• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ قرآن کہاں سے آیا؟ کس نے کہا کہ یہ قرآن ہے؟

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
السلام علیکم ! کوئی چار سال پرانی ایک تحریر پیش خدمت ہے۔ یہ اس وقت تحریر کیا تھا جب اردوپیجز اور دیگر اردو فورمز پر راقم کا واسطہ "انکارِ حدیث" نظریے سے رغبت رکھنے والے افراد سے اکثر و بیشتر پڑا کرتا تھا۔
انکارِ حدیث پر تحریر کردہ چند کتب سے یہ مواد اخذ کیا گیا تھا اور جس کی اہمیت آج بھی اتنی ہی برقرار ہے جتنی کہ چار سال پہلے تھی۔ لیجئے ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔
***​

حدیث کو دین میں حجت نہ ماننے والے لوگوں سے جب بھی ہم کچھ ایسا سوال کرتے ہیں :
یہ جو آپ کے ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے ، کیسے پتا چلے گا کہ یہ وہی قرآن ہے جو اللہ کا کلام ہے ؟
تو اس سوال کا خاطر خواہ جواب کوئی نہیں دے پاتا۔

حالانکہ پتا چلنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ممکن ہے۔
کوئی ہم کو بتائے کہ یہ کتاب " قرآن " ہے ‫!
اگر آپ کے والدین نے آپ کو بتایا کہ بیٹا ، یہ کتاب " قرآن " ہے اور یہ کتاب اُنہی آیات پر مشتمل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی تھیں ۔۔۔ تو آپ کے والدین کو یہ بات پھر کس نے بتائی؟ جس نے بھی بتائی، اُس کو کس نے بتایا؟ ۔۔۔ اس طرح یہ سلسلہ پیچھے اور پیچھے کی طرف جائے تو معلوم ہوگا کہ آیات خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی زبان سے سنائی تھیں جن کو " کاتبینِ وحی " نے لکھ لیا تھا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست (‫direct‬) آپ کو تو آیات نہیں سنائی تھیں ، پھر کس بنیاد پر آپ کو یقین ہے کہ جو قرآن آپ کو والدین نے دیا ، اِس میں وہی آیات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتری تھیں ؟

اس سوال کا جواب عموماً درج ذیل آیت کے ذریعے دیا جاتا ہے کہ : یہ وہی آیات ہیں جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئیں ۔
بے شک ہم نے ہی نازل کی ہے یہ کتابِ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔۔۔ ( سورہ الحجر 15 ، آیت : 9)۔

یعنی ، اِس آیت سے ہی آپ کو پتا چلا ؟ ۔۔۔۔ یعنی " قرآن " کھول کر دیکھنے کے بعد ؟
تو سوالات یہ ہیں کہ :
  • یہ قرآن (جس میں سے آپ نے آیت ‫QUOTE کی ) آپ کو کہاں سے ملا ؟
  • کس نے دیا آپ کو؟
  • یا آپ نے کہیں سے خریدا ؟
  • جہاں سے بھی خریدا ، اُس شخص کو کس نے دیا ؟
  • جس شخص نے بھی یہ قرآن چھاپا اُس نے بھلا کہاں سے کاپی کیا ؟
  • کیا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست اُس چھاپنے والے کو قرآن سنایا تھا ؟ اگر نہیں ، تو پھر اُس نے کہاں سے کاپی کیا ؟ کیا گارنٹی ہے کہ اُس نے بالکل وہی آیات کاپی کیں جو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے " کاتبینِ وحی " کو سنائی تھیں؟

اگر آپ پھر وہی بات دہرائیں کہ ‫:
اللہ نے قرآن کو محفوظ رکھنے کی گارنٹی دی ہے ۔۔۔ ( سورہ الحجر 15 ، آیت : 9)۔
تو ہم پھر کہیں گے کہ یہ بات تو آپ کو قرآن کھولنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔
جب کہ ہمارا بنیادی سوال یہی ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں " قرآن " آیا کہاں سے ؟

قرآن ، ایک مکمل کتاب کی شکل میں ‫compiled‬ ہوا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سنانے پر۔ اور ۔۔۔ اللہ کی آیات کو نہ تو خود اللہ نے اور نہ ہی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے براہ راست آپ کو سنایا اور نہ کسی ناشر (‫publisher) کو۔
انکار حدیث کے نظریے سے لگاؤ رکھنے والے تو خود کہتے ہیں کہ ‫:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا " قرآن " اب بھی موجود ہے ، استنبول اور تاشقند میں۔

حالانکہ یہاں ان سے یہ سوالات بھی دریافت طلب ہیں کہ ۔۔۔
  • یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی ؟
  • کیا آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ؟
  • اگر دیکھا بھی تو کیسے یقین کیا ؟
  • کس نے کس بنیاد پر آپ کو یقین دلایا ؟

ہم ایسے سوالات کرنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ ۔۔۔ احادیث کے متعلق بھی منکرینِ حدیث تقریباً اسی قسم کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔

بلاشبہ " قرآن " کو دنیا میں بھیجنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس بے شمار ذرائع تھے ۔۔۔ مگر جس " ذریعے " سے اُس نے بھیجا ، وہ ایک معلوم شدہ حقیقت (‫a known fact‬) ہے ، اور وہ یہی کہ ‫:
قرآن کو خود اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ نے پورا انحصار اِس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سچا مانیں گے ، وہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اعتماد پر قرآن کو ہمارا کلام مان لیں گے ‫!!

نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے قران اپنی زبان سے سنایا اور " کاتبینِ وحی " نے اُس کو لکھ لیا۔
لیکن یہ بات آپ کو یا ہم کو کیسے معلوم ہوئی ۔۔۔ ؟ یعنی یہ بات کہ ۔۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے زمانے میں کاتبینِ وحی سے نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے ؟
اور اُن تحریروں سے نقل کر کے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں قرآن کو " مصحف " کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے شائع کیں۔
یہ سب کچھ محض حدیث کی " روایات " سے ہی دنیا کو معلوم ہوا ہے ورنہ قرآن میں تو اس کا ذکر نہیں ‫!
اور نہ ہی حدیث کی اِن ہی " روایات " کے سوا اِس کی کوئی دوسری " شہادت " دنیا میں موجود ہے ۔

اب اگر حدیث کی " روایات " ہی سرے سے قابلِ اعتماد نہیں ہیں تو پھر کس دلیل سے دنیا کو یقین دلایا جائے گا کہ فی الواقع قرآن ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں لکھا گیا تھا ؟

‫** نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہم نے دیکھا نہیں ، مگر " لوگوں " نے کہا کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا میں آئے تھے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کیا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات کو قبول کیا۔
‫** قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا ، ہم نے نہیں دیکھا کہ کیسے اُترا ؟ اور نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کس طرح سنایا اور کس کو کس طرح لکھوایا؟ مگر " لوگوں" نے کہا کہ قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا تھا اور اُنہوں(صلی اللہ علیہ وسلم) نے جوں کا توں (‫AS IT IS‬) لکھوایا اور وہی قرآن آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے قرآن کھولا ، پڑھا اور اس کے ایک ایک حرف پر ایمان لے آئے۔
‫** اور جب یہی " لوگ " کہتے ہیں کہ ۔۔۔ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اِس طرح نماز ادا کی ، اِس طرح زکوٰۃ دی ، اس طرح تنبیہ کی ، اِس طرح حرام / حلال قرار دیا ۔۔۔ تو یہاں ہم " لوگوں" کی بات پر اعتماد نہیں کرتے ؟؟ کیوں ؟؟

شاید ۔۔۔۔
صرف اسی لیے کہ جو " آزادی " ہمارا نفس چاہتا ہے ، جو آزادی ہمیں اپنی خودساختہ شریعت لاگو کرنے کے لیے درکار ہے ۔۔۔ اُس آزادی کی راہ میں " نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات (احادیث) " بہت بڑی رکاوٹ ہیں ‫!!

دورِ حاضر کے محدثِ جلیل علامہ ناصرالدین البانی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:
شریعت کی تعبیر میں حدیث و سنّت دوسرے درجے کا مآخذ نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت وحی اور شریعت ہونے کی بناء پر یکساں حجت ہیں۔ دونوں کو ملا کر شریعت حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ کلامِ اللہ ہونے کے اعتبار سے ایک کو 'قرآن' کہا جاتا ہے تو مرادِ اِلٰہی ہونے کے اعتبار سے دوسرے کو حدیث و سنّت !
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ، آپ کے اقوال و افعال سے محبت ، اُن کی اتباع پر منتج ہونی چاہئے۔ احادیثِ نبوی کو دین فہمی میں اہمیت نہ دینا گویا شانِ نبوت اور حبّ نبوی کا انکار ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ، شریعت کے شارح کی حیثیت کو ، کسی امّتی نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں واضح کیا ہے۔ (مسئلہ تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے صحیح طور پر ثابت ہو جانے کا ہے۔)

یہاں اس مسئلہ پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ : شریعت دورِ نبوی میں اور آج تک بالکل ایک رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی ایک امر صحابہ رضی اللہ عنہ کے لئے تو شریعت ہو اور ہمارے لئے نہ ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ کا دین صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ہمارے لئے یکساں نہیں ۔
ایک بات جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمائیں تو وہ اس کو ماننے کے مکلّف ہوں ، لیکن ہم مرورِ زمانہ کے بعد اس کے پابند نہ رہ جائیں، کیوں کر ایسے ہو سکتا ہے ؟؟!!

