• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’امریکی صدر کا یکطرفہ طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ‘

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
اعلیٰ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ بدھ کے روز یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیں گے۔ وہ وزارتِ خارجہ کو حکم دیں گے کہ وہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا عمل شروع کر دیں۔ یہ فیصلہ یروشلم کے بارے میں برسوں پر محیط امریکی پالیسی اور بین الاقوامی اتفاقِ رائے کے منافی ہے۔ عرب ملکوں نے خبردار کیا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں مسلم دنیا میں تشدد بھڑک سکتا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی صدر صرف ایک حقیقت کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں کہ اسرائیل عملی طور پر اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا بھی دارالحکومت ہے۔ اس سے پہلے امریکی صدر نے منگل کو متعدد علاقائی رہنماؤں کو فون کر کے بتایا کہ وہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کے مطابق شاہ سلمان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے یا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے ’دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو سکتا ہے۔‘ وائٹ ہاؤس کی خاتون ترجمان سارا سینڈرز کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر صدر ٹرمپ کی سوچ ’بہت مضبوط‘ ہے۔ بیت المقدس کی حیثیت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کی جڑ ہے۔ اگر امریکہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے تو وہ ریاست کے سنہ 1948 میں قیام سے لے کر اب تک ایسا کرنے والا پہلا ملک ہو گا۔
دریں اثنا امریکی حکومت کے ملازمین اور ان کے خاندانوں کو یروشلم کے پرانے شہر اور مغربی کنارے میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ذاتی سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی رد عمل کیا رہا ہے؟ ان خبروں کے بعد کہ صدر ٹرمپ بدھ کو بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر سکتے ہیں، انھیں دنیا کے متعدد ممالک سے رد عمل کا سامنا ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس حوالے سے متنبہ کرتے ہوئے کہا: ’ایسے فیصلے کے نتائج نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے سنگین ہو سکتے ہیں۔
اردن کے شاہ عبد اللہ نے کہا: ’یہ فیصلہ امن عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کو کمزور کرے گا اور مسلمانوں کو اشتعال دلائے گا۔‘ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ علاقے کی صورتِ حال کو پیچیدہ نہ کریں۔‘ فرانسیسی صدر امانوئل میکخواں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا کہ انھیں تشویش ہے کہ بیت المقدس کی حیثیت پر کوئی بھی فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان مزاکرات کے بنیادی ڈھانچے میں ہونا چاہیے۔ عرب اتحاد کے سربراہ احمد ابو الغیث نے متنبہ کیا 'یہ ایک خطرناک قدم ہے جس کے بالواسطہ اثرات مرتب ہوں گے۔' سعودی عرب نے کہا: 'اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع میں تاخیری تصفیہ سے پہلے ایسا قدم امن کے قیام کے عمل کو بری طرح متاثر کرے گا۔
حوالہ:
http://www.bbc.com/urdu/world-42245956
 
Top