• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’السنن الکبریٰ‘ کا منہج

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
’السنن الکبریٰ‘ کا منہج

امام بیہقی رحمہ اللہ اور منہج کتاب
ہر وہ شخص جو امام بیہقی رحمہ اللہ اور ان کے علمی آثار سے مکمل یا معمولی دلچسپی رکھتا ہے وہ جان جائے گا کہ امام بیہقی ایک علمی منہج والے شخص تھے ۔ انہوں نے اپنی تصانیف کو بھی قاعدہ، قانون اور اصول کے تحت تشکیل دیا ہے ۔ یہ علمی منہج انہیں اپنی تالیف شروع کرنے سے پہلے ممتاز بنا دیتا ہے ۔
امام بیہقی نے اپنی تالیفات کو ایک مرکز کے پروگرام پر ظاہر کیا جس پر وہ ’’المدخل‘‘ کا اطلاق کرتے ہیں اور وہ ان مداخل میں اپنے اہداف اور مقاصد کی تدوین کرتے ہیں ۔ نصوص کی تمیز اور تمحیص میں رد اور قبول کے اعتبار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ان اصول و قوانین کے دلائل کی سفارش کی جاتی ہے جس سے آپ کے منہج کی توثیق ہو جاتی ہے ۔
گویا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کا تاثر ’’المدخل‘‘ کے نظام پر صادر ہوتا ہے اور آپ کے علمی عمل کی اہمیت آپ کے استاد امام حاکم کی طرف سے ہے کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب ’’الأکلیل‘‘ کے لیے مدخل کو وضع کیا۔ (الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة المشرفة لمحمد بن جعفر كتاني:21)
السنن الکبریٰ کا منہج
تنظیمی منہج
امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
’’میں اہل حدیث کے طور طریقے پسند کرتا ہوں کہ میں اپنی کتاب میں جو بھی حکایات اور مسانید کو داخل کروں تو ان کو سند کے ساتھ ہی بیان کروں ۔‘‘(بيان خطأ من أخطا على الشافعى لأحمد بن حسين بهيقي:ص 81)
اس لیے امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں جو بھی حدیث،اثر یا حکایت کو درج کرتے ہیں تو اس کی سند کو بھی ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ ان کے لیے اپنی کتاب میں اسانید کا استعمال کرنا ایک وسیع منہج پر موقوف ہے کبھی وہ ایک سند کے سانچے میں متعدد اسانید کو بھی جمع کر لیتے ہیں ۔
متون میں الفاظ کی مختلف حالتوں کے معانی سے وضاحت
متن میں آپ کا منہج الفاظ کے اختلاف کا انکشاف کرنا ہے ۔ غریب کو بیان کرنا، تصحیف، اضطراب اور اس کے معلول ہونے پر تنبیہ کرنا ہے ۔ امام بیہقی احادیث کے معانی کو بھی بیان کرتے ہیں اور اس سے احکام کا استنباط بھی کرتے ہیں ۔
متون کے موضوعات کی فقہی ترتیب
امام بیہقی نے ’السنن الکبریٰ‘ میں متن کے موضوعات کو فقہی ابواب کے مطابق منظم کیا ہے ۔ ’السنن الکبریٰ‘ کو متعدد کتب پر تقسیم کیا مثلاً کتاب الطہارۃ،کتاب الصلاۃپھر کتب کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا وہ ابواب کہلاتے ہیں ۔ مثلاً جماع أبواب الحدیث،جماع أبواب ما یوجب الغسل پھر امام بیہقی رحمہ اللہ فصول میں سے ہر فصل کے تحت بہت بڑی تعداد میں ابواب لاتے ہیں اور یہ ابواب احادیث پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ انہوں نے ان ابواب کو بھی احادیث سے اخذ کیا ہے ۔ اگرچہ ادنی سے بھی مناسبت کیوں نہ پائی جاتی ہو۔
حدیث کی صحت کی وضاحت
امام بیہقی رحمہ اللہ کو حرص یہ تھا کہ وہ احکام کی احادیث کے لیے ایک ایسی جامع کتاب بنائیں جس میں تمام درجات کی احادیث یا آثار کو جمع کر دیں اور صحت کے اعتبار سے ان میں تمیز کر دیں ۔ کیونکہ وہ خود بھی صحیح حدیث کی وضاحت کرتے ہیں تاکہ اس پر عمل کیا جائے اور ضعیف کی بھی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ اس سے بچا جائے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’ میں نے یہ حدیث دو ضعیف سندوں سے روایت کی ہے ان میں سے ایک مرسل اور دوسری موصول ہے ۔‘‘(السنن الكبرى للبيهقي:3/ 128، 6/ 309)
یا پھر کہتے ہیں:
’’اس مسئلہ میں دو ایسی ضعیف حدیثیں ہیں ان جیسی احادیث سے حجت نہیں لی جاسکتی۔‘‘(السنن الکبرى للبيهقي:2/ 222)
یا پھر کہتے ہیں:
’’اس میں دو ایسی ضعیف احادیث ہیں میں نے اختلاف کی وجہ سے ان کو بیان کیا ہے ۔‘‘(أيضا:2/ 96)
حدیث کو مکر ر لانا
امام بیہقی رحمہ اللہ فقہی فوائد کے لیے حدیث کا تکرار کرتے ہیں اور اسے باب میں بیان کرتے ہیں ۔(أیضا:2/ 455-254، 2/ 105) یا سند کی بلندی کے لیے بیان کرتے ہیں ۔ کیونکہ آپ کا منہج استدلال کی بنیاد پر قائم رہتا ہے باب میں نص کو صرف اس لیے بیان کرتے ہیں کہ استدلال کا مقصد ھدف کے پیچھے ایک دوسرا ہدف بھی موجود ہوتا ہے ۔
نقدی منہج

