• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۔ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور متعد بار میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ قاعدہ میرا نہیں بلکہ یہ قاعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے پھر کس طرح یہ مکمل نہیں ؟؟؟؟
یہ قاعدہ قرآن کا نہیں ، یہ آپ کو اخذ کر دہ قاعدہ ہے، جو آپ کے ہی مؤقف کے خلاف ہے، کیونکہ آپ کو خود تسلیم ہے کہ تلاوت منسوخ حکم باقی بھی نسخ کی ایک قسم ہے!! کیونکہ صرف قرآن سے شریعت اخذ نہیں کی جاتی، اس کے ساتھ حدیث بھی ضروری ہے!!
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ امی عائشہ کی روایت کے مطابق اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بکری کھا گئی تھی اس لئے یہ قرآن میں نہیں ؟؟؟؟؟
یہ آپ کو'' ہو سکتا'' تو ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ، اس کی وضاحت اسی تھریڈ میں گذر چکی ہے، اگر نہ ملے تو فرمائیے گا، میں اقتباس کی صورت میں دوبارہ پیش کردوں گا!!
حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ حدثنا عبدة بن أبي لبابة،‏‏‏‏ عن زر بن حبيش،‏‏‏‏ وحدثنا عاصم،‏‏‏‏ عن زر،‏‏‏‏ قال سألت أبى بن كعب قلت يا أبا المنذر إن أخاك ابن مسعود يقول كذا وكذا‏.‏ فقال أبى سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي قيل لي‏.‏ فقلت،‏‏‏‏ قال فنحن نقول كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏
اردو ترجمہ داؤد راز
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدہ بن ابی لبابہ نے بیان کیا، ان سے زر بن حبیش نے (سفیان نے کہا) اور ہم سے عاصم نے بھی بیان کیا، ان سے زر نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا یا اباالمنذر! آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما تو یہ کہتے ہیں کہ سورۃ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں۔ ابی بن کعب نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ (جبرائیل علیہ السلام کی زبانی) مجھ سے یوں کہا گیا کہ ایسا کہہ اور میں نے کہا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 4977
كذا وكذا کہ مذکورہ ترجمہ احتمال پر مبنی ہے! اور یہ قاعدہ تو فقہ الجعفریہ کا بھی ہے کہ:
اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال کہ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے!!

اس کا جواب کہاں ہے؟
یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525

قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ قاعدہ قرآن کا نہیں ، یہ آپ کو اخذ کر دہ قاعدہ ہے، جو آپ کے ہی مؤقف کے خلاف ہے، کیونکہ آپ کو خود تسلیم ہے کہ تلاوت منسوخ حکم باقی بھی نسخ کی ایک قسم ہے!! کیونکہ صرف قرآن سے شریعت اخذ نہیں کی جاتی، اس کے ساتھ حدیث بھی ضروری ہے!!
چلیں پھر امام شافع کی کتاب رسالہ کا مطالعہ کرتے ہیں
امام شافعی فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالی نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ اللہ کی کتاب میں دیے گئے حکم کو یہ کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے۔ کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ کتاب اللہ کے تابع ہے۔ سنت کا دائرہ تو کتاب اللہ کے احکامات کی وضاحت ہی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
جب انہیں ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں، "اس کی بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اسی میں کوئی ترمیم کر لو۔" اے پیغمبر! آپ کہیے، "میرا یہ کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کر لوں۔ میں تو بس اسی وحی کا پیروکار ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔" (یونس10:15 )

