• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۴۶۔ شیطان سے بچو۔ ۔ اسعد الزوجین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۸۔ عورت کو امن و استقرار مہیا کرنا:
اگر شوہر کی راتیں باہر نہیں گذرتی ہوں گی اور وہ اچانک فون آجائے پر نیچی آواز میں بات نہیں کرتا ہوگا یا بغیر بتائے ادھر ادھر سفر نہیں کرے گا یا چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر چیخنے یا چلائے گا نہیں یا طلاق کی دھمکی یا دوسری شادی کی دھمکی یا واپس گھر بھیجنے کو دھمکی نہیں دے گا تو ایسے شخص کی بیوی یقینا چین اور سکون کی نیند سوئے گی۔
گھر میں امن اور سکون اس وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی اپنا ہر کام مل بانٹ کر کرتے ہیں اور ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے جس کے لئے وہ محنت کر رہے ہوتے ہیں۔
نفسیاتی طور پر پر سکون رہنے اور رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی بھی گرھ کے راز گھر سے باہر ایک دوسرے کے گھروں میں نہ بتائے کہ جب بھی کوئی غیر معمولی سی بات ہوئی یا کوئی غلط فہمی پیدا ہوگئی تو میاں بیوی کے گھروالوں کو بتائے یا بیوی میاں کے گھر والوں کو بتائے۔ ایسی بیوی پاگل پن کا شکار ہوسکتی ہے کیونکہ اسے خوف ہوتا ہے کہ اب ہر کوئی اس کو برا بھلا کہے گا۔

۳۹۔ بیوی پر بد دعا کرنے سے گریز کرنا اور اس کے لئے دعا کرنا:
پچھلے صفحات میں ہم نے دعا سے متعلق مشترکہ امور پر گفتگو کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ میاں بیوی کے مسائل حل کرنے میں دعا سب سے اہم ترین سبب ہے۔ لیکن یہاں پر ایسے شوہر بھی ہیں، اللہ انھیں ہدایت دے، جنھیں اگر اپنی بیوی کی کوئی بات پسند نہیں آتی یا جب کوئی غیر مناسب حرکت دیکھ لیتے ہیں یا آپس میں کوئی غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے تو اس کو پھر ایک ہی صورت نظر آتی ہے اور وہ بیوی پر بدعا کرنا اور اسے کو سنا چنانچہ آپ اسے کہتے سنیں گے: اللہ تمہیں سمجھے! یا اللہ کرے تم اندھی ہوجائو! یا تم پر فالج کا حملہ ہوجائے وغیرہ وغیرہ قسم کی بد دعائیں اور جب اسے سمجھایا جاتا ہے تو وہ یہ بہانہ بتاتا ہے کہ میں اس وقت غصے میں تھا اور یہ کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ ایسے شوہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھول جاتے ہیں، اپنے آپ پر بھلائی کے سوائے اور کوئی دعا مت کرو کیونکہ فرشتے تمہاری دعائوں پر آمین کہتے ہیں (۱) (مسلم)

ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اپنے آپ پر بدعا مت کرو۔ اور نہ ہی اپنی اولاد، نوکر چاکر اور ما ل و دولت پر بد دعا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری دعا کی گھڑی اللہ کی اس گھڑی کے موافق آجائے جس میں اس سے جو مانگا جاتا ہے وہ عطا فرماتا ہے۔ (۲) (حدیث صحیح ہے۔ صحیح الجامع، الصغیر و زیادۃ (۷۲۶۷)

ایسی دعائیں کرنے والے شوہر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی تو سب سے بڑا بدبخت وہ خود ثابت ہوگا۔ کیونکہ بیوی کے علاج کے لئے وہ سفر کا خرچ اور محنت خود کرے گا تاکہ اس کا اچھے سے اچھا علاج کرایا جائے۔ اس لئے اس سے بہتر یہ ہے کہ شوہر بیوی کے لئے صحت و عافیت کی دعا کرے۔ اس کے لئے اجر و ثواب ہدایت اورایمان کی پختگی کی دعا کرے۔ اس ضمن میں مناسب ہوگا کہ بدعا کا ایک سچا قصہ میں یہاں ذکر کروں۔

