• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198

بعض روایات میں یوں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ آخر ت میں حساب کے وقت ایک آدمی کو حاضر کرکے یہ پوچھے گا کہ تو نے میری عبادت کیوں کی؟ وہ بندہ عرض کرے گا کہ :''اے اللہ ! میں نے جنت اور اس کی ابدی نعمتوں کے بارے میں سنا تو راتوں کو بیدار رہا۔دنوں کوتیری عبادت میں مشغول رہا۔ اور پیاسا رہا کہ جنت میں داخل ہونے کے شوق اور نعیم مقیم اور ثواب عظیم کے حصول کی خواہش تھی۔اللہ تعالیٰ ٰ یہ سن کر فرمائے گا۔''یہ ہے میری جنت جا ا س میں داخل ہوجا'' تیری ہر تمنا و خواہش کو پورا کردیا جائےگا۔ اللہ ایک اور بندے کو بلائے گا اور اس سے فرمائے گا کہ''تو نے میری عبادت کیوں کی وہ کہے گا کہ میں نے جہنم اور اس کے عذاب اس کی عبرت ناک سزائوں اور اس کی زنجیروں اور اس کی بیڑیوں (طوقوں) اور اس کے آلام ومصائب کے بارے میں سنا تو میں نے جہنم اور اس کی سزائوں اور اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے رات کے آرام اور دن کے چین کو تج دیا۔اور خوب خوب مشقتیں برداشت کیں۔ اللہ تعالیٰ ٰ یہ جواب سن کر فرمائے گا۔''میں نے تجھے جہنم سے بچا لیا جا تو جنت میں داخل ہوجا'' تیری ہر خواہش پوری ہوگی''پھر اللہ تعالیٰ ٰ ایک اور بندے کو بلائے گا۔ اس سے فرمائے گا کہ ''اے میرے بندے تو نے میری عبادت کیوں کی؟''وہ بندہ عرض کرے گا ۔'' اللہ میں نے تیری صفات تیرے جلال تیری کبریائی تیری نعمتوں اور تیری نوازشوں کو پہچان لیا تھا۔تو میں نے تیری ملاقات کے شوق اور تیری محبت کی خاطر میں نے تیری عبادت کی۔مخلوق پر اپنے فضل وانعام اور کمال صفات اور عظیم جلا ل کے باعث تو ہی عبادت وتعظیم کا مستحق ہے۔''اللہ رب زوالجلال فرمائے میں یہ موجود ہوں۔ تو میرا دیدار کرلے۔میں نے تجھے بے پایاں اجر وثواب سے نوازا اور تیری تمام خواہشوں اور تمنائوں کو پورا کردیا۔
اس کا مطلب ہے کہ مذکورہ جواب دینے میں دونوں برحق ہیں۔ لیکن وہ شخص جو اللہ تعالیٰ ٰ کی عبادت اس لئے کرتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ ٰ کی معرفت حاصل ہے اور وہ جانتا ہے کہ اوہ اس بات کا مستحق ہے۔کہ اس کی عبادت کیجائے۔وہ اہل تقویٰ اور اہل مغفرت ہے۔وہ اپنے بندے کا خالق ومنعم حقیقی ہے۔ وہی فضل وکرم اور ثنا حسن کا مالک ہے۔جو اس احساس وادراک کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرے گا۔اسے یقیناً ثواب زیادہ ہوگا۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
بعض روایات میں یوں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ آخر ت میں حساب کے وقت ایک آدمی کو حاضر کرکے یہ پوچھے گا کہ تو نے میری عبادت کیوں کی؟ وہ بندہ عرض کرے گا کہ :''اے اللہ ! میں نے جنت اور اس کی ابدی نعمتوں کے بارے میں سنا تو راتوں کو بیدار رہا۔دنوں کوتیری عبادت میں مشغول رہا۔ اور پیاسا رہا کہ جنت میں داخل ہونے کے شوق اور نعیم مقیم اور ثواب عظیم کے حصول کی خواہش تھی۔اللہ تعالیٰ ٰ یہ سن کر فرمائے گا۔''یہ ہے میری جنت جا ا س میں داخل ہوجا'' تیری ہر تمنا و خواہش کو پورا کردیا جائےگا۔ اللہ ایک اور بندے کو بلائے گا اور اس سے فرمائے گا کہ''تو نے میری عبادت کیوں کی وہ کہے گا کہ میں نے جہنم اور اس کے عذاب اس کی عبرت ناک سزائوں اور اس کی زنجیروں اور اس کی بیڑیوں (طوقوں) اور اس کے آلام ومصائب کے بارے میں سنا تو میں نے جہنم اور اس کی سزائوں اور اس کے عذابوں سے بچنے کے لئے رات کے آرام اور دن کے چین کو تج دیا۔اور خوب خوب مشقتیں برداشت کیں۔ اللہ تعالیٰ ٰ یہ جواب سن کر فرمائے گا۔''میں نے تجھے جہنم سے بچا لیا جا تو جنت میں داخل ہوجا'' تیری ہر خواہش پوری ہوگی''پھر اللہ تعالیٰ ٰ ایک اور بندے کو بلائے گا۔ اس سے فرمائے گا کہ ''اے میرے بندے تو نے میری عبادت کیوں کی؟''وہ بندہ عرض کرے گا ۔'' اللہ میں نے تیری صفات تیرے جلال تیری کبریائی تیری نعمتوں اور تیری نوازشوں کو پہچان لیا تھا۔تو میں نے تیری ملاقات کے شوق اور تیری محبت کی خاطر میں نے تیری عبادت کی۔مخلوق پر اپنے فضل وانعام اور کمال صفات اور عظیم جلا ل کے باعث تو ہی عبادت وتعظیم کا مستحق ہے۔''اللہ رب زوالجلال فرمائے میں یہ موجود ہوں۔ تو میرا دیدار کرلے۔میں نے تجھے بے پایاں اجر وثواب سے نوازا اور تیری تمام خواہشوں اور تمنائوں کو پورا کردیا۔
