• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ واقع صحیح ہے یا نہیں

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تفسیر الدرمنثور میں ہے کہ جب صحابہ کرام کے سامنے یہ مسئلہ بیان ہوا کہ آسمان گھومتا ہے ۔ جس کو بیان کرنے والے مشہور تابعی حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ ہیں جو سابقہ کتب کے بہت بڑے عالم تھے اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایمان لائے۔آسمان گھومنے کا نظریہ اس وقت کے یہودیوں کا تھا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے آسمان گھومنے کا نظریہ یہودیوں سے سن رکھا ہوگا۔ لیکن ان کو معلوم نہ تھا کہ یہ نظریہ قرآن کے خلاف ہے۔ اسی لئے انہوں نے کہہ دیا کہ آسمان حرکت کررہا ہے۔ لیکن جب یہ حضرت کعب کی بات دو جلیل القدر صحابی حضرات عبداللہ ابن مسعود اور حزیفہ بن یمان رضوان اللہ علیہم تک پہنچی تو دونوں حضرات نے بالاتفاق قرآن کی آیت پڑھ دی اور فرمایا۔" کذب کعب ۔ ان اﷲ یمسک المسٰوٰت و الارض ان تزولا ۔
ترجمہ:۔کعب نے غلط کہا اﷲ تعالٰی فرماتا ہے بے شک اﷲ تعالٰی آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ سرکیں نہیں۔
( ۲ ؎۔جامع البیان (التفسیر الطبری) تحت الآیۃ ۳۵/ ۴۱ ، داراحیاء الثراث العربی بیروت ۲۲/ ۱۷۰ )
(الدرالمنثور تحت الآیۃ ۳۵/ ۴۱ ، داراحیاء الثراث العربی بیروت ۷/ ۳۲ )​
 
Last edited by a moderator:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198

تفسیر الدرمنثور میں ہے کہ جب صحابہ کرام کے سامنے یہ مسئلہ بیان ہوا کہ آسمان گھومتا ہے ۔ جس کو بیان کرنے والے مشہور تابعی حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ ہیں جو سابقہ کتب کے بہت بڑے عالم تھے اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایمان لائے۔آسمان گھومنے کا نظریہ اس وقت کے یہودیوں کا تھا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے آسمان گھومنے کا نظریہ یہودیوں سے سن رکھا ہوگا۔ لیکن ان کو معلوم نہ تھا کہ یہ نظریہ قرآن کے خلاف ہے۔ اسی لئے انہوں نے کہہ دیا کہ آسمان حرکت کررہا ہے۔ لیکن جب یہ حضرت کعب کی بات دو جلیل القدر صحابی حضرات عبداللہ ابن مسعود اور حزیفہ بن یمان رضوان اللہ علیہم تک پہنچی تو دونوں حضرات نے بالاتفاق قرآن کی آیت پڑھ دی اور فرمایا۔" کذب کعب ۔ ان اﷲ یمسک المسٰوٰت و الارض ان تزولا ۔

ترجمہ:۔کعب نے غلط کہا اﷲ تعالٰی فرماتا ہے بے شک اﷲ تعالٰی آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ سرکیں نہیں۔
( ۲ ؎۔جامع البیان (التفسیر الطبری) تحت الآیۃ ۳۵/ ۴۱ ، داراحیاء الثراث العربی بیروت ۲۲/ ۱۷۰ )
(الدرالمنثور تحت الآیۃ ۳۵/ ۴۱ ، داراحیاء الثراث العربی بیروت ۷/ ۳۲ )
@اسحاق سلفی
@خضر حیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
تفسیر الدرمنثور میں ہے کہ جب صحابہ کرام کے سامنے یہ مسئلہ بیان ہوا کہ آسمان گھومتا ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پیارے بھائی یہ واقعہ امام ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں بھی ابن جریر طبری کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے
لکھتے ہیں :
وَقَدْ قَالَ أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِيرٍ (8) : حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ -هُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ-فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ قَالَ: مِنَ الشَّامِ. قَالَ: مَنْ لَقِيتَ؟ قَالَ: لَقِيتُ كَعْبًا. قَالَ: مَا حَدَّثَكَ كَعْبٌ؟ قَالَ: حدثني أن السموات تَدُورُ عَلَى مِنْكَب مَلَك. قَالَ: أَفَصَدَّقْتَهُ أَوْ كَذَّبْتَهُ؟ قَالَ: مَا صَدَّقْتُهُ وَلَا كِذَّبْتُهُ. قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنَّكَ افْتَدَيْتَ مَن رِحْلَتِكَ إِلَيْهِ بِرَاحِلَتِكَ ورَحْلِها، كَذَب كَعْبٌ. إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأرْضَ أَنْ تَزُولا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ}
وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ إِلَى كَعْبٍ وَإِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ.

