• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟ چشم کشا تحریریں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مفتی منیب صاحب اور جوابی کالم پر رد عمل

تحریر : حافظ یوسف سراج
گزشتہ کالم پر ملک و بیرون ِ ملک سے کئی طرح کا ردِ عمل یا کہہ لیجیے فیڈ بیک موصول ہوا۔ جن لوگوں نے دعائیں دیں اور جو خوش ہوئے ان کا حساب درِ دل درج ہوا ، تاہم جن کا نقطۂ نظر اس کے سوا تھا ، ان میں سے ایک امارات کے مستند کالم نگار منیر احمد خلیلی صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کے موقف سے گو اتفاق کرتاہوں مگر علمی موقف صرف دلائل اور سنجیدگی سے پیش ہونا چاہیے،عرض کیا، چلئے اگلی نشست یوں سہی ، ویسے کاش وہ چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں ہونے والی اہلِ سنت کانفرنس کون؟ کی ویڈیو دیکھ لیتے ۔ یقین کیجئے میں نے اس قدر سنجیدہ موضوع کو اس قدر منظم رقص کے تحت کبھی بروئے کار آتے نہیں دیکھا۔ یادش بخیر، مولانائے محترم مفتی منیب صاحب نے اردو اخبارات کی تاریخ میں اپنے پہلے بااعراب نیم عربی کالم میں لکھا تھاکہ یہ کانفرنس صرف اہل سنت کی تعریف کا حدود اربعہ مقرر کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ یقینا ایسا ہی ہے اور یہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہی ۔ اتنی کہ جب تعریف کا اصلی حدود اربعہ مقرر ہوچکا تو الحمدللہ آدھے اہلِ سنت اپناحقیقی حدود اربعہ کھو چکے تھے ۔ ویسے میرے ساتھی الل ٹپ کا کہنا ہے کہ بات اگر صرف تعریف ہی مقرر و متعین کرنے کی تھی تو اس کے لئے تومحض کسی پروفیسر کی نیم پخت پی ایچ ڈی کو تکلیف پہنچا کے بھی کام چلایا جا سکتا تھا ،آخر اس کی خاطر گروزنی میں کروڑوں کے اخراجات اٹھا کے پیوٹن کومنظم رقص پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مفتی صاحب نے مزید لکھا تھاکہ تعریف متعین کرنے کے لیے آنے والے مہمان عالمی سطح کے جید سکالر تھے ۔ اس بات کی تحقیق ا س لئے مشکل ہے کہ وہاں سکالرانہ عالم ِرقص میں معلوم و نامعلوم ، شاہدو مشہود اور من وتومیں فرق کرنا بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا تھا۔ اگر آپ وہ مبارک ویڈیو دیکھنے کی سعادت سے واقعی محروم رہ گئے ہیں تواس عاجز پر یقین کرلیجئے کہ اس روح پرور باوردی رقص میں ہر عالِم کا و ہ عالَم تھا کہ سبحان اللہ ثم سبحا ن اللہ !یعنی
ایک ہی صفِ (رقص) میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی ’عالِم ‘رہا نہ عالم لوہار
ایک قاری کا خیال یہ تھا کہ مجھے محض مفتی صاحب کی عینک کو دیکھ کے کالم سے نہیں بدکنا چاہئے تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ عینک سے نہیں مجھے صاحبِ عینک سے کوئی معاملہ ہے ، میں نے عرض کی کہ ہر گز نہیں ۔ مفتی صاحب کے لئے میں نے کل بھی سنجیدہ و متین کے الفاظ استعمال کئے اور آج پھران کی شخصیت کے لئے اپنے انھی الفاظ پر اصرار کرتا ہوں ۔پیر نصیرالدین مرحوم کے بعداپنے مشرب میں آنجناب کا شمار ان چیدہ و چنیدہ شخصیات میں ہوتا ہے کہ جن کا احترام بین المسالک طور پر مسلم ہے۔ پھر مفتی صاحب کی نستعلیق نثر اور شستہ فکر کا میں باقاعدہ مداح ہوں۔ سچ کہوں تو مفتی صاحب جیسا بے باک آدمی پورے مسلک میں شاید دوسرا کوئی نہ ہو۔کوئی ہے جو نعت جیسی مقدس و مطہر صنف کو سٹیج پرجھومتے نعت خوانوں پر وارے جاتے نوٹوں تلے دبی دیکھ کر بلبلا اٹھے اور اپنے اخباری کالم میںاسے سٹیج کی اُس ذوق مند صنف سے تشبیہ دے ڈالے کہ جسے پہلے شرفا چھپ چھپا کے کوٹھوں پر دیکھتے تھے اور آج کوٹھی میں مع فیملی اکتائے اکتائے دیکھتے ہیں۔ اور یہ بھی مفتی صاحب ہی تھے کہ جنھوں نے انٹرنیٹ پر وائرل ہو جانے والی اپنی ایک ویڈیو میں اپنے ہی ناموروں کو لتاڑ ڈالا کہ یہ جوان کی غفلت یا تساہل کی بناپر خانقاہوں پر سجدہ ہائے جہالتِ ہو رہے ہیں اور یہ جو اس دنیا کی دیگر خرافات انھوں نے ڈھونڈ نکالی ہیں تو کیا اللہ کے ہاں دینے کے لئے ا س کا کوئی جواب ہے ان کے پاس؟
دیکھئے دماغ اللہ نے سبھی کو الگ دیا ہے اور سوچ و فکر کی انفرادیت پر پابندی توبے دماغوں کا دماغ ہو سکتی ہے اور کچھ نہیں ، چنانچہ کسی کی فکر و فقہ سے اختلاف کرنا آپ کا محفوظ حق ہے۔ مگر شخصیات کا احترام بھی میرے ہاں واجب ترین ہے۔ اس کالم کے قارئیں گواہ ہیں کہ ا س خاکسار نے ممتاز قادری کے حق میں اس وقت کالم لکھ ڈالا تھا کہ جب قلم اور کیمرے اور نوا اور وفا سبھی پر سلطانی پابندی عاید تھی۔’’ سب اچھوں میں کیا اکیلا طاہرالقادری برا ہے ؟ ‘‘ اس عاجز نے طاہرالقادری صاحب کے لئے یہ سوال اس وقت اٹھایا تھاکہ جب مذہبی و مسلکی اور سیاسی لوگ ہی نہیں ، قاسمی و صدیقی صاحبان جیسے سرخیلِ صحافت بھی اپنے قلم کی جملہ جولانیاں اور اپنے فکر کی جمیع طغیانیاں بحق نواز شریف اوربخلاف ِ قادری صرفِ درِ میکدہ ٔ محبت کر چکے تھے۔ اور ہاں ٹھیک اس کالم سے پچھلا کالم اِ س آدمی نے الزامات کی زد میں آئے اُس مولانا الیاس گھمن کو دستیاب شرعی حقوق کا واویلا کرتے لکھا تھاکہ جس الیاس گھمن صاحب کی تیزیٔ زبان اور نامطلوب شعلے برساتی تقریر اس عاجز کو کبھی خوش نہیں آئی تھی۔ انسان ہوں اور غلطی کا پتلا مگر واقعہ یہ ہے کہ جب سے اخبار کے لئے قلم سنبھالا ہے۔ اسے قومی مفاد کی خاطر گروہی اور ادنیٰ مفادات سے جدا کر لیا ہے اور کم ازکم اس کالم پر خدا کے بعد انسانوں میں سے سب سے پہلا حق مظلوم کاخود پر عائد کر رکھا ہے ۔ اس سے قطعٔ نظر کہ اس کا رنگ ، اس کی نسل یا اس کی قومیت کیا ہے۔ ویسے توا س سے بڑا جھوٹ بھی کوئی نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو غیر جانبدار قرار دینے لگے ؎
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
(ہاں آدمی کی ہمت یہ ہے کہ سینے میں پلتے تعصبات کو امکانی حد تک کم ترین سطح پر لے آئے۔) اور اس سے بڑا جرم اور افسوس بھی کوئی نہیں کہ گھٹیا مفادات کی خاطر آدم کی اولاد اور رسولِ رحمت کی امت کو رنگوں، مسلکوں اور فرقوں میں بانٹ دیا جائے ۔ لیجئے احباب آج انھی غیر ضروری اور فضول گزارشات پر اکتفا کیجئے ۔ فضول اور غیر ضروری اس لئے کہ اگر ہم انھیں مان ہی لیتے یا ان چیزوں کا اثر ہی لیا کرتے تو بھلا ایسی وضاحتوں کی نوبت ہی کیوں آتی ۔ ان شااللہ ا س نوعیت کی چند سنجیدہ اور آخری باتیں اگلی نشست میں پڑھئے گا۔ اللہ حافظ !
