• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’سید سلیم شاہ ‘ اور’ اَنور عباسی‘ کی خدمت میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس روایت میں نہ تو انس بن مالک﷜ ہیں اور نہ ہی ابن شہاب زہری﷫۔ ایک اورروایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ قال: حدثني عمي قال: حدثنا أبو رجاء قال: أخبرنا إسرائیل عن أبي إسحاق عن مصعب بن سعید قال: قام عثمان فخطب الناس فقال: أیھا الناس عھدکم بنبیکم منذ ثلاث عشرۃ وأنتم تمترون في القرآن وتقولون قرائۃ أبي و قرائۃ عبد اﷲ۔ یقول الرجل: وا! ما تقیم قرائتک فأعزم علی کل رجل منکم ما کان معہ من کتاب اﷲ شيء لما جاء بہ، وکان الرجل یجيء بالورقۃ والأدیم فیہ القرآن حتی جمع من ذلک کثرۃ، ثم دخل عثمان فدعاھم رجلا رجلا، فناشدھم لسمعت رسول اﷲ ﷺ وھو أملاہ علیک؟ فیقول: نعم، فلما فرغ من ذلک عثمان قال: من أکتب الناس؟ قالوا: کاتب رسول اﷲ ﷺ زید بن ثابت قال: فأي الناس أعرب؟ قالوا: سعید بن العاص قال عثمان: فلیمل سعید والیکتب زید، فکتب زید وکتب مصاحف ففرقھا في الناس فمسعت بعض أصحاب محمد یقول: قد أحسن۔(کتاب المصاحف‘ باب جمع عثمان ، کنز العمال: ۲؍۵۸۴)
ابن شہاب زہری﷫ کے علاوہ ابو قلابہ بصری (متوفی ۱۰۴ھ) نے بھی حضرت انس بن مالک﷜ سے حضرت عثمان﷜ کے جامع قراء ات ہونے کو نقل کیا ہے۔
(مشکل الآثار للطحاوي‘ باب بیان مشکل ما روي عن رسول اﷲ ﷺ ؛ المقنع في رسم مصاحف الأمصار‘ باب ذکرمن جمع القرآن في الصحف أولا ومن أدخلہ بین اللوحین)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس روایت کا کوئی بھی متن ابن شہاب زہری﷫ کی متنازع شخصیت کے بغیر موجود نہیں ہے۔ ہم اس دعویٰ کے رد میں اوپر دو ایسی احادیث نقل کر چکے ہیں جو حضرت عثمان﷜ کے جامع قراء ات ہونے کو بیان کر رہی ہیں اور ان کی سند میں ابن شہاب زہری﷫ موجود نہیں ہیں۔ امام الحدیث ابن شہاب زہری﷫ کو متنازع شخصیت ثابت کرنے کا اعتراض در حقیقت سلیم شہزاد صاحب کے استاذجناب غامدی صاحب کا ہے اور جناب غامدی صاحب نے اپنے ایک من گھڑت فلسفے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ابن شہاب زہری﷫ کی شخصیت کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے جس کا مفصل جواب ہم ماہنامہ’ رُشد ‘جون ۲۰۰۹ء میں نقل کر چکے ہیں۔ انور عباسی صاحب اس کی طرف رجوع فرما لیں۔
(٣) اس روایت پر ایک اعتراض یہ فرمایا گیا ہے کہ اس میں ایک راوی ابراہیم بن سعد﷫کی ابن شہاب زہری﷫ سے ملاقات ممکن نہیں ہے کیونکہ ابراہیم بن سعد﷫ مدینہ میں رہتے تھے اور امام زہری﷫ ’ایلہ‘ کے مقام پر ‘ علاوہ ازیں ابن شہاب﷫ کی وفات کے وقت ابراہیم بن سعد﷫ کی عمر ۱۶ ؍سال تھی۔
جناب محقق شہزاد سلیم صاحب نے اس کہانی کو ثابت کرنے کے لیے ابن حجر﷫ کی کتاب’تہذیب التہذیب‘ کی طرف اِشارہ کر دیا لیکن انہیں ابن حجر﷫ کی عبارت نقل کرنے کی توفیق نہ ہوئی کیونکہ ابن حجر﷫ کا موقف ان کی اس کہانی کے بالکل برعکس ہے۔جناب شہزاد سلیم صاحب جس کتاب کے متفرق بیانات کو جوڑ کر ایک کہانی وضع کر رہے ہیں ‘ اسی کتاب کے مصنف کی یہ رائے ہے کہ ابراہیم بن سعد﷫ کی ابن شہاب زہری﷫ سے ملاقات ثابت ہے۔ابن حجر﷫ نے ابراہیم بن سعد﷫ کے ابن شہاب زہری﷫ سے سماعت کی صراحت کی ہے۔ (تہذیب التہذیب : ۹؍ ۳۹۶) ابن حجر﷫ تو کیا جمیع محدثین نے اس سماعت کی صراحت کی ہے سوائے جناب شہزاد سلیم صاحب اور ان کے خوشہ چیں محقق جناب انور عباسی صاحب کے۔ابن عدی ﷫ کا قول ہے:
’’وقال ابن عدي… ولہ أحادیث صالحۃ مستقیمۃ عن الزھري وغیرہ‘‘(تھذیب التھذیب:۱؍ ۱۰۷)
’’وسئل أبو زکریا أیھم أحب إلیک في الزھري إبراھیم بن سعد أو ابن أبي ذئب فقال إبراھیم: أحب إلي من أبي ذئب في الزھري‘‘ (سیر أعلام النبلاء: ۸؍ ۳۰۶‘ مؤسسۃ الرسالۃ)
’’قال عباس الدوري قلت لیحی بن معین: إبراھیم بن سعد أحب إلیک في الزھري أو لیث ابن سعد؟ فقال: کلاھما ثقتان۔‘‘ (تھذیب الکمال : ۲؍۹۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ذہبی﷫ نے بھی ابراہیم بن سعد﷫ کے ابن شہاب زہری﷫سے سماعت کی تصدیق کی ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ۸؍ ۳۰۵)جناب شہزاد سلیم صاحب دعوے تو ایسے کر رہے ہیں جیسے امام ذہبی﷫ اور ابن حجر﷫ ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ شہزاد سلیم اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے محقق جناب انور عباسی صاحب ابن عیینہ ﷫ (۱۰۷۔۱۹۸ھ) کے اس قول پر غور کریں:
’’وقال ابن عیینۃ کنت عند ابن شھاب فجاء ابراھیم بن سعد فرفعہ وأکرمہ۔‘‘(تھذیب التھذیب: ۱؍ ۱۰۶)
ابن عیینہ﷫ یہ کہتے ہیں کہ میرے سامنے ابراہیم بن سعد﷫ اور ابن شہاب زہری﷫ کی ملاقات ہوئی اور جناب شہزاد سلیم صاحب یہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں کی ملاقات آپس میں ناممکن ہے۔ فی زمانہ کسی صاحب کا ایسا دعویٰ معروف محدث ابن عیینہ﷫ کے مقابلے میں قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن صرف اس صورت جبکہ وہ یہ ثابت کر دیں کہ وہ ابن شہاب زہری﷫ کے پرسنل سیکرٹری رہ چکے ہیں اور ان کی تمام ملاقاتوں کی ڈائری بھی لکھتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شہزاد سلیم صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابن شہاب زہری’ ایلہ‘ نامی مقام پر رہتے تھے۔ امام نووی﷫ کے بقول ابن شہاب زہری﷫ شروع میں شام میں مقام’ ایلہ‘ کے رہائشی تھے۔ (تہذیب الأسماء: ۱۲۳‘ المکتبۃ الشاملۃ‘ الإصدار الثالث) اس کے بعد ان کااکثر و بیشتر وقت مدینہ میں گزر اہے‘ اسی لیے وہ مدنی کے لقب سے مشہور ہوئے لیکن علم کی تحصیل کے لیے دوسرے شہروں کے سفر بھی کرتے تھے ۔ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے ۱۲۴ھ میں وہ اپنے رشتہ داروں کے ہاں ’شغب و بدا‘ کی دو وادیوں کے پیچھے ایک مقام’ادامی‘ یا ’ادم‘ پر منتقل ہو گئے تھے۔معروف مؤرخ ابن سعد (متوفی۲۳۰ھ ) لکھتے ہیں:
’’قال محمد بن عمر: ولد الزھري سنۃ ثمان وخمسین في آخر خلافۃ معاویۃ بن أبی سفیان وھي السنۃ التي ماتت فیھا عائشۃ زوج النبي ﷺ وکان الزھري قد قدم في سنۃ أربع وعشرین مائۃ إلی أموالہ بثلیۃ بشغب وبدا فأقام فمرض ھناک فمات فأوصی أن یدفن علی قارعۃ الطریق ومات لسبع عشرۃ لیلۃ من شھر رمضان سنۃ أربع وعشرین ومائۃ وھو ابن خمس وسبعین سنۃ۔‘‘ (الطبقات الکبری: ۱؍۱۸۵، تھذیب الأسماء:۱۲۴)
’شغب و بدا‘ کہاں واقع ہے ؟ اس کے بارے مؤرخین کی معروف رائے یہی ہے کہ یہ مقام سر زمین حجاز کی آخری اور فلسطین کی ابتدائی زمین پر تھا اور یہیں ان کی وفات ہوئی۔ابن سعد (متوفی ۲۳۰ھ) لکھتے ہیں:
’’قال: وأخبرنا الحسین بن المتوکل العسقلاني قال: رأیت قبر الزھري بأدامي وھي خلف شغب وبدا وھي أول عمل فلسطین وآخر عمل الحجاز وبھا ضیعۃ الزھري الذي کان فیھا۔‘‘(الطبقات الکبری: ۱؍۱۸۶، تاریخ دمشق: ۵۵؍۳۸۱، سیر أعلام النبلائ: ۵؍۳۴۹؛ وفیات الأعیان: ۴؍۱۷۸؛ تھذیب الکمال: ۲۶؍۴۴۲)
پس ابن شہاب زہری﷫ اور ابراہیم بن سعد دونوں مدینہ ہی میں تھے نہ کہ ایک ’ایلہ‘ میں اور دوسرے مدینہ میں جیسا کہ شہزاد سلیم صاحب کا خیال ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) شہزاد سلیم صاحب نے چوتھا اعتراض یہ وارد کیا ہے کہ ابن حزم﷫ کے بقول حضرت عثمان﷜ کے دور تک لاکھوں مصاحف سلطنت عثمانیہ میں پھیل چکے تھے۔ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر چہ اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ ابن حزم﷫ نے ایسا کہا ہے تو کیا اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ قراء ات کے اختلافات کے قائل نہیں تھے؟جیسا کہ انور عباسی صاحب اپنے قارئین کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ابن حزم﷫ قراء ات کے اختلافات کے قائل تھے انہوں نے امام کسائی﷫ کی روایت کو قرائات ثابتہ میں شمار کیا ہے اور اس سے استدلال بھی کیا ہے۔ (المحلی : ۵؍ ۱۰۷‘ دار الفکر) اسی طرح وہ قرآن کی تعریف میں متواتر قراء ات کو بھی شامل مانتے ہیں۔ (الإحکام في أصول الأحکام‘ القاعدۃ الثانیۃ‘ القسم الأول‘ الأصل الأول في تحقیق معنی الکتاب)امام ابن حزم﷫ کا نقطہ نظر اصل میں یہ ہے کہ جمیع قراء ات متواترہ اللہ کے رسولﷺسے ثابت ہیں اور ا ن کے مطابق مصاحف بلاد اسلامیہ میں حضرت عثمان﷜ کے زمانے سے پہلے ہی پھیل چکے تھے اور جو اختلاف قراء ت حضرت عثمان﷜ اور ما بعد کے زمانوں میں سامنے آیا تو وہ بعض روافض کی شرارت ہے جنہوں نے متواتر قراء ات کے منہج پر نئی نئی قراء ات وضع کرنی شروع کر دی تھیں۔یہ امام صاحب کا کل موقف ہے کہ جس کے ایک حصے کا پیوند جناب شہزاد سلیم صاحب نے اپنی تحقیق میں لگایا ہے اور پھر وہاں سے انور عباسی صاحب نے نقل کر لیا ہے۔امام صاحب کا یہ موقف بہت طویل ہے اور اس کا اردو ترجمہ ماہنامہ ’رُشد‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ جہاں سے ان کی بات کا آغاز ہوتا ہے ‘ ہم وہاں سے کچھ حصہ نقل کر دیتے ہیں جس میں قطعی طور پر انہوں نے قرآن کی جمیع قراء ات کو ثابت قرار دیا ہے۔ امام صاحب لکھتے ہیں:
’’أما قولھم: إننا مختلفون فی قرائۃ کتابنا فبعضنا یزید حروفا وبعضنا یسقطھا فلیس ھذا اختلافا بل ھو اتفاق منا صحیح، لأن تلک الحروف وتلک القرائات کلھا مبلغ بنقل الکواف إلی رسول اﷲ ﷺ أنھا نزلت علیہ فأي تلک القرائات قرأنا فھي صحیحۃ وھي محصورۃ کلھا مضبوطۃ معلومۃ لا زیادۃ فیھا ولا نقص۔‘‘(الفصل في الملل: ۲؍۶۴‘)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) پانچویں اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نسخے بھجوانے کا ہی کام توکیا گیا ہے لیکن بھیجنے سے پہلے سرکاری نسخہ تیار کیا گیا ہے اور پھر اس کی کاپیاں مختلف بلاد اِسلامیہ میں بھجوا کر لوگوں کو اس سرکاری مصحف کے مطابق قراء ت کا پابند کیا گیا ہے۔