بلا تشریح
اجمیر درگاہ: نذرانے کے تنازعے کا فیصلہ
بھارت کی معروف درگاہ خواجہ معین الدین چشتی پر پیش کیے جانے والے نذرانے پر کس کا حق ہے اس بات کا فیصلہ ریاست راجستھان کی ایک مقامی عدالت نے کر دیا ہے۔
اجمیر کی عدالت نے اپنے فیصلے میں درگاہ کی کمیٹی کو عقیدت مندوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے نذرانے کے حصول کا اختیار دیا ہے۔
اجمیر کی عدالت نے اپنے فیصلے میں درگاہ کی کمیٹی کو عقیدت مندوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے نذرانے کے حصول کا اختیار دیا ہے۔
اجمیر کے ضلعی اور سیشن کورٹ نے فریقین یعنی درگاہ کے خادم اور سجادہ نشین کی بات سننے کے بعد سنیچر کو یہ فیصلہ سنایا اور اس طرح خادم اور درگاہ کے دیوان کے درمیان 23 سال پرانا یہ قضیہ بظاہر ختم ہو گيا ہے۔
عدالت نے درگاہ کمیٹی کو تین ہفتے کی مہلت دی ہے کہ اس دوران وہ اجمیر میواڑ عدالت کے ذریعے 1933 میں دیے گئے فیصلے کی تفصیل پیش کرے۔
یاد رہے کہ درگاہ کے دیوان یعنی سجادہ نشین نے عدالت سے رجوع کیا تھا کہ اجمیر میواڑ عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرایا جائے۔ ان کے مطابق 1933 میں دیے گئے فیصلے میں نذرانے پر سجادہ نشین اور خادمین دونوں فریقوں کو مساوی حقوق دیے گئے تھے لیکن دیوان کا کہنا ہے کہ انہیں ان کا حصہ نہیں دیا جا رہا تھا۔
دیوان کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ اس فیصلے سے خوش ہیں لیکن فیصلے کی کاپی کا انتظار کر رہے ہیں۔
عدالت نے درگاہ کمیٹی کو تین ہفتے کی مہلت دی ہے کہ اس دوران وہ اجمیر میواڑ عدالت کے ذریعے 1933 میں دیے گئے فیصلے کی تفصیل پیش کرے۔
یاد رہے کہ درگاہ کے دیوان یعنی سجادہ نشین نے عدالت سے رجوع کیا تھا کہ اجمیر میواڑ عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرایا جائے۔ ان کے مطابق 1933 میں دیے گئے فیصلے میں نذرانے پر سجادہ نشین اور خادمین دونوں فریقوں کو مساوی حقوق دیے گئے تھے لیکن دیوان کا کہنا ہے کہ انہیں ان کا حصہ نہیں دیا جا رہا تھا۔
دیوان کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ وہ اس فیصلے سے خوش ہیں لیکن فیصلے کی کاپی کا انتظار کر رہے ہیں۔
دوسری جانب خادمین کی انجمن نے بھی کہا ہے کہ وہ فیصلے کی کاپی کا انتظار کر رہے ہیں۔
انجمن کے سیکریٹری سید وحید حسین نے کہا:'ہم ابھی اس بابت کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہم فیصلے کی کاپی ملنے کے بعد اپنے وکیل سے رجوع کریں گے'۔
واضح رہے کہ جنوبی ایشیا میں اس درگاہ کو کافی عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور دنیا بھر سے عرس کے موقعے پر اور دوسرے دنوں میں بھی زائرین کی کافی تعداد روزانہ وہاں آتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس درگاہ کو عطیات اور نذرانے کروڑوں میں ملتے ہیں۔
اجمیر میں ذرائع کا کہنا ہے کہ در اصل یہ تنازع 1925 میں شروع ہوا تھا اور 1933 میں تنازعے کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ دیا گیا تھا۔ سنہ 1940 سے 1990 کے درمیان کوئی تنازع نہیں رہا لیکن جب 1990 میں درگاہ کے دیوان کو ان کا حصہ نہیں دیا گیا تو یہ تنازع پھر سے شروع ہو گيا۔
دیوان نے عدالت سے 1991 میں رجوع کیا اور 23 سال بعد یہ فیصلہ آیا ہے۔
انجمن کے سیکریٹری سید وحید حسین نے کہا:'ہم ابھی اس بابت کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہم فیصلے کی کاپی ملنے کے بعد اپنے وکیل سے رجوع کریں گے'۔
واضح رہے کہ جنوبی ایشیا میں اس درگاہ کو کافی عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور دنیا بھر سے عرس کے موقعے پر اور دوسرے دنوں میں بھی زائرین کی کافی تعداد روزانہ وہاں آتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس درگاہ کو عطیات اور نذرانے کروڑوں میں ملتے ہیں۔
اجمیر میں ذرائع کا کہنا ہے کہ در اصل یہ تنازع 1925 میں شروع ہوا تھا اور 1933 میں تنازعے کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ دیا گیا تھا۔ سنہ 1940 سے 1990 کے درمیان کوئی تنازع نہیں رہا لیکن جب 1990 میں درگاہ کے دیوان کو ان کا حصہ نہیں دیا گیا تو یہ تنازع پھر سے شروع ہو گيا۔
دیوان نے عدالت سے 1991 میں رجوع کیا اور 23 سال بعد یہ فیصلہ آیا ہے۔
بی بی سی نیوز