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اہل السنۃ و الجماعۃ کون ؟ جوابی کالم

ازمفتی منیب الرحمن
’’اَھلُ السُّنَّـۃ والجماعۃ کون؟‘‘ کے عنوان سے روزنامہ دنیا کے ادارتی صفحات پر یکم اکتوبر 2016ء کو میرا کالم چھپا۔ یہ کالم بعد ازاں دلیل پر بھی شائع ہوا. اس پر دلیل پر حافظ یوسف سراج صاحب کا بہ اندازِ استہزاء ردِعمل پڑھ کر حیرت ہوئی، یہ کسی صاحب علم کا انداز نہیں ہوتا، بہرحال یہ شِعار اُن کومبارک ہو، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے، لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا
میں نے گروزنی کانفرنس کے بارے میں سنا تو اُس وقت تک اس پر کچھ نہیں لکھا، جب تک کہ مجھے ثقہ ذرائع سے اس کا متن دستیاب نہیں ہوا، میرا مزاج اندھیرے میں تیر چلانا نہیں ہے۔ یہ آرٹیکل میں نے کسی مسلکی جریدے میں نہیں لکھا، بلکہ ایک مؤقّر قومی روزنامے میں لکھا ہے اور اس کا مقصد اہلِ علم اور خاص طور پر اپنے ملک کے دینی طبقات کو حالاتِ حاضرہ کے بارے میں آگہی دینا تھا۔ میں نے نہایت دیانت داری سے یہ بھی لکھا کہ یقینا شام کے حالات کے تناظر میں اِسے روس اور ایران کی آشیرباد بھی حاصل ہوگی اور اہلِ تشیُّع کی ویب سائٹس نے اس کی خوب تشہیر بھی کی، لیکن چیچنیا کی اِس پیش رفت کا اصل مُحَرِّک اُن کے اپنے داخلی مسائل ہیں، کیونکہ وہاں عسکریت پسند یا خارجی تکفیری تحریکیں زیرِ زمین موجود ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا کہ اسے یہاں کے مسلکی خلافیات کا شاخسانہ قرار دیا جائے، بلکہ اس میں شیخ الازہر سمیت عالَمِ عرب کے نمائندے شامل تھے۔ حافظ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ چند سال پہلے الجامعۃ الازہر میں
’’التوَسُّط بینَ الْغُلُوِّ وَالتَّطَرُّفْ، تحتَ فِکرِ امام ابی الحسن الاشعری‘‘
کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے، سو فسادی عناصر نے عالمی سطح پر امتِ مسلمہ کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی علماء نے اس کانفرنس کا نوٹس لیا اور انہیں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی پڑی، اگر یہ مسئلہ ایک مزاحیہ کالم کی مار ہوتا تو یقینا وہ آپ کی مدد لیتے اور مورچہ فتح کر لیتے، لیکن ناگواری کے باوجود بعض حقائق کا سامنا کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ میں نے اُن کا مؤقف بھی بیان کیا اور اُس پر ڈاکٹر عبداللطیف سعید فُودہ نے جو وضاحتی بیان جاری کیا، اُسے بھی بیان کر دیا ہے۔ عام قارئین کی آگہی کے لیے میں نے چند اصطلاحات کی وضاحت کی اور اُس میں، میں نے اپنی سوچ شامل نہیں کی۔ حافظ صاحب نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کسی کو’’اہلُ السنّہ والجماعہ‘‘ میں داخل یا خارج کرنے کے لیے میرے ایما پر یہ کانفرنس منعقد ہوئی ہو۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوچنے کا انداز محدود ہے اور ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ پتھر ہماری طرف ہی پھینکا گیا ہے۔ حضورِ والا! یہ مسئلہ عالَمی فورم پر اٹھایا گیا ہے اور اس کا تناظر بھی عالَمی ہے اور خاص طور پر شام اور خود چیچنیا کے حالات کے زیرِ اثر ہے۔ داعش تو بہت پہلے ابوبکر البغدادی کی قیادت میں قائم ہوچکی تھی، لیکن کافی عرصے سے یہ زیرِ زمین چلی آ رہی تھی۔ جب اُس نے ایک خطے پر قبضہ کر کے اپنا اقتدار قائم کیا اور اُن کا فساد کھل کر دنیا کے سامنے آیا، تو ناگزیر طور پر سعودی عرب کے علماء کو انہیں خارجی اور تکفیری قرار دے کر ان سے برات کا اعلان کرنا پڑا، کیونکہ اب یہ بلا اُن کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس کی تپش انہیں قریب تر محسوس ہو رہی ہے۔ یہاں کے اہل حدیث علماء کی بھی خروج اور بغاوت پر کتابیں سامنے آچکی ہیں اور توحید کی اقسام (توحیدِ ربوبیت ،توحیدِ الوہیت اور توحید ِاسماء و صفات) پر توحیدِ حاکمیت کا اضافہ بھی سلفی مکتبِ فکر کے لیے ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔
میرا کالم پڑھ کر وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا یاسین ظفر نے بہ حیثیت مجموعی اس کی تحسین کی اور کہا کہ ہمارے حوالے سے یہ جملہ ڈال دیا ہوتا: ’’آج کل کے سلفی، تکفیری اور خارجی نظریات سے برملا برات کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ مسلکی خلافیات اور کلامی مسائل میں نے اختراع نہیں کیے، یہ پہلے سے چلے آرہے ہیں اور نہ ہی میں نے مذکورہ کالم میں براہِ راست انہیں اپنا موضوع بنایا ہے۔ میرا مقصد تو یہ تھا کہ ہمارے اہلِ علم کو عالَمی سطح پر ان حرکیات کے بارے میں آگہی حاصل ہو۔ البتہ مجھ سے یہ ریمارکس دینے کا’’جرم‘‘ ضرور سرزد ہوا ہے کہ سعودی عرب کے علماء کو امت کی مشکلات کے عالمی تناظر کا ادراک کرتے ہوئے توسُّع اختیار کرنا چاہیے اور امتِ مسلمہ کے تمام مکاتبِ فکر کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر مُثبت رابطے کے لیے کوئی حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ یہ دورِ حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
⁠⁠⁠ابطال تلبیس المخطئ المشتہر فی الناس بمفتی

تحریر : محمد صارم سیف
چند دن پہلے گروزنی کانفرنس کے حوالے سے ایک کالم کے طرف محترم و مکرم و فاضل دوست نے راہنمائی کی کہ اس کے مشمولات کا جائزہ لیا جائے کیونکہ اس میں تین اہم ابحاث پر قلم کشائی کی گئی ہے۔
1️⃣صفات باری تعالی کے متعلق اہل السنہ کاعقیدہ کیا ہے؟
2️⃣اہل السنہ کون ہیں؟
3️⃣عصر حاضر میں خروج کے رویے کا محرک کون ہے؟
ذیل میں انہی تین سوالات کت بارے کالم نگار کی نگارشات و رسوخ کا تحقیقی جائز لیا گیا ہے تاکہ قارئین کو انجناب کے زیغ و مبلغ علم کا علم ہوسکے تاآنکہ وہ اس کی روشنی میں جناب کی تفہیمات کا مقام متعین کر سکیں۔
⬅حرف اغاز یہ ہے کہ جناب کو اتنا نہیں پتا کہ اہل السنہ عقائد سے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟
نام اہل السنہ۔۔۔سنی۔۔۔رکھنے سے اہل السنہ کا دعوی کرنا ایسے ہی ہے جیسے جماعت المسلمین کا اپنا نام رکھنے سے المسلمین ثابت کرنا۔ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ رجسٹرڈ اہل السنہ المعروف فرقہ بریلویہ
⬅انجناب کے ان الفاظ پر غور کریں
اہل السنہ و الجماعہ تمام مناہج اسلام میں سے زیادہ جامع، زیادہ ثقہ، زیادہ مضبوط، علمی کتب اور تدریس کے اعتبار سے شرع شریف کے مقاصد کے ادراک اور عقل سلیم کے لئے صحیح تعبیر کا حامل ہے

یہ بات اہل السنہ و الجماعہ کے حق میں صد فی صد درست ہے مگر اس سے جناب کا برصغیر کے رجسٹرڈ اہل السنہ المعروف فرقہ بریلویہ مراد لینا ایسا ہی ہے جیسے دن کو رات کہنا۔
نیز شرع شریف کے مقاصد کے نام پر تحریف معنوی کے ارتکاب کی داستانیں ایں قسم مفتیان کی کتب سے بھری پڑی ہیں۔
جناب سے گزارش ہے کہ مقاصد کی تعیین قاصد کے ذمہ ہے، نہ کہ متبع ہوائے سنت مفتاح باب انکار السنہ کے۔
مقاصد کے نام پر اگر جناب کی مراد باطل تاویلات کے کے زیر سایہ صریح احادیث کی مخالفت ہے، تو ہمیں معاف ہی رکھئے۔ کیونکہ * ان الظن لا یغنی من الحق شیئا*
⬅اپ کا یہ فرمان عالی کہ اہل السنہ و الجماعہ کی علمی درسگاہوں نے صدیوں سے ہزاروں علما و فضلا پیدا کئے ہیں جو سائبیریا سے نایجیریا تک۔۔۔الخ
اولو الالباب کے واسطے مذکورہ بالا جملہ میں صدیوں کے لفظ نے اپ کے اہل السنہ و الجماعہ نہ ہونے کی عقدہ کشائی کی کہ انجناب کا فرقہ تو ابھی دو صدی پہلے کی پیداوار ہے۔ تو صدیوں کاراگ الاپنا خود ہی ثابت کرتا ہے کہ لسنا منہم۔ لہذا ہمیں کہنے دیجئے کہ
گھر کو اگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
موصوف کے اس جملہ پر بھی نظر التفات فرمائیے
سائبیریا سے نائجیریا تک
