• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’اہل اشراق‘ کے قراء اتِ قرآنیہ پر حالیہ اِعتراضات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ قنوجی لکھتے ہیں:
’’وقد تقرّر أن القرائتین بمنزلۃ الآیتین فکما أنہ یجب الجمع بین الآیتین المشتملۃ إحداہما علی زیادۃ بالعمل بتلک الزیادۃ، کذلک یجب الجمع بین القرائتین۔‘‘ (نیل المرام:۳۵)
’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں، تو جس طرح ایسی دو آیتوں کے درمیان تطبیق کرنا ضروری ہے، جن میں سے ایک آیت کسی زائد معنی پر مشتمل ہو، اسی طرح دو قراء توں میں بھی جمع وتطبیق واجب ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ علامہ سیوطی﷫ رقمطراز ہیں:
’’وتعارض القرائتین بمنزلۃ تعارض الآیتین۔‘‘(الإتقان:۲؍۳۰)
’’دو قراء توں کا تعارض دو آیتوں کے تعارض کی طرح ہے۔‘‘
٭ تفسیر روح المعانی میں ہے:
’’ومن القواعد الأصولیۃ عند الطائفتین أن القرائتین المتواترتین إذا تعارضتا في آیۃ واحدۃ فلہما حکم آیتین۔‘‘ (۶؍۶۶)
’’اصولی قواعد میں سے ایک یہ ہے (دونوں طائفوں کے نزدیک) کہ متواتر قراء تیں جب ایک آیت میں متعارض ہو جائیں تو ان کا حکم دوآیتوں کی طرح ہے۔‘‘
مزید برآں قرآن کریم کا متنوع حروف پر نازل ہونا اُمت محمدیہ کے فضائل وخصائص میں سے ہے، کیونکہ پہلی کتبِ سماویہ ایک حرف پر نازل ہوئیں اور وہ امتیں ان کتب کو صرف ایک ہی حرف پر پڑھ سکتی تھیں اور ان متعدد اَحرف سے جہاں قرآن کریم کی تلاوت میں آسانی مقصود تھی وہاں ان میں بہت سے فوائد اور حکمتیں بھی پنہاں تھیں۔
تمام قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ قراء ات کا تعدد تحریف وتغییر کا نتیجہ ہے اور نہ ہی ان سے معانی میں التباس ،تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کے معانی کی تصدیق کرتی ہیں۔
بعض قراء ات سے متنوع معانی سامنے آتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک معنی مقاصد شریعت اور بندوں کی مصلحتوں میں سے کسی مصلحت کو محقق کرنے والے حکم پر دلالت کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایسی قراء ات میں سے ایک ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ وَکُلَّ اِنْسٰنٍ أَلْزَمْنٰہُ طٰٓپرَہُ فِیْ عُنِقِہٖ۱ وَنُخْرِجُ لَـہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰباً یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا ‘‘ (الاسراء:۱۳)
اس آیت مبارکہ میں لفظ ’یَلْقٰہُ‘ میں دو قراء ات ہیں۔
(١) ’یَلْقٰہُ‘ (بفتح الیاء والقاف مخففۃ)اس قراء ت کی صورت میں اس آیتِ مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روزِ قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اور وہ آدمی اس صحیفے کے پاس اس حال میں پہنچے گا کہ وہ مفتوح (کھلا ہوا) ہو گا۔ اگر وہ شخص جنتی ہو گا تو اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے گا اور اگر جہنمی ہوگا تو اسے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑے گا۔
(٢) ’یُلَقّٰہُ‘ (بضم الیاء وتشدید القاف) اس قراء ات کی صورت میں اس آیت مبارکہ کا معنی ہوگا کہ ہم روزِ قیامت انسان کے لئے ایک کتاب نکالیں گے جو اس کے اعمال کا صحیفہ ہوگا اوروہ کتاب انسان کو اس حال میں دی جائے گی کہ وہ مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔
مذکورہ دونوں قراء ات کے معانی معمولی سے فرق سے واضح ہوتا ہے کہ بالآخر دونوں کا ایک ہی معنی ہے، کیونکہ کتاب کے پاس جانا یا کتاب کادیا جانا ایک ہی شے ہے۔ اور دونوں صورتوں میں ہی وہ کتاب مفتوح (کھلی ہوئی) ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