(تفسیرابن جریرالطبری ) میں ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا شام سے۔ پوچھا وہاں کس سے ملے؟ کہا کعب رحمہ اللہ سے۔ پوچھا کعب نے کیا بات بیان کی؟ کہا یہ کہ آسمان ایک فرشتے کے کندھے پر گھوم رہے ہیں۔ پوچھا تم نے اسے سچ جانا یا جھٹلا دیا؟ اس نے جواب دیا میں نے کچھ بھی نہیں کہا نہ تصدیق کی نہ جھٹلایا ۔ فرمایا پھر تو تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ سنو کعب نے غلط کہا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔

ثُمَّ رَوَاهُ ابْنُ جَرِيرٍ عَنِ ابْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: ذَهَبَ جُنْدب البَجَلي إِلَى كَعْبٍ بِالشَّامِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ: السَّمَاءُ لَا تَدُورُ. وَاحْتَجَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ، وَبِحَدِيثِ: "إِنَّ بِالْمَغْرِبِ بَابًا لِلتَّوْبَةِ لَا يَزَالُ مفتوحا حتى تطلع الشمس منه".

(10) یعنی دوسری سند میں آنے والے کا نام ہے کہ وہ جندب بجلی رضی اللہ عنہ تھے۔
اور امام مالک رحمہ اللہ بھی اس کی تردید کرتے تھے کہ آسمان گردش میں ہیں اور اسی آیت سے دلیل لیتے تھے اور اس حدیث سے بھی جس میں ہے مغرب میں ایک دروازہ ہے جو توبہ کا دروازہ ہے وہ بند نہ ہو گا جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو۔ (سنن ترمذي:3536،قال الشيخ الألباني:حسن) حدیث بالکل صحیح ہے۔ «واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم»
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پیارے بھائی یہ واقعہ امام ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں بھی ابن جریر طبری کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے
لکھتے ہیں :
وَقَدْ قَالَ أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِيرٍ (8) : حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ -هُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ-فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ قَالَ: مِنَ الشَّامِ. قَالَ: مَنْ لَقِيتَ؟ قَالَ: لَقِيتُ كَعْبًا. قَالَ: مَا حَدَّثَكَ كَعْبٌ؟ قَالَ: حدثني أن السموات تَدُورُ عَلَى مِنْكَب مَلَك. قَالَ: أَفَصَدَّقْتَهُ أَوْ كَذَّبْتَهُ؟ قَالَ: مَا صَدَّقْتُهُ وَلَا كِذَّبْتُهُ. قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنَّكَ افْتَدَيْتَ مَن رِحْلَتِكَ إِلَيْهِ بِرَاحِلَتِكَ ورَحْلِها، كَذَب كَعْبٌ. إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأرْضَ أَنْ تَزُولا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ}
وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ إِلَى كَعْبٍ وَإِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ.

(تفسیرابن جریرالطبری ) میں ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا شام سے۔ پوچھا وہاں کس سے ملے؟ کہا کعب رحمہ اللہ سے۔ پوچھا کعب نے کیا بات بیان کی؟ کہا یہ کہ آسمان ایک فرشتے کے کندھے پر گھوم رہے ہیں۔ پوچھا تم نے اسے سچ جانا یا جھٹلا دیا؟ اس نے جواب دیا میں نے کچھ بھی نہیں کہا نہ تصدیق کی نہ جھٹلایا ۔ فرمایا پھر تو تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ سنو کعب نے غلط کہا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔

ثُمَّ رَوَاهُ ابْنُ جَرِيرٍ عَنِ ابْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: ذَهَبَ جُنْدب البَجَلي إِلَى كَعْبٍ بِالشَّامِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ: السَّمَاءُ لَا تَدُورُ. وَاحْتَجَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ، وَبِحَدِيثِ: "إِنَّ بِالْمَغْرِبِ بَابًا لِلتَّوْبَةِ لَا يَزَالُ مفتوحا حتى تطلع الشمس منه".