یہاں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو بتایا ہے کہ آپ کے ذمے وحی الہی کی صرف اتباع ہے اور آپ اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس ارشاد میں کہ " مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي " یعنی " میرا یہ کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کر لوں " وہ بات بیان ہوئی ہے جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں کہ اللہ کی کتاب کے کسی قانون کو اس کے سوا کوئی اور چیز منسوخ نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ صرف اللہ تعالی ہی اپنا حکم جاری کر سکتا ہے اسی طرح یہ بات بھی صرف اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے حکم کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھے (یا منسوخ کر دے)۔ اس کے سوا کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے"يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ، وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ " یعنی "اللہ تعالی اپنے احکام میں سے جسے چاہے لے جاتا ہے اور جسے چاہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے" اس معاملے میں بعض اہل علم کا یہ موقف ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ، اللہ تعالی کی اجازت سے اس معاملے میں کوئی قانون سازی کر سکتے ہیں جس میں اللہ تعالی نے کوئی حکم نازل نہیں کیا۔ اس کے اس ارشاد میں کہ "وہ جو چاہے لے جاتا ہے" میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی جس حکم کو چاہے باقی رکھتا ہے اور جسے چاہے منسوخ کر دیتا ہے۔ اللہ کی کتاب میں اس بات کی دلیل یہ ہے:
اگر ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیں یا اسے بھلا دیں تو ہم اس سے بہتر یا ویسی ہی آیت لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرہ2: 106 )
اللہ تعالی نے یہ بات بتا دی ہے کہ قرآن کے کسی حکم کا نسخ یا اس کے کسی حکم کو موخر کرنا صرف قرآن مجید ہی سے ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری نازل کرتے ہیں اور اللہ ہی یہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے تویہ لوگ کہتے ہیں کہ تم خود قرآن گھڑتے ہو ۔ (النحل 16:101)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کا معاملہ ہے۔ سنت کا نسخ سنت رسول ہی سے ہو سکتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کوئی سنت جاری فرما چکے ہوں اور اللہ تعالی اس معاملے میں کوئی اور حکم جاری کرنا چاہے تو آپ اس میں اللہ تعالی کے حکم ہی کی پیروی میں نئی سنت جاری فرمائیں گے یہاں تک کہ لوگوں پر واضح ہو جائے گا کہ اس سنت نے اس سے پہلے والی سنت کو منسوخ کر دیا ہے۔ اسی بات کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث میں ہے۔
لنک

امام شافعی کے بیان کردہ ناسخ و منسوخ کے قاعدے کے اہم نکات
1۔ اللہ کی کتاب میں دیے گئے حکم کو اللہ کی کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے۔
2۔کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی۔
کتاب اللہ کے حکم کو اللہ کی کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منسوخ نہیں کرسکتی لیکن میں یہاں یہ دیکھ رہا ہو قرآن کی آیت رجم کو "حدیث عمر "سے منسوخ بتایا جارہا ہے
كذا وكذا کہ مذکورہ ترجمہ احتمال پر مبنی ہے!
اور یہ احتمال قائم داؤر زار نے کیا اس میں میرا کوئی قصور نہیں
ویسے ایک بات پوچھنی ہے( لیکن ضروری نہیں آپ اس کا جواب دیں کیونکہ یہ موضوع سے ہٹ کر ہے ) کہ میں نے اکثر صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران یہ بات محسوس کی ہے کہ جہاں کوئی بات کسی صحابی کی شان کے خلاف آجائے وہاں امام بخاری " کذا کذا " یا " فلاں فلاں " کہہ کے بات کو گول مول کردیتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر انبیاء علیہم السلام کی شان کے خلاف کوئی بات ہو تو وہاں وہ اس چیز کا خیال نہیں کرتے اور صاف صاف لکھ دیتے ہیں کہ "
لم يكذبْ أبراهيمُ إلا ثلاثَ كذِباتٍ

نعوذباللہ
جبکہ اللہ تعالیٰ ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے
شاید امام بخاری کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی شان صحابہ سے کم ہو اسی لئے کسی صحابی کی شان کے خلاف کوئی لفظ بخاری میں درج نہیں کرتےاور فلاں فلاں اور کذا کذا کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کے لئے یہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھتے اور بے دھڑک کچھ بھی لکھ دیتے ہیں

اس کا جواب کہاں ہے؟
ایک مصرعہ پہلے عرض کیا تھا اب لگتا ہے پورا شعر عرض کرنا پڑے گا تو عرض کیا ہے

یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور بھی دل انکو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
چلیں پھر امام شافع کی کتاب رسالہ کا مطالعہ کرتے ہیں
امام شافعی فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالی نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ اللہ کی کتاب میں دیے گئے حکم کو یہ کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے۔ کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ کتاب اللہ کے تابع ہے۔ سنت کا دائرہ تو کتاب اللہ کے احکامات کی وضاحت ہی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
جب انہیں ہماری صاف صاف آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں، "اس کی بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اسی میں کوئی ترمیم کر لو۔" اے پیغمبر! آپ کہیے، "میرا یہ کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کر لوں۔ میں تو بس اسی وحی کا پیروکار ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔" (یونس10:15 )