’’فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ۳ فَزَادَہُمُ اﷲُ مَرَضاً ۵ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ۳۵۰ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ‘‘ ( البقرۃ:۱۰)
اس آیتِ مبارکہ میں لفظ’ یَکْذِبُوْنَ‘ میں دو قراء اتیں ہیں۔
(١) ’ یَکْذِبُوْنَ‘ (بفتح الیاء وسکون الکاف وکسر الذال) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہو گا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کی طرف سے جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔
(٢) ’یُکَذِّبُوْنَ‘بضم الیاء وفتح الکاف وتشدید الذال المکسورۃ) اس قراء ات کی صورت میں اس کا معنی ہوگا کہ وہ رسولوں اور ان کی لائی ہوئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں۔
مذکورہ دونوں قراء ات کے معنی میں نہ تو تناقض ہے اور نہ ہی تضاد ہے بلکہ دونوں قراء ات میں سے ہر ایک نے منافقین کے اَوصاف میں سے ایک ایک وصف بیان کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا وصف: وہ اللہ تعالی، رسول اللہﷺاور لوگوں کی خبروں میں جھوٹ بولتے ہیں۔
دوسرا وصف: وہ اللہ تعالی کی طرف سے رسولوں کی دی گئی شریعت کو جھٹلاتے ہیں۔
اورمنافقین کے بارے میں یہ دونوں صفات ہی برحق ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ان دونوں صفات(کذب اور تکذیب) کو ہی اپنے اَندر جمع کر لیا تھا۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعددِ قراء ات اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکمت کی بناء پر ہے۔ تحریف وتغیر کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی قراء ات سے معانی میں التباس، تناقض یا تضاد پیدا ہوتا ہے ، بلکہ بعض قراء ات بعض قراء ات کی تصدیق کرتی ہیں۔
٭ مفتی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام لوگ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے رہے ہیں اور یہ وہی قراء ت ہے جو عرضۂ اَخیرہ میں پڑھی گئی۔ اور زرکشی﷫ کے حوالے سے ابو عبدالرحمن السلمی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے :
’’ابو بکر وعمر، عثمان، زید بن ثابت﷢ اور تمام مہاجرین وانصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔ وہ قراء تِ عامہ کے مطابق قرآن پڑھتے تھے۔ یہ وہی قراء ت ہے جس پر رسول اللہﷺنے اپنی وفات کے سال جبریلِ اَمین﷤ کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اَخیرہ کی اس قراء ت میں زید بن ثابت﷜ بھی موجود تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اسی کے مطابق قرآن پڑھاتے تھے۔‘‘ (الاتقان فی علوم القرآن:۱؍۳۳۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حلقۂ اِشراق کی طرف سے پیش کی جانے والی قراء تِ عامہ کی دلیل اور زرکشی﷫ کے حوالے سے ابو عبدالرحمن السلمی کے قول کی حقیقت تو حافظ زبیر صاحب اپنے مضمون’قراء تِ متواترہ … غامدی مؤقف کا تجزیہ‘ میں واضح کر چکے ہیں۔ ہم ’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘ کے مصداق مکرر عرض کیے دیتے ہیں۔
غامدی صاحب قرآن کو ثابت کرنے چلے ہیں اور اس کے ثبوت کی دلیل کے طور پر اُن کے پاس اگر کچھ ہے تو وہ ایک تابعی کاقول ہے کہ جس کی کوئی سند بھی موجود نہیں ہے۔امام زرکشی﷫ نے’البرھان‘ میں اس قول کی کوئی سند بیان نہیں فرمائی ہے۔اگر توایک تابعی کایہ قول ایک سے زائد قراء ات کے اِنکار پر مبنی ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا گمان ہے تو تابعی کے ایک ایسے قول کو، کہ جس کی سند بھی موجود نہ ہو، صحاح ستہ کی قراء ا ت متواترہ کے ثبوت میں موجود صحیح، مستند ، مرفوع اور اُمت میں معروف و مقبول روایات پر ترجیح دینا، ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ۔
