• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۔ قرآن مجید میں تحریف نہیں ہوئی ہے

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ خطاء مجھ سے نہیں ہوئی یہ خطاء ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی سے سرزد ہوئی میں نے ان ہی کا کیا گیا ترجمہ یہاں پیش کی تھا اور اس ترجمہ کے درج کرنے سے پہلے صاف طور سے یہ رقم کردیا تھا کہ " اردو ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی "
اردو ترجمہ :ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبدالجبار الفریوائی
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏» ‏‏‏‏ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
صحيح أبي داود، الصفحة أو الرقم: 410
چلو خیر! شکر ہے سمجھ تو آگئی!، ڈاکڑ الفرایونی کے ترجمہ کو تو میں نے نہیں دیکھا، آپ نے کہیں سے لیا ہوگا، ممکن ہے ان سے ہی یہ خطا ء ہوئی ہو، مگر آپ کو بھی کیا مکھی پر مکھی ہی مارنی تھی! لیکن ایسا ہو جاتا ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں! اسی لئے ہم نے اتنا ہی کہا تھا کہ:
حدیث کے الفاظ لکھنے میں آپ سے خطا ہو ئی ہے
لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے قرآن کی آیات صحابی کے قول سے نسخ نہیں ہوتی کیونکہ اس آیت کے نسخ ہونے کی خبر جس سورس سے ان صحابی کو ملی اس کا انھوں نے ذکر نہیں کیا لیکن امی عائشہ نے اس آیت کو اپنے مصحف میں جس طرح درج کروایا اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت میں نے ایسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کی ہے اور اگر صحابی کے اس نسخ والے قول کو قبول کیا جائے تو اس پر چند سوالات قائم ہوتے کہ
اگر اس آیت کے نسخ کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی تو کیوں اس آیت کے نسخ ہونے کے دعویٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب نسبت نہیں دی گئی ؟؟؟اس معلوم ہوا کہ یہ صرف ان صحابی کا فہم ہے جو اہل حدیث کے لئے معتبر نہیں
اس آیت کے نسخ کے بارے میں صحابی نے فرمایا کہ ثُمَّ نَسَخَهَا اللَّهُ یعنی اس کو اللہ نے نسخ کردیا اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا اللہ نے اس آیت کے نسخ کی خبر ان صحابی کو بذریعہ وحی کی تھی یا کسی اور ذریعہ سے ؟؟؟؟
یہ سوالات علم الحدیث نے نابلد ہونے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں، یہ ناسخ و منسوخ کس طرح ثابت ہوتا ہے۔ اور ناسخ ومنسوخ اس تھریڈ کا موضوع نہیں ہے!
پچھلی پوسٹ کے یہ پوائنٹ آپ کی رائے کے منتظر ہیں اس پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں شکریہ
ویسے ایک بات تو بتائیں کہ اس روایت کے کن الفاظ سے آپ نے یہ تخیل قائم فرمایا ہے کہ یہ قول تفسیری ہے کیونکہ مجھ تو اس روایت میں یہ نظر آرہا ہے کہ امی عائشہ ان زائد الفاظ کے بارے میں فرمارہی ہے کہ یہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کئے ہیں
اول کہ یہ تخیل نہیں بلکہ صریح بات ہے اور وہ ان الفاظ میں موجود ہے:
وَقَالَتْ : إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى،
اور آپ کو یہ بات پہلے بھی بتلائی گئی تھی:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ اس آیت پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہ آیت قرآن میں کس طرح ہے،
اگر اب بھی سمجھنے میں مشکل ہو، تو میں اسے ایک ساتھ لکھ دیتا ہوں:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہ آیت قرآن میں کس طرح ہے۔ فتدبر!
تیسری بات یہ کہ اگر بلفرض محال یہ مان لیا جائے کہ یہ زائد الفاظ تفسیری قول ہیں تو اس طرح کوئی بھی قرآن مجید میں آیت قرآنی کے درمیان اس طرح تفسیری اقوال لکھ سکتا ہے یا یہ کام صرف امی عائشہ کے لئے مخصوص ہے اگر یہ صرف امی عائشہ کے لئے خاص ہے تو اس پر دلیل عنایت فرمادیں شکریہ
کیا آپ نے کبھی قرآن پر حاشیہ لکھا ہوا نہیں دیکھا؟
یہاں آپ نے غلط بیانی سے کام لیا ہے کیوں ایک جانب تو آپ یہ فرمارہے ہیں" فقہ الجعفریہ کے مطابق جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے "اور دوسری جانب باقر مجلسی کے حدیث سے احتمال کو باطل نہیں مان رہے ،
پچھلی پوسٹ کے یہ پوائنٹ آپ کی رائے کے منتظر ہیں اس پر بھی اپنی رائے کا اظہار فرمائیں شکریہ
باقر مجلسی صاحب نے تو کوئی احتمال چھوڑا ہی نہیں!! باقر مجلسی صاحب نے تو صراحت کے ساتھ اپنا اور شیعہ کا عقیدہ تحریف القرآن کا قائل ہونا بتلایا ہے!
 