آخری اہم بات یہ کہ ۔۔۔
قرآن تفاصیل سے بحث نہیں کرتا اور یہ صرف حدیث و سنت ہے جو دین اور معاشرے کی تفصیلی صورت گری کرتی ہے۔
قرآن ، اللہ کی کتاب ہے ، وہ کلامِ باری تعالیٰ ہے ، اس کی حکومت بحر و بر پر چھائی ہوئی ہے ، وہ اللہ کی برہان اور مینارۂ نور ہے ۔۔۔۔۔۔ غرض قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے جتنا بھی مبالغہ کر لیا جائے وہ صحیح اور برحق ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی قیمت یہ نہیں ہونی چاہئے کہ :
جس پر قرآن نازل ہوا تھا ، قرآن کے نام پر اس کی سنّت کو پیچھے پھینک دیا جائے اور اُمت چودہ سو (1400) سال سے جن احادیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر ان پر عمل پیرا اور ان کے تقدس کی قائل ہے ، قرآن فہمی اور "مولویت" کے نام پر ان کو بے وقعت کر دیا جائے۔
ظاہر ہے یہ موقف اسلام دشمنوں کو تقویت دینے والا ہے !!
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم۔
محترم میرا ایک سوال ہے اگر آپ جواب دینا پسند فرما ئیں۔
مختلف لوگوں سے سن کر جو احادیث ، سنی، شیعہ ، اہل حدیث اور دیگر مکتبہ فکر نے مختلف کتابوں میں جمع کی ہیں۔ کیا وہ سب اللہ کی کتاب کی طرح اللہ کا کلام ہے؟
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
السلام علیکم۔
محترم میرا ایک سوال ہے اگر آپ جواب دینا پسند فرما ئیں۔
مختلف لوگوں سے سن کر جو احادیث ، سنی، شیعہ ، اہل حدیث اور دیگر مکتبہ فکر نے مختلف کتابوں میں جمع کی ہیں۔ کیا وہ سب اللہ کی کتاب کی طرح اللہ کا کلام ہے؟
وعلیکم السلام۔ آپ کے سوال کا ایک سادہ سا جواب تو "ہاں" ہے مگر یاد رہے کہ اس "ہاں" کی تصدیق سے قبل چند شرائط کی تکمیل بھی ضروری ہے۔
اور اب کاؤنٹر سوال کے طور پر میں بھی آپ سے کیا یہ دریافت کرنے کی جراءت کر سکتا ہوں کہ :
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے حدیث کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
السلام علیکم ! کوئی چار سال پرانی ایک تحریر پیش خدمت ہے۔ یہ اس وقت تحریر کیا تھا جب اردوپیجز اور دیگر اردو فورمز پر راقم کا واسطہ "انکارِ حدیث" نظریے سے رغبت رکھنے والے افراد سے اکثر و بیشتر پڑا کرتا تھا۔
انکارِ حدیث پر تحریر کردہ چند کتب سے یہ مواد اخذ کیا گیا تھا اور جس کی اہمیت آج بھی اتنی ہی برقرار ہے جتنی کہ چار سال پہلے تھی۔ لیجئے ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔
***​

حدیث کو دین میں حجت نہ ماننے والے لوگوں سے جب بھی ہم کچھ ایسا سوال کرتے ہیں :
یہ جو آپ کے ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے ، کیسے پتا چلے گا کہ یہ وہی قرآن ہے جو اللہ کا کلام ہے ؟
تو اس سوال کا خاطر خواہ جواب کوئی نہیں دے پاتا۔

حالانکہ پتا چلنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ممکن ہے۔
کوئی ہم کو بتائے کہ یہ کتاب " قرآن " ہے ‫!
اگر آپ کے والدین نے آپ کو بتایا کہ بیٹا ، یہ کتاب " قرآن " ہے اور یہ کتاب اُنہی آیات پر مشتمل ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی تھیں ۔۔۔ تو آپ کے والدین کو یہ بات پھر کس نے بتائی؟ جس نے بھی بتائی، اُس کو کس نے بتایا؟ ۔۔۔ اس طرح یہ سلسلہ پیچھے اور پیچھے کی طرف جائے تو معلوم ہوگا کہ آیات خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی زبان سے سنائی تھیں جن کو " کاتبینِ وحی " نے لکھ لیا تھا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست (‫direct‬) آپ کو تو آیات نہیں سنائی تھیں ، پھر کس بنیاد پر آپ کو یقین ہے کہ جو قرآن آپ کو والدین نے دیا ، اِس میں وہی آیات ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتری تھیں ؟

اس سوال کا جواب عموماً درج ذیل آیت کے ذریعے دیا جاتا ہے کہ : یہ وہی آیات ہیں جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئیں ۔
بے شک ہم نے ہی نازل کی ہے یہ کتابِ نصیحت اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔۔۔ ( سورہ الحجر 15 ، آیت : 9)۔

یعنی ، اِس آیت سے ہی آپ کو پتا چلا ؟ ۔۔۔۔ یعنی " قرآن " کھول کر دیکھنے کے بعد ؟
تو سوالات یہ ہیں کہ :
  • یہ قرآن (جس میں سے آپ نے آیت ‫QUOTE کی ) آپ کو کہاں سے ملا ؟
  • کس نے دیا آپ کو؟
  • یا آپ نے کہیں سے خریدا ؟
  • جہاں سے بھی خریدا ، اُس شخص کو کس نے دیا ؟
  • جس شخص نے بھی یہ قرآن چھاپا اُس نے بھلا کہاں سے کاپی کیا ؟
  • کیا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے راست اُس چھاپنے والے کو قرآن سنایا تھا ؟ اگر نہیں ، تو پھر اُس نے کہاں سے کاپی کیا ؟ کیا گارنٹی ہے کہ اُس نے بالکل وہی آیات کاپی کیں جو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے " کاتبینِ وحی " کو سنائی تھیں؟

اگر آپ پھر وہی بات دہرائیں کہ ‫:
اللہ نے قرآن کو محفوظ رکھنے کی گارنٹی دی ہے ۔۔۔ ( سورہ الحجر 15 ، آیت : 9)۔
تو ہم پھر کہیں گے کہ یہ بات تو آپ کو قرآن کھولنے کے بعد معلوم ہوتی ہے۔
جب کہ ہمارا بنیادی سوال یہی ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں " قرآن " آیا کہاں سے ؟