(10) یعنی دوسری سند میں آنے والے کا نام ہے کہ وہ جندب بجلی رضی اللہ عنہ تھے۔
اور امام مالک رحمہ اللہ بھی اس کی تردید کرتے تھے کہ آسمان گردش میں ہیں اور اسی آیت سے دلیل لیتے تھے اور اس حدیث سے بھی جس میں ہے مغرب میں ایک دروازہ ہے جو توبہ کا دروازہ ہے وہ بند نہ ہو گا جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو۔ (سنن ترمذي:3536،قال الشيخ الألباني:حسن) حدیث بالکل صحیح ہے۔ «واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم»
جزاک اللہ خیر
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پیارے بھائی یہ واقعہ امام ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں بھی ابن جریر طبری کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے
لکھتے ہیں :
وَقَدْ قَالَ أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِيرٍ (8) : حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ -هُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ-فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ قَالَ: مِنَ الشَّامِ. قَالَ: مَنْ لَقِيتَ؟ قَالَ: لَقِيتُ كَعْبًا. قَالَ: مَا حَدَّثَكَ كَعْبٌ؟ قَالَ: حدثني أن السموات تَدُورُ عَلَى مِنْكَب مَلَك. قَالَ: أَفَصَدَّقْتَهُ أَوْ كَذَّبْتَهُ؟ قَالَ: مَا صَدَّقْتُهُ وَلَا كِذَّبْتُهُ. قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنَّكَ افْتَدَيْتَ مَن رِحْلَتِكَ إِلَيْهِ بِرَاحِلَتِكَ ورَحْلِها، كَذَب كَعْبٌ. إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأرْضَ أَنْ تَزُولا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ}
وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ إِلَى كَعْبٍ وَإِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ.

(تفسیرابن جریرالطبری ) میں ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا شام سے۔ پوچھا وہاں کس سے ملے؟ کہا کعب رحمہ اللہ سے۔ پوچھا کعب نے کیا بات بیان کی؟ کہا یہ کہ آسمان ایک فرشتے کے کندھے پر گھوم رہے ہیں۔ پوچھا تم نے اسے سچ جانا یا جھٹلا دیا؟ اس نے جواب دیا میں نے کچھ بھی نہیں کہا نہ تصدیق کی نہ جھٹلایا ۔ فرمایا پھر تو تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ سنو کعب نے غلط کہا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اس کی اسناد صحیح ہے۔

ثُمَّ رَوَاهُ ابْنُ جَرِيرٍ عَنِ ابْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: ذَهَبَ جُنْدب البَجَلي إِلَى كَعْبٍ بِالشَّامِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ: السَّمَاءُ لَا تَدُورُ. وَاحْتَجَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ، وَبِحَدِيثِ: "إِنَّ بِالْمَغْرِبِ بَابًا لِلتَّوْبَةِ لَا يَزَالُ مفتوحا حتى تطلع الشمس منه".

(10) یعنی دوسری سند میں آنے والے کا نام ہے کہ وہ جندب بجلی رضی اللہ عنہ تھے۔
اور امام مالک رحمہ اللہ بھی اس کی تردید کرتے تھے کہ آسمان گردش میں ہیں اور اسی آیت سے دلیل لیتے تھے اور اس حدیث سے بھی جس میں ہے مغرب میں ایک دروازہ ہے جو توبہ کا دروازہ ہے وہ بند نہ ہو گا جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو۔ (سنن ترمذي:3536،قال الشيخ الألباني:حسن) حدیث بالکل صحیح ہے۔ «واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم»
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔۔
اسحاق بھائی سنن ترمذی کی جو حدیث آپ نے بیان کی اس کی وضاحت کر دیں اس میں مغرب میں دروازہ سے کیا مراد ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اسحاق بھائی سنن ترمذی کی جو حدیث آپ نے بیان کی اس کی وضاحت کر دیں اس میں مغرب میں دروازہ سے کیا مراد ہے؟
انسانی اعمال آسمان کی طرف چڑھتے ہیں
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
(مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ) سورہ فاطر 10
جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے، تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے "

اور ان اعمال کےاوپر چڑھنے کیلئے آسمان میں دروازے ہیں :
إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ (سورۃ الاعراف 40 )
ترجمہ :
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وه لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے "
اس آیت سے واضح ہے کہ آسمان میں کچھ دروازے ہیں ،
ان میں ایک دروازہ توبہ کا بھی ہے ،جو مغرب کی طرف ہے اور جب تک سورج مغرب کی طرف سے طلوع نہ ہو یہ دروازہ کھلا ہے ، اور توبی قبول ہوتی ہے
حدیث شریف میں ہے :
وَعَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا، عَرْضُهُ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ، لَا يُغْلَقُ مَا لَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِهِ، وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ} [الأنعام: 158] » . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ مَاجَهْ.
(مشکوۃ شریف باب الاستغفار و التوبہ )
صفوان بن عسال (رضی اللہ عنہ) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مغرب کی جانب ایک دروازہ بنایا ہے جو توبہ کے لئے ہے اور جس کا عرض ستر سال کی مسافت کے بقدر ہے اور یہ دروازہ اس وقت تک بند نہیں کیا جائے گا جب تک کہ آفتاب مغرب کی سمت سے نکلے یعنی مغرب کی سمت سے آفتاب کا نکلنا قبولیت توبہ کا مانع ہے ،
اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کہ اس دن آویں گی بعض نشانیاں تیرے پروردگار کی نہیں نفع دے گا کسی ایسی جان کو ایمان لانا جو پہلے سے ایمان نہیں لائی تھی کا یہی مطلب ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح " جو توبہ کے لئے ہے" کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کرنے والون کے لئے کھلا ہوا ہے یا یہ کہ وہ توبہ کے صحیح ہونے اور توبہ کے قبول ہونے کی علامت ہے ! حاصل یہ کہ جب آفتاب مغرب کی جانب سے نہیں نکلتا لوگوں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے جس کا جی چاہے اپنے شرک و کفر سے توبہ کرے اور جس کا جی چاہے اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اس دروازہ کے ذریعہ آخرت کی ابدی راحتوں اور سعادتوں کا مستحق ہوجائے۔ جب مغرب کی سمت سے آفتاب نکلے گا تو توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا حدیث میں جس آیت کریمہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے۔۔
آیت (يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا اِيْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِيْ اِيْمَانِهَا خَيْرًا) 6۔ الانعام : 158)۔ اس دن آویں گی بعض نشانیاں تیرے پروردگار کی (یعنی قرب قیامت پروردگار بعض نشانیاں ظاہر کرے گا ان ہی میں سے ایک نشائی یہ ہے کہ ایک دن آفتاب مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا اس دن نہیں نفع دے گا کسی ایسی جان کو ایمان لانا جو پہلے سے (یعنی پروردگار کی نشانی ظاہر ہونے سے پہلے) ایمان لائی تھی اور اس جان کو کہ جس نے حالت ایمان بھلائی (یعنی توبہ) نہیں کی تھی (اس دن اس کی توبہ اس کو کوئی نفع نہیں دے گی)۔ اس آیت کا حاصل یہی ہے کہ جس دن آفتاب مغرب کی سمت سے طلوع ہوگا تو جو شخص اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا یا ایمان پر تو ہوگا مگر توبہ نہیں کی ہوگی اب نہ اس کا ایمان نفع پہنچائے گا نہ اس کی توبہ کوئی فائدہ پہنچائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا اسحاق بھائی
تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آسمانوں میں وہ دروازہ مغرب کی جانب ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آسمانوں میں وہ دروازہ مغرب کی جانب ہے؟

«إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا
اللہ تعالیٰ نے مغرب کی جانب ایک دروازہ بنایا ہے (جو توبہ کے لئے ہے )

جب تک سورج مغرب کی طرف سے طلوع نہ ہو یہ دروازہ کھلا ہے ، اور توبہ قبول ہوتی ہے
 
Top