یہاں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو بتایا ہے کہ آپ کے ذمے وحی الہی کی صرف اتباع ہے اور آپ اپنی طرف سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس ارشاد میں کہ " مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي " یعنی " میرا یہ کام نہیں کہ میں اس میں اپنی طرف سے کوئی تغیر و تبدل کر لوں " وہ بات بیان ہوئی ہے جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں کہ اللہ کی کتاب کے کسی قانون کو اس کے سوا کوئی اور چیز منسوخ نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ صرف اللہ تعالی ہی اپنا حکم جاری کر سکتا ہے اسی طرح یہ بات بھی صرف اسی کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے حکم کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھے (یا منسوخ کر دے)۔ اس کے سوا کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے"يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ، وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ " یعنی "اللہ تعالی اپنے احکام میں سے جسے چاہے لے جاتا ہے اور جسے چاہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے" اس معاملے میں بعض اہل علم کا یہ موقف ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ، اللہ تعالی کی اجازت سے اس معاملے میں کوئی قانون سازی کر سکتے ہیں جس میں اللہ تعالی نے کوئی حکم نازل نہیں کیا۔ اس کے اس ارشاد میں کہ "وہ جو چاہے لے جاتا ہے" میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی جس حکم کو چاہے باقی رکھتا ہے اور جسے چاہے منسوخ کر دیتا ہے۔ اللہ کی کتاب میں اس بات کی دلیل یہ ہے:
اگر ہم کسی آیت کو منسوخ کر دیں یا اسے بھلا دیں تو ہم اس سے بہتر یا ویسی ہی آیت لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرہ2: 106 )
اللہ تعالی نے یہ بات بتا دی ہے کہ قرآن کے کسی حکم کا نسخ یا اس کے کسی حکم کو موخر کرنا صرف قرآن مجید ہی سے ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری نازل کرتے ہیں اور اللہ ہی یہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے تویہ لوگ کہتے ہیں کہ تم خود قرآن گھڑتے ہو ۔ (النحل 16:101)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کا معاملہ ہے۔ سنت کا نسخ سنت رسول ہی سے ہو سکتا ہے۔ اگر کسی معاملے میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کوئی سنت جاری فرما چکے ہوں اور اللہ تعالی اس معاملے میں کوئی اور حکم جاری کرنا چاہے تو آپ اس میں اللہ تعالی کے حکم ہی کی پیروی میں نئی سنت جاری فرمائیں گے یہاں تک کہ لوگوں پر واضح ہو جائے گا کہ اس سنت نے اس سے پہلے والی سنت کو منسوخ کر دیا ہے۔ اسی بات کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث میں ہے۔
لنک

امام شافعی کے بیان کردہ ناسخ و منسوخ کے قاعدے کے اہم نکات
1۔ اللہ کی کتاب میں دیے گئے حکم کو اللہ کی کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے۔
2۔کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی۔
کتاب اللہ کے حکم کو اللہ کی کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منسوخ نہیں کرسکتی لیکن میں یہاں یہ دیکھ رہا ہو قرآن کی آیت رجم کو "حدیث عمر "سے منسوخ بتایا جارہا ہے
آپ کو متعدد بار عرض کیا ہے، ناسخ و منسوخ کی بحث کے لئے علیحدہ تھریڈ قائم کر لیں!!
اور یہ احتمال قائم داؤر زار نے کیا اس میں میرا کوئی قصور نہیں
ویسے ایک بات پوچھنی ہے( لیکن ضروری نہیں آپ اس کا جواب دیں کیونکہ یہ موضوع سے ہٹ کر ہے ) کہ میں نے اکثر صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران یہ بات محسوس کی ہے کہ جہاں کوئی بات کسی صحابی کی شان کے خلاف آجائے وہاں امام بخاری " کذا کذا " یا " فلاں فلاں " کہہ کے بات کو گول مول کردیتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر انبیاء علیہم السلام کی شان کے خلاف کوئی بات ہو تو وہاں وہ اس چیز کا خیال نہیں کرتے اور صاف صاف لکھ دیتے ہیں کہ "
لم يكذبْ أبراهيمُ إلا ثلاثَ كذِباتٍ

