• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’قراء ات قرآنیہ‘ میں اختلاف کی حکمتیں اورفوائد

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’قراء ات قرآنیہ‘ میں اختلاف کی حکمتیں اورفوائد

ڈاکٹرابو مجاہد عبدالعزیز القاری
ترجمہ واضافہ: قاری محمد حسین
زیرنظر مضمون مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ کلِّیۃ القرآن کے سابق پرنسپل ڈاکٹر عبدالعزیز القاری حفظہ اللہ کی سبعہ احرف پر طویل تحریر کا تیسرا حصہ ہے، جو سہ ماہی مجلہ، مجلَّۃ کلِّیۃ القرآن الکریم،مدینہ یونیورسٹی سے ماخوذ ہے، جس میں قرآن مجید کے سات حروف کا مروّجہ قراء ات عشرہ متواترہ سے تعلق اور متعدد قراء ات کے نزول کی حکمتوں کو بحث کا موضوع بنایا گیا ہے۔ اسی مقالہ کا پہلا حصہ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی حفظہ اللہ سلیس ترجمہ کے ساتھ ’’متعدد قراء ات کے ثبوت کی جملہ احادیث اور ان کی تخریج‘‘ کے زیر عنوان اسی شمارہ میں شامل اشاعت ہے۔ دوسری وچوتھی قسط کو رشد ’قراء ات نمبر‘ (حصہ دوم) میں آئندہ شامل اشاعت کیا جائیگا۔ واضح رہے کہ فاضل مترجم نے موضوع کی مناسبت سے مؤلف کی کلام کے آخر میں تکمیل فائدہ کے لیے دیگر بعض کتب سے تین چار صفحات کا اضافہ کردیا ہے۔ (ادارہ)
(١) سبعہ احرف کی حکمت کے بارے میں نبی کریم ﷺکا اِرشاد بالکل واضح ہے، جس میں آپﷺنے فرمایا کہ ’’چونکہ میری امت ان پڑھ ہے، اس لئے ایک حرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی، لہٰذا ان پر آسانی کرتے ہوئے سات حروف کی اجازت دی جائے‘‘،کیونکہ ان کی زبانیں اور لہجے مختلف تھے اور اپنے لہجے کے علاوہ کسی دوسرے کے لہجے کے مطابق پڑھنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ خاص طور پر بوڑھے ، بچے اور غلام اور اُمیوں (اَن پڑھوں) کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ مختصر وقت میں کسی دوسرے لہجے کو سیکھ لیں، کیونکہ ان کی زبانیں اپنی زبان کے علاوہ دوسرے لہجے میں بولنے سے قاصر تھیں، چنانچہ نبی کریم ﷺکا ارشاد پاک ہے:
’’اے جبر ائیل بے شک میں ایک اَن پڑھ امت میں بھیجا گیا ہوں جن میں بوڑھے، کمزور،غلام اور ایسے لوگ بھی ہیں جو کچھ بھی نہیں پڑھ سکتے‘‘ تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا:’’اے محمدﷺ!بے شک قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘(سنن ترمذي:۲۹۴۴)اور ایک روایت میں ہے: ’’ان کو حکم دیں کہ وہ قرآن سات حروف پرپڑھیں۔‘‘(مسند أحمد:۵؍۱۳۲)
مذکورہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم کے مختلف حروف پر نازل ہونے کا مقصد رخصت اورآسانی ہے تاکہ اُمت قرآن کو پڑھنے میں کسی مشکل کاشکا رنہ ہو، خصوصی طور پران کے لئے جن کا ذکر مذکورہ حدیث میں ہے۔
اور اس رخصت کا فائدہ یہ ہوا کہ قرآن مجید مختلف حروف پر نازل ہونے کی وجہ سے آسان ہوگیا، لہٰذا قاری کو اختیار ہے کہ ان حروف میں سے جو آسان لگے اسے پڑھے، کیونکہ اگر اسے ایک ہی لہجے پر پڑھنے کا پابند بنا دیا جاتا تو وہ غلطی کرتا اور جب اسے رخصت مل گئی تو جو حرف اس کوآسان لگے گا، وہی پڑھے گا اور اس سے اس کا دل بھی مطمئن رہے گا، خاص طور پر ایسے لوگ جو قریش کے لہجہ پرپڑھنے سے قاصر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک اورفائدہ یہ بھی ہے کہ بعض اَوقات لفظ کا مفہوم سمجھنے میں بھی دقت پیش آتی ہے اوراس کی وضاحت دوسری قراء ات سے ہوجاتی ہے۔ مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ رخصت تین قسموں پر مشتمل ہے:
(١) القراء ۃ (٢) لہجہ (٣) مفاہیم
اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید کی یہ رخصت مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ مکہ میں تقریباً۱۳؍ سال لوگ لغت قریش پر ہی پڑھتے رہے ہیں اور ان کو اس میں کوئی مشکل پیش ہی نہیں آئی، کیونکہ تقریباً تمام مسلمان قریش سے ہی تعلق رکھتے تھے یا پھر وہ قبائل مسلمان ہوئے تھے، جو قریش کے قرب وجوار میں رہتے تھے اور ان کا لہجہ بھی قریش کے ساتھ ملتا جلتا تھا، لہٰذا ان کوبھی پڑھنے میں مشکل پیش نہیں آتی تھی، لیکن ہجرت کے بعد معاملہ بالکل مختلف ہو گیا۔ مختلف قبائل اسلام میں داخل ہونے لگے، جن کی لغات قریش سے بالکل ہی مختلف تھیں جیسے انصار، نجد، یمن،بحرین، حضرموت، اورشام وعراق کے قبائل،یہ قبائل قریش سے بہت زیادہ دور تھے او ر ان کے لئے لغت قریش کے مطابق پڑھنا نا ممکن تھا، لہٰذا ان کی آسانی کے لئے قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا۔
جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ
’’جبریل علیہ السلام نبی کریم ﷺسے بنوغفار کے تالاب پر ملے اورقرآن کے سات حروف پر نازل ہونے کی خوشخبری سنائی۔‘‘ (صحیح مسلم،کتاب الصلوۃ،باب بیان أن القرآن انزل علی سبعۃ أحرف)
(٢) متنوع حروف پر نازل ہونا اُمت محمدیہ کے فضائل وخصائص میں سے ایک ہے ،کیونکہ پہلی کتب سماویہ ایک حرف پر نازل ہوئیں اور وہ امتیں ان کتب کو صرف ایک ہی حرف پر پڑھ سکتی تھیں۔ اسی طرح اس اُمت کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے، جبکہ سابقہ کتب سماویہ کا ذمہ اللہ نے خود نہیں لیاتھا۔ اسی لیے ان میں تغیر وتبدل ہو گیا ہے اور جب اللہ نے خود اس قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے توقرآن کے نازل کردہ تمام حروف کی حفاظت اس میں آجاتی ہے، کیونکہ ہر حرف اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے، جیساکہ حدیث (إنَّ القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف)سے پتہ چلتا ہے، لہٰذا اگر ایک حرف بھی ضائع ہو گیا تو حفاظت الٰہی کا کوئی معنی نہیں رہتا ۔
قرآن مجید کاہر حرف منزل من اللہ ہے اور قرآن ہے، جیساکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
’’تم جوحرف بھی پڑھ لو صحیح ہے۔‘‘(صحیح مسلم:۸۲۱)
اسی طرح فرمایا کہ ’’تمام حروف میں سے ہر ایک شافی وکافی ہے۔‘‘ (سنن نسائی:۹۴۰)
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ
’’ آپ ﷺنے فرمایا کہ ان تمام حروف میں سے کوئی حرف بھی پڑھ لیا جائے، تو ٹھیک ہے اور ایک حرف کا انکار پورے قرآن کے انکار کے برابر ہے۔‘‘
(تفسیر الطبر:۱؍۵۴، والابحاث فی القراء ات: ۱۸، نکت الإنتصار للباقلانی:۳۶۴)
تو معلوم ہوا کہ مختلف حروف پر قرآن مجید کا نازل ہونا قرآن کے خصائص میں سے ہے، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’پہلی کتب ایک دروازے سے ایک حرف پر نازل ہوئیں، جبکہ قرآن مجید سات دروازوں سے سات حروف پر نازل ہوا ہے۔‘‘ (مقدمتان فی علوم القرآن،ص۲۰۸)
(٣) قرآن مجید کے سبعہ اَحرف پر نازل ہونے کی ایک بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ مختلف قراء ات سے مختلف معانی مستنبط ہوتے ہیں۔اس کی مندرجہ ذیل تین قسمیں ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(ا) الفاظ مختلف اورمعانی ایک

ابن جریررحمہ اللہ وغیرہ کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں استعمال ہونے والے تمام مترادفات الفاظ میں سے ہر ایک کا ایک زائد معنی بھی ہوتا ہے ۔ ان مترادفات کی مثال مندرجہ ذیل ہے:
ہَلُمَّ،تَعَالِ،أَقْبِلْ،یہ تینوں الفاظ مترادفات استعمال ہوتے ہیں، ان کا ایک معنی تو مشترک ہے کہ ان میں متکلم دوسرے کو بلا رہا ہے، لیکن کچھ مختلف معانی بھی پائے جاتے ہیں، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
(١) ہَلُمَّ: یہ کسی کو ایسی نرمی سے اپنی طرف بلانے کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ وہ آپ کی طرف راغب ہوجائے ۔
(٢) تَعَالِ: یہ لفظ کسی بیٹھے ہوئے یا نیچے والے کو اوپر بلانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
(٣) اَقْبِلْ:یہ لفظ کس کو سختی سے اپنی طرف بلانے اور حکم کی تعمیل پر تنبیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بھی ان الفاظ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’میں نے ان مختلف حروف کو معانی کے لحاظ سے قریب المعنی پایا ہے۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی:۱؍۷۳)
یہاں آپ نے ’موافق‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا، بلکہ ’متقارب‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(ب) عام طور پر الفاظ کی تبدیلی سے تفسیر ومعانی میں نئے نئے نکات سامنے آتے ہیں:

اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں سے چند ایک ذکر کی جاتی ہیں:
(١)قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’وَکَأیِّنٍ مِّنْ نَبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَہَنُوْا لِمَا أصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا‘‘(آل عمران:۱۴۶)
