• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’علم قراء ات کی خبری اصطلاحات‘… ایک تعارف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) القراء ات المتعددۃ المعنی
یہ اَیسی قراء ات ہیں جن کے اَلفاظ اور معانی دونوں مختلف ہوں اور اس نوع میں معانی کا اِختلاف تنوع کے باب سے ہے نہ کہ تضاد کے اِختلاف کے باب سے، کیونکہ اِختلاف تضاد قرآن کریم کی صریح نص کی نفی کرتا ہے۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ’’أَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْئَانَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثِیْرا‘‘(النساء:۸۲)
’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔‘‘
اِبن جوزی رحمہ اللہ ’’لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثِیْراً ‘‘ سے متعلق لکھتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’اس میں تین طرح کے اَقوال ہیں:
(١) یہ کہ اِس سے مراد تناقض ہے، یہ ابن عباس tاور جمہور کا مؤقف ہے۔
(٢) یہ کہ اِس سے مراد جھوٹ ہے۔
(٣) کلام کی بلاغت کے اِعتبار سے نقص موجود ہوتا، کیونکہ جب کلام طویل ہو جائے تو عموماً اس میں نقص واقع ہو جاتا ہے۔ جبکہ قرآن مبین فصاحت وبلاغت کا عظیم شاہکار ہے۔ (زاد المسیر لابن جوزي: ۲؍۱۴۴،۱۴۵)
اَور تنوع کا اِختلاف صرف فرش میں موجود ہے اور زیادہ تر فرش بھی اِسی نوع سے ہے۔
اَمثلہ: قولہ تعالیٰ: ’’وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلاً إِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ‘‘ (الزخرف:۵۷) یہاں پر نافع، ابن عامر اورکسائی کی قراء ت صاد کے ضمہ کے ساتھ ’یَصُدُّوْنَ‘ ہے جبکہ باقی قراء کی قراء ت کسرہ کے ساتھ ہے۔
پہلی قراء ت کا معنی: وہ اَپنے غیر سے ان کے ایمان سے متعلق جھگڑا کرتے ہیں۔
دوسری قراء ت کا معنی : کہ وہ اَپنے نفس میں جھگڑا کرتے ہیں۔
اِس قراء ت سے یہ دونوں معانی مستنبط ہوتے ہیں۔ (حجۃ القراء ات:۶۵۲)
دوسری آیت:’’وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ أَنْدَادًا لِّیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِہٖ‘‘ (ابراھیم:۳۰) ہے۔
یہاں پر ابن کثیررحمہ اللہ اور ابوعمرورحمہ اللہ نے’’ لِیَضِلُّوا عَنْ سَبِیلِہ ‘‘یاء کے فتح کے ساتھ پڑھا ہے۔
ان تمام تعریفات کے ذکر کرنے کے بعد ہم سند عالی اور سند نازل کی معرفت کی طرف چلتے ہیں اور امام سیوطی رحمہ اللہ کے الفاظ میں سند عالی اور سند نازل کی وضاحت ملاحظہ کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اصحاب حدیث نے عالی اورنازل سند کو پانچ حصوں میں تقسیم کیاہے:
(١) ایسی سند صحیح جو ضعف سے محفوظ ہو،اور اس میں عدد کے اعتبار سے رسول اللہﷺسے قرب ہو، یہ علو کی سب سے بہتر قسم ہے۔ موجودہ دور میں سند عالی کی اس قسم میں ۱۴ واسطے موجود ہیں۔اس کی نظیرقراء ات میں، سیدنا ابن ذکوان رحمہ اللہ کی امام ابن عامررحمہ اللہ سے روایت ہے۔ یا۱۵ واسطے موجود ہیں، قراء ات میں اس کی مثال قراء ت عاصم بروایت حفص اورقراء ت یعقوب بروایت رویس ہیں۔
(٢) محدثین کے ہاں علو کی دوسری قسم ائمہ حدیث میں سے کسی امام کی طرف قرب ہے، جیسے أعمش رحمہ اللہ،ہشیم رحمہ اللہ،ابن جریج رحمہ اللہ،اوزاعی رحمہ اللہ اورمالک رحمہ اللہ ہیں۔ علم قراء ت میں اس کی مثال امام نافع رحمہ اللہ اور امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت ہے، جس میں ان آئمہ تک ۱۲؍ واسطے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) محدثین کے ہاں تیسری قسم ہے کتب ستہ میں سے کسی ایک کی روایت کرنے کی نسبت کاعلو۔وہ یوں کہ اگر ایک محدث کسی حدیث کو کتب ستہ کے طریق سے بیان کرتاہے تو وہ نازل ہو اور اگر ان کے علاوہ کسی طریق سے بیان کرے تو وہ عالی ہو۔ قراء ات میں اس کی مثال کتب ِمعروفہ: تیسیراورشاطبیہ وغیرہ میں۔