جب قبر میں پائوں لٹکائے بوڑھے باپ نے پولیس انسپکٹر کے سامنے اپنے بیٹے پر بد دعا کی تو اس کے خواب و خیال میں بھی یہ حقیقت موجود نہیں تھی کہ اب اس کے بیٹے کی زندگی چند لمحوں کی مہمان ہے پھر اس بیٹا اہل آخرت سے جاملے گا۔ باپ اور بیٹے کے درمیان اختلاف بہت شدت اختیار کر گیا تھا اور نوبت زبانی بات چیت اور گالم گلوچ سے ہوتے ہوئے ہاتھا پائی تک پہنچ چکی تھی۔ اس کے بیٹے سے موقع پا کر باپ کی گاڑئی چرائی اور اس میں بیٹھ کر فرار ہوگیا۔

باپ یہ دیکھ کر زمین پر گر گیا اور پھر ہانپتے کانپتے پولیس اسٹیشن پہنچا تاکہ اپنے بیٹے کے خلاف رپورٹ درج کراسکے۔ پھر انسپکٹر کے سامنے ہی اس نے اپنے بیٹے پر بد دعا کی اور الل سے، اس کی حرکتوں کے سبب اسے دنیا سے اٹھا لینے کا سوال کیا اور اسے عاق بھی کیا۔ باپ کے نکلنے کے بعد حائل کی طرف جانے والی پر روڈ پر جب انسپکٹر ایک ایکسیڈنٹ کا سننے کے بعد پہنچا تو اسے ایک نوجوان کی لاش دیکھ کر سخت تعجب ہوا۔ اسے پہچاننے میں کچھ وقت لگ گیا لیکن کوششوں کے بعد یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی یہ لاش اسی رپورٹ درج کرانے والے باپ کی ہے جس کی دعا اللہ نے بددعا کی دعا کی قبولیت کا وقت ہونے کے سبب قبول کر لی تھی۔ (۱) (سعودی أخبار۔ المدینہ عدد ۱۴۶۰۰) سال ۴۸، بروز اتوار ۳/۸/۱۴۲۷ھ)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۰۔ اپنی بیوی کے سامنے بہنوں اور دیگر قریبی رشتے داروں سے زیادہ ہنسی مذاق مت کیجیے:
ہر کوئی اپنی بہنوں، پھوپھیوں، خالائوں، بھانجیوں اور بھائیوں سے محبت کرتا ہے۔ یہ محارم میں سے ہیں، جن کے ساتھ بیٹھنا اور مذاق کرنا شوہر کے لئے جائز ہے، لیکن اس مقام پر جو غلطی بعض شوہروں نے مراد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شوہر ان محارم کے ساتھ ہنسی مذاق میں مسلسل لگے رہتے ہیں اور بیوی کو شریک نہیں کرتے۔ اور جب بھی ملنے جاتے ہیں ان کا یہی طرزِ عمل ہوتا ہے جبکہ بیوی بیچاری ان کو ہنستے دیکھتی رہتی ہے جس سے اُسے غیرت آتی ہے اور وہ ایسی جگہوں پر جانے کو ناپسند کرنے لگتی ہے۔