’’اور کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں، جن کے ساتھ مل کربہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی ،اللہ کی راہ میں جومصیبتیں ان پر پڑیں، ان سے وہ شکستہ دل نہیں ہوئے، انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی، وہ باطل کے آگے سرنگوں نہیں ہوئے ۔‘‘
اس آیت میں لفظ قٰتَلَ کوفعل مجہول قُتِلَ بھی پڑھا گیا ہے۔ لفظ ’قَاتَلَ‘ کا معنی یہ ہے کہ نبیﷺاور ان کے ساتھیوں نے بغیر کسی کمزوری اور شکستہ دلی کے قتال کیا، جبکہ لفظ ’قُتِلَ‘ کے دو معانی ہیں:
(١) نبیوں کو قتل کیا گیا، حالانکہ ان کے پیروکار کمزور اور شکستہ دل نہ تھے بلکہ انہوں نے انبیاء کے ساتھ مل کر قتال کیا۔
(٢) انبیاء کے پیروکار قتل کیے گئے او راس وجہ سے انبیاء اور ان کے باقی ساتھی کمزوری کا شکار نہیں ہوئے ۔
دوسری قراء ۃ کے مذکورہ دونوں معانی صحیح ہیں،یعنی انبیاء کے قتل کی وجہ سے ان کے ساتھیوں میں کمزوری واقع ہوئی اورنہ ہی پیروکاروں کے قتل کی وجہ سے انبیاء نے کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ کیا۔
(٢) قرآن پاک میں ہے:
’’رَبَّنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا‘‘ (سبا:۱۹)’’(مگر انہوں نے کہا) اے ہمارے رب ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کر دے۔‘‘
اس آیت میں لفظ’باعد ‘ کو دو اورطرح بھی پڑھا گیا ہے:
(١) ’بَعِّدْ‘ فعل امر مبالغہ کے ساتھ
(٢) ’بَاعَدَ‘ فعل ماضی باب مفاعلہ
چنانچہ پہلی قراء ۃ ’’بَاعِدْ‘‘ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اپنے اسفار میں دوری طلب کی اور دوسری قراء ۃ ’بَعِّدْ‘سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اس مطالبہ پر ڈٹے رہے، جبکہ تیسری قراء ۃ ’بَاعَدَ‘ میں ان پرذلت اورمشقت نازل ہونے کی وجہ انکی کمزوری اور سرکشی بتائی گئی ہے۔
(٣)قرآن پاک میں ہے :
’’فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَایَجْمَعُوْنَ‘‘(یونس:۵۸)’’اس پر تولوگوں کوخوشی منانی چاہئے ، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘
اس آیت میں مزید دو قراء تیں ہیں:
(١) فلیفرحوا …تجمعون
(٢) فلتفرحوا… تجمون

پہلی قراء ۃ کا معنی یہ ہے کہ مومنوں کو قرآن کے ساتھ خوش ہوجانا چاہیے، کیونکہ کافروں کی جمع کردہ چیز(مال) سے یہ بہتر ہے۔ دوسری قراء ت کا معنی یہ ہے کہ ’’ اے کافرو! جو چیز تم جمع کر رہے ہو اس سے قرآن مجید کہیں زیادہ بہتر ہے لہٰذا اس کے ساتھ مومنوں کو خوشی منانی چاہیے ۔‘‘ تیسری قراء ۃ میں اللہ تعالیٰ مومنوں سے یوں مخاطب ہے کہ
’’ اے مومنوا! تمہارے جمع کردہ مال سے قرآن مجید کہیں زیادہ بہتر ہے لہٰذا اس سے خوش ہو جاؤ۔‘‘
(٤)قرآن پاک میں ہے:
’’إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ‘‘’’وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے۔‘‘(ہود:۴۶)
یہاں دوسری قرا ء ۃ ’إِنَّہ عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ‘ ہے، چنانچہ پہلی قراء ۃ میں نوح علیہ السلام کو سوال پر اصرارکی وجہ سے سرزنش کی گئی ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اے نوح علیہ السلام!اس بات پر اصرار کرنا کہ یہ تیرا بیٹا ہے اور اس کے لئے بخشش مانگنا آپ کی شایان شان نہیں ہے، کیونکہ کافر کے لئے رحمت کی اُمیدنہیں رکھی جاسکتی اور نہ ہی وہ تیرے اہل میں سے ہے،کیونکہ کفر سے رشتے ختم ہوجاتے ہیں ۔
دوسری قراء ۃ میں حضرت نوح علیہ السلام کو ان کے بیٹے کے بارے میں خبر دی جا رہی ہے کہ اس کے اعمال اچھے نہیں اس لئے وہ رحمت اوربخشش کا مستحق نہیں ہوسکتا۔
(٥) قرآن مجیدمیں ہے:
’’وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالأُنْثٰی‘‘(اللیل:۳)’’اور اس ذات کی (قسم ہے) جس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا ۔‘‘
آیت مذکور ہ میں ایک شاذ قراء ۃ ’الذَّکَرِ وَالأنْثٰی‘ ہے۔
یہ حدیث صحیح بخاری، صحیح مسلم ، جامع ترمذی وغیرہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوالدرداءرضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے کہ وہ دونوں’الذَّکَرِ والأنثی‘پڑھتے تھے اورابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک میں نے نبی کریمﷺسے ایسے ہی سنا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري:۴۹۹۳،۴۹۹۴،صحیح مسلم:۸۲۴)
پہلی قراء ۃ میں ما مصدریہ ہے او رمعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قسم اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ اس نے نر اور مادہ کو پیدا کیا۔