تو نہایت واضح ہے کہ اہل السنہ و الجماعہ سے مراد فرقہ بریلویہ نہیں کیونکہ بریلویہ نے تو برصغیر کی فضاوں سے نکل کر سانس لینا سیکھا ہی نہیں۔ جو بیرون اباد ہوئے وہ یہیں سے گئے۔
⬅ائیے ایک عجیب تحریف دیکھتے ہیں
بقول جناب کانفرنس کا اعلامیہ یوں جاری ہوا
اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اَشاعِرہ، ماتُریدیہ اور ”اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں
اب اس توضیح کو ملاحظہ فرمائیں جو جناب نے (()) بریکٹ کے استعمال کرتے ہوئے اپنا بغض بایں الفاظ ظاہر کیا۔۔۔
((یعنی وہ اہلِ حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”یَدْ،وَجْہ،ساق، نفس، عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں ۔پس جن اہلِ حدیث نے اِن کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs)کے معنی میں لیا ہے، اس کانفرنس کی قرارداد کی رُو سے انہیں ”اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ‘‘ سے خارج قرار دیا گیا ہے، اس فکر کے حاملین کو علمائے علم الکلام نے ”مُجَسِّمین‘‘ سے تعبیر کیا ہے))
اس عبارت کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جناب کو اتنا ہی علم نہیں کہ اہل حدیث کا کما یلیق بجلالہ کی قید انہیں مجسمین سے نکال دیتا ہے جبکہ فریق ثانی کا، صفات کے معانی کی تعیین کرنا، انہیں تاویلات کی طرف لے جاتا ہے۔
⬅قطع نظر اس کے کہ اس جملہ کے مشمولات کو زیر بحث لایا جائے۔ قاسط کے عناد کا اندازہ لگائیے کہ جملہ کی من چاہی توضیح کے لئے بریکٹیں لگا کر تکفیر کا شوق پورا کیا جا رہا ہے اور اپنے تبحر علمی و مبلغ علم کی عقدہ کشائی کر رہے ہیں۔
اہل السنہ و الجماعہ کے صفات باری تعالی سے متعلق عقائد کو دو حرفی بیان کیا جائے تو یوں ہے۔
اللہ پاک کی جن صفات کا ذکر قران و حدیث میں آ گیا ہے ان کو اسی طرح ماننا لازم ہے۔ ان کی کیفیت کاعلم صرف اللہ پاک کو ہے۔
⬅بہتر ہے ان کا ترجمہ بھی نہ کیا جائے ⬅ اگر ترجمہ کرنا ہے تو ترجمہ والی شکل و کیفیت ذہن میں نہ لائی جائے۔ جیسے وجہ کا ذکر ہے ⏪ اگر ترجمہ کریں چہرہ ، تو کسی بھی چہرے کا تصور نہ لایا جائے کہ دو انکھیں ناک وغیرہ۔ کیونکہلیس کمثلہ شیء اس جیسا کوئی نہیں
یہ الفاط کہیں کما یلیق بجلالہ یعنی جیسے اس کی شان ہے۔
جیسا کہ امام اہل السنہ مالک بن انس سے عرش کا پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا * الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة* امام مالک کی تصریح در عقائد صفات باری تعالی حضرت کی توضیح سے بدرجہا بہتر ہے اور یہی اس باب میں اصل کا درجہ رکھتی ہے۔
⬅سلفیت کو عند الناس معتوب کرنے کے لئے خوارج سے تشبیہ دینا۔ بالخصوص عصر حاضر کا معروف گروہ داعش بطور مثال ذکر کرنا ایسے ہی ہے جیسے
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
⬅جس گروہ نے من حیث الاجتماع کبھی جہاد کا لطف اس کے جواز کے فتووں کی حد تک بھی نہ چکھا ہو، جس کے بانی کفار کے خلاف بھی عدم جہاد کے داعی عظیم ہوں۔ انہیں کیا معلوم کہ جہاد و خروج کی راہیں کہاں جدا ہیں
بینھما برزخ لا یبغیان
⬅ان پر جہاد و خروج ایسے ملتبس ہوا کہ انما البیع مثل الربو
اپ جناب کی اس حساس موضوع پر گفت گو پر یہی عرض کیا جاسکتا ہے اندھا کیا جانے بسنت کی بہار
⬅افتراق و انتشار، طعن تشنیع، سب و شتم کی سعی بلیغ کے بعد جناب کا یہ فرمانا امت میں تفریق کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کسی تلبیس سے کم نہیں۔ حضرت کے اس تبصرہ نما ہرزا سرائی جو بزعم خویش انما نحن مصلحون پر یہی کہا جاسکتا ہے اذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
کیا اہل الحدیث، اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں؟ مفتی منیب الرحمن صاحب کی خدمت میں

حال ہی میں چیچنیا کے دار الحکومت گروزنی میں صوفی اسلام سے تعلق رکھنے والے علماء کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی ہے کہ جس کا موضوع یہ تھا کہ "اہل سنت والجماعت کون ہیں؟" اس کانفرنس کے اعلامیہ میں یہ بیان جاری کیا گیا کہ جو سلفی اہل علم صفات متشابہات کا لغوی معنی جاری کرتے ہیں، وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں کہ وہ مجسمہ ہیں یعنی اللہ عزوجل کی تجسیم کے قائل ہیں۔ مفتی منیب الرحمن صاحب نے اس بارے زاویہ نظر کے نام سے ایک کالم مرتب کیا ہے جو کہ روزنامہ "دنیا" میں شائع ہوا ہے۔ اورہمارے پیش نظر اس وقت یہی کالم ہے۔
ہماری نظر میں کانفرنس کا اگر تو اصل مقصد یہ تھا کہ عالم اسلام میں پائی جانے والی تکفیری سوچ اور اس کے حاملین کو اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیا جائے، تو اس حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور یہ نکتہ تمام مکاتب فکر کے اتحاد واتفاق کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اور مفتی صاحب نے یہ اچھا لکھا ہے کہ داعش اور تکفیری، سلفی نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سلفیت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
اسی طرح بریلویوں میں جو تکفیری ہیں مثلا احمد رضا خان بریلوی صاحب تو ان کے بارے کبار بریلوی علماء یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بریلویت کی طرف منسوب ہیں لیکن اصلا بریلوی نہیں ہیں کہ بریلویت تو دراصل غیر تکفیری سوچ ہے کہ جس کے امام پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ ہیں۔ تو اس طرح بریلویت کو بھی انتہا پسندی کے جراثیم سے پاک کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سلفیوں نے تکفیریوں سے لاتعلقی کا اعلان کر کے یہ کام کیا ہے۔
لیکن اس کانفرنس کے اعلامیے میں اور پھر مفتی صاحب کے کالم میں جس طرح سے معاصر سلفیہ اور اہل الحدیث کو اہل سنت والجماعت سے خارج کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو واضح رہے کہ اہل الحدیث میں سے بہت سے علماء اہل سنت والجماعت میں سے بریلویوں اور دیوبندیوں کو خارج قرار دے کر یہی کام بہت احسن انداز میں ان سے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے کو اسلام اور اہل سنت کے دائرے کے اندر باہر کرنے سے امت میں کوئی اتحاد کی راہ ہموار نہیں ہونے لگی بلکہ فکری انتشار اور تعصب بڑھے گا۔
وسائل اور اسباب ان کے پاس بھی ہیں کہ جنہیں آپ اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دے رہے ہیں، عالمی کانفرنسیں وہ بھی منعقد کروا سکتے ہیں، علماء اور جماعتیں بھی ان کے پاس ہیں اور جب وہ منظم انداز میں حکومتی سطح پر ایسی کانفرنسیں کروائیں گے کہ جن میں صوفیوں کو اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیں گے تو آپ لازما ان پر تنقید کریں گے۔ تو تنقید آپ کا حق بنتا ہے اور یہی حق دوسرے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ پس یا تو آپ اسے ایک مکالمہ مان لیں کہ آپ نے کالم لکھ کر اس پر ایک مکالمے کا آغاز کیا ہے کہ "اہل سنت والجماعت کون ہیں"؟ تا کہ ہر دو طرف سے لوگ لکھیں اور پھر خود ہی قارئیں طے کر لیں گے کہ کون ہیں؟ لیکن اگر آپ کا مقصد مکالمہ کی بجائے امت میں اتحاد کی راہ ہموار کرنا ہے، تو پھر اہل سنت والجماعت میں سے ایک معروف مکتب فکر کو نکال دینا، اتحاد کی بجائے اتنشار کی طرف کا سفر ہے۔
اب جہاں تک علمی بات کا تعلق ہے تو سلفیہ کا جو موقف ہے، وہی صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور ائمہ اربعہ کا ہے البتہ چوتھی صدی ہجری میں جا کر امام ماتریدی رحمہ اللہ نے ان مسائل میں اپنے سلف کے موقف سے اختلاف کیا اور حنفیہ نے عقیدے میں ان کے موقف کو اختیار کر لیا اور ماتریدی کہلائے۔ صفات متشابہات میں سلف صالحین اور ائمہ اربعہ کا موقف تفویض نہیں بلکہ معلوم المعنی اور متشابہ الکیفیہ ہے جیسا کہ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صفات متشابہات میں تیسرا مسلک "معلوم المعنی، متشابہ الکیفیہ اور حق ان میں مسلک ِثالث ہے اور یہی مذہب صحابہ وتابعین و ائمہ مجتہدین ومحدثین وفقہا واُصولیین محققین ہے۔" ہم اس بارے مفصل گفتگو اپنے ایک مستقل مضمون "کیا ائمہ اربعہ صفات الہیہ میں مفوضہ ہیں؟" میں کر چکے ہیں جو کہ ماہنامہ محدث میں شائع ہوا ہے ۔