جمع عثمانی سے پہلے بھی صحابہ﷢ اور تابعین﷭ کے پاس ذاتی مصاحف تھے ‘ اس سے تو انکار نہیں ہے لیکن ان مصاحف میں ایسی قراء ات بھی موجود تھیں جو عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں یا آپﷺکے بعض تفسیری نکات کو بھی بعض صحابہ قرآن سمجھ کر تلاوت کر رہے تھے یا بعض روافض نے بعض موضوع قراء ات اللہ کے رسولﷺکی طرف منسوب کرنا شروع کر دی تھیں لہٰذا ان مصاحف کی درستگی بھی وقت کی ایک اہم ضرورت تھی اور اسی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے حضرت عثمان﷜ نے ایک ایساسرکاری نسخہ جاری فرمایاکہ جس میں منسوخ قراء ات اور تفسیری نکات کے علاوہ مروی صحیح قراء ات کو رسم میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کسی اسلامی ملک میں کثرت سے قرآن شائع ہو رہے ہوں اور مختلف کمپنیوں نے جو قرآن شائع کیے ہوں‘ ان میں طباعت کی غلطیاں ہوں یا رسم کے اختلافات ہوں تو اسلامی مملکت اگر سرکاری نسخہ تیار کر کے لوگوں کو اس کے مطابق قراء ت کا پابند کرے تو اس میں غلطی یا ناممکن ہونے کا کیا پہلو نکلتا ہے۔ ایسا تو۱۴؍ صدیوں بعد آج بھی ہو رہا ہے۔ سعودی عرب اور مصر میں طبع شدہ مصاحف میں اغلاط کی کثرت کی وجہ سے پرائیویٹ کمپنیوں اور اداروں پر مصحف شائع کرنے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) جناب شہزاد سلیم صاحب کو تعجب اس بات پر ہو رہا ہے کہ حضرت زید بن ثابت﷜ قریشی نہیں تھے لیکن پھر بھی ان پر قریش کی زبان میں قرآن لکھنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ اردو اور انگریزی مصادر سے استفادہ کے نتیجے میں وجود میں آنے والے معاصر محققین پر نقد اس لحاظ سے بھی بہت مشکل ہو جاتی ہے کہ ناقد کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان کی کس کس چیز کی اصلاح کرے۔ اگر کوئی صاحب علم غلطی کرے تو اس کی اصلاح کرنا بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ اس فن کے بنیادی مقدمات سے واقف ہوتا ہے ۔ جب کسی محقق صاحب کو کسی فن کی الف باء کا ہی علم نہ ہو تو اس کی اصلاح کرنا ایک بڑا ہی صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جمع عثمانی میں صرف حضرت زید بن ثابت﷜ کو لکھنے کا حکم دو وجوہات سے دیا گیا تھا ایک تو وہ کاتب رسولﷺتھے۔ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب کاتب النبي ﷺ) اور دوسرا وہ اہل عرب میں کتابت میں سب سے زیادہ ماہر تھے۔لہٰذا کتابت کی ذمہ داری حضرت زید﷜ پر تھی اور انہیں املاء حضرت سعید بن العاص﷜ کرواتے تھے کیوں کہ وہ أفصح اللسان تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں حضرت عثمان﷜ نے جمع قرآن سے پہلے لوگوں سے سوال کیا:
’’أي الناس أفصح؟ قالوا: سعید بن العاص، ثم قال: أي الناس أکتب؟ قالوا: زید بن ثابت۔ قال: فلیکتب زید والیمل سعید۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب جمع عثمان المصاحف)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب کتابت اور املاء میں فر ق تو آنجناب کے ہاں ضرور واضح ہو گا۔ قرآن لکھنا کیسے ہے؟ یہ تو قریشی صحابہ﷢ نے طے کرنا تھا لیکن لکھنا کس نے ہے ؟ یہ حضرت زید بن ثابت﷜ تھے۔دور کیوں جاتے ہیں ہم بھی تو اپنی ہدایات کے مطابق آخر بینرز‘ اشتہارات‘ کتبے اوربل بورڈز وغیرہ لکھواتے ہی ہیں تو کیا ہمارے اور کاتب کے مابین کوئی فرق نہیں ہوتا۔لیکن یہ واضح رہے کہ ہمارے کاتب عموماً جہلاء ہوتے ہیں لیکن حضرت زید بن ثابت﷜ کاتب ہونے کے ساتھ ماہر قاری قرآن اور عالم بھی تھے۔