مذاق کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن یہ نہیں کہ جب بھی جائیں آپ ان کے ساتھ لگ جائیں اور بیوی خاموش تماشائی بنی بیٹھیی رہے۔ اس طرح کے طرزِ عمل سے بیوی کو غیرت آتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ شوہر کے گھر والوں کو ناپسند کرنے لگے یا شوہر ہی کو ناپسند کرنے لگے اور پھر مصیبتوں کا آغاز ہو۔ بیوی شوہر سسرال جانے سے انکار کرے کیونکہ اسے غیرت آتی ہے اور اسے علم ہے کہ شوہر وہاں پر اس کی پرواہ نہیں کرے گا۔ ایسے طرزِ عمل کا انجام المناک بھی ہوسکتا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ شوہر الگ بیٹھے یا جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے اور اپنی بیوی کو بھی دوسرے رشتے داروں کے ساتھ مذاق میں شریک کرے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۲۔ ہم بستری سے پہلے کے مقدمات/ دل لگی کرنا:
میاں بیوی کے درمیان جنسی عمل کئی مرحلوں سے ہوکے گذرتا ہے۔ سب سے پہلے عورت کو جنسی طور پر اجارا جاتا ہے پھر جب وہ اس طرف مائل ہوتی ہے تو اس کی آواز پر لبیک کہا جاتا ہے پھر اس سے تھوڑی دل لگی کی جاتی ہے۔ دل لگی سے مراد یہاں پر عورت کے جسم کے مختلف حصوں کو محبت بھرے انداز میں چھونا ہے۔ جس سے اس میں جنسی عمل کی خواہش پیدا ہو اور اس دوران ایسے حصوں کو خاص طور پر چھوا جاتا ہے جو اس کے جنسی جذبات پر انگیختہ کرنے کا باعث بنیں۔ اس دوران میں شوہر اس سے پیار محبت کی باتیں کرے اور اس کی خوبصورتی اور جسم کے خاص حصوں کی تعریف کرے۔ دل لگی میں ایک اور اہم چیز بولتے ہیں۔ شوہر بیوی کے ہونٹوں، گالوں اور کانوں وغیرہ پر محبت لبریز بوسے دیتا ہے اور انھیں پیار کرتا ہے۔ اس قسم کی حرکات دونوں میاں بیوی میں جنسی عمل کی خواہش کو شدید تر کر دیتی ہیں اور انھیں اس عمل میں صحیح معنوں لذت کا احساس ہوتا ہے۔

نیز میں اس عمل کو شوہر کی ذمے داریوں کے باب میں ذکر کیا ہے اگرچہ یہ میاں بیوی کا مشترکہ عمل ہوتا ہے لیکن بیوی کے لئے اس کی اہمیت کہیں زیادہ ہے کیونکہ عورت کو ہمیشہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لئے ہم بستری سے پہلے کے یہ مقدمات عورت کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور اس پورے جنسی عمل کا ایک حصہ ہیں بخلاف مرد کے جس کے لئے یہ مرحلہ ہوسکتا ہے کہ اتنا ضروری نہ ہو۔ اس لئے مردوں کو چاہیے کہ اس مرحلے پر خاص خیال رکھیں تاکہ ان کی بیویاں اپنی جنسی رغبات کی تکمیل کرسکیں۔ چناچنہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ: تم میں سے کوئی اپنی گھر والی کے ساتھ اس طرح سے نہ کرے جیسے جانور جانور کے ساتھ کرتا ہے بلکہ اس سے پہلے کچھ بات چیت اور بولے وغیرہ دے۔ (۱) بہیقی نے حدیث روایت کی اور اسے منکر کہا ہے۔ )

یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کا معنی صحیح ہے اور حدیث میں مذکور کلام اور بوسے کی ترتیب پوری طرح سے مطلوب ہے۔ کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے پاس آتے تو بوسے سے ابتداء کرتے۔

رہ گیا سوال یہ کہ بوسہ کیسے دینا چاہیے تو شریعت نے اس کا فیصلہ میاں بیوی پر چھوڑ دیا ہے جس طرح سے ان کے مزاج کو موافق آئے اور ان کی طبیعت کو پسند ہو۔ لیکن یہ بات ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جسموں کا باہم ملاپ ہوتے ہوئے طویل بوسہ اور ساتھ میں کبھی نظروں کا ملنا اور جسم میں جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے حصوں کو چھونا ایک ایسا عمل ہے جو بیوی کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر مطمئن کرتا ہے اور اسے شوہر کی طرف راغ کرتا ہے جس سے دونوں میاں بیوی کو جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے اور بوسہ صرف چہرے اور گالوں پر نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ حدیث وارد لفظ عام ہے اس لئے بوسہ جسم کے کسی حصے پر بھی دیا جاسکتا ہے جدھر بوسے دینے سے جنسی جذبات کو تحریک ملتی ہے۔ اس دوران وہ پیار بھری باتیں بھی کرتا رہے۔ (۱) (اللقاء بین الزوجہ فی ضوء الکتاب والسنۃ (ص ۹۱۔ ۹۲)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۳۔ اپنی بیوی کے جنسی خواہش کی تسکین کرے:
اس طرح کی معلومات سے عموماً نوبیاہتا جوڑے لاعلم ہوتے ہیں اس لئے ہم یہاں پر کچھ امور ذکر کر رہے ہیں۔

