• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’روس اقوام متحدہ کی منظوری کے بعد فضائی حملے کرے گا‘

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روس کے صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ روس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے پر غور کر رہا ہے۔

یہ بات انھوں نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کے بات کہی ہے۔

پیر کو امریکہ اور فرانس نے ایک بار پھر بشار الاسد کے اقتدار چھوڑنے پر زور دیا۔ تاہم اس کے جواب میں ولادی میر پوتن نے کہا کہ ’وہ شام کے شہری نہیں ہیں تو انھیں کسی دوسرے ملک کے لیے قیادت چننے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘

روسی صدر نے کہا کہ روس اقوام متحدہ کی منظوری کے بعد ہی فضائی حملے کرے گا۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے حوالے سے عالمی رہنماؤں میں اختلافات برقرار ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر امریکہ کے صدر اوباما اور روس کے صدر ولادی میر پوتن نے نیو یارک میں ملاقات کی ہے۔

ملاقات کے بعد روسی صدر نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف علاقائی اور مغربی ممالک کے فوجی کارروائیوں کو جب تک اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہے روس ان سے الگ نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے کسی قسم کی زمینی کارروائی میں روس کی شمولیت کو خراج از امکان قرار دیا۔

اس موقعے پر امریکی صدر نے کہا کہ بشار الاسد کے اقتدار میں ہوتے ہوئے شام میں استحکام نہیں آ سکتا۔

اس سے قبل جنرل اسمبلی میں روسی اور امریکی صدر کے تقاریر میں شام کے تنازعے کو حل کرنے کے طریقۂ کار میں کافی اختلاف دکھائی دیے۔

اقوامِ متحدہ سے خطاب میں روسی صدر نے بشار الاسد کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف واحد رکاوٹ قرار دیا جبکہ امریکی صدر نے شامی صدر کو ایک آمر قرار دیا جو بچوں پر بیرل بم گراتے ہیں۔

امریکہ اور فرانس کا اصرار ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کو ہر صورت اقتدار چھوڑنا چاہیے لیکن روس کا موقف ہے کہ دولتِ اسلامیہ سے مقابلہ کرنے کے لیے بشارالاسد کا تعاون نہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے جس طرح دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کو ہرانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

امریکی صدر کے فورا بعد اپنے خطاب میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ شامی کی سرکاری فوج ان دہشت گردوں سے براہِ راست لڑنے میں مصروف ہے اس لیے دولتِ اسلامیہ سے لڑائی کے لیے ان کا تعاون بہت ضروری ہے۔

بعض معر بی رہنماؤں نے بھی صدر بشارالاسد سے متعلق موقف میں نرمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقدار کی منتقلی کے سیاسی دوران وہ حکومت کر سکتے ہیں۔

روس اور امریکہ دونوں نے ہی قدرے مصالحتی رویہ اپنایا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ شام کے تنازعے کے خاتمے کے لیے ایران اور روس سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ ایک طویل خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے سمجھوتہ ضروری ہے لیکن حقیقت پسندی کے تحت منظم انداز میں اقتدار کی منتقلی کی جائے جس میں شامی صدر بشارالاسد کو الگ کر کے ایک قابل قبول رہنما لایا جائے۔

انھوں نے کہا ہے کہ پائیدار استحکام اس وقت ہو سکتا ہے جب شام کے لوگ پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہنے کے معاہدے کا راستہ بنائیں۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ شام کے تنازعے کے حل کے لیے روس اور ایران سمیت کسی بھی ریاست کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے امریکہ تیار ہے لیکن ہمیں لازمی اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ بہت زیادہ خون خرابے اور قتل عام کے بعد وہاں (حکومت کی) جنگ سے پہلے کی جوں کی توں صورتحال نہیں رہنی چاہیے۔
حوالہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
روس کے صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ روس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے پر غور کر رہا ہے۔

یہ بات انھوں نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کے بات کہی ہے۔

پیر کو امریکہ اور فرانس نے ایک بار پھر بشار الاسد کے اقتدار چھوڑنے پر زور دیا۔ تاہم اس کے جواب میں ولادی میر پوتن نے کہا کہ ’وہ شام کے شہری نہیں ہیں تو انھیں کسی دوسرے ملک کے لیے قیادت چننے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘

روسی صدر نے کہا کہ روس اقوام متحدہ کی منظوری کے بعد ہی فضائی حملے کرے گا۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے حوالے سے عالمی رہنماؤں میں اختلافات برقرار ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر امریکہ کے صدر اوباما اور روس کے صدر ولادی میر پوتن نے نیو یارک میں ملاقات کی ہے۔

ملاقات کے بعد روسی صدر نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف علاقائی اور مغربی ممالک کے فوجی کارروائیوں کو جب تک اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہے روس ان سے الگ نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے کسی قسم کی زمینی کارروائی میں روس کی شمولیت کو خراج از امکان قرار دیا۔

اس موقعے پر امریکی صدر نے کہا کہ بشار الاسد کے اقتدار میں ہوتے ہوئے شام میں استحکام نہیں آ سکتا۔

اس سے قبل جنرل اسمبلی میں روسی اور امریکی صدر کے تقاریر میں شام کے تنازعے کو حل کرنے کے طریقۂ کار میں کافی اختلاف دکھائی دیے۔

اقوامِ متحدہ سے خطاب میں روسی صدر نے بشار الاسد کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف واحد رکاوٹ قرار دیا جبکہ امریکی صدر نے شامی صدر کو ایک آمر قرار دیا جو بچوں پر بیرل بم گراتے ہیں۔