موافقات، اِبدال، مساوات اور مصافحات علو کی اس قسم کے قبیل سے ہیں:
موافقت:یہ ہے کہ اصحاب کتب میں سے کسی ایک کے ساتھ کسی دوسرے طریق سے (جو نسبتاً کم واسطوں والاہو) سے اس کے شیخ پراکٹھا ہونا۔ صاحب کتاب اگر اسے اپنے طریق سے بیان کرتا، تو وہ سند عالی نہ بنتی۔ کبھی اس فن میں اس کی مثال نہیں بھی ملتی۔ علم قراء ات میں سیدنا بزی رحمہ اللہ نے جو مکی رحمہ اللہ سے بطریق ابن نبان بواسطہ ابوربیعہ روایت کیا ہے، اس کو حافظ ابن جزری رحمہ اللہ نے بواسطہ کتاب المفتاح از ابومنصور محمد بن عبدالملک بن خیرون رحمہ اللہ سے اورکتاب المصباح ازابوالکرم شہرزوری رحمہ اللہ سے نقل کیاہے۔ان دونوں حضرات یعنی ابومنصوررحمہ اللہ اور شہر زوری رحمہ اللہ نے یہ قراء ت عبدالسعید بن عتاب رحمہ اللہ سے پڑھی۔ امام جزری رحمہ اللہ کا ان دونوں طریقوں میں سے کسی ایک طریق کے مطابق نقل کرنا، اصول حدیث کی روشنی میں ’موافقت‘ کہلائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بدل:یہ ہے کہ کسی مصنف کے استاد کے ایک یا زیادہ اساتذہ تک اس مصنف کی سند کے علاوہ کسی ایسی سند کے ساتھ پہنچنا جس میں واسطے کم ہوں۔ یہ صورت کبھی عالی نہیں ہوئی یا بالفاظ دیگر اس کی مثال نہیں ملی۔یہاں ہم اس کی مثال میں امام ابوعمرو رحمہ اللہ کی قراء ت،جو دوری رحمہ اللہ نے ابن مجاہد بواسطہ ابوالزعراء نقل کی، پیش کرتے ہیں۔
اس قراء ت کو امام دانی رحمہ اللہ نے ابوالقاسم عبدالعزیز بن جعفر بغدادی رحمہ اللہ سے،انہوں نے ابوطاہررحمہ اللہ سے بواسطہ ابن مجاہد نقل کیا ہے اورکتاب المصباح سے اس طرح نقل کیا ہے کہ اس قراء ت کو ابوالکرم رحمہ اللہ نے ابوالقاسم یحییٰ بن احمدالبستی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالحسن حمامی رحمہ اللہ سے،انہوں نے ابوطاہررحمہ اللہ سے حاصل کی۔امام جزری رحمہ اللہ کااس قراء ت کو بطریق مصباح نقل کرنا امام دانی رحمہ اللہ کے استاد کے استاد کے لئے بدل کہلائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مساوات: اکثر طور پر روایت کے رواۃ عدد میں برابر ہوں تو اسے مساوات کہتے ہیں، گویا کہ وہ راوی صاحب کتاب سے ملے ہیں، اس سے مصافحہ کیا اور یہ روایت نقل کی ہے۔ اس کی مثال امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت ہے، جسے امام شاطبی رحمہ اللہ نے ابوعبداللہ محمد بن علی نفری رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوعبداللہ بن غلام رحمہ اللہ سے، انہوں نے سلیمان بن نجاح رحمہ اللہ وغیرہ سے، انہوں نے ابوعمرو دانی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالفتح فارس بن احمدرحمہ اللہ سے، انہوں نے عبدالباقی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالحسن بن بویان بن حسن رحمہ اللہ سے، انہوں ابراہیم بن عمر مقری رحمہ اللہ سے، انہوں نے أبو الحیضبن بویان رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوبکر بن اشعث رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوجعفر الریعی المعروف ابونشیط رحمہ اللہ سے، انہوں نے سیدنا قالون رحمہ اللہ سے اور