• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۲... واسطوں پر بھروسا۔ نواقض اسلام۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جناب جو نکتہ میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں آپ اس سے مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ غور کیجئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِن الفاظوں پر​

کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا معاملہ ہے یا زندگی کا؟ آپ نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہاں وسیلے سے مراد کیا ہے؟
یہاں وسیلے سے مراد اِن سے دعا کروانا ہے، ناکہ صدقے یا طفیل مانگنا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی یا اُن کے طفیل یا اُن کے صدقے مانگا؟ بتائیے
دراصل روایت ایک ہی ہے ، اُس سے ہمارا فہم حاصل کرنا مختلف ہے، آپ جو فہم حاصل کر رہے ہیں نا تو آپ کے پاس اُس کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی وہ پختہ ہے، نا ہی صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنھم کا یہ فہم تھا نہ ہی سلف صالحین کا۔ کیونکہ اس فہم سے شرک لازم آتا ہے، اور وہ شرک سے بیزار تھے۔
اور جو فہم میں حاصل کر رہا ہوں کہ یہاں "وسیلے" سے مراد "دعا کروانا ہے" وہی درست ہے۔ ابھی میرے اس فہم کے خلاف آپ کوئی دلیل دینے سے قاصر ہیں۔ الحمدللہ
زندہ نیک بندے کے وسلیہ سے دعا کرنا
یہ وہ نکتہ ہے جس سے آپ متفق نہیں اور جس کے لئے میں نے آپ کے مطالبے پر صحیح بخاری روایت کو مکمل کوڈ کیا​
اس روایت میں خلیفہ دوئم کا قول بہت واضح ہے کہ​
اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں
یہاں خلیفہ دوئم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کی ذاتکو وسیلہ بنارہیں ہیں اور اس دھاگہ میں​
واسطوں پر بھروسا
کو رد کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے لیکن صیح بخاری کی اس روایت سے خود اس بات کی تائید ہورہی ہے کہ واسطوں پر بھروسہ کرنا خلیفہ دوئم کی سنت ہے اور اہل سنت کے عقائد کے مطابق خلیفہ دوئم کی سنت کو پکڑنا، اسے مضبوطی سے تھامنا اور دانتوں کے ذریعہ سختی سے پکڑ نا لازمی ہے​
اگر خلیفہ دوئم کا واسطوں پر بھروسہ نہ ہوتا تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسلیہ نہ پکڑتے اور خود ہی بغیر واسطے کے اللہ تعالیٰ سے بارش کے لئے دعا کرتے​
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر کی روایت میں نعت کے کچھ اشعار ذکر ہوئے ہیں جو کہ عبداللہ بن عمر اکثر پڑھا کرتے تھے​
وأبيض يستسقى الغمام بوجهه

ثمال اليتامى عصمۃ للأرامل​
صحیح بخاری حدیث نمبر 1009​
ترجمہ​
''وہ گورے (مکھڑے والے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔''​
عبداللہ بن عمر کا بھی عقیدہ تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گورے مکھڑے کے واسطے سے بارش کی دعا کی جائے​
اور دوسری بات یہ کہ خود اہل سنت والجماعت کے اکثر علماء باشمول اہل حدیث (نواب صدیق خان بھوپالی القنوجی )اس بات کے قائل ہیں اللہ کے نیک بندوں کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کی جاسکتی ہے​
مجھے آپ کےپوسٹ کو "غیر متعلق" ریٹ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں صرف آپ کو بتا رہا تھا کہ جب معاملہ ہمارا ہو تو آپ جھٹ سے غیر متعلق کر دیتے ہیں اور موضوع پر رہنے کی بات کرتے ہیں لیکن متعلقہ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جب آپ کوئی نیا ٹاپک شروع کر دیتے ہیں تو اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ آپ موضوع سے ہٹ رہے ہیں۔​
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