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم لوگ چیدہ چیدہ لوگوں کی چیدہ چیدہ عبارتیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کر دیتے ہیں اور پھر اسے پورے مسلک کا متفقہ عقیدہ قرار دے دیتے ہیں کہ لو جی یہ ہے ان کا عقیدہ اور پوری سرگرمی سے مسند افتاء پر براجمان ہوکر فتووں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے ہیں اہل تشیع پر تحریف قرآن کا الزام بھی شاید ایسا ہی ہے ۔
اس لئے پوری دیانتداری سے متعلقہ مسلک کے عقیدہ کہ چھان بین کی جائے اور مسلک کے بعض بزرگوں نے جو باتیں لکھی ہیں یا جن سے ابہام ہوتا ہے اس مسلک کے اہل علم کی رائے معلوم کی جائے کہ آیا وہ بزرگوں کی ان باتوں کو جوں کا توں اون کرتے ہیں یا نہیں ۔ جو جواب آئے اس کے مطابق ہی کوئی رائے قائم کرنی چاہئے۔یاد رکھیں خواہ مخواہ کی محاذ آرائی ہمیں صرف تنہا اور کمزور کریگی اور کچھ نہیں ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ سوالات علم الحدیث نے نابلد ہونے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں، یہ ناسخ و منسوخ کس طرح ثابت ہوتا ہے۔ اور ناسخ ومنسوخ اس تھریڈ کا موضوع نہیں ہے!
دلچسپ و عجیب و غریب
ہر بات میں یہی ارشاد فرمادیا جاتا ہے بلا دلیل کہ یہ ناسخ و منسوخ ہے اور جب دلیل مانگی جاتی ہے تو ارشاد ہوتا ہے الگ دھاگہ بنالیں

اگر اب بھی سمجھنے میں مشکل ہو، تو میں اسے ایک ساتھ لکھ دیتا ہوں:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے
جی میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ امی عائشہ جانتی تھیں کہ یہ آیت مصحف عثمانی میں کس طرح درج ہے لیکن
اس سے بڑھ کر جو صریح دلیل اس روایت میں ہے اس پر نظر ڈالنا منع ہے کیا ؟
وہ دلیل یہ کہ امی عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح سماعت کیا ہے
حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏
اب اسلام کی سب سے بڑی فقیہ کا قول جس کی نسبت انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کی ہے نہ ماننا اور اپنے تخیل کو بلا دلیل ایمبوس کرنا اور دعویٰ کرنا کہ ہم صرف قرآن و حدیث نبوی کو مانتے ہیں
بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی ؟؟؟
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى پر پہنچوں تو مجھے بتانا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ یہ آیت قرآن میں کس طرح ہے۔ فتدبر!
جی یہ بات میں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ امی عائشہ جانتی تھیں کہ یہ آیت مصحف عثمانی میں کس طرح درج ہے لیکن امی عائشہ تو اس طرح اپنے مصحف میں لکھوانا چاہتی تھیں جس طرح آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کیا تھا اور ایسی لئے فرمایا تھا "جب " حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى پر پہنچوں تو مجھے بتانا"
کیا آپ نے کبھی قرآن پر حاشیہ لکھا ہوا نہیں دیکھا؟
جی دیکھا ہے مگر وہ کچھ اس طرح سے ہوتا ہے