دوسری قراء ۃ کا معنی یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نر اور مادہ کی قسم اٹھا رہے ہیں۔
یہاں دونوں قراء تیں قریب المعنی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(ج) بعض اَوقات دو مختلف قراء توں سے مختلف فقہی اَحکام مستنبط ہوتے ہیں

(١)قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے:
’’أوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَائَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَائً فَتَیَمَّمُوْا‘‘(النساء:۴۳)’’تم نے عورتوں سے لمس کیا ہواورپھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لے لو اور تیمم کرلو۔‘‘
اس آیت میں دوسری قراء ۃ ’أو لَمَسْتُمْ‘بغیر الف کے ہے۔
پہلی قراء ۃ میں لمس سے مراد عورت کو ہاتھ سے چھونا یا بوس وکنارکرنا یا پھر جسم سے جسم ملانا، لیکن جماع نہ کرناہے۔
دوسری قراء ۃ میں لمس کا معنی غالباً جماع ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’مَا لَمْ تَمَسُّوْہُنَّ‘‘ یعنی ’ما لم تجامعوہن‘ ۔
سوپہلی قراء ۃ سے علماء کے ایک گروہ نے یہ مسئلہ اخذکیا ہے کہ عورت سے لمس چاہے بوس وکنار سے، یا جسم کے ساتھ جسم ملانے سے یاہاتھ سے لمس ہو تو وضو اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم واجب ہے۔علماء کا دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد مذکورہ بات کے علاوہ جماع بھی ہوسکتا ہے۔
دوسر ی قراء ۃ پہلی قراء ت کی تفسیر کرتی ہے یعنی مجرد ہاتھ سے چھونے،بوس وکنار کرنے یا جسم کے ساتھ جسم ملانے سے وضو یا تیمم فرض نہیں ہوتا، جب تک کہ جماع یا انزال نہ ہو۔
(٢) قرآن پاک میں ہے:
’’وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ‘‘ (البقرۃ:۲۲۲)
’’ اور تم ان کے قریب نہ جائو جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔‘‘
اس میں دوسری قراء ۃ ’حتی یَطَّہَّرْنَ‘ بتشدید الطاء ہے ۔
پہلی قراء ۃ سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ جب تک حیض ختم نہ ہوجائے اس وقت تک عورت سے جماع کرنامنع ہے اورطہر کا معنی بھی یہی ہے کہ حیض کا خون آنا بند ہوجائے ، جب کہ دوسری قراء ۃ سے ایک زائد معنی یہ بھی نکلتا ہے کہ جب تک عورت حیض کے خون کے بعد غسل کرکے پاک نہ ہوجائے اس وقت تک اس سے جماع کرنا منع ہے۔
(٣) قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَأرْجُلَکُمْ‘‘ (المائدۃ:۶)’’سروں کا مسح کرو اورپاؤں ٹخنوں تک دھولیا کرو۔‘‘
یہاں دوسری قراء ۃ ’وأرجلِکم‘لام کے کسرہ سے ہے۔ پہلی قراء ۃ میں پاؤں دھونے کی فرضیت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ ارجلَکم چہرے اور ہاتھ کے دھونے پر عطف ہے، جبکہ دوسری قراء ۃ میں پاؤں پر مسح کی رخصت بیان کی گئی ہے اور اس کی وضاحت نبی کریم ﷺکے اِرشاد پاک سے ہوتی ہے جس میں آپ ﷺنے فرمایا اگر موزے پہنے ہوں، بشرطیکہ وضو کی حالت میں پہنے ہوں، تو پھر مسح جائز ہے ورنہ دھونا فرض ہے۔
مذکورہ مثالوں پراگر ہم غور کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک قراء ۃ کا پہلی قراء ۃ سے ایک زائد معنی بھی ہے کہ وہ پہلی قراء ۃ کی تفصیل، تفسیر یا تکملہ ہوتی ہے یاوہ دونوں قراءتیں قریب المعنی ہوتی ہیں اور یہ قراء ات قرآنیہ کے اعجاز میں سے ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔
(٤) قراء ات کے فوائد میں سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ان سے لغات عرب کے ضیاع اور مٹنے سے حفاظت بھی ہوتی ہے ،کیونکہ یہ قراء ات قبائل عرب کی لغات میں سے فصیح الفاظ اور تراکیب واَسالیب اورلہجات کا خلاصہ اورقطعی مراجع ہیں۔
بے شک سبعہ احرف‘ مختلف عربی فصیح لغات پر مشتمل ہیں اور ان کی تعیین نہیں کی جاسکتی، وہ سات ،آٹھ یا دس بھی ہوسکتی ہیں بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ عرب کی تقریباً تمام فصیح ترین لغات سبعہ احرف میں آجاتی ہیں اور یہ احرف ان لغات میں استعمال ہونے والی منطق، اسلوب، تراکیب اورلہجات کا خلاصہ ہیں، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ قرآن مجید کا اکثر حصہ لغت قریش اور اس کے لہجات کے مطابق نازل ہوا ہے، لغت قریش کا سبعہ احرف میں بہت زیادہ حصہ ہے حالانکہ عرب قبائل کی بہت ساری لغات ہیں، لیکن فصاحت وبلاغت، قوتِ بیان اورحسنِ بیان میں ایک دوسرے کے برابر نہیں بلکہ بعض لغات تو سردار تصور کی جاتی ہیں اور بڑے بڑے ادیب اور شاعر، بلغاء اورفصحاء انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ ان کا ادبی مقام بہت زیادہ بلند ہے اورباقی اکثر لغات انہی سے ماخوذ ہیں جب کہ اس کے برعکس کچھ لغات میں فصاحت وبلاغت کی کمی ہوتی ہے اور ان میں لغوی عیوب بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اسی لیے شعراء وادیب ان کی طرف رجوع نہیںکرتے اورجس لغت پر قرآن مجید نازل ہوا ہے وہ باقی تمام لغات میں سے اعلی وارفع ہے اور فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے سب سے زیادہ فصیح ہے۔