قرآن ، ایک مکمل کتاب کی شکل میں ‫compiled‬ ہوا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے سنانے پر۔ اور ۔۔۔ اللہ کی آیات کو نہ تو خود اللہ نے اور نہ ہی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے براہ راست آپ کو سنایا اور نہ کسی ناشر (‫publisher) کو۔
انکار حدیث کے نظریے سے لگاؤ رکھنے والے تو خود کہتے ہیں کہ ‫:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے کا " قرآن " اب بھی موجود ہے ، استنبول اور تاشقند میں۔

حالانکہ یہاں ان سے یہ سوالات بھی دریافت طلب ہیں کہ ۔۔۔
  • یہ بات آپ کو کیسے معلوم ہوئی ؟
  • کیا آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ؟
  • اگر دیکھا بھی تو کیسے یقین کیا ؟
  • کس نے کس بنیاد پر آپ کو یقین دلایا ؟

ہم ایسے سوالات کرنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ ۔۔۔ احادیث کے متعلق بھی منکرینِ حدیث تقریباً اسی قسم کے سوالات ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔

بلاشبہ " قرآن " کو دنیا میں بھیجنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس بے شمار ذرائع تھے ۔۔۔ مگر جس " ذریعے " سے اُس نے بھیجا ، وہ ایک معلوم شدہ حقیقت (‫a known fact‬) ہے ، اور وہ یہی کہ ‫:
قرآن کو خود اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ نے پورا انحصار اِس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کو سچا مانیں گے ، وہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اعتماد پر قرآن کو ہمارا کلام مان لیں گے ‫!!

نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے قران اپنی زبان سے سنایا اور " کاتبینِ وحی " نے اُس کو لکھ لیا۔
لیکن یہ بات آپ کو یا ہم کو کیسے معلوم ہوئی ۔۔۔ ؟ یعنی یہ بات کہ ۔۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے زمانے میں کاتبینِ وحی سے نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے ؟
اور اُن تحریروں سے نقل کر کے حضرت ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں قرآن کو " مصحف " کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے شائع کیں۔
یہ سب کچھ محض حدیث کی " روایات " سے ہی دنیا کو معلوم ہوا ہے ورنہ قرآن میں تو اس کا ذکر نہیں ‫!
اور نہ ہی حدیث کی اِن ہی " روایات " کے سوا اِس کی کوئی دوسری " شہادت " دنیا میں موجود ہے ۔

اب اگر حدیث کی " روایات " ہی سرے سے قابلِ اعتماد نہیں ہیں تو پھر کس دلیل سے دنیا کو یقین دلایا جائے گا کہ فی الواقع قرآن ، رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں لکھا گیا تھا ؟

‫** نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہم نے دیکھا نہیں ، مگر " لوگوں " نے کہا کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا میں آئے تھے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کیا اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات کو قبول کیا۔
‫** قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا ، ہم نے نہیں دیکھا کہ کیسے اُترا ؟ اور نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کس طرح سنایا اور کس کو کس طرح لکھوایا؟ مگر " لوگوں" نے کہا کہ قرآن نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُترا تھا اور اُنہوں(صلی اللہ علیہ وسلم) نے جوں کا توں (‫AS IT IS‬) لکھوایا اور وہی قرآن آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے لوگوں کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے قرآن کھولا ، پڑھا اور اس کے ایک ایک حرف پر ایمان لے آئے۔
‫** اور جب یہی " لوگ " کہتے ہیں کہ ۔۔۔ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اِس طرح نماز ادا کی ، اِس طرح زکوٰۃ دی ، اس طرح تنبیہ کی ، اِس طرح حرام / حلال قرار دیا ۔۔۔ تو یہاں ہم " لوگوں" کی بات پر اعتماد نہیں کرتے ؟؟ کیوں ؟؟

شاید ۔۔۔۔
صرف اسی لیے کہ جو " آزادی " ہمارا نفس چاہتا ہے ، جو آزادی ہمیں اپنی خودساختہ شریعت لاگو کرنے کے لیے درکار ہے ۔۔۔ اُس آزادی کی راہ میں " نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات (احادیث) " بہت بڑی رکاوٹ ہیں ‫!!

دورِ حاضر کے محدثِ جلیل علامہ ناصرالدین البانی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ، آپ کے اقوال و افعال سے محبت ، اُن کی اتباع پر منتج ہونی چاہئے۔ احادیثِ نبوی کو دین فہمی میں اہمیت نہ دینا گویا شانِ نبوت اور حبّ نبوی کا انکار ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ، شریعت کے شارح کی حیثیت کو ، کسی امّتی نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں واضح کیا ہے۔ (مسئلہ تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے صحیح طور پر ثابت ہو جانے کا ہے۔)

یہاں اس مسئلہ پر بھی غور کیا جانا چاہئے کہ : شریعت دورِ نبوی میں اور آج تک بالکل ایک رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی ایک امر صحابہ رضی اللہ عنہ کے لئے تو شریعت ہو اور ہمارے لئے نہ ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ کا دین صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ہمارے لئے یکساں نہیں ۔
ایک بات جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمائیں تو وہ اس کو ماننے کے مکلّف ہوں ، لیکن ہم مرورِ زمانہ کے بعد اس کے پابند نہ رہ جائیں، کیوں کر ایسے ہو سکتا ہے ؟؟!!