امام قراء ت، امام اَبو عبد الرحمن سلمی﷫ کی طرف اس قول کی نسبت کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے توپھر بھی اس کا معنی و مفہوم وہ نہیں ہے جو کہ غامدی صاحب سمجھ رہے ہیں ۔امام زرکشی﷫ نے جب اس قول کو اپنی کتاب ’البرھان‘ میں بیان کیا ہے تو انہیں تو وہ بات سمجھ میں نہ آئی جو کہ غامدی صاحب اِس قول سے نکال رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض روایات میں’قرا ء تِ عامہ‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن عبد اﷲ بن مسعود أن رسول اﷲ ﷺ قرأ ’’ فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ ‘‘ (القمر:۱۷) مثل القراء ۃ العامۃ۔ ( صحیح البخاري، کتاب الأنبیاء، حدیث: ۳۳۴۱)
’’عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے’’ فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ ‘‘کو قراء تِ عامہ کے مطابق پڑھاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جامعہ دمشق کے استاذ الحدیث ڈاکٹر مصطفی دیب البغا، اس روایت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’قرائۃ العامۃ‘ أي القرائۃ المشھورۃ التي یقرأ بھا عامۃ القراء الذین رووا القرائات المتواترۃ۔‘‘ (صحیح البخاري: ۳؍۱۲۱۶، دار ابن کثیر الیمامۃ، بیروت )
’’قرا ء ات ِعامہ سے مرادوہ مشہور قراء ت ہے کہ جس کے مطابق ان عام قراء نے، کہ جنہوں نے قراء اتِ متواترہ کو نقل کیا ہے، قرآن کو پڑھا ہے ۔‘‘
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد بھی معروف و متواترقراء ات ہی ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ صحابہy و تابعینS کے زمانے میں بعض لوگوں کاخیال یہ تھا کہ ’’ فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ ‘‘ میں’مُدَّکِرٍ‘ کواہلِ عرب کے استعمالات کی رعایت رکھتے ہوئے ’مذکر‘ پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس لفظ کا مادہ بھی ’ذکر‘ہی ہے ، لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ نے اس بارے میں دو اَساسی باتوں کو واضح کیا ہے ایک تویہ کہ قرآن کی قراء ت میں اصل،اللہ کے رسولﷺسے اس کا سماع ہے نہ کہ عرب کامحاورہ، دوسری بات انہوں نے یہ بیان کی کہ مسلمانوں نے جن طرق سے قرآن اللہ کے رسولﷺسے حاصل کیا ہے،ان سب میں یہ لفظ’مُدَّکِرٍ‘ ہی پڑھا گیاہے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قراء اتِ عشرہ متواترہ کے دس اَئمہ نے بھی اسے ’مُدَّکِرٍ‘ ہی پڑھا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام بخاری﷫نے ’’ فَھَلْ مِن مُّدَّکِرٍ ‘‘ کی قراء ت کو واضح کرنے کے لیے ’کتاب التفسیر‘میں چار اَبواب باندھے ہیں، جن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ سے مروی چھ اَحادیث بیان کی ہیں، انہی میں سے ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ سے یہ سوال بھی ہوا تھا کہ اس لفظ کو ’مذکر‘ پڑھنا چاہیے یا ’مدکر‘؟
پس اہل سنت کے نزدیک ’قراء تِ عامہ‘ سے مراد وہ قراء ت ہے‘ جو قراء ت شاذہ نہیں ہے یعنی قراء اتِ متواترہ۔ ’قراء اتِ شاذہ کے بالمقابل ’قراء ت ِعامہ‘ ایک ہی ہے لیکن اپنی اَصل کے اعتبار سے یہ کئی ایک روایات پر مبنی ہے۔