خلافت کی ترتیب عقائد میں شمار ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ تو میں نہیں جانتا۔۔ ہاں البتہ ہم اہل سنت والجماعت اہلحدیث کے نزدیک خلافت بالترتیب خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ،خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ،خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔​
اچھی طرح جان لیں کہ ہم اس ترتیب سے خلافت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن چونکہ ہمارا یہاں یہ موضوع نہیں لہذا اوپر جو بات وسیلے کے حوالے سے میں نے پوچھی تھی، اس کا مدلل جواب دیں۔​
ایسی لئے عرض کیا تھا کہ پہلے اپنے عقائد کے علم میں طاق ہوجائیں پھر اس طرح کی بحث میں حصہ لیں
دوسری بات یہ کہ بات خلافت کی ترتیب کی نہیں ہورہی بلکہ خلیفہ دوئم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سے افضل مانے کی ہورہی ہے اس کے لئے آپ پہلے ہی فرماچکے ہیں کہ
اور دوسری بات کہ کس کا درجہ کس سے زیادہ ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے، ہمارا یہ ماننا ہے کہ تمام صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ عنھم اجمعین جنتی ہیں۔
اس لئے میں آپکے اس فرمان پر ہی اعتماد کرتا ہوں کہ آپ خلیفہ دوئم کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا پر فضیلت کے قائل نہیں ۔ اللہ آپ کو جزاء خیر عطاء فرمائے
وسلیے سے متعلق جواب اوپر دیا چکاہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اس بات کا تاحال جواب نہیں دیا گیا
یہاں وسیلے سے مراد اِن سے دعا کروانا ہے، ناکہ صدقے یا طفیل مانگنا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی یا اُن کے طفیل یا اُن کے صدقے مانگا؟ بتائیے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس بات کا تاحال جواب نہیں دیا گیا
یہاں وسیلے سے مراد اِن سے دعا کروانا ہے، ناکہ صدقے یا طفیل مانگنا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی یا اُن کے طفیل یا اُن کے صدقے مانگا؟ بتائیے
آپ ہی کے مطالبے پر میں نے وہ پوری روایت آپ کی خدمت میں پیش کردی تھی ایک بار پھر پیش کیئے دیتا ہوں اب آپ مجھے صرف اتنا بتادیں کہ اس روایت کے کن الفاظ سے آپ یہ مطلب لے رہیں ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی گئی
أنَّ عمرَ بنَ الخطابِ رضيَ اللهُ عنهُ : كانَ إذَا قَحَطُوا استسْقَى بالعباسِ بنِ عبدِ المطلبِ . فقالَ : اللهمَّ إنَّا كنَّا نَتَوَسَّلُ إليكَ بنبيِّنَا فَتَسْقِيَنَا ، وإنا نَتَوَسَّلُ إليكَ بعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا ، قالَ فَيُسْقَونَ .
الراوي: أنس بن مالك المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1010
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
ترجمہ از داؤد راز
جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔

اس روایت کے الفاظ کے مطابق تو خود خلیفہ دوئم ہی دعا کررہیں ہیں کہ
اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اس روایت کے الفاظ کے مطابق تو خود خلیفہ دوئم ہی دعا کررہیں ہیں کہ
اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا
دعا کے اس حصے کا مطلب مجھے سمجھا دیں، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا معاملہ ہے یا وفات کے بعد کا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ صدقے یا طفیل مانگا کرتے تھے؟ پھر یہ بتائیں کہ اگر صدقے اور طفیل کا طریقہ مستحسن ہے تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس طریقے سے دعا مانگنے کی تائید کی یا یہ عمل دیکھ کر خاموشی اختیار کی؟
آپ نے اس روایت سے جو فہم حاصل کیا
اس روایت سے یہ ظاہر ہوا کہ جن لوگوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب ہو اگر ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو اس دعا کے مقبول ہونے کی امید دو چند ہوجاتی ہے
آپ بتا سکتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے اس روایت کے بعد اللہ سے اُن لوگوں کا وسیلہ دے کر دعا کی جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زندگی میں کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل کوئی چیز مانگی ہو؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زندگی میں کبھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اللہ سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل کوئی چیز مانگی ہو؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زندگی میں کبھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اللہ سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل کوئی چیز مانگی ہو؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زندگی میں کبھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اللہ سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل کوئی چیز مانگی ہو؟