1. معلل ابواب کی تنقیدی وضاحت
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’السنن الکبریٰ‘ کی تصنیف میں ایسا منہج اختیار کیا جس میں وہ معلل ابواب کے طریقہ پر چل پڑے وہ طرق حدیث کو وسیع تنقید کے ساتھ لاتے ہیں۔( السنن الکبری:9/ 403) شاید وہ اس منہج میں امام ترمذی سے متاثر ہوئے کیونکہ انہوں نے اس کی بنیاد رکھی۔(شرح علل الترمذی لأبو الفرج عبدالرحمن بن أحمد ابن رجب:،ص 73،تحقیق صبحی جاسم حمید،مطبعة العانی بغداد)
لیکن مسانید معللہ کے موضوع پر علی بن مدینی، یعقوب بن شیبہ نے کتابیں تصنیف کیں۔(أیضا)
اس منہج کی بنیاد پر امام بیہقی رحمہ اللہ ضعیف حدیث کو بیان کرتے ہیں اس لیے بیان کیا کہ حدیث میں جو بھی علت پائی جاتی ہے اس کا انکشاف آسان بن جائے اور صحیح حدیث نمایاں ہو جائے ۔
تطبیقی منہج
امام بیہقی رحمہ اللہ نے تنقید کی صفت میں تطبیقی منہج کو استعمال کیا ہے۔ ان کے نقد میں شواہد، امثلہ اور براہین پائے جاتے ہیں ۔ آپ کو منہج تطبیقی سے شغف تھالہٰذا آپ نے ایک ہی وقت میں ایجاز و اختصار پر بھی اجتہاد کر دیا اورامام بیہقی رحمہ اللہ نے موقوف حدیث کو بھی بیان کر دیا خصوصاً جن کا تعلق جرح اور تعدیل سے ہے ۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
السنن الکبری کا منہج
بہت قابل تعریف مضمون ہے اسی کا تکملہ مقصود ہے ۔
اس جلیل القدر امام نے اپنی اس کتاب اور دیگر کتب میں حسن لغیرہ کی حجیت پربہت کچھ لکھا ہے اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
انتخاب :ابن بشیر الحسینوی
۔ امام بیہقی اور حسن لغیرہ کی حجیت
امام ترمذی رحمہ اللہ کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ نے ضعیف+ ضعیف کو تقویت دینے میں بڑی وسعت کا مظاہرہ کیا ہے۔