نعوذباللہ
جبکہ اللہ تعالیٰ ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے
شاید امام بخاری کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی شان صحابہ سے کم ہو اسی لئے کسی صحابی کی شان کے خلاف کوئی لفظ بخاری میں درج نہیں کرتےاور فلاں فلاں اور کذا کذا کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کے لئے یہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھتے اور بے دھڑک کچھ بھی لکھ دیتے ہیں
بلکل میں نے داود راز کے ترجمہ کے حوالہ سے ہی کہا ہے کہ یہ ترجمہ احتمال پر مبنی ہے!!
آپ کا استدلال تو باطل ٹھہرا!!
ایک مصرعہ پہلے عرض کیا تھا اب لگتا ہے پورا شعر عرض کرنا پڑے گا تو عرض کیا ہے

یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور بھی دل انکو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!!
جواب کجا است؟

یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525

قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بالکل میں نے داود راز کے ترجمہ کے حوالہ سے ہی کہا ہے کہ یہ ترجمہ احتمال پر مبنی ہے!!
آپ کا استدلال تو باطل ٹھہرا!!
یہ احتمال ہے یا صحیح ابن احبان کی روایت کو حق ماننے کا نتیجہ
قُلْتُ لِأُبَيِّ بنِ كعبٍ : إنَّ ابنَ مسعودٍ لا يكتُبُ في مُصحَفِه المُعوِّذتَيْنِ فقال : قال لي رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( قال لي جِبريلُ : {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} [الفلق: 1] فقُلْتُها وقال لي : {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} [الناس: 1] فقُلْتُها ) فنحنُ نقولُ ما قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم
الراوي : أبي بن كعب | المحدث : ابن حبان | المصدر : صحيح ابن حبان

الصفحة أو الرقم: 797 | خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه

یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525

قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
كذا وكذا کہ مذکورہ ترجمہ احتمال پر مبنی ہے! اور یہ قاعدہ تو فقہ الجعفریہ کا بھی ہے کہ:
اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال کہ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے!!
دیدہ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھے
آپ کو متعدد بار عرض کیا ہے، ناسخ و منسوخ کی بحث کے لئے علیحدہ تھریڈ قائم کر لیں!!
یہ تو مناسب نہیں کہ آپ آیت رجم کو قول حضرت عمر سے منسوخ اس دھاگے ہونے کے دلائل عنایت فرمارہے ہوں اور جب ان دلائل کو رد کیا جاتا ہے تو دوسرا دھاگہ کھولنے کا مشورہ
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے

آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے

ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ احتمال ہے یا صحیح ابن احبان کی روایت کو حق ماننے کا نتیجہ
قُلْتُ لِأُبَيِّ بنِ كعبٍ : إنَّ ابنَ مسعودٍ لا يكتُبُ في مُصحَفِه المُعوِّذتَيْنِ فقال : قال لي رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( قال لي جِبريلُ : {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} [الفلق: 1] فقُلْتُها وقال لي : {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} [الناس: 1] فقُلْتُها ) فنحنُ نقولُ ما قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم
الراوي : أبي بن كعب | المحدث : ابن حبان | المصدر : صحيح ابن حبان

الصفحة أو الرقم: 797 | خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
یہاں مصحف کی بات ہے، جو آپ کو پہلے بتلا دی گئی!!
جہاں تک بات رہی باقر مجلسی کی ، تو باقر مجلسی نے کوئی احتمال کوئی ابہام نہیں چھوڑا، باقر مجلسی نے بالکل صراحت سے تحریف القرآن کا عقیدہ اختیار کیاہے اور اسے ہی شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شیعہ اثنا عشری کو یہ بھی بتلا دیا کہ تحریف القرآن کا عقیدہ اثناء عشر یعنی بارہ اماموں کے عقیدہ کی طرح ٹھوس ہے!!
یہ تو مناسب نہیں کہ آپ آیت رجم کو قول حضرت عمر سے منسوخ اس دھاگے ہونے کے دلائل عنایت فرمارہے ہوں اور جب ان دلائل کو رد کیا جاتا ہے تو دوسرا دھاگہ کھولنے کا مشورہ
وہ اس لئے کہ ہمارا مؤقف اس میں ناسخ و منسوخ کا ہے۔ آپ اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں!! اس پر بحث دوسرے تھریڈ میں۔ یہاں موضوع ہے شیعہ اثنا عشریہ یعنی روافض کا عقیدہ تحریف القرآن!!
ویسے آپ کا شاعری کا ذوق اچھا ہے!!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہاں مصحف کی بات ہے، جو آپ کو پہلے بتلا دی گئی!!
اور اس بات پر یہ بھی عرض کردیا گیا ہے کہ اس مصحف سے مراد قرآن مجید ہی ہے وہ بھی مکمل کیوں ابن مسعود والی یہ روایت قرآن کے نزول کے مکمل ہونے کے بعد کی ہے بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد کی روایت ہے اور ہے بھی صحیح روایت اب آپ مانو یا نہ مانو مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا وسیے یہ اہل سنت کی روایت ہے
جہاں تک بات رہی باقر مجلسی کی ، تو باقر مجلسی نے کوئی احتمال کوئی ابہام نہیں چھوڑا، باقر مجلسی نے بالکل صراحت سے تحریف القرآن کا عقیدہ اختیار کیاہے اور اسے ہی شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شیعہ اثنا عشری کو یہ بھی بتلا دیا کہ تحریف القرآن کا عقیدہ اثناء عشر یعنی بارہ اماموں کے عقیدہ کی طرح ٹھوس ہے!!
اتنے واضح الفاظ میں احتمال کا لفظ ہائی لائٹ کرکے دکھلادیا اس پر بھی اس طرح کی باتیں
ان کی نظر میں، کیا کریں پھیکا ہے اب بھی رنگ
جتنا لہو تھا صرفِ قبا کر چکے ہیں ہم