اِمام ابوعبیدرحمہ اللہ فصیح ترین لغات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(١) ہوازن: اس میں مندرجہ ذیل قبائل آتے ہیں :
٭ سعد بن بکر
٭ جشم بن بکر
٭ نصر بن معاویہ
٭ ثقیف
(٢) بنو دارم: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سفلی تمیم کہا جاتا ہے۔ امام ابوعمر و بن العلاء المازنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عرب کے فصیح ترین قبائل علیا ہوازن اورسفلی تمیم ہیں اور لغت قریش ان تمام سے فصیح وبلیغ ہے، اس کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:
(١) یہ ملک کے درمیان میں واقع ہے۔
(٢) عجمی علاقوں سے بہت زیادہ دور ہے۔
(٣)صحرائی علاقوں سے بھی دور ہے۔‘‘
ان اَسباب کی بناء پر اس لغت نے عجمیوں اورصحرائی علاقوں کی زبان کا اثر قبول نہیں کیا اور شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے نبی اور قرآن کی لغت کے لیے پسند فرمایا ہے۔اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قریش کی طرف لوگوں کے دل مائل تھے اور لوگ ہر سال حج کے دنوں میں یہاں آتے جن میں ان کے بڑے بڑے شاعر وادیب بھی ہوتے توقریش ان کی زبان سے اچھی اچھی چیزیں لے لیتے تھے اورردی اور فضول چیزیں چھوڑ دیتے تھے جس سے لغت قریش میں نکھار پیدا ہو گیا اور اس کا ارتقا اچھے طریقے سے ہوا۔
مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت سے عیوب، جو دوسری لغات میں پائے جاتے تھے، ان سے لغت قریش محفوظ تھی، جیساکہ امام رازی رحمہ اللہ نے ابوقتادہ رحمہ اللہ سے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک دن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ لوگوں میں سے فصیح ترین کون ہیں ایک آدمی کھڑا ہوا او رکہا جوعراق کے ٹیلے سے بلندی پر ہیں۔اور قبیلہ بکر اور تمیم کی باریکیوں سے محفوظ ومامون ہیں نہ تو اس میں قضاعہ جیسی مبہم بات ہے اور نہ ہی حمیر جیسی لکنت۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’وہ کون ہیں ؟‘‘ اس آدمی نے جواب دیا’’ وہ قریش ہیں‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تو نے صحیح کہا‘‘ پھر پوچھا ’’کہاں سے آیا ہے‘‘ اس آدمی نے جواب دیا قبیلہ جرہم سے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بحث ثانی: اِختیارات

قراء ات سنت متبعہ ہیں، جن میں دوسرا پہلے سے روایۃً واسنادًا نقل کرتا ہے اور اس میںکسی کی رائے اور قیاس کاکوئی دخل نہیں ہوتا ۔چنانچہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَمَا لِقِیَاسٍ فِیْ الْقِرَائَ ۃِ مَدْخَلُ
فَدُوْنَکَ مَا فِیْہِ الرَّضَا مُتَکَفِّلاً​
’’اور قیاس کے لئے فن قراء ات میں کوئی جگہ نہیں پس تو اس میں سے پسندیدہ چیز (یعنی نقل متواتر) لے لے اور اسی کا ذمہ دار بننے والا ہو جا۔‘‘(باب الر اء ات :شعر نمبر۴۵۳)
ہمارے زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ آئمہ عشرہ وغیرہ کے اختیارات کس نوعیت کے ہیں؟ اور ان کا مقصود کیا تھا ؟اورکیا ان کے اختیارات رائے اور قیاس کی بناء پر ہیں؟ یہ تمام سوالات ایسے ہیں جن کا جواب دینا یہاں مقصود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِختیارات اور اس کی حقیقت