اس کا مطلب ہے کہ مذکورہ جواب دینے میں دونوں برحق ہیں۔ لیکن وہ شخص جو اللہ تعالیٰ ٰ کی عبادت اس لئے کرتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ ٰ کی معرفت حاصل ہے اور وہ جانتا ہے کہ اوہ اس بات کا مستحق ہے۔کہ اس کی عبادت کیجائے۔وہ اہل تقویٰ اور اہل مغفرت ہے۔وہ اپنے بندے کا خالق ومنعم حقیقی ہے۔ وہی فضل وکرم اور ثنا حسن کا مالک ہے۔جو اس احساس وادراک کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرے گا۔اسے یقیناً ثواب زیادہ ہوگا۔
@خضر حیات
@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پیارے بھائی :
یہ عبارت جو آپ نے نقل کی ہے ،یہ کسی مرفوع یا موقوف حدیث کی عبارت نہیں ،
بلکہ یہ ایک تبع التابعی (تابعین کے شاگرد ) موسی بن الصباح نامی مشہور مرجی کا کلام ہے ، اس موسی کو امام سعید ابن المسیب،اور جناب سالم بن عبد اللہ اور نامور تابعی مجاہد سے سماع کا شرف ہے ،
جو ترجمہ آپ نے نقل کیا اس کی عربی عبارت ـ فتاوی اسلامیہ ۔ کی پہلی جلد میں علامہ ابن جبرین کے ایک فتوی میں منقول ہے ، جو درج ذیل ہے؛
جس کی ابتدا ہی بتایا گیا ہے کہ یہ کسی حدیث کی عبارت نہیں بلکہ محض ایک اثر ہے ،
ورد في بعض الآثار أن الله تعالى يحضر رجلا في الآخرة عند الحساب فيقول لماذا عبدتني؟ فيقول العبد سمعت بخلق الجنة وما فيها من النعيم المقيم، فأسهرت ليلي وأتعبت نهاري وأظمأت نفسي طلبا لدخول الجنة وشوقًا إليها، لأحظى بهذا النعيم والثواب العظيم، فيقول الله تعالى هذه الجنة فادخلها فلك ما طلبت وما تمنيت. ثم يحضر رجلا ثانيًا فيسأله لماذا عبدتني؟ فيقول سمعت بخلق النار وما فيها من العذاب والنكال والوبال والأغلال والآلام فأسهرت ليلي وأظمأت نهاري وأتعبت نفسي خوفا من النار وهربا من ألمها وعذابها. فيقول الله تعالى قد أجرت من النار فادخل الجنة، ولك ماتتمنى نفسك. ثم يحضر الله رجلا ثالثاً فيقول لماذا عبدتني؟ فيقول عرفت صفاتك وجلالك وكبرياءك ونعمك وآلاءك فتعبدت شوقًا إليك ومحبة لك فأنت المستحق للعبادة والتعظيم لفضلك وإنعامك على الخلق، ولكمال صفاتك وعظيم جلالك، فيقول الله تعالى ها أنذا فانظر إليّ وقد أبحت ثوابي وأعطيتك ما تتمناه. وبالجملة فالكل على حق ولكن الذي يعبد الله لمعرفته بأنه أهل للعبادة ولأداء حقوقه ولأنه أهل التقوى وأهل المغفرة وخالق العبد والمنعم عليه وله المن والفضل والثناء الحسن هو أكثر أجرًا وثوابًا، والله واسع عليم
الشيخ ابن جبرين

اور اصل روایت تفسیر ابن ابی حاتم میں منقول ہے ،وہاں سے امام ابن کثیر نے اپنی میں تفسیر سورہ یونس میں نقل کی ہے
سند یہ ہے :
وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الْآيَةِ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحِوَارِيِّ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ الصَّبَّاحِ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ}
اور علامہ ابن حجر (تہذیب التہذیب ) میں