آخری اہم بات یہ کہ ۔۔۔
قرآن تفاصیل سے بحث نہیں کرتا اور یہ صرف حدیث و سنت ہے جو دین اور معاشرے کی تفصیلی صورت گری کرتی ہے۔
قرآن ، اللہ کی کتاب ہے ، وہ کلامِ باری تعالیٰ ہے ، اس کی حکومت بحر و بر پر چھائی ہوئی ہے ، وہ اللہ کی برہان اور مینارۂ نور ہے ۔۔۔۔۔۔ غرض قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے جتنا بھی مبالغہ کر لیا جائے وہ صحیح اور برحق ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی قیمت یہ نہیں ہونی چاہئے کہ :
جس پر قرآن نازل ہوا تھا ، قرآن کے نام پر اس کی سنّت کو پیچھے پھینک دیا جائے اور اُمت چودہ سو (1400) سال سے جن احادیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر ان پر عمل پیرا اور ان کے تقدس کی قائل ہے ، قرآن فہمی اور "مولویت" کے نام پر ان کو بے وقعت کر دیا جائے۔
ظاہر ہے یہ موقف اسلام دشمنوں کو تقویت دینے والا ہے !!
جزاک الله خیرا باذوق بھائی
بہت عمدگی سے اپنے سمجھایا ہے
اب ناسمجھ لوگوں کے لئے بس ہم دعا کر سکتے ہیں
الله ہدایت دے آمین
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام۔ آپ کے سوال کا ایک سادہ سا جواب تو "ہاں" ہے مگر یاد رہے کہ اس "ہاں" کی تصدیق سے قبل چند شرائط کی تکمیل بھی ضروری ہے۔
اور اب کاؤنٹر سوال کے طور پر میں بھی آپ سے کیا یہ دریافت کرنے کی جراءت کر سکتا ہوں کہ :
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے حدیث کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟

بازوق صاحب۔ السلام علیکم۔
آپ کے جواب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ مختلف مکتبہ فکر کے پاس جمع شدہ احادیث بھی (استغفراللہ) اللہ کا کلام ہے اگر چند شرائط کی تکمیل ہو جائے۔
دیکھیں پہلا فرق تو یہیں ظاہر ہو گیا، وہ یہ کہ لوگوں کی جمع شدہ احادیث کا کلام اللہ ہونا آپ کے نزدیک چند شرائط سے مشروط ہے۔ کیا اللہ کی کتاب کا کلام اللہ ہونا بھی آپ کے لئے چند شرائط سے مشروط ہوگا؟؟ غور کرنے کے لئے یہ ایک بڑا فرق ہے۔
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ آپ کا سوال ہے

جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے حدیث کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟


اپ کے سوال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ سوال میں آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی بات آگے بیان ہونے کو حدیث کہ رہے ہیں۔ جبکہ پہلے آپ لکھ چکے ہیں کہ چند شرائط کے پورا ہونے کے بعد یہ اللہ کا کلام ہے۔ تو آپ کا سوال یوں بنےگا۔
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے اللہ کا کلام کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟
اس کو آپ اس طرح سمجھیں جیسے کہ آپ کو اللہ کی کتاب آپ کے آباء و اجداد سے ملی۔ آپ یہ اللہ کی کتاب اپنی بعد والی نسل کے لئے چھوڑ جائیں گے۔ یعنی انسان صرف اللہ کی کتاب کو منتقل کر رہا ہے۔ اللہ کی کتاب کی حفاظت ،اس کا لاریب ہونا، اس کا باطل سے پاک ہونا ،ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک ہونا ان سب باتوں کی زمہ داری اور اتھارٹی اللہ واحد کی ہے۔ کسی بھی انسان کی نہیں۔ جبکہ لوگوں کی جمع کردہ احادیث کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ وہ اللہ کا کلام تو بہت دور کی بات ہے وہ تورسول کے الفاظ تک نہیں ہیں۔ یاد رکھیں دنیا کی کوئ کتاب بشمول احادیث کی تمام کتب یہ دعوی نہیں کرتیں کہ وہ اللہ کا کلام ہیں۔یہ ظلم عظیم تو آپ کر رہے ہیں۔
لوگوں کی جمع شدہ احادیث پر نظر ڈالیں تو یہاں راویوں کا ایک سلسلہ ہے، جو بات لو رسول کی جانب منسوب کرتا ہے۔ یہاں حدیث کی اتھارٹی روایت کرنے والوں کی ہے۔ جو کہ تمام انسان تھے۔ پھر مذید دیکھیں احادیث کو جمع کر کہ کتابی شکل دینے والے حضرات نے بھی لاکھوں احادیث اپنے علم، فہم ، صوابدید اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی وجہ سے ضائع کردیں اور اپنی کتب میں ان کو شامل نہیں کیا۔ اگر یہ احادیث بھی اللہ کا کلام ہوتیں تو ان حضرات میں ایک حدیث بھی ضائع کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ یہ حضرات نہ تو نبی تھے نہ ہی رسول اور نہ ہی ان پر اللہ کی وحی نازل ہوتی تھی کہ ان کا کام ہمارے لئے حجت ہو۔
ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کوئی انسان ہمیں بتائے کہ یہ قرآن ہے۔ اللہ خود اپنی اتھررٹی پر اپنی کتاب میں بتا رہا ہے کہ قرآن کس نے نازل کیا ہے اور اس کا رسول بھی بتا رہا ہے۔
"طس۔ وہ آیت ٖقرآن کی اور واضح کتاب کی ہیں۔ (النمل۔1)
"یس۔ پر از حکمت قرآن کی قسم۔ (یس۔1،2)
"کہ بے شک ہم نے اسے ایک قرآن عربی بنا دیا تاکہ تم سمجھ سکو۔ (الزخرف۔3)
"ق۔ قرآن مجید کی قسم "(ق۔1)
"بلکہ وہ تو بزرگی والا قرآن ہے" (البروج۔21)
"الر۔ وہ آیات کتاب اور ایک واضح قرآن کی ہیں" (الحجر۔1)
"اور کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور بیشک باطل تو مٹنے والا ہی ہے۔ (الاسراء۔81)
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
وعلیکم السلام۔ آپ کے سوال کا ایک سادہ سا جواب تو "ہاں" ہے مگر یاد رہے کہ اس "ہاں" کی تصدیق سے قبل چند شرائط کی تکمیل بھی ضروری ہے۔
اور اب کاؤنٹر سوال کے طور پر میں بھی آپ سے کیا یہ دریافت کرنے کی جراءت کر سکتا ہوں کہ :
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے حدیث کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟

بازوق صاحب۔ السلام علیکم۔
آپ کے جواب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ مختلف مکتبہ فکر کے پاس جمع شدہ احادیث بھی (استغفراللہ) اللہ کا کلام ہے اگر چند شرائط کی تکمیل ہو جائے۔
دیکھیں پہلا فرق تو یہیں ظاہر ہو گیا، وہ یہ کہ لوگوں کی جمع شدہ احادیث کا کلام اللہ ہونا آپ کے نزدیک چند شرائط سے مشروط ہے۔ کیا اللہ کی کتاب کا کلام اللہ ہونا بھی آپ کے لئے چند شرائط سے مشروط ہوگا؟؟ غور کرنے کے لئے یہ ایک بڑا فرق ہے۔
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں۔ آپ کا سوال ہے

جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے حدیث کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟


اپ کے سوال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ سوال میں آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی بات آگے بیان ہونے کو حدیث کہ رہے ہیں۔ جبکہ پہلے آپ لکھ چکے ہیں کہ چند شرائط کے پورا ہونے کے بعد یہ اللہ کا کلام ہے۔ تو آپ کا سوال یوں بنےگا۔
جن "لوگوں" سے سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تلاوت شدہ آیات جمع کی گئیں اور اسے قرآن کا نام دیا گیا تو جب وہی لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بات بیان کریں تو اسے اللہ کا کلام کہہ کر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟
اس کو آپ اس طرح سمجھیں جیسے کہ آپ کو اللہ کی کتاب آپ کے آباء و اجداد سے ملی۔ آپ یہ اللہ کی کتاب اپنی بعد والی نسل کے لئے چھوڑ جائیں گے۔ یعنی انسان صرف اللہ کی کتاب کو منتقل کر رہا ہے۔ اللہ کی کتاب کی حفاظت ،اس کا لاریب ہونا، اس کا باطل سے پاک ہونا ،ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک ہونا ان سب باتوں کی زمہ داری اور اتھارٹی اللہ واحد کی ہے۔ کسی بھی انسان کی نہیں۔ جبکہ لوگوں کی جمع کردہ احادیث کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ وہ اللہ کا کلام تو بہت دور کی بات ہے وہ تورسول کے الفاظ تک نہیں ہیں۔ یاد رکھیں دنیا کی کوئ کتاب بشمول احادیث کی تمام کتب یہ دعوی نہیں کرتیں کہ وہ اللہ کا کلام ہیں۔یہ ظلم عظیم تو آپ کر رہے ہیں۔
لوگوں کی جمع شدہ احادیث پر نظر ڈالیں تو یہاں راویوں کا ایک سلسلہ ہے، جو بات لو رسول کی جانب منسوب کرتا ہے۔ یہاں حدیث کی اتھارٹی روایت کرنے والوں کی ہے۔ جو کہ تمام انسان تھے۔ پھر مذید دیکھیں احادیث کو جمع کر کہ کتابی شکل دینے والے حضرات نے بھی لاکھوں احادیث اپنے علم، فہم ، صوابدید اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی وجہ سے ضائع کردیں اور اپنی کتب میں ان کو شامل نہیں کیا۔ اگر یہ احادیث بھی اللہ کا کلام ہوتیں تو ان حضرات میں ایک حدیث بھی ضائع کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ یہ حضرات نہ تو نبی تھے نہ ہی رسول اور نہ ہی ان پر اللہ کی وحی نازل ہوتی تھی کہ ان کا کام ہمارے لئے حجت ہو۔
ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کوئی انسان ہمیں بتائے کہ یہ قرآن ہے۔ اللہ خود اپنی اتھررٹی پر اپنی کتاب میں بتا رہا ہے کہ قرآن کس نے نازل کیا ہے اور اس کا رسول بھی بتا رہا ہے۔
"طس۔ وہ آیت ٖقرآن کی اور واضح کتاب کی ہیں۔ (النمل۔1)
"یس۔ پر از حکمت قرآن کی قسم۔ (یس۔1،2)
"کہ بے شک ہم نے اسے ایک قرآن عربی بنا دیا تاکہ تم سمجھ سکو۔ (الزخرف۔3)
"ق۔ قرآن مجید کی قسم "(ق۔1)
"بلکہ وہ تو بزرگی والا قرآن ہے" (البروج۔21)
"الر۔ وہ آیات کتاب اور ایک واضح قرآن کی ہیں" (الحجر۔1)
"اور کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور بیشک باطل تو مٹنے والا ہی ہے۔ (الاسراء۔81)
مسٹر مسلم
یہ بات کنفرم کردیں کہ آپ " اہل قرآن " ہونے کے دعوے دار ہیں ،یا نہیں ؟ اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور جن کتابوں میں احادیث لکھی ہوئ ہیں انہیں آپ کیا سمجھتے ہیں ؟
یہ جوابات آپ دے دیجئے پھر ان شاء اللہ بات آگے بڑھائیں گے ۔