اب تجسیم کے طعن کے جواب کی طرف آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب تک متشابہ الکیفیہ کی قید ہے تو تجسیم لازم نہیں آتی کہ متشابہ الکیفیہ لفظ کے معنی ہی کا دوسرا پہلو ہے۔ متشابہ الکیفیہ سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقت من وجہ نامعلوم ہےجبکہ معلوم المعنی سے معلوم ہوا کہ حقیقت من وجہ معلوم ہے۔ پس سلفیہ حقیقت کے من جمیع الوجوہ ادراک کے قائل نہیں ہیں بلکہ من وجہ ادراک کے قائل ہیں۔آپ معلوم المعنی سے زیادہ متشابہ الکیفیہ کے پہلو پر زیادہ غور کریں تو سلفیہ کے موقف پر صحیح طور پہنچ جائیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک “قدم” کا حقیقی معنی ثابت ہے اور یہی اس کا مرادی معنی ہے۔ “قدم” اپنے حقیقی معنی میں نص ہے کہ تفویض اس لیے نہیں ہو سکتی کہ الزامی جواب یہ ہے کہ “قدم ”سے کم از کم“ید” مراد نہیں ہے یعنی ایک دوسری ہی صفت۔ تو کچھ تو تحدید ہو گئی، جب کچھ تحدید ہو گئی تو تفویض نہ رہی۔ پس “ قدم” اپنے حقیقی معنی میں "ما سيق الكلام لأجله" کے مقصود میں ہے لیکن متشابہ الکیفیہ کی قید کے ساتھ۔ اور اس پر مزید سوال یا غور وفکر یا وضاحت کرنے کے بدعت ہونے کے فتوی کے ساتھ۔
تیسری بات یہ ہے کہ الزامی جواب میں سلفیہ یہ کہتے ہیں کہ اشاعرہ ماتریدیہ کے سات یا آٹھ صفات مان لینے سے اگرتجسیم لازم نہیں آتی تو ہمارے جمیع صفات کے مان لینے سے تجسیم کیوں لازم آتی ہے؟ کیا صفت کلام کے لیے منہ اور جبڑوں کے ہونے کا سوال پیدا نہیں کیا جا سکتا یا صفت ارادہ کے لیے دل کے ہونے کا سوال پیدا نہیں کیا جا سکتا یا صفت سماعت اور بصارت کے لیے کان اور آنکھیں ہونے کے سوالات پیدا نہیں ہو سکتے؟ اگرچہ ان سوالات کے جواب دینے میں خاص طور صفت کلام میں اشاعرہ ماتریدیہ بہت دور نکل گئے کہ کلام کو کلام نفسی بنا دیا اور قرآن مجید کو کلام الہی کی بجائے عبارت کلام بنا ڈالا حالانکہ قرآن مجید نے کہا کہ صفت کلام وہ ہے کہ جسے کلیم اللہ علیہ السلام نے سنا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم نے مکالمہ بھی کیا۔
یہ صرف صفات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جمیع امور غیبیہ کا ہے۔ جنت کا لفظ جو قرآن مجید نے استعمال کیا ہے، اس کا معنی معلوم ہے لیکن اس کا کوئی مصداق کامل ہمارے علم میں نہیں ہے۔ یعنی جنت کا معنی باغ ہے لیکن اس کی کیفیت متشابہ ہے۔ پس اگر کوئی یہ کہے کہ جنت سے مراد اسکول ہے یا ہسپتال ہے تو یہ تاویل کا طریقہ ہے اور اس کے جاری کرنے والوں کو متاولہ کہتے ہیں۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ جنت کا معنی معلوم نہیں ہے تو یہ تفویض کا طریقہ ہے اور اسے اختیار کرنے والوں کو مفوضہ کہتے ہیں۔ اور کوئی اگر یہ کہے کہ جنت کا معنی معلوم ہے لیکن کیفیت متشابہ ہے کہ اس کا کوئی مصداق ہماری اس دنیا میں نہیں ہے تو یہ سلفی اسلوب ہے اور اسے ماننے والوں کو سلفیہ کہتے ہیں۔
اور اگر تاویل کر بھی لی جائے تو مجاز مراد لینے کی صورت میں لفظ سے حقیقت زائل نہیں ہوتی، کیونکہ لفظ تو حقیقی معنی کا ظرف ہے۔ اگر حقیقت زائل ہو جائے تو لفظ قائم نہ رہے گا بلکہ ختم ہو جائے گا کیونکہ لفظ سے حقیقت کو زائل کر کے اس کے مجاز کا کوئی تصور ممکن نہیں ہے کہ مجاز تو حقیقت کی وجہ سے قائم ہے۔ اس کے علاوہ بھی جوابات ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ہم انہیں نقل نہیں کر رہے ہیں۔ پس خلاصہ کلام یہ ہوا کہ صفات باری تعالی میں معلوم المعنی ہونے کی وجہ سے تفویض نہیں ہے اور متشابہ الکیفیہ ہونے کی وجہ سے تجسیم نہیں ہے۔ مزید تفصیل ہم نے اپنی کتاب "وجود باری تعالی" میں نقل کی ہے کہ جو چار اقساط میں سہ ماہی حکمت قرآن میں شائع ہو چکی ہے۔​
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
چیچنیا کانفرنس اور اتحاد امت

اعجاز حسن
’’روس کی سطح پر ایک ٹی وی چینل کا قیام عمل میں لایا جائے جو ملکی باشندوں کو اسلام کی صحیح تصویر پیش کرے اور دہشت گردی کے خلاف ڈٹ جائے ‘‘۔ یہ کانفرنس کی سفارشات میں سے ایک سفارش ہے۔ ذہن نشین رہے کہ چیچنیا کانفرنس روس کے نامزد کردہ سابقہ چیچن صدر احمد قادر یوف کی یاد میں منعقد کی گئی۔ چیچنیا کے حالیہ سربراہ رمضان قادریوف پر بھی روس مکمل اعتماد کرتا ہے۔ چیچنیا،رشین فیڈریشن (روس) کے زیر انتظام ایک ریاست ہے۔ چیچنیا میں صوفی اسلام کا اثرونفوذ تھا اور اب اس کی مزید ترویج جاری ہے۔
روس چیچنیا تنازعہ اٹھارویں صدی سے جاری ہے۔ چیچنیا کی تحریک آزادی کا آغاز قومی عنصر سے ہوا، لیکن بعد ازاں مذہبی عنصربھی کسی حد تک شامل ہو گیا۔ پہلی چیچن روس جنگ کا اختتام 1996ء میں ہوا اور اس کا نتیجہ غیر تسلیم شدہ ریاست ’’چیچن جمہوریہ اشکیریہ‘‘ کی صورت میں نکلا۔ دوسری چیچن روس جنگ کا آغاز 1999ء میں ہوا اور نتیجتاً روس نواز قیادت کے ساتھ چیچنیا کی حالیہ ریاست وجود میں آئی۔ دوکو عمروف(صدر سابقہ چیچن جمہوریہ اشکیریہ) ابھی تک جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چیچنیا کی قریبی ریاستوں (انگوشتیا اور داغستان وغیرہ) میں آزادی کی تحریک جاری ہے، جو روس کے لئے پریشان کن ہے۔ کانفرنس میں روس کی دلچسپی کا سبب واضح ہے۔
کانفرنس کے اعلامیہ کے حوالے سے چند نکات بیان کرتا ہوں۔اول: عجب کانفرنس تھی ، جس میں آپ امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل کو فقہی قائد تو مانتے ہیں، لیکن عقیدے میں قائد ماننے سے انکار کر رہے ہیں؟ یہ بتلائیے آپ عقیدہ امام ابو حنیفہ کی کتاب فقہ اکبر اور امام طحاوی حنفی کی کتاب عقیدہ طحاویہ سے کیوں اخذ نہیں کرتے؟ ابو الحسن اشعری 324 ہجری میں وفات پاتے ہیں اور ابو منصور ماتریدی 333 ہجری میں فوت ہوئے۔ صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین اور جو اسلاف ان دونوں سے قبل گزر چکے ان کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے امام بخاری ،امام مسلم ، ابن تیمیہ ، شاہ ولی اللہ ، ثناء اللہ امرتسری ، داؤد غزنوی، احسان الٰہی ظہیر اور دیگر اکابر کو’’ اہلسنت والجماعت ‘‘ کے ٹائٹل کے لئے نااھل قرار دے دیا۔
ثانیا: اللہ رب العالمین انسان کو بیان و کلام سکھانے والا ہے (سورہ رحمن)۔ اللہ رب العالمین اپنے لئے ہاتھ اور چہرے کے الفاظ ذکر فرمائیں اور انسان کہے کہ ہاتھ سے ہاتھ کا معنی مراد نہیں، اور چہرے سے چہرے کا معنی مراد نہیں! صحیح یہ ہے کہ اللہ رب العالمین اپنے لئے جن صفات کا اثبات کرتے ہیں مثلاً چہرہ،قدم اور دیکھنا تو ان کا اّثبات کیا جائے۔ البتہ چہرہ کیسا ہے ؟ تو ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے ، اللہ رب العالمین ہی جانتے ہیں۔ اس مثال سے سمجھئے۔۔۔جانور، پرندوں اور حشرات کا چہرہ ، قدم اور دیکھنا انسان کے چہرہ ، قدم اور دیکھنا سے مختلف ہے۔اگر مخلوق کے مابین کیفیت میں فرق ممکن ہے تو مخلوق اور خالق کے مابین کیفیت میں فرق تو بالاولی ممکن، بلکہ یقینی ہے، کیونکہ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں: لیس کمثلہ شییء۔
ثالثا: تکفیریوں اور خوارج کی تائید اھل الحدیث اور سلفی نہیں کرتے۔داعش اور اس کی طرف منسوب انتہا پسندانہ حرکتوں سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں۔ وکی لیکس کے مطابق داعش کو ہیلری کلنٹن اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے۔