انہوں نے امام نافع رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی قراء ت کو امام جزری رحمہ اللہ نے ابو بکر خیاط رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابو محمد بغدادی رحمہ اللہ وغیرہ سے، انہوں نے صائغ رحمہ اللہ سے، انہوں نے کمال بن فارس رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالیمن کندی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن احمد حریری رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوبکر خیاط رحمہ اللہ سے، انہوں نے غرضی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابن بویان رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔یہ امام ابن جزری رحمہ اللہ کے لئے مساوات ہے، کیونکہ ابن جزری رحمہ اللہ اور ابن بویان رحمہ اللہ کے مابین سات واسطے ہیں۔ امام شاطبی رحمہ اللہ اور امام جزری رحمہ اللہ کے مابین بھی اتنے ہی واسطے ہیں، توجس نے امام جزری رحمہ اللہ سے قراء ت حاصل کی، گویا اس نے امام شاطبی رحمہ اللہ سے مصافحہ کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باعتبار سند قراء کی تقسیم اور اس طرح کے دیگرمسائل
مذکورہ تقسیم تو علماء حدیث کے ہاں تھی۔ قراء کرام کے ہاں اسناد کی تقسیم ، قراء ات، روایت، طریق اور وجہ کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے۔
قراء ت:اگر اختلاف ائمہ سبعہ یا عشرہ میں سے کسی ایک سے منقول ہو اور تمام طرق و روایات اس اختلاف کو نقل کرنے میں متفق ہوں، تو اسے اصطلاحا ’قراء ت‘ کہا جائے گا۔
روایت:اگر اختلاف کی نسبت امام کے راوی کی طرف ہو تو اسے ’روایت‘ کہاجائے گا۔
طریق :اگر اختلاف کی نسبت راوی کے شاگرد یا اس کے شاگردوں میں سے نیچے تک کسی ایک کی طرف منسوب ہو تو اسے ’طریق‘ کہا جائے گا۔
وجہ:اگر اختلاف کی نسبت شاگرد کے استاد کی طرف اس طرح ہو کہ وہ اختلاف اس کے لئے اختیاری ہو تو اسے ’وجہ‘ کہتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) علو کی چوتھی قسم یہ ہے کہ شیخ کی وفات کا اپنے ساتھی، جس سے راوی نے اخذ کیا ہے، مقدم ہونا۔ مثلا تاج بن مکتوم رحمہ اللہ سے اخذ کرنا، ابوالمعالی بن اللُّبان رحمہ اللہ سے اخذ کرنے میں اعلیٰ ہے، اور ابن اللبان رحمہ اللہ سے نقل کرنا برہان شامی رحمہ اللہ سے نقل کرنے سے اعلیٰ ہے، اگرچہ یہ تینوں ابوحیان رحمہ اللہ سے نقل میں برابر ہیں،لیکن پہلے کی وفات دوسرے سے اور دوسرے کی وفات تیسرے سے مقدم ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) علو شیخ کی موت کی وجہ سے ہو، نہ کہ کسی اور امر یا دوسرے استاد کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے۔یہ علو کب حاصل ہوتا ہے؟ بعض محدثین کا خیال ہے کہ مسند کو علو کا یہ درجہ اس وقت حاصل ہوگا، جب اس سند سے روایت کرتے ہوئے شیخ کی موت کو پچاس برس بیت چکے ہوں۔امام ابن مندہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق پچاس کے بجائے تیس سال گزر چکے ہوں۔اس قول کی بناء پر ابن جزری رحمہ اللہ کے وہ شاگرد، جن کا تعلق ۸۶۳ھ سے ہے، کا نقل کرنا عالی ہے،کیونکہ ابن جزری رحمہ اللہ آخری شخص ہیں، جن کی سند عالی ہے اور ۸۶۳ھ تک ان کی موت کو تیس سال گزر چکے ہیں۔ (الإتقان: ۱؍۲۰۷تا۲۱۰، اکیسویں نوع، کچھ اختصار اور تصرف کے ساتھ)
قراء کی اسانید کے تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے علماء نے کہا ہے کہ قراء ات تو قیفی ہیں۔ (البرھان للزرکشی: ۱؍۳۲۱)
 
Top