اہل بیت سے ثابت کر دیں کہ اِس روایت کے بعد یا اِس روایت سے پہلے وہ اللہ کو فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل پکارا ہو؟ میں یہ لفظ بار بار کیوں استعمال کر رہا ہوں کیونکہ آپ اِس روایت سے یہی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ سے حضرت علی ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صدقے یا طفیل پکارنے کا جواز ہے۔ جبکہ یہ سراسر شرکیہ عقیدہ ہے آپ نے اللہ کو ایسے پکارا تو آپ پر اللہ کا عذاب نازل ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ اِن کا خالق ہے، اگر آپ سمجھیں تو لیکن چونکہ آپ ان نیک ہستیوں کی شان میں غلو کرتے ہیں اسی لئے ایسے عقائد رکھتے ہیں، صحیح کہا تھا آصف مغل بھائی نے کہ غلو چھوڑ دیں وسیلے کی سمجھ آ جائے گی۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ ہی کے مطالبے پر میں نے وہ پوری روایت آپ کی خدمت میں پیش کردی تھی ایک بار پھر پیش کیئے دیتا ہوں اب آپ مجھے صرف اتنا بتادیں کہ اس روایت کے کن الفاظ سے آپ یہ مطلب لے رہیں ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی گئی
أنَّ عمرَ بنَ الخطابِ رضيَ اللهُ عنهُ : كانَ إذَا قَحَطُوا استسْقَى بالعباسِ بنِ عبدِ المطلبِ . فقالَ : اللهمَّ إنَّا كنَّا نَتَوَسَّلُ إليكَ بنبيِّنَا فَتَسْقِيَنَا ، وإنا نَتَوَسَّلُ إليكَ بعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا ، قالَ فَيُسْقَونَ .
الراوي: أنس بن مالك المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1010
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]
ترجمہ از داؤد راز
جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔

اس روایت کے الفاظ کے مطابق تو خود خلیفہ دوئم ہی دعا کررہیں ہیں کہ
اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا
کسی مسلمان کا دوسرے زندہ مسلمان سے د عا کروانا یا اس زندہ انسان کی وساطت سے د عا کرنا شریعت میں ایک مستحسن عمل ہے - اس سے آپس میں محبّت اور اپنے مسلمان بھائی کے لئے احترام بڑھتا ہے - حضرت عمر رضی الله عنہ کا حضرت عبّاس رضی الله عنہ کی وساطت د عا کرنا بھی اس کی ایک ا علیٰ مثال ہے -

ورنہ د عا کی قبولیت کے لئے انسان کا پرہیز گار ہونا شرط نہیں - بعض اوقات ایک کم درجہ انسان کی د عا الله بہت جلد قبول کرلیتا ہے اور بعض اوقات ایک نبی کی یا بہت نیک انسان کی دعا رد ہو جاتی ہے - کیوں کہ الله قادر المطلق ہے جس کی چاہے قبول کرلے جس کی چاہے رد کردے -

ایک حدیث میں ہے کہ -

وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال استأذنت النبي صلى الله عليه و سلم في العمرة فأذن لي وقال : " أشركنا يا أخي في دعائك و لا تنسنا " . فقال كلمة ما يسرني أن لي بها الدنيا . رواه أبو داود
(مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 769 )

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ادائیگی عمرہ کے لئے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا کہ اے میرے چھوٹے بھائی اپنی دعا میں ہمیں شریک کر لینا اور دعا کے وقت مجھے نہ بھولنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کلمہ ارشاد فرمایا کہ اگر اس کے بدلہ میں مجھے تمام دنیا بھی دے دی جائے تو مجھے خوشی نہ ہو گی۔