34 ملکی اتحاد کی تشکیل کے بعد سعودی عرب کے خلاف محاذ گرم کیا جا رہا ہے۔ کانفرنس کے مقام پر غور کریں۔ چیچنیا روس کے زیر انتظام ایک ریاست۔۔۔ وہ روس جس نے چند ماہ قبل سعودی عرب کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دی تھی۔ کانفرنس کی ٹائمنگ پر غور کریں۔ اگست کے آخر میں سعودی عرب لاکھوں حجاج کرام کی میزبانی کر رہا تھا اور سارے عالم سے مسلمان مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب میں جمع ہو رہے ہیں، تب سعودی سلفی علماء کو ’’اہلسنت والجماعت‘‘ سے خارج کر کے انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
شام میں ایرانی اور روسی مفادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ایران کی شمالی سرحدیں تین ممالک آرمینیا، آذربائیجان اورترکما نستان سے ملتی ہیں اور یہ تینوں سابقہ متحدہ روس کی ریاستیں تھیں۔ ایرانی تعلقات روس سے بہت گہرے ہیں، بالخصوص امریکی پابندیوں کے بعد روس ایران کا اہم تجارتی پارٹنر تھا۔ روس اور ایران کو اس کانفرنس کے انعقاد سے جو فوائد مطلوب تھے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تقریب نیوز ایجنسی کے مطابق ایرانی مذہبی قائدین نے اس کانفرنس کو سراہا اور وہابی ازم کو سُنی اسلام سے نکالنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے تکفیری گروہوں کا سبب سعودی نصاب اور سعودی مذہبی اداروں کو قرار دیا۔
اب کچھ ذکر مفتی صاحب کے کالم (اہلسنت والجماعت کون؟) کا ہو جائے جو اس تحریر کا سبب بھی بنا۔ کانفرنس چیچنیا میں ہوئی۔ پاکستان میں یہ خبر مذہبی حلقوں کے اکابرین تک محدود تھی۔ آپ نے اس کی روداد تحریر کی ، تائید کی، اعلامیہ نقل کیا اور گروزنی سے ہزاروں کلو میٹر دور لا کر عوام کے سامنے رکھ دیا۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین چند ماہ قبل کشیدگی عروج پر تھی جس میں پاکستان نے مصالحتی کردار ادا کیا تھا۔ مفتی صاحب آپ کو بھی مصالحتی کردار کرنا چاہیے تھا ، لیکن آپ تو فریق بن گئے۔ آپ سعودی عرب کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اسے اپنے مصارف امت اور دین کی وحدت کے لئے استعمال کرنے چاہئیں، لیکن یہ مشورہ آپ ایران کو نہ دے سکے۔ ایک جانب اہلحدیث اور سعودی سلفیوں کو’’اہلسنت والجماعت‘‘ سے باہر نکالا جا رہا ہے تو دوسری جانب آپ اتحاد امت کا خواب دکھا رہے ہیں۔ اس خواب کوحقیقت کا روپ دینے کے لئے یہ طریقہ کسی طور صائب نہیں۔ آپ اگر اتحاد امت کے علم بردار ہیں تو آپ کو اپنا قلم اس کے لئے استعمال کرنا چاہیے تھا ، لیکن آپ کی تحریر سے جماعت بندی کی بجائے فرقہ بندی کا تاثر ابھرا۔
کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں ایک نام الحبیب علی جفری کا بھی تھا جو کہ یمنی شہری ہے۔ جفری کی ویب سائٹ/فیس بک پیج اور سوشل میڈیا پر اس کا ویڈیو بیان موجود ہے کہ (انا احب الیھود) میں یہودیوں سے محبت رکھتا ہوں۔ کانفرنس کا انعقاد طابہ فاؤنڈیشن کے تعاون کے ساتھ ممکن ہوا، اور طابہ فاؤنڈیشن کا بانی یہی ہے۔ کانفرنس کے رسمی پیج (چیچنیا کانفرنس ڈاٹ آرگ) پر کانفرنس کا اعلامیہ کئی ایک زبانوں (عربی ،فارسی، انگریزی) میں موجود ہے، لیکن تادم تحریر اردو زبان میں نہیں، لیکن (بلوشیہ) بلوچی زبان میں موجود ہے۔
الجزیرہ کے مطابق عالمی اتحاد علماء مسلمین کے صدر اور اخوان المسلمین کے قائد یوسف القرضاوی نے اھل الحدیث اور سلفین کو’’اہلسنت والجماعت‘‘سے خارج کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ شام میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی جو کچھ کر رہے ہیں، ان کے بارے میں کانفرنس میں کلمہ اعتراض ذکر نہیں کیا گیا۔ سی این این (العربیہ) کے مطابق کانفرنس کے اعلامیہ پر سعودی میڈیا اور سعودی علماء نے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ سعودی مجلس کبار علماء نے کانفرنس کے اعلامیہ کے فورا بعد یکم ستمبر جمعرات کو ایک بیان جاری کیا جس میں اتحاد واتفاق پر زور دیا گیا۔ افسوس! اس بے مہر اور بے محل کانفرنس نے اتحاد امت کی دیوار میں ایک دراڑ اور ڈال دی۔

17 اکتوبر 2016 روزنامہ پاکستان
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فرقہ واریت کا نیا محاذ... گروزنی کانفرنساور اس کے پس پردہ محرکات

تحریر : ابو بکر قدوسی
اپنی مخصوص "افتاد طبع" کے سبب پاکستانی قوم گروزنی کانفرنس سے نا آشنا تھی ، خود مجھے دو ماہ پیشتر ہندوستان کے کچھ احباب نے اس پر لکھنے کا کہا تو میں نے دانستہ نظر انداز کیا - پاکستان فرقہ وارانہ عدم ہم آہنگی اور فکری انتشار کا جس بری طرح شکار ہے ایسے میں مزید فتنے اور فکری تقسیم کی کوئی "آرزو" یا کوشش ظلم کی انتہا سے کم کیا ہو گی ؟ -
مفتی منیب الرحمان صاحب کے کالم نے آخری دموں پر پہنچی ہوئی یک جہتی کو نقصان ہی پہنچایا ہے - مفتی صاحب فرقہ وارانہ طور پر صلح کل کے داعی سمجھے جاتے تھے لیکن اس کالم سے ان کے اپنے اس " امیج" کو نقصان ہوا ہے
گروزنی کانفرنس کے پس پردہ محرکات کو جانے بغیر، محض اس کے ظاہر کو لے کر کچھ بھی لکھنے سے ، اس کے حقیقی "مقاصد " تک نہیں پہنچا جا سکتا - مفتی صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ :
" یقینا شام کے حالات کے تناظر میں اسے روس اور ایران کی اشیر باد بھی حاصل ہو گی" -
اس حد تک "یقین" کے بعد تو آپ کو اس کے حوالے سے لکھنا چاہیے تھا کہ اصل میں یہ عالم اسلام کو انتشار میں دھکیلنے کی سازش ہے جس کا کسی عقیدے یا نظریے سے کوئی تعلق نہیں - بھلا روس کو اہل سنت کی کسی نئی تعبیر سے یا تفہیم سے کیا دل چسپی رہی ہو گی ؟- وہ روس جو کل تک خدا کے وجود کا بھی منکر تھا آج اسی خدا کے وجود اور اس کے ہاتھ پاؤں کے مباحث میں کود پڑا - اور اپنے خرچ پر دنیا بھر سے دو سو "مرضی" کے علماء اکٹھے کر کے کانفرنس کروا دی
، رہا ایران ! اس کو یقیناّ "مذھبی" دل چسپی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایران ہی ہی ہے جس نے شام کی جنگ کو فرقہ وارانہ بنایا - جب عرب بہار آی اور شام تک پہنچ گئی تو اسی ایران نے انگڑائی لی اور بشار کی مدد کو کود پڑا اور آمریت سے آزادی کی اس جنگ کو مقدس مذہبی جنگ بنا دیا - اور اب اس ایک محاذ پر اپنی شکست کو ٹالنے کے لیے ہر ہر محاذ پر سرگرم عمل ہے - آپ ایران اور اس کے زیر اثر ویب پجیز پر جا کر دیکھ لیں کیسے خوشیوں کی ڈفلی بجائی جا رہی ہے اور اس کانفرنس کے اعلامیے کو لے کر کس طرح جشن سی کیفیت میں وہ مبتلا ہیں اور امت کی اس نئی تقسیم پر کیسے شاداں و فرحاں ہیں
آپ فرماتے ہیں کہ
"چیچنیا کی اِس پیش رفت کا اصل مُحَرِّک اُن کے اپنے داخلی مسائل ہیں، کیونکہ وہاں عسکریت پسند یا خارجی تکفیری تحریکیں زیرِ زمین موجود ہیں"
جی یہ بات آپ نے درست کی لیکن یہاں چیچنیا کی موجودہ کٹھ پتلی حکومت اور روس کے مفادات مل گئے ہیں ، طوالت کا خوف ہے ورنہ یہ مستقل موضوع ہے ، چیچنیا کی آزادی اور روس سے نفرت کی تاریخ آج کی نہیں ہے اس کو مدت گذر چکی اور اس کے سرخیل امام شامل تھے کہ جو کبھی بھی سلفی مسلک کے حامل نہیں رہے ، امام آج بھی محض حریت فکر اور آزادی کے رہنما ہی نہیں جانے گئے بلکہ ایک کرشماتی شخصیت کے طور پر ان کا احترام کیا جاتا ہے - امام شامل کی بناء کردہ اس تحریک کو محض عسکریت پسند اور تکفیری کہہ کے گذر جانا آپ کا "حسن نظر" ہے ، اگر آزادی کی جنگ لڑنا تکفیر کے مترادف اور عسکریت پسندی ہے تو مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہو گا ؟ - اور کب اس پر یہی فتوی جات لاگو ہوں گے ؟
سلفیت سے روس کی مخاصمت کا پہلا دور افغانستان سے شروع ہوا جہاں اس کو حنفی اور سلفی تنظیموں نے مل کر شکست دی اور اس کے ٹکڑے ہو گئے - اس کے بعد عرب مجاھدین کی بڑی تعداد چیچنیا پہنچی کہ جہاں روسی ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے بعد ، پرانے خواب ، آزادی کی خواہش پھر سے جاگ اٹھی تھی - ان مجاھدین نے جا کر جہاں ان کی مدد کی وہاں ان کے عقائد و نظریات پر بھی اثرات مرتب کیے - اور افغان جنگ کے تجربات اور سخت جانی نے اس جہاد کو ایک نیا رنگ دے دیا -