لیکن امی عائشہ نے جو آیت اپنے مصحف میں لکھوائی وہ کچھ اس طرح سے درج کروائی
حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏

یہ کون سا حاشیہ ہے کہ جو قرآنی آیت کے تسلسل میں لکھا جارہا ہے ؟
تو کیا اب جو لوگ حاشیہ صفحہ کے اردگرد یا صفحے کے نیچھے درج کرتے ہیں یہ بدعت ہے کیونکہ امی عائشہ سے آیت کے تسلسل میں حاشیہ لکھنا ثابت ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکارتہ!
دلچسپ و عجیب و غریب
ہر بات میں یہی ارشاد فرمادیا جاتا ہے بلا دلیل کہ یہ ناسخ و منسوخ ہے اور جب دلیل مانگی جاتی ہے تو ارشاد ہوتا ہے الگ دھاگہ بنالیں

جی میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ امی عائشہ جانتی تھیں کہ یہ آیت مصحف عثمانی میں کس طرح درج ہے لیکن
اس سے بڑھ کر جو صریح دلیل اس روایت میں ہے اس پر نظر ڈالنا منع ہے کیا ؟
وہ دلیل یہ کہ امی عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح سماعت کیا ہے
حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏
اب اسلام کی سب سے بڑی فقیہ کا قول جس کی نسبت انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کی ہے نہ ماننا اور اپنے تخیل کو بلا دلیل ایمبوس کرنا اور دعویٰ کرنا کہ ہم صرف قرآن و حدیث نبوی کو مانتے ہیں
بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی ؟؟؟
جی یہ بات میں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ امی عائشہ جانتی تھیں کہ یہ آیت مصحف عثمانی میں کس طرح درج ہے لیکن امی عائشہ تو اس طرح اپنے مصحف میں لکھوانا چاہتی تھیں جس طرح آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سماعت کیا تھا اور ایسی لئے فرمایا تھا "جب " حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى پر پہنچوں تو مجھے بتانا"
سیدہ عائشہ صدیقہ اہل البیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ام اہل البیت والمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے منسوخ آیت کی سماعت کی خبر دی، بلکل درست ہے۔
باقی اسکین صفحات سے جو بات پیش کرنا چاہتے ہیں اسے دم تحریر میں لائیں، اور جواب حاصل کریں!
اس تھریڈ میں آپ کو ناسخ و منسوخ تو بتلا دیا جائے گا، کہ اس کا تعلق شیعہ راوفض کی طرح تحریف القرآن کے عقیدے سے نہیں، لیکن ناسخ منسوخ کی بحث یہاں نہیں کی جائے گی!
باقر مجلسی کا عقیدہ تحریف القرآن کا اس نے شیعہ کا عقیدہ بھی تحریف القرآن کا بتایا ہے۔ باقر مجلسی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525

قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکارتہ!
وعلیکم السلام رحمۃ اللہ وبرکارتہ!
سیدہ عائشہ صدیقہ اہل البیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ام اہل البیت والمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے منسوخ آیت کی سماعت کی خبر دی، بلکل درست ہے۔
باقی اسکین صفحات سے جو بات پیش کرنا چاہتے ہیں اسے دم تحریر میں لائیں، اور جواب حاصل کریں!
اس تھریڈ میں آپ کو ناسخ و منسوخ تو بتلا دیا جائے گا، کہ اس کا تعلق شیعہ راوفض کی طرح تحریف القرآن کے عقیدے سے نہیں، لیکن ناسخ منسوخ کی بحث یہاں نہیں کی جائے گی!
امی عائشہ نے منسوخ آیت کی خبر دی ؟؟؟؟
مند رجہ ذیل روایت کے کن الفاظ سے وہابیہ نجدیا یہ گمان باطل کرتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے ؟؟؟پلیز ززززززززز ان الفاظ کی نشاندہی فرمادیں
حدثنا القعنبي عن مالك عن زيد بن اسلم عن القعقاع بن حكيم عن ابي يونس مولى عائشة رضي الله عنها انه قال:‏‏‏‏ " امرتني عائشة ان اكتب لها مصحفا وقالت:‏‏‏‏ إذا بلغت هذه الآية فآذني حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238 فلما بلغتها آذنتها فاملت علي:‏‏‏‏ 0 حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين 0 ثم قالت عائشة:‏‏‏‏ سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم ".
جبکہ اس روایت میں صریح طور سے امی عائشہ بیان فرمارہی ہیں اس آیت کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس طرح سماعت کیا تھا اسی طرح آیت کو میرے مصحف میں درج کرو
اسکین صفحہ لگانے کا مقصد آپ کو یہ دیکھانا تھا کہ حاشیہ میں نے قرآن مجید میں کس انداز میں لکھا ہوا دیکھا
ناسخ و منسوخ کے بارے مختصرا آپ کے بیان کو سننے کے لئے مجھے ہم تن گوش پائیں گے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