اس سے نہ صرف یہ کہ ذات نبوت کی طرف سے مرتبہ عبودیت اور مقام بندگی میں اپنے عجز اور اپنی مسکینی کا اظہار ہے بلکہ اس طرح امت کے لوگوں کو اس بات کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے کہ خدا کے نیک اور عابد بندوں اور اچھے لوگوں سے دعاء خیر کی جائے چاہے وہ مرتبہ کے لحاظ سے اپنے سے کم تر ہی کیوں نہ ہو نیز اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لطیف انداز میں گویا امت کو اس بات سے بھی آگاہ کر دیا کہ اپنی دعا کو صرف اپنی ذات ہی کے لئے مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اپنی دعاؤں اور خاص طور پر ان دعاؤں میں جو مقام قبولیت پر مانگی جائیں اپنے عزیز واقرباء اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کیا جائے۔

والسلام -
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
لیجئے پہلے میں صحیح بخاری کی پوری روایت کو کوڈ کردیتا ہوں پھر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرونگا
أنَّ عمرَ بنَ الخطابِ رضيَ اللهُ عنهُ : كانَ إذَا قَحَطُوا استسْقَى بالعباسِ بنِ عبدِ المطلبِ . فقالَ : اللهمَّ إنَّا كنَّا نَتَوَسَّلُ إليكَ بنبيِّنَا فَتَسْقِيَنَا ، وإنا نَتَوَسَّلُ إليكَ بعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا ، قالَ فَيُسْقَونَ .
الراوي: أنس بن مالك المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1010
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ از داؤد راز
جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔
اب اس روایت میں صاف طور سے بیان ہوا کہ خلیفہ دوئم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے بارش کے لئے دعا کررہیں ہیں یہاں دعا اللہ ہی سے کی جارہی ہے جو کہ آپ کے اس عقیدے کی نفی نہیں کہ
اس حدیث میں سيدنا عمر﷜ کی نبی کریمﷺ اور سیدنا عباس﷜ کے وسیلے سے مراد ان کی ذات کا نہیں بلکہ اُن کی دعا کا وسیلہ ہے۔

اس کی دلیل اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ اسی واقعہ کی دیگر روایات میں صراحت ہے کہ سیدنا عمر﷜ نے دُعا کرنے کے بعد سیدنا عباس﷜ سے دُعا کرنے کو کہا اور انہوں نے اپنی معروف دعا اللهم إنه لم تنزل مصيبة إلا بذنب ... کی۔

اگر سیدنا عمر﷜ کا مقصود سیدنا عباس﷜ کی ذات کا وسیلہ ہوتا تو کیا وہ ان سے بہتر شخصیت کی ذات کا وسیلہ نہ پکڑتے؟ کیا وہ روضۂ مبارک پر جاکر نبی کریمﷺ کی ذات کا وسیلہ نہ پکڑتے؟

اگر ان کا مقصود سیدنا عباس﷜ کی ذات کا وسیلہ ہوتا تو انہوں نے ان سے دُعا کا کیوں کہا؟ آپ لوگوں کی طرح خود ہی اپنے گھر بھی بیٹھے بیٹھے ان کے وسیلے سے دُعا کیوں نہیں کر لی؟؟

نہیں! ہرگز نہیں! دُعا سے اصل مقصود اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ زاری ہے ادعوا ربكم تضرعا وخفية اور ایک زندہ شخص ہی اللہ سے گڑگڑا کر اپنے اور دوسروں کیلئے دُعا کر سکتا ہے۔فوت شدہ یا غیر حاضر شخص نہیں۔