’’ موسی بن الصباح ‘‘کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :موسى" بن أبي كثير الأنصاري مولاهم ويقال الهمداني أبو الصباح الكوفي ويقال الواسطي المعروف بموسى الكبير واسم أبي كثير الصباح روى عن سعيد بن المسيب وزيد بن وهب ومجاهد وسالم بن عبد الله بن عمر وخشرم بن جميل وعنه الثوري ومسعر وشعبة وعبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان وشريك بن عبد الله وهشيم وجماعة قال بن سعد كان من المتكلمين في الإرجاء وكان ممن وفد على عمر بن عبد العزيز فكلمه في ذلك وكان ثقة في الحديث وقال علي بن المديني عن يحيى بن سعيد كان مرجئا وكذا قال جرير وغير واحد وقال الدوري عن ابن معين ثقة مرجيء وكذا قال يعقوب بن سفيان وقال أبو زرعة والبخاري كان يرى القدر وقال أبو حاتم محله الصدق وقال في موضع آخر يكتب حديثه ولا يحتج به
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پیارے بھائی :
یہ عبارت جو آپ نے نقل کی ہے ،یہ کسی مرفوع یا موقوف حدیث کی عبارت نہیں ،
بلکہ یہ ایک تبع التابعی (تابعین کے شاگرد ) موسی بن الصباح نامی مشہور مرجی کا کلام ہے ، اس موسی کو امام سعید ابن المسیب،اور جناب سالم بن عبد اللہ اور نامور تابعی مجاہد سے سماع کا شرف ہے ،
جو ترجمہ آپ نے نقل کیا اس کی عربی عبارت ـ فتاوی اسلامیہ ۔ کی پہلی جلد میں علامہ ابن جبرین کے ایک فتوی میں منقول ہے ، جو درج ذیل ہے؛
جس کی ابتدا ہی بتایا گیا ہے کہ یہ کسی حدیث کی عبارت نہیں بلکہ محض ایک اثر ہے ،
ورد في بعض الآثار أن الله تعالى يحضر رجلا في الآخرة عند الحساب فيقول لماذا عبدتني؟ فيقول العبد سمعت بخلق الجنة وما فيها من النعيم المقيم، فأسهرت ليلي وأتعبت نهاري وأظمأت نفسي طلبا لدخول الجنة وشوقًا إليها، لأحظى بهذا النعيم والثواب العظيم، فيقول الله تعالى هذه الجنة فادخلها فلك ما طلبت وما تمنيت. ثم يحضر رجلا ثانيًا فيسأله لماذا عبدتني؟ فيقول سمعت بخلق النار وما فيها من العذاب والنكال والوبال والأغلال والآلام فأسهرت ليلي وأظمأت نهاري وأتعبت نفسي خوفا من النار وهربا من ألمها وعذابها. فيقول الله تعالى قد أجرت من النار فادخل الجنة، ولك ماتتمنى نفسك. ثم يحضر الله رجلا ثالثاً فيقول لماذا عبدتني؟ فيقول عرفت صفاتك وجلالك وكبرياءك ونعمك وآلاءك فتعبدت شوقًا إليك ومحبة لك فأنت المستحق للعبادة والتعظيم لفضلك وإنعامك على الخلق، ولكمال صفاتك وعظيم جلالك، فيقول الله تعالى ها أنذا فانظر إليّ وقد أبحت ثوابي وأعطيتك ما تتمناه. وبالجملة فالكل على حق ولكن الذي يعبد الله لمعرفته بأنه أهل للعبادة ولأداء حقوقه ولأنه أهل التقوى وأهل المغفرة وخالق العبد والمنعم عليه وله المن والفضل والثناء الحسن هو أكثر أجرًا وثوابًا، والله واسع عليم
الشيخ ابن جبرين

اور اصل روایت تفسیر ابن ابی حاتم میں منقول ہے ،وہاں سے امام ابن کثیر نے اپنی میں تفسیر سورہ یونس میں نقل کی ہے
سند یہ ہے :
وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِي تَفْسِيرِ هَذِهِ الْآيَةِ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحِوَارِيِّ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ الصَّبَّاحِ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ}
اور علامہ ابن حجر (تہذیب التہذیب ) میں
’’ موسی بن الصباح ‘‘کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :موسى" بن أبي كثير الأنصاري مولاهم ويقال الهمداني أبو الصباح الكوفي ويقال الواسطي المعروف بموسى الكبير واسم أبي كثير الصباح روى عن سعيد بن المسيب وزيد بن وهب ومجاهد وسالم بن عبد الله بن عمر وخشرم بن جميل وعنه الثوري ومسعر وشعبة وعبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان وشريك بن عبد الله وهشيم وجماعة قال بن سعد كان من المتكلمين في الإرجاء وكان ممن وفد على عمر بن عبد العزيز فكلمه في ذلك وكان ثقة في الحديث وقال علي بن المديني عن يحيى بن سعيد كان مرجئا وكذا قال جرير وغير واحد وقال الدوري عن ابن معين ثقة مرجيء وكذا قال يعقوب بن سفيان وقال أبو زرعة والبخاري كان يرى القدر وقال أبو حاتم محله الصدق وقال في موضع آخر يكتب حديثه ولا يحتج به
جزاک اللہ خیر
 
Top