• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۱۲ منہ سے مراد!

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کتب بینی کے دوران بہت سی باتیں انسان کے سامنے آتی ہے، کچھ اچھی، کچھ بری۔
کچھ باتیں وہ جانتا ہوتا ہے، اور کچھ سے ناواقف اور لاعلم ہوتا ہے۔
بعض اوقات کچھ خاص اشارات اور کنایات کا استعمال ہوتا ہے۔ اگر ان کے بارے میں تفصیل معلوم ہوتو پڑھنے کا مزا کچھ اور ہوتا ہے۔ اور اگر بندہ ناواقف ہوتو سارا مزا کرکرا ہوکر رہ جاتا ہے۔
میری یہ عادت ہے کہ دوران مطالعہ اگر کسی لفظ کی سمجھ نہ آئے تو فورا لغت کی طرف لپکتا ہوں، اور اگر کوئی اشارہ سمجھ نہ آئے تو اساتذہ کرام کی طرف۔ اور الحمد للہ اکثر کامیابی ہی نصیب ہوتی ہے۔
ان اشارات میں سے جن کی مجھے سمجھ نہیں‌ آئی، ایک 12 یا 12 منہ کا اشارہ ہے جو اکثر اردو کی پرانی کتابوں کے حاشیہ میں لکھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب رحمہ اللہ کی کتابیں، جو پرانی چھپی ہوئی ہیں، ان کے حاشیوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
ایک استاد محترم سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ فی الوقت مجھے یاد نہیں۔
خیر! اس بات کو ذہن میں رکھ کر اپنی پڑھائی میں‌ مصروف ہوگیا۔
ایک دن ایک استاد محترم سے "مضامین شفیق پسروری" نامی کتاب مطالعہ کی غرض سے مستعار لی۔ تو اس میں اس بارے میں حسب ذیل وضاحت پائی:
مولانا شفیق پسروری صاحب لکھتے ہیں:
عزیر احمد صدیقی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
12 منہ کا اشارہ:
بسم اللہ کے اشارے سے زیادہ دلچسپ اشارہ 12 منہ کا ہے۔ آپ نے پڑھا ہے کہ باطنی اور شیعہ بزرگ اولیاء کے بھیس میں حدیث سازی، تفسیر وتاویل کے کارخانے چلا رہے تھے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی روایتوں اور عبارتوں کے آگے وہ اپنی خاص علامت بنا دیتے تھے تاکہ جاننے والوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ کمال کس کا ہے؟ وہ علامت تھی: '12 منہ غفرلہ'کی۔ جس کا عربی تلفظ ہے: 'اثناء عشرہ منہ غفرلہ' اور اردو ترجمہ ہوگا کہ لکھنے والا بارہ امامی شیعہ ہے، اللہ اس کی مغفرت کرے۔ شیعہ حضرات آج بھی اپنی کتابوں پر ایسے انتباہ لکھ دیتے ہیں‌ اور صاف الفاظ میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب اثناء عشری مذہب کی ہے، غیر نہ دیکھیں یعنی نہ پڑھیں۔
مگر ہمارا ملا دین کی تلاش میں شیعہ کتابیں پڑھتا ہے اور ان میں سے مضامین چراتا ہے۔ چنانچہ یہ اشارہ بھی چرا لایا اور بے سوچے سمجھے اسے ہر جگہ لکھنے لگا۔ میں نے مودودی صاحب سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہماری مذہبی کتابوں میں حتی کہ قرآن کے حاشیوں پر بھی ہر جگہ 12 منہ لکھا ہوتا ہے۔ موصوف نے اپنے مکتوب حوالہ 4096، مورخہ 3 جون 1965ء میں بتلایا:
محترمی ومکرمی۔۔۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
خط ملا۔ آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:۔
12 کے ہندسے سے مراد خاتمہ کلام ہے۔ منہ سے مراد یہ ہے کہ سابق عبارت یا متعلق متن جس شخص کے قلم سے ہے، یہ عبارت جس کے بعد منہ تحریر ہے، یہ بھی اسی مصنف کے قلم سے ہے۔ غفرلہ کا مدعا بھی یہی ہے۔ ویسے منہ کے معنی اسی کی طرف سے اور غفرلہ کے معنی اللہ اسے بخشے کے ہیں۔ خاکسار!"