اسی لئے اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک وسیلے کی ایک جائز صورت یہ بھی ہے کہ کسی زندہ بزرگ کے پاس جا کر خود بھی دُعا کی جائے اور ان سے بھی دُعا کرا لی جائے۔ جس کا ذکر اس فرمانِ باری میں بھی موجود ہے:
﴿ وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُ‌وا اللَّـهَ وَاستَغفَرَ‌ لَهُمُ الرَّ‌سولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوّابًا رَ‌حيمًا ٦٤ ﴾ ... سورة النساء
اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے، تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے (64)
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
دعا کے اس حصے کا مطلب مجھے سمجھا دیں، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا معاملہ ہے یا وفات کے بعد کا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ صدقے یا طفیل مانگا کرتے تھے؟ پھر یہ بتائیں کہ اگر صدقے اور طفیل کا طریقہ مستحسن ہے تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس طریقے سے دعا مانگنے کی تائید کی یا یہ عمل دیکھ کر خاموشی اختیار کی؟
آپ نے اس روایت سے جو فہم حاصل کیا

آپ بتا سکتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے اس روایت کے بعد اللہ سے اُن لوگوں کا وسیلہ دے کر دعا کی جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زندگی میں کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل کوئی چیز مانگی ہو؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زندگی میں کبھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اللہ سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل کوئی چیز مانگی ہو؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زندگی میں کبھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اللہ سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل کوئی چیز مانگی ہو؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ زندگی میں کبھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اللہ سے فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل کوئی چیز مانگی ہو؟

اہل بیت سے ثابت کر دیں کہ اِس روایت کے بعد یا اِس روایت سے پہلے وہ اللہ کو فلاں کے صدقے یا فلاں کے طفیل پکارا ہو؟ میں یہ لفظ بار بار کیوں استعمال کر رہا ہوں کیونکہ آپ اِس روایت سے یہی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ سے حضرت علی ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صدقے یا طفیل پکارنے کا جواز ہے۔ جبکہ یہ سراسر شرکیہ عقیدہ ہے آپ نے اللہ کو ایسے پکارا تو آپ پر اللہ کا عذاب نازل ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اللہ اِن کا خالق ہے، اگر آپ سمجھیں تو لیکن چونکہ آپ ان نیک ہستیوں کی شان میں غلو کرتے ہیں اسی لئے ایسے عقائد رکھتے ہیں، صحیح کہا تھا آصف مغل بھائی نے کہ غلو چھوڑ دیں وسیلے کی سمجھ آ جائے گی۔

ہر دفعہ میں ہی نہیں بلکہ پہلے آپ بھی تو یہ بتائیں کہ مذکورہ روایت کے کن الفاظ سے آپ نے یہ معنی لیا کہ خلیفہ دوئم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سے دعا کروائی باقی باتیں بعد میں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
کسی مسلمان کا دوسرے زندہ مسلمان سے د عا کروانا یا اس زندہ انسان کی وساطت سے د عا کرنا شریعت میں ایک مستحسن عمل ہے - اس سے آپس میں محبّت اور اپنے مسلمان بھائی کے لئے احترام بڑھتا ہے - حضرت عمر رضی الله عنہ کا حضرت عبّاس رضی الله عنہ کی وساطت د عا کرنا بھی اس کی ایک ا علیٰ مثال ہے -
یہی نکتہ تو میں بھی سمجھنا چارہا ہوں کہ جو کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ

"دوسرے زندہ مسلمان سے د عا کروانا یا اس زندہ انسان کی وساطت سے د عا کرنا شریعت میں ایک مستحسن عمل ہے "
آپ نے مان لیا اللہ آپ کو جزاء خیر عطاء کرے
ورنہ د عا کی قبولیت کے لئے انسان کا پرہیز گار ہونا شرط نہیں - بعض اوقات ایک کم درجہ انسان کی د عا الله بہت جلد قبول کرلیتا ہے اور بعض اوقات ایک نبی کی یا بہت نیک انسان کی دعا رد ہو جاتی ہے - کیوں کہ الله قادر المطلق ہے جس کی چاہے قبول کرلے جس کی چاہے رد کردے -
دیکھنا آپ کی ہائی لائٹ کردہ بات کہیں ان ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصادم تو نہیں