اس پس منظر میں جب روس شام کی جنگ میں کودا تو یہاں بھی اسے اسی سخت جان سلفی عنصر کا سامنا کرنا پڑا جو اس کے غرور کو پہلے بھی پاش پاش کر چکا تھا - اس تناظر میں اس نے اس نئے ہتھیار کو آزمایا ہے کہ امت مسلمہ میں نظریاتی تفریق کی جائے - ہزار اختلاف ہوں لیکن شام کے معاملے پر امت ایک تھی اور ہے - سب کے دل دکھی ہیں - وہاں ہونے والی وحشیانہ بمباری کہ جو علاقے کے علاقے برباد کر گئی ، انسانیت جہاں دم توڑ گئی ، ہر کوئی اس پر رنجیدہ تھا - اور کمال یہ ہے کہ وہاں مرنے والوں کی اکثریت سنی ہی نہیں بلکہ اس عقیدے کی سنی ہے جس کی میزبانی میں کانفرنس ہوئی اور مزاحمت کرنے والی بھی حنفی ، شافعی ، اور سلفی کی تفریق کے بغیر مل کر لڑ رہے ہیں ، لیکن عمومی طور پر ان مزاحمتی اور جہادی گروہوں کی قیادت سلفی کر رہے ہیں سو اہل سنت کے اس مزاحمتی محاذ کو توڑنے کے لیے اس نظریاتی تفریق کی سازش کی گئی
رہے مفتی صاحب ! وہ محض اس کے اعلامیے کی چند علمی مباحث کو لے اڑے جس سے ان کو مخصوص فقہی سوچ اور پرانی "خواہشات" کی برآوری کی امید تھی ، لیکن اس کے سیاسی پس منظر کو بھول گئے - کبھی ہلاکو خان بھی تب کے علمائے امت سے ایسی "تفریقوں" کے بارے میں بھی بہت دلچسپی سے سوال کیا کرتا تھا - آپ کو امام ابن تیمیہ کا ایک منگول بادشاہ سے خالص علمی مباحث پر مشہور مکالمہ تو یاد ہی ہو گا -
حضور والا ایک سوال ہے کہ پیوٹن انتظامیہ کو کب سے صفات الہیہ کی تعبیر کی درست اور غلط تفہیم سے دل چسپی ہو گئی ؟ - کہ جس کی بناء پر اہلسنت کی نئی حد بندی کی ضرورت آن پڑی - آپ کہتے ہیں کہ آپ نے محض:
" عام قارئین کی آگہی کے لیے میں نے چند اصطلاحات کی وضاحت کی اور اُس میں ، میں نے اپنی سوچ شامل نہیں کی"
بجا کہ آپ نے اپنی طرف سے کوئی بات شامل نہیں کی لیکن کیا آپ کی تحریر میں اس کی تائید شامل نہیں تھی ؟ - ورنہ آپ ایک طرف کا قصہ ہی کیوں سناتے -علمی مباحث کا انداز تو یہ ہوتا ہے کہ فریقین کے دلائل ذکر کر کے اپنا موقف دے دیا جائے ۔
اور اسی طرح آپ کا یہ کہنا کہ سعودی علما کو اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑی ، کیا ایسی ہی صورت حال ہے ؟ آپ ذرا اس معاملے میں سعودی علما کا رد عمل دیکھئے اور اپنے الفاظ کا انتخاب دیکھئے - آپ نے جو نصحیت سعودی علما کو کی ، اس سے سوا اس کانفرنس کے محرکین کو کرنا چاہیے تھی کہ امت جس تقسیم کا صدیوں سے سامنا کر رہی ہے ، خدارا اس میں اضافہ نہ کیا جائے - امت کہ جس کا دامن پہلے ہی تار تار ہے اس کو مزید نہ برباد کیجئے ، حیرت اس امر پر ہے کہ ایران کی پشت پناہی کا اقرار کرتے ہوے بھی آپ نے دو کالموں میں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہ لکھا کہ آج جن کے مذھبی جنون کے سبب امت لہو لہو ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
عالمی کانفرنس بعنوان: "اہل سنت و الجماعت کا صحیح مفہوم ،،، انتہا پسندی اور غلو سے تحفظ" کا اعلامیہ

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد اور مغفرت کے طلب گار ہیں، ہم اپنے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی رہنما نہیں بن سکتا، ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ محمد -ﷺ- اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
بروز ہفتہ 12 صفر 1438 ہجری بمطابق 12 نومبر 2016 کو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے "ربانی رضا کار گروپ" اور "ادارہ رافد برائے مطالعہ و تحقیق" کی مشترکہ دعوت پر عالمی کانفرنس بعنوان: "اہل سنت و الجماعت کا صحیح مفہوم ،،، انتہا پسندی اور غلو سے تحفظ" منعقد ہوئی، جس میں دنیا کے متعدد ممالک سے اہل سنت و الجماعت کے نامور علمائے کرام نے شرکت کی، اس کانفرنس کا انعقاد کویت میں ہوا -اللہ تعالی کویت کی حفاظت فرمائے، یہاں کے امیر، حکومت اور عوام کو کامیابیاں اور امن عطا فرمائے- اس کانفرنس کے محرکات یہ تھے:
1- نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام اور چاروں اماموں سمیت دیگر علم و ہدایت کے ائمہ کے عقائد سے امت کی شناسائی۔
2- دفاعِ منہج اہل سنت و الجماعت اور اس منہج کا بدعتی لوگوں کی تحریف، جھوٹے لوگوں کے دعووں اور جاہلوں کی تاویلات سے اعلانِ براءت ۔
3- اس بات کی ترویج کہ منہج اہل سنت و الجماعت ہی ایسا منفرد منہج ہے جس پر چلتے ہوئے اتحاد اور امت کی بہتری ممکن ہے؛ کیونکہ جس طرح پہلے اس امت کی اصلاح ہوئی تھی اسی طرح بعد والوں کی اصلاح ہو گی۔
4- اتحاد امت کا بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ: حق بات پر ڈٹ جانے کی ایک دوسرے کو نصیحت اور وصیت کریں، نیکی اور تقوی کے کاموں پہ تعاون کو فروغ دیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کریں، اس کانفرنس کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔
مقالہ جات پرکھنے کے بعد تمام شرکائے کانفرنس نے درج ذیل اعلامیہ کو حتمی شکل دی:
پہلا:
"اہل سنت و الجماعت" وہ لوگ ہیں جو کتاب و سنت کی اتباع کرتے ہوئے انہی کی جانب اپنی نسبت رکھتے ہیں، اور انکی تعلیمات تسلیم کرتے ہیں، وہ کتاب و سنت کے بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں، تمام اہل سنت کا اس ٹھوس اصول پر اجماع ہے، اسی وجہ سے انہیں اہل سنت و الجماعت کہا گیا، ان کے مزید القاب میں: اہل حدیث، اہل اثر، فرقہ ناجیہ، طائفہ منصورہ، امتِ وسط، اہل حق اور سلفی شامل ہیں ۔
اہل سنت کے ہاں سر کردہ افراد یہ ہیں: سب سے پہلے صحابہ کرام، پھر تابعین جیسے کہ سعید بن مسیب، ابن سیرین، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، زہری -رحمہم اللہ- ان کے بعد تبع تابعین جیسے کہ : ابو حنیفہ، ثوری، مالک، اوزاعی اور لیث بن سعد -رحمہم اللہ- پھر ان کے بعد انہی کے منہج پر چلنے والے ائمہ کرام ، مثلاً: امام شافعی، امام احمد، بخاری اور ابن خزیمہ -رحمہم اللہ-چنانچہ اہل سنت کے عقائد بہت قدیم ہیں ، انہیں امام احمد، یا ابن تیمیہ یا محمد بن عبد الوہاب -رحمہم اللہ-نے ایجاد نہیں کیا بلکہ یہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے عقائد ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ امام احمد، ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب -رحمہم اللہ-نے ان عقائد کو بدعات اور خود ساختہ نظریات پیدا ہونے کے بعد دوبارہ جلا بخشی، ان عقائد کی آبیاری کی اور انہیں لوگوں تک پہنچایا۔
حقیقت میں یہی وہ دین ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے، لوگوں کو اس کی طرف بلایا، دیگر عقائد و نظریات پہ اسے غالب فرمایا، ان عقائد کے حاملین کو اپنا خصوصی فضل اور مغفرت عطا کی جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے [ التوبہ: 100]
نیز نبی ﷺ سے متعدد اسانید کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرنے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے گا اور وہ حق پر قائم ہوں گے)
یہاں پر ہم امام شافعی رحمہ اللہ کی " المدخل الى السنن "(1/109 ) میں بیان کردہ سلف صالحین کی شان ذکر کرنا چاہیں گے، آپ کہتے ہیں: "سلف صالحین کی شان ہم سے کہیں بلند ہے، وہ ہم سے علم، دانش، دینداری، فضائل، حصولِ علم کے اسباب یا حصولِ رہنمائی کے ذرائع ہر اعتبار سے اعلی ہیں، ان کی رائے ہمارے لیے ہماری اپنی رائے سے بہتر ہے"
اسی طرح حافظ ابو القاسم تیمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: " الحجۃ فی بیان المحجۃ"(2 / 410 ) میں بیان کیا ہے کہ: "اہل سنت و الجماعت نے کبھی بھی کتاب و سنت اور سلف صالحین کے اجماع سے تجاوز نہیں کیا، اہل سنت فتنہ پروری کیلیے متَشابہات اور تاویلات کے پیچھے نہیں چلتے، بلکہ اہل سنت و الجماعت صحابہ کرام ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کے قولی و عملی اجماع پر عمل پیرا ہوتے ہیں"