یہ جواب میری ہدایت کے مطابق ہے۔ شرح دستخط: غلام علی۔ شرح دستخط: ابوالاعلیٰ (معاون خصوصی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ)
اب ہم کس سے پوچھیں کہ حضور! خاتمہ کلام کےلیے 12 منہ کیوں ضروری ہے؟ کیا 4 منہ، یا 10 منہ لکھنے سے کلام ختم نہیں‌ ہوسکتا بلکہ چلییا (x) یا ڈیش (---) بھی تو کلام ختم کرسکتا ہے۔ ہمارے قرآن حکیم نے دائرے (()) آیت سے کلام ختم کیا ہے۔ ج، ط، ء، ف وغیرہ سے بھی خاتمہ کلام ہوجاتا ہے۔ ہمیں تو آپ 12 منہ کی اہمیت بتلائیے۔
ایک دوسرے بزرگ نے بتلایا کہ 12 سے مراد حد ہے۔ پس 12 منہ لکھنے سے کلام ختم ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا: یہ حد ظاہری اسلام کی یا باطنی اسلام کی؟ کیونکہ ظاہری اسلام میں‌ حد کے معنی سزا کے ہیں، جیسے: شراب کی حد کوڑے لگانا ہے اور چوری کی حد ہاتھ کاٹنا۔
البتہ باطنی اسلام میں وضو کی حد علی (رضی اللہ عنہ) ہیں اور نماز کی حد محمد (ﷺ) جیسا کہ زاہد علی صاحب نے بتلایا ہے۔ ہمارے بزرگان دین علی کا تصور کرلیتے تھے تو ان کا وضو ہوجاتا تھا اور محمد ﷺ کا خیال کیا تو نماز ادا ہوگئی۔ تو پھر یہ کیسی حد ہے؟ مولوی کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ سنی مولوی نہ علوم باطنی جانتا ہے، نہ علوم ظاہری۔ محض چند عربی، فارسی کی کتابیں پڑھ کر ناظرہ وخطبہ گانا سیکھ لیتا ہے اور مولوی بن جاتا ہے۔ پھر یہ بےچارے کسی سے پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔ اگر مولوی صاحب نے خطوط غالب ہی پڑھ لیے ہوتے تو معلوم ہوجاتا۔ غالب اپنے دوست اور شاگرد حاتم علی بیگ مہر کو لکھتے ہیں:
صاحب بندہ اثناء عشری ہوں۔ ہر مطلب کے خاتمے پر 12 منہ کا ہندسہ کرتا (لکھتا) ہوں۔ خدا کرے میرا بھی خاتمہ اسی عقیدے پر ہو۔ 12 منہ خطوط غالب، ص: 221
اس کے بعد اپنے ان علماء کے عقائد کا اندازہ لگائیے جو شعوری یا لاشعوری طور پر صدیوں سے 12 منہ لگاتے چلے آئے ہیں۔ یقیناً ان کا خاتمہ بھی مرزا غالب کی طرح ہوا ہوگا۔
ہفت روزہ "اہل حدیث" 25 دسمبر 1992ء​
یہ تھا وہ مضمون جو رانا شفیق پسروری صاحب نے عزیر احمد صدیقی صاحب کی کسی کتاب سے نقل فرمایا ہے۔
چونکہ رانا صاحب نے اس پر کوئی حاشیہ نہیں لگایا اور نہ ہی کوئی اعتراض کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سے من و عن متفق ہیں۔ لیکن یہ بندہ ناچیز عزیر احمد صدیقی صاحب کی زبان اور بیان کے بارے میں یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہیں شیعہ فوبیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ہر بات میں شیعہ ہی نظر آتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ کہ وہ علماء سے بے فائدہ ہی ناراض نظر آتے ہیں۔
خطوط غالب کے صفحات اگلی پوسٹ میں ملاحظہ فرمائیں۔
اسی طرح
مقالات شاغف، ص: 270 سے ایک اقتباس:
دوسری چیز یہ کہ بعض کتب مطبوعہ میں عبارتوں کے اختتام پر (۱۲) ہندسہ پایا جاتا ہے۔ اس کا عام مفہوم یہ ہوتا ہے کہ عبارت کی یہ آخری حد ہے۔ "حد" میں دو حرف ہیں۔ ح اور د اور "ابجد" کے اعتبار سے ح کا عدد 8 اور د کا 4 ہے اور دونوں کا مجموعہ 12 بنتا ہے۔ لیکن میں نے اپنے بعض شیوخ سے سنا ہے کہ یہ شیعوں کی ایجاد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی انتہا ان کے مزعومہ 12 اماموں پر موقوف ہے لہٰذا ہر چیز کی انتہا کے پیچھے بارہ ائمہ کا ذکر لازمی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
یہاں‌ پر اس مضمون کو شیئر کرنے کا مقصد اہل علم کے خیالات جاننا ہے کہ وہ اس ۱۲ منہ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں؟؟؟
جزاکم اللہ خیرا
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عزیر احمد صدیقی صاحب نے جس احتمال کا ذکر کیا ہے اس کےحق میں دلیل بھی دی ہے ۔ یعنی غالب کا حوالہ ۔
اب اس احتمال کو کسی قوی دلیل سے ہی رد کیاجاسکتا ہے ۔
البتہ وہ رویہ بالکل بھی اچھا نہیں لگا جو انہوں نے علماء کے بارے میں اختیار کیا ہے ۔ کیونکہ اس بدگمانی کی بجائے یہ بھی تو کہا جاسکتا تھا کہ اس اصطلاح کی ابتداء شیعہ حضرات کی طرف سے ایک خاص عقیدے کے تحت ہوئی لیکن آہستہ آہستہ مرور زمانہ کی وجہ سے اصطلاح تو باقی رہ گئی لیکن اس میں موجود عقیدہ گم ہوگیا ۔
مناسب ہے کہ یہاں بزرگوں کو تشریف لانے کی زحمت دی جائے :
یوسف ثانی
حیدرآبادی
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
اس تھریڈ سے تو احقر کی معلومات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ جس کا دوسرا مطلب یہی کہ ناچیز کو 13 کروں دن گن گن کے انتظار تو معلوم ہے لیکن یہ 12 منہ کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔
اور ہاں ، مجھے تو نہیں لگتا کہ عزیر احمد صدیقی صاحب کا علماء سے متعلق رویہ نہایت ہی قابل گرفت ہے۔ انہوں نے اپنے نقطہ نظر یاتحفظات کا اظہار کیا ہے جس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ادبی کتب میں تو ایسا لہجہ عام ہے ۔۔۔ مذہبی کتب کا زیادہ علم نہیں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم بھائیو میرے خیال میں اگر کوئی یہاں اس حوالے سے بات کر رہا ہے کہ کیا آیا ہمیں اس اشارے کو آگے استعمال کرنا چاہئے یا نہیں تو اس میں تو کوئی بھی بھائی انکار نہیں کر سکتا کہ اسکا استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر اس معنی کی بجائے ح اور دال کے اعداد کا مجموعہ بھی ہو تو بالاتفاق اس کا استعمال بھی علم الاعداد والے کرتے ہیں جو میرے ناقص علم میں بدعت ہے جیسے بسم اللہ کو 786 لکھنا منع ہے پس پھر بھی حکم وہی ہو گا
اور اگر اس اشارے سے گڑھے مردے اکھاڑنا یا کسی پر لعن طعن کرنا ہے تو بھائی قل علمھا عند ربی کہ کر ہی اس بحث کو چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہو گا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم بھائیو میرے خیال میں اگر کوئی یہاں اس حوالے سے بات کر رہا ہے کہ کیا آیا ہمیں اس اشارے کو آگے استعمال کرنا چاہئے یا نہیں تو اس میں تو کوئی بھی بھائی انکار نہیں کر سکتا کہ اسکا استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر اس معنی کی بجائے ح اور دال کے اعداد کا مجموعہ بھی ہو تو بالاتفاق اس کا استعمال بھی علم الاعداد والے کرتے ہیں جو میرے ناقص علم میں بدعت ہے جیسے بسم اللہ کو 786 لکھنا منع ہے پس پھر بھی حکم وہی ہو گا