١۔ موصوف کبار تابعین کی مرسل روایت کے حجت ہونے پر رقمطراز ہیں:
''مرسل بیان کرنے والا کبار تابعین میں سے ہو، جب وہ اس شخص کا نام ذکر کرے جس سے حدیث سنی ہوتی ہے تو وہ ایسے لوگ ہوں جو عادل ہوں، ان کی خبر پر اعتباد کیا جاتا ہو، ان اوصاف کا حامل راوی جب مرسل حدیث بیان کرے تو اس کی مرسل حدیث کو دیکھا جائے گا کہ کوئی دوسرا اس کا مؤید ہے؟ یا کسی صحابی کا قول (فتویٰ) اس کی تائید کرتا ہے؟ یا اس کی طرف عام اہل علم گئے ہیں؟ ان تینوں قرائن میں سے ایک قرینہ بھی اس کی تائید کرے تو احکامِ شرعیہ میں اس کی مرسل روایت کو قبول کرتے ہیں۔'' دلائل النبوۃ (١/ ٣٩۔ مقدمہ)

٢۔ امام بیہقی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
''منقطع جب منفرد ہو تو ہم اس کی حجیت کے قائل نہیں، جب اس کے ساتھ کوئی اور (ضعیف روایت مل جائے، یا اس کے ساتھ کسی صحابی کا قول مل جائے یا مراسیل اس کی تاکید کریں اور اپنے سے اقوی کے معارض نہ ہو تو ہم اسے قبول کرتے ہیں۔''
معرفۃ السنن والآثار (١/ ٢٢٩، تحقیق: سید کسروی حسن)

٣۔ ''حدیث کو بیان کرنے میں سيء الحفظ منفرد ہو تو ہم اس سے حجت نہیں پکڑتے، مگر اس کی حدیث ہمارے ذکر کردہ سابقہ شواہد کے ملنے سے حسن (لغیرہ) بن جاتی ہے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے۔''
معرفۃ السنن والآثار (٤/ ٤٩)

٤۔ ''ابراہیم کی عبداﷲ سے روایت منقطع ہونے میں کوئی شک نہیں، مگر وہ مراسیل ہیں، جب بعض بعض کی تائید کرتے ہیں تو ہم اسی موقف کو اپناتے ہیں۔'' السنن الصغیر (٣/ ٢٣٥، حدیث: ٢٤٠١)

٥۔ ''یہ دونوں سندیں اگرچہ ضعیف ہیں، مگر ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔ اور اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اس حدیث کی جعفر سے اصل ہے۔''
دلائل النبوۃ (٧/ ٢٦٩)

٦۔ ''جب اس مرسل حدیث میں صحابی کا قول مل جائے تو امام شافعی کے ہاں وہ حجت ہے۔'' معرفۃ السنن (٣/ ٤٨٥)
علاوہ ازیں محدث بیہقی رحمہ اللہ بہت ساری احادیث کو مختلف عواضہ کی بنا پر تقویت پہنچاتے ہیں، ذیل میں کچھ صورتیں مجمل طور پر ذکر کی جاتی ہیں۔

٧۔ بعض ضعیف احادیث بعض کو تقویت دیتی ہیں۔
السنن الکبری (٢/ ٤١٦)، (٤/ ١٦١)، (٦/ ٦٥) معرفۃ السنن والآثار (٢/ ٢٧٩)، (٤/ ٤٨٥)، (٦/ ١٩٠) دلائل النبوۃ (٦/ ٤٩٥)، (٧/ ٢٦٩) السنن الصغیر (٣/ ٢٣٥، حدیث: ٢٤٠١) مناقب الشافعي للبیھقي (١/ ٢٧)

٨۔ کبھی فرماتے ہیں: اس ضعیف حدیث کو شواہد تقویت دیتے ہیں۔
السنن الکبری (٣/ ١٦٤، ٣٤٨)، (٦/ ٢٢٠) معرفۃ السنن (٤/ ٤٩)، دلائل النبوۃ (٦/ ٤٣٨)