ائمہ عشرہ میں سے ہر قاری نے قراء ات متعدد شیوخ سے پڑھیں اور اس کے لئے انہوں نے طویل سفر بھی کیے اور ہر استاد کی قراء ۃ کو الگ الگ محفوظ بھی کیا لیکن جب انہوں نے اپنے شاگردوں کو پڑھانا شروع کیا تو اپنی تمام مسموعیات نہیں پڑھائیں ،بلکہ ان میں سے بعض کوپڑھایا اور بعض کونہیں،یعنی اپنی تمام مسموعیات میں سے کچھ چیزیں اپنے لیے منتخب کر لیں اور وہ اپنے شاگردوں کو پڑھائیں ۔اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں قاری کا اختیار ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس قاری نے جو پڑھا ہے، انہی میں سے کچھ چیزیں اپنے لیے مختص کر لی ہیں نہ کہ اپنے قیاس اور رائے سے عربیت کے موافق وجہ کو اختیار کیا ہے، کیونکہ اس پر تمام قراء کا اتفاق ہے کہ قراء ۃ میں قیاس اور رائے سے کوئی وجہ داخل کرنا حرام ہے، چنانچہ ابوعمر وبن العلاء مازنی بصری رحمہ اللہ، جوکہ قراء ۃ اور لغت میں ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں، ان سے الاصمعی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ
’’ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر ایسا نہ ہوتا کہ جیسے میں نے اپنے استاد سے پڑھا ہے، ویسے پڑھنا ضروری ہے تو میں فلاں فلاں لفظ کو ایسے ایسے پڑھتا ۔‘‘ (کتاب السبعہ لابن مجاہد:۸۳)
اور اگر ہم بنظر غائر قراء ات کا مطالعہ کریں تو مذکورہ بات کی تصدیق ہو جاتی ہے، مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی قاری ایک وجہ کو اپنی لیے اصل قرار دے دیتا ہے اورپھر چند مقامات میں ان کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ یہ صرف اسی وقت ہو سکتاہے جب روایت کی اتباع کی جائے، وگرنہ قیاس کے مطابق پڑھا جائے تواپنی اصل کی مخالفت کی کوئی وجہ ہی نہیں بنتی ۔ مثلاً
امام ابوجعفررحمہ اللہ پورے قرآن مجید میں ’یَحْزُنُ‘ لیکن سورۃ انبیاء میں’ یُحْزِنْکَ‘ پڑھتا ہے جبکہ سیدنا نافع رحمہ اللہ اس کے برعکس قرا ء ت کرتے ہیں۔ اس طرح امام حفص رحمہ اللہ سورۃ ہود کے لفظ’مجرٰیہا‘کے علاوہ پورے قرآن میں کسی جگہ بھی امالہ نہیں کرتے اور امام ابن عامررحمہ اللہ پورے قرآن میں ’ابراہیم‘پڑھتے ہیں اوربعض جگہ میں ’ابراہام‘ پڑھتے ہیں۔
مذکورہ مثالوں میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قراء کا اپنے اصول کی بعض جگہ مخالفت کرنا صرف اورصرف روایت کی بناپر ہے، ورنہ قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ پورے قرآن میں اپنے اُصول کے مطابق پڑھا جائے اورکسی جگہ بھی اس کی مخالفت نہ کی جائے۔ اوراگر قیاس کا قراء ات میں کوئی دخل ہوتا تو امام ابوعمرورحمہ اللہ، جوکہ لغوی بھی ہیں، وہ ’’بار ئِکم‘‘ کوہمزہ ساکنہ سے نہ پڑھتے اور نہ ہی ’یأمرُکُمْ‘ ’یأمرُہُمْ‘ ’تأمرُہُمْ‘ ’یَنْصُرُکُمْ‘ ’یُشْعِرُکُمْ‘ وغیرہ کو را ئے ساکنہ سے پڑھتے، کیونکہ لغویوں کے ہاں ان مثالوں میں ہمزہ اور راء کا سکون پڑھنا غلط ہے۔ اسی لیے ہی مبرد اور سیبویہ وغیرہ نے اس قراء ت کا رد کیا ہے ۔ اسی طرح امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ۃ ’’زُیِّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلُ أولادَہم شرکا ء ہِم‘‘ بھی نہ پڑھتے، کیونکہ یہ بھی نحوی وجہ کے خلاف ہے اورابوجعفررحمہ اللہ ’’لِیُجْزٰی قَوْمًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ‘‘اورامام حمزہ رحمہ اللہ ’’الَّذِی تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالأرْحَامِ ‘‘کبھی نہ پڑھتے، کیونکہ ان تمام قراء ات میں اہل لغت کوئی نہ کوئی تاویل کرتے ہیں یا غلط قرار دیتے ہیں، لیکن قراء کرام کا معمول یہ ہے کہ جب نقل اور روایت کے ذریعے کوئی قراء ۃ ثابت ہوجاتی ہے، تو اس کو قیاس یا لغت سے رد نہیں کرتے ، کیونکہ قراء ۃ سنت متبعہ ہے اور ان کو قبول کرنا اوران کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
چنانچہ ابوعمروالدانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع البیان میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قراء کرام کیوں اپنے لیے خاص اختیار مقرر کرتے ہیں اور اپنے شیخ سے ہر پڑھی ہوئی قراء ۃ کو کیوں نہیں پڑھاتے؟
اس کی دو وجہیں ہیں:
اوّل:ترجیح یعنی جس قراء ۃ کے رواۃ زیادہ اور مشہور ہوں اور ان کی پیروی کرنے والے بھی زیادہ ہوں، تو ان کو اختیار کر لیتے ہیں اورجس قر اء ۃ میں بعض راوی منفرد یاشاذ ہوں اس کو چھوڑ دیتے ہیں، مثلاً
امام نافع رحمہ اللہ نے تقریباً ستر(۷۰) تابعین سے پڑھا ہے، جن میں سے ابو جعفر ، شیبہ بن نصاح، عبد الرحمن بن ہرمز، مسلم بن جندب الہذلی، یزید بن رومان ، عبد الرحمن بن القاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق، محمد بن شہاب زہری ، الاصبغ بن عبد العزیز نحوی رحمہم اللہ وغیرہ، لیکن جو آپ نے ان تمام سے پڑھا ہے وہ سارا نہیں پڑھایا اس کی وجہ آپ یہ بتاتے ہیں کہ
