتی ہے بقیہ ١٩ یا ١٨کروڑ قومی خزانے سے کس خوشی میں ادا کیے گئے ہیں؟اسلامی دیت تو ایک کروڑ بنتی ہے جبکہ ٢٠ کروڑ دیت صوبائی اور وفاقی حکومت نے کسی مذہب کے تحت ادا کی ہے ،اس کی بھی ذرا وضاحت کی جائے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے تو کسی امریکی کو قتل بھی نہیں کیا تھا بلکہ صرف گولی چلانے کا الزام تھا تو ا سکی دیت امریکہ قبول کیوں نہیں کر لیتا؟ خوددار ہمارے حکمران نہیں بلکہ امریکہ ہے۔ اور ہم دوسری طرف ہم یعنی پاکستانی ، مقتول بھی ہم ہیں اور دیت بھی ہم ہی ادا کر رہے ہیں۔اسے کہتے ہیں ہمارے حکمران قومی خود داری!۔