شکریہ
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
مسٹر مسلم
یہ بات کنفرم کردیں کہ آپ " اہل قرآن " ہونے کے دعوے دار ہیں ،یا نہیں ؟ اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور جن کتابوں میں احادیث لکھی ہوئ ہیں انہیں آپ کیا سمجھتے ہیں ؟
یہ جوابات آپ دے دیجئے پھر ان شاء اللہ بات آگے بڑھائیں گے ۔

شکریہ
السلام علیکم۔
بھائی صاحب " اہل قرآن " کی کوئی اصطلاح قرآن مجید میں میری نظر سے نہیں گزری اگر آپ کو علم ہے تو سورۃ اور آیت نمبر بتا دیں۔
دیکھیں دنیا میں اللہ کی کتاب قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور چیز "فرقان" نہیں ہے۔(2:185) اللہ کی کتاب سب سے اوپر ہے۔ زندگی میں پیش آنے والے سارے معاملات اسکی روشنی میں دیکھنے چاہیئں۔
لوگوں کی جمع شدہ احادیث پر بھی اللہ کی کتاب " فرقان" ہے۔جس حدیث کی قرآن کی آیات سے تصدیق ہو جائے تو وہ ٹھیک ہے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے (مگر وہ حدیث ، اللہ کا کلام ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ پچھلی پوسٹ میں اسکی وضاحت کر چکا ہوں ) اور جس حدیث کو قرآن کی آیات رد کردے تو اس حدیث کو رد کردینا چاہئے۔ ایمان اللہ کی آیات پر ہو کیونکہ فرقان اللہ کی کتاب ہے وہ آپ کو بتائے گی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔
یہاں لوگ الٹا کام کررہے ہیں، بجائے قرآن کو فرقان بنائیں اور اس سے احادیث کو پرکھیں وہ احادیث سے قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں، یعنی اللہ کے کلام جس کی حفاظت اللہ کے زمہ ہے جس کے لا ریب ہونے پر اللہ واحد کی اتھارٹی ہے، جس میں باطل کہیں سے داخل نہیں ہوسکتا، جس میں کوئی انسان کتنی ہی کوشش کر لے تبدیلی نہیں کرسکتا اور تمام انسان اور جن اگر مل کر ایسا قرآن بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے (17:88) ایسی اللہ کی کتاب کو انسانی کلام سے جو کئی واسطوں سے سن کر جمع کیا گیا ہو، جس کی حفاظت کی اللہ نے کوئی ضما نت نہیں لی ہو، جو لاریب نہیں ہے اس سے آپ قرآن سمجھنا چاہتے ہیں؟؟؟ یہ بہت ہی عجیب اور نا قابل فہم بات ہے۔
یاد رکھیں اللہ کی کتاب اللہ کا کلام ہے اور قول رسول کریم ہے۔ جس کو اللہ واحداپنی اتھارٹی پر قول رسول کریم کہہ رہا ہے ، وہ آپ کو نظر کیوں نہیں آتا ، جس کا ضامن کوئی انسان راوی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ خود ہے۔

پس مجھے ان چیزوں کی قسم ہے جنہیں تم دیکھتے ہو۔
اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے۔
کہ بے شک یہ (قرآن) قول رسول کریمﷺ ہے۔
اور یہ کسی شاعر کے قول کے ساتھ نہیں۔ تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہو۔
اور نہ ہی یہ کسی کاہن کے قول کے ساتھ ہے۔ تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
یہ تو جہانوں کے رب کی جانب سے نازل کردہ ہے۔ (الحاقہ 38،39،40،41،42،43)