وہ اس لئے کہ ہمارا مؤقف اس میں ناسخ و منسوخ کا ہے۔ آپ اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں!!
پھر وہ صحیح احادیث کو ماننے کا دعویٰ کیا ہوا ؟؟؟؟
اس پر بحث دوسرے تھریڈ میں۔ یہاں موضوع ہے شیعہ اثنا عشریہ یعنی روافض کا عقیدہ تحریف القرآن!!
ویسے مجھ تو اس زمرے کا موضوع کچھ اس طرح نظر آرہا ہے
قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے
اور میں یہ مانتا ہوں کہ قرآن مجید میں تحریف ہو ہی نہیں سکتی یہ تو امی عائشہ اور حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن مسعود ہیں جو یہ فرمارہے ہیں جیسے امی عائشہ فرماتی ہیں کہ
اردو ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏» ‏‏‏‏ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
صحيح أبي داود، الصفحة أو الرقم: 410
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۳۶ (۶۲۹)، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (۲۹۸۲)، سنن النسائی/الصلاة ۱۴ (۴۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۰۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة الجماعة ۷ (۲۵)، مسند احمد (۶/۷۳) (صحیح)


لیکن میرے پاس جو قرآن ہے اس میں یہ امی عائشہ کے بیان کئے الفاظ " وصلاة العصر" نہیں ہیں
ایسا کیوں ؟؟