دوسرا:
اہل سنت و الجماعت کا منہج ایک ہے، دو یا زیادہ نہیں ہو سکتے، یہ منہج شعار، حقیقت اور دلائل کا نام ہے، یہی منہج حق ہے اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہے، یہی منہجِ اعتدال ہے اس میں غلو اور جفا نہیں ہے، اس منہج کے حاملین افراد سب سے زیادہ حق کی معرفت رکھتے ہیں، کسی پر حکم لگاتے ہوئے عدل سے کام لیتے ہیں اور راہِ ہدایت کے راہی ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی شخص کی جانب اپنی نسبت نہیں کرتے، آپ ﷺ کی تعلیمات سے تجاوز نہیں کرتے ، آپ ﷺ کی سنت کے مقابلے میں رائے، قیاس، عقل، فلسفی نظریات، منطقی قواعد، ذوق، وجد، قولِ امام یا مجتہد کے اجتہاد کو نہیں لاتے؛ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ حق بات رسول اللہ ﷺ کے افعال، اقوال اور تقریری عمل میں محصور ہے، انہیں یہ بھی یقین ہے کہ آپ ﷺ کی تبلیغِ رسالت میں کسی قسم کی کوئی کمی یا غلطی نہیں بلکہ آپ ﷺ تبلیغِ رسالت میں معصوم عن الخطا ہیں، آپ ﷺ کے علاوہ ہر شخص کی بات کتاب و سنت پر پرکھی جائے گی چنانچہ حق کے مطابق ہونے پر قبول اور بصورتِ دیگر اسے مسترد کر دیا جائے گا، چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو، اسی طرح اہل سنت و الجماعت کسی گروہ، فرقہ، تحریک یا جماعت سے نسبت نہیں رکھتے کیونکہ انہیں اسلام اور عقیدے کی نسبت ہی کافی ہے وہ شرعی القاب پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
تیسرا:
اہل سنت و الجماعت کا مذہب خالص اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر قائم ہے؛ لہذا کوئی مقرب فرشتہ ، نبی یا ولی ہی کیوں نہ ہو اہل سنت اپنے اور اللہ تعالی کی بندگی کے درمیان کسی کو واسطہ نہیں بناتے؛ اس لیے کہ بندگی خالص اللہ تعالی کا حق ہے، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے جلال اور عظمت کی شایانِ شان صفاتِ کمال سے اللہ تعالی کو موصوف قرار دیتے ہیں اور ہر ایسی چیز سے منزّہ اور مبرّا مانتے ہیں جو اللہ تعالی کی شان کے لائق نہ ہو، نیز اللہ تعالی اور اپنے درمیان تبلیغِ رسالت کیلیے صرف رسول اللہ ﷺ کو ذریعۂ تبلیغ جانتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ ﷺ سے دلیل کے بغیر اللہ تعالی کی کوئی عبادت نہیں کرتے۔
چوتھا:
چاروں فقہی مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے ائمہ کرام امت کے عظیم مجتہدین میں سے ہیں، اور ان کے بیان کردہ فقہی مسائل اور مقرر کردہ اصولوں کے بارے میں-ہمارا گمان ہے کہ – ان کا مقصد تلاشِ حق تھا، امت پر ضروری ہے کہ: ان کی عزت اور احترام کریں نیز ان کی قدر و منزلت پہچانیں، یہ بھی نظریہ رکھیں کہ ان کے فیصلے صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی، لیکن ہر دو حالت میں انہیں اجر ملتا ہے، تاہم ان کے اقوال پرکھنے والا شخص وہی موقف لے جس کی تائید دلیل سے ہو، سب کیلیے رحمت و مغفرت کی دعا کرے، نیز ائمہ کرام کی جانب پہچان کیلیے نسبت میں کوئی ممانعت نہیں ہے، علمائے امت شروع سے ان کی جانب نسبت کرتے چلے آئے ہیں۔
پانچواں:
ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد -رحمہم اللہ- چاروں ائمہ کرام جس طرح فقہی مسائل میں امام ہیں وہ اسی طرح عقیدہ توحید میں بھی امام ہیں، یہ ان کے بڑے بڑے اور نامور شاگردوں کے ذریعے صحیح سند کیساتھ ثابت ہے، جیسے کہ ابو جعفر طحاوی نے امام ابو حنیفہ کا عقیدہ بیان کیا، ابن ابی زید قیروانی نے امام مالک کا عقیدہ بیان کیا، ربیع بن سلیمان اور یونس بن عبد الاعلی نے امام شافعی کا عقیدہ بیان کیا، ابو بکر خلّال نے امام احمد -رحمہم اللہ جمیعاً-کا عقیدہ بیان کیا، یہ چاروں ائمہ کرام سلوک اور تزکیہ نفس کے بھی امام ہے، چنانچہ ان کی امامت کو فقہی مسائل میں محصور کر کے عقیدہ اور سلوک میں ان کے بعد آنے والے ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنا جو ان کے مقام تک نہیں پہنچتے ؛ عین غلطی ہے، بلکہ گمراہی اور انحراف کا سبب بھی ہے، اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ چاروں ائمہ کرام جاہل تھے یا گمراہ تھے [!]جو کہ ان کی ہتک عزت کا باعث ہے، اور صاحب دانش کا مقام ایسی حرکت سے کہیں بلند ہوتا ہے۔
چھٹا:
اجتہادی مسائل (جن میں واضح نص یا اجماع نہیں ہے) کیلیے سینے میں کشادگی ہونی چاہیے، چنانچہ ایسے مسائل کی وجہ سے کسی کی مذمت کرنا یا انہیں تفرقہ، اختلاف یا سینوں میں کدورت کا باعث بنانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ان مسائل میں ابتدائے اسلام سے ہی علمائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان میں باہمی کوئی چپقلش نہیں تھی، بلکہ انہوں نے اسے امت کیلیے رحمت اور وسعت قرار دیا، تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ تلاشِ حق کیلیے ان مسائل پر بات چیت اور تنقیدی جائزے سے منع کر دیا جائے۔
نیز ایسے مسائل میں اختلاف اہل سنت سے باہر ہونے کا موجب بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی وجہ سے تفرقہ کی گنجائش پیدا ہوتی ہے، نہ ہی فریق مخالف کو کوئی خاص نام دیکر الگ فرقہ متصور کیا جا سکتا ہے، نہ ہی انہیں بدعتی کہہ سکتے ہیں، نہ ہی اجتہادی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے اہل سنت کی جانب متعدد گروہوں میں تقسیم ہونے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے، اور نہ ہی سلفیت کو مختلف تحریکوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، لیکن جاہلوں، بد طینت اور امت کو بحرانوں میں پھنسانے والوں کی کوشش یہی رہی ہے۔
ساتواں:
جن مجتہدین علمائے کرام سے کچھ غلطیاں ہوئیں اور وہ اہل سنت و الجماعت کے موقف سے دور ہو گئے تو ان کے موقف کو ماننا جائز نہیں ہے، ان کے اس موقف کو متعلقہ مسئلہ میں بطور دلیل بھی پیش نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا رد کرنا لازمی ہے، ساتھ ہی ان مجتہدین کے نیک کارناموں کو رائگاں سمجھنا اور ان کی ہتک عزت کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ان کا احترام اور قدر و منزلت بدستور قائم و دائم رہے گی۔
آٹھواں:
سلف صالحین کے مذہب کو اہل سنت کے اجزائے ترکیبی میں سے ایک جزو قرار دینا محض غلطی ہے؛ کیونکہ حقیقت میں سلف صالحین ہی اہل سنت و الجماعت ہیں، ان کے علاوہ عقائد میں اختلاف رکھنے والے جتنے بھی فرقے ہیں یا انہوں نے اپنا شعار اہل سنت کے شعار سے ہٹ کر بنا لیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ایسے فرقوں کی مذمت فرمائی ہے، مثال کے طور پر جن فرقوں نے انسانی عقل کو وحی یعنی : کتاب و سنت پر مقدم سمجھا، اور کتاب و سنت کو عقل کے تابع کیا، یا عقیدے کے مسائل میں خبر واحد کو مسترد کیا، یا کتاب و سنت میں ذکر شدہ اللہ تعالی کی صفات کو معطل قرار دیا اور ان کے حقائق مسخ کر کے معانی تبدیل کر دیے ، یا تفویض [اللہ تعالی کے اسما و صفات کا معنی بیان کرنے سے بھی احتراز کرنا]سے کام لیا؛ اس کیلیے دعوی یہ کیا کہ اس سے [اسما و صفات کے حقائق باقی رکھنے یا ان کا معنی بیان کرنے پر] مخلوق کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے، یا اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کی نفی کی، یا مخلوقات سے بلند ہونے کی نفی کی، یا وعید میں غلو کرتے ہوئے گناہوں کی وجہ سے کسی کو کافر قرار دیا، ملت اسلامیہ اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی اور معصوم جانوں کے قتل کو جائز سمجھا، یا یہ کہا کہ حصولِ شریعت نبوی طریقے کے بغیر بھی ممکن ہے چاہے اس کیلیے کشف، فیض، خوابوں اور پیرانِ طریقت کسی کا بھی سہارا لے، یا اللہ تعالی کی بندگی خود ساختہ طریقوں رقص، سماع، گانے بجانے اور وجد سے کرے، یا دین کو حقیقت و شریعت اور باطن و ظاہر میں تقسیم کرے، یا یہ کہے کہ ولایت کا درجہ نبوت سے بھی اعلی ہے، یا ولایت کا حصول نبی ﷺ کی اطاعت سے نہیں ریاضت سے ممکن ہے، ان کی مزید تفصیلات کانفرنس میں پیش کئے جانے والے مقالہ جات میں موجود ہے۔