ستةٌ لَعَنْتُهم ولعنَهمْ اللهُ وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ : الزائدُ في كتابِ اللهِ، والمُكَذِّبُ بقدَرِ اللهِ، والمُتسلطُ بالجبروتِ فيُعِزُّ بذلكِ منَ أَذَلَّ اللهُ ويذلُّ منْ أعزَّ اللهُ، والمستَحِلُّ لحَرِمِ اللهِ، والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ، والتاركُ لسنتِي
الراوي: عائشة وعبدالله بن عمر المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4660
خلاصة حكم المحدث: صحيح


سبعَةٌ لعَنتُهُم وَكلُّ نبيٍ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ والمُكذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمستحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ لِسُنَّتي والمستأثِرُ بالفَيءِ والمتجبِّرُ بسلطانِه لِيُعِزَّ مَن أذَلَّ اللَّهُ ويُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ
الراوي: عمرو بن سعواء اليافعي المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4648
خلاصة حكم المحدث: حسن


ستَّةٌ لعَنتُهُمْ وكلُّ نَبِيٍّ مجابٌ الزائدُ في كتابِ اللهِ والمكذبُ بقدرِ اللهِ والمستحِلُّ لمحارمِ اللهِ والمستحِلُّ من عِتْرَتِي ما حرَّمَ اللهُ وتارِكُ السنَّةِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 7/208
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات




ستَّةٌ لعنتُهُم ولعنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نبيٍّ مُجابٌ الزَّائدُ في كتابِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ والمُكَذِّبُ بقدرِ اللَّهِ والمتسلِّطُ على أمَّتي بالجبَروتِ ليُذِلَّ مَن أعزَّ اللَّهُ ويُعزَّ من أذلَّ اللَّهُ والمستَحلُّ حُرمةَ اللَّهِ والمستَحلُّ مِن عِترتي ما حرَّمَ اللَّهُ والتَّارِكُ السُّنَّةَ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 1/65
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]


ہر نبی کی دعا قبول ہوا کرتی ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس حدیث میں سيدنا عمر﷜ کی نبی کریمﷺ اور سیدنا عباس﷜ کے وسیلے سے مراد ان کی ذات کا نہیں بلکہ اُن کی دعا کا وسیلہ ہے۔

اس کی دلیل اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ اسی واقعہ کی دیگر روایات میں صراحت ہے کہ سیدنا عمر﷜ نے دُعا کرنے کے بعد سیدنا عباس﷜ سے دُعا کرنے کو کہا اور انہوں نے اپنی معروف دعا اللهم إنه لم تنزل مصيبة إلا بذنب ... کی۔
لیکن مذکورہ حدیث میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ خلیفہ دوئم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا سے دعا کروائی ہو بلکہ نہایت واضح الفاظ میں خود خلیفہ دوئم خود ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے وسیلہ سے دعا مانگ رہے ہیں
جہاں تک اس واقعہ کی دیگر روایات کا سوال ہے کہ ان میں خلیفہ دوئم نے دعا کرنے کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کو کہا تو اس کے لئے عرض ہے کہ میں نے جو روایت پیش کی اس کے الفاظ ہیں کہ
" جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے "
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ دوئم کے زمانے میں ایک سے زائد مرتبہ قحط پڑا کبھی وہ خود حضرت عباس کے وسیلے دعا کرتے اور کبھی دعا کرنے کے لئے حضرت عباس سے کہتے اس طرح سے تو دونوں صورتیں خلیفہ دوئم کی سنت ہوئی ۔
اگر سیدنا عمر﷜ کا مقصود سیدنا عباس﷜ کی ذات کا وسیلہ ہوتا تو کیا وہ ان سے بہتر شخصیت کی ذات کا وسیلہ نہ پکڑتے؟ کیا وہ روضۂ مبارک پر جاکر نبی کریمﷺ کی ذات کا وسیلہ نہ پکڑتے؟