’’میں نے ستر تابعین سے پڑھا ان میں سے جس حرف پر دو راوی متفق ہیں اس کو میں نے لے لیا اورجس میں ایک راوی منفرد ہے اس کومیں نے چھوڑ دیا ہے، حتی کہ میں نے ان موجودہ حروف میں قراء ۃ کوجمع کر لیا۔‘‘ (کتاب السبعۃ لابن مجاہد:۶۲،الابانۃ لمکی بن أبی طالب:۱۶)
یہی وجہ ہے کہ امام نافع رحمہ اللہ اور ابوجعفررحمہ اللہ کی قراء ۃ میں تقریباً پانچ سو سے زائد مقامات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی طرح امام کسائی رحمہ اللہ نے امام حمزہ رحمہ اللہ سے پڑھا ہے اور امام حمزہ رحمہ اللہ اورکسائی رحمہ اللہ کے درمیان تقریباً تین ہزار مقامات میں اختلاف پایا جاتا ہے، کیونکہ آپ نے امام حمزہ رحمہ اللہ کے علاوہ اوربھی بہت سارے قراء سے پڑھا ہے اور امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے ابن کثیرمکی رحمہ اللہ اور دیگر قراء سے پڑھا ہے لیکن مکی رحمہ اللہ او ربصری رحمہ اللہ کی قراء ۃ میں تقریباً تین مقامات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ (الإبانۃ :۱۷)
ثانی: شاگردوں پر آسانی، یعنی شاگرد کے شہر او رعلاقے کی جولغت ہوتی اس کے موافق قراء اس کوپڑھا دیتے پس ایک شاگرد کو ایک قراء ۃ اور دوسرے کو دوسری قراء ۃ پڑھاتے یا شاگرد کو جو قراء ۃ پڑھنے میں آسانی ہوتی اسے وہی پڑھاتے۔ مثلاً
امام عاصم بن ابی النجود رحمہ اللہ نے سیدنا حفص بن سلیمان رحمہ اللہ اور ابوبکر بن عیاش شعبہ رحمہ اللہ کو مختلف قرا ء ات پڑھائی ہیں، چنانچہ ان کے درمیان تقریباً پانچ سو سے زائد مقامات میں اختلاف ہے۔
امام حفص رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ میں نے امام عاصم رحمہ اللہ سے پوچھا کہ جو قراء ت میں پڑھتا ہوں، ابوبکررحمہ اللہ وہ قراء ت نہیں پڑھتا،حالانکہ ہم دونوں نے آپ سے پڑھا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ جو قراءۃ میں نے آپ کو پڑھائی ہے، وہ میں نے ابوعبد الرحمن سلمی عن علی بن ابی طالب سے اور جو قراء ت ابوبکرa کو پڑھائی ہے وہ زربن حبش عن عبد اللہ بن مسعود سے پڑھی ہے ۔‘‘(غایۃ النہایۃ للجزري:۱؍۲۵۴)
امام نافع رحمہ اللہ کے شاگرد سیدنا قالون رحمہ اللہ اور سیدنا ورش رحمہ اللہ کے مابین تقریباً تین ہزار مقامات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ (الابانۃ لمکی بن ابی طالب:۱۶،۱۷)
چنانچہ سیدنا نافع رحمہ اللہ کے راویوں میں سے کسی ایک کی روایت بھی اس کے راوی سیدنا ورش رحمہ اللہ سے نہیں ملتی، کیونکہ امام ورشa نے سیدنا نافع رحمہ اللہ پر وہ قراء ۃ پڑھی، جو اس کے علاقے میں پڑھائی جاتی تھی اور وہ قراء ۃ امام نافع رحمہ اللہ نے اپنے بعض اساتذہ سے بھی پڑھی ہوئی تھی، تو آپ نے امام ورش رحمہ اللہ کو اسی قراء ۃ کی اجازت دے دی۔ اسی لیے آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب بھی آپ کے پاس کوئی پڑھنے کے لئے آتا تو آپ اس سے اس کی وہ قراء ۃ سنتے، جو اس نے پہلے پڑھی ہوتی۔ جب وہ آپ کی پڑھی ہوئی قراء ۃ کے موافق ہوتی تو اس کی اس کواجازت دے دیتے، لیکن جب کوئی آپ سے وہ قراء ۃ پڑھنا چاہتا، جو آپ نے اپنے لیے اختیار کی ہوتی تھی تو اس کو وہ پڑھا دیتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعددِ قراء ات کے حوالے سے چند مزید فوائد کا تذکرہ

یہ بات تو واضح ہے کہ اختلاف قراء ات سے مراد تنوع ہے نہ کہ تضاد، جیسا کہ امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آپﷺ سے منقولہ سبعہ احرف کے اختلاف سے مراد تنوع اور تغایر ہے، نہ کہ ضدیت اور تناقض، کیونکہ یہ کلام اللہ میں محال ہے، فرمان ربانی ہے:
’’اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثِیْرًا‘‘(النساء :۸۲)’’کیا یہ قرآن میں تدبر سے کام نہیں لیتے، اگر یہ غیراللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘(اَحرف سبعہ از دانی ،ص۴۷، مجموع الفتاویٰ:۱۳؍۳۹۱،۳۹۲، النشر :۱؍۳۰،۴۹،۵۰)
اختلاف قراء ات تین حال سے خالی نہیں۔
(١) اختلاف لفظ سے تبدیلی معنی واقع نہ ہو، جیسے لفظ الصِّراط کو سین اور اشمام کے ساتھ پڑھنے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، کیونکہ یہ تو محض لہجات ہیں۔
(٢) لفظ کی تبدیلی سے معنی میں بھی تبدیلی ہوجائے، لیکن ان دونوں میں کوئی ایسی توجیہہ موجود ہو،جو دونوں معانی کواکٹھا کردے، جیسا کہ مَلِکِ یوم الدین، لفظ مالک میں بالالف اوربدون الالف دو قراء ات ہیں۔ ان دونوں قراء توں سے مراد ذات باری تعالیٰ ہے، کیونکہ اللہ قیامت کے دن کا بادشاہ اور مالک ہے، لہٰذا یہ دونوں صفات اللہ کے لئے اس آیت میں اکٹھی ہوگئی ہیں۔