نواں:
کانفرنس کے شرکاء جہاں پر اللہ تعالی سے مسلمانوں میں حق و ہدایت پر اتحاد کی دعا کرتے ہیں اسی طرح تمام ایسی جماعتیں جو کسی خاص نظریے، نام یا شعار کی بنا پر الگ ہو گئی ہیں انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ کتاب و سنت اور سلف صالحین کے آثار میں غور و فکر کریں، اپنے بارے میں نظر ثانی کریں، مفادات سے بلند ہو کر حق تلاش کریں اور وہ وقت ذہن میں رکھیں جب اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہونا پڑے گا ، جس دن مال اور بیٹے کچھ بھی کام نہیں آئیں گے سوائے اس شخص کے جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کے سامنے آئے؛ تا کہ سب کے سب خالص عقیدے پر لوٹ آئیں بالکل اسی طرح جیسے امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ اپنے کلامی نظریے سے عقیدۂ سلف اور اہل حدیث کے عقائد کی جانب لوٹ آئے تھے، یہ بات ان کی دونوں کتابوں "الابانہ" اور اسی طرح "مقالات الاسلامیین" سے واضح ہے۔
دسواں:
کانفرنس کے شرکاء غلو اور انتہا پسندی کی تمام صورتوں ، شکلوں اور تنظیموں سے خبردار کرتے ہیں، عصرِ حاضر کی غلو پرور جماعتوں کی مذمت کرتے ہیں کہ ان کی جانب سے مسلمانوں کو بدعتی یا بلا وجہ کافر کہنے کا عمل جاری ہے، وہ اسلامی ممالک سمیت دیگر ممالک میں معصوم لوگوں کا خون بہا رہے ہیں اور حرمت پامال کر رہے ہیں، انہوں نے مسلم حکمرانوں پر انقلابی تحریکوں اور مظاہروں کے ذریعے بغاوت کی ہوئی ہے اور اس کیلیے جہاد کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
تمام شرکائے کانفرنس مسلم نوجوانوں کو خصوصی طور پر ایسے افکار ، تنظیموں اور گروہوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور ان سے امید کرتے ہیں کہ ایسی گمراہ کن جماعتوں اور نعروں کے پیچھے مت لگیں بلکہ اہل سنت و الجماعت کے منہج پر قائم رہیں؛ کیونکہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ کسی کو کافر، بدعتی اور فاسق قرار دینا شرعی احکام ہیں اور ان کے بارے میں علم و بصیرت کے بغیر گفتگو کرنا جائز نہیں ہے، نیز کسی معین شخص پر کفر، بدعت یا فسق کا حکم لگانے کیلیے صرف وہی عالم دین گفتگو کرے جسے دلائل کا علم ہے اور متعلقہ واقعہ کی حقیقت سے واقف ہے، ساتھ میں حکم لگانے کی مخصوص شرائط مکمل ہوں رکاوٹیں اور موانع موجود نہ ہوں۔
اہل سنت و الجماعت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے مسلمان حاکم کے خلاف بغاوت کو حرام کہتے ہیں چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح شرکائے کانفرنس اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غلو اور انتہا پسندی میں مبتلا تنظیموں کی نسبت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ جیسے اصلاحی تحریک کے سر کردہ افراد کی جانب کرنا سراسر زیادتی ہے، ان کا ایسی تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں ان کی تالیفات ، حالات زندگی اور اہل علم کی ان کے بارے میں تحریریں اس کے متعلق شاہد عدل ہیں۔
گیارہواں:
سلفی منہج کو مختلف تحریکوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہنا کہ: جہادی سلفی اور تکفیری سلفی ، یہ محض مغالطہ آرائی ہے، ایسی بات سلف کے منہج سے نا بلد یا ہوس پرست ہی کر سکتا ہے؛ کیونکہ منہجِ سلف ایک ہی ہے، جسے اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں، لہذا اگر کوئی شخص کچھ اور کہتا ہے تو وہ جھوٹا، سرکش اور ظالم ہے، انتہا پسند جماعتیں اپنے آپ کو چاہے سلفی کہیں ان کا سلفیت سے کوئی تعلق نہیں ، ان جماعتوں کی صفات کے مطابق ان کیلیے "خوارج" کا نام موزوں ترین ہے؛ کیونکہ حقیقت کا اعتبار ہوتا ہے زبانی جمع خرچ کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
بارہواں:
شرکائے کانفرنس مسلم حکمرانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت کے منہج کو مضبوط بنائیں اسی کو پھیلائیں، اس کا دفاع کریں؛ کیونکہ اسی منہج میں دلوں کیلیے حیات، اللہ تعالی کی تعظیم، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور تصدیق سمیت حقوق کی ادائیگی پنہاں ہے، یہی منہج مسلمانوں میں اتحاد، باہمی محبت، دلوں میں الفت اور رحمت کا ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ اس منہج کی بنیاد پر دینی و دنیاوی مقاصد حاصل ہوں گے اسی طرح رضائے الہی اور جنت بھی ملے گی۔
تیرہواں:
شرکائے کانفرنس کچھ مغربی اور عربی میڈیا کے ذرائع کی مذمت کرتے ہیں کہ وہ غلو اور انتہا پسندی کو سلفیت یعنی اہل سنت و الجماعت سے منسلک کرتے ہیں اور انہیں موردِ الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ اہل سنت ان سے بری ہیں، اس کے متعلق اہل سنت کی کتابیں، جد و جہد اور موقف شاہد عدل ہیں۔
چودھواں:
تمام شرکائے کانفرنس حوثیوں کی جانب سے بیت اللہ کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے بیت اللہ کو نشانہ بنانے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اس اقدام سے انہوں نے مسلمانوں کے خون اور حرمتوں کی اہانت کی ہے، دوسری طرف اسلامی اتحاد کی جانب سے مسلمانوں کیلیے پیش کی جانے والی گراں قدر کوششوں کو سراہتے ہیں ، اسلامی اتحاد نے اسلام کے تحفظ کیلیے مسلمانوں کے خلاف جارحیت کو پسپا کیا اور مسلمانوں کے امور کی حمایت کی، اللہ تعالی ان کی جد و جہد کو کامیابیوں سے مزین فرمائے، اس اسلامی اتحاد کے ذریعے اپنے دین کی حفاظت فرمائے، کلمۃ اللہ بلند فرمائے، اور انہیں حق و ہدایت پر متحد فرمائے، بیشک وہی سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے۔

آخر میں تمام شرکائے کانفرنس انتظامیہ : "ربانی رضا کار گروپ" اور "ادارہ رافد برائے مطالعہ و تحقیق" کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کانفرنس کے انعقاد میں پہل کی اور اس کیلیے تیاری، تنظیم، انتظامات اور میزبانی اعلی تھی، سب شرکاء کی اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں برکتوں سے نوازے، ان کی قدم بہ قدم رہنمائی فرمائے اور اس عمل کو ان کی نیکیوں میں شامل فرمائے۔
اسی طرح شرکائے کانفرنس عزت مآب مفتی اعظم اسلامی جمہوریہ موریطانیہ جناب علامہ الشیخ احمد بن مرابط کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کانفرنس کی صدارت کی، نیز اللہ تعالی سے دعا گو بھی ہیں کہ اللہ تعالی ان کے علم و عمل اور عمر میں برکت فرمائے۔
ہم اللہ تعالی کے اسما و صفات کا واسطہ دے کر اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا فرمائے، ان کے دلوں میں باہمی الفت ڈال دے، انہیں حق کیلیے بصیرت عطا فرمائے، انہیں راہِ خیر پر چلائے، انہیں شریروں کے شر اور فاجروں کی مکاری سے محفوظ فرمائے، اپنی خصوصی مدد ، حمایت ، مغفرت اور رحمت کے ذریعے ان کے امور سنوار دے، مسلمان حکمرانوں کو نفاذِ شریعت اور نبی ﷺ کی شریعت پر چلنے کی توفیق دے ۔
ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ان کی آل اور تمام صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالبا یہ کانفرنس گروزنی میں ہونے والی کانفرنس میں اہل سنت و الجماعت کے حوالے سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے منعقد کی گئی تھی ۔
اردو ترجمہ : @ابن مبارک ( شفقت الرحمن مغل )
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اولا جزاك الله خيرا

اس طرح کی کانفرنس هر جگہ هونی چاہیئے اور لوگوں تک سچائی پہونچائی جانی چاہیئے ۔
 
Top