ویسے آپ کا شاعری کا ذوق اچھا ہے!!
شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ور اس بات پر یہ بھی عرض کردیا گیا ہے کہ اس مصحف سے مراد قرآن مجید ہی ہے وہ بھی مکمل کیوں ابن مسعود والی یہ روایت قرآن کے نزول کے مکمل ہونے کے بعد کی ہے بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد کی روایت ہے اور ہے بھی صحیح روایت اب آپ مانو یا نہ مانو مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا وسیے یہ اہل سنت کی روایت ہے
بھائی جان! بلکل مصحف سے مراد قرآن ہی ہے، لیکن اس کا مکمل ہونا لازم نہیں، ہم اس پر دلیل قائم کر چکے ہیں، دوبارہ پیش کرنے کی حاجت نہیں سمجھتے! آپ یا رو اس دلیل دلیل سے رد کر کے بتلائیں، یا قبول کریں، آپ کے صرف انکار سے دلیل کی حجت ختم نہیں ہوگی!!
اتنے واضح الفاظ میں احتمال کا لفظ ہائی لائٹ کرکے دکھلادیا اس پر بھی اس طرح کی باتیں
ان کی نظر میں، کیا کریں پھیکا ہے اب بھی رنگ
جتنا لہو تھا صرفِ قبا کر چکے ہیں ہم
آپ کو پہلے بھی بتلایا، ایک بار پھر سہی! کہ ملا باقر مجلسی نے؛
یہاں یہ بات بتلائی گئی ہے کہ گو کہ شعیہ کے نزدیک گو کہ قرآن محرف ہے، مگر عمل اسی محرف قرآن پر کیا جائے گا، کیونکہ کسی ائمہ نے اس محرف قرآن کی تلاوت اور عمل کو تجویز کیا ہے!! یہاں تحریف القرآن کے عقیدہ پر مزید ثبت کی مہر لگائی ہے اور اس تحریف القرآن کے عقیدہ کے خلاف اس اشکال کو دور کیا ہے کہ ''اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے''
کہ قرآن محرف ہے مگر اس پر عمل ائمہ کے حکم کی وجہ سے ہے!! فتدبر!!
پھر وہ صحیح احادیث کو ماننے کا دعویٰ کیا ہوا ؟؟؟؟
کہ حدیث نسخ کی خبر دے رہی ہے اور ہم وہ مانتے ہیں!!
ویسے مجھ تو اس زمرے کا موضوع کچھ اس طرح نظر آرہا ہے
قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے
اور میں یہ مانتا ہوں کہ قرآن مجید میں تحریف ہو ہی نہیں سکتی یہ تو امی عائشہ اور حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن مسعود ہیں جو یہ فرمارہے ہیں جیسے امی عائشہ فرماتی ہیں کہ
اردو ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏» ‏‏‏‏ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
صحيح أبي داود، الصفحة أو الرقم: 410
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۳۶ (۶۲۹)، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (۲۹۸۲)، سنن النسائی/الصلاة ۱۴ (۴۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۰۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة الجماعة ۷ (۲۵)، مسند احمد (۶/۷۳) (صحیح)
لیکن میرے پاس جو قرآن ہے اس میں یہ امی عائشہ کے بیان کئے الفاظ " وصلاة العصر" نہیں ہیں
ایسا کیوں ؟؟
حدیث کے الفاظ لکھنے میں آپ سے خطا ہو ئی ہے، ملون الفاظ اضافی ہیں!
حدیث یوں ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ : قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ ، أَنَّهُ قَالَ : أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ ، أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا ، وَقَالَتْ : " إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الآيَةَ ، فَآذِنِّي ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى ﴾، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا ، آذَنْتُهَا فَأَمْلَتْ عَلَيَّ ، " حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ " ، قَالَتْ عَائِشَةُ : سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
صحيح مسلم » كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ » بَاب الدَّلِيلِ لِمَنْ قَالَ الصَّلَاةُ الْوُسْطَى هِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ


عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ اس آیت پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہ آیت قرآن میں کس طرح ہے، بات رہی ان کے لکھوانے کی، تو یہ تفسیری قول لکھوایا ہے، کیونکہ یہ ان الفاظ کی تلاوت منسوخ ہو چکی تھی، اسی کی اگلی حدیث ہے:
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى ابْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ : ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ ﴾، فَقَرَأْنَاهَا مَا شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ نَسَخَهَا اللَّهُ ، فَنَزَلَتْ " ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى ﴾" ، فَقَالَ رَجُلٌ ، كَانَ جَالِسًا عِنْدَ شَقِيقٍ لَهُ : هِيَ إِذًا صَلَاةُ الْعَصْرِ ؟ فَقَالَ الْبَرَاءُ : قَدْ أَخْبَرْتُكَ كَيْفَ نَزَلَتْ ، وَكَيْفَ نَسَخَهَا اللَّهُ ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ ، قَالَ مُسْلِم وَرَوَاهُ الأَشْجَعِيُّ : عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَرَأْنَاهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَانًا ، بِمِثْلِ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ.
صحيح مسلم » كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ » بَاب الدَّلِيلِ لِمَنْ قَالَ الصَّلَاةُ الْوُسْطَى هِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
کہ حدیث نسخ کی خبر دے رہی ہے اور ہم وہ مانتے ہیں!!
کس طرح ؟؟
حدیث کے الفاظ لکھنے میں آپ سے خطا ہو ئی ہے، ملون الفاظ اضافی ہیں!
میں نے صحیح ابو داؤد کی حدیث کا ترجمہ لکھا ہے جو کچھ اس طرح سے ہے اس میں جن ہائی لائٹ کردہ الفاظ یعنی وَصَلَاةِ الْعَصْرِکو آپ خطا بتلا رہے ہیں وہ آپ کی پیش کی گئی روایت میں بھی ہیں اب ان کو ہائی لائٹ کرکے آپ کو دیکھا تا ہوں
حدیث یوں ہے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ : قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ ، أَنَّهُ قَالَ : أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ ، أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا ، وَقَالَتْ : " إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الآيَةَ ، فَآذِنِّي ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى ﴾، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا ، آذَنْتُهَا فَأَمْلَتْ عَلَيَّ ، " حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ " ، قَالَتْ عَائِشَةُ : سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
صحيح مسلم » كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ » بَاب الدَّلِيلِ لِمَنْ قَالَ الصَّلَاةُ الْوُسْطَى هِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ اس آیت پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہ آیت قرآن میں کس طرح ہے، بات رہی ان کے لکھوانے کی، تو یہ تفسیری قول لکھوایا ہے،
جی انھیں معلوم تھا کہ یہ آیت حضرت عثمان کے مصحف میں کس طرح درج ہے اس لئے انھوں یہ فرمایا کہ اس آیت پر پہنچوں تو مجھے بتانا کیوں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کو اس طرح سنا ہے کہ
" حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ " ، قَالَتْ عَائِشَةُ : سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اس لئے اپنے غلام سے درج بالا طریق پر اپنے مصحف میں درج کروایا
تفسیری قول
ویسے ایک بات تو بتائیں کہ اس روایت کے کن الفاظ سے آپ نے یہ تخیل قائم فرمایا ہے کہ یہ قول تفسیری ہے کیونکہ مجھ تو اس روایت میں یہ نظر آرہا ہے کہ امی عائشہ ان زائد الفاظ کے بارے میں فرمارہی ہے کہ یہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کئے ہیں

