• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ حدیث ضعیف ہیں یا صحیح؟؟؟ کسی بھائی نہ پوچھا ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ حدیث ضعیف ہیں یا صحیح؟؟؟



جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انکی دنیاوی زندگی ثابت کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب میں اُس حجرہ مبارک میں داخل ہوتی جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق) مدفون ہیں تو میں پردے کا کپڑا اُتار دیتی تھی اور کہتی تھی : بے شک وہاں میرے خاوند اور میرے والد ہیں (جن سے پردہ ضروری نہیں ہوتا) لیکن جب وہاں اُن کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مدفون ہو گئے تو میں وہاں حضرت عمر سے حیاء کی خاطر مکمل حجاب میں داخل ہوتی تھی۔‘‘

اِس حدیث کو امام اَحمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا : اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ اور امام زرکشی نے بھی فرمایا : یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 202، الرقم : 25701، والحاکم في المستدرک، 3 / 63، الرقم : 4402، وأيضًا، 4 / 8، الرقم : 6721، والزرکشي في الإجابة لما استدرکت عائشة / 68، الرقم : 68، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 26، وأيضًا، 9 / 37

@کفایت اللہ بھائی
@اسحاق سلفی بھائی

اس حدیث کی تشریح بھی بیان کر دے تا کہ ھم سب کے سمجھ میں آ جائے
 

بلال 243

رکن
شمولیت
دسمبر 30، 2014
پیغامات
111
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
asalamu alaekum mere pas abudawud ibnemaja baloogul miraam or riyazus saulihhen darusalam k idaray ki pari hoi hain jo ma sale krna chahta hon agr koi bhai lena chayay wo mujh se 03347948361 pe rabta kray ma books bzar ki price se rieaayat donga
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
یہ فقیر اس سے پہلے بھی اس سوال کا جواب پیش کرچکا ہے (دیکھئیے یہ تھریڈ )

۔۔۔۔۔بندہ اس سوال کا جواب عرض کرتا ہے ،اگر کوئی غلطی ،کوتاہی ہو تو۔ اہل علم ۔اصلاح فرمادیں ،،،،و أجركم على الله
عن عائشة قالت كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي فأضع ثوبي، وأقول إنما هو زوجي وأبي، فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلته إلا وأنا مشدودة علي ثيابي، حياء من عمر ) مسند الامام احمد -25660(4)

مسند کی تحقیق میں علامہ شعيب الأرنؤوط فرماتے ہیں :

أثر إسناده صحيح على شرط الشيخين.
وأخرجه الحاكم 3/61 من طريق الإمام أحمد، بهذا الإسناد.
وأخرجه كذلك 4/7 من طريق الحسن بن علي بن عفان، عن أبي أسامة حماد بن أسامة، به
وقال: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه. وسكت عنه الذهبي.
وأورده الهيثمي في "مجمع الزوائد" 8/26 و9/37، وقال: رواه أحمد، ورجاله رجال الصحيح

یعنی حدیث بالکل صحیح ہے ،،،سند یہ ہے ،( حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ )
حماد بن اسامہ ،صحاح الست کے مرکزی راوی ہیں ،اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،ان کا درجہ (الحافظ ،الحجہ )ہے،
ھشام بن عروہ: ثقۃ ،امام فی الحدیث
عروہ بن زبیر :کے تو کیا کہنے ،صحابی رسول ﷺ زبیر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے،علم کا بڑا چشمہ ، عبداللہ بن زبیر کے بھائی ،اسماء بنت ابی بکر کے بیٹے ہیں، سیدہ عائشہ کے بھانجے ہیں ،،
---------------------------------------
اس کی شرح میں علامہ الطیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قوله: ((وأقول: إنما هو زوجى)) القول بمعنى الاعتقاد، وهو كالتعليل لوضع الثوب في بيت دفن فيه الرسول صلي الله وعليه وسلم وأبو بكر رضي الله عنه، يعنى جائز لي ذلك، لأنهما محرمان لي، أحدهما زوجي والآخر أبي. والعطف علي التقدير، أي إنما هو زوجي والآخر أبي. ويجوز أن يكون العطف علي الانسحاب، وهو ضمير الشأن، أي إنما الشأن زوجي وأبي مدفونان فيه،
وفي الحديث دليل بين علي ما ذكر قبلُ من أنه يجب احترام أهل القبور، وتنزيل كل منهم منزلة ما هو عليه في حياته من مراعاة الأدب معهم علي قدر مراتبهم، والله أعلم والحمد لله أولاً وآخرًا والصلاة علي سيدنا محمد وآله.

یعنی سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کا پردہ محض مراعات ادب ،اور احترام تھا،،
اس بات کو سمجھنے کےلئے سیرت نبوی کا یہ مشہور اور دلآویز واقعہ پڑھ لیں،
حدثنا أبو الربيع قال حدثني إسماعيل قال حدثني محمد بن أبى حرملة عن عطاء وسليمان ابنى يسار وأبى سلمة بن عبد الرحمن أن عائشة قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم مضطجعا في بيتي كاشفا عن فخذه أو ساقيه فاستأذن أبو بكر رضي الله عنه فأذن له كذلك فتحدث ثم استأذن عمر رضي الله عنه فأذن له كذلك ثم تحدث ثم استأذن عثمان رضي الله عنه فجلس النبي صلى الله عليه وسلم وسوى ثيابه قال محمد ولا أقول في يوم واحد فدخل فتحدث فلما خرج قال قلت يا رسول الله دخل أبو بكر فلم تهش ولم تباله ثم دخل عمر فلم تهش ولم تباله ثم دخل عثمان فجلست وسويت ثيابك قال ألا أستحيى من رجل تستحيى منه الملائكة
الأدب المفرد:ج1/ص211 ح603

سید المرسلین ﷺ ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کےجنت نظیر گھر میں تشریف فرما ہیں ،حالت مبارکہ یہ کہ لیٹے ہوئے ہیں ،مقدس پنڈلی یا ران شریف سے کپڑا ہٹایا ہوا ہے ،اسی حالت میں سیدنا ابوبکر حاضر ہوئے ،آپ نےاپنی اسی حالت میں رہے ،پھر سیدنا عمر آئے ،توبھی آپ ﷺ اسی حال میں رہے ،،پھر جناب عثمان آئے اجازت طلب کی ،آپ ﷺ اٹھ کر سیدھے بیٹھ گئے ،اور اپنا لباس مبارک بھی درست کرلیا
اس امتیازی سلوک کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا :جس بندے سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ،کیا میں اس سے حیا نہ کروں ؟
------------------------------------
اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ،ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما قدر و فضل میں سیدنا عثمان سے کہیں بڑھ کر ہیں ،لیکن ان کی ایک امتیازی صفت حیاء ،تھی جس کا لحاظ امام الانبیاء ﷺ نے بھی رکھا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جناب عمررضی اللہ عنہ کے متعلق عمل بھی اسی طرح کا ہے ۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ولك بمثل ما دعوت لي۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بارك الله فيك أخيناالكريم ونفعنا بما علمك وبارك لك في علمك وزادك فضلا وعلما
 
Top