دوسرا اِعتراض جناب شہزاد سلیم صاحب نے یہ کیا ہے کہ قرآن‘ اسی نسخہ سے نقل کیا جانا تھا جو پہلے سے موجود تھا تو فرق یا اختلاف پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ تو لکھا ہی قریش کی زبان میں گیا تھاجو خود حضرت زید بن ثابت﷜ ہی نے لکھا تھااور پھر کوئی کمیٹی بنانے کی ضرورت کس طرح پیش آ گئی کہ حضرت زید بن ثابت﷜ کی تصحیح کی جا سکے کیونکہ اصل نسخہ بھی تو ان ہی کا لکھا ہوا تھا اور اب تو وہ محض اس کی صرف نقل کر رہے تھے ۔
اس کے بارے ہماری عرض یہ ہے کہ جمع عثمانی میں کتابت کا کام ایک مستقل کام تھا‘ یہ جمع ابو بکر﷜ سے نقل نہیں تھی بلکہ اس سے مراجعت تھی۔ اسی لیے ابن جریر طبری﷫ کی بیان کردہ روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابت﷜ جب قرآن لکھ کر فارغ ہو گئے تو انہوں نے اس کی مراجعت فرمائی اور اس میں سورۃ اَحزاب کی آیت مبارکہ ’’ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عٰھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ‘‘(الأحزاب:۲۳) غائب پائی تو مہاجرین اور انصار میں تلاش کے بعد خزیمہ بن ثابت انصاری﷜ کے پاس مل گئی ۔ اب دوسری دفعہ حضرت زید بن ثابت﷜ نے اس مصحف کی مراجعت فرمائی تو سورہ توبہ کی آخری دو آیات ’’ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ‘‘(التوبۃ:۱۲۸) کے بارے انہیں اِحساس ہو اکہ وہ بھی غائب ہیں ۔ اب ان کی تلاش شروع ہوئی تو یہ آیات ایک اور انصاری صحابی حضرت خزیمہ﷜ کے پاس سے ملی۔اب حضرت زید بن ثابت﷜ نے تیسری مرتبہ مراجعت فرمائی تو انہیں یہ احساس ہوا کہ اب کوئی آیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔پھر حضرت عثمان﷜ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے صحف ابی بکر منگوائے اور جمع ابو بکر﷜ کے ساتھ اس مصحف کی مراجعت فرمائی گئی تو دونوں میں کہیں بھی کوئی اختلاف نہ تھا۔ (مقدمۃ تفسیر طبری: ۱؍۶۰،۶۱) صحیح بخاری کی روایت اجمالی ہے اور درحقیقت اس چوتھی مراجعت کو مجازاً ’نسخ‘ کے الفاظ سے بیان کر رہی ہے۔اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے رشد کے اسی شمارہ میں قاری فہد اللہ صاحب کے مضمون بعنوان ’’جمع عثمانی روایات کے تناظر میں‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔خلاصہ کلام یہی ہے کہ جس شخص کو عربی کے دو لفظ صحیح طرح سے نہ پڑھنے آتے ہوں‘ یا وہ علوم اسلامیہ کی الف باء سے بھی واقف نہ ہو سوائے چند ترجمہ شدہ کتابوں اور انگلش آرٹیکلز سے استفادہ کے ‘ اسے قرآن جیسے نازک موضوع پر گفتگو کرنے سے ڈرنا چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں ایسے جہلاء پیدا ہوں گے جنہیں دینی علوم میں تورسوخ نہ ہو گالیکن اپنی معاشرتی حیثیت (social status) کی وجہ سے لوگوں میں نمایاں ہوں گے۔ یہ جہلاء بغیر علم کے تحقیق کریں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ آپﷺ کے الفاظ ہیں:
’’اِتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوْسًا جُھَّالًا‘ فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ‘ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا‘‘۔ (صحیح البخاری: ۱۰۰)
’’لوگ جہلا کو اپنا بڑا بنالیں گے اور ان جاہلوں سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے جاری کریں گے۔پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آخر میں ہم پھر وہی سوالات دہرائیں گے جو ہر منکر قراء ت پر ایک قرض ہیں اور ہر منکر قراء ت ان کا جواب دینے سے بدکتاہے ۔ اور جب تک قراء ات پر ناقدانہ تحقیقی مضمون میں ان سوالات کا جواب نہیں آجاتااس وقت تک اس مضمون کو تحقیقی کہنا تحقیق کی توہین ہے کیونکہ بنیادی مسئلہ تو وہیں کا وہیں موجود ہے۔سوالات یہ ہیں کہ
کیا کروڑوں مسلمانوں کے پڑھنے سے بھی کوئی چیز مثلاً روایت ورش قرآن ثابت نہیں ہوتی ؟اگر نہیں تو روایت حفص کیا صرف اس بنیاد پر قر آن ثابت ہو جاتی ہے کہ اسے کروڑوں مسلمان پڑھتے ہیں کیا کروڑوں مسلمان غلط قرآن پڑھ سکتے ہیں؟ اگر ہاں! تو ’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَــہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘ (الحجر:۹) کے کیا معنی ہوئے؟
صدیوں سے قرآنی مصاحف مختلف قراء ات کے مطابق لکھے جا رہے ہیں اور اب تو پہلی اور دوسری صدی ہجری کے بھی بعض مصاحف ملے ہیں کہ جن میں مختلف قراء ات کے مطابق رسم موجود ہے‘ اس موضوع پر رشد کے اسی شمارے میں میرے مضمون ’قدیم مصاحف قرآنیہ‘ کا مطالعہ فرمائیں۔کیا چودہ صدیوں میں غیر قرآن کو مسلمان بطور قرآن لکھتے رہے‘ شائع کرتے رہے ‘ نماز اور غیر نماز میں پڑھتے رہے ‘ اپنے بچوں کو حفظ کرواتے رہے ‘اس کے مطابق تفسیرمثلاً کشاف اور جلالین وغیرہ کے نسخے شائع ہوتے رہے لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے کوئی اقدام نہ فرمایا؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ صرف ۱۲۴ ؍سال کے لیے لیا تھا اور ابن شہاب زہری﷫(متوفی ۱۲۴ھ) کے بعد قرآن غیر محفوظ ہو گیا تھا؟
قرآن کے بطور قرآن ثابت ہونے کا معیار کیا ہے؟ کیا قرآن(روایت حفص) کے بطور قرآن ثابت ہونے کے معیار پر روایت ورش‘ روایت قالون اور روایت دوری پوری نہیں اترتیں؟
کیا قاری کی تعلیم کے بغیر لکھے ہوئے قرآن کو پڑھنے میں د وبندوں کا اتفاق ممکن ہے؟ اگر نہیں تو قرآن میں اصل نقل ہوئی یا کتابت؟ اگر نقل ہے تو پھر قراء پر قرآن(روایت حفص) کے معاملے میں اعتماد اور قراء ات کے قبول کرنے میں عدم اعتماد کا دوہرا معیار کیوں؟
کیا قرا ء ات اپنے ثبوت کے لیے سبعہ اَحرف کی حدیث کی محتاج ہیں؟ اگر نہیں تو صرف سبعہ اَحر ف کے معنی و مفہوم متعین نہ ہونے کی بنا پرقراء ات کا انکار کیوں؟اور قرآن کی کسی آیت کے معنی و مفہوم میں مسلمانوں کا اتفاق نہ ہوتو اس کا انکار کیوں نہیں کیا جاتا؟
کیا ہمارے تمام مفسرین قرآن سے جاہل تھے جو قرا ء ات کو بطور قرآ ن تفاسیر میں نقل کرتے رہے ؟(تصیل کے لیے دیکھئیے شمارہ ہذا ص ۲۲ پر قاری عمر فاروقی کامضمون’احادیث مبارکہ میں روایت حفص کے علاوہ دیگر متواتر روایات)
 
Top