تیسری بات یہ کہ اگر بلفرض محال یہ مان لیا جائے کہ یہ زائد الفاظ تفسیری قول ہیں تو اس طرح کوئی بھی قرآن مجید میں آیت قرآنی کے درمیان اس طرح تفسیری اقوال لکھ سکتا ہے یا یہ کام صرف امی عائشہ کے لئے مخصوص ہے اگر یہ صرف امی عائشہ کے لئے خاص ہے تو اس پر دلیل عنایت فرمادیں شکریہ
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى ابْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ : ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ ﴾، فَقَرَأْنَاهَا مَا شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ نَسَخَهَا اللَّهُ ، فَنَزَلَتْ " ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى ﴾" ، فَقَالَ رَجُلٌ ، كَانَ جَالِسًا عِنْدَ شَقِيقٍ لَهُ : هِيَ إِذًا صَلَاةُ الْعَصْرِ ؟ فَقَالَ الْبَرَاءُ : قَدْ أَخْبَرْتُكَ كَيْفَ نَزَلَتْ ، وَكَيْفَ نَسَخَهَا اللَّهُ ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ ، قَالَ مُسْلِم وَرَوَاهُ الأَشْجَعِيُّ : عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : قَرَأْنَاهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَانًا ، بِمِثْلِ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ.
صحيح مسلم » كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ » بَاب الدَّلِيلِ لِمَنْ قَالَ الصَّلَاةُ الْوُسْطَى هِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ
امام شافعی فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ کہ " قرآن ہی قرآن کو منسوخ کرسکتا ہے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو منسوخ نہیں کرسکتی "
چہ جائکہ قرآن کو قول صحابی منسوخ کردے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏» ‏‏‏‏ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
صحيح أبي داود، الصفحة أو الرقم: 410
سنن ابو داود کی حدیث یہ ہے:
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّهُ قَالَ : " أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا ، وَقَالَتْ : إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا ، فَأَمْلَتْ عَلَيَّ : ﴿ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَصَلاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾، ثُمَّ قَالَتْ عَائِشَةُ : سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب فِي وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ

اب آپ کو اتناتو نظر نہیں آرہا کہ کون سے الفاظ آپ نے زیادہ لکھ دیئے ہیں،
باقی کہ صحابی نے نسخ کی خبر دی ہے وہاں الفاظ موجود ہیں ثُمَّ نَسَخَهَا اللَّهُ، اور یہی بات عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتائی ہے! نسخ اللہ تعالیٰ نے ہی کیا ہے اور وہی نسخ کرتا ہے!!
بہرام صاحب، اب آپ کا سارا بھرم دھڑام سے ٹوٹ چکا ہے؟

لیکن آپ کی جان ملا باقر مجسلی سے نہیں چھوٹنے والی،
ملا باقر مجلسی نے عقیدہ تحریف القرآن کو اپنا اور شیعہ کا عقیدہ بتلایا ہے!! اس پر غور کریں !!
یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525

قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اب آپ کو اتناتو نظر نہیں آرہا کہ کون سے الفاظ آپ نے زیادہ لکھ دیئے ہیں،
حدیث کے الفاظ لکھنے میں آپ سے خطا ہو ئی ہے، ملون الفاظ اضافی ہیں!
یہ خطاء مجھ سے نہیں ہوئی یہ خطاء ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی سے سرزد ہوئی میں نے ان ہی کا کیا گیا ترجمہ یہاں پیش کی تھا اور اس ترجمہ کے درج کرنے سے پہلے صاف طور سے یہ رقم کردیا تھا کہ " اردو ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی "
اردو ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏» ‏‏‏‏ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
صحيح أبي داود، الصفحة أو الرقم: 410

باقی کہ صحابی نے نسخ کی خبر دی ہے وہاں الفاظ موجود ہیں ثُمَّ نَسَخَهَا اللَّهُ،
لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے قرآن کی آیات صحابی کے قول سے نسخ نہیں ہوتی کیونکہ اس آیت کے نسخ ہونے کی خبر جس سورس سے ان صحابی کو ملی اس کا انھوں نے ذکر نہیں کیا لیکن امی عائشہ نے اس آیت کو اپنے مصحف میں جس طرح درج کروایا اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت میں نے ایسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کی ہے اور اگر صحابی کے اس نسخ والے قول کو قبول کیا جائے تو اس پر چند سوالات قائم ہوتے کہ
اگر اس آیت کے نسخ کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی تو کیوں اس آیت کے نسخ ہونے کے دعویٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب نسبت نہیں دی گئی ؟؟؟اس معلوم ہوا کہ یہ صرف ان صحابی کا فہم ہے جو اہل حدیث کے لئے معتبر نہیں
اس آیت کے نسخ کے بارے میں صحابی نے فرمایا کہ ثُمَّ نَسَخَهَا اللَّهُ یعنی اس کو اللہ نے نسخ کردیا اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا اللہ نے اس آیت کے نسخ کی خبر ان صحابی کو بذریعہ وحی کی تھی یا کسی اور ذریعہ سے ؟؟؟؟
بہرام صاحب، اب آپ کا سارا بھرم دھڑام سے ٹوٹ چکا ہے؟
یہ جملہ آپ نے سوالیہ انداز میں کیا ہے
اس بارے میں صرف اتنا ہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ
میں خوش نصیب ہوں مجھ پر کرم حسین کا ہے
عطا کیا ہوا سارا بھرم حسین کا ہے


لیکن آپ کی جان ملا باقر مجسلی سے نہیں چھوٹنے والی،
چلیں ایسا کرتے اس پر آپ کو تفصیلی جواب عرض کئے دیتے لیکن اس سے پہلے آپ تھوڑا سا کام کیجئے کہ پہلے تو جس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ بحث کی گئی ہے وہ حدیث مع سند کے پیش فرمادیں اور دوسری بات یہ کہ پہلے اعتراف فرمالیں کہ آپ نے جو یہ ارشاد فرمایا کہ
اور یہ قاعدہ تو فقہ الجعفریہ کا بھی ہے کہ:
اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال کہ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے!!
یہاں آپ نے غلط بیانی سے کام لیا ہے کیوں ایک جانب تو آپ یہ فرمارہے ہیں" فقہ الجعفریہ کے مطابق جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے "اور دوسری جانب باقر مجلسی کے حدیث سے احتمال کو باطل نہیں مان رہے ،
پچھلی پوسٹ کے یہ پوائنٹ آپ کی رائے کے منتظر ہیں اس پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں شکریہ
تفسیری قول
ویسے ایک بات تو بتائیں کہ اس روایت کے کن الفاظ سے آپ نے یہ تخیل قائم فرمایا ہے کہ یہ قول تفسیری ہے کیونکہ مجھ تو اس روایت میں یہ نظر آرہا ہے کہ امی عائشہ ان زائد الفاظ کے بارے میں فرمارہی ہے کہ یہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کئے ہیں

تیسری بات یہ کہ اگر بلفرض محال یہ مان لیا جائے کہ یہ زائد الفاظ تفسیری قول ہیں تو اس طرح کوئی بھی قرآن مجید میں آیت قرآنی کے درمیان اس طرح تفسیری اقوال لکھ سکتا ہے یا یہ کام صرف امی عائشہ کے لئے مخصوص ہے اگر یہ صرف امی عائشہ کے لئے خاص ہے تو اس پر دلیل عنایت فرمادیں شکریہ
 
Top