علاوہ اَزیں امام ابو عبد الرحمن سلمی﷜ سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے امام عاصم﷫کو جو قراء ت پڑھائی تھی وہ دو روایتوں، روایتِ حفص اور روایتِ شعبہ پر مشتمل تھی۔جبکہ غامدی صاحب کی قراء تِ عامہ صرف روایت حفص کو شامل ہے۔پس اِمام ابوعبد الرحمن السلمی سے صحیح اور متصل سند کے ساتھ روایت شعبہ کا ثبوت اس بات کی دلیل کے طور پر کافی ہے کہ امام صاحب کی قراء تِ عامہ صرف روایتِ حفص پر مشتمل نہ تھی۔اس رسالہ کے بعض دوسرے مضامین میں ان اَسناد کے بارے میں تفصیلاً بحث موجود ہے۔ (رشدقراء ات نمبر:۱؍۵۱۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ اپنے مؤقف کے اِثبات کے لیے حافظ صاحب کے مضمون کا علمی طور پر محاکمہ پیش کیا جاتا اور اس کا کافی وشافی جواب دیا جاتا، لیکن چونکہ حلقۂ اشراق روز اول سے اپنے مؤقف کے خلاف محکم براہین کے ہوتے ہوئے بھی ’میں نہ مانوں‘ کی پالیسی پر بڑی جرأت کے ساتھ کاربند رہا ہے لہٰذا یہاں بھی اپنے اُصول کی خلاف ورزی کو مناسب خیال نہیں کیا۔ بہرحال ہم علامہ زرکشیa کے حوالے سے مزید چند ایک گزارشات پیش کرتے ہیں۔
اولاً :یہ کہ اِمام زرکشی﷫ نے ابو عبدالرحمن السلمی کا مذکورہ قول جمع قرآن کی بحث میں ذکر کیا ہے جس سے ان کا مقصود ترتیبِ سور اور آیات کے متعلق صحابہ کرام﷢ کا یکساں عمل نقل کرنا ہے نہ کہ قرآن کی قراء ات کے متعلق بحث کرنا کہ قراء ت ِعامہ سے مراد صرف روایت ِحفص ہے۔
ثانیا: یہ کہ غامدی صاحب کے اِس قول سے استدلال کے مطابق تو تمام مہاجرین وانصار کی ایک ہی قراء ت یعنی روایت ِحفص ہونی چاہیے تھی اور اگر فی الواقع ایسا ہی ہے تو پھر لوگوں میں قراء ت کے حوالے سے اختلاف ہی کیوں رونما ہوا تھا ایک شخص قراء ت ابی بن کعب﷜ کو ترجیح دے رہا تھا تو دوسرا قراء ت عبداللہ بن مسعود﷜ کو، حالانکہ آپ کے بقول تو ان سب کی قراء ت ایک تھی۔اس سلسلے میں علامہ بدر الدین عینی﷫لکھتے ہیں:
’’إن حذیفۃ قدم من غزوۃ فلم یدخل في بیتہ حتی أتی عثمان فقال: یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس۔ قال: وما ذاک؟ قال: غزوت أرمینیۃ فإذا أہل الشام یقرئون بقرائۃ أبي بن کعب فیأتون بما لم یسمع أہل العراق وإذا أہل العراق یقرئون بقرائۃ عبداﷲ بن مسعود فیأتون بما لم یسمع أہل الشام فیکفر بعضہم بعضاً۔‘‘
’’حضرت حذیفہ﷜ کی ایک غزوہ سے واپسی ہوئی تو وہ واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمان﷜ کی خدمت میں حاضر ہو ئے ،اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین ! لوگوں کی خبر لیجئے۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہا میں لڑ ائی کے سلسلے میں آرمینیا گیا ہوا تھا وہاں پہنچا تومعلوم ہوا کہ اہل شام اُبی بن کعب﷜ کی قراء ت پڑھتے ہیں جسے اہلِ عراق نے نہیں سنا ہوا تھا اور اہلِ عراق عبد اللہ بن مسعود﷜ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا اس اِختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔‘‘(عمدۃ القاری: ۱۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عثمان﷜ بھی شاید خود اس خطرے سے آگاہ تھے۔انہیں اس بات کی اِطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ طیبہ کے اَندر ایسے واقعات پیش آئے کہ جب مختلف صحابہ کرام﷢ کے شاگرد اکٹھے ہوئے تو اِختلاف کی سی ایک کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ (الاتقان فی علوم القرآن:۱؍۶۱)
اِس سے ثابت ہوتاہے کہ صحابہ کرام﷢ کے مابین قراء ات کے اختلافات موجود تھے اور انہوں نے اپنے اپنے اختیارات اپنا رکھے تھے اور قراء تِ عامہ صرف روایت ِحفص کو ہی نہیں بلکہ دیگر متواترقراء ات کو بھی شامل تھی۔ اس سلسلہ میں ہم علامہ زرکشی﷫ کے ان اَقوال کو پیش کرتے ہیں جو متعدد قراء ات قرآنیہ سے متعلق ان کا مؤقف واضح کرنے اور ناقابل تردید دلائل کے ساتھ پنجہ آزمائی کر کے ثابت شدہ قراء ات کا اِنکار کرنے والوں کے لیے کافی ہوں گے۔
 
Top