نہیں بھائی یہ بدعت کیسے ہوگیا ۔ اس کا دین سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں ۔ یہ تو ایک فنی اصطلاح ہے ۔
786 کو بدعت اس وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ شروع میں ’’ بسملہ ‘‘ کی جگہ لکھا جاتا ہے ۔ اور شریعت میں کام کی ابتداء کرتے ہوئے ’’ بسملہ ‘‘ لکھنے یا پڑھنے کا حکم ہے نہ کہ ’’ اس کا ترجمہ ‘‘ یا اس پر دلالت کرنے والی کوئی رمز ۔
وضاحت : ’’ بَسمَلَہ ‘‘ یہ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ کا مخفف ہے ۔ اسی طرح اس سےمراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’ بسم اللہ ۔۔۔ ‘‘ پڑھنا یا لکھنا ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
نہیں بھائی یہ بدعت کیسے ہوگیا ۔ اس کا دین سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں ۔ یہ تو ایک فنی اصطلاح ہے ۔
786 کو بدعت اس وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ شروع میں ’’ بسملہ ‘‘ کی جگہ لکھا جاتا ہے ۔ اور شریعت میں کام کی ابتداء کرتے ہوئے ’’ بسملہ ‘‘ لکھنے یا پڑھنے کا حکم ہے نہ کہ ’’ اس کا ترجمہ ‘‘ یا اس پر دلالت کرنے والی کوئی رمز ۔
وضاحت : ’’ بَسمَلَہ ‘‘ یہ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ کا مخفف ہے ۔ اسی طرح اس سےمراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’ بسم اللہ ۔۔۔ ‘‘ پڑھنا یا لکھنا ۔
محترم بھائی آپ کی بات سے میں اتفاق کرتا ہوں
مجھے اصل میں کسی نے بتایا تھا کہ یہ علم الاعداد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسا ہندسہ نکالا جائے جو آپ کو موافق آ جائے یا جو آپ کے لئے اچھا ہو اسی طرح کی کوئی باتیں تھیں خیر وہ ٹھوس باتیں نہیں تھیں آپ میں سے کسی بھائی کو زیادہ پتا ہو تو تفصیل بتا دے اللہ جزائو خیر دے امین
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
عزیر احمد صدیقی صاحب نے جس احتمال کا ذکر کیا ہے اس کےحق میں دلیل بھی دی ہے ۔ یعنی غالب کا حوالہ ۔
اب اس احتمال کو کسی قوی دلیل سے ہی رد کیاجاسکتا ہے ۔
البتہ وہ رویہ بالکل بھی اچھا نہیں لگا جو انہوں نے علماء کے بارے میں اختیار کیا ہے ۔ کیونکہ اس بدگمانی کی بجائے یہ بھی تو کہا جاسکتا تھا کہ اس اصطلاح کی ابتداء شیعہ حضرات کی طرف سے ایک خاص عقیدے کے تحت ہوئی لیکن آہستہ آہستہ مرور زمانہ کی وجہ سے اصطلاح تو باقی رہ گئی لیکن اس میں موجود عقیدہ گم ہوگیا ۔
مناسب ہے کہ یہاں بزرگوں کو تشریف لانے کی زحمت دی جائے :
یوسف ثانی
حیدرآبادی