اگر ان کا مقصود سیدنا عباس﷜ کی ذات کا وسیلہ ہوتا تو انہوں نے ان سے دُعا کا کیوں کہا؟ آپ لوگوں کی طرح خود ہی اپنے گھر بھی بیٹھے بیٹھے ان کے وسیلے سے دُعا کیوں نہیں کر لی؟؟

نہیں! ہرگز نہیں! دُعا سے اصل مقصود اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ زاری ہے ادعوا ربكم تضرعا وخفية اور ایک زندہ شخص ہی اللہ سے گڑگڑا کر اپنے اور دوسروں کیلئے دُعا کر سکتا ہے۔فوت شدہ یا غیر حاضر شخص نہیں۔
اس نکتہ پر بات بعد میں کی جائے گی ابھی تو صرف میں اس ایک نکتہ پر آپ حضرات کو متفق کرنا چاہتا ہوں کہ
" کسی زندہ اللہ کے نیک بندے کے وسلیہ سے دعا کرنا جائز ہے "

اسی لئے اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک وسیلے کی ایک جائز صورت یہ بھی ہے کہ کسی زندہ بزرگ کے پاس جا کر خود بھی دُعا کی جائے اور ان سے بھی دُعا کرا لی جائے۔ جس کا ذکر اس فرمانِ باری میں بھی موجود ہے:
﴿ وَلَو أَنَّهُم إِذ ظَلَموا أَنفُسَهُم جاءوكَ فَاستَغفَرُ‌وا اللَّـهَ وَاستَغفَرَ‌ لَهُمُ الرَّ‌سولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوّابًا رَ‌حيمًا ٦٤ ﴾ ... سورة النساء
اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے، تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے (64)
اللہ آپ کو جزاء عطاء فرمائے اچھا ہوا آپ نے ہی یہ آیت مبارکہ پیش فرمادی
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ

اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )

اس فرمان باری تعالیٰ میں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سواء کسی اور بزرگ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا حکم تو نہیں دیا جارہا پھر آپ کس بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت میں بزرگوں کو شریک کر رہیں ہیں کیا یہ غلو نہیں

دوسری بات یہ کہ اگر آپ کے عقائد کے مطابق تو یہ آیت منسوخ سمجھی جائے گی کیونکہ فی زمانہ اگر کوئی اپنی جانوں پر ظلم کریں تو ان کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوسکےاب سوال یہ ہے کہ اس آیت کی منسوخی کا الہام کن پر ہوا اور جو آپ نے اس آیت سے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہکے سواء اور بزروگوں کی بارگاہوں کو جو رسالت میں شریک کیا وہ الہام کن پر ہوا؟؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
{وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْا إِلٰی رَبِّھِمْ لَیْسَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌ وَلَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ} (الانعام:۵۱)
''اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کیئے جائیں گے کہ اس کے سوا نہ کوئی ان کا مدد گار ہو گا اور نہ کوئی سفارشی ہوگا اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں۔''

اللہ کے مکرم ومقرب فرشتے اللہ کے حکم سے کائنات کے امور کی تدبیر ضرور کرتے ہیں۔ (جیسے روح ڈالنا اور قبض کرنا، لیلۃ القدر میں اللہ کے حکم سے نازل ہونا، پہاڑوں، بادلوں اور ہوائوں پر مقرر فرشتے مگر سارے کا سارا اختیار صرف اللہ کا ہونے کی وجہ سے انہیں پکارنا بھی شرک ہے۔

تنبیہ :

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کوئی شخص اپنی مشکلات میں اللہ سے دعا کرتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ صرف اللہ ہی ما فوق الاسباب اس کی مددکرنے پر قادر ہے اور دعا کی قبولیت کے بعد وہ اللہ ہی کا شکر گزار ہوتا ہے اسی کے نام پر خیرات وذبیحہ کرتا ہے 'لیکن وہ دعا اس طرح کرتا ہے کہ اے اللہ اپنے نیک اور مقبول بندوں کے طفیل میری یہ دعا قبول فرما تو ایسا کرنا اگرچہ سنت سے ثابت اور جائز نہیں بلکہ بدعت ہےلیکن اللہ سے براہ راست مانگنے کی بنا پر یہ چیز واسطے اور وسیلے کے شرک سے خالی ہے ۔

