• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۴... کسی فلسفے کو دین پر ترجیح دینا۔ نواقض اسلام۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴... کسی فلسفے کو دین پر ترجیح دینا

من اعتقد ان غیر ھدی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم أکمل من ہدیہ أو أن حکم غیرہ احسن من حکمہ کالذي یفضل حکم الطواغیت علٰی حکمہٖ۔
جس نے یہ سمجھا کہ نبی کریم ﷺ کے علاوہ کسی اور کا طریقۂ زندگی زیادہ مکمل اور جامع ہے یا یہ عقیدہ رکھا کہ نبی کریم ﷺ کے طریقۂ حکمرانی سے بہتر اور کوئی طریقہ حکمرانی ہے تو وہ کافر ہے۔

اس مختصر کلام میں کئی مسائل مذکور ہیں:
۱) جو شخص یہ نظریہ قائم کرے کہ رسول اﷲ ﷺ کی ہدایت کے علاوہ کسی اور کی ہدایت زیادہ کامل وبہتر ہے۔ تو ایسا شخص مسلمان ہی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس کا یہ عقیدہ کتاب وسنت اور عقل سلیم کے خلاف ہے۔ نبی کریم ﷺ اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے ۔
أما بعد فِان خیر الحدیث کتاب اﷲ ' وخیر الھدی ھدی محمدٍ۔ (صحیح مسلم:۸۶۸)
سب سے بہترین کلام کتاب الٰہی ہے۔اور سب سے بہترین ہدایت محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہدایت محمدی کامل ترین ہے کیونکہ آپ ﷺ کا منہج وحی الٰہی پر مبنی ہے۔ اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے۔
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی (نجم:۴)
''(نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا )جو کہتا ہے وہ صرف وحی سے کہتا ہے۔''

اس آیت کی رو سے علماء کرام نے اجماع کیا کہ اسلامی قوانین میں قرآن کے ساتھ سنت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سنت ایک مستقل بنیاد ہے۔ احکام اسلامی میں قرآن کے ساتھ سنت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حلال وحرام میں قرآن کی طرح سنت کو اہمیت حاصل ہے۔اسی لیے رسول اﷲ ﷺ نے جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اہل کتاب کی کتاب دیکھی تو فرمایا:
أمشغولون فیھا یا ابن الخطاب؟ والذی نفسی بیدہ لقد جئتکم بھا بیضاء نقیۃ۔ (مسند احمد:۱۴۸۶۰)
اے عمر بن خطاب کیا تم اب بھی ان کتابوں میں مشغول ہوتے ہو۔اﷲکی قسم! میں تمہارے پاس ایک واضح اور شفاف دین لے کر آیا ہوں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعتِ محمدی تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کرنے والی ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے کیونکہ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے:
أحب الادیان الی اﷲ الحنیفیۃ السمحۃ۔ (صحیح الجامع:۱۶۰، الأدب المفرد للبخاری)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اﷲتعالیٰ کو تمام دینوں میں سے سیدھا اور یک طرفہ دین اسلام پسند ہے۔
ان احادیث پر غور کیجئے اور بتائیے کیا اب بھی ہدایت محمدی ﷺ سے بہتر کوئی اور ہدایت ہوسکتی ہے۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :
والذ ي نفسی بیدہ ، لو کان موسیٰ بین اظھرکم ، ثم اتبعتموہ وترکتمونی لضللتم بعیدًا۔ (سنن دارمی:۴۴۹)
یعنی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی تمہارے پاس آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع کرنے لگ جاؤتو تم گمراہ ہوجاؤگے۔

اسلام میں جہاں ایک طر ف مذہبی شعائر یعنی عبادت کے طریقے ہیں تو دوسری طرف اس کے سماجی نظریات ،معاشی ضابطے، سیاسی احکامات اور مملکت کے نظام کا پورا طریقہ بھی دین ہی کا حصہ ہیں ۔جو سیاست ،نظام تعلیم، نظام معیشت اور سماجیات کے دیگر افکار میں سے کسی ایک معاملے میں کسی فلسفے یا نظریے کو اللہ کے دین پر تر جیح دیتا ہے تو وہ کافر ہے ۔جو شخص نماز اور زکوٰۃکے معنی ہی بدل دے جیسا کہ آج منکرین حدیث کر رہے ہیں یا کہے کہ سور کھانے میں کیا حرج ہے ؟شراب پینے ،گانے بجانے اور رقص کرنے میں کیا برائی ہے؟ تو وہ حرام کو حلال کرنے کی بنا پر کافر ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے ذریعے اس امت کو کامل دین دیا:

{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْنًا} (المائدۃ:۳)
''آج میں نے تمہارے لیے تمہارادین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔''

اس کامل دین کے سوا اللہ کے ہاں کوئی اور دین قابل قبول نہیں ۔
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آلِ عمران: ۸۵)
''جو شخص اسلام کے سواکوئی اور دین تلاش کرے تو اس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا۔''

جوشخص یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اﷲکے حکم کے علاوہ کسی اور کا حکم اچھا اور احسن ہے تو اس کا یہ نظریہ اسلام کے خلاف ہے ۔ایسا شخص علماء امت کے اجماع کے کی رو سے کافر ہوگا۔یہ لوگ اس لئے کافر ہوں گے کہ انہوں نے اللہ احکم الحاکمین کی نازل کردہ شریعت کے مقابل کم تر لوگوں کے قوانین 'یا اپنے خودساختہ قوانین کو رسول اﷲ ﷺ کے دیئے ہوئے منہاج حیاۃ سے بڑھ کر سمجھا ہے۔اﷲتعالیٰ نے اپنے رسول کو مبعوث ہی اسی لیے کیا تھا کہ آپ لوگوں کو شرک کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی کی طرف لائیں۔ لہٰذا اب کوئی دوسرا نظریہ یا قانون کیسے بہتر ہوسکتا ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
الۗرٰ۝۰ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ۝۰ۥۙ بِـاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ۝۱ۙ (ابراہیم:۱)
ہرمسلمان مرد،عورت پر واجب ہے کہ وہ اس بات سے روشناس رہے کہ اﷲ اور اس کے رسول کا ہر حکم تمام حکموں سے افضل اور مقدم ہے۔لوگوں میں کوئی بھی مسئلہ پیش آئے اس کو حل کرنے کے لیے اﷲاور اس کے رسول کی طرف رجوع کیا جائے ۔جو شخص اﷲاور اس کے رسول کے حکم کو چھوڑ کر کسی دوسرے کےحکم کو مرجع بناتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ کافر ہوگا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور جس نے انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے طاغوتی قوانین کو رسول اللہ ﷺ کے طریقہ سے بہتر سمجھا۔ یا زانی کو رجم کرنے اور چور کے ہاتھ کاٹنے کو آج کے دور کے لیے نامناسب خیال کیا یا انسان کے خود ساختہ قوانین کے ذریعے فیصلہ کرنا جائز سمجھا پس وہ کافر ہے ۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۝۰ۭ وَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۶۰ (النساء:۶۰)
''کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا انکار کریں ۔شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور کی گمراہی میں ڈال دے۔''

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۝۶۵ (النساء:۶۵)
''سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔''

وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ۝۴۴ (المائدۃ: ۴۴)
''اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں۔''

غیر اللہ کے دستور کو حکم الٰہی پر ترجیح دینے کے تین صورتیں ہیں :
(۱)یہ عقیدہ رکھے کہ غیر اللہ کا حکم علی الاطلاق اللہ کے حکم سے افضل اور برتر ہے۔
(۲) یہ عقیدہ رکھے کہ کسی خاص معاملہ میں انسانی دستور' شریعت الٰہی سے زیادہ لوگوں کی اصلاح کرنے والاہے ۔
(۳)یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کا حکم انسانی دستور سے زیادہ کامل توہے مگر ہر زمانے میں نہیں۔اس ترقی یافتہ دور میں حکم الٰہی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔
یہ تینوں صورتیں کفر اکبر ہیں ۔کیونکہ ان میں اللہ کے حکم اور اس کے قانون میں نقص و عیوب کی نسبت پائی جاتی ہے ۔
تعالی اللہ عما یقول الظالمون علوا کبیرا
 
Top