امریکہ اور فرانس کا اصرار ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کو ہر صورت اقتدار چھوڑنا چاہیے لیکن روس کا موقف ہے کہ دولتِ اسلامیہ سے مقابلہ کرنے کے لیے بشارالاسد کا تعاون نہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے جس طرح دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کو ہرانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

امریکی صدر کے فورا بعد اپنے خطاب میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ شامی کی سرکاری فوج ان دہشت گردوں سے براہِ راست لڑنے میں مصروف ہے اس لیے دولتِ اسلامیہ سے لڑائی کے لیے ان کا تعاون بہت ضروری ہے۔

بعض معر بی رہنماؤں نے بھی صدر بشارالاسد سے متعلق موقف میں نرمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقدار کی منتقلی کے سیاسی دوران وہ حکومت کر سکتے ہیں۔

روس اور امریکہ دونوں نے ہی قدرے مصالحتی رویہ اپنایا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ شام کے تنازعے کے خاتمے کے لیے ایران اور روس سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ ایک طویل خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے سمجھوتہ ضروری ہے لیکن حقیقت پسندی کے تحت منظم انداز میں اقتدار کی منتقلی کی جائے جس میں شامی صدر بشارالاسد کو الگ کر کے ایک قابل قبول رہنما لایا جائے۔

انھوں نے کہا ہے کہ پائیدار استحکام اس وقت ہو سکتا ہے جب شام کے لوگ پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہنے کے معاہدے کا راستہ بنائیں۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ شام کے تنازعے کے حل کے لیے روس اور ایران سمیت کسی بھی ریاست کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے امریکہ تیار ہے لیکن ہمیں لازمی اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ بہت زیادہ خون خرابے اور قتل عام کے بعد وہاں (حکومت کی) جنگ سے پہلے کی جوں کی توں صورتحال نہیں رہنی چاہیے۔
حوالہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
روس کے صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ روس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے پر غور کر رہا ہے۔

یہ بات انھوں نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کے بات کہی ہے۔

پیر کو امریکہ اور فرانس نے ایک بار پھر بشار الاسد کے اقتدار چھوڑنے پر زور دیا۔ تاہم اس کے جواب میں ولادی میر پوتن نے کہا کہ ’وہ شام کے شہری نہیں ہیں تو انھیں کسی دوسرے ملک کے لیے قیادت چننے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔‘

روسی صدر نے کہا کہ روس اقوام متحدہ کی منظوری کے بعد ہی فضائی حملے کرے گا۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے حوالے سے عالمی رہنماؤں میں اختلافات برقرار ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر امریکہ کے صدر اوباما اور روس کے صدر ولادی میر پوتن نے نیو یارک میں ملاقات کی ہے۔

ملاقات کے بعد روسی صدر نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف علاقائی اور مغربی ممالک کے فوجی کارروائیوں کو جب تک اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہے روس ان سے الگ نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے کسی قسم کی زمینی کارروائی میں روس کی شمولیت کو خراج از امکان قرار دیا۔

اس موقعے پر امریکی صدر نے کہا کہ بشار الاسد کے اقتدار میں ہوتے ہوئے شام میں استحکام نہیں آ سکتا۔

اس سے قبل جنرل اسمبلی میں روسی اور امریکی صدر کے تقاریر میں شام کے تنازعے کو حل کرنے کے طریقۂ کار میں کافی اختلاف دکھائی دیے۔

اقوامِ متحدہ سے خطاب میں روسی صدر نے بشار الاسد کو دولتِ اسلامیہ کے خلاف واحد رکاوٹ قرار دیا جبکہ امریکی صدر نے شامی صدر کو ایک آمر قرار دیا جو بچوں پر بیرل بم گراتے ہیں۔

امریکہ اور فرانس کا اصرار ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کو ہر صورت اقتدار چھوڑنا چاہیے لیکن روس کا موقف ہے کہ دولتِ اسلامیہ سے مقابلہ کرنے کے لیے بشارالاسد کا تعاون نہ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک بڑے اتحاد کی ضرورت ہے جس طرح دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کو ہرانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

امریکی صدر کے فورا بعد اپنے خطاب میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ شامی کی سرکاری فوج ان دہشت گردوں سے براہِ راست لڑنے میں مصروف ہے اس لیے دولتِ اسلامیہ سے لڑائی کے لیے ان کا تعاون بہت ضروری ہے۔

بعض معر بی رہنماؤں نے بھی صدر بشارالاسد سے متعلق موقف میں نرمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقدار کی منتقلی کے سیاسی دوران وہ حکومت کر سکتے ہیں۔

روس اور امریکہ دونوں نے ہی قدرے مصالحتی رویہ اپنایا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ شام کے تنازعے کے خاتمے کے لیے ایران اور روس سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ہے کہ ایک طویل خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے سمجھوتہ ضروری ہے لیکن حقیقت پسندی کے تحت منظم انداز میں اقتدار کی منتقلی کی جائے جس میں شامی صدر بشارالاسد کو الگ کر کے ایک قابل قبول رہنما لایا جائے۔

انھوں نے کہا ہے کہ پائیدار استحکام اس وقت ہو سکتا ہے جب شام کے لوگ پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہنے کے معاہدے کا راستہ بنائیں۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ شام کے تنازعے کے حل کے لیے روس اور ایران سمیت کسی بھی ریاست کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے امریکہ تیار ہے لیکن ہمیں لازمی اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ بہت زیادہ خون خرابے اور قتل عام کے بعد وہاں (حکومت کی) جنگ سے پہلے کی جوں کی توں صورتحال نہیں رہنی چاہیے۔
حوالہ
 
Top