واسطوں پر بھروسا۔ نواقض اسلام
اس دھاگہ کا موضوع ہے واسطوں پر بھروسا نواقص اسلام یعنی ہر قسم کے واسطوں اور وسیلوں پر بھروسہ کرنے سے ایک مسلمان کے اسلام میں نقائص کا سبب بنتا ہے اور سے اسلام کامل نہیں رہتا اس سارے مضمون میں کہیں بھی وسیلے کے لئے کسی بھی اشتثنائی کفیت کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن جب معلوم کیا گیا کہ وسلیے کی کوئی اشتثنائی صورت بھی ہے جس سے اسلام میں نقائص پیدا نہیں ہوتے تو کوئی جواب نہیں دیا گیا کیونکہ واسطوں کی اشتثنائی صورت کا ذکر کرنے سے خود اس دھاگہ کا رد ہوجاتا پھر جب واسطوں اور وسیلے کے بارے مضامین اور کتب کا مطالعہ کیا تو علم ہوا کہ سلفی عقائد کے مطابق چار قسم کے واسطے اور وسیلے جائز ہیں
1۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات کاملہ کے ذریعے سے دعا کرنا۔
2۔ اپنے اعمال صالحہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ۔
3۔ کسی زندہ و نیک انسان سے دعا کروانا
4۔ یا اس کے واسطے سے دعا کرنا ۔
تین وسیلے یا واسطوں کو بلا چوں وچرا تسلیم کرکے خود ہی اس دھاگہ کا رد کردیا گیا اور یہ تسلیم کرلیا گیا کہ ہر قسم کے واسطے نقائص اسلام نہیں جبکہ آخری نکتہ کو بھی کچھ لوگوں نے تسلیم کرلیا آئیں اب ان چار صورتوں کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ جائز ہیں اور ان کا موازنہ ان وسیلہ کی ان صورتوں سے کرتے ہیں جو کہ صرف کچھ سلفیوں کے نزدیک ناجائز ہے اور ان سے اسلام میں نقص آجاتا ہے ؎
اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات کاملہ کے ذریعے سے دعا کرنا۔
یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس میں کسی بھی مسلمان کو اعترض نہیں مگر کمال کی بات یہ کہ اس مضمون میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا گیا کہ اس اس واسطے سے دعا کرنے سے اسلام میں نقص پیدا نہیں ہوتا​
اپنے اعمال صالحہ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ۔
یعنی یہ کہ اپنے جن اعمال کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ یہ میرا نیک عمل ہے ان کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرسکتا ہوں جبکہ مجھے نہیں معلوم کہ اپنے جن اعمال کو میں صالح گمان کررہا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا پھر یہ اعمال اللہ تعالیٰ میرے منہ پر مار دے گا اب ایک غیر یقنی بات کس طرح اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوسکتی ہے ؟​
کسی زندہ و نیک انسان سے دعا کروانا
اس عقیدے میں بھی یہی بات کہ جس زندہ نیک انسان کو میں اپنے گمان میں نیک سمجھ رہا ہوں کیا واقع میں وہ نیک ہے یہ بھی کوئی یقینی بات نہیں کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں جس کو نیک سمجھ رہا ہوں اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں​
یا اس کے واسطے سے دعا کرنا
یہ بھی کوئی یقینی بات نہیں​
؎​
آئیں اب میں آپ کو ایک ایسے وسیلے کی طرف دعوت دیتا ہوں جو آپ کے عقائد کے مطابق بھی یقینی امر ہے وہ ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی قدر جن کے بارے میں ہر مسلمان کا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی قدر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے ذیادہ مقبول ہے​
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں دین کی سمجھ عطاء کرے آمین​
والسلام​
 
Top