عن عائشةَ ؛ أنها قالت : كان فيما أُنزل من القرآنِ : عشرُ رضعاتٍمعلوماتٍ يُحَرِّمْنَ . ثم نُسِخْنَ : بخمسٍ معلوماتٍ . فتُوُفِّيَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وهنَّ فيما يُقرأُ من القرآنِ .
الراوي : عائشة أم المؤمنين | المحدث :مسلم | المصدر : صحيح مسلم

الصفحة أو الرقم: 1452 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

امی عائشہ فرماتی ہیں کہ "قرآن میں یہ حکم اترا تھا کہ دس بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے پھرحکم منسوخ ہو گیا اور یہ پڑھا گیا کہ پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ کی وفات کے وقت یہ قرآن میں پڑھاجاتا تھا"
میرا سوال یہ ہے کہ "پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے" یہ حکم قرآن مجید کی کون سی سورت میں کس آیت میں ہے بینوا توجروا

نسخ کی شرائط: علماء تفسیر وحدیث نے نسخ کے لئے درج ذیل شرائط بیان کی ہیں:

۱۔ منسوخ کی جانے والی چیز شرعی حکم ہو کوئی قصہ یا کہانی نہ ہو۔

۲۔ جس دلیل سے حکم شرعی کو اٹھایا جائے وہ بھی شرعی ہو۔

۳۔ دلیل شرعی زمانے کے اعتبار سے حکم شرعی کے بعد ہو۔

۴۔ حکم شرعی اور دلیل شرعی کے درمیان تعارض یعنی تضاد ہو۔

۵۔ نسخ نبی اکرم ﷺ کے دور میں اور آپﷺ کی ہدایت کے مطابق ہوا ہو۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
امی عائشہ نے منسوخ آیت کی خبر دی ؟؟؟؟
مند رجہ ذیل روایت کے کن الفاظ سے وہابیہ نجدیا یہ گمان باطل کرتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے ؟؟؟پلیز ززززززززز ان الفاظ کی نشاندہی فرمادیں
حدثنا القعنبي عن مالك عن زيد بن اسلم عن القعقاع بن حكيم عن ابي يونس مولى عائشة رضي الله عنها انه قال:‏‏‏‏ " امرتني عائشة ان اكتب لها مصحفا وقالت:‏‏‏‏ إذا بلغت هذه الآية فآذني حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238 فلما بلغتها آذنتها فاملت علي:‏‏‏‏ 0 حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين 0 ثم قالت عائشة:‏‏‏‏ سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم ".
جبکہ اس روایت میں صریح طور سے امی عائشہ بیان فرمارہی ہیں اس آیت کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس طرح سماعت کیا تھا اسی طرح آیت کو میرے مصحف میں درج کرو
اسکین صفحہ لگانے کا مقصد آپ کو یہ دیکھانا تھا کہ حاشیہ میں نے قرآن مجید میں کس انداز میں لکھا ہوا دیکھا
ناسخ و منسوخ کے بارے مختصرا آپ کے بیان کو سننے کے لئے مجھے ہم تن گوش پائیں گے
اہل البیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ام اہل البیت والمومنین نے بلکل درست و حق بیان فرمایا ہے!
آپ کو یہ کس نے کہا کہ صرف صلاة العصر کے الفاظ حاشیہ میں ہیں، بلکہ وہ ناسخ آیت حاشیہ میں لکھوائی ہے، نسخہ قرآن میں ان الفاط کے لئے کوئی خالی جگہ نہیں چھوڑی گئی تھی!!
حاشیہ لکھنے کا طریقہ وہ بھی ہے جو آپ نے بیان کیا، اور یہ بھی ہے جو آپ کو پیش کر رہے ہیں!
لیکن اب کسی کو کتب کے بارے میں علم نہ ہو تو کیا کیا جاسکتا ہے، جب کوئی شخص اپنے قلم سے کسی کتاب پر نوٹ، یعنی حاشیہ لکھتا ہے تو، کسی بھی مقام پر جیاں جگہ میسر آتی ہے لکھ لیتا ہے، بعد میں اس کی اشاعت میں جگہ کو خاص بنایا جاتا ہے۔
بہرام صاحب، معلوم ہوتا ہے آپ نے اپنی اسکول و کالج کی کتب پر بھی کبھی حاشیہ نہیں لکھا، وگرنہ ایسی بات نہ کرتے!
حاشیہ ایسے بھی ہوتا ہے!