٩۔ صحیح شواہد اسے تقویت دیتے ہیں: السنن الکبری (٢/ ٣٧٨)
١٠۔ ابو خالد الدالانی کی حدیث کثرتِ شواہد کی بنا پر محفوظ ہے۔
السنن الکبری (٩/ ١٢٧)

١١۔ یہ حدیث متعدد اسانید کی بنا پر قوی ہوتی ہے، باوجود یہ حدیث دو صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے۔ السنن الکبری (٥/ ٣١٤)

١٢۔ اس جیسی حدیث شواہد سے مضبوط ہوتی ہے، دو صحابہ کرام کی صحیح احادیث ان دو صحابہ کی احادیث کی شاہد ہیں۔ السنن الکبری (١/ ٢١٨)

١٣۔ عبدالرحمن سے احتجاج نہیں کیا جائے گا، ابو غالب حزور کی ضعیف حدیث اور قتادۃ کی مرسل روایت اس کی مؤید ہیں۔ معرفۃ السنن والآثار (٢/ ٤٠٩)

مرسل:

١٤۔ مرسل مرسل کی تائید کرتی ہے۔
السنن الکبری (٦/ ٢١٩)، (٧/ ١٢٧)، (٨/ ١٣٤) (١٠/ ١٧٦) معرفۃ السنن والآثار (٤/ ٣١٦، ٥١٠)
١٥۔ مرسل کے شواہد اسے تقویت پہنچاتے ہیں۔ معرفۃ السنن والآثار (٢/ ٤٦٠)
١٦۔ مرسل کی تائید اگر کسی صحابی کا فتویٰ کرے وہ امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں حجت ہے۔ معرفۃ السنن والآثار (٣/ ٤٨٥)
١٧۔ مرسل کی تائید آثارِ صحابہ وغیرہ سے ہوتی ہے۔ السنن الکبری (١٠/ ٣٠٤)
١٨۔ ارسال اور ضعف کو شواہد اور آثار تقویت دیتے ہیں۔ السنن الکبری (٩/ ٩١)
١٩۔ مرسل کی متعدد سندیں اسے تقویت دیتی ہیں، اس کے شواہد بھی ہیں اور صحابہ کے اقوال بھی ہیں۔ السنن الکبری (٤/ ١٢٩)، (١٠/ ٣٠٢)
٢٠۔ دو مرسل حدیثیں ایک موصول ضعیف روایت سے مل کر تقویت حاصل کرتی ہیں۔ السنن الکبری (١٠/ ٢٠٢)
٢١۔ مرسل روایت ابن لہیعہ کی موصول روایت سے مل کر قوی ہوجاتی ہے۔معرفۃ السنن والآثار (٢/ ١٥٣)
٢٢۔ مرسل موصول کو تقویت دیتی ہے۔ السنن الکبری (٨/ ٢٦٥)
٢٣۔ مرسل کو شواہد تقویت دیتے ہیں اور وہ موصول بھی گزر چکی ہے۔السنن الکبری (٦/ ٩٠)
٢٤۔ مرسل کو موصول اور صحابہ کا قول تقویت دیتا ہے۔السنن الکبری (٨/ ٢٧٣) معرفۃ السنن والآثار (٦/ ٤١١)
٢٥۔ مرسل روایت اقوالِ صحابہ اور قرآن مجید کی کس آیت کے ظاہر سے مل کر تقویت حاصل کرتی ہے۔ معرفۃ السنن والآثار (٣/ ٤٠٦)

قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام بیہقی کے ہاں جب کوئی قرینہ کسی حدیث کی درستی پر دلالت کرتا ہے وہ اس کی بنا پر اسے حجت قرار دیتے ہیں اور یہی محدثین کا منہج ہے۔(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد حفظہ اللہ)

اسی اصول کی مفصل بحث (حسن لغیرہ کے متعلق اشکالات اور ان کے جوابات،اور انصاف کے ترازو میں)بھی (دین خالص ویب سائیٹ پر)ملاحظہ فرمائیں
 
Top