جزاک اللہ برادر۔ آپ کی بات صد فیصد درست ہے۔ غالب ایک مستند شاعر اور مستند محقق بھی ہے۔ اس کی کئی تحقیقی نثری کتب بھی ہیں، جو ان کی شاعری کی مقبولیت میں چھُپ کر گم ہوچکی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ”بد بو دار شیعہ“ بھی تھا۔ سندھ کے ایک سابق شیعہ وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے قرآن سر پر اٹھا کر جب ایم کیو ایم کے خلاف ”گواہی“ دی تھی، تب انہوں نے خود اقرار کیا تھا کہ میں وہ والا شیعہ ہوں، جسے ”بدبودار شیعہ“ کہتے ہیں۔ غالب بھی اسی قبیل کے شیعہ تھے۔ واضح رہے کہ ان کی بیوی مبینہ طور پر سنی تھی اور صوم و صلوٰۃ کی پابند جبکہ غالب پینے پلانے والے، کوٹھوں پر جانے والے اور نماز روزوں سے کوسوں دور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بیگم نے ان کے کھانے پینے کے برتن الگ کر رکھے تھے اور مرزا غالب بیگم کی ہدایت پر زنان خانے میں جوتی اتار کر طنزیہ یہ کہتے ہوئے جایا کرتے تھے اب میں مسجد میں داخل ہورہا ہوں۔ (ایک جاہل عورت اپنے دین کا ”تحفظ“ اس سے زیادہ کیا کرتی )

مولانا مودودی ہوں یا جماعت اسلامی، ان کے بارے میں اگر ”حسن ظن“ سے بھی کام لیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ”شیعہ عقائد اور تعلیمات“ سے سراسر لاعلم تھے اور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو مولانا مودودی، انقلاب ایران سے بہت قبل سعودیہ میں خمینی سے ون ٹو ون ملاقاتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف انقلاب کے بعد جماعت اسلامی پاکستان ”ایرانی خمینی انقلاب“ کی سب سے بڑی حمایتی نظر آتی ہیں۔ انہوں نے خمینی انقلاب کی حمایت میں کتابیں بھی لکھیں اور انہیں اسلامی انقلاب لکھتے رہے۔ البتہ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد کو جب شیعہ عقائد پرمبنی ایک تحقیقی کتاب ”اسلام اور منافقت“ پیش کی گئی تو اسے پڑھ کر ان کی آنکھی کھل گئیں اور انہوں نے امیر جماعت کی حیثیت میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ایران میں خمینی کا انقلاب، شیعہ انقلاب ہے، اسلامی انقلاب نہیں۔ لیکن بہت جلد قاضی حسین احمد آگئے اور جماعت اسلامی ایک بار پھر ایرانی انقلاب کو اسلامی انقلاب کہنے لگی۔ قاضی حسین احمد کی ایران مین خوب آؤ بھگت کی گئی۔ اور وہ ان کی وکالت کرتے رہے۔ واضح رہے کہ ایران میں ایک رپورٹ کے مطابق 40 فیصد کے قریب سنی ہیں۔ شاہ ایران کے عہد میں تہران میں متعدد سنی مساجد قائم تھیں، لیکن خمینی کے انقلاب کے بعد تہران کی حد تک تمام سنی مساجد ختم کردی گئیں۔ ایرانی پارلیمنٹ میں متعدد یہودی ممبر تو ہیں (اصفحان، جسے نصف جہان کہا جاتا ہے۔۔۔ میں یہودی کثرت سے آباد ہیں) لیکن کوئی سنی ممبر نہیں اور مبینہ طور پر کسی سنی کو ایرانی پارلیمنٹ کا رکن نہین بننے دیا جاتا۔
واللہ اعلام بالصواب
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اوپر غالب کے بیان میں یہ لکھنا بھول گیا کہ غالب نے 12 منہ کے بارے میں جو لکھا ہے، اس کی "تردید کرنا" بہت مشکل ہے۔ غالب کے نثری تحقیقی تحریروں کی غالباً آج تک کسی نے تردید نہیں کی ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ 12 منہ سے متعلق ان کی وضاحت کو درست تسلیم نہ کیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top