• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۴۶۔ شیطان سے بچو۔ ۔ اسعد الزوجین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۸۔ گھریلو کام کاج میں اس کی مدد کے لئے نوکرانی رکھنا:
بعض دفعہ شوہر صاحب حیثیت لوگوں سے ہوتا ہے اور شادی کے بعد بڑی کوٹھی میں رہتا ہے اس طرح بڑے گھروں میں بہت سے کام ہوتے ہین۔ صفائی کپڑوں کی استری وغیرہ۔ پھر جب بچے پیدا ہوجاتے ہیں تو عورت کے لئے کام اور بڑھ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں مہربان اور شفیق شوہر اپنی بیوی کی معاونت کے لئے کوئی نوکرانی وغیرہ رکھتا ہے جو اس کے گھریلو کاموں میں اس کا ہاتھ بٹا سکے۔ لیکن یہ کام شرعی ضوابط و قواعد کے مطابق ہونا چاہیے۔ نہ غیر شرعی اختلاط ہو اور نہ خلوت۔ نیز نوکرانی آجانے کے بعد بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کا اور بھی خیال رکھے۔ چنانچہ شوہر کو کھانا پانی دینا۔ اس کے کپڑے استری کرکے دینا یہ سب کام بیوی خود کرے کیونکہ اس سے باہمی الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نوکرانی کا ان امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۹۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی منصوبہ بندی کرنا:
بہت سے شوہر یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے ریٹا بھی ہونا ہے اور پھر ان کے پاس کرنے کو کوئی کام کاج نہیں ہوگا۔ آفس میں ایک اہم عہدہ سنبھالنے کے بعد ملازمین کو مختلف ہدایات اور احکام جاری کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کے وہ ایسا ہوجاتا ہے جیسے اس نے ایک سب کچھ کھو دیا ہو۔ جہاں پہلے سارا وقت آفس میں گزرتا تھا اور تھوڑا وقت گھر میں گزرتا تھا۔ اب سارا وقت گھر میں گذرتا ہے پہلے بہت مصروف رہتا تھا، فرصت نہیں ملتی تھی۔ اب کرنے کو کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔

یہ اچانک فراغت اسے ایک طرح کا ذہنی مریض بنا دیتا ہے اور وہ ہدایت پر جھنجھلاہٹ لگتا ہے اور گھر میں کرنے کے لئے کوئی بھی کام ڈھونڈنے لگتا ہے تاکہ اپنا وقت گذار سکے۔ چھوٹی موٹی چیزیں خود صحیح کرتا ہے اور ہر چیز کا خیال خود رکھتا ہے۔ گھرمیں نئے نئے کام کرتا ہے! یہاں سے گھر میں ازدواجی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو چیزیں اس نے کل مصروفیت کی وجہ سے نہیں عددیکھی تھیں وہ آج دیکھ رہا ہوتا ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میاں بیوی اور بچوں کے درمیان مشکلات بڑھتی ہیں اور خاص طور پر میاں بیوی کے درمیان کیونکہ بیوی اس شوہر کے اس اسلوب کی عادی نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان میں ناچاقی پیدا ہوسکتی ہے اور بات طلاق تک پہنچ سکتی ہے۔

اس لئے شوہر کو چاہیے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کے دنوں کے لئے منصوبہ بندی کرے اور کیا جمع کیا کچھ پیسہ تجارت وغیرہ میں لگائے تاکہ اس کے پاس کچھ پیسے آتے رہیں یا کسی فلاحی مرکز میں کام کرے یا کتابوں وغیرہ کی دکان کھول لے جہاں وہ کوئی کتاب وغیرہ تصنیف کرے الغرض اپنا وقت اور تجربہ ضائع نہ کرے اور اسے کام میں لائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۵۰۔ بیوی پر ہاتھ نہ اٹھائے۔
مارنا کمزور شخص کا کام ہوتا ہے جو اپنے حریف یا رفیق کو کسی بات پر قائل نہیں کر پاتا اور جھنجھلا کر مارنے پر اتر آتا ہے اور پھر جو شخص کمزور و ناتواں لوگوں پر ہاتھ اٹھائے تو ایسے شخص سے زیادہ لاچار اور بے بس شخص کوئی نہیں ہے۔ بعض شوہر، اللہ انھیں ہدایت دے۔ معمولی سے معمولی بات پر اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔ کوئی شخص اسے اس لئے مارتا ہے کیونکہ اس نے اونچی آواز میں بات کی اور دوسرا اپنی بیوی کو اس لئے مارتا ہے کیونکہ اس نے بات کا جواب صحیح طریقے سے نہیں دیا اور تیسرا اس لئے مارتا ہے کیونکہ وہ اس سے پوچھے بغیر گھر سے نکل گئی۔ وغیرہ اور اگر بالفرض بیوی کوئی غلط یا برا کام کر بھی جائے جو قابل سزا ہو تو ایسی صورت میں مار بہت زیادہ سخت نہیں ہونی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور جن سے تمہیں نافرمانی کا خوف ہو تو ان کی نصیحت کرو (پھر اگر نہ مانیں تو) بستروں پر سے ان کو الگ کر دو (پھر بھی اگر نہ مانیں تو) ان کو مارو پھر اگر تمہاری اطاعت کریں تو ان پر زیادتی نہ کرو۔ بے شک اللہ بہت بلند اور بڑا ہے۔ (۱) (سورۃ النساء: آیت ۲۵)

آیت پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آیت میں بیان کردہ سزا بالترتیب ہے،