(٣) اُمت محمدیہ کے عزت و شرف ، اس پر اللہ کی بے پناہ رحمت اور نبیﷺ کی دعا کو درجہ قبولیت پرفائز کرتے ہوئے اس (اُمت) پرتخفیف کرنا مقصود تھا۔کیونکہ جب جبرئیل علیہ السلام آپﷺ کے پاس تشریف لائے اوراللہ کاحکم سنایا کہ آپ اپنی اُمت کو ایک حرف پر پڑھائیں تو آپﷺ نے اللہ سے معافی و بخشش کاسوال کرتے ہوئے فرمایا:کہ میری اُمت اس بات کی طاقت نہیں رکھتی۔
اِمام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ سابقہ انبیاء ایک خاص قوم کی طرف مبعوث کئے جاتے تھے، لیکن نبیﷺ کو اللہ نے تمام عربی و عجمی اور سرخ و سفید کی طرف مبعوث فرمایا تو اہل عرب جن کی طرف (اولاً) قرآن مجیدنازل کیاگیا تھا مختلف لغات و لہجات رکھتے تھے۔ ان کے لئے مشکل تھاکہ ان کوچھوڑ کر صرف ایک لغت میں قرآن پڑھیں یا اپنی لغت کے علاوہ کوئی اور حرف اداکریں بلکہ ان میں سے بعض تو ایسے بھی تھے جوسیکھنے کے باوجود اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور ظاہری بات ہے ان میں بوڑھے بچے عورتیں اور ناخواندہ لوگ بھی تھے جیسا کہ آپﷺ نے اس بات کی طرف اشارہ بھی فرمایا اگر انہیں اپنی زبان چھوڑ کر دوسری لغت یالہجے کاپابند بنا دیاجاتاتو یہ ان پر گراںگزرتا۔حالانکہ اللہ کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ ‘‘ (النشر :۱؍۲۲)
اور ویسے بھی یہ بات اسلام کی آسانی اور ایسی مہربانی، جو مشقت کو دور کرنے اور تکلیف کو لازمی طور پرختم کرنے کی حامی ہے، کے خلاف ہوتی۔ (الابحاث: ص ۱۶)
اب ہم اختلاف قراء ات کی چند اور حکمتیں اور فوائد جناب الشیخ قاری صہیب احمدحفظہ اللہ کی تصنیف جبیرۃ الجراحات فی حجیۃ القراء ات سے اَخذ کرکے نقل کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) اختصار وبلاغت کی انتہاء اورکمال اعجاز وجمال اعجاز کا بیان کرنا

چونکہ ہرقراء ت ایک مکمل آیت کی منزلت پر ہے، اس لیے اگر ہرایک کو ایک طرح پڑھنے میں پابند کردیاجاتا تو اس میں ایسی تخفیف نہ ہوتی جو اس تنوع کلمات میں ہے اور نیز یہ کہ ایسی صورت میں یہ ایسی پیچیدگی ہوتی جو قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت کے بھی منافی ہوتی۔
امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ قرآن مجید کی فضیلت اس کی وسیع النظری، علمی گہرائی، اہل عرب کے مذاہب کے فہم، اسلوب کی عمدگی اوراللہ نے اسے جس لغت کے ساتھ خاص کیاہے ، کے ساتھ سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ سابقہ امتوں میں سے کسی کوبھی اس قدر وسیع و عریض زبان دانی سے نہیں نوازا گیاتھا جس کے ساتھ اللہ نے اہل عرب کوممتاز کیا۔ ایسے لوگوں میں سے جب اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو چنا اور انہیں نبوت عطاء کی تو اس نے آپﷺکو قرآن مجید بطورِمعجزہ عطافرمایا جیسا کہ اللہ نے سابقہ انبیاء کو حالات کے مطابق معجزات سے نوازا تھا مثلاً۔ جب سمندری تحقیق کادور تھاتواللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو سمندر کے بیٹھنے، میدان تبہ میں پتھر سے میٹھے پانی کے جاری ہونے کے ساتھ ساتھ ، عصا اور ید وغیرہ کے معجزات سے نوازا۔جب طب کا زمانہ تھاتو اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کوزندہ کرنے،مٹی سے جاندار پرندے بنانے، مادر زاد اندھے کوبینا کرنے اور کوڑی کو صحت مند کرنے کے معجزات عطافرمائے اور جب ادب عروج پر تھا تو اللہ نے آپ کو ایسی کتاب عطافرمائی کہ جن وانس بھی اپنے تمام معاونین سمیت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہے۔ (تاویل مشکل الاثار،ص۱۶، الاعجاز والقراء ات از ڈاکٹر فتحی عبدالقادر فرید)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) آپﷺ کی تصدیق کرنا کہ آپ واقعی رسول اللہﷺ ہیں

جو کلام آپ ﷺپرنازل ہوئی تعدد قراء ات میں اس کے منزل من اللہ ہونے کے دلائل بھی موجود ہیں ، لیکن قرآن مجید تنوع قراء ات کے باوجود بھی تضاد اورتناقض سے بری ہے اورنہ ہی کوئی قراء ت کسی قراء ت کے مخالف ہے بلکہ ایک دوسرے کی تصدیق و تبیین کرتی ہیں مزید اس امر کی بھی وضاحت کرتی ہیں کہ ان کا اسلوب نگارش ایک ہے اور یہ ایک ہی نور کے پرتو ہیں۔یہ تمام عناصر اس بات کی زبردست دلیل ہیں کہ قرآن واقعی وحی ہے اور موحی اللہ (نبیﷺ) واقعتاً اللہ کے سچے رسول ہیں۔ (النشر: ۱؍۵۲)
 
Top