عن عائشةَ ؛ أنها قالت : كان فيما أُنزل من القرآنِ : عشرُ رضعاتٍمعلوماتٍ يُحَرِّمْنَ . ثم نُسِخْنَ : بخمسٍ معلوماتٍ . فتُوُفِّيَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وهنَّ فيما يُقرأُ من القرآنِ .
الراوي : عائشة أم المؤمنين | المحدث :مسلم | المصدر : صحيح مسلم
الصفحة أو الرقم: 1452 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
امی عائشہ فرماتی ہیں کہ "قرآن میں یہ حکم اترا تھا کہ دس بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے پھرحکم منسوخ ہو گیا اور یہ پڑھا گیا کہ پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ کی وفات کے وقت یہ قرآن میں پڑھاجاتا تھا"
میرا سوال یہ ہے کہ "پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے" یہ حکم قرآن مجید کی کون سی سورت میں کس آیت میں ہے بینوا توجروا
نسخ کی شرائط: علماء تفسیر وحدیث نے نسخ کے لئے درج ذیل شرائط بیان کی ہیں:
۱۔ منسوخ کی جانے والی چیز شرعی حکم ہو کوئی قصہ یا کہانی نہ ہو۔
۲۔ جس دلیل سے حکم شرعی کو اٹھایا جائے وہ بھی شرعی ہو۔
۳۔ دلیل شرعی زمانے کے اعتبار سے حکم شرعی کے بعد ہو۔
۴۔ حکم شرعی اور دلیل شرعی کے درمیان تعارض یعنی تضاد ہو۔
۵۔ نسخ نبی اکرم ﷺ کے دور میں اور آپﷺ کی ہدایت کے مطابق ہوا ہو۔
اہل البیت صلی اللہ علیہ وسلم و ام اہل البیت والمومنین عاعشہ صدیقہ نے بلکل درست فرمایا!
لیکن یہ ناسخ و منسوخ تھریڈ کا موضوع نہیں!
موضوع ہے عقیدہ تحریف القرآن ، اور ملا باقر مجلسی نے اپنا اور شیعہ کا عقیدہ تحریف القرآن کا بتلایا ہے۔
یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.

قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکارتہ!
بہرام صاحب، معلوم ہوتا ہے آپ نے اپنی اسکول و کالج کی کتب پر بھی کبھی حاشیہ نہیں لکھا، وگرنہ ایسی بات نہ کرتے!
حاشیہ ایسے بھی ہوتا ہے!
اول بات تو یہ کہ ہم یہاں اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید پر حاشیہ لکھنے پر بات کر رہے ہیں نہ کہ کسی اور کتاب میں اس لئے آپ کو مثال بھی قرآن مجید میں حاشیہ لکھنے کی عنایت کرنی پڑے گی اور دوسری بات یہ کہ امی عائشہ نے اپنے مصحف کے لکھنے والے کو پہلے ہی یہ بتادیا کہ میرے مصحف میں اس آیت کو اس طرح لکھنا کیوں کہ میں نے اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح ہی سماعت کیا ہے اب اس میں حاشیہ لکھنے کی کیا بات ہے

اور تیسری بات یہ کہ میری اس عرض پر بھی کچھ ارشاد فرمادیں
امی عائشہ نے منسوخ آیت کی خبر دی ؟؟؟؟
مند رجہ ذیل روایت کے کن الفاظ سے وہابیہ نجدیا یہ گمان باطل کرتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے ؟؟؟پلیز ززززززززز ان الفاظ کی نشاندہی فرمادیں
حدثنا القعنبي عن مالك عن زيد بن اسلم عن القعقاع بن حكيم عن ابي يونس مولى عائشة رضي الله عنها انه قال:‏‏‏‏ " امرتني عائشة ان اكتب لها مصحفا وقالت:‏‏‏‏ إذا بلغت هذه الآية فآذني حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238 فلما بلغتها آذنتها فاملت علي:‏‏‏‏ 0 حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين 0 ثم قالت عائشة:‏‏‏‏ سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم ".
جبکہ اس روایت میں صریح طور سے امی عائشہ بیان فرمارہی ہیں اس آیت کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس طرح سماعت کیا تھا اسی طرح آیت کو میرے مصحف میں درج کرو
اہل البیت صلی اللہ علیہ وسلم و ام اہل البیت والمومنین عاعشہ صدیقہ نے بلکل درست فرمایا!
لیکن یہ ناسخ و منسوخ تھریڈ کا موضوع نہیں!
یہ تو پہلے ثابت کرنا پڑے گا اب آپ کے یہ کہہ دینے سے کوئی کہاں مان سکتا ہے پانچ اور دس بار دودھ پلانے کے دونوں آیت منسوخ ہیں
کیوں کہ امی عائشہ فرماتی ہیں کہ قرآن میں یہ حکم اترا تھا کہ دس بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے اور پھر فرماتی ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا اور اس کی ناسخ آیت یہ کہ پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے اور پھر فرماتی ہیں کہ یہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اس پانچ بار دودھ پلانے کی آیت کے منسوخی کی خبر کن لوگ کو اللہ تعالیٰ نے دی ؟؟
موضوع ہے عقیدہ تحریف القرآن ، اور ملا باقر مجلسی نے اپنا اور شیعہ کا عقیدہ تحریف القرآن کا بتلایا ہے۔
یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
اس کے لئے کچھ عرض کیا گیا پچھلی پوسٹوں میں وہ ملاحظہ فرمالیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اول بات تو یہ کہ ہم یہاں اللہ کی کتاب قرآن مجید فرقان حمید پر حاشیہ لکھنے پر بات کر رہے ہیں نہ کہ کسی اور کتاب میں اس لئے آپ کو مثال بھی قرآن مجید میں حاشیہ لکھنے کی عنایت کرنی پڑے گی اور دوسری بات یہ کہ امی عائشہ نے اپنے مصحف کے لکھنے والے کو پہلے ہی یہ بتادیا کہ میرے مصحف میں اس آیت کو اس طرح لکھنا کیوں کہ میں نے اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح ہی سماعت کیا ہے اب اس میں حاشیہ لکھنے کی کیا بات ہے
بھائی جان کا مسئلہ یہ ہے کہ ، وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمیشہ اسی طرح سے طباعت ہوتی چلی آرہی ہے، کہ جیسے آج ہو سکتی ہے اور ہو رہی ہے! بھائی جان کو اب تک غالباً حاشیہ کا معنی و مفہوم ہی نہیں معلوم! حاشیہ تو ہوتا ہی اصل میں یہ ہے جو ایک قاری، اس نسخہ پر لکھتا ہے جسے وہ پڑھتا ہے، اسے عرف میں اب ''نوٹ'' بھی کہا جاتا ہے! غالباً بھائی جان نے کبھی کسی کتاب پر ''نوٹ'' یعنی ھاشیہ نہیں لکھا!
یہ تو پہلے ثابت کرنا پڑے گا اب آپ کے یہ کہہ دینے سے کوئی کہاں مان سکتا ہے پانچ اور دس بار دودھ پلانے کے دونوں آیت منسوخ ہیں
کیوں کہ امی عائشہ فرماتی ہیں کہ قرآن میں یہ حکم اترا تھا کہ دس بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے اور پھر فرماتی ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا اور اس کی ناسخ آیت یہ کہ پانچ بار دودھ چوسنا حرمت کا سبب ہے اور پھر فرماتی ہیں کہ یہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد اس پانچ بار دودھ پلانے کی آیت کے منسوخی کی خبر کن لوگ کو اللہ تعالیٰ نے دی ؟؟
یہ ناسخ و منسوخ کا معاملہ ہے، مو ضوع ہے عقیدہ تحریف القرآن!
اس کے لئے کچھ عرض کیا گیا پچھلی پوسٹوں میں وہ ملاحظہ فرمالیں
کوئی قابل ذکر بات نہیں کی گئی! ہے تو اقتباس پیش کریں!
ایک ٹوپی پہنانے کی کوشش کی گئی تھی، وہ ناکام ثابت ہوئی!!
ایک بار پھر پیش کرتا ہوں: اسے غور سے پڑھیں اور ملا باقر مجلسی کو دعائیں دیں!
ملا باقر مجلسی نے اپنا اور شیعہ کا عقیدہ تحریف القرآن کا بتلایا ہے۔
یہ باقر مجلسی کے الفاظ ہیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.

قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بہرام صاحب! آپ ملا باقر مجلسی صاحب کے ساتھ ساتھ اپنی دعاؤں میں مازندرانی صاحب کو بھی شامل کرلیں؛
دیکھئے مازندرانی صاحب الکافی کی شرح میں کیا فرماتے ہیں:
علي بن الحكم، عن هشام بن سالم، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: (إن القرآن الذي جاء به جبرئيل عليه السلام إلى محمد صلی الله عليه وآله سبعة عشر ألف آية).
* الشرح:
قوله: (إن القرآن الذي جاء به جبرئيل (عليه السلام) إلى النبي (صلى الله عليه وآله) سبعة عشر ألف آية) قيل: في كتاب سليم بن قيس الهلالي أن أمير المؤمنين (عليه السلام) بعد وفات رسول الله (صلى الله عليه وآله) لزم بيته وأقبل على القرآن يجمعه ويؤلفه فلم يخرج من بيته حتى جمعه كله وكتب على تنزيله الناسخ والمنسوخ منه والمحكم والمتشابه والوعد والوعيد وكان ثمانية عشر ألف آية. انتهى.
وقال صاحب إكمال الإكمال شارح مسلم نقلا عن الطبرسي: أن آي القرآن ستة آلاف وخمسمائة منها خمسة آلاف في التوحيد وبقيتها في الأحكام والقصص والمواعظ.

أقول: كان الزائد على ذلك مما في الحديث سقط بالتحريف وإسقاط بعض القرآن وتحريفه ثبت من طرقنا بالتواتر معنى كما يظهر لمن تأمل في كتب الأحاديث من أولها إلى آخرها
میں(المازندرانی) کہتا ہوں : اس سے زائد جو حدیث بیان ہے، وہ بعض قرآن کا تحریف اور اسقاط ہے، قرآن میں تحریف ہمارے طرق میں معنا ً متواتر ثابت ہے، جیسا کہ کتب احادث میں اول و آخر تک تامل کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔
تم كتاب فضل القرآن بمنه وجوده ويتلوه كتاب العشرة من كتاب الكافي تصنيف محمد بن يعقوب رحمه الله تعالى.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 87 جلد 11 شرح الكافي الاصول والروضة - المولى محمد صالح المازندراني - المكتبة الشیعة http://shiaonlinelibrary.com

ملاحظہ فرمائیں: شرح الكافي الاصول والروضة - المولى محمد صالح المازندراني - المكتبة الاسلامية، طهران

 

اٹیچمنٹس

Top