۱۔ نصیحت ۲۔ بستروں سے الگ کر دینا ۳۔ اور آخر میں مارنا
سلف کے اقوال پڑھنے سے پتہ چلتا ہے مارنا ایسا ہو جس سے تکلیف نہ ہو۔ فقہاء فرماتے ہیں ایسے مارے کہ اس کا کوئی عضو نہ توڑے اور نہ کوئی ظاہری چوٹ لگے۔ (۲) (تفسیر ابن کثیر: نساء آیت ۲۴)

بلکہ فقہاء نے اس (ضرب) کی کچھ شرائط مقرر کی ہیں:
۱۔ ضرب اس وقت ماری جائے جب وعظ و نصیحت اور ان سے الگ ہوجانا فائدہ نہ دے رہا ہو۔
۲۔ شوہر کو یہ یقین ہو کہ مارنے سے فائدہ ہوگا اور وہ نافرمانی سے باز آجائے گی۔
۳۔ عورت کا مرد پر کوئی حق باقی نہ ہو اور نہ ہی اس کے اور شوہر کے درمیان کوئی دشمنی چل رہی ہے۔
۴ ۔ ضرب چہرے یا کسی اور نازک حصے پر نہ ماری جائے۔
۵۔ ضرب بہت شدید نہ ہو اور فقہاء کا اجماع ہے کہ شوہر کو اگر معلوم ہوجائے کہ سختی سے مارنے پر عورت نافرمانی چھوڑ دے گی تو اس کے لئے مارنا جائز ہی نہیں ہے۔
ضرب کی کیفیت : مفسروں نے اس بات پر مفتق ہے کہ نافرمان عورت کو مارنا اس طرح سے ہو کہ نہ کوئی ہڈی وغیرہ ٹوٹے اور نہ کوئی زخم لگے۔ (۱) (موقف الاسلام منہ نشوز لزوجیہ آرا وھما ڈاکٹر نور حسن قاروت ص ۱۴۶۔ ۱۴۸)

مارنے والا یہ شوہر یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا یہ ہاتھ جو غصے کے وقت بیوی کو مارنے کے لئے اٹھا وہی ہاتھ ہے جو میں نے ضرورت کے وقت بیوی کو گلے لگایا تھا! ستیا ناس ہو ایسے ہاتھ کا جو اپنی ضرورتوں کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اور سخت ضرب وہ ہوتی ہے جس سے دل میں شوہر کے لئے نفرت کے جذبات ابھرتے ہو ںاور بیوی ہمیشہ خوفزدہ اور چوکنی رہنے لگے کہ اس سے کوئی غلطی نہ ہو۔ ایسی صورتحال میں بیوی جائے ازدواجی زندگی کی چاشنی کھو بیٹھتی ہے اور زندگی اکتاہٹ اور بوریت کا شکار ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ عموماً یہ نکلتا ہے بیوی شوہر کو ناپسند کرنے لگتی ہے اور ان کے درمیان محبت اور الفت یکسر مفقود ہو کر رہ جاتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۵۱۔ غم و پریشانی کے وقت بیوی کو تسلی دینا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا:
بعض اوقات بیوی برے حالات کا شکار ہوتی ہے۔ کبھی کسی قریب یا دور کے رشتے دار کی وجہ سے یا تجارتی خسارے کی وجہ سے یا اور کسی بناء پر اس کا ذہن پریشان رہتا ہے۔ ایسے میں شوہر کو چاہیے کہ اس کو تسلی دے اور اس کی پریشانی کا حل نکالنے کی کوشش کرے۔

ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صفیہؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ آپؓ رو رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی اچھی باتیں کرکے انھیں خوش کر دیا۔ مصنف کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کی اسحاق بن منصور اور عید بن حمید نے کہ ہمیں خبری دی عبد الرزاق نے (انھوں نے کہا کہ) ہمیں خبری دی معمر نے جنہوں نے ثابت سے روایت کی اور انھوں نے انس سے انہوں نے کہا: صفیہؓ کو یہ پتہ چلا کہ حفصہؓ نے انھیں یہودی کی بیٹی کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفیہؓ کے پاس آئے تو آپ رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ انھوں نے کہا: حفصہ کہتی ہے میں یہودی کی بیٹی ہوں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تم انہی کی بیٹی اور تمہارے چچا بھی نبی ہیں... پھر حفصہ کس چیز میں تم پر فخر کر رہی ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حفصہ اللہ سے ڈرو۔ (۱) (ترمذی، ابن حبان)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۵۷۔ عدل و انصاف
ظلم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے اور اس کو ذہنی طور پر ناکارہ بنا دیتی ہے

ظلم جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں؛

''ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی شکل میں ظاہر ہوگا''۔ (۱) (بخاری)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم عدل و انصاف کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ انصاف کرنے والے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دائیں طرف نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ دونوں ہاتھ دائیں ہاتھ ہیں انصاف کرنے والے ان کے گھر والے ان کی اولادیں ار جن کے وہ مالک ہیں۔ (۲) (ابن حبان، احمد)

بیوی پر ظلم کی ایک صورت یہ ہے کہ جو مال یا پیسہ جو اسے ملتا ہے یا جو وہ کماتی ہے اسے بغیر اس کی مرضی کے لیے لیا جائے۔ ایک اور صورت یہ ہے کہ اسے گھر میں قید کر دیا جائے اور باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ بیوی پر ظلم میں یہ بھی شامل ہے کہ شوہر لمبے عرصے تک اس سے دور رہے اور اس کی جنسی خواہش کی تسکین نہ کرے۔ ظلم کی ایک اور صورت یہ ہے کہ شوہر کے خلاف منصوبے بنائے تاکہ وہ خود ہی طلاق مانگ لے۔ اسی لئے اللہ سے ڈرنے والے شوہر وہی ہوتا ہے جو بیوی پر ہر قسم کے ظلم سے پرہیز کرتا ہے۔
 
Top