کہہ دے کون سی چیز سب سے بڑی شہادت ہے، کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ شاہد ہے کہ یہ قرآن مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ تاکہ میں تمہیں اور ان کو جن تک وہ پہنچے اس سے متنبہ کر دوں۔ کیا تم واقعئی یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا۔ کہہ دے اس میں شک نہیں کہ وہی معبود واحد ہے، اور میں اس شرک سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔ (الانعام ۔19)
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
السلام علیکم۔
بھائی صاحب " اہل قرآن " کی کوئی اصطلاح قرآن مجید میں میری نظر سے نہیں گزری اگر آپ کو علم ہے تو سورۃ اور آیت نمبر بتا دیں۔
دیکھیں دنیا میں اللہ کی کتاب قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور چیز "فرقان" نہیں ہے۔(2:185) اللہ کی کتاب سب سے اوپر ہے۔ زندگی میں پیش آنے والے سارے معاملات اسکی روشنی میں دیکھنے چاہیئں۔
لوگوں کی جمع شدہ احادیث پر بھی اللہ کی کتاب " فرقان" ہے۔جس حدیث کی قرآن کی آیات سے تصدیق ہو جائے تو وہ ٹھیک ہے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے (مگر وہ حدیث ، اللہ کا کلام ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ پچھلی پوسٹ میں اسکی وضاحت کر چکا ہوں ) اور جس حدیث کو قرآن کی آیات رد کردے تو اس حدیث کو رد کردینا چاہئے۔ ایمان اللہ کی آیات پر ہو کیونکہ فرقان اللہ کی کتاب ہے وہ آپ کو بتائے گی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔
یہاں لوگ الٹا کام کررہے ہیں، بجائے قرآن کو فرقان بنائیں اور اس سے احادیث کو پرکھیں وہ احادیث سے قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں، یعنی اللہ کے کلام جس کی حفاظت اللہ کے زمہ ہے جس کے لا ریب ہونے پر اللہ واحد کی اتھارٹی ہے، جس میں باطل کہیں سے داخل نہیں ہوسکتا، جس میں کوئی انسان کتنی ہی کوشش کر لے تبدیلی نہیں کرسکتا اور تمام انسان اور جن اگر مل کر ایسا قرآن بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے (17:88) ایسی اللہ کی کتاب کو انسانی کلام سے جو کئی واسطوں سے سن کر جمع کیا گیا ہو، جس کی حفاظت کی اللہ نے کوئی ضما نت نہیں لی ہو، جو لاریب نہیں ہے اس سے آپ قرآن سمجھنا چاہتے ہیں؟؟؟ یہ بہت ہی عجیب اور نا قابل فہم بات ہے۔
یاد رکھیں اللہ کی کتاب اللہ کا کلام ہے اور قول رسول کریم ہے۔ جس کو اللہ واحداپنی اتھارٹی پر قول رسول کریم کہہ رہا ہے ، وہ آپ کو نظر کیوں نہیں آتا ، جس کا ضامن کوئی انسان راوی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ خود ہے۔

پس مجھے ان چیزوں کی قسم ہے جنہیں تم دیکھتے ہو۔
اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے۔
کہ بے شک یہ (قرآن) قول رسول کریمﷺ ہے۔
اور یہ کسی شاعر کے قول کے ساتھ نہیں۔ تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہو۔
اور نہ ہی یہ کسی کاہن کے قول کے ساتھ ہے۔ تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
یہ تو جہانوں کے رب کی جانب سے نازل کردہ ہے۔ (الحاقہ 38،39،40،41،42،43)

کہہ دے کون سی چیز سب سے بڑی شہادت ہے، کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ شاہد ہے کہ یہ قرآن مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ تاکہ میں تمہیں اور ان کو جن تک وہ پہنچے اس سے متنبہ کر دوں۔ کیا تم واقعئی یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا۔ کہہ دے اس میں شک نہیں کہ وہی معبود واحد ہے، اور میں اس شرک سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔ (الانعام ۔19)
مسٹر مسلم
جناب ٓپ سے انتہائی عام فہم سوال کئے تھے
یہ بات کنفرم کردیں کہ آپ " اہل قرآن " ہونے کے دعوے دار ہیں ،یا نہیں ؟ اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور جن کتابوں میں احادیث لکھی ہوئ ہیں انہیں آپ کیا سمجھتے ہیں ؟
اسکے جواب میں آپ نے لمبی سی عبارت پیش کردی جس سے سوالات کے جوابات کو ڈھونڈنا اور پھر اسے سمجھنا پڑے گا ۔ اور پھر جو بات سمجھ آئی اسکے مطابق اگر آپ سے کچھ کہا تو آپ نے کہنا ہے کہ آپ غلط سمجھے ۔ اسلئے مسٹر مسلم آپ سے گزارش ہے کہ سوال ے عین مطابق جواب اپنی اس عبارت سے "ڈھونڈ" کر پیش کردیں ۔ تاکہ مجھ جاہل کی سمجھ میں سہی سے آسکے۔ یعنی
اہل قرآن ہیں یا نہیں ؟ ہاں ؟ یا نہیں ؟
احادیث نبوی کو مانتے ہیں ؟ ہاں ؟ یا نہیں؟
جن کتابوں میں احادیث لکھی ہوئی ہیں انہیں کیا سمجھتے ہیں ؟


شکریہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
وعلیکم السلام بھائی مسلم،

آپ نے کہا:
لوگوں کی جمع شدہ احادیث پر بھی اللہ کی کتاب " فرقان" ہے۔جس حدیث کی قرآن کی آیات سے تصدیق ہو جائے تو وہ ٹھیک ہے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے
سلام کرنا قرآن کی کونسی آیت سے ثابت ہے اور آپ سلام والی کس حدیث کی تصدیق کرینگے؟؟
کیا قرآن میں سلام کرنے ک طریقہ بتایا گیا ہے؟
 
Top