جیسا کہ پچھلے صفحات پر گذرا کہ ہم بستری سے پہلے اس کے کچھ مقدمات کا ہونا ضروری ہے جیسے گلے لگانا، بوسہ دینا، پیار محبت بھری باتیں کرنا تاکہ دونوں اشخاص نفسیاتی اور جسمانی طور پر جنسی عمل کے لئے تیار ہوسکیں اور ان کے اندر کی شہوت پوری طرح سے ابھر آئے اور جنسی عمل آسانی کے ساتھ انجام پاجائے۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنی حاجت پوری کر لیتا ہے تو وہ اپنے ساتھی کو چھوڑ کر نہ جائے بلکہ اس کی جنسی خواہش کی تسکین کا انتظار کرے۔ عموماً مرد وہ کے جذبات عورتوں سے پہلے بھڑکتے ہیں اور اسی لئے وہ عورتوں سے پہلے بھڑکتے ہیں اور اسی لئے وہ عورتوں سے پہلے فارغ ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض تحقیقات سے تو پتہ چلا ہے کہ عورتوں کے جذبات دس سے بیس منٹ کے بعد ابھرنا شروع ہوتے ہیں اور اتنا وقت مردوں کی فراغت کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس لئے مرد کو چاہیے کہ وہ صبر کرے یہاں تک کہ اسے پتہ چل جائے کہ عورت فارغ ہوچکی ہے کبھی مرد بھی عورت سے پہلے فارغ ہوسکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ اس کا وطیرہ نہ ہو کیونکہ اگر اس طرح ہی ہوتا رہا اور عورت اپنی جنسی تسکین نہ کرسکی تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوجائے گی اور عینی ممکن ہے کہ شرم کی وجہ سے اپنے شوہر کو یہ بتا نہ پائے اور میاں بیوی کے درمیان مشکلات کا دور شروع ہوجائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۴۔ اکٹھے غسل کرنا:
ایک اور اہم عمل جس سے میاں بیوی کی باہمی محبت و الفت میں اضافہ ہوتا ہے وہ ہے دونوں کا اکٹھے غسل کرنا۔ مشہور عالم اور محدث شیخ محمد ناصر الدین البانی اپنی کتاب (آداف الزفاف فی السنۃ المطہرۃ) میں لکھتے ہیں۔

میاں بیوی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اکٹھے ایک جگہ پر غسل کریں اگر چہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔

اس باب میں کئی احادیث ہیں۔

۱۔ عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتی ہیں، میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن کے غصل فرماتے تھے اور ہم ہمارے ہاتھ اس میں پڑتے تھے۔ اللہ کے رسول مجھ سے پہلے ہاتھ ڈال لیتے تھے حتیٰ کہ میں کہتی تھی، کچھ پانی میرے لیے بھی چھوڑ دیں۔
آپ فرماتی ہیں۔ ہم دونوں جنبی ہوتے تھے (۱) (متفق علیہ)

۲۔ معایہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اپنے خاص مقامات میں سے ہم کیا چھپا سکتے ہیں اور کیا چھوڑ سکتے ہیں:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: (اپنی بیوی اور لونڈی کے سوائے ہر ایک سے اپنی شرمگاہ کو چھپائو) میں نے کہا: اگر سارے اکٹھے ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم سب سے اپنی شرمگاہ چھپا سکتے ہو تو چھپائو۔ میں نے کہا: اگر ہم میں سے کوئی اکیلا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ زیادہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس سے شرمایا جائے۔ (۲) (اصحاب سنن)

ابن عروہ حنبلی اپنی کتاب کواکب میں فرماتے ہیں: میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے مکمل جسم کی طرف دیکھنا جائز ہے اور اسے چھونا بھی جائز ہے یہاں تک کہ عورت کی اندازم منانی بھی جس کی دلیل یہ حدیث ہے: نی اندام نہانی سے جب مرد کا لذت اٹھانا جائز ہے تو باقی کی طرح اس کو دیکھنا اور چھونا بھی جائز ہوا۔ (۱) (آداب الزفاق۔ ص ۱۰۸۔۱۱۲)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۵۔ ہم بستری کے بعد بھی بوسہ دے اور گلے لگائے:
جنسی عمل میاں اور بیوی کے لئے قدرے مختلف ہوتا ہے چنانچہ مرد جنسی عمل سے پہلے بوسہ دینا اور گلے لگانا پسند کرتا ہے۔ اسی طرح سے عور ت کو بھی یہ بہت پسند ہے یہاں تک کہ اس کے اندر جسنی عمل کی خواہش جاگ جائے اور یہ سب سے بہترین طریقہ ہے ہم بستری میں مرد اور عورت دونوں ہی شریک ہوتے ہیں۔ لیکن فراغت کے بعد دونوں میں فرق پایا جاتا ہے۔ فراغت کے بعد عموماً سست پڑجاتا ہے اور اس کے لئے جنسی عمل ختم ہوجاتا ہے لیکن عورت کے لئے یہاں پر جنسی عمل ختم نہیں ہوتا، وہ فراغت کے بعد بھی گلے لگانا اور بوسہ دینا پسند کرتی ہے۔ یہ خواہش اسے یہ احساس عطا کرتی ہے کہ وہ مرد کے ہاتھ میں کوئی آلہ نہیں ہے جس کے کھیل سے وہ اسے پھینک دیتا ہے۔ اسی بناء پر بعض عورتیں چھوٹی سردی یا منصوعی خوف کا مظاہرہ کرتی ہیں تاکہ مرد کے گلے لگ سکیں۔

ایسے میں عقلمند شوہر وہ ہوتا ہے جو فراغت کے بعد بھی عورت کے جنسی جذبات کی تسکین کرتا ہے۔ فراغت کے بعد مرد کا عورت کو بوسہ دینا اور گلے لگانا اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ مرد اب بھی عورت کی طرف مائل ہے اور ویسے بھی ہم بستر کا محبت کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۶۔ ہمبستری کے علاوہ بھی نرمی سے پیش آئے۔
عائشہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ دیتے جبکہ آپ روزے سے ہوتے (۱) (صحیح الجامع الصغیر البانی (۴۹۹۸) نیز آپؓ فرماتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض ازواج کو بوسہ دیتے اور پھر نماز پڑھتے، اور وضوء نہ فرماتے تھے (۲) (ایضاً ۴۹۹۷) تو یہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے بھی اپنی بوی کو بوسہ دے رہے ہیں اور نماز پڑھنے کو جاتے وقت اپنی بیوی کو بوسہ دے رہے ہیں۔ یہ سارے اوقات ہم بستری کے اوقات نہیں نہ اس سے پہلے کئے جانے والی دل لگی کے اوقات ہیں۔ بلکہ یہ عبادات کے اوقات ہیں لیکن یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج سے محبت کا اظہار ہے اور ان کو یہ بآواز کرانا ہے کہ وہ محض ہم بستری کے لئے نہیں بلکہ ہمہ وقت پیار و محبت کے لئے ہیں۔

پچھلے صفحات میں ہم نے احادیث نقل کی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہؓ کو اے عائشہ یا اے حمیراء کہہ کر ملاتے تھے۔ نیز غیر اوقات میں جماعر اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عائشہؓ کے ساتھ غسل کرنا۔ اس طرح محبت بھرے اسلوب ازدواجی زندگی میں الفت و محبت کے نئے رنگ بھر دیتے ہیں اور محبت بیوی کی باہمی محبت و پیار میں زیادتی کا باعث بنتے ہیں۔

137۔ عائشہؓ فرماتے ہیں کہ میں بیٹھی ہوئی اون کات رہی تھی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتی سی رہے تھے۔ آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگا اور آپ کا پسینہ فوراً ہی نور میں تبدیل ہونے لگا۔ یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: کیا ہوا عائشہؓ؟ تم بہت حیران نظر آرہی ہو؟ میں نے کہا: آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگا اور آپ کا پسینہ فوراً ہی نور بننے لگا۔

اگر ابو بکر الھذلی یہ دیکھ لیتا تو جان لیتا کہ آپ اس کے شعر کے زیادہ مستحق ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر الہذلی نے کیا کہا ہے اے عائشہؓ؟ میں نے کہا وہ کہتا ہے:

ترجمہ: وہ ہر خراب حیض والی اور فاسد دودھ پلانے والی اور ہر بری بیماری سے بری ہیں۔

جب آپ ان کے چہرے کی لکیروں کو دیکھیں گے تو آپ کو ایسا لگے گا تو وہ ایسا چمک رہا ہوگا جیسے نیا آنے والا بادل چمک رہا ہوتا ہے۔ آپ فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میری پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: اللہ تمہیں جزائے خیر دے میری طرف سے عائشہ: تم مجھ سے اتنی خوش نہیں جتنا میں تم سے خوش ہوں۔ (۱) (حلیۃ الاولیاء: الحافظ الاصبہانی ۲/۴۵)

ایک بہت ہی خوبصورت، دل کو لبھا دینے والا منظر، الفاظ کا خوبصورت استعمال اور واقعے کی بڑی دلکش تصویر کہتی! جہاں ایک پر سکون اور پائیدار گھریلو زندگی ہے۔ محبت ہی محبت، پیار ہی پیار، یہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے۔

یہ وقت کام کا وقت تھا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہؓ دونوں ہی کام میں مصروف تھے جو عائشہؓ کی دانائی اور محبت سے محبت بھرے لمحات میں تبدیل ہوگیا۔ اس لئے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا لئے نمونہ بنانا چاہیے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۷۔ ماہواری کے ایام کے دوران دل لگی کرنا:
ماہواری کے دن عورتوں کے یہاں بیماری کے دن شمار ہوتے ہیں لیکن اس کا اثر ہر عورت پر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کوئی عورت ماہواری میں بالکل ہی بستر سے لگ جاتی ہے اور کوئی ایسی ہوتی ہے جسے درد ہوتا ہے لیکن وہ کام کرتی رہتی ہے اور کسی کسی کو ہلکا سا درد محسوس ہوتا ہے۔ اسی لئے بعض عورتیں مردوں کا ان ایام میں قریب آنا ناپسند کرتی ہیں اور بعض اپنی حالت کے مطابق آنے دیتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں عقلمند شوہر وہ ہوتا ہے جو اپنی بیوی کی طبیعت کو دیکھتا ہے کہ وہ کس عورتوں میں سے ہے۔ اگر وہ ایسی عورتوں میں ہوتی ہے جو بہت بیماری ہوجاتی ہے اور تھکاوٹ کا شکار رہتی ہیں تو اسے چھوڑ دیتا ہے اور اگر اس کی بیوی کو دل لگی کرنے میں کوئی مذائقہ محسوس نہیں ہوتا تو وہ دل لگی کرتا ہے بوسہ دیتا ہے لیکن ہم بستری نہیں۔ اس قسم کی پیار بھری حرکتیں اور ایسی دل لگی عورت کو یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ شوہر کی حال میں محبوب ہے نہ کہ صرف پاکی کی حالت میں۔ اس سے اس کا یہ اعتقاد مضبوط ہوتا ہے کہ اس کا شوہر اس سے ہر حال میں محبت رکھتا ہے اور اس کی محبت محض دوچار راتوں کی ہم بستری نہیں ہے۔

مندرجہ ذیل میں ہم بعض احادیث پیش کر رہے ہیں جن سے آپؐ کو ازواج مطہرات کے ماہواری ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل پتہ چلتا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں (سب کچھ ماسوائے ہم بستری کے )(۱) (مسلم) عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتی ہیں، جب ہم میں سے کوئی ماہواری ایام میں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کپڑا باندھنے کا حکم دیتے پھر اس کے ساتھ لپیٹتے۔ (۱) (متفق علیہ)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماہواری ایام گذرتی ہوئی کسی زوجہ کے پاس آنے کا ارادہ فرماتے تو اس کی شرم گاہ پر کپڑا ڈال دیتے پھر جو کرنا ہوتا کرتے۔ (۲) (ابوداود، حدیث صحیح ہے)

عائشہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتی ہیں ، جب بھی ماہواری ایام میں ہوتی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیالے سے پانی پیتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے منہ کی جگہ پر اپنا منہ رکھتے اور پانی پیتے۔ (